قسط نمبر (57) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم کا صبر و استقامت اور اس کے عوامل و اسباب 

گذشتہ صفہات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور  صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم  کو کفارِ مکہ سے پہنچنے والی اذیتوں کا ذکر ھو چکا ھے کہ مشرکینِ قریش نے کوئی ایسا حربہ نہیں چھوڑا جو  صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم کو اذیت دینے میں استعمال نہ کیا گیا ھو ۔ ایسے ایسے طریقوں سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم  کو تکالیف پہنچائی گئیں  کہ سن کر رونگٹے کھڑے ھوجاتے ھیں ۔ ان تکالیف اور ذھنی و جسمانی اذیتوں پر صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم نے جس صبر و استقلال کا مظاھرہ کیا،  تاریخ اس کی مثال دینے سے قاصر ھے  ان کے اس صبر اور ثابت قدمی پر گہری سوجھ بوجھ اور مضبوط دل و دماغ کا آدمی بھی حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور بڑے بڑے دماغ رکھنے والے بھی حیران و ششدر ہو کر پوچھنے پر مجبور ھو جاتے ہیں کہ آخر وہ کیا اسباب و عوامل تھے جنہوں نے صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم  کو ان حالات میں اس قدر معجزانہ حد تک ثابت قدم رکھا؟ آخر صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم کیونکر ان بے پایاں مظالم پر صبر کر سکے کہ جنہیں سُن کر ھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل لرز اٹھتا ہے۔ 

درآصل  کسی بھی تحریک کی کامیابی اور اس کے لئے قربانیاں دینے کا دارومدار بڑی حد تک تحریک کی قیادت  پر ھوتا ھے ۔ اگر قیادت ھر لحاظ سے پرکشش  ، دیانتدار ، ایماندار اور باکردار ھو تو پھر تحریک  کے لئے کام کرنے والوں کے لئے قربانیاں دینا آسان ھو جاتا ھے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم  کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کی صورت میں ایسی ھی پُرکشش قیادت میسر تھی کیونکہ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  امتِ اسلامیہ ہی نہیں بلکہ ساری انسانیت کے سب سے بلند پایہ قائد و رہنما تھے ایسے جسمانی جمال، نفسانی کمال، کریمانہ اخلاق، باعظمت کردار اور شریفانہ عادات و اطوار سے بہرہ ور تھے کہ دل خود بخود آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی جانب کھنچے چلے جاتے تھے پھر رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ساتھ رب کریم کی غیبی مدد ھر وقت اور ھر جگہ موجود رھتی تھی جو ماننے والوں کےحوصلے بلند اور مخالفین کے حوصلے پست کرنے میں آکسیر کا کام کرتی  تھی  اس کے بہت سے واقعات تاریخ کی کتابوں میں موجود ھیں کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زبان مبارک سے بد دعا کے الفاظ نکلنے سے کفار سہم جاتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب حالتِ سجدہ میں آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر اوجھڑی ڈالی گئی، اور آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سر اٹھانے کے بعد اس حرکت کے کرنے والوں پر بد دعا کی تو ان  کے چہرے مرجھا گئے اور ہنسی  بالکل ہوا ہو گئی۔ اور ان کے اندر غم و قلق کی لہر دوڑ گئی۔ انہیں یقین ہو گیا کہ اب ہم بچ نہیں سکتے۔  اسی طرح  جب آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ابولہب کے بیٹے عُتَیبہ پر بددعا کی تو اسے اور اس کےباپ کو  یقین ہو گیا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بد دعا سے بچ نہیں سکتا، چنانچہ انہوں نے ملک شام کے سفر میں جب رات کو  ایک مقام پر پڑاو ڈالا تو ابو لہب نے عتیبہ کی حفاظت کا پورا پورا بندوبست کیا کیونکہ اُسے رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسل  کی بد دعا کا بہت خوف تھا اور پھر عتیبہ نے بھی شیر کو دیکھتے ہی کہا’’واللہ، محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) نے مکہ میں رہتے ہوئے مجھے قتل کر دیا تھا

ابیّ بن خلف کا واقعہ بڑا مشہور ہے کہ وہ بار بار آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو قتل کی دھمکیاں دیا کرتا تھا۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وآصحابہ وسلم نے جوابًا فرما دیا کہ تم نہیں بلکہ میں (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم)  تمہیں قتل کروں گا، ان شاء اللہ۔ اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جنگ احد کے روز ابیّ بن خلف کی گردن پر نیزہ مارا تو اگرچہ اس سے معمولی سی خراش آئی تھی لیکن ابیّ  نے چیخ و پکار شروع کر دی  سرداروں  وغیرہ نے اُسے اطمینان دلایا  کہ معمولی  خراش ھے ، فکر والی کوئی بات نہیں مگر  وہ برابر یہی کہے جا رہا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) نے مجھ سے مکہ میں کہا تھا کہ میں تمہیں قتل کروں گا اس لیے اگر وہ مجھ پر تھوک بھی دیتے  تو بھی میری جان نکل جاتی۔ 

اسی طرح ایک بار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ  میں امیّہ بن خلف سے کہہ دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمان تمہیں قتل کر دیں گے تو اس سے امیّہ بن خلف پر سخت گھبراہٹ طاری ہو گئی، جو مسلسل قائم رہی۔ چنانچہ اس نے عہد کر لیا کہ وہ مکہ مکرمہ سے باہر ہی نہ نکلے گا اور جب جنگِ بدر کے موقع پر ابوجہل کے غیرت دلانے پر اُسے مجبور ہو کر نکلنا پڑا تو اس نے مکہ مکرمہ کا سب سے تیز رو اونٹ خریدا تا کہ خطرے کی علامات ظاہر ہوتے ہی بھاگ کر واپس آ  جائے۔ ادھر جنگ میں جانے پر آمادہ دیکھ کر اس کی بیوی نے بھی  اُسے ٹوکا کہ "ابو صفوان! محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے جو کچھ کہا تھا  تم اسے آپ بھول گئے؟" ۔ ابو صفوان نے جواب دیا کہ نہیں، بلکہ میں خدا کی قسم!  ان کے ساتھ تھوڑی ہی دور جاؤں گا۔ یہ تو آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دشمنوں کا حال تھا۔ باقی رہے آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ  عنہم  تو آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تو ان کے لیے دیدہ و دل اور جان و روح کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے دل کی گہرائیوں سے آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے لیے حبِّ صادق کے جذبے اس طرح ابلتے تھے جیسے نشیب کی طرف پانی بہتا ہے اور جان و دل اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف کھنچے چلے جاتے تھے جیسے لوہا مقناطیس کی طرف کھنچتا ہے۔ 

اس  بھرپور محبت کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم  کو یہ ذرہ بھر بھی گوارا نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ناخن میں خراش تک  بھی آ جائے یا آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاؤں میں کانٹا ہی چبھ جائے خواہ اس کےلیے اُنہیں اپنی گردنیں ہی کیوں نہ کٹوانی پڑ جائیں۔  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم  نے یہ سب کچھ صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر کرکے دکھایا جس کے سینکڑوں واقعات تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ھیں 

ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو  رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی رفاقت کے سبب مشرکین نے حرم کعبہ میں مار مار کر بری طرح کچل دیا ۔ عُتیبہ بن ربیعہ ان کے قریب آ کر انہیں دو پیوند لگے جوتوں سے مارنے لگا۔ چہرے کو خسص طور سے نشانہ بنایا گیا۔ پھر وہ پیٹ پر چڑھ گیا،  زخموں کی وجہ سے حالت  یہ تھی کہ چہرے اور ناک کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ پھر ان کے قبیلہ بنو تَیم کے لوگ انہیں ایک کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے گئے۔ انہیں یقین تھا کہ اب یہ زندہ نہ بچیں گے لیکن دن کے خاتمے کے قریب ان  کو ھوش آیا اور زبان کھلی تو یہ بولے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کا کیا بنا ؟ اس پر بنو تَیم نے انہیں سخت سست کہا۔ ملامت کی  کہ جن کی وجہ سے یہ آفت آئی ھوش میں آتے ھی انہیں کا نام لیا اور ان کی ماں ام الخیر رضی اللہ تعالی عنہا سے یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ انہیں کچھ کھلا پلا دینا۔ جب وہ تنہا رہ گئیں تو انہوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کھانے پینے کے لیے اصرار کیا لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ یہی کہتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا کیا ہوا؟ آخر کار ام الخیر رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا "مجھے تمہارے ساتھی کا حال معلوم نہیں" ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا "ام جمیل بنت خطاب رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس جاؤ اور اس سے دریافت کرو" ۔ وہ  بیچاری بیٹے کی محبت میں ام جمیل رضی اللہ تعالی عنہا  کے پاس گئیں اور بولیں "ابوبکر رضی اللہ عنہ تم سے محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے بارے میں دریافت کر رہے ہیں" ۔ ام جمیل  چونکہ اپنا اینان چھپائے ھوئے تھیں اس لئے آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا "میں نہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جانتی ہوں نہ محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کو۔ البتہ اگر تم چاہو تو میں تمہارے ساتھ جا کر تمہارے صاحبزادے کو دیکھ لوں ۔ام الخیر رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا بہترہے۔ اس کے بعد ام جمیل رضی اللہ تعالی عنہا ان کے ہمراہ آئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ انتہائی خستہ حال پڑے تھے۔ پھر قریب ہوئیں تو چیخ پڑیں اور کہنے لگیں "جس قوم نے آپ کی یہ حالت بنائی ہے وہ یقینًا بدقماش اور کافر قوم ہے۔ مجھے امید ہے اللہ آپ کا بدلہ ان سے لے کر رہے گا "۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا" رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کا کیا حال ھے  "؟ انہوں نے کہا" یہ آپ کی ماں سن رہی ہیں "۔ کہا" کوئی بات نہیں "۔ بولیں" آپ (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) صحیح سالم ہیں "۔ پوچھا" کہاں ہیں؟ "۔ کہا" ابن ارقم کے گھر میں ہیں "۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا" اچھا تو پھر اللہ کے لیے مجھ پر عہد ہے کہ میں نہ کوئی کھانا کھاؤں گا یہ پانی پیوں گا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں"۔ اس کے بعد ام الخیر رضی اللہ تعالی عنہا اور ام جمیل رضی اللہ تعالی عنہا  رکی رہیں۔ جب آمد و رفت بند ہو گئی اور سناٹا چھا گیا تو یہ دونوں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لے کر نکلیں۔ اس طرح انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا دیا اور اس موقعہ پر اُن کی والدہ بھی ایمان لے آئیں 

محبت و جان نثاری کے ایسے بے شمار واقعات سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں دیکھے جا سکتے ھیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم  نے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی محبت میں اپنی جان کی بھی پرواہ  نہیں فرمائی

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم  اسلامی تحریک کے لئے اپنی  دینی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ تھے  کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جانتے تھے کہ ان ذمہ داریوں سے کسی صورت میں گریز اور پہلو تہی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس گریز کے جو نتائج  برامد ھوں گے وہ موجودہ ظلم وستم سے زیادہ خوفناک اور ہلاکت آفریں ہوں گے اور اس گریز کے بعد خود ان کو اور ساری انسانیت کو جو خسارہ لاحق ہوگا وہ اس قدر شدید ہوگا کہ اس ذمہ داری کے نتیجہ میں پیش آنے والی مشکلات اس خسارے کے مقابل کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ 

صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنہم  کا  یومِ آخرت پر مضبوط ایمان مذکورہ احساسِ ذمہ داری کی تقویت کا  بہت بڑا سبب تھا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات کا غیر متزلزل یقین رکھتے تھے کہ انہیں ایک دن رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونا ہے۔ پھر ان کے چھوٹے بڑے اور معمولی و غیرمعمولی ہر طرح کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ اس کے بعد یا تو نعمتوں بھری دائمی جنت ہوگی یاعذاب سے بھڑکتی ہوئی جہنم۔ اس یقین کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی زندگی امید وبیم کی حالت میں گزارتے تھے۔ یعنی اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتے تھے اور اس کے عذاب کا خوف اور ان کی کیفیت وہی رہتی تھی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ : 

{ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ O  } (المؤمنون 

وہ جو کچھ کرتے ہیں دل کے اس خوف کے ساتھ کرتے ہیں کہ انہیں اپنے رب کے پاس پلٹ کر جانا ہے۔‘‘ 

انہیں اس بات کا بھی کامل یقین تھا کہ دنیا اپنی ساری نعمتوں اور مصیبتوں سمیت آخرت کے مقابلے میں مچھر کے ایک پر کے برابر بھی نہیں اور یہ یقین اتنا پختہ تھا کہ اس کے سامنے دنیا کی ساری مشکلات ، مشقتیں اور تلخیاں ہیچ تھیں ، اس لیے وہ ان مشکلات اور تلخیوں کوکوئی حیثیت نہیں دیتے تھے۔ 

انہی پر خطر اور مشکل ترین حالات میں ایسی سورتیں اور آیتیں بھی نازل ہورہی تھیں جن میں بڑے ٹھوس اور پر کشش انداز سے اسلام کے بنیادی اصولوں پر دلائل وبراہین قائم کیے گئے تھے اور اس وقت اسلام کی دعوت انہی اصولوں کے گرد گردش کر رہی تھی۔ ان آیتوں میں اہل اسلام کو ایسے بنیادی امور بتلائے جارہے تھے ، جن پر اللہ تعالیٰ نے عالم انسانیت کے سب سے باعظمت اور پر رونق معاشرے، یعنی اسلامی معاشرے کی تعمیر وتشکیل مقدر کر رکھی تھی۔ نیز ان آیات میں مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو پامردی و ثابت قدمی پر ابھارا جارہا تھا۔ اس کے لیے مثالیں دی جارہی تھیں اور اس کی حکمتیں بیان کی جاتی تھیں : 

{ أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللّٰهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيبٌ O } (البقره) 

’’تم سمجھتے ہوکہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ وہ سختیوں اور بد حالیوں سے دوچار ہوئے اور انہیں جھنجوڑ دیا گیا۔ یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ ان پر ایمان لائے تھے بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سنو ! اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔‘‘


{ الم ، أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ، وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ } (العنكبوت O 

’الٓمٓ۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انہیں یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لائے ، اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی، حالانکہ ان سے پہلے جولوگ تھے ہم نے ان کی آزمائش کی۔ لہٰذا (ان کے بارے میں بھی ) اللہ یہ ضرور معلوم کرے گا کہ کن لوگوں نے سچ کہا اور یہ بھی ضرور معلوم کرے گا کہ کون لوگ جھوٹے ہیں۔‘‘ 


اور ان آیات کے ساتھ ساتھ  ایسی آیات کا نزول بھی ہورہا تھا جن میں کفار ومعاندین کے اعتراضات کے دندان شکن جواب دیئے گئے تھے، ان کے لیے کوئی حیلہ باقی نہیں چھوڑا تھا اور انہیں بڑے واضح اور دوٹوک الفاظ میں بتلادیا گیا تھا کہ اگر وہ اپنی گمراہی اورعناد پر بضد رھے  توا س کے نتائج کس قدر سنگین ہوں گے۔ اس کی دلیل میں گزشتہ قوموں کے ایسے واقعات اور تاریخی شواہد پیش کیے گئے تھے جن سے واضح ہوتا تھا کہ اللہ کی سنت اپنے اولیاء اور اعداء کے بارے میں کیا ہے؟ ۔ پھر اس ڈراوے کے پہلو بہ پہلو لطف وکرم کی باتیں بھی کہی جارہی تھیں اور افہام وتفہیم اور ارشاد ورہنمائی کا حق بھی ادا کیا جارہا تھا تاکہ اسلام کے ماننے والے ھر طرح کی گمراہی سے بچ سکیں 

قرآن مسلمانوں کو کائنات کے مشاہد ، ربوبیت کے جمال ، الوہیت کے کمال ، رحمت کے آثار اور لطف ورضا کے ایسے ایسے جلوے دکھاتا تھا کہ ان کے جذب وکشش کے آگے کوئی رکاوٹ برقرار ہی نہ رہ سکتی تھی۔ 

پھر انہیں آیات کے اندر مسلمانوں سے ایسے ایسے خطاب بھی ہوتے تھے جن میں پروردگار کی طرف سے رحمت ورضوان اور دائمی نعمتوں سے بھری ہوئی جنت کی بشارت ہوتی تھیں اور ظالم وسرکش دشمنوں اور کافروں کے ان حالات کی تصویر کشی ہوتی تھی کہ وہ رب العالمین کی عدالت میں فیصلے کے لیے کھڑے کیے جائیں گے۔ ان کی بھلائیاں اورنیکیاں ضبط کر لی جائیں گی اور انہیں چہروں کے بل گھسیٹ کر یہ کہتے ہوئے جہنم میں پھینک دیا جائے گا کہ لو جہنم کا لطف اٹھاؤ۔  ان ساری باتوں کے علاوہ مسلمانوں کو اپنی مظلومیت کے پہلے ہی دن سے پوری زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تنگ بنی ہوئی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ اب وہ پنپ نہ سکیں گے بلکہ ان کا مکمل صفایا کردیا جائے گا مگر دوسری طرف ان ہی حوصلہ شکن حالات میں ایسی آیات کا نزول بھی ہوتا رہتا تھا جن میں پچھلے انبیاء کے واقعات اور ان کی قوم کی تکذیب وکفر کی تفصیلات مذکور ہوتی تھیں اور ان آیات میں ان کا جو نقشہ کھینچا جاتا تھا وہ بعینہٖ وہی ہوتا تھا جو مکے کے مسلمانوں اور کافروں کے مابین درپیش تھا۔اس کے بعد یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ ان حالات کے نتیجے میں کس طرح کافروں اور ظالموں کو ہلاک کیا گیا اور اللہ کے نیک بندوں کو ان کی زمین کا وارث بنایا گیا۔ اس طرح ان آیات میں واضح اشارہ ہوتا تھا کہ آگے چل کر اہل مکہ ناکام ونامراد رہیں گے اور مسلمان اور ان کی اسلامی دعوت کامیابی سے ہمکنار ہوگی، پھر انہی حالات وایام میں بعض ایسی بھی آیتیں نازل ہوتی تھیں جن میں صراحت کے ساتھ اہل ایمان کے غلبے کی بشارت موجود ہوتی تھی۔ مثلاً: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : 

{ وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ ، إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ ، وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ ، فَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّى حِينٍ ، وَأَبْصِرْهُمْ فَسَوْفَ يُبْصِرُونَ ، أَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُونَ ، فَإِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ}

(سورہ الصافات)

’’اپنے فرستادہ بندوں کے لیے ہمارا پہلے ہی یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ ان کی ضرور مدد کی جائے گی اور يقيناً ہمارا ہی لشکر غالب رہے گا۔ پس (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) ایک وقت تک کے لیے تم ان سے رخ پھیر لو اور انہیں دیکھتے رہو عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے۔ کیا یہ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچارہے ہیں تو جب وہ ان کے صحن میں اتر پڑے گا تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہوجائے گی۔‘‘ 

نیز ارشاد ہے : 

{ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَO 

سورہ  القمر )   

عنقریب اس جمعیت کو شکست دے دی جائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔‘‘ 


جُنْدٌ مَا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ مِنَ الْأَحْزَابِ} O 

(سورہ  ص)

یہ جتھوں میں سے ایک معمولی سا جتھہ ہے جسے یہیں شکست دی جائے گی۔‘‘ 


ھجرت کے بارے میں ارشاد ہوا : 

{ وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللّٰهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَO

(سورہ النحل)

جن لوگوں نے مظلومیت کے بعد اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہم انہیں يقيناً دنیا میں بہترین ٹھکانہ عطا کریں گے اور آخرت کا اجر بہت ہی بڑا ہے اگر لوگ جانیں۔‘‘ 

ایک جگہ رسولوں کا تذکرہ کر تے ہوئے ارشاد ہوا : 

{ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ ، وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِهِمْ ذَلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِO

(سورہ ابراھیم)

کفار نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں اپنی زمین سے ضرور نکال دیں گے یا یہ کہ تم ہماری ملت میں واپس آجاؤ۔ اس پر ان کے رب نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو يقيناً ہلاک کردیں گے اور تم کو ان کے بعد زمین میں ٹھہرائیں گے۔یہ (وعدہ) ہے اس شخص کے لیے جومیرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے اور میری وعید سے ڈرے۔‘‘

اسی طرح جس وقت فارس وروم میں جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے تو اس وقت اللہ نے یہ خوشخبری نازل فرمائی کہ چند بر س بعد رومی غالب آجائیں گے،  اسی ایک بشارت پر اکتفاء نہ کیا گیا بلکہ اس ضمن میں یہ بشارت بھی نازل فرمائی  گئی کہ رومیوں کے غلبے کے وقت اللہ تعالیٰ مومنین کی بھی خاص مدد فرمائے گا جس سے وہ خوش ہوجائیں گے۔ چنانچہ  سورہ روم میں اللہ کا ارشاد ہے

الٓـمٓ (1) 

ا ل مۤ۔

غُلِبَتِ الرُّوْمُ (2) 

روم مغلوب ہو گئے۔

فِىٓ اَدْنَى الْاَرْضِ وَهُـمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِهِـمْ سَيَغْلِبُوْنَ (3) 

نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے۔

فِىْ بِضْعِ سِنِيْنَ ۗ لِلّـٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ ۚ وَيَوْمَئِذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُـوْنَ (4) 

چند ہی سال میں، پہلے اور پچھلے سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہیں، اور اس دن مسلمان خوش ہوں گے۔

(اور آگے چل کر اللہ کی یہ مدد جنگ بدر کے اندر حاصل ہونے والی عظیم کامیابی اور فتح کی شکل میں نازل ہوئی ) 

قرآنی آیات کے علاوہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم  کو وقتاً فوقتاً اس طرح کی خوشخبریاں  سنایا کرتے تھے۔ چنانچہ موسم حج میں آپ عکاظ ، مجنہ اور ذو المجاز کے بازاروں میں لوگوں کے اندر تبلیغ کے لیے تشریف لے جاتے توصرف جنت ہی کی بشارت نہیں دیتے تھے، بلکہ دوٹوک لفظوں میں اس کا بھی اعلان فرماتے تھے : 

(( یاأیہا الناس قولو لا الہ الا اللّٰه تفلحوا وتملکوا بہا العرب وتدین لکم بہا العجم فاذا متم کنتم ملوکاً فی الجنۃ 

’لوگو! لاالٰہ الا اللہ کہو کامیاب رہو گے اور اس کی بدولت عرب کے بادشاہ بن جاؤ گے اور اس کی وجہ سے عجم بھی تمہارے زیر نگیں آجائے گا۔ پھر جب تم وفات پاؤ گے تو جنت کے اندر بادشاہ رہوگے۔‘‘ 

جب عتبہ بن ربیعہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو متاعِ دنیا کی پیشکش کر کے سودے بازی کرنی چاہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں “حمٓ تنزیل السجدہ”  کی آیات پڑھ کر سنائیں تو عتبہ یہ سمجھ گیا تھا کہ انجام کار آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ھی غالب رہیں گے۔ 

اسی طرح ابوطالب کے پاس آنے والے قریش کے آخری وفد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گفتگو  کرتے ھوئے پوری صراحت کے ساتھ فرمایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے صرف ایک بات چاہتے ہیں جسے وہ مان لیں تو عرب ان کا تابع فرمان بن جائے گا ، اور عجم پر ان کی بادشاہت قائم ہوجائے۔ 

حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ ایک بار میں خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کعبہ کے سائے میں ایک چادر کو تکیہ بنائے تشریف فرما تھے۔ اس وقت ہم مشرکین کے ہاتھوں سختی سے دوچار تھے۔ میں نے کہا : کیوں نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ان کفار کے لئے بد دعا فرمائیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ بیٹھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جولوگ تم سے پہلے تھے، ان کی ہڈیوں تک گوشت اور اعصاب میں لوہے کی کنگھیاں کردی جاتی تھی لیکن یہ سختی بھی انہیں دین سے باز نہ رکھتی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس امر کو، یعنی دین کو مکمل کرکے رہے گا، یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک جائے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا۔ یہ بشارتیں کچھ ڈھکی چھپی نہ تھیں، بلکہ معروف ومشہور تھیں اور مسلمانوں ہی کی طرح کفار بھی ان سے واقف تھے۔ چنانچہ جب اسود بن مطلب اور اس کے رفقاء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھتے تو طعنہ زنی کرتے ہوئے آپس میں کہتے کہ لیجئے !آپ کے پاس روئے زمین کے بادشاہ آگئے ہیں۔ یہ جلد ہی شاہانِ قیصر وکسریٰ کو مغلوب کرلیں گے۔ اس کے بعد وہ سیٹیاں اور تالیاں بجاتے۔ بہر حال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف اس وقت ظلم وستم اور مصائب وآلام کا جو ہمہ گیر طوفان برپا تھا اس کی حیثیت حصولِ جنت کی ان یقینی امیدوں اور تابناک وپر وقار مستقبل کی ان بشارتوں کے مقابل اس بادل سے زیادہ نہ تھی جو ہوا کے جھٹکے سے بکھر کر تحلیل ہوجاتا ہے۔ 

علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل ایمان  کو ایمانی مرغوبات کے ذریعے مسلسل روحانی غذا فراہم کررہے تھے۔ تعلیم کتاب و حکمت کے ذریعے ان کے نفوس کا تزکیہ فرمارہے تھے۔ نہایت دقیق اور گہری تربیت دے رہے تھے اور روح کی بلندی ، قلب کی صفائی ، اخلاق کی پاکیزگی، مادیات کے غلبے سے آزادی ،  اور رب السموات والارض کی کشش کے مقامات کی جانب ان کے نفوسِ قدسیہ کی رھنمائی فرمارہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے دلوں کی بجھتی ہوئی چنگاری کو بھڑکتے ہوئے شعلوں میں تبدیل کردیتے تھے اور انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور ہدایت میں پہنچارہے تھے۔ انہیں اذیتوں پر صبر کی تلقین فرماتے تھے اور  درگزر کرنے کی ہدایت دیتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی دینی پختگی شیادہ سے زیادہ ہوتی گئی اور وہ شہوات سے کنارہ کشی ، رضائے الٰہی کی راہ میں جاں نثاری ، جنت کے شوق ، علم کی حرص، دین کی سمجھ ، نفس کے محاسبے ، جذبات کو دبانے ، رجحا نات کو موڑنے ، ہیجانات کی لہروں پر قابو پانے اور صبر وسکون اور عزّووقار کی پابندی کرنے میں انسانیت کا ایک نادر نمونہ بن گئے۔

مذکورہ بالا اسباب کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم  کی ان عظیم قربانیوں کا سب سے بڑا ، بنیادی اور اہم سبب اللہ کی ذاتِ واحد پر مکمل ایمان اور اس کی  کامل معرفت تھی جو انہیں رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے صحبت میں رھنے سے مکمل طور پر حاصل  ھو گئی تھی  ۔ یہ ایک حقیقت ھے کہ جب ایمان کی بشاشت دلوں میں پیدا ہو جاتی ہے تو  پھر انسان پہاڑوں سے بھی ٹکرا جاتا ہے اور اسی کا پلہ بھاری رہتا ہے اور جو شخص ایسے ایمانِ محکم اور یقینِ کامل سے بہرہ ور ہو وہ دُنیا کی مشکلات کو خواہ وہ جتنی بھی زیادہ ہوں اور جیسی بھی خطرناک اور سخت ہوں، اپنے ایمان کے بالمقابل اسے ایک تنکے  سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا جو کسی بند توڑ اور قلعہ شکن سیلاب کی بالائی سطح پر ٹوٹ کر گر جاتا ھے یا پھر پانی کا وہ بلبلا جو چند سیکنڈ  میں خودبخود ختم ھو جاتا ھے  اس لیے مومن اپنے ایمان کی حلاوت، یقین کی تازگی اور اعتقاد کی بشاشت کے سامنے ان مشکلات کی کوئی پرواہ نہیں کرتا  چنانچہ ارشادِ باری تعالی ھے 

{فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الأَرْض} (الرعد)

جو جھاگ ہے وہ تو بے کار ہو کر اڑ جاتا ہے اور جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے وہ زمین میں برقرار رہتی ہے‘‘ 

پھر رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی شاندار قیادت سے ایسے اور کئی اسباب وجود میں آتے تھے  جو  صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم  کے اِس صبروثبات کو قوت بخشتے تھے مثلًا: طبیعتیں خود بخود آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر نچھاور ہوتی تھیں، کیونکہ جن کمالات پر لوگ جان چھڑکتے ہیں ان سے آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اتنا بھرپور حصہ ملا ھوا  تھا کہ اتنا کسی اور انسان کو دیا ہی نہیں گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم شرف وعظمت اور فضل و کمال کی سب سے بلند چوٹی پر جلوہ فگن تھے، عفت و امانت، صدق و صفا اور جملہ امورِ خیر میں آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو وہ امتیازی مقام تھا کہ رفقاء تو رفقاء آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دشمنوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی یکتائی و انفرادیت پر کبھی شک نہیں گذرا۔ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زبان سے جو بات نکل گئی، دشمنوں کو بھی یقین ہو گیا کہ وہ سچی ہے اور ہو کر رہے گی۔ بہت سے  واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں۔ 

ایک بار مشرکینِ قریش کے  تین اشخاص اکٹھے ہوئے جن میں سے ہر ایک نے اپنے بقیہ دو ساتھیوں سے چھپ چھپا کر  رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے قرآنِ مجید سنا تھا لیکن بعد میں ہر ایک کا راز دوسرے پر فاش ہو گیا تھا۔ ان ہی تین آدمیوں میں سے ایک ابوجہل بھی تھا۔ تینوں اکٹھے ہوئے تو ایک نے ابوجہل سے دریافت کیا کہ بتاؤ تم نے جو کچھ محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) سے سنا ہے اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ ابو جہل نے کہا: “بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے اور بنو عبدِ مناف نے شرف و عظمت میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے (غرباء و مساکین کو) کھلایا تو ہم نے بھی کھلایا، انہوں نے حجاج کو سواریاں عطا کیں تو ہم نے بھی عطا کیں، انہوں نے لوگوں کو عطیات سے نوازا تو ہم نے بھی ایسا کیا، یہاں تک کہ جب ہم اور وہ  ایک دوسرے کے ہم پلہ ہو گئے اور ہماری اور ان کی حیثیت دوڑ کے دو مدِّ مقابل گھوڑوں کی سی ہو گئی تو اب بنو عبدِ مناف کہتے ہیں کہ ہمارے اندر ایک نبی (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم )  آیا ہے جس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ بھلا بتائیے اب ہم  اس میں اُن کا مقابلہ کیسے کریں ؟ خدا کی قسم! ہم اس شخص پر کبھی ایمان نہ لائیں گے، اور اس کی ہرگز تصدیق نہ کریں گے چنانچہ ابو جہل کہا کرتا تھا “اے محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے لیکن تم جو کچھ لے کر آئے ہو اس کی تکذیب کرتے ہیں” اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: 

{فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّٰهِ يَجْحَدُونَ} (الأنعام 

"یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے، بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔" 

ایک روز کفار نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو تین بار لعن طعن کی اور تیسری دفعہ میں آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا کہ اے قریش کی جماعت! میں تمہارے لئے ذبح (کا حکم) لے کر آیا ہوں تو یہ بات ان  کفار پر اس طرح اثر کر گئی کہ جو شخص عداوت میں سب سے بڑھ کر تھا وہ بھی بہتر سے بہتر جو جملہ پا سکتا تھا اس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو راضی کرنے کی کوشش میں لگ گیا تاکہ وہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی بد دعا سے بچ سکے۔ 

جاری ھے۔۔۔۔۔۔

Share: