قسط نمبر (52) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

شعبِ ابی طالب


 شعب ابی طالب  کعبة اللہ کے قریب ایک پہاڑ کی گھاٹی کا نام ہے۔ جہاں سات نبوی بمطابق ستمبر 615ء میں حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اور خاندان بنو ہاشم کو پناہ لینی پڑی تھی ۔ یہ نتیجہ تھا اس ظالمانہ منصوبے کا جو قریش مکہ نے اسلام کی دعوت اور اس کی آواز کو دبانے کے لیے بنایا تھا

مکہ کے ارد گرد پہاڑ ہیں۔ شعب عربی زبان میں گھاٹی کو کہتے ہیں۔دو اونچے پہاڑوں کے درمیان جو راستہ یا تنگ میدان ہوتا ہے وہ گھاٹی کہلاتا ہے۔عرب کے دستور کے مطابق یہ گھاٹیاں قبیلوں کی ملکیت ہوتی تھیں۔ان ہی میں سے ایک گھاٹی حضرت ابوطالب کو ورثہ میں ملی تھی۔جو شعب ابی طالب کے نام سے مشہور تھی


  شعبِ ابی طالب کا جغرافیائی محلِ وقوع

شعب  ابی طالب مسجد الحرام کے قریب صفا اور مروہ کی پشت پر اور کوہ ابو قبیس اور کوہ خندمہ کے دہانے میں واقع ایک گھاٹی  تھی  جہاں خاندان بنی ہاشم اور بنو عبدالمطلب زندگی کے ایام بسر کرتے رہے تھے 

گھاٹی کو عربی میں شعب کہتے ہیں، کوہ ابو قبیس میں کئی گھاٹیاں تھیں، جیسے شعب المطلب، شعب بنی ہاشم، شعب بنی اسد، شعب بنی عامر، شعب بنی کنانہ وغیرہ، شعب ابی طالب جو پہلے شعب بنی ہاشم اور شعب عبدالمطلب کے نام سے مشہور رھی ھے ، بنی ھاشم  کی موروثی ملکیت تھی، اس وقت بنی ہاشم کے سردار ابو طالب تھے، اس لئے یہ گھاٹی ان ہی کے نام سے شعب ابی طالب کہلانے لگی، 

بعض لوگوں نے غلطی سے “قبرستان حجون  “جہاں ابو طالب کا مدفن ہے، کو شعب ابی طالب سمجھا ہے جو کہ صحیح نہیں ھے کیونکہ  اس مقام پر ابتداء ہی سے اہل مکہ کا قبرستان تھا جو شہر سے باہر آبادی سے بالکل الگ  تھلگ تھا۔


شعبِ ابی طالب  کی موجودہ حالت

آج کل شعب ابی طالب مکہ کے بازار "سوق اللیل" کے مقابل ایک بستی ہے جو اطراف کی تین گھاٹیوں کے درمیان ہے، اسے “محلۂ ہاشمی “ بھی  کہتے ہیں، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، مولد علی رضی اللہ عنہ اور دارِ خدیجہ رضی اللہ عنہا اس شعب میں واقع ہیں، اسے شعب  مولد یا شعب علی رضی اللہ عنہ یا شعب بنی ہاشم کہا جاتا ہے

زائرین جب مسجد الحرام سے باہر نکلتے ھیں  اور باب العباس، باب العلی یا باب السلام سے باہر آتے ھیں تو مسعی سے گذر کر  ایک وسیع احاطے میں پہنچتے ھیں جو کوہ ابو قبیس کے نیچے واقع ھے یہ اب حرم کے صحن کا حصہ ھے جہاں رمضان المبارک  میں زائرین کے لئے آفطاری کا وسیع انتظام ھوتا ھے  اب شعب ابی طالب کے محلے کا کچھ حصہ باقی ہے جو “سوق اللیل” کہلاتا ہے اور پہاڑی کے اوپر واقع  ہے۔ مسعی کے بالمقابل پہاڑ پر بنائے گئے گھروں کو “محلۂ سوق اللیل” کہا جاتا ہے، شعب ابی طالب میں واقع تاریخی گھر اور مقامات مختلف توسیعی منصوبوں کے تحت مسجد الحرام  کے احاطے میں شامل ھو چکے ھیں


شعبِ ابی طالب  کی مذھبی اور تاریخی حیثیت

قصی بن کلاب  رسول کریم   صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے آباء وآجداد میں ایک نامور شخصیت  گزرے ھیں ۔  وہ جب مکہ مکرمہ کے حاکم  بنائے گئے تو  اُنہوں نے  بہت سی اصلاحات کیں ۔ انہوں نے قریش کے ہر خاندان کو اس شہر کے ایک محلے میں بسایا۔ انہوں نے کعبہ کے سامنے واقع حصے کو جو شعب ابی طالب پر مشتمل تھا اور مکہ مکرمہ کے معلاۃ کی سمت واقع تھا، اپنے خاندان، عبد مناف اور عبد الدار کی اولاد کے لئے پسند کیا۔ یہ شعب کعبہ کے ساتھ کم فاصلے کی وجہ سے مکہ مکرمہ  کا بہترین  علاقہ سمجھا جاتا تھا۔ شعب ابی طالب کی زمین کے موروثی  مالک  رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دادا عبدالمطلب تھے اور انہوں نے اپنی حیات کے آخر دنوں میں جب ان کی آنکھوں کی بینائی  بہت  زیادہ کمزور ہو چکی تھی۔ اس کو اپنے فرزندوں کے درمیان تقسیم  کر دیا تھا  اور رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو آپ کے والد ماجد حضرت  عبداللہ کا حصہ دیا تھا

بنو ہاشم کے نمایاں افراد اسی شعب (گھاٹی) میں پیدا ہوئے ہیں اور یہیں زندگی بسر کر چکے ہیں۔ شعب ابی طالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا  مقامِ مولد ہے۔اسی بنا پر یہ “شعب مولد" کے نام سے بھی مشہور ہے۔ نیز شعب ابی طالب  میں ام المؤمنین حضرت خدیجةً  الکبری  رضی اللہ تعالی عنہا  کا گھر بھی تھا اور انھوں نے اسی مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ  اپنی ازدواجی زندگی گذاری  تھی اور  دخترِ رسول حضرت فاطمۂ زہراء  رضی اللہ تعالی  عنہا  کی ولادت بھی اسی  مبارک گھر میں ہوئی تھی 


بنی ھاشم  اور بنی مطلب شعب ابی طالب میں 

جب  قریش نے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ ہماری تمام تر مزاحمت اور تشدد کے باوجود اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور انھوں نے مسلمانوں کے قلع قمع کے لیے جو مختلف حربے اختیار کیے تھے ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور خاص طور پر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ  اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد تو سارے حربے بےکار ہوگئے تو انھوں نے ایک نیا اور مؤثر حربہ اختیار کرنے کا پروگرام بنایا ۔ یہ نیا حربہ سابقہ تمام ہتھکنڈوں سے زیادہ سخت اور ظالمانہ تھا۔ اور یہ تھا رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو قتل کرنے کا منصوبہ۔  اس مکروہ منصوبہ پر پوری طرح  عمل درآمد کرنے کے لئے تمام قریشی سردار (جن میں رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا حقیقی چچا ابو لہب بھی شامل تھا)  متفق تھے کویا یہ اُن کا متفقہ فیصلہ تھا ۔ 

ابن اسحاق، موسیٰ بن عقبہ، عروہ بن زبیر، ابن سعد اور دیگر مؤرخین کا  اس پر اتفاق  ہے: "جب  مشرکینِ قریش نے دیکھا کہ صحابہ کرام حبشہ کی سرزمین پر امن و امان سے رہنے لگے ہیں۔ادھر مکہ میں حضرت ہمزہ رضی اللہ تعالی عنہ  اور حضرت عمر  فاروق رضی اللہ تعالی عنہ جیسے دلیر جنگجو مسلمان ہوچکے ہیں اور اسلام تمام قبائل میں پھیل چکا ہے اور مزید پھیلتا جا رھا ھے تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ آخری چارۂ کار کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو شہید کردیا جائے۔ جب اس بات کی سن گن  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے چچا حضرت ابو طالب کو ہوئی  تو اُنہیں بہت تشویش ھوئی ابو طالب ماضی کے واقعات پر پہلے ھی فکرمند رھتے تھے اب جب انہوں نے گزرے ھوئے واقعات کا جائزہ لینا شروع کیا  تو انہیں ایک ایسے سنگین خطرے کی بو محسوس ہوئی  جس سے انکا دل کانپ اٹھا ۔ انہیں اب یقین ہو چکا تھا کہ مشرکینِ قریش  ان کے ساتھ کیا ھوا عہد توڑنے اور انکے بھتیجے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا قتل کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔اور ان حالات میں خدانخواستہ اگر کوئی مشرک اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ھو گیا  تو  حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ  یا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ  یا کوئی اور شخص کیا کام دے سکے گا۔ حضرت ابو طالب کے نزدیک یہ بات بالکل یقینی تھی اور بہر حال  یہ صحیح بھی تھی۔ کیونکہ مشرکینِ قریش اعلانیہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا مصمم فیصلہ کر چکے تھے۔ اور انکے اسی فیصلے کی طرف اللہ تعالیٰ کے اس قول میں اشارہ ہے:

{أَمْ أَبْرَمُوا أَمْرًا فَإِنَّا مُبْرِمُونَ} (الزخرف)

’’اگر انہوں نے ایک بات کا تہیّہ کر رکھا ہے تو ہم بھی تہیّہ کئے ہوئے ہیں۔‘‘ 

اب سوال یہ تھا کہ  ان حالات میں رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی حفاظت کے لئے  کیا کرنا چاہیئے ؟ حضرت ابو طالب  نے جب دیکھا کہ مشرکینِ قریش ہر جانب سے انکے بھتیجے  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی مخالفت  اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے قتل کرنے پر  پوری طرح تل پڑے ہیں تو انہوں نے اپنے جدّ اعلیٰ عبدمناف کے دو صاحبزادوں ہاشم اور مطّلب سے وجود میں آنے والے خاندانوں کو ایک جگہ جمع کیا اور انہیں  صورت حال سے تفصیلاً آگاہ کیا کہ اب تک وہ اپنے بھتیجے کی حفاظت و حمایت کا کام تنہا انجام دیتے آ رہے ہیں لیکن موجودہ صورت حال میں اب یہ بہت مشکل بلکہ شاید ناممکن ھو گیا ھے لہذا ان حالات میں ضروری ھے کہ رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی حفاظت کی ذمہ داری تمام بنی ھاشم اور بنی مطلب اب مل  جل کر انجام دیں۔ اُن دنوں قبائلی نظام بہت مضبوط تھا ھر قبیلہ اپنے کسی بھی فرد کی حفاظت کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا یہی وجہ تھی کہ ابو طالب کی یہ بات عربی حمیّت کے پیش نظر ان دونوں خاندانوں کے سارے مسلم اور کافر افراد نے دل و جان سے قبول کی۔البتہ صرف ابو طالب کا حقیقی  بھائی ابو لہب ایک ایسا فرد تھا جس نے اسے منظور نہ کیا اور سارے خاندان سے الگ ہو کر مشرکین سے جا ملا اور انکا ساتھ دیا ۔ بنی ہاشم و بنی مطلب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو اپنی شعب (گھاٹی) یعنی شعبِ ابی طالب  میں پہنچا دیا اور  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی حفاظت کا مناسب انتظام کر دیا ۔ اس طرح قتل کا پروگرام بنانے والوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو محفوظ کردیا۔ اس کام میں دونوں قبیلوں کے کفار بھی اس دور کے قبائلی عصبیت و حمیت کی بنا پر پوری طرح شریک تھے۔


مقاطعۂ بنی ھاشم و بنی مطلب 

تمام  حالات کو دیکھتے ھوئے سرداران قریش اور مکہ کے دوسرے کفار نے ایک اور اسکیم بنائی کہ حضور آکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کا مکمل  سوشل بائیکاٹ کر دیا جائے اور ان لوگوں کو عملی طور ہر شعب ابی طالب میں ھی  محصور کر کے ان کا دانہ پانی بند کر دیا جائے تا کہ یہ لوگ مکمل طور پر تباہ و برباد ہو جائیں اور رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو قتل کرنے کے لئے ھمارے حوالے کرنے پر آمادہ ھو جائیں چنانچہ اس خوفناک تجویز کے مطابق تمام قبائل قریش نے آپس میں یہ معاہدہ طے کیا کہ جب تک بنی ہاشم کے خاندان والے حضور آکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو قتل کے لئے ہمارے حوالہ نہ کر دیں ان کا سوشل بائیکاٹ جاری رکھا جائے معاہدہ میں مندرجہ ذیل اُمور طے کیے گئے:-


1: کوئی شخص  قبیلۂ بنو ہاشم اور  قبیلۂ بنو مطلب کے خاندان سے شادی بیاہ نہ کرے۔

2: کوئی شخص ان لوگوں کے ہاتھ کسی قسم کے سامان کی خرید و فروخت نہ کرے۔

3: کوئی شخص ان لوگوں سے کسی قسم کا کوئی میل جول، سلام و کلام اور ملاقات و بات چیت نہ کرے۔

4: کوئی شخص ان لوگوں کے پاس کھانے پینے کا کوئی سامان نہ جانے دے۔


منصور بن عکرمہ نے اس  ظالمانہ اور سفاکانہ معاہدے کا صحیفہ لکھا اور تمام سرداران قریش نے اس پر دستخط کر کے اس دستاویز کو کعبہ کے اندر آویزاں کر دیا۔  اُس زمانہ میں کسی اعلان کی تشہیر کا یہی طریقہ کار رائج   تھا ۔


صحیفۂ ظالمہ کے کاتب کو دنیا میں عبرتباک سزا

ابن اسحاق کی روایت کے مطابق قریشِ مکہ کے اس معاہدہ کی تحریر کو لکھنے والے کا نام منصور بن عکرمہ تھا جس نے اس ظالمانہ اور سفاکانہ معاہدے کو  قلم بند کیا تھا ۔  اس کے ساتھ یہ معاملہ ہوا کہ منجانب اللّہ اس کو دنیا میں ہی اس کی سزا مل گئی کہ اس کی انگلیاں  بالکل شل ہوگئیں اور اس کا ہاتھ ہمیشہ کے لئے لکھنے کے لئے بیکار  ھو گیا بعض روایات کے مطابق رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس کے خلاف بد دعا  کی تھی جس کے نتیجے میں اس کی انگلیاں  ھمیشہ کے لئے شل ہوگئیں۔ 

بعض مؤرخین نےکاتب کا نام نضر بن حارث یا طلحہ بن ابی طلحہ بھی لکھا ہے۔((السہیلی کا کہنا ہے کہ قریش کے ماہرینِ نسب کہتے ہیں:  "دستاویز لکھنے والے کا نام بغیض بن عامر بن ہاشم بن عبدالدار تھا ہے دوسرا قول یہ ہے کہ دستاویز لکھنے والا منصور بن عبد شرحبیل بن ہشام تھا جس کا تعلق بنی عبد الدار سے  تھا بہرحال کاتب جو بھی تھا اسے اللہ پاک نے دنیا میں ھی عبرت کا نشان بنا دیا 


جاری ھے۔۔۔۔۔

Share: