قریش کا وفد آخری مرتبہ ابو طالب کی خدمت میں
تین سال تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خاندان اور رفقاء کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصوری کی حالت میں گزارے۔ یہ زمانہ بہت تکالیف اور مصیبتوں کا تھا۔ احتیاطی تقاضوں کے ساتھ گو جتنا ممکن ھو سکتا تھا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے دعوت الی اللہ کا کام اس حالت میں بھی جاری رکھا ھوا تھا جو زیادہ تر آیام حج میں ھی ممکن ھوتا تھا جب مقاطعہ ختم ھو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعد پھر حسب معمول دعوت و تبلیغ کا کام پوری آزادی اور تندھی سے شروع کر دیا اور اب مشرکینِ قریش نے اگرچہ بائیکاٹ تو ختم کردیا تھا لیکن وہ ابھی بھی حسب سابق مسلمانوں پر دباؤ ڈالنے اور انہیں اللہ تعالی کے راستے سے روکنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔اور جہاں تک حضرت ابو طالب کا تعلق تھا تو وہ بھی اپنی دیرینہ روایت کے مطابق پوری توجہ اور جاں نثاری کے ساتھ اپنے بھتیجے حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی حمایت و حفاظت میں لگے ہوئے تھے لیکن اب ابو طالب بڑھاپے میں قدم رکھ چکے تھے ان کی عمر اسی سال سے تجاوز کر چکی تھی۔ کئی سال سے پے درپے سنگین آلام و حوادث نے اور خصوصاً شعب ابی طالب کی محصوری اور تکالیف نے انہیں بُری طرح توڑ کر رکھ دیا تھا۔انکے قویٰ مضمحل ہو گئے تھے اور بڑھاپے اور خرابئ صحت کی وجہ سے جسمانی طاقت و قوت جواب دے چکی تھی ۔ ،چنانچہ گھاٹی سے نکلنے کے بعد ان کی طبیعت مسلسل خراب رھنا شروع ھو گئی تھی ۔ محصوری سے نکلے ھوئے ابھی چند ھی مہینے گزرے تھے کہ وہ ایک سخت قسم کی بیماری میں مبتلا ھو گئے ۔ مشرکینِ مکہ نے سوچا اگر حضرت ابو طالب کا انتقال ہو گیا جیسا کہ ان کی صحت سے ظاھر ھو رھا ھے اور ان کی موت کے بعد اگر ہم نے ان کے بھتیجے حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر ھاتھ ڈالا تو یہ بڑی بدنامی کی بات ہوگی ۔ لوگ یہی کہیں گے چونکہ اب ابو طالب نہیں رھے اس لئے انہوں نے ان کے بھتیجے پر زیادتی کرنا شروع کر دی ھے اس لئے بہتر یہ ھے کہ ابوطالب کی زندگی میں ہی ھمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معاملہ طے کر لینا چاہیے۔اس سلسلے میں قریش بعض ایسی رعایتیں بھی دینے کو تیار ہو گئے تھے جس پر پہلے کھبی راضی نہ تھے۔چنانچہ سردارانِ قریش کا ایک وفد ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ قریش کا حضرت ابو طالب کی خدمت میں آنے والا آخری وفد تھا کیونکہ اس کے کچھ عرصہ بعد ھی حضرت ابو طالب کا انتقال ھو گیا تھا۔
ابن اسحٰق وغیرہ کا بیان ہے کہ جب ابو طالب بیمار پر گئے اور قریش کو معلوم ہوا کہ ان کی حالت غیر ہوتی جا رہی ہے تو انہوں نے آپس میں کہا کہ دیکھو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اب مسلمان ہو چکے ہیں اور محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین قریش کے ہر قبیلے میں پھیل رھا ہے اس لئے چلو ابو طالب کے پاس چلیں کہ وہ اپنے بھتیجے کو کسی بات کا پابند کریں اور ہم سے بھی انکے متعلق عہد لے لیں کیونکہ واللہ ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر یہ بڑے میاں مر گئے اور محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ پھر کوئی گڑبڑ ہو گئی تو عرب ہمیں طعنہ دینگے اور کہیں گے کہ انہوں نے محمّد( صلی اللہ علیہ وسلم) کو چھوڑے رکھا (اور اس کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت نہ کی) لیکن جب اسکا چچا مر گیا تو اس پر چڑھ دوڑے۔ بہرحال قریش کا یہ وفد ابو طالب کے پاس پہنچا اور ان سے گفت و شنید کی۔ وفد کے ارکان قریش کے معزّز ترین افراد تھے یعنی عُتبہ بن ربیعہ،شیبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام، امیّہ بن خلف،ابو سفیان بن حرب اور دیگر اشراف قریش جن کی کل تعداد تقریبا پچیس تھی۔ انہوں نے کہا: ’’اے ابو طالب! ہمارے درمیان آپ کا جو مرتبہ و مقام ہے اسے آپ بخوبی جانتے ہیں اور اب آپ جس حالت سے گزر رہے ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ آپ کے آخری ایام ہیں،ادھر ہمارے اور آپ کے بھتیجے حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے درمیان جو معاملہ چل رہا ہے اس سے بھی آپ بخوبی واقف ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ انہیں یہاں بلائیں اور انکے بارے میں ہم سے کچھ عہدو پیمان لیں اور ہمارے بارے میں ان سے عہدو پیمان لیں یعنی وہ ہم سے اعراض نہ کریں اور ہم ان سے دستکش رہیں،وہ ہم کو ہمارے دین پر چھوڑ دیں اور ہم ان کو انکے دین پر چھوڑ دیں۔‘‘
اس پر حضرت ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائےتو کہا:’’بھتیجے! یہ تمہاری قوم کے معزّز لوگ ہیں،تمہارے ہی لئے یہاں آئے ہیں۔یہ چاہتے ہیں کہ یہ تمہیں کچھ عہدو پیمان دے دیں اور تم بھی انہیں کچھ عہدو پیمان دے دو‘‘ اس کے بعد ابو طالب نے ان کی پیشکش ذکر کی کہ کوئی بھی فریق دوسرے سے تعرض نہ کرے۔ جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد کو مخاطب کرکے فرمایا:’’آپ لوگ یہ بتائیں کہ اگر میں ایک ایسی بات پیش کروں جس کے اگر آپ قائل ہو جائیں تو عرب کے بادشاہ بن جائیں اور عجم آپ کے زیر نگیں آجائے تو آپ کی کیا رائے ہوگی؟ "بعض روایتوں میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ صٌی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب کو مخاطب کرکے فرمایا:" میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ان سے ایک ایسی بات چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہو جائیں تو عرب انکے تابع فرمان بن جائیں اور عجم انہیں جزیہ ادا کریں۔‘‘ ایک اور روایت میں یہ مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: "چچا جان! آپ کیوں نہ انہیں ایک ایسی بات کی طرف بلائیں جو ان کے حق میں بہتر ہے!" انہوں نے کہا: "تم انہیں کس بات کی طرف بلانا چاہتے ہو؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں ایک ایسی بات کی طرف بلانا چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہو جائیں تو عرب ان کا تابع فرمان بن جائے اور عجم پر ان کی بادشاہت قائم ہو جائے۔‘‘
ابن اسحٰق کی ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" آپ لوگ صرف ایک بات مان لیں جس کی بدولت آپ عرب کے بادشاہ بن جائیں گی اور عجم آپ کے زیر نگیں آجائے گا۔ "بہر حال جب یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی تو وہ لوگ کسی قدر توقف میں پڑ گئے اور سٹپٹا سےگئے۔ وہ حیران تھے کہ صرف ایک بات جو اس قدر مفید ہے اسے مسترد کیسے کیا جا سکتا ھے ؟ آخرکار ابو جہل نے کہا: ’’اچھا بتاؤ وہ بات کیا ہے؟‘‘تمہارے باپ کی قسم! ایسی ایک بات تو کیا دس باتیں بھی پیش کرو تو ہم ماننے کو تیار ہیں" ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’آپ لوگ لا الہ الا اللہ کہیں اور اللہ کے سوا جو کچھ پوجتے ہیں انہیں چھوڑ دیں۔‘‘اس پر انہوں نے ہاتھ پیٹ پیٹ کر اور تالیاں بجا بجا کر کہا:’’محمّد ( صلی اللہ علیہ وسلم) تم یہ چاہتے ہو کہ سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالو؟ واقعی تمہارا معاملہ بڑا عجیب ہے۔‘‘
پھر آپس میں ایک دوسرے سے بولے: "خدا کی قسم! محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم تمہاری کوئی بات ماننے کو تیار نہیں ھوں گے ۔لہٰذا یہاں سے چلو اور اپنے آباؤاجداد کے دین پر پوری طرح ڈٹ جاؤ، یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور اس شخص صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے درمیان فیصلہ فرمادے" ۔ اس کے بعد وہ یہاں سے اُٹھ کر ناک بھوں چڑھاتے ھوئے واپس چلے گے اور چند ماہ کے بعد حضرت ابو طالب کا بھی انتقال ھو گیا ۔ اس واقعے کے بعد انہی لوگوں کے بارے میں قران مجید کی یہ آیات نازل ہوئیں:
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
(صٓ ۚ وَالْقُرْاٰنِ ذِى الـذِّكْرِ (1
ص، قرآن کی قسم ہے جو سراسر نصیحت ہے۔
بَلِ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا فِىْ عِزَّةٍ وَّّشِقَاقٍ (2)
بلکہ جو لوگ منکر ہیں وہ محض تکبر اور مخالفت میں پڑے ہیں۔
كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِـهِـمْ مِّنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَّلَاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ (3)
ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں ہلاک کر دی ہیں سو انہوں نے بڑی ہائے پکار کی اور وہ وقت خلاصی کا نہ تھا۔
وَعَجِبُـوٓا اَنْ جَآءَهُـمْ مُّنْذِرٌ مِّنْـهُـمْ ۖ وَقَالَ الْكَافِرُوْنَ هٰذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ (4)
اور انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس انہیں میں سے ڈرانے والا آیا، اور منکروں نے کہا کہ یہ تو ایک بڑا جھوٹا جادوگر ہے۔
اَجَعَلَ الْاٰلِـهَةَ اِلٰـهًا وَّاحِدًا ۖ اِنَّ هٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ (5)
کیا اس نے کئی معبودوں کو صرف ایک معبود بنایا ہے، بے شک یہ بڑی عجیب بات ہے۔
وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْـهُـمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِـرُوْا عَلٰٓى اٰلِـهَتِكُمْ ۖ اِنَّ هٰذَا لَشَيْءٌ يُّرَادُ (6)
اور ان میں سے سردار یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر جمے رہو، بے شک اس میں اس کی کچھ غرض ہے۔
مَاسَـمِعْنَا بِـهٰذَا فِى الْمِلَّـةِ الْاٰخِرَةِۚ اِنْ هٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ (7)
ہم نے یہ بات اپنے پچھلے دین میں نہیں سنی، یہ تو ایک بنائی ہوئی بات ہے۔
ابو طالب کی وفات کے بعد مشرکین کی جسارت بڑھ گئی اور وہ کھل کر آپ کو اذیت اور تکلیف پہنچانے لگے حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد کفار مکہ نے آنحضرت صلی صلی اللہ علیہ و آلہ وآصحابہ وسلم کو طرح طرح کی بہت تکالیف پہنچائیں ۔ ھر طرح سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وآصحابہ وسلم کو ستایا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر مظالم کی انتہا کر دی گئی
جاری ھے ۔۔۔۔،