قسط نمبر (50) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 قریشِ مکہ کی صحابہ کرام کو حبشہ سے نکالنے کے لئے سفارتی کوشش

نجاشی کی بدولت مسلمان حبشہ میں امن وامان سے زندگی بسر کرنے لگے ۔قریش کو بھلا یہ بات  کب گوارہ تھی کہ مسلمان سُکھ اور چین کی زندگی بسر کرنے لگیں، قریش کے علم میں جب یہ بات آئی تو ان میں غیض  وغضب کی آگ اور بھی زیادہ شدت سے  بھڑک اٹھی‘ انھوں نے مشورہ کیا کہ اب کیا کیا جائے؟ طے پایا کہ نجاشی کے پاس سفیر بھیج کر درخواست کی جائے کہ وہ ان لوگوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کرے اور ہمارے حوالے کر دے۔ سفارت کے لیے دو خوب مضبوط اور تجربہ کار افراد کا انتخاب کیا جائے۔ نجاشی کو مکّہ کی سب سے قیمتی چیزیں بطور تحفہ بھیجی جائیں۔ اس کے ایک ایک مذہبی رہنما کے لیے بھی قیمتی  تحائف کا انتظام کیا جائے۔  

حبشہ والوں  کو مکہ مکرمہ کے چمڑے بہت پسند تھے چنانچہ بہت عمدہ  قسم کے چمڑے جمع کیے گئے۔ اس کے ساتھ نجاشی بادشاہ کے لیے ایک  عربی گھوڑا اور ریشمی عبایا ( کرتا)  کا انتظام کیا گیا ۔ حبشہ کے مذہبی رہنمماؤں اور بااثر درباریوں  کے لیے بھی  حسبِ مراتب  تحفوں کا انتظام کیا گیا۔ ان تحائف کے ساتھ عبداللہ بن ابوربیعہ اور عمرو بن العاص کو  ایک وفد کے ھمراہ سفارتی مہم پر روانہ کیا گیا ۔  

حبشہ پہنچ کر ارکانِ وفد نے سفارتی آداب کا خیال رکھتے ھوئے  ہر پادری اور درباری  تک اس کا تحفہ پہنچایا اور ان سے کہا کہ ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان بادشاہ کی مملکت میں بھاگ  کر آئے ھوئے ہیں‘  انہوں نے اپنا آبائی دین چھوڑ دیا ہے‘ آپ کا دین (عیسائیت) بھی قبول نہیں کیا ہے‘ بلکہ ایک نیا ہی دین ایجاد کر  لیا ھوا  ہے جس سے نہ تو ہم واقف ہیں نہ ھی آپ حضرات۔ ہمارے اشراف اور سرداروں نے ہمیں بادشاہ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ وہ انھیں اپنے ملک سے نکال دے اور ھمارے حوالے کر دے ۔ ھم  کل بادشاہ کے دربار میں حاضر ھوں گے لہذا جب بادشاہ سے ہماری بات ہو تو آپ حضرات ھماری حمایت کریں اور بادشاہ کو مشورہ دیں کہ وہ انھیں ہمارے حوالے کر دے اور اُن سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کی جائے اس لیے کہ اُن کے سردار اور ان کے بزرگ ان کے حالات سے زیادہ باخبر ہیں۔ ان پر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ حبشہ کے مذہبی رھنماؤں  اور دیگر درباریوں  نے چونکہ قیمتی تحفے وصول کر لیے تھے اس لئے اُنہوں نے وفد کے ارکان کی اس بات سے اتفاق کیا اور اُنہیں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا 

اگلے روز دونوں قریشی سفیروں نے براہِ راست نجاشی سے  اُس کے دربار میں ملاقات کی اور اُسے تحفے تحائف پیش کیے۔ نجاشی نے تحفے قبول کیے۔ سفیروں کا احترام کیا اور اپنی نشست کے دائیں بائیں دونوں سفیروں کو جگہ دی۔ سفیروں سے آمد کا مقصد دریافت کیا۔ انھوں نے وہی باتیں دہرائیں جو کہ پادریوں سے پہلی ھی فرداً فرداً کر چکے تھے  کہ ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان آپ کی مملکت میں بھاگ آئے ہیں‘ اپنی قوم کے دین کو ترک کر دیا ہے اور آپ کے دین کو بھی قبول نہیں کیا ہے‘ ایک نیا ہی دین اختیار کر رکھا ہے۔ ان کی قوم کے سرداروں ، اُن کے خاندانوں کے بزرگوں ،  ان کے باپوں اور چچاؤں  اور ان کا جن قبائل سے تعلق ہے‘ ان کے نمایاں افراد نے ہمیں آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ آپ انھیں ان کے وطن  واپس لوٹا دیں۔ سفیروں نے طے شدہ پروگرام کے مطابق نجاشی کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ اس مسئلے میں وہ ان مہاجرین سے کوئی بات نہ کرے‘ اس لیے کہ ان کی قوم ان کے غلط فکر عمل  سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ واقف ہے۔ سفیروں نے بادشاہ کو باور کروانے کی کوشش کی کہ یہ لوگ درآصل ھمارے مجرم ھیں  لہذا ہمارے مجرموں کو  ہمارے حوالے کیا جائے  ،حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں سفیروں کو یہ بات قطعاً پسند نہ تھی  کہ نجاشی سے مہاجرین کی  براہ راست گفتگو ہو۔ انھیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ اگر ان مہاجرین کی بادشاہ سے براہ راست گفتگو ھوئی تو عین ممکن ھے کہ نجاشی  ان کی گفتگو  سے متاثر  ھو جائے  ۔مجلس میں جو مذہبی رہنما موجود تھے انھوں نے بھی سفیروں کے اس خیال کی بھرپور تائید کی  اور بادشاہ سے کہا کہ ھمارا بھی یہی خیال ھے کہ مہاجرین سے گفتگو کی سرے سے کوئی ضرورت  نہیں ہے ۔ باقی درباریوں نے بھی بھرپور تائید کی۔ نجاشی نے  کہا کہ جن لوگوں نے میری پناہ پکڑی ھے اُنہیں بغیر  تحقیق کے اُن کے مخالفین کے سپرد نہیں کر سکتا   نجاشی نے مسلمانوں کو  دربار میں طلب کیا ۔نجاشی کا قاصد جب صحابہ کرام کے پاس پہنچا تو انہیں بہت پریشانی لاحق ھوئی ۔  معاملہ چونکہ بڑا نازک اور تشویش ناک تھا اسلئے تمام صحابہؓ نے باہم مشورہ کیا کہ نجاشی سے کس انداز سے بات کی جائے۔ بالآخر تمام صحابہؓ نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا:

واللّٰہ ماعلمنا،وما امرنا بہ نبینا کائنًا فی ذالک ماھوکائن 

’’اللہ کی قسم!ہم وہی کہیں گے جو ہمارے نبی (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) نے ہمیں تعلیم دی ہے اور جن باتوں کا آپؐ نے ہمیں حکم دیا ہے۔اس معاملہ میں جو ہوتا ہے ہوجائے‘‘۔

چنانچہ مسلمانوں نے اپنی طرف سے گفتگو کے لئے حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کاانتخاب کیا۔ مسلمان نجاشی کے دربار میں پہنچے تو نجاشی کے  دربار میں داخل ھونے  سے پہلے حضرت جعفرؓ نے باہر سے آواز دی کہ جعفر دروازے پر ہے۔ اس کے ساتھ حزب اللہ ہے‘ کیا حاضری کی اجازت ہے؟ نجاشی نے کہا: ہاں۔ تمھیں اللہ کی امان اور اس کی پناہ حاصل ہے‘ اندر آسکتے ہو۔ حضرت جعفرؓ داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے ان کے رفقاء  تھے‘ انہوں نے سلام کیا لیکن بادشاہ کو تعظیمی سجدہ نہیں کیا ۔  دربار میں جو  عیسائی علماء اور راہب موجود تھے‘ انھوں نے اس  پر شدید اعتراض کیا اور ان سے کہا کہ بادشاہ کو سجدہ کرو۔ حضرت جعفرؓ نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ (ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۱۲)

قریش کے سفیر عمرو بن العاص نے موقعہ غنیمت سمجھ  کر بادشاہ کو ورغلانے کی کوشش کی ۔ اُس نے کہا کہ ھم  تو آپ کو پہلے ھی بتا چکے ھیں کہ یہ بڑے متکبر اور نخوت بھرے لوگ ہیں۔ خود کو حزب اللہ کہتے ہیں لیکن ھر طرح کے آداب سے عاری ھیں ۔ جس طرح دوسرے لوگ آپ کی تعظیم بجا لاتے ہیں اس طرح انھوں نے تعظیم نہیں کی اور سجدۂ تعظیمی بھی نہیں کیا۔ نجاشی نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے اس کی وجہ دریافت کی تو حضرت جعفرؓ نے کہا کہ ہم  سجدہ صرف اللہ تعالیٰ کو  کرتے ہیں‘ اس کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے۔ ہمارے  رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ہمیں بتایا ہے کہ اہل جنت آپس میں سلام کریں گے۔ ہم بھی ایک دوسرے کو سلام ہی کرتے ہیں۔ چونکہ انجیل میں یہ بات موجود  تھی اس لیے نجاشی سمجھ گیا کہ یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ (حلبی‘ السیرۃ الحلبیہ: (


نجاشی اور حضرت جعفرؓ کے درمیان مکالمہ 

نجاشی:

تمھارا دین کیا ہے؟ کیا تم نصاریٰ ہو؟


حضرت جعفرؓ:

 نہیں۔


نجاشی:

 کیا تم یہود ہو؟


حضرت جعفرؓ: 

نہیں‘ ہم یہود نہیں ہیں۔


نجاشی

کیا تمھارا دین وہی ہے جو تمھاری قوم کا ہے؟


حضرت جعفرؓ:

 نہیں۔


نجاشی

آخر تمھارا دین کیا ہے ؟ اور اس کا لانے والا کون ہے؟ تم لوگوں  نے وہ کونسا نیا دین  ایجاد کر لیا ھے ؟ جو عیسائیت اور بت پرستی کے خلاف ھے 


 نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کا تاریخی اور دلسوز خطاب 

 نجاشی  بادشاہ کے سوالوں کا جواب دینے کے لئے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کھڑے ھوئے  اور نجاشی کو مخاطب  کرتے ہوئے فرمایا:

ایھا الملک! 

کنا قوما اہل جاہلیۃ، نعبد الاصنام، ونأکل المیتۃ، ونأتی الفواحش، ونقطع الارحام، ونسئی الجوار، ویأکل القوی منا الضعیف، فکنا علی ذالک حتی بعث اللّٰہ الینا رسولا منا نعرف نسبہ وصدقہ وامانتہ وعفافہ، فدعانا الی اللّٰہ لنوّحدہ ونعبدہ ونخلع ما کنا نعبد نحن وآباؤنا من دونہ من الحجارۃ والاوثان و أمرنا بصدق الحدیث وأداء الامانۃ، وصلۃ الرحم، وحسن الجوار، والکف عن المحارم والدماء، ونھانا عن الفواحش، وقول الزور، وأکل مال الیتیم، وقذف المحصنات، وأمرنا ان نعبداللّٰہ وحدہ لانشرک بہ شیئا، وأمرنا بالصلوٰۃ والزکوٰۃ والصیام، فصدّقناہ وآمنّا بہ

’’اے بادشاہ!ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے،بت پوجتے اور مردار کھاتے تھے،بد کاریاں کرتے تھے،ہمسائیوں کو ستاتے تھے ،بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا،قوی لوگ کمزور کوکھا جاتے تھے،اسی اثناء میں  اللہ تعالی نے ھماری طرف اپنا رسول بیجھا جس کی شرافت اور صدق ودیانت سے ہم لوگ پہلے سے واقف تھے۔ اس نے ہم کو اسلام کی دعوت دی اور یہ سکھلایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑدیں،سچ بولیں،خون ریزی سے باز آجائیں،یتیموں کا مال نہ کھائیں، ہمسائیوں کے ساتھ آچھا سلوک کریں عفیف عورتوں پربدنامی کا داغ نہ لگائیں،نماز پڑھیں،روزے رکھیں،زکوٰۃ دیں،پس ہم نے اس کی تصدیق کی اور اس پر ایمان لے آئے  اسی طرح حضرت جعفرؓ نے اسلام کے کام گنائے ، پھر کہا : ہم نے اس پیغمبر صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو سچا مانا ، اس پر ایمان لائے اور اس کے لائے ہوئے دینِ الٰہی میں اس کی پیروی کی۔ چنانچہ ہم نے صرف اللہ کی عبادت کی۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا اور جن باتوں کو اس پیغمبر صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے حرام بتایا انہیں حرام مانا اور جن کو حلال بتایا انہیں حلال جانا۔ اس پر ہماری قوم ہم سے بگڑ گئی۔ اس نے ہم پر ظلم وستم کیا اور ہمیں ہمارے دین سے پھیرنے کے لیے فتنے اور سزاؤں سے دوچار کیا۔ تاکہ ہم اللہ کی عبادت چھوڑ کر بُت پرستی کی طرف پلٹ جائیں اور جن گندی چیزوں کو حلال سمجھتے تھے انہیں پھر حلال سمجھنے لگیں۔ جب انہوں نے ہم پر بہت قہر وظلم کیا ، ھم پر ھمارے ھی وطن کی زمین تنگ کردی اور ہمارے درمیان اور ہمارے دین کے درمیان روک بن کر کھڑے ہوگئے  ہم ان کے مظالم  سے بہت تنگ آگئے تھے اور ہمارے لئے اپنے دین پر چلنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے اپنا  گھر بار اور وطن چھوڑا  اور آپ کی ہمسائیگی کو ہم نے سب سے زیادۃ ترجیح دی۔اور دوسروں پر آپ کو ترجیح دیتے ہوئے آپ کی پناہ میں رہنا پسند کیا اور یہ امید کی کہ اے بادشاہ ! آپ کے پاس ہم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔


نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی تلاوتِ قرآن 

حضرت جعفر کی  ایمان آفروز تقریر سن کر دربار میں سناٹا چھا گیا بادشاہ بے تاب ھو کر تخت سے نیچے اُتر گیا  اور  کہا! جو کلام الٰہی تمہارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  پر اترا ہے ،کہیں سے پڑھو۔حضرت جعفرؓنے سورہ مریم اور سورہ طہ  کی چند آیات تلاوت کیں،نجاشی پر رقت طاری ہوگئی یہاں تک کہ اس کی داڑھی  آنسوؤں سے تربتر ہوگئی ۔جب نجاشی کے پاس موجود علماء نے یہ کلام سنا تو وہ بھی اتنا روئے کہ ان کے صحیفے تک بھیگ گئے۔  یقیناً تلاوت قرآن سے دل متاثر ھوتے ھیں چنانچہ تلاوتِ قرآن سے متاثر ھونے کے متعلق ارشاد باری تعالی ھے 

وَ اِذَا سَمِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَی الرَّسُوۡلِ تَرٰۤی اَعۡیُنَہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ مِمَّا عَرَفُوۡا مِنَ الۡحَقِّ ۚ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاکۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰہِدینO  - سورہ المائدہ

۔ اور جب وہ رسول کی طرف نازل ہونے والے کلام کو سنتے ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ معرفت حق کی بدولت ان کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں، وہ کہتے ہیں: ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے ہیں پس ہمیں گواہی دینے والوں میں شامل فرما


 ۔تلاوت قرآن سن کر نجاشی بولا  اللہ کی قسم !یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی  روشنی کے چراغ  ہیں، یہ کہہ کر  نجاشی نے سفراء قریش سے کہا: تم واپس  چلے جاؤ۔میں ان مظلوموں کو ہرگز واپس نہ کروں  گا۔

بروایت سیرت ابی نعیم  قریش کے وفد میں موجود عمرو بن عاص اور عبد اللّہ بن ابی ربیعہ کو اس طرح بادشاہ کے دربار سے مایوس ہوکر جانا پڑا تو عمرو بن عاص کہنے لگا کہ کل میں بادشاہ کے سامنے ایسی بات کہوں گا جس سے یہ تمام مسلمان جو ہمارے ملک سے بھاگ کر آئے ہیں نیست و نابود ھو جائیں گے تو عبداللّہ بن ابی ربیعہ نے کہا کہ دیکھو تم ایسا ہرگز نہ کرنا۔ مانا کہ انھوں نے ہمارا دین چھوڑ دیا ہے مگر ہیں تو ہمارے رشتہ دار ہی، ہماری ان سے قرابتیں ہیں۔ اس لئے ھمیں ایسا نہیں کرنا چاھیے لیکن  لیکن عمرو نہ مانا ۔ 

دوسرے دن عمرو بن العاص نے پھر دربار میں رسائی حاصل کی اور نجاشی سے کہا : جنابِ والا !آپ کو یہ بھی معلوم ہے یہ لوگ حضرت عیسیٰ کی نسبت کیا اعتقاد رکھتے ہیں؟ نجاشی نے ایک بار پھر مسلمانوں کو بلا بھیجا کہ اس سوال کا جواب دیں۔مسلمانوں کو اب حقیقی فکر دامن گیر ہوئی کہ اگر حضرت عیسیٰ ؑ کے ابن اللہ ہونے سے انکار کرتے ہیں تو نجاشی عیسائی ہے ،وہ ناراض ہوگا۔تاہم صحابہ کرامؓ نے  متفقہ طور پر فیصلہ کیا:

نقول واللّٰہ ماقال اللّٰہ،وماجاء نا بہ نبینا‘

’’قسم خدا کی!ہم وہی کہیں گے جو اللہ کا حکم اور ھمارے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی تعلیم ہے‘‘۔

جب یہ لوگ نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے تو نجاشی نے کہا:تم لوگ حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم کے متعلق کیا اعتقاد رکھتے ہو؟ حضرت جعفرؓنے فرمایا:  ھم حضرت عیسی بن مریم  علیہ السلام  کے بارے وھی اعتقاد رکھتے ھیں جو ہمارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ہمیں بتایا ہے:

ھو عبداللّٰہ ورسولہ وروحہ وکلمتہ القاھا الی مریم العذراء البتول

’’عیسیٰ ؑ اللہ کے بندے ،رسول،اس کی روح اور کلمہ ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے کنواری اور پاکباز مریم کی طرف ڈال دیا‘‘۔

نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا :واللہ جو تم نے کہا عیسیٰ ؑ اس ایک تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ھیں دربار میں موجود عیسائی علماء نجاشی کے طرزِ عمل سے سخت برہم ہوئے  اور چخ چخ کرنے لگے۔ درباریوں نے بہت ناک بھوں چڑھایا مگر نجاشی نے ان کی ذرّہ برابر بھی پرواہ نہیں کی اور صاف کہہ دیا کہ تم جتنا مرضی ناک بھوں چڑھالو حقیقت تو یہی ہے۔ پھر مسلمانوں سے کہا کہ تم امن سے رہ سکتے ہو اور تمہیں یہاں پر کوئی تنگ نہیں کرے گا۔ اگر کسی نے ایسی کوشش کی تو اُسے تاوان دینا پڑے گا ۔ 

ابو موسیٰ اشعری رضی اللّہ عنہ روایت کرتے ھیں کہ نجاشی نے کہا مرحبا مرحبا تم کو اور ان کو بھی جن کے پاس سے تم آئے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اللّہ کے رسول ہیں اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اللّہ  وھی ہیں جن کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بشارت دی تھی۔ اگر یہ سلطنت کا کام نہ ہوتا تو ضرور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اللّہ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اللّہ کے جوتوں کا بوسہ لیتا۔ اور مسلمانوں سے کہا کہ تم جب تک چاہو میرے ملک  میں رہو۔ اورمسلمانوں کے کھانے پینے اور کپڑے کا انتظام بھی کردیا۔ بروایت طبرانی

نجاشی نے قریش کے تمام تحفے تحائف ان کو واپس کردیے اور ان سے کہا کہ مجھے تمہارے ان نذرانوں کی ضرورت نہیں ہے واللّہ میرے اللّہ نے میری ملک و سلطنت بغیر رشوت کے مجھے دلوائی ہے لہذا تم سے یہ رشوت لے کر میں ہرگز انکو تمہارے سپرد نہیں کروں گا۔ اس طرح  نجاشی کا دربار برخواست ہوا اور مسلمان نہایت شادانی اور فرحانی سے حبشہ میں رہنے لگے اور قریش کے وفد کی بہت ہی رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور  وہ  ناکامی اور شرمندگی کے ساتھ واپس ھوئے 


نجاشی کے دربار میں سفرائے قریش سے حضرت جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کے تین سوال 

عروہ بن زبیر رحمۃ اللّہ  کی روایت ہے کہ  حضرت جعفر رضی اللّہ عنہ نے نجاشی بادشاہ سے درخواست کی کہ وہ مکّہ مکرمہ سے آئے ھوئے وفد سے کچھ سوال کرنا چاہتے ہیں اور آپ ان سے جواب طلب فرمائیں

حضرت جعفر رضی اللّہ عنہ کا پہلا سوال :  

کیا ہم کسی کے غلام ہیں جو اپنے آقاؤں سے بھاگ کر آئے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہم سچ مچ اس لائق ہیں کہ ہمیں واپس کردیا جائے۔

نجاشی نے عمرو بن عاص سے مخاطب ہوکر کہا کہ

کیا یہ لوگ کسی کے غلام ہیں؟

عمرو بن عاص نے جواب دیا کہ

نہیں یہ تو بالکل  آزاد اور شریف لوگ ہیں۔

پھر حضرت جعفر رضی اللّہ عنہ نے دوسرا سوال کیا

کیا ہم کسی کا خون کرکے بھاگ کر آئے ہیں کہ ہم سے کوئی تاوان طلب کیا جائے یا ہمیں مقتول کے خاندان کے حوالے کیا جائے؟

نجاشی نے پھر عمرو بن عاص کی طرف یہ سوال دہرایا تو اس نے جواب دیا کہ

بالکل  نہیں یہ قاتل نہیں ہیں۔ انھوں نے خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہایا ہے ۔

تیسرا سوال حضرت جعفر رضی اللّہ عنہ نے یہ کیا کہ

کیا ہم کسی کا مال لے کر آئے ہیں؟ اگر بالفرض ہم کسی کا مال لے کر آئے ہیں تو ہم اسے واپس کرنے کو تیار ہیں۔

نجاشی نے یہ سوال بھی عمرو بن عاص سے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ:

واللّہ یہ تو کسی کا ایک قیراط بھی لے کر نہیں آئے۔

تو نجاشی نے قریش کے سفیر سے مخاطب ہوکر کہا کہ

پھر تم کس چیز کی بنا پر یہ مطالبہ کر رہے ہو کہ یہ لوگ وہاں سے بھاگ کر آئے ہیں ان کو تمھارے حوالے  کر دیا جائے 

تو عمرو بن عاص نے کہا کہ

ہم اور یہ ایک ہی دین پر تھے۔ ہم تو اس ہی دین پر قائم ہیں مگر ان لوگوں نے کوئی نیا دین اپنا لیا ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ ہمارے دین کو واپس اپنا لیں۔

نجاشی صحابہ کرام سے مخاطب ہوا اور کہا کہ

جس دین کو تم نے چھوڑا اور جس دین کو تم نے اختیار کیا، وہ کیا دین ہے؟

تو اس کے جواب میں پھر حضرت جعفر رضی اللّہ عنہ نے وہ تقریر کی جس کا  ذکر  پہلے گزر چکا ہے۔


حبشہ میں صحابہ کرامؓ  کا  اسلوبِ دعوت 

حبشہ میں صحابہ کرامؓ نے دعوتِ دین کے لئے جو اسلوب اختیار کیااس کی ایک ہلکی سی جھلک حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کی اس معرکۃ الآراء تقریر میں دیکھی جاسکتی ہے ۔حضرت جعفرؓنے اپنے مخاطب نجاشی اور دیگر امراء کے مقام ومرتبہ کا پوری طرح لحاظ رکھتے ہوئے اتنے مدلل،خوبصورت اور دلنشیں پیرائے میں اپنی دعوت کو پیش کیا کہ نہ صرف قریشی سفیر اپنے مشن میں مکمل طور پر ناکام ہوئے بلکہ سرزمینِ حبشہ میں مسلمانوں کے لئے حالات مزید سازگار ہوگئے۔حضرت جعفرؓکی حق وصداقت پر مبنی گفتگو سے نجاشی اور اس کے درباری اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔

حضرت جعفرؓ کی اس تقریر سے اس وقت تک کے نصابِ دعوت کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ھے یقیناًحبشہ میں مسلمان توحیدو رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے علاوہ ان ہی اخلاقی تعلیمات کی تبلیغ کرتے ہوں گے۔جن کا ذکر حضرت جعفرؓنے اپنی تقریر میں فرمایا۔حبشہ میں مسلمانوں کے اسلوبِ دعوت کا یہ پہلو بھی خصوصیت سے قابلِ ذکر ہے کہ مشکل ترین لمحات میں انہوں نے بنیادی عقائد پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا اور اس معاملہ میں بڑا واضح اور دو ٹوک مؤقف اختیار کیا۔مسلمانوں کے اسی اسلوبِ دعوت کی بنا پر نہ صرف نجاشی بلکہ کئی دیگر لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔مہاجرینِ حبشہ کی بدولت دعوتِ اسلام حبشہ میں اس قدر عام ہوئی کہ اس سے نہ صرف بادشاہ بلکہ اس کے درباری بھی متاثرہوئے۔ملکِ حبشہ کے عیسائیوں نے بھی اسلام کی تعلیمات سے آگاہی کی کوششیں شروع کردیں۔اس بات کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ وہاں سے بیس عیسائیوں کاایک وفد مکہ مکرمہ  آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے  ملا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ان کو اسلام کی دعوت دی اور ان کے سامنے قرآن کی آیات تلاوت کیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور وہ ایمان لے آئے۔


حبشہ میں مسلمانوں کی دعوتی سرگرمیاں

حبشہ میں مسلمانوں کی  دعوتی سرگرمیاں کس نوعیت کی تھیں؟ یہ تو معلوم کرنا مشکل ھے تاہم یہ طے شدہ بات ہے کہ صحابہ کرامؓ نے حبشہ کی پرامن فضا اور سازگار ماحول  سے بھرپور  استفادہ کیا ’’اب چونکہ تبلیغ کی آزادی تھی،اس لئے یہ مسلمان (مکے کے نومسلم مہاجر)حبشہ میں تبلیغ کرنے لگے۔نتیجہ یہ نکلا کہ چند سالوں میں وہاں کافی تعداد میں حبشی مسلمان ہوگئے‘‘۔نجاشی کا قبولِ اسلام اس حقیقت کی سب سے بڑی گواہی ہے کہ حبشہ میں مسلمانوں نے دعوتِ حق کو بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا تھا جب نجاشی کے انتقال کی  خبر مدینہ منورہ  پہنچی تو اس پر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی تو مہاجرین حبشہ میں سے کچھ لوگ فوراً واپس چلے آئے جبکہ جو لوگ وہاں رہ گئے تھے ان کو واپس لانے کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے عمروؓ بن امیہ الضمری کو ایک خط دے کر نجاشی کے پاس بھیجا۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے خط کے جواب میں نجاشی نے لکھا:

’’امابعد!فقد ارسلت الیک یارسول اللّٰہﷺ من کان عندی من اصحابک المہاجرین من مکۃالی بلادی،وہااناارسلت الیک ابنی اریحا فی ستین رجلاً من اہل الحبشۃ

اے اللہ کے رسول ! مہاجرین مکہ میں سے جو لوگ میرے پاس آئے تھے انہیں میں آپ کی طرف بھیج رہا ہوں اور میں آپ کی طرف اہلِ حبشہ میں سے بھی ساٹھ افراد کو اپنے بیٹے اریحا سمیت بھیج رہا ہوں‘‘۔

حبشہ میں مسلمانوں کی دعوتی سرگرمیوں کے حوالے سے یہاں پر ایک روایت کا ذکر  دلچسپی سے خالی نہ ہوگا جس سے واضح طور پر یہ اشارات ملتے ہیں کہ صرف مہاجر ین حبشہ ہی نہیں بلکہ دیگر حبشی مسلمان بھی قبول اسلام کے بعد دعوت کاکام کسی نہ کسی سطح پر کرتے رہے ہیں۔


سفیرِ قریش  عمرو بن العاص کا حبشہ میں قبولِ اسلام 

ابن ہشام کی روایت کے مطابق جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے عمروؓ بن امیہ الضمری کوم مہاجرین  حبشہ کو لانے کے لئے نجاشی کے پاس بھیجا تو اتفاق سے عمروؓ بن العاص،جو حبشہ آئے ہوئے تھے، نے عمرو بن امیہ کو نجاشی کے دربار سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا تو عمرو بن العاص فوراً نجاشی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: جو شخص ابھی ابھی آپ کے دربار سے نکل کر گیا ھےیہ ہمارے دشمن کا قاصد ہے آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اسے قتل کردوں۔ نجاشی یہ سن کر انتہائی غضبناک ہوا اور کہا:

أتسألنی ان أعطیک رسول رجل یأتیہ الناموس الاکبر الذی کان یاتی موسیٰ لتقلہ ! قال : قلت ! ایھا الملک ، أکذاک ھو ؟ قال : ویحک یاعمرو ! اطعنی واتبعہ ، فانہ واللّٰہ لعلی الحق ، ولیظھرن علی من خالفہ ،کما ظھر موسیٰ علی فرعون وجنودہ، قال ، قلت : افتبا یعنی لہ علی الاسلام؟ قال: نعم، فبسط یدہ، فبایعتہ علی الاسلام۔ 

کیاتم مجھ سے قتل کرنے کیلئے ایسے انسان کے قاصد کو حوالے کرنے کی درخواست کرتے ہو جس کے پاس وہی ناموس اکبر آتا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پرآتا تھا؟ اس پر عمرو بن العاص نے عرض کیا:اے بادشاہ!کیایہ معاملہ ہے؟نجاشی نے کہا :اے عمرو تیرا برا ہو!میری مان اور جاکر ان کی اتباع کرلو۔خدا کی قسم ! وہ بالکل حق پر ہیں،جس طرح موسیٰ ،فرعون اور اس کی افواج پر غالب آئے تھے ٹھیک اسی طرح یہ بھی ان تمام لوگوں پر غالب آئیں گے جو انکے مخالف ہیں۔( اب حق عمرو بن عاص پر واضح ہوچکا تھا)کہنے لگے!کیا آپ ان کی جانب سے اسلام پر میری بیعت لیں گے؟چنانچہ نجاشی نے ہاتھ آگے بڑھایا تو انہوں نے اس کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرلی۔ حضرت عمرو بن العاص  نجاشی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرکے واپس مکہ مکرمہ پلٹ گئے ۔ کچھ عرصہ تک اپنے اسلام کو پوشیدہ رکھا، تاہم فتح مکہ سے قبل بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں حاضر ہوکر اپنے اسلام کا اعلان فرمایا۔

اس روایت سے یہ بات بہرحال واضح ہوجاتی ہے کہ حبشہ میں فروغِ اسلام میں مہاجرین کی کوشش کے علاوہ نجاشی اور دیگر حبشی مسلمانوں کے اثر ورسوخ نے بھی نمایاں کردار ادا کیا اس لئے یہ کہنا بجا طور پر درست ہے کہ حبشہ میں مسلمانوں کی کل تعداد صرف وہی نہ تھی جو حضرت جعفرؓ کی معیت میں مدینہ حاضر ہوئے بلکہ یہ تعداد یقیناًاس سے کہیں زیادہ تھی اور کتنے ہی نومسلم وہ تھے جو اپنی مجبوریوں کے باعث مدینہ حاضری سے قاصر رہے۔

چنانچہ حضرت جعفرؓ بن ابی طالب ۷ھ فتح خیبر کے موقع پر باقی ماندہ مسلمانوں کے ساتھ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو اس وفد میں وہ حبشی مسلمان بھی شامل تھے جو مہاجرین حبشہ کی دعوت سے متاثر ہوکراسلام قبول کرچکے تھے اور اب رسول اللہؐ کی زیارت کاشرف حاصل کرنے کیلئے حاضر ہوئے تھے۔ان حبشی مسلمانوں میں سے بعض کے نام کتب رجال اور سیر کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔

حبشی مسلمانوں میں نجاشی کے بیٹے اریحا کے علاوہ اس کے دو بھتیجوں ذودجن اور ذومخبر کے نام بھی ملتے ہیں۔ ابنِ اثیر نے   “تذکرۂ ابرہہ”  میں  بھی آٹھ حبشی مسلمانوں کے نام گنوائے ہیں جو یہ ہیں بحیراؓ،ابرہہؓ،اشرفؓ،ادریسؓ،ایمنؓ،نافعؓ اور تمیمؓ اس کے علاوہ حضرت تمامؓ،دریدالراہبؓ،ذومہدمؓ ،ذو مناحبؓ اور عامرالشامیؓ کے نام بھی ملتے ہیں۔(واللہ عالم 


جاری ھے ۔۔۔۔۔

Share: