عامُ الحُزن وَالمَلال
غم و اندوہ کا سال
نبوت کا دسواں سال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لیے پے در پے مشکلات کا سال تھا۔ اسی لیے حضور آکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا ۔ اس سال میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے شفیق چچا اور بنوہاشم کے سربراہِ خاندان ابوطالب کا انتقال ہوا۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی غمگسار رفیقہ حیات کی رحلت ہوئی جو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لیے شدید صدمہ کا باعث ہوئی
"حضرت ابو طالب کا انتقال
شعب ابی طالب کی محصوری اور تکالیف کی وجہ سے حضرت ابو طالب کی صحت خراب ھوگئی جو شعب ابی طالب سے خلاصی کے بعد بھی بہتری کی طرف نہ آ سکی یعنی ابوطالب کا مرض دن بدن بڑھتا گیا اور آخرکار وہ بیماری کی حالت میں ھی انتقال کر گئے۔ ان کا انتقال شِعَب ابی طالب کی محصوری کے خاتمے کے چھ ماہ بعد رجب سنہ ۱۰ نبوی میں ہوا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ انھوں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے صرف تین دن پہلے ماہ رمضان میں انتقال کیا ۔
صحیح بخاری میں حضرت مسیَّب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ابوطالب کی موت کا وقت قریب آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ وہاں ابوجہل بھی موجود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘چچا جان: آپ لااِلٰہ اِلَّا اللہ کہہ دیجیے۔ بس ایک کلمہ جس کے ذریعے میں اللہ کے پاس آپ کے لیے حجت پیش کر سکوں۔’’ ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا: ‘‘ابوطالب! کیا عبدالمطلب کی ملت سے رُخ پھیر لو گے؟’’ پھر یہ دونوں برابر ان سے بات کرتے رہے یہاں تک کہ آخری بات جو ابوطالب نے لوگوں سے کہی یہ تھی کہ “ علی ملة عبدالمطلب یعنی عبدالمطلب کی ملت پر’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘میں جب تک آپ سے روک نہ دیا جاؤں آپ کے لیے دعائے مغفرت کرتا رہوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی :
مَا كَانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُـوٓا اُولِىْ قُرْبٰى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَـهُـمْ اَنَّـهُـمْ اَصْحَابُ الْجَحِيْـمِ (سورہ التوبہ)
نبی اور مسلمانوں کو یہ بات مناسب نہیں کہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں جب کہ ان پر ظاہر ہو گیا ہے کہ وہ دوزخی ہیں۔
اگلی آیت میں حضرت ابراھیم کے متعلق بیان کیا گیا
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْـرَاهِيْـمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَآ اِيَّاهُۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَـهٝٓ اَنَّهٝ عَدُوٌّ لِّلّـٰهِ تَبَـرَّاَ مِنْهُ ۚ اِنَّ اِبْـرَاهِيْـمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْـمٌ (114) (سورہ التوبہ)
اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا کرنا ایک وعدہ کے سبب سے تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے، پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہو گئے، بے شک ابراہیم بڑے نرم دل تحمل والے تھے۔
اور یہ آیت بھی نازل ہوئی :
اِنَّكَ لَا تَهْدِىْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّـٰهَ يَـهْدِىْ مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ (56) (سورہ القصص)
بے شک تو ہدایت نہیں کر سکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے، اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے۔
۔''(صحیح بخاری باب قصۃ ابی طالب)
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ابوطالب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ھر ھر مرحلے میں حمایت و حفاظت کی تھی۔ وہ درحقیقت مشرکین سرداران قریش مکے کے حملوں سے اسلامی دعوت کے بچاؤ کے لیے ایک قلعہ کی حیثیت رکھتے تھے انہوں نے ھر مشکل وقت میں رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا ساتھ دیا قریش کے دوسرے سرداروں سے ان کا اختلاف صرف رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ذات ہر تھا لیکن آپ نے کھبی بھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑا تھا
ابوطالب نے بنو ھوشم کی سربراہی کی پوری مدت میں رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی سرپرستی بڑی شفقت کے ساتھ کی اور وہ پورا تحفظ دیا جو قبیلہ کے ایک فرد کی حیثیت سے حضور آکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا حق بھی بنتا تھا۔ تاہم وہ اسلام نہ لائے اور اپنے آبائی دین ہی پر قائم رہے
ابو طالب کے انتقال کے بعد خاندانِ بنی ھاشم کی سربراہی ابولہب کے پاس آئی جو شروع ھی سے اسلام کا کٹر دشمن تھا۔ روایات کے مطابق ابتداء میں تو اس نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اطمینان دلایا کہ وہ پہلے کی طرح اپنا مشن جاری رکھ سکتے ہیں اور بظاھر اُس نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ نرمی کا برتاؤ بھی کیا لیکن جلد ہی قریش میں موجود اسلام کے مخالفین کے ساتھ اس نے ہم آہنگی پیدا کر لی اور رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے دستکش ھو گیا اور حضور آکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اپنے قبیلے کا وہ تحفظ حاصل نہ رہا جو ابو طالب کی زندگی میں میسر تھا مخالفین کی زیادتیاں بہت بڑھ گئیں۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو پریشان کیاجانے لگا
، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: ‘‘آپ ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ اپنے چچا کے کیا کام آسکے؟ کیونکہ وہ آپ ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لیے ﴿دوسروں پر﴾ بگڑتے ﴿اور ان سے لڑائی مول لیتے﴾ تھے۔’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘وہ جہنم کی ایک چھچھلی جگہ میں ہیں اور اگر میں (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے گہرے کھڈ میں ہوتے۔’’
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے چچا کا تذکرہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘ممکن ہے قیامت کے دن انھیں میری شفاعت فائدہ پہنچا دے اور انھیں جہنم کی ایک کم گہری جگہ میں رکھ دیا جائے کہ آگ صرف ان کے دونوں ٹخنوں تک پہنچ کے۔’’ (صحیح بخاری)
السیرۃ لابن ھشام، المغازي لیونس بن بکیر اور دلائل النبوۃ للبیھقي میں حضرت ابو طالب کے ایمان کے متعلق بھی ایک روایت درج کی گئی ھے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
فلما رأی حرص رسول اللہ ﷺ علیه قال :یا ابن أخي! والله، لو لا مخافة السبة علیك وعلی بني أبیک من بعدي، وأن تظن قریش أني إنما قلتھا جزعا من الموت لقلتھا، لا أقولھا إلا لإسرک بھا، قال: فلما تقارب من أبي طالب الموت قال: نظر العباس إلیه یحرک شفتیه، قال: فأصغی إلیه بأذنه، قال: فقال: یا ابن أخي ! واللہ، لقد قال أخي الکلمة التي أمرته أن یقولھا، قال: فقال رسول اللہ ﷺ : لم أسمع.
"جب ابو طالب نے اپنے( ایمان کے) بارے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی حرص دیکھی تو کہا: اے بھتیجے ! اللہ کی قسم، اگر مجھے اپنے بعد آپ اور آپ کے بھائیوں پر طعن و تشنیع کا خطرہ نہ ہوتا، نیز قریش یہ نہ سمجھتے کہ میں نے موت کے ڈر سے یہ کلمہ پڑھا ہے تو میں کلمہ پڑھ لیتا۔ میں صرف آپ کو خوش کرنے کیلئے ایسا کروں گا۔ پھر جب ابو طالب کی موت کا وقت آیا تو حضرت عباس نے ان کو ہونٹ ہلاتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے اپنا کان لگایا اور (رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے ) کہا: اےبھتیجے ! یقیناً میرے بھائی نے وہ بات کہہ دی ہے جس کے کہنے کا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اُنہیں حکم دیا تھا۔"
لیکن یہ روایت سخت"ضعیف" ہے ،کیونکہ:
٭ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "اس حدیث کی سند کا ایک راوی نا معلوم ہے۔ اس کے برعکس صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طالب کفر کی حالت میں فوت ہوئے۔" (تاریخ ابن عساکر)
٭حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: " ھٰذا إسناد منقطع ۔۔۔۔"الخ ، یہ سند منقطع ہے۔۔۔۔۔ (تاریخ الاسلام: ۱۵۱/۲)
٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "إن في السند مبھما لا یعرف حاله، وھو قول عن بعض أھله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد........ و الخبر عندي ما صح لضعف في سندہ"
اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے، جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے، نیز یہ اُس کے بعض اہل کی بات ہے جو کہ نام اور حالات دونوں میں ابہام ہے۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا ھے میرے نزدیک یہ روایت سند کے ضعیف ہونے کی بنا پر صحیح نہیں۔ (البدایة و النھایة لابن کثیر: ۱۲۳/۳ ۔ ۱۲۵)
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "بسند فیه لم یسم و ھذا الحدیث لو کان طریقه صحیحا لعارضه ھذا الحدیث الذی ھو أصح منه فضلا عن أنه لا یصح."
یہ روایت ایسی سند کے ساتھ مروی ہے جس میں ایک راوی کا نام ہی بیان نہیں کیا گیا.... اس حدیث کی سند اگر صحیح بھی ہو تو یہ اپنے سے زیادہ صحیح حدیث کے معارض ہے۔ اس کا صحیح نہ ہونا مستزاد ہے۔ (فتح الباری لابن حجر: ۱۸۴/۷)
٭علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "في سند ھذا الحدیث مبھم لا یعرف حاله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد."
اس حدیث کی سند میں ایک مبہم راوی ہے جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے۔ نام اور حالات دونوں مجہول ہیں۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا ہے۔ (شرح ابي داؤد للعیني الحنفي: ۱۷۲/۶)
اس کے برعکس بہت سی صحیح آحادیث مبارکہ ابو طالب کے عدم ایمان پر دلالت کرتی ھیں
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَقَ عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ کَعْبٍ عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ عَمَّکَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ قَالَ اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاکَ ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّی تَأْتِيَنِي فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ وَجِئْتُهُ فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي
مسدد، یحیی، سفیان، ابواسحاق ، ناجیہ بن کعب، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ (جب میرے والد ابوطالب کا انتقال ہوا تو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے بوڑھے اور گمراہ چچا کا انتقال ہو گیا ہے آپ نے فرمایا جا اور اپنے باپ کو دفن کر آ اور اس کے علاوہ کوئی اور کام نہ کرنا یہاں تک کہ تو میرے پاس لوٹ آئے لہذا میں گیا اور ان کو دفن کر کے آ گیا۔ پس آپ نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا پس میں نے غسل کیا اور اپ نے میرے لئے دعا فرمائی۔
(سنن ابوداؤد ۔ جلد دوم ۔ جنازوں کا بیان )
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ كَعْبٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ لَمَّا مَاتَ أَبُو طَالِبٍ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ فَقَالَ انْطَلِقْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثْ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي قَالَ فَانْطَلَقْتُ فَوَارَيْتُهُ فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ دَعَا لِي بِدَعَوَاتٍ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهِنَّ مَا عَرُضَ مِنْ شَيْءٍ
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوگیا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کا بوڑھا اور گمراہ چچا مر گیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر اسے کسی گڑھے میں چھپا دو اور میرے پاس آنے سے پہلے کسی سے کوئی بات نہ کرنا، چنانچہ میں گیا اور اسے ایک گڑھے میں چھپا دیا، نبی صلی اللہ علیہ نے اس کے بعد مجھے غسل کرنے کا حکم دیا اور مجھے اتنی دعائیں دیں کہ ان کے مقابلے میں کسی وسیع و عریض چیز کی میری نگاہوں میں کوئی حیثیت نہیں ۔
(مسند احمد ۔ جلد اول )
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَهْوَنُ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا أَبُو طَالِبٍ وَهُوَ مُنْتَعِلٌ نَعْلَيْنِ مِنْ نَارٍ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اہل جہنم میں سب سے ہلکاعذاب ابو طالب کو ہوگا، انہوں نے آگ کی دو جوتیاں پہن رکھی ہوں گی جس سے ان کا دماغ ہنڈیا کی طرح ابلتا ہوگا۔
مسند احمد ۔ جلد دوم )
مزید اور کئی کتب حدیث میں ایسی صحیح روایات موجود ھیں جن میں ابو طالب کے عدم ایمان کو بیان کیا گیا ھے
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ ابو طالب کے عدم ایمان پر فوت ہونے کے متعلق لکھتے ہیں:
وَلَوْلَا مَا نَهَانَا اللَّهُ عَنْهُ مِنَ الِاسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِينَ، لَاسْتَغْفَرْنَا لابي طَالب وترحمنا عَلَيْهِ ”
اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں مشرکین کے لیے استغفار کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو ہم ابوطالب کے لیے استغفار کرتے اور اُن کے لیے رحم کی دعا بھی کرتے!“ (سیرة الرسول ابن کثیر)
حضرت خديجة الکبری رضی اللہ عنہا کی وفات
جناب ابوطالب کی موت کے دو ماہ بعد یا صرف تین دن بعد.... علی اختلاف الاقوال.... حضرت اُمّ المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا بھی رحلت فرما گئیں۔ ان کی وفات نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دسویں سال ماہِ رمضان میں ہوئی۔ اس وقت اُن کی عمر پینسٹھ برس تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عمر کی پچاسویں منزل میں تھے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ کی بڑی گرانقدر نعمت تھیں۔ وہ ایک چوتھائی صدی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں رہیں اور اس دوران جب بھی رنج و قلق کا وقت آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تڑپ اٹھتیں، سنگین اور مشکل ترین حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قوت پہنچاتیں، تبلیغِ رسالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتیں اور اس تلخ ترین جہاد کی سختیوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریک کار رہتیں۔ اور اپنی جان و مال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی و غمگساری کرتیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
‘‘جس وقت لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا وہ مجھ پر ایمان لائیں، جس وقت لوگوں نے مجھے جھٹلایا انھوں نے میری تصدیق کی جس وقت لوگوں نے مجھے محروم کیا انھوں نے مجھے اپنے مال میں شریک کیا اور اللہ نے مجھے ان سے اولاد دی اور دوسری بیویوں سے کوئی اولاد نہ دی۔
صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ‘‘اے اللہ کے رسول ﴿ صلی اللہ علیہ وسلم﴾! یہ خدیجہ رضی اللہ عنہ تشریف لا رہی ہیں۔ ان کے پاس ایک برتن ہے۔ جس میں سالن یا کھانا یا کوئی مشروب ہے۔ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ پہنچیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ان کے رب کی طرف سے سلام کہیں اور جنت میں موتی کے ایک محل کی بشارت دیں جس میں نہ شور و شغب ہو گا نہ درماندگی و تکان۔
یہ دونوں الم انگیز حادثے ایک روایت کے مطابق صرف چند دنوں کے دوران پیش آئے۔ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں غم و الم کے احساسات موجزن ہو گئے اور اس کے بعد قوم کی طرف سے بھی مصائب کا طومار بندھ گیا کیونکہ ابوطالب کی وفات کے بعد ان کی جسارت بڑھ گئی اور وہ کھل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت اور تکلیف پہنچانے لگے۔ اس کیفیت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم و الم میں اور اضافہ کر دیا۔ یہاں اس بات کا اعادہ بے محل نہ ہو گا کہ اہلِ مکہ نے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ظلم و جور کا بازار گرم کر رکھا تھا اسی طرح وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقا کے خلاف بھی ستم رانی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمدم و ہمراز ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور حبشہ کے ارادے سے تن بہ تقدیر نکل پڑے، لیکن بَرکِ غماد پہنچے تو ابنِ دغنہ سے ملاقات ہو گئی اور وہ اپنی پناہ میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو مکہ واپس لے آیا۔
ابنِ اسحاق کا بیان ہے کہ جب ابوطالب انتقال کر گئے تو قریش نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی ایسی اذیتیں پہنچائیں کہ ابو طالب کی زندگی میں کبھی اس کی آرزو بھی نہ کر سکے تھے حتیٰ کہ قریش کے ایک احمق نے سامنے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر مٹی ڈال دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں گھر تشریف لائے۔ مٹی آپ کے سر مبارک پر پڑی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی نے اُٹھ کر مٹی دھوئی۔ وہ دھوتے ہوئے روتی جا رہی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں تسلی دیتے ہوئے فرماتے جا رہے تھے: ‘‘بیٹی! روؤ نہیں، اللہ تمھارے ابا کی حفاظت کرے گا۔’’ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرماتے جا رہے تھے کہ قریش نے میرے ساتھ کوئی ایسی بد سلوکی نہ کی جو مجھے ناگوار گزری ہو یہاں تک کہ ابوطالب کا انتقال ہوگیا۔ صحیح بخاری ، مسند احمد)،
۔اسی طرح کے پے درپے آلام و مصائب کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال کا نام عام الحزن یعنی غم کا سال رکھ دیا اور یہ سال اسی نام سے تاریخ میں مشہور ہو گیا۔
جاری ھے۔۔۔۔۔