قسط نمبر (58) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

  رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفرِ طائف  


مکہ مکرمہ کے حالات

حضرت ابو طالب کے انتقال کے بعد ابو لہب  جو اسلام کا کٹر دشمن تھا ، قبیلۂ بنی ھاشم کا سردار بن گیا  تھا ۔ شروع شروع میں تو اُس نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے نرمی کا برتاؤ کیا لیکن جلد ھی وہ اپنی کمینی حرکتوں پر اُتر آیا ۔ اُس نے حضور آکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو قبیلہ بدر کرنے کا اعلان کر دیا کہ ”میں نے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اپنے قبیلے سے نکال دیا ھے اور آج کے بعد ہمارے قبیلہ کا ان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں“۔

جزیرۃ العرب میں جب کسی کو قبیلے سے نکال دیا جاتا تھا تو اس کی حیثیت اس قدر ناچیز ہوجاتی تھی کہ اسے قبائلی جرگہ میں انصاف کی درخواست کرنے کا بھی حق نہیں تھا۔جزیرۃ العرب میں قبیلے سے خارج ہونے والا شخص تمام سماجی اور معاشی حقوق سے محروم ہوجاتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں اُس سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا جاتا تھا۔

 مکہ کے سرداروں نے  ابو لہب کی ایما پر حضور آکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی تبلیغ پر بھی پابندی لگادی تھی۔ حضور آکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو کسی اجتماع سے خطاب کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان حالات میں حضورآکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے مکے کے قرب و جوار کے شہر اور بستیوں  میں جا کر اسلام کی دعوت دینے کا ارادہ فرمایا  تاکہ وہاں کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا جائے۔ اس سے پہلے جب ابو طالب زندہ تھے تو  رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نو سال تک مکہ مکرمہ میں تبلیغ فرماتے رہے اور قوم کی ہدایت اور اصلاح کی کوشش فرماتےرہے،لیکن تھوڑی سی جماعت کے سوا جو مسلمان ہوگئی تھی اور تھوڑے سے ایسے لوگوں کے علاوہ جو باوجود مسلمان نہ ہونےکےآپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی مدد کرتے تھے ۔ اکثر کفار مکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے صحابہ ؓ کو ہر طرح کی تکلیفیں پہنچاتے تھے ۔ مذاق اڑاتےتھےاور جو ھو سکتا تھا اس سے  گریز  نہ کرتے تھے ۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے چچا ابو طالب بھی انہی نیک دل لوگوں میں تھے جو باوجود مسلمان نہ ہونے کے حضور آکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ہر قسم کی مدد فرماتے تھے ۔

نبوت کے دسویں سال میں جب ابو طالِب کا بھی انتقال ہوگیا  اور اُن کی جگہ ابو لہب قبیلۂ  بنی ھاشم کا سردار بن گیا تو کافروں کو اور بھی ہر طرح کھلے مہار اسلام سے روکنے اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کا موقع ملا۔  اللہ تعالی کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو تبلیغ اسلام کی پاداش میں مشکلات ، مصائب ، تکالیف ، آزمائشوں ، اذیتوں اور امتحانات سے دوچار ہونا پڑا۔ مکہ میں جان لیوا مظالم ، جانثاروں کی مظلومانہ بے بسی اور حبشہ کی جانب ہجرت ، شعب ابی طالب کا تین سالہ محاصرہ و مقاطعہ (سوشل بائیکاٹ ) قریشیوں کے ستم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا ۔ یہاں تک کہ ابو لہب اور عقبہ بن ابی معیط کی حکم پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے سر مبارک پر غلاظتیں انڈیلی گئیں ،انہی دشمنان اسلام کے کہنے پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، انہی کے اشارہ  پر کاشانہ نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں برتنوں کو خراب کیا گیا ، پکتی ہوئی ہنڈیا کو اوندھا کیا گیا ، خدا تعالیٰ کے حلال کردہ رزق میں حرام پلیدی ڈال دی گئی ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے جسم مبارک پراونٹوں کے اوجھ ڈالے گئے ، گرد وغبار سے جسم اور لباس مبارک آلودہ کرنے کی بیباکانہ جسارت بھی کی گئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیاں یہ صورتحال دیکھ کر دل گیر ہوئیں اور ان کی زبان مبارک سے بددعائیہ جملے نکلے تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا:

 لا تبکی یابُنیۃ فان اللہ مانع اباک۔ 

اے بیٹی دلگیر نہ ہو تیرے باپ کا اللہ خود محافظ ہے۔

 گویا ظلم ، ستم ، اذیت ، تکلیف ، ذہنی کوفت اور جسمانی تشدد جیسا وحشیانہ اور غیر انسانی برتاؤ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے برتا گیا لیکن ان سب کچھ کے باوجود آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے صبر وتحمل ،عفو و درگزر ، ضبط و برداشت اور استقلال میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی اور آج تک تاریخ کا ورق ورق آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے رحم و کرم ، عزیمت، ثابت قدمی اورفراخی حوصلہ کی داستانیں سنا رہا ہے،جب مکہ کے بچے بچے دشمنی کرنے پر تل گئے تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مکہ سے باہر کی طرف نظر دوڑائی اور طائف کی طرف سفر کا ارارہ فرمایا۔


طائف کی طرف سفر 

طائف مکہ سے تقریباً ایک سو کیلو میٹر  کے فاصلے پر ایک خوب صورت وادی ھے۔ جو  زرخیز باغات اور پہاڑ وں سے مزین علاقہ ہے۔ مکہ کے سردا وں نے یہاں اپنی کوٹھیاں بنا رکھی تھیں ، قبیلہ ثقیف یہاں آباد تھا، یہ عرب کا طاقتور قبیلہ تھا ، قریش کی اس قبیلہ سے رشتہ داریاں بھی تھیں، یہاں تین بھائی عبدیالیل ، مسعود اور حبیب اس قبیلہ کے سردار تھے۔

بعثت نبوی کا 10 واں سال شوال المکرم کا مہینہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فریضہ تبلیغ کے لیے(غالباً پیدل ) یہاں پہنچے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے ، دس دن یہاں قیام فرمایا، عوام و خواص کے سامنے دین اسلام پیش کیا ، معززین علاقہ کے مکانوں پر تشریف لے گئے اور انہیں دعوت اسلام قبول کرنے کو کہا لیکن سب نے بے رخی کا مظاہرہ کیا 


طائف کے سرداروں کو اسلام کی دعوت

آخر کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں کے سرداروں عبدیالیل ، مسعود اور حبیب کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے سامنے اپنے آنے کا مقصد واضح فرمایا۔ لیکن ان بدقسمتوں کی بدنصیبی تو دیکھیے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی دعوت کو نہ صرف ٹھکرایا بلکہ نہایت گستاخانہ رویہ اپناتے ہوئے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا مذاق اڑایا ، ایک نے طنز کا نشتر چبھوتے ہوئے کہا: اگر خدا تعالیٰ نے تجھے رسول بنا کر بھیجا ہے تو وہ خانہ کعبہ کی عزت پامال کر رہا ہے۔ دوسرے نے پھبتی کستے ہوئے کہا :اللہ کو تیرے علاوہ اور کوئی نہیں ملا جسے وہ رسول بنا کر بھیجتا۔ تیسرے نے آوازہ کستے ہوئے کہا: اللہ کی قسم !میں تیرے ساتھ بات نہیں کرتا اگر تو واقعی اللہ کا رسول ہے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے تو رسول کی شان یہ نہیں کہ اس سے بحث کی جائے اور اگر تو خدا پر جھوٹ بول رہا ہے تو میری شان یہ نہیں کہ تجھ جیسے جھوٹے سے بات کروں۔


طائف والوں کا گستاخانہ اور اذیت ناک رویہ

ًطائف کے سرداروں نے طائف کے اوباشوں اور آوارہ لڑکوں  کو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پیچھا لگا دیا۔ کوئی تالی بجاتا ، کوئی سیٹی بجاتا، کوئی جملے کستا ، کوئی ہلڑ بازی کرتا ، شور، ہڑبونگ اور اودھم مچاتے ہوئے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو طائف کی گلیوں میں لے آئے یہاں دونوں طرف لوگ صف بنائے پتھر ہاتھوں میں لیے کھڑے تھے ، جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا گزر وہاں سے ہوا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارنا شروع کیے ، سر مبارک سے لے کر پاؤں مبارک بلکہ نعلین مبارک  تک آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  لہولہان ہو گئے ، پنڈلیوں اور گھٹنوں پر گہرے زخم آئے۔ بدن مبارک سے خون مبارک بہتا بہتا قدموں تک پہنچا قدموں سے رستا ہوا نعلین مبارک تک پہنچ گیا ، نعلین اور قدمین آپس میں خون کی وجہ سے چمٹ گئے۔ حضرت زید بن حارثہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو بچانے کے لیے کبھی آگے آتے کبھی دائیں بائیں اورکبھی پیچھے ان کا بھی سر لہولہان ہو گیا۔ پتھروں کے برستی بارش میں کبھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بیٹھ جاتے تو طائف والے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو دوبارہ کھڑا کر دیتے ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم چند قدم چلتے پھر بیٹھ جاتے اور وہ دوبارہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑا کرتے اور پتھر برساتے جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بے ہوش ھو کر گر پڑے تو حضرت زید بن حارثہ نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو اٹھایا ، قریب ہی کچھ پانی تھا وہاں لے گئے تاکہ خون کے دھبے دھوئیں ، 


رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم انگوروں کے باغ میں اور اللہ کے حضور دعا

جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی  طبیعت کچھ سنبھلی تو قریب میں آنگوروں کا ایک باغ تھا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم انگور کی سایہ دار بیل کے نیچے تھوڑی دیر لیٹ گئے اور معبود برحق کی بارگاہ میں عابد حق پرست بن کر مناجات و دعا میں مشغول ہو گئے۔آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے سوز و گداز ، تڑپ اور درد اور زخموں کی ٹیس سے نالہ فریاد میں وہ تاثیر پیدا کی جس سے عرش بریں تک کانپ اٹھا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے بارگاہ ایزدی  میں یہ دُعا مانگی:

اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَ قِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَ ھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ یَا اَرحَمَ الرَّاحِمِینَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَ اَنْتَ رَبِّی اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ، اِلٰی بَعِیْدٍ یَتَجَھَّمُنِیْ اَمْ اِلٰی عَدُوٍّ مَلَّکْتَہٗ اَمْرِیْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ بِکَ عَلَیَّ غَضَبٌ فَلَا اُبَالِیْ وَ لٰکِنْ عَا فِیَتُکَ ھِیَ اَوْسَعُ لِیْ اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَ جْھِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمٰاتُ وَ صَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُ الدُّنْیٰا وَ الْآخِرَۃِ مِنْ اَنْ تُنْزِلَ بِیْ غَضَبکَ اَوْ یَحُلَّمیں عَلَیَّ سَخَطُکَ لَکَ الْعُتْبٰی حَتّٰی تَرْضٰی وَ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِک۔( سیرۃ ابن ھشام )۔

’’اے اللہ تجھی سے شکایت کرتا ہوں میں اپنی کمزوری اور بیکسی کی اور لوگوں میں ذلت اورسوائی کی ۔ اے ار حم الراحمین تو ہی ضعفاء  کارب ہے اور تو ہی میرا پروردگار ہے، تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے ۔ کسی اجنبی بیگانہ کے جو مجھے دیکھ کر ترش رُو ہوتا ہے اور منہ چڑھاتاہے یاکہ کسی دشمن کے جس کو تو نے مجھ پر قابو دیدیا۔ اے اللہ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ تیری حفاظت مجھے کافی ہے میں تیرے چہرہ کے اُس نورکے طفیل جس سے تمام اندھیریاں روشن ہو گئیں اورجس سے دنیا اور آخرت کےسارے کام درست ہو جاتے ہیں اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ مجھ پر تیرا غصہ ہو یا تو مجھ سے ناراض ہو تیری نارضگی کا اس وقت تک دورکرنا ضروری ہے جب تک تو راضی نہ ہو، نہ تیرے سوا کوئی طاقت ہے نہ قوت 


حضرت جبرائیل علیہ السلام  اور ملک الجبال کی حاضری

رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی دعا پر مالک الملک کی شانِ قہاری کو جوش آنا ہی تھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آکر سلام کیا اور عرض کیا  یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی قوم کی وہ گفتگو جو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے ہوئی سنی اور اُن کے جوابات سنےاورایک فرشتہ کو جس کے متعلق پہاڑوں کی خدمت ہے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس بھیجا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جو چاہیں اس کو حکم دیں ، اس کے بعد اس ملک الجبال  نے سلام کیا اور عرض کیا کہ جو اِرشاد ہو میں اس کی تعمیل کروں اگر ارشاد ہو تو دونوں جانب کے پہاڑوں کو ملا دوں جس سے یہ سب درمیان میں کچل جائیں یا اور جو سزا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  تجویز فرمائیں  ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت  آزمائش کے دوہرائے پر کھڑے تھے ، ایک آزمائش اہل طائف نے آپ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ، دوسری آزمائش کہ جبرائیل امین اور ملک الجبال ان کو پیس ڈالنے کی فرمائش کے منتظر کھڑے ہیں۔ پہلا امتحان تھا صبر وضبط ، تحمل و برداشت اور استقلال کا اور دوسرا امتحان تھا دعویٰ رحم و کرم کا ، فراخی حوصلہ اور وسعت ظرفی کا۔اللہ کریم نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو دونوں آزمائشوں میں کامیاب فرمایا ،دریا دلی والے دلِ رحمت میں کرم کی ایک موج اٹھی اور اہل طائف کی قسمت کے سفینے کو پار لگا دیا ، فرشتوں کو جواب دیا :

 ارجوا ان یخرج اللہ من اصلابھم من یعبداللہ ولا یشرک بہ شیئا 

اگر یہ بد نصیب ایمان نہیں لائے تو کیا ہوا میں ان کی آنے والی نسل سے ہرگز ناامید نہیں ہوں ، مجھے اللہ کی ذات پر مکمل یقین اور بھروسہ ہے کہ وہ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو اللہ کی عبادت کریں  اور اس میں کسی کو شریک نہ کریں ۔ 


اُحد سے بھی زیادہ سخت دن 

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے پوچھا کہ کیا اُحُد سے بھی زیادہ سخت دن آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر گزرا ہے؟ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا ہاں اور طائف کی طرف جانے کا واقعہ ذکر فرمایا چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کی روایت کردہ اس حدیث میں اس واقعہ کا کچھ منظر بیان ھوا ھے 

عن عائشة - رضي الله عنها- أنها قالت للنبي - صلى الله عليه وسلم - : هل أتى عليك يوم كان أشد من يوم أُحُدٍ ؟ قال: «لقد لقيت من قومك، وكان أشد ما لقيت منهم يوم العقبة، إذ عرضت نفسي على ابن عبد يَالِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، فلم يجبني إلى ما أردت، فانطلقت وأنا مهموم على وجهي، فلم أستفق إلا وأنا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ، فرفعت رأسي، وإذا أنا بسحابة قد أظلتني، فنظرت فإذا فيها جبريل - عليه السلام - فناداني، فقال: إن الله تعالى قد سمع قول قومك لك، وما ردوا عليك، وقد بعث إليك ملك الجبال لتأمره بما شئت فيهم. فناداني ملك الجبال، فسلم علي، ثم قال: يا محمد إن الله قد سمع قول قومك لك، وأنا ملك الجبال، وقد بعثني ربي إليك لتأمرني بأمرك، فما شئت، إن شئت أطبقت عليهم الْأَخْشَبَيْنِ».   

[صحيح] - [متفق عليه]       المزيــد ...

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے پوچھا، کیا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر کوئی دن اُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اس پر فرمایا کہ تمہاری قوم (قریش) کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا یہ وہ موقع تھا جب میں نے (طائف کے سردار)  ابنِ  عبد یا لیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔ لیکن اس نے (اسلام کو قبول نہیں کیا اور) میری دعوت کو رد کر دیا۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا۔ پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا، تب مجھ کو کچھ ہوش آیا، میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ جبرائیل علیہ السلام اس میں موجود ہیں، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بارے میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے رد کیا ہے وہ بھی سن چکا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی، انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا، میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں، اللہ تعالی نے مجھے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی طرف بھیجا ہے تاکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جو چاہیں (اس کا مجھے حکم فرمائیں) اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں (جن سے وہ چکنا چور ہو جائیں)۔    

صحیح - متفق علیہ



ِحضرت عداس  رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام 

جس  باغ میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے پناہ لی تھی وہ باغ مکہ کے مشہور سردار عتبہ اور شیبہ بن ربیعہ کا تھا ،اس وقت یہ دونوں بھائی وہاں موجود تھے ، انہیں غیرت آئی کہ ہمارے شہر کے ایک معزز شخص سے طائف والوں نے بہت ناروا سلوک کیا ہے ،  رشتۂ قرابت کے جوش میں غیرت تو آئی لیکن شرم پھر بھی نہیں آئی ، اُن میں اتنی اخلاقی ہمت پیدا نہیں ہوئی کہ خود آکر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے بات چیت کرتے۔ چنانچہ اپنے ایک غلام کو انگوروں کے خوشے دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور کہا کہ اُنہیں  کہنا کہ اس میں سے کچھ آنگور ضرور کھا لیں ۔ اس  غلام کا نام عداس تھا اور مذہباً  وہ عیسائی تھا۔ وہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس آیا انگور پیش کیے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے انگور کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو زبان مبارک پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  کے الفاظ جاری ہو گئے ۔ عداس کہنے لگا : یہاں کے لوگ تو الرحمٰن الرحیم نہیں کہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کہاں کے رھنے والے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ نینویٰ کے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا :وہی نینویٰ جو میرے بھائی حضرت یونس علیہ السلام کا وطن تھا۔ وہ حیرت زدہ ہو کر پوچھنے لگا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  یونس علیہ السلام کو کیسے جانتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا میرے اور ان کے درمیان نبوت کا رشتہ ہے وہ بھی اللہ کے نبی تھے اور میں بھی اللہ کا بھیجا ہوا نبی ہوں۔

 یہ سن کر عداس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک پڑا اور آپ کے سر ، ہاتھوں اور پاؤں  مبارک کو بوسہ دینے لگا   اور فورا اسلام قبول کر لیا ۔ ربیعہ کے دونوں بیٹے  یہ منظر دیکھ رھے تھے اُنہوں نے آپس میں کہا لو بھئی: اب اس شخص نے ہمارے غلام کو بھی بگاڑ دیا ھے ۔ اس کے بعد جب عداس واپس گیا تو دونوں نے اس سے کہا ۔ یہ کیا معاملہ تھا ۔ اس نے کہا میرے آقا  اس وقت روئے زمین پر اس شخص سے بہتر کوئی اور نہیں ھے ۔ اس نے مجھے ایسی بات بتائی ہے جسے نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ ان دونوں نے کہا ۔ دیکھو عداس کہیں یہ شخص تمہیں تمہارے دین سے نہ پھیر دے ۔ کیونکہ تمہارا دین اس کے دین سے بہرحال بہتر ہے ۔ 


رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا عداس رضی اللہ عنہ کے ھمراہ طائف سے خروج 

عداس  رضی اللہ عنہ نے  رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم!  ”اگرچہ میرے آقا عتبہ نے مجھے یہ کہا تھا کہ حضورآکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو انگور پیش کرو  لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اس باغ میں پناہ نہیں دے گا۔ میں گو اُن کا غلام ھوں لیکن اتنا ضرور کرسکتا ہوں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو لوگوں کی نظروں سے سے بچا کر طائف سے باہر لے جاؤں۔“ نو مسلم  خدمتگار عداس نے اپنے وعدے پر عمل کیا اور جیسے  ہی رات تاریک ہوئی رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو طائف کے شہر سے باہر لے آیااور عرض کیا: ”اللہ کے برگذیدہ بندے !اس شہر سے دور نکل جایئے کہ یہاں کے لوگ  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دشمن ہیں ۔ عداس کے قبول اسلام نے گویا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے زخموں پر مرہم کا کام کیا، طائف سے واپسی پر جنات کی ایک جماعت نے اسلام قبول کیا۔


 طائف سے واپسی پر مقامِ نخلہ میں قیام اور جن٘ات کی حاضری

طائف سے واپسی پر رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے چند روز نخلہ کے مقام پر قیام فرمایا ۔ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  پریشان تھے کہ اب کیسے مکہ واپس جاؤں۔ طائف میں جو کچھ گزری ہے اس کی خبریں بھی وہاں پہنچ چکی ہوں گی۔ اس کے بعد تو کفار پہلے سے بھی زیادہ دلیر ہو جائیں گے۔ ان ہی ایام میں ایک روز رات کو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نماز میں قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جِنوں کے ایک گروہ ، کا ادھر سے گزر ہوا  یہ نصیبین کے رھنے والے جنات تھے اور ان جنات کی تعداد نو یا بعض روایات کے مطابق سات تھی ۔ انہوں نے قرآن سُنا، ایمان لائے، واپس جا کر اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ شروع کر دی، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو یہ خوش خبری سنائی کہ انسان چاہے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی دعوت سے بھاگ رہے ہوں، مگر بہت سے جِن اس کے گرویدہ ہو گئے ہیں اور وہ اسے اپنی جنس میں پھیلا رہے ہیں۔

واقعۂ جنات کے قرآن سننے اور ایمان لانے کا ذکر احادیث صحیحہ میں اس طرح آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعثت کے وقت جب جنات کو آسمانی خبریں سننے سے روک دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی نبوت و بعثت کے بعد جو جن آسمانی خبریں سننے کے لئے اوپر جاتا تو اس پر شہباب ثاقب پھینک کردفع کردیا جانے لگا۔ جنات میں اس کا تذکرہ ہوا کہ اس کا سبب معلوم کرنا چاہئے کہ کونسا نیا واقعہ دنیا میں ہوا ہے جس کی وجہ سے جنات کو آسمانی خبروں سے روک دیا گیا۔ جنات کے مختلف گروہ دنیا کے مختلف خطوں میں اس کی تحقیقات کے لئے پھیل گئے۔ ان کا ایک گروہ حجاز کی طرف بھی پہنچ گیا اور مقامِ نخلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نماز میں قرآن پاک کی تلاوت فرما رھے تھے جنات کا یہ گروہ یہ تلاوت سن کر مسلمان ھو گیا

 جنات کی آمد کا ذکر  قرآن مجید میں دو جگہ آیا ہے۔ ایک سورۃ الاحقاف میں ، دوسرے سورہ ٔ جن میں ، 

سورۃ الاحقاف کی آیات یہ ہیں :

وَإِذْ صَرَ‌فْنَا إِلَيْكَ نَفَرً‌ا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْ‌آنَ فَلَمَّا حَضَرُ‌وهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِ‌ينَ ﴿٢٩﴾ قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِ‌يقٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٣٠﴾ يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّـهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ‌ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْ‌كُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍO 

اور جب کہ ہم نے آپ کی طرف جنوں کے ایک گروہ کو پھیر اکہ وہ قرآن سنیں تو جب وہ( تلاوت) قرآن کی جگہ پہنچے توانہوں نے آپس میں کہا: چپ ہوجاؤ۔ پھر جب اس کی تلاوت پوری کی جاچکی تووہ اپنی قوم کی طرف عذاب الٰہی سے ڈرانے والے بن کر پلٹے۔ انہوں نے کہا: اے ہماری قوم ! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے۔ اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے حق اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔اے ہماری قوم ! اللہ کے داعی کی بات مان لو اور اس پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے بچائے گا۔

صحیح بخاری)  )

ان آیات کی تفسیر میں جو روایات حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زبیر، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرات حسن بصری، سعید بن حبیر، زر بن حبیش، مجاہد، عکرمہ اور دوسرے بزرگوں سے منقول ہیں وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ جنوں کی پہلی حاضری کا واقعہ، جس کا اس آیت میں ذکر ہے، بطن نخلہ میں پیش آیا تھا۔ اور ابن اسحاق، ابو نعیم اصفہانی اور واقدی کا بیان ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم طائف سے مایوس ہو کر مکہ معظمہ کی طرف واپس ہوئے تھے۔ راستہ میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے نخلہ میں قیام کیا۔ وہاں عشاء یا فجر یا تہجد کی نماز میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم قرآن  پاک کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی قرأت سننے کے لیے ٹھہر گیا۔ اس کے ساتھ تمام روایات اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اس موقع پر جن حضور آکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے سامنے ظاھر نہیں ھوئے تھے، نہ ھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ان کی آمد کو محسوس فرمایا تھا بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو ان کے آنے اور قرآن سننے کی خبر دی۔  اس سے معلوم ہوا کہ یہی جن پہلے سے حضرت موسیٰ اور کتب آسمانی پر ایمان لائے ہوئے تھے۔ قرآن سننے کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ یہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء دیتے چلے آ رہے ہیں۔ اس لیے وہ اس کتاب اور اس کے لانے والے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی ایمان لے آئے۔

سورۂ جن کی  آیات 

قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ‌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْ‌آنًا عَجَبًا ﴿١﴾ يَهْدِي إِلَى الرُّ‌شْدِ فَآمَنَّا بِهِ ۖ وَلَن نُّشْرِ‌كَ بِرَ‌بِّنَا أَحَدًا O

آپ کہہ دیں : میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور باہم کہا کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔ جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو ہرگز شریک نہیں کر سکتے۔'' (پندرہویں آیت تک )

۔ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد جنوں کے پے درپے وفود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہونے لگے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے ان کی رو برو ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اس بارے میں جو روایات کتب حدیث میں منقول ہوئی ہیں ان  سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ میں کم از کم  جنات کے چھ وفد آئے تھے۔

ان میں سے ایک وفد کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں رات بھر غائب رہے۔ ہم لوگ سخت پریشان تھے کہ کہیں پر کوئی حملہ نہ کر دیا گیا ہو۔ صبح سویرے ہم نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو حراء کی طرف سے آتے ہوئے دیکھا۔ پوچھنے پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے بتایا کہ ایک جن مجھے بلانے آیا تھا۔ میں نے اس کے ساتھ آ کر یہاں جنوں کے ایک گروہ کو قرآن سنایا۔ (مسلم۔ مسند احمد۔ ترمذی۔ ابوداؤد)


طائف سے واپسی پر مکہ مکرمہ میں داخلہ

جب حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم طائف کی واپسی پر مکہ کے قریب پہنچے تو حضرت زید بن حارثہ رضی اللّہ عنہ جو اُس وقت ان کے ساتھ تھے انہوں نے عرض کیا کہ۔ یا رسول اللّہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! ہم مکہ مکرمہ میں کیسے داخل ہوں گے؟ مکہ مکرمہ والوں کی  ھی وجہ سے تو ھم شہر چھوڑنے پر مجبور ھوئے تھے ۔ تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا کہ اے زید! اللّہ تعالی ضرور اس مصیبت سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کریں گے اور اللّہ ہی اپنے دین کا حامی اور مددگار ہے۔ وہ یقیناً اپنے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو سب پر غالب کرے گا۔

یہ الفاظ کہنے کے بعد جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  غارِ حرا  کے قریب پہنچے۔ وہاں سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اخنس بن شریق کو پیغام بھیجا کہ میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم تمہاری پناہ میں آنا چاہتا ہوں تاکہ مکہ میں داخل ہوجاؤں۔

اس نے کہا کہ

میں تو قریش کا حلیف ہوں اس لئے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو پناہ نہیں دے سکتا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے یہی پیغام  سہیل بن عمرو کے پاس بھیجا اور اس نے بھی یہی جواب دیا کہ بنو عامر اور بنو کعب کے مقابلے میں میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو پناہ نہیں دے سکتا۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے مطعم بن عدی کو پیغام بھیجا کہ کیا میں آپ کی پناہ میں مکہ آسکتا ہوں۔ مطعم بن عدی نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی اس پناہ لینے کی درخواست کو قبول کرلیا۔ مطعم بن عدی کے چھے بیٹے تھے۔ اس نے ان سب کو اور اپنی قوم کے لوگوں کو حکم دیا کہ  تم سب ہتھیار نکالو اور حرم کے دروازے پر جاکر کھڑے ہوجاؤ کیونکہ میں نے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو پناہ دے دی ہے۔ وہ خود اونٹ پر سوار ہوکر حرم کے پاس آکر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے سب کو مخاطب کرکے کہا کہ

میں نے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو پناہ دے دی ہے، اس لئے اے گروہ قریش! تم میں سے کوئی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو ہاتھ لگانے  کی کوشش نہ کرے ۔ 

پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  حرم میں داخل ہوئے، حجر اسود کو بوسہ دیا، طواف کیا ،ایک دوگانہ نفل ادا کئے اور اپنے مکان میں تشریف لے گئے۔ اس تمام اثناء میں مطعم بن عدی اور ان کے بیٹے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اپنے حلقے میں لیے رہے وھاں موجود رھے ۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اپنے گھر حفاظت کے ساتھ پہنچ گئے۔ ان کے اسی احسان کی وجہ سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے بدر کے دن جو قیدی تھے ان کی بابت یہ ارشاد فرمایا کہ

لَوْ کَانَ مُطْعمُ بْنُ عَدِیٍّ حَيًّا ثُمَّ کَلَّمَنِي فِي ھؤلاءِ النَّتْنَی لَتَرَکْتُھُمْ لَهُ۔

اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھ سے ان گندوں   کے متعلق کلام کرتا تو میں اس کی رعایت میں ان سب کو چھوڑ دیتا۔

اس طرح آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  مکہ واپس آئے۔ واپسی کے بعد بھی مکہ کے حالات وہی تھے جن سے دل برداشتہ ہوکر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے طائف کا رخ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اب بھی مکہ میں عبادت کرنے میں بہت تکلیف اٹھانی پڑتی تھی۔


سفرِ طائف کا سبق

سفرِ طائف سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دین اسلام کی تبلیغ کے لیے انتہائی کٹھن اور مشکل حالات بھی آئیں تو ثابت قدمی اور خندہ پیشانی سے برداشت کرنے چاہییں ، تبلیغ کی محنت کا نتیجہ اگر وقتی طور نظر نہ بھی آئے تو بھی اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے محنت کا ثمرہ کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ ضرور عطا فرماتے ہیں۔


جاری ھے ۔۔۔۔۔۔
Share: