قسط نمبر (51) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 ہجرتِ حبشہ کی حکمتیں اور اس کے ثمرات 

اللہ تعالی کے راستے میں ھجرت کرنا ایک بہت بڑا عمل ھے جس کے بہت زیادہ فضائل حدیث کی کتابوں میں مذکور ھوئے ھیں۔   ھجرتِ حبشہ اسلام کی پہلی ھجرت تھی ۔ حبشہ  کی جانب اپنے گھر بار اور وطن چھوڑ کر ھجرت کرنا صحابہ کرام کی بہت بڑی قربانی تھی  ۔ ھجرتِ حبشہ میں مسلماانوں کے لئے بہت سی حکمتیں اور اسباق موجود ھیں  بعض مسلمانوں کے حبشہ  کی طرف ہجرت کر جانے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کے لیے دار الکفر میں رہ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا مشکل اور ناممکن  ہوجائے تو اس کو چاھیے کہ وہ کسی ایسی جگہ چلا جائے جہاں وہ آزادانہ طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکے۔ اسی طرح  اللہ تعالیٰ کے راستے میں جان، مال ، وقت  اور وطن وغیرہ  کی قربانی دینا بھی دین کے بنیادی اُمور میں شامل ہے کیونکہ اگر دین ہی  نہ رھا  تو جان ، مال یا وطن کا کیا فائدہ؟ یہ سب چیزیں تو  دین کے تابع ہیں۔ اگر خدانخواستہ دین ختم ہو جائے تو اس کے بعد یہ سب چیزیں بھی خود بخود نابود ہوجاتی ہیں۔ اگر دین پوری قوت کے ساتھ قائم  ہو، اس کی شان و شوکت بلند ہو ، معاشرے میں اس کے ماننے والے مضبوط و مستحکم ہوں اور دلوں میں اس کے عقیدے جاگزیں ہوں تو دین کے راستے میں جو چیز بھی صرف ہوجائے ، جان و مال ہو یا  وقت ھو یا زمین و وطن ھو ، وہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ قیمتی  بن جاتی ہے کیونکہ شرف، قوت اور بصیرت کے انوار اس کے محافظ بن جاتے ہیں بلکہ یہ سب چیزیں تو انسان کے پاس اللہ تعالی کی آمانت ھیں اور ان کا اللہ تعالی کے راستے میں لگ جانا انسان کے لئے عین سعادت کی بات ھے البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہجرتِ حبشہ بذاتِ خود  ظاھری طور ہر بہت سی تکالیف اور مصیبتوں  کا  مجموعہ تھی لیکن یہ سب جان ، وقت ،  مال و وطن کی قربانی دین  اور خالصتاً اللہ کی رضا کی خاطر دی گئی تھی ۔ یعنی اس میں کوئی دنیاوی طمع موجود نہیں تھی بلکہ یوں سمجھیں کہ بڑی مصیبت سے بچنے کے لیے ایک چھوٹی مصیبت اس وقت تک گوارا کرلی  گئی تھی جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے راستے نہیں کھل گئے اور اللہ تعالی اپنے راستے میں مجاہدہ کرنے والوں کے لئے راستے کھول ھی دیتے ھیں چنانچہ  ارشادِ باری تعالی ھے

وَالَّـذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّـهُـمْ سُبُلَنَا ۚ وَاِنَّ اللّـٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْن O 

اور جنہوں نے ہمارے لیے کوشش کی ہم انہیں ضرور اپنی راہیں سمجھا دیں گے، اور بے شک اللہ نیکو کاروں کے ساتھ ہے

یہاں یہ بات بھی  بالکل واضح  ھو جاتی ھے کہ مسلمانوں کے لیے ایسے پر آشوب حالات میں غیر مسلموں کی پناہ حاصل کرنا جائز ہے، چاہے وہ غیر مسلم اہل کتاب میں سے  ہوں جیسے نجاشی جو عیسائی تھے یا وہ مشرکیں میں سے  ہوں جیسے واپس آنے والے مسلمان بعض مشرک سرداروں کی پناہ لے کر مکہ مکرمہ  میں داخل ہوئے تھے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو حضرت ابو طالب کی پناہ اور حمایت حاصل تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے طائف سے واپسی کے وقت مطعم بن عدی کی پناہ حاصل کی تھی۔   ((فقه السّرة النبوية للبوطي 

عبیداللہ بن جحش  حبشہ جا کر عیسائی ھو گیا تھا اس کے مرتد ہوجانے میں بھی مسلمانوں کے لئے نصیحت و عبرت کا سامان موجود ہے۔ اس  میں کوئی شک نہیں کہ اس کا ارتداد مسلمانوں کے لیے شدید صدمے کا باعث  بنا تھا کیونکہ اس کا شمار پہلے حنفاء (موحدین) میں  ہوتا تھا، پھر وہ مسلمان ہوا اور اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت حبشہ کی لیکن وہاں جاکر عیسائی ہوگیا۔ وہ مسلمانوں سے کہا کرتاتھا : "ہمیں سب کچھ کھلی آنکھوں سے نظر آگیا تم آنکھیں جھپکتے ھی رہ گئے۔" ۔(( السيرة النبوية لابن هشام


حبشہ سے بیس عیسائی افراد کی رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری اور قبولِ اسلام 

اُس زمانے میں  گو دینِ عیسوی میں بہت تحریف ھو چکی تھی لیکن پھر بھی  ابھی لوگوں کی ایک خاصی تعداد ایسی  موجود تھی جو صحیح نصرانیت پر  ھی قائم  تھی یہ لوگ  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا نہیں مانتے تھے ان کا خود ساختہ “عقیدۂ تثلیث “ سے کوئی تعلق نہیں تھا وہ ایک  اللہ کو مانتے تھے اور حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بندہ اور رسول مانتے تھے گویا وہ صحیح عیسوی مذھب کے پیروکار تھے  اور وہ لوگ اس بات کے منتظر تھے کہ مسیح علیہ السلام کی پیشین گوئی کے مطابق وہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  جونہی اعلانِ نبوت فرمائیں یہ شروع ھی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم پر ایمان لے آئیں، مسلمانوں کی حبشہ آمد پر انہوں نے رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  کے بارے ان سے معلومات اکٹھی کیں۔  ان معلومات سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ارشادات کی تصدیق ھو رھی تھی  ۔ انھوں نے مسلمان مہاجرین  سے حضور آکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  کی تعلیمات کے بارے میں مفصل سوالات پوچھے ۔ قریش کے اہل ایمان پر ظلم و ستم کے واقعات سنے اور خود مسلمانوں کے کردار کا  باریک بینی سے مشاہدہ کیا۔ چنانچہ ان کا ایک گروہ، جس میں بیس اہل کتاب افراد شامل تھے، خود اپنی آنکھوں سے تمام احوال کا مشاہدہ کرنے اور اللہ کے آخری رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  سے ملاقات  کرنے کے لیے مکہ مکرمہ آیا۔ انھوں نے ایک مجلس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت سوالات کر کے اطمینان  حاصل کر لیا کہ یہ رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم)  ان علامات پر پورے اترتے ہیں جن کی تعلیم اب تک ان کو دی جاتی رہی تھی ۔ ان کے سوالات کے جواب دینے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع و محل کے مطابق ان کے سامنے قرآنی آیات کی تلاوت کی۔ اس کلام نے ان کے رہے سہے شکوک کا  بھی ازالہ کر دیا۔ ان کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں، کیونکہ حق ان پر آشکارا ہو چکا تھا۔ ان خوش نصیبوں نے قبولِ حق میں ذرا سی دیر بھی گوارا نہیں کی۔ انھوں نے حضور آکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم پر ایمان لائے۔ اس کے بعد یہ لوگ  واپس حبشہ روانہ ہو گئے، کیونکہ ان کا مقصود مکہ مکرمہ میں قیام کرنا نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ اسلام کی باقی تفصیلات انھوں نے ان مسلمانوں سے حاصل کی ہوں گی جو حبشہ کو ہجرت کر چکے تھے۔ یہ ہجرتِ حبشہ کا ایک ایسا ثمرہ تھا جس کا تصور بھی قریش نے نہ کیا ہو گا۔ اس کے بعد نجاشی کو بھی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خط لکھ کر اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہو گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس عادل حکمران کے حق میں دعا فرماتے رہے۔

کفار مکہ عیسائی گروہ کے اسلام قبول کرنے پر بے حد سیخ پا ہوئے۔ ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے غصے میں آ کر ان حق پرست لوگوں کو احمق قرار دے دیا کہ وہ  مکہ مکرمہ میں آئے تو تھے حقیقت حال کامشاہدہ کرنے،  اور بلا سوچے سمجھے اور ھم سے مشورہ کیے بغیر مسلمان ہو کر واپس  چلے گئے ۔

اس واقعہ نے قریش کو  بُری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اب   اُنہیں  یہ فکر دامن گیر ھوئی کہ اگر باھر سے لوگ  اسی  طرح یہاں آ  آ کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  سے متاثر ہوتے رہے تو وہ اس کا پیغام دوسرے قبائل تک بھی پہنچا دیں گے اور اگر یہ دعوت مکہ مکرمہ کے بیرون میں جڑ پکڑ گئی تو ان کے لیے مزید پریشانیاں پیدا کر سکتی ہے۔ لہٰذا انھوں نے بیرون مکہ سے آنے والوں پر بھی نظر رکھنا شروع کر دی اور اگر  باھر سے آنے والوں میں سے کوئی نبی  کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی کوشش کرتا تو یہ اُسے منع کرتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعوذ باللہ جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کرتے اور پوری کوشش کرتے کہ آنے والا شخص رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  تک پہنچ نہ پائے اگر ضرورت محسوس کرتے تو مار پیٹ  کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔


حضرت نجاشی کا قبولِ اسلام

        ابن اسحاق رحمة  اللہ علیہ نے اپنی ایک روایت میں بیان کیا ہے کہ جب حضرت نجاشی فوت ہوئے تو بتایا جاتا تھا  کہ ان کی قبر پر عرصۂ دراز تک نور نظر آتا رہا۔ ((السيرة النبوية لابن هشام: 

ایک روایت میں یہ بھی  ہے کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو ان کی قوم نے ان کے خلاف بغاوت کردی۔ انھوں نے باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنے سے پہلے مسلمانوں کے لیے بحری جہاز تیار کرادیے تاکہ اگر شکست ہو جائے  تو مسلمان ان پر سوار ہو کر عرب پہنچ جائیں۔ ایک تحریر بھی لکھی جس میں اس نے اپنے اسلام لانے کا اقرار کیا۔ یہ تحریر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  تک پہنچ گئی تھی۔ اس لیے جب وہ فوت ہوئے تو نبئ اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  نے ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ ((السيرة النبوية لابن هشام) بخاری و مسلم نے یہ روایت اپنی اپنی کتابوں میں نقل کی  ھے کہ جس دن نجاشی نے وفات  پائی تو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  نے ان کی وفات کا اعلان کیا اور فرمایا: "اپنے بھائی کے لیے دعائے مغفرت کرو۔"   امام بخاری اور امام مسلم رحمہم اللہ نے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  نے نجاشی کی وفات کی خبر اُسی دن دے دی تھی جس دن وہ فوت ہوئے تھے۔ 

 بعض روایتوں میں  اس نجاشی  کا نام اصحمہ  بتایا گیا ھے  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھائی تھی۔ بخاری و مسلم ہی کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم نے فرمایا:

(قَدْ تُوُفِّيَ الْيَوْمَ رَجُلٌ صَالِحٌ مِّنَ الْحَبَشِ، فَهَلُمَّ، فَصَلُّوا عَلَيْهِ) 

"آج حبشہ کا ایک نیک شخص چل بسا ھے ۔ آؤ اس کی نماز جنازہ پڑھو۔" 

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی کی موت کی اطلاع دینا درست ہے کیونکہ اس کا مقصد اس کے لیے دعائے مغفرت کرنا ہے، البتہ فخر و تکبر اور لوگوں کی کثرت اور اظہار و جاہت کے لیے اعلانات ممنوع ہیں۔ اسی طرح میت کے اوصاف بیان کرکے اعلان وفات کرنا بھی ممنوع ہے۔ (موطا امام مالک ) 

  یہ حدیث اس امر کی صراحت کرتی ہے کہ حضرت نجاشی کی وفات اسلام پر ہوئی تھی۔ حضرت نجاشی کے اسلام لانے کے بارے میں وارد شدہ روایات سے یہ بات بھی صاف طور پر ظاھر ھوتی ھے کہ انھوں نے اپنے اسلام کا اعلان حضرت جعفر رضی اللہ تعالی عنہ ، دیگر صحابہ کرام اور اپنے پادریوں کے سامنے ھی  کر دیا تھا۔ لیکن درباریوں  اور عام پادریوں نے دین کی اس تبدیلی کو قبول نہ کیا اور ان سے ناراض ہو کر عوام کو ان کے خلاف بھڑکایا جس سے ان کے خلاف بغاوت  کی صورت پیدا ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نجاشی کی مدد فرمائی اور بغیر کسی خون خرابہ کے بغاوت ختم ہوگئی ، 


نجاشی کی عوامی بغاوت پر قابو پانے کے لئے سیاسی چال 

رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  کا ارشاد ہے: اَلْحَرْبُ خُدْعَةٌ 

کافر کو جنگ میں دھوکہ دیا جاسکتا ھے 

اپنی بادشاھی کے خلاف  بغاوت کو حضرت نجاشی نے کیسے کنٹرول کیا اس کے متعلق واقعہ یوں بیان کیا جاتا ھے ہے کہ" نجاشی نے ایک تحریر لکھی جس میں توحید کا اقرار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  کی نبوت اور رسالت کا  کھلے الفاظ میں اعتراف تھا۔ یہ گواہی بھی لکھی گئی تھی کہ حضرت عیسیٰ اللہ کے بندے ، اس کے رسول ، اس کی بیجھی ہوئی روح اور اس کا وہ کلمہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کی طرف القا کیا تھا، پھر نجاشی نے یہ تحریر لباس سے اوپر پہنے جانی والی قبا کی اندرونی جانب اپنے دائیں کندھے کے قریب رکھ لی، پھر وہ عوام کی طرف نکلے جو پہلے ہی صفیں باندھے کھڑے تھے۔ نجاشی کہنے لگے: "اے حبشہ کے عوام! کیا میں سب لوگوں سے بڑھ کر تم ہر حق نہیں رکھتا؟" وہ کہنے لگے: "ضرور ۔" نجاشی نے کہا: "تم سے میرا سلوک کیسا رہا؟" انھوں نے کہا: "بہترین۔"  نجاشی نے کہا: "تو پھر کیا وجہ ہے کہ تم  میرے خلاف بغاوت پر تُلے ہوئے ہو؟" وہ کہنے لگے: "آپ نے ہمارا دین چھوڑ دیا ہےاور کہنا شروع کردیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اللہ کے بندے اور رسول  ہیں۔" نجاشی نے کہا: "تم عیسیٰ علیہ السّلام کے بارے میں کیا کہتے ہو؟" وہ کہنے لگے: "وہ اللہ کے بیٹے ہیں۔" نجاشی نے اپنا ہاتھ قبا پر اس  تحریر والی جگہ پر رکھا اور کہا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السّلام اس سے کم و بیش نہیں تھے۔" نجاشی کا اپنا مقصد یہ تھا کہ اس تحریر سے کم و بیش نہیں تھے جس پر انھوں نے ہاتھ رکھا ہے۔ عوام نے سمجھا کہ وہ ہمارے عقیدے کی بات کر رہے ہیں۔ اس لیے عوام خوش ہوگئےاور اپنے اپنے گھروں  کو چلے گئے ۔ اس طرح حضرت نجاشی نے اس  سیاسی چال کے ذریعہ مشتعل عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کر دیا ۔ اس واقعے کی پوری تفصیل رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم کو بھی پہنچا دی گئی تھی ۔  جب حضرت نجاشی فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم نے ان کا  غائبانہ نمازِ جنازہ  بھی پڑھی اور ان کے لیے بخشش کی دعا بھی فرمائی۔    ((صحيح البخاری)


نجاشی کی غائبانہ نمازِ جنازہ

امام بخاری  رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں جس دن نجاشی فوت ہوا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی موت کی خبر دی‘ آپ عیدگاہ کی طرف گئے مسلمانوں نے صفیں باندھیں اور آپ نے چار تکبیریں پڑھیں۔ 

امام شافعی  رحمہ اللہ فرماتے ھیں  کہ نجاشی کافر قوم کے درمیان تھا وہ مسلمان تھا اور مصلحتاً کافروں سے اپنا ایمان چھپاتا تھا‘ اور جس جگہ وہ تھا وہاں اس کی نماز جنازہ پڑھ کر اس کا حق ادا کرنے والا کوئی نہ تھا اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بحکمِ ربی اس کی نماز جنازہ پڑھنے کا اہتمام کیا

علامہ کمال الدین محمد بن عبد الواحید المعروف بابن الھمام لکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نجاشی کی نماز جنازہ اس لیے پڑھی تھی کہ آپ کے سامنے اس کا جنازہ  لایا گیا تھا حتی کہ آپ نے اس کو دیکھ لیا تھا، سو یہ اس میت پر نماز تھی جس کو امام دیکھ رہا تھا اور اس کا جنازہ امام کے سامنے تھا اور مقتدیوں کے سامنے نہیں تھا اور یہ اقتداء سے مانع نہیں ہے  اس کی تائید  اور بھی کئی روایات سے ھوتی ھے 


مہاجرین کی  حبشہ سے واپسی

مہاجرین کی حبشہ سے واپسی تدریجی صورت میں تھی. جو لوگ پہلی ہجرت سے واپس لوٹے تھے وہ مکہ مکرمہ  میں رکے اور وہاں سے مسلمانوں کے ہمراہ مدینہ منورہ  کی طرف ہجرت کر گئے. اور کچھ غزوۂ خیبر سے پہلے اور باقی فتحِ خیبر کے بعد مدینہ منورہ  کی طرف لوٹ گئے. رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  نے عمروبن امیہ ضمری  رضی اللہ تعالی عنہ کو نجاشی کے پاس بھیجا تا کہ وہ مہاجرین کی واپسی کے اسباب مہیا کرے.حبشہ کا آخری مہاجر گروہ  فتح خیبر کے وقت ساتویں سال واپس آیا اسی طرح آخری  آنے والے مہاجروں میں آسماء  بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا  اور عبداللہ بن جعفر ،   ان کے بھائی محمد اور عون  رضی اللہ تعالی عنہم بھی تھے. جب  حضرت جعفر رضی اللی عنہ رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم کے پاس آئے ، تو رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  کو بہت خوشی ھوئی آپ  رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ  وسلم  نے ان کی دو آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا سمجھ  میں نہیں آ رھا کہ میں  کس خوشی پر شاد اور خوش ہوں ۔ فتح خیبر پر یا جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کی واپسی پر.


 حبشہ میں وفات  پانے  والے مہاجرین 

مہاجرین میں سے آٹھ افراد حبشہ میں ہی دنیا سے چلے گئے اور انہیں وہیں پر دفن کیا گیا ۔ ان کے نام مندرجہ ذیل  ھیں :- 

١-عبید اللہ بن جحش جو کہ بنی عبد شمس سے تعلق رکھتا تھا. وہ وہاں پر جا کر مسیحیت مذہب میں داخل ہو گیا اور مرتد ھو کر وہیں پر فوت ھو گیا ،

   ٢- عمر بن امیہ بن حارث  رضی اللہ تعالی عنہ،  ان کا تعلق بنی اسد سے تھا 

۳- حاطب بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ، ان کا تعلق  بنی جمع سے تھا

  ۴- حطاب بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ ، ان کا تعلق بنی جمع سے تھے

 ۵- عبداللہ بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ ، ان کا تعلق بنی سہم سے تھا، 

۶-عروہ بن عبدالعزی رضی اللہ تعالی عنہ ، ان کا تعلق عدی  سے تھا 

۷- عدی بن نضلہ رضی اللہ تعالی عنہ، ان کا تعلق عدی سے تھا

۸- موسی بن حارث بن خالد رضی اللہ تعالی عنہ، ان کا تعلق بنی تیم سے تھا 

جاری ھے ۔۔۔۔۔


Share: