قسط نمبر (56) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح 

حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا قبیلہ عامر بن لوی سے تھیں، جو قریش کا ایک نامور قبیلہ تھا، سلسلۂ نسب یہ ہے، سودہ بنت زمعہ بن قیس بن عبد شمس بن عبدود بن نصر بن مالک بن حسل بن عامر ابن لوی، ماں کا نام شموس تھا، یہ مدینہ کے خاندان بنو نجار سے تھیں، ان کا پورا نام و نسب یہ ہے، شموس بنت قیس بن زید بن عمرو بن لبید بن فراش بن عامر بن غنم بن عدی بن النجا۔

حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا کا پہلا نکاح  حضرت سکران بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ  سے ھوا جو ان کے چچا زاد  تھے، ابتدائے نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں مشرف بہ اسلام ہوئیں، ان کے ساتھ ان کے شوہر حضرت سکران  رضی اللہ تعالی عنہ بھی اسلام لائے۔ اس بنا پر ان کو قدیم الاسلام  ہونے کا شرف حاصل ہے،  شوھر کے ھمراہ حبشہ کی ہجرت کی ۔  کئی برس حبشہ میں رہ کر مکہ واپس آئیں اور حضرات سکران رضی اللہ تعالی عنہ نے کچھ دنوں کے بعد وفات پائی۔


خواب میں  رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے نکاح  کی بشارت

حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اللہ پاک نے دو مرتبہ خواب میں رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ نکاح کی بشارت دی ۔ دونوں مرتبہ خواب کی تعبیر حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پہلے خاوند حضرت سکران رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ بتائی کہ “ میں جلد فوت ھو جاؤں گا اور تم رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے نکاح  میں آؤ گی”   


پہلا خواب

 طبقات ابن سعد  کی روایت کے مطابق حبشہ سے واپسی پرحضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا کو خواب کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ نکاح کی بشارت دی گئی۔ ایک رات خواب میں آپ  نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم آپ کے گھر تشریف لائے اور آپ کو گردن سے پکڑا۔ اس کی تعبیر حضرت سکرانؓ ( حضرت  سودہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پہلے شوھر) نے یہ بیان کی کہ میرے فوت ہوجانے کے بعد تم نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے نکاح میں آؤ گی۔ 


دوسرا خواب

 ایک رات  حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا نے خواب میں دیکھا کہ آپؓ تکیہ کے سہارے لیٹی ہیں کہ آسمان پھٹا اور چاند ان پر گر پڑا۔ حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنا خواب اپنے شوھر حضرت سکران رضی اللہ تعالی عنہ کو سنایا تو اس خواب کی تعبیر بھی انہوں  نے یہ بیان کی کہ میں بہت جلد فوت ہو جاؤں گا اور تم عرب کے چاند محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آؤ گی۔


حضرت سکران رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات

چند دن بعد حضرت سودہ  رضی اللہ تعالی عنہا  کے خوابوں نے حقیقت کا رُوپ دھارا اور حضرت سکرانؓ اچانک بیمار ہوگئے اور کچھ ہی دنوں بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ اس طرح حضرت سودہؓ بیوہ ہو گئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی تھی


  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے نکاح کا پیغام 

حضرت سکرانؓ کی وفات ۱۰ نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو ہوئی اور اسی سال حضرت خدیجہؓ اور آپؐ کے چچا ابوطالب بھی وفات پا گئے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اس سال کو ’عام الحزن‘ یعنی غم کا سال قرار دیا۔ ایک طرف نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اس حوالے سے پریشان تھے تو دوسری طرف آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی طبیعت بن ماں کی بچیوں کو دیکھ کر بہت افسردہ رہتی تھی۔ اس کے علاوہ مشرکین نے بھی  اس موقعہ پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیے تھے ۔ اس صورتِ حال میں رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ایک جاں نثار صحابیہ حضرت خولہ بنت حکیمؓ (زوجہ عثمان بن مظعونؓ) ایک دن رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بکی خدمت میں  حاضر ہوئیں اور عرض کیا :یا رسولؐ اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم !  حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو ہمیشہ غم زدہ اور آفسردہ دیکھتی ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے جواب ارشاد فرمایا کہ  ہاں خولہ ! ، گھر کا انتظام اور بچوں کی تربیت کی ذمہ داری  خدیجہؓ ہی کے سپرد تھی۔ خولہؓ نے عرض کیا اس وقت آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو ایک رفیق و غم گسار کی ضرورت ہے۔ اگر اجازت ہو تو میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے نکاحِ ثانی کے لیے کوشش کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس جگہ پیغام دینے کا خیال ہے؟خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کسی کنواری سے نکاح فرمانا پسند کریں تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے نزدیک تمام مخلوق میں جو سب سے زیادہ محبوب  ھیں  حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ،  اُن کی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا موجود ہیں ان سے نکاح فرمالیں اور اگر کسی بیوہ سے نکاح فرمانا چاہیں تو حضرت سودہ بنتِ زمعہ رضی اللہ تعالی عنہا موجود ہے جو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر ایمان بھی لا چکی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خولہؓ کی یہ باتیں سن کر فرمایا کہ تم  ہی  بات کرکے ان  کو میرا پیغام پہنچا دو ۔ حضرت خولہؓ سیدھا حضرت سودہؓ کے پاس گئیں اور ان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش بیان کی، جس پر حضرت سودہؓ نے بخوشی اپنی رضا مندی ظاہر کر دی، لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اس سلسلے میں میرے والد سے بات کرو۔ حضرت خولہؓ آپ کے والد زَمعہ کے پاس گئیں تو انھوں نے بھی بخوشی اس رشتے کو قبول کر لیا۔


نکاح کی بابرکت تقریب

 نکاحِ بابرکات کی تقریب حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا  کے گھر پر آنجام پائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سودہؓ کے گھر تشریف لے  گئے، وہاں حضرت سودہؓ کے والد زَمعہ نے اپنی بیٹی کا نکاح نبی کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے چار سو درہم بحق مہر کے خود پڑھایا (تاریخ ابن کثیر میں ہے کہ ان کا نکاح حضرت ابوبکر صدیقؓ نے، جب کہ طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت حاطب بن عمروؓ نے پڑھایا)۔ حضرت سودہؓ کے بھائی عبد اللہ بن زَمعہ، جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے، مکہ سے باہر تھے۔ جب وہ واپس آئے تو اس نکاح کا سن کر سخت رنجیدہ ہوئے اور اپنے سر پر خاک ڈالی۔ کچھ مدت بعد انھوں نے اسلام قبول کر لیا اور شرف ِصحابیت سے سرفراز ہوئے، لیکن انھیں ساری عمر اپنی اس نادانی کا بہت قلق رہا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت سودہؓ کا نکاح شوال ۱۰ نبوی میں ہوا۔ اُس وقت حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر پچاس سال تھی اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی عمر بھی پچاس سال تھی۔


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ولادت بعثت نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پانچویں سال ماہِ شوال المکرم مطابق ماہِ جولائی 614ء بمقام مکہ مکرمہ، (اس وقت کا) حجاز مقدس میں ہوئی۔ ابن سعد نے طبقات میں آپ رضی اللہ عنہا کی ولادت نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے چوتھے سال کے آغاز میں لکھی ہے. مگر پہلی روایت پر تمام مورخین کا اتفاق ہے۔ آپ بحالتِ اسلام پیدا ہوئیں ہیں کیونکہ آپ کے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کی ولادت سے تقریباً پانچ سال قبل اسلام لے آئے تھے۔


رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے نکاح کا پیغام 

 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غمگین رہنے لگے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا  اپنے شوہر نامدار  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ہمراہ ہر موقعہ پر ساتھ دیتی  تھیں ، آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ساتھ ہمدردی کرتی تھیں ، مصائب میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا ہاتھ بٹاتی  تھیں ، انہوں نے سب سے پہلے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے رسول و نبی ہونے کا اقرار کیا تھا ، ایسی غمگسار اور رفیق زوجہ کی جدائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ملول رہا کرتے تھے ، بلکہ تنہائی کے غم میں زندگی میں دشواری آنے لگی۔ جانثاران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت فکر لاحق ہوئی، مشہور صحابئ رسول  حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجہ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا بنت حکیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوئیں اور عرض کیا  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  دوسرا نکاح کر لیں۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا: کس سے؟ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: بیوہ اور کنواری دونوں طرح کی  موجود ہیں، جس کو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پسند فرمائیں اُسی کے متعلق گفتگو کی جائے گی ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: وہ کون ہیں؟ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بیوہ تو سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالی عنہا ہیں، اور کنواری ابوبکر ( رضی اللہ عنہ) کی بیٹی عائشہ (رضی اللہ عنہا)۔ ارشاد ہوا: بہتر ہے تم اِن کی نسبت گفتگو کرو۔ حضرت خولہ رضی اللہ تعالی عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی پا کرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر آئیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ گھر پر موجود نہیں تھے حضرت ام رومان رضی اللہ تعالی عنہا سے تذکرہ کیا کہ میں ایک بہت بڑی خیر کی خبر لے کر آئی ھوں پھر پوری بات انہیں بتائی  تو انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا  تو رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی بھتیجی ھیں  ۔ ان سے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا نکاح  کیسے ھو سکتا ھے ۔ خیر ٹھرو  ، ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہا  کو آنے دو ۔  درآصل دورِ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جس طرح سگے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز نہیں ، اِسی طرح عرب اپنے منہ بولے بھائی کی اولاد سے بھی شادی جائز نہیں سمجھتے تھے۔  جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہا گھر تشریف لائے اور اُن سے  اس بات کا تذکرہ کیا گیا  تو  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی یہی کہا: خولہ! عائشہ (رضی اللہ عنہا) تو آن(صلی اللہ علیہ وسلم) کی بھتیجی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اُس کا کیونکر نکاح ہو سکتا ہے؟ خولہ رضی اللہ عنہا  واپس ھوئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اِستفسار کیا تو آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا”ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے دینی بھائی ہیں اور اُن کی بیٹی سے میرا نکاح جائز ہے۔”  حضرت خولہ واپس ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر آئیں اور انہیں رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا ارشاد سنایا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو بہت خوش ھوئے اور رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا پیغام  بخوشی قبول کر لیا۔ البتہ چونکہ  اِس سے قبل عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جبیر بن مطعم کے بیٹے سے طے ہوچکی تھی، اِس لئے اُن سے بات کرنا بھی اخلاقی طور پر ضروری تھا۔   چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جبیر بن مطعم سے جا کر بات کی کہ تم نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی نسبت اپنے بیٹے سے کی تھی، اب  اس بارے کیا کہتے ہو؟ جبیر نے اپنی بیوی سے پوچھا۔ جبیر بن مطعم کا خاندان ابھی اسلام سے آشنا نہیں ہوا تھا، اُس کی بیوی نے کہا” اگر یہ لڑکی (یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا) ہمارے گھر آگئی تو ہمارا بچہ بے دِین ہو جائے گا (یعنی بت پرستی چھوڑ دے گا)، اس لئے ہم کو یہ رشتہ منظور نہیں”(مسند احمد)

 ادھر سے بھی اخلاقی فریضہ پورا کرکے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے  حضرت خولہ رضی اللہ تعالی عنہا کےھاتھ ھی رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو پیغام بجھوا دیا کہ  حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کے لئے تشریف لے آئیں


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نكاح کے وقت عمر 

صحیح احادیث کے مطابق ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چھ سال کی عمر میں ان کے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  کردیا تھا، اور نو سال کی عمر میں آپ رضی اللہ عنہا کی رخصتی عمل میں آئی۔

"حدثني فروة بن أبي المغراء، حدثنا علي بن مسهر، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: «تزوجني النبي صلى الله عليه وسلم وأنا بنت ست سنين، فقدمنا المدينة فنزلنا في بني الحارث بن خزرج، فوعكت فتمرق شعري، فوفى جميمة فأتتني أمي أم رومان، وإني لفي أرجوحة، ومعي صواحب لي، فصرخت بي فأتيتها، لاأدري ما تريد بي فأخذت بيدي حتى أوقفتني على باب الدار، وإني لأنهج حتى سكن بعض نفسي، ثم أخذت شيئاً من ماء فمسحت به وجهي ورأسي، ثم أدخلتني الدار، فإذا نسوة من الأنصار في البيت، فقلن على الخير والبركة، وعلى خير طائر، فأسلمتني إليهن، فأصلحن من شأني، فلم يرعني إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى، فأسلمتني إليه، وأنا يومئذ بنت تسع سنين»".

(صحيح البخاري)

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے  وہ فرماتی ہیں کہ میری عمر  چھ سال کی تھی کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح ہوا, پھر ہم (ہجرت کرکے) مدینہ آئے تو بنی حارث بن خزرج (کے مکان) میں اترے, پھر مجھے (اتنا شدید) بخار آیا کہ میرے سر کے بال گرنے لگے اور وہ کانوں تک رہ گئے, پھر (ایک دن) میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولے میں بیٹھی تھی کہ میری والدہ ام رومان رضی اللہ تعالی عنہا میرے پاس آئیں اور مجھے زور سے آواز دی, میں ان کے پاس چلی گئی اس حال میں کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ انہوں نے کیوں بلایا ہے، انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر ایک مکان کے دروازہ پر کھڑا کردیا میرا سانس پھول رہا تھا حتیٰ کہ ذرا دم میں دم آیا، پھر انہوں نے تھوڑا پانی لے کر میرے منہ اور سر پر ہاتھ پھیر دیا، پھر مجھے مکان کے اندر داخل کردیا تو میں نے کمرہ میں چند انصاری عورتوں کو دیکھا، انہوں نے کہا خیر و برکت اور نیک فال کے ساتھ آؤ ۔میری والدہ نے مجھے ان کے حوالہ کردیا، پھر انہوں نے مجھے سنوارا (تیار کیا)، پھر  چاشت کے وقت آں حضرت تشریف لائے تو انہوں نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ کردیا اس وقت میری عمر نو سال کی تھی


حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر پر نکاح کی بابرکت تقریب

نکاحِ بابرکات کی  یہ تقریب حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالی  عنہ کے دولت کدہ  پر آنجام پائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر تشریف لے گئے، وہاں پر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بیٹی  حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح نبی کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے خود پڑھایا

     یہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تین سال قبل کا واقعہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا  کا مہر 500 درہم تھا۔آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی رخصتی ہجرت کے پہلے سال ماہِ شوال 1ھ/ اپریل 623ء میں عمل میں آئی۔ اُس وقت آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر مکمل 9 سال تھی۔(مسند احمد) 

       حضرت عروہ بن زبیر تابعی رحمۃاللہ علیہ (جو عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں) نے آپ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کے متعلق پوچھا تو آپ نے بیان فرمایا کہ” جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا تو میں بچیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی، مجھے معلوم نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کر لیا ہے حتیٰ کہ مجھے میری والدہ پکڑ کر گھر میں لے گئیں اور گھر ہی میں مجھے روک دیا، اب مجھے خیال آیا کہ میرا نکاح ہو گیا ہے۔ میں نے اِس بارے میں اپنی والدہ سے نہیں پوچھا، ہاں اُنہوں نے خود ہی مجھے بتادیا کہ تمہارا نکاح ہو گیا ہے۔


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح  اور رخصتی ماہِ شوال میں 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ماہ ربیع الاول 1ھ کو پہنچے اور ربیع الاول سے آٹھواں مہینہ شوال ہوتا ہے۔ جس کے مطابق یہ رخصتی ماہِ شوال 1ھ/ اپریل 623ء میں عمل میں آئی اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 53 سال 10 ماہ تھی۔ اِس لحاظ سے عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں 9 سال 6 ماہ رہیں۔(متفق علیہ) 

حضرت عمرہ بنت عبد الرحمٰن تابعیہ (جو عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھتیجی ہیں) نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی تھیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شوال 10 نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں ہجرت سے تین سال قبل نکاح کیا، اُس وقت میں 6 سال کی تھی، پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ہجرت کرکے مدینہ منورہ پیر کے دن 12 ربیع الاول کو آئے اور  ھجرت سے آٹھویں ماہ ( ماہِ شوال)  میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے مجھ سے بیاہ کیا (یعنی رخصتی) اور خلوت کے وقت میں 9 سال کی تھی۔(صحیح بخاری) 

زمانۂ جاہلیت میں عربوں کے ہاں شوال کے مہینے کو  منحوس سمجھا جاتا تھا اور عرب اس مہینے میں شادی کو  بھی برا شگون خیال کرتے تھے۔ اسی بد اعتقادی کی تردید کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: 

تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم فِي شَوَّالٍ وَبَنٰی بِي فِي شَوَّالٍ، فَأَيُّ نِسَائِ رَسُولِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم کَانَ أَحْظٰی عِنْدَہٗ مِنِّي؟ قَالَ: وَکَانَتْ عَائِشَۃُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَائَہَا فِي شَوَّالٍ‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے ساتھ نکاح بھی شوال کے مہینے میں ہوا اورآپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ساتھ میری رخصتی بھی اسی مہینے میں ہوئی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کون سی بیوی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مجھ سے زیادہ عزیز ھو ۔ فرمایا ، حضرت عائشہ اپنی عورتوں کا شوال میں داخلہ پسند فرماتی تھیں 


نکاح سے پہلے رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو خواب میں دیکھنا

 بہت سی احادیث میں آیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا  سے نکاح سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے سامنے کوئی چیز پیش کر رہا ہے، پوچھا: کیا ہے؟ جواب دیا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کھول کر دیکھا تو عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: میں تم کو دو بار خواب میں دیکھ چکا ہوں، میں نے دیکھا کہ ایک شخص ریشمی کپڑے میں تم کو میرے پاس لایا ہے اور کہہ رہا ہے: یہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی اہلیہ ہیں، اِن کا پردہ اُٹھا کر دیکھیے، میں نے پردہ اُٹھا کر دیکھا تو تم تھیں۔ میں نے کہا: اگر یہ اللہ کے پاس سے ہے تو اللہ اِسے ضرور نافذ فرما دے گا۔(صحیح مسلم) 

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا  فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ: میں نے خواب میں تمہیں دو بار دیکھا، فرمایا کہ تم ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی ہو اور مجھے کہا گیا کہ یہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی بیوی ہیں۔ سو پردہ ہٹا کر دیکھیے، جب میں نے دیکھا تو تم ہی تھی۔ تو میں نے کہا: اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ ایسا کرکے ہی رہے گا۔(صحیح بخاری) 


 نکاح سے پہلے جبرائیل علیہ السلام کا سبز کپڑے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تصویر لے کر آنا

عن عائشة رضي الله عنها ، أنَّ جبريل جاء بصورتها في خِرْقَة حَرير خضراء إلى النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال: «هذه زوجتُك في الدنيا والآخرة».  [صحيح] - [الترمذي]  المزيــد ...

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام ریشم کے سبز ٹکڑے میں ان (عائشہ رضی اللہ عنہا) کی تصویر لے کر نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں آئے اور فرمایا: یہ دنیا اور آخرت میں آپ کی بیوی ہیں۔


جاری ھے ۔۔۔۔۔

Share: