قسط نمبر (59) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضي الله تعالی عنہ کا قبولِ اسلام


رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی طائف سے واپسی پر بہت سے اھم  واقعات رونما ھوئے ان میں ایک واقعہ حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللّہ عنہ کے اسلام لانے کا  ھے  جو مسلمانوں کے لئے ایک بڑی خوشی کا پیغام لے کر آیا لیکن مشرکین قریش پر  یہ واقعہ بہت  ھی شاق گزرا ۔ حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللّہ عنہ کا نسب بہت اعلیٰ تھا اور یہ اپنے قبیلے کے سردار تھے  اور بڑے ہی شریف الطبع، نیک طینت ،پاکیزہ خصلت ،قادر الکلام شاعر ،بڑے مہمان نواز ،اتنہائی زیرک اور صاحب حل وعقد لوگوں میں سے تھے۔ آپ کا شمار قبیلہ دوس کے روٴساء میں  ہوتا تھا 


نام و نسب

 حضرت طفیل دوسی رضی اللّہ عنہ بن عمرو بن طریف بن العاص بن ثعلبہ بن سلیم بن فہم بن غنم بن دوس بن عدنان ،بن عبداللہ بن زہران بن کعب بن الحارث بن عبداللہ بن نضر الازدی الدوسی، آپ کا لقب ذوالنور ھے (اسد الغابة ) نیز آپ کو ذوالقطنین بھی کہا جاتا ھے 


مکہ معظمہ میں آمد 

طفیل بن عمرو رضی اللّہ عنہ جب مکہ معظمہ میں تشریف لائے تو سرداران قریش نے بڑے پرجوش انداز میں آن کا استقبال کیا اور کہا !آپ چونکہ شاعر ہیں اور اپنی قوم کے سردار ہیں اس لیے ہم آپ سے ایک بات بڑی صاف صاف کہہ دینا چاہتے ہیں، وہ یہ کہ آپ ہمارے وطن میں تشریف لائے ہیں اور اس وقت یہاں کے خصوصاً مکہ مکرمہ کے حالات بڑے خراب  چل رہے ہیں ۔ہمارے یہاں ایک  محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نامی شخص نے ہمیں بڑی پریشانی میں مبتلا  کیا ھوا ہے، اس نے خاندانوں اور قبیلوں میں تفرقہ پیدا کر دیا ھوا  ہے، اس کی باتیں بڑی موٴثر اور سحر آفریں ہوتی ہیں، وہ اپنی باتوں کے ذریعہ  سے باپ  اور بیٹے کے درمیان ، بھائی بھائی  کے درمیان  ، بیوی اور شوہر کے درمیان  دوریاں  پیدا کردیتا ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ اس کا جادو کہیں آپ پر اور آپ کی قوم پر نہ چل جائے، اس لیے آپ ھرگز ہرگز اس سے بات نہ کیجیے گا اور نہ ھی اس کی باتوں کو سنیے گا ۔ وہ  بار بار حضرت طفیل رضی اللہ عنہ کو  تاکید کرتے رہے، یہاں تک کہ حضرت طفیل  بن عمرو رضی اللّہ عنہ نے انھیں یہ  یقین دلایا کہ میں اس  شخص سے ہرگز بات نہ کروں گا اور نہ ھی اس کی باتوں کو اپنے کان میں پڑنے دوں گا۔ اس کے بعد حضرت طفیل بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دونوں کانوں میں روئی ٹھونس لی کہ مبادا  رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی باتوں کو سننے کا میرا ارادہ نہ ہو، لیکن اچانک میرے کان میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی آواز  پڑے  اور اثر کر جائے ۔ارباب سیر و تاریخ  نےان کو ذوالقطنین کہنے کی یہی وجہ بیان کی ہے۔


حضرت طفیل بن عمرو کا  قبولِ اسلام

حضرت طفیل رضی اللّہ تعالی عنہ چونکہ بتوں کی پوجا کرتے تھے اس لئے حرم پاک میں بیتِ عتیق کے طواف اور بتوں کے دیدار اور پرستش کی غرض سے علی الصبح  پہنچے ادھر رسول کریم  صلی الله علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس نماز میں مشغول تھے ۔حضرت طفیل دوسی رضی اللّہ عنہ نے جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو نماز کی حالت میں دیکھا تو یہ منظر انھیں بہت ھی آچھا لگا اور وہ غیر اختیاری طور پر حضور آکرم صلی الله علیہ وسلم سے قریب ہوتے گئے، یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی قراءت اور تکبیرات کی آواز ان کے کانوں میں پڑنے لگی ،انہوں نے دل ہی دل میں کہا یہ تو بہت ھی عمدہ کلام  لگتا ہے، اپنے دل میں ارادہ کیا کہ میں اپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی باتوں کو ضرور سنوں گا کیوں کہ میں تو ایک شاعر اور عقلمند  شخص ہوں، اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی باتیں بھلی ہوں گی تو میں انہیں  قبول کرلوں گا اور اگر میرے وجدان و شعور کے خلاف ہوں گی تو میں نہیں مانوں گا۔ حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ  رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے کھل کر بات کرنا چاھتے تھے  اس لئے وہ موقعہ کی تلاش میں وہیں ٹھہرے رہے، جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم گھر جانے کے ارادے سے مسجد الحرام  سے باھر نکلے تو حضرت طفیل بن عمرو رضی اللّہ عنہ بھی مسبجد الحرام سے باھر نکلے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہولیے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل دیے جب آپ صلی الله علیہ وسلم رسالت کدہ میں داخل ہوئے تو حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ بھی آجازت لے کر آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے دولت کدۂ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  میں  داخل ہوگئے ۔اور کہا !اے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم!آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی قوم نے مجھے بڑی تاکید کی ھوئی ہے کہ میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے بالکل بات نہ کروں اور نہ ہی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی بات سنوں نہ ھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی باتوں پر کوئی توجہ دوں،  میں اسی لئے اپنے کانوں میں روئی ڈال کر حرم ِکعبہ میں داخل ہوا تھا تاکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی آواز میرے کانوں میں نہ پڑ سکے ،مگر اللہ تعالی  ھر چیز پر قادر ھے اُس ذات نے مجھے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا کلام سنانے کا فیصلہ کر رکھا  تھا۔ سو میں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے انتہائی حسین اور پاکیزہ کلام سنا ہے ۔  میں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی باتوں کو بڑے غور سے سنا ہے، واقعہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی باتیں بڑی پر مغز اور اثر انداز  معلوم ہوتی ہیں ۔اچھا اب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  مجھے یہ بتائیے کہ اصل معاملہ کیا ہے؟  میری خواھش ھے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ایک مرتبہ پھر وہی کلام مجھے سنائیں  اور  مجھے بتائیے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کس دین کی تعلیم ارشاد فرماتے ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ کے سامنے اسلام کی تعلیمات پیش کیں اور قرآن حکیم کی  دو سورتیں، سورہ اخلاص اور سورۃ فلق پڑھ کر سنائیں۔   حضور آکرم صلی الله علیہ وسلم کا ان سورتوں کو  پڑھنا تھا کہ حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ فوراً کہہ اٹھے خداکی قسم! میں نے ایسا پر مغز ،موثر، شیریں کلام کبھی سنا ہی نہیں اور نہ ھی ایسا معتدل اور اتنا میانہ رو مذہب  کبھی دیکھا ھے اور نہ ھی سنا ہے ۔ حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ نے فوراً کلمۂ شہادت  پڑھا اور دولت اسلام سے بہرہ ور ھو کر صحابیت کے عظیم رتبہ پر فائز ھو گئے 

یہ ایک کھلی ھوئی حقیقت ھے کہ اسلام ھر معاملے میں  میانہ روی  کا حکم دیتا ھے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ھو گا کہ یہ اسلام  کا طرۂ امتیاز ھے کہ اس کا ھر حکم معتدل اور متوسط ھے ۔ اعتدال اسلام کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو اسلام کے ہر حکم اور ہر تعلیم میں بدرجہ اتم دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اعتدال ایک ایسی اسلامی قدر ہے جس کا تعلق انسانی زندگی کے ہر شعبے اور ہر پہلو سے بہت گہرا اور لازمی ہے۔


وطن واپسی اور اللہ پاک کی نشانی کا ظہور 

مسلمان ھونے کے بعد حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ نے  کہا! اے اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ! میں اپنی قوم میں ایک مقام اور حیثیت کا حامل ہوں ، اب اپنی قوم میں واپس جارہا ہوں، وہاں جا کر ان کو اسلام کی دعوت دوں گا ۔آپ صلی الله علیہ وسلم رب ذوالجلال کے حضور میرے لئے دعا فرمائیے کہ وہ قادر مطلق مجھے کوئی  ایسی نشانی مرحمت فرما دے جو دعوت الی اللہ میں مشعلِ راہ کا کام  دے ،اللہ کے حبیب صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا اللہم اجل لہ آیة ․اے اللہ!اسے کوئی نشانی عنایت فرما ۔ حضرت  طفیل رضی اللّہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا و اجازت لے کر پہاڑی راستہ سے کشاں کشاں چلے اور اپنے وطن سے قریب تر ہوتے گئے تو آپ نے اپنی دونوں آنکھوں کے درمیان میں ایک نور دیکھا، جو چراغ کی مانند روشن تھا ۔حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ  نے فوراً دعا کی ”اللہم فی غیر وجھی“کیوں کہ انھیں اندیشہ ھو گیا تھا  کہ مبادا میری قوم کے لوگ یہ  نہ سمجھ بیٹھیں کہ یہ اس شخص پر آسمان سے کوئی آفت نازل ھوئی ھے  جو تبدیلئ  مذہب  کی وجہ سے اس کے  اوپر نازل کی گئی ہے۔جوں ھی حضرت طفیل  رضی اللّہ عنہ نے یہ دعا مانگی فوراً  ھی وہ روشنی ان کے سر کی طرف منتقل ہو گئی اور ان کی قوم کے لوگ وہ روشنی بنظر غائر تعجباً دیکھنے  لگے ۔ ایک دوسری روایت کے مطابق یہ نور اُن کی لاٹھی میں منتقل ھو گیا تھا آپ جب اپنی قوم میں پہنچے  تو اندھیری رات تھی  بارش برس رھی تھی راستہ نظر نہ آیا تو اللہ پاک نے یہ نور پیدا فرما دیا لوگ دیکھ کر تعجب کرنے لگے اور حضرت طفیل  رضی اللّہ عنہ کو آ کر گھیر لیا اور منور لاٹھی کو پکڑنے لگے وہ نور لوگوں  کی انگلیوں سے چھنتا تھا جب بھی رات اندھیری ھوتی یہ نور چمکنا شروع ھو جاتا اس طرح حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ  “ذی النور “یعنی نور والے کے لقب سے مشہور ھو گئے ۔ کوئی عجب نہیں کہ حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ کا یہ نور اس نور کا نمونہ ھو جو روزِ قیامت مؤمنین خصوصاً حضرات صحابہ کرام کو عطا کیا جائے گا رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی دعا سے حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ کو یہ نور دنیا ھی میں دکھا دیا گیا ۔ چنانچہ قیامت کے نور کے متعلق ارشادِ باری تعالی ھے

يَوْمَ لَا يُخْزِى اللّـٰهُ النَّبِىَّ وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مَعَهٝ ۖ نُـوْرُهُـمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْهِـمْ وَبِاَيْمَانِـهِـمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُـوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ (8) (سورہ التحریم)

جس دن (قیامت کے دن) اللہ اپنے نبی کو اور ان کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے رسوا نہیں کرے گا، ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا وہ کہہ رہے ہوں گے اے ہمارے رب ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش دے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

بہرحال آنبیاء کرام کے معجزات اور اولیاء کرام کی کرامتیں خالصتاً رب کریم کی طرف سے ھوتی ھیں وہ جب چاھتا ھے ان کو ظاھر فرما دیتا ھے واضح رہے کہ اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ  بھی یہی ہے کہ معجزہ اور کرامت اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے جو نبی اور ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے اور نبی و ولی  کو اس کے صدور پر خود کوئی اختیار نہیں ہوتا ۔ 


حضرت طفیل رضی اللہ تعالی عنہ کی اپنے اھل خانہ کو دعوتِ اسلام 

جب حضرت طفیل رضی اللہ تعالی عنہ اپنے قبیلہ میں آئے تو سب سے پہلے اپنے دولت کدہ پر پہنچے ۔ ان کا خاندان چار افراد  پر مشتمل تھا، ان کے والد محترم ،ان کی بیوی، ان کا بیٹا  اور وہ خود۔ بس پورے گھر کی یہی کائنات تھی ۔آپ جب گھر پہنچے تو سب سے پہلے آپ کے بوڑھے باپ آپ کو ملنے آپ کے پاس آئے ،آپ نے ان سے کہا ، براہ کرم آپ مجھ سے دور ہی رہئیے۔ کیوں کہ میرے آپ کے تعلقات اپ ختم ھو چکے ھیں ، آپ کے والد نے پوچھا میرے بیٹے!  آپ ایسا کیوں کہہ رھے ھو ؟میں تو تمہارا باپ ہوں ، آپ نے کہا والد صاحب!  میں مسلمان ہو چکا ہوں، آپ کے والد نے کہا تو اس میں دور رہنے کی کیا بات ہے جو تمہارا دین ھے وہی ہمارا دین ھو گا ،  یہ کہہ کر فوراً اسلام قبول کر لیا، پھر حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ کی بیوی ان کے پاس آئیں،اس سے بھی آپ نے وہی کہا کہ میرے پاس نہ آؤ، کیوں کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے، میرے تمہارے درمیان اسلام کی دیوار حائل ہو چکی ہے ۔ان کی بیوی نے ان سے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ،آپ ایسا کیوں کہہ رھے ھیں ؟ جو  دین آپ نے اختیار فرمایا ھے آج کے بعد  وہی میرا دین  ھو گا ۔حضرت طفیل   رضی اللّہ عنہ نے کہا نہیں ایسے نہیں، پہلے تم نہا کر، پاک و صاف ہو کر آؤ، ان کی بیوی گئیں  نہا دھو کر اور پاک و صاف ہو کر آئیں، آپ نے ان کو کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھایا اور اس طرح وہ بھی حلقۂ  اسلام  میں داخل ھو ہوگئیں۔ حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ نے بیوی کو مخاطب ھو کر کہا کہ اگر تجھے یہ اندیشہ ھے کی بت پرستی ترک کرنے سے کہیں ھمارے  بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے تو میں اس  کی ذمہ داری لیتا ھوں کہ ان شاء اللہ ایسا کچھ نہیں ھو گا۔  اسی طرح اُن کا بیٹا بھی ان کی ھاتھ پر مسلمان ھو گیا 


قوم میں تبلیغِ اسلام اور حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی کا قبولِ اسلام

 حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ نے اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ  کا کام شروع کیا۔ آپ قوم میں تبلیغِ اسلام کرتے  رہے، اسلام کی دعوت لوگوں کو دیتے رہے، لیکن لوگوں نے بے اعتنائی اور بے التفاتی کا مظاہرہ کیا اور ان کی باتوں کو نہیں مانا ۔  سوائے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے کوئی اسلام نہ لایا تو حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ قوم سے مایوس ھو  کر حضرت ابو ھریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ کی معیت میں حضور آکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  مکہ معظمہ تشریف لے گئے  (خیال رہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ قبیلہ دوس ہی سے تعلق رکھتے تھے ،حضرت طفیل رضی اللہ تعالی عنہ  کی انتھک کوشش کے بعد یہ واحد آدمی تھے جنہوں نے آپ کے دستِ حق پرست پر اسلام قبول کیا تھا ”الاصابہ“ )اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا نبی اللہ !میری قوم پر زنا اور ربا کا بہت غلبہ ہے اور فسق و فجور کی فراوانی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری قوم کے لیے دعا فرمائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فوراً کھڑے ہوئے، وضو فرمایا اور نماز پڑھی اور آسمان کی طرف ہاتھ کو بلند کیا ۔ حضرت ابو ھریرہ رضی اللّہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میں  ڈر  گیا  کہ کہیں آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  بد دعا نہ فرما دیں، نتیجتاً پوری قوم ہلاک و برباد ہو جائے تو میں نے دل ہی دل میں کہا ، ہائے رے قوم تیرا مقدر! لیکن قربان جائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر! آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے

اللّٰھم اھد دَوساً وآتِ بھم

(سنن أبي داؤد)

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ سے فرمایا جاؤ انہیں دین کی دعوت دو اور ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرو ۔حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ اپنے قبیلہ میں واپس آئے اور ان کو دین کی دعوت دیتے رہے، اللہ کے بندوں کا رشتہ اللہ سے جوڑتے رہے، حتی کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی ،اس کے بعد غزوہ بدر، احد،خندق پیش آئے، بعد میں  حضرت طفیل  رضی اللّہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مقام خیبر میں تقریباً 80 مسلم خاندانوں کے ساتھ حاضر ھوئے  ۔چنانچہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے خیبر کے مال غنیمت میں سے ان نو مسلم خاندانوں کا بھی حصہ متعین کیا ،اس کے بعد حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مستقل مدینہ منورہ میں  قیام پذیر رہے، حتی کہ مکہ مکرمہ فتح ہوگیا تو حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ  نے حضور آکرم صلی  الله علیہ وسلم سے عرض کیا  کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے عمرو بن جمحہ کے بت ”ذوالکفین“جلانے کے لیے بھیج دیجیے۔  اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے آپ کو اجازت مرحمت فرمادی ۔حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ وھاں گئے، بت کو آگ لگاتے تھے اور یہ پڑھتے جاتے تھے ۔

        یاذا الکفین لستُ من عبادکا                                   

        میلادنا اقدم من میلادکا

        انی حشوت النار فی فوادکا


حضرت طفیل بن عمرو رضی اللہ تعالی کی شہادت

فتح مکہ کے بعد غزوۂ حنین پیش آیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں کا سارا انتظام و انصرام کر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ منورہ تشریف لائے ، حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  آئے اور  مستقلاً مدینہ منورہ میں ھی مقیم  رہے، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرما کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد خلافت راشدہ کے زرین دور کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیقِ غار حضرت ابو بکر رضی اللّہ عنہ عہدہ خلافت پر فائز ہوئے ۔دورِ صدیقی کا سب سے اہم فتنہ ،فتنہ ارتداد تھا، اس فتنہ نے بڑی بھیانک شکل اختیار کر لی تھی، لیکن سیدنا ابو بکر رضی اللّہ عنہ کی ذات تھی جس نے باوجود آپسی اختلاف رائے کے بڑی خوش اسلوبی، بلند ہمتی اور اولوالعزمی سے اس فتنہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جابجا لشکروں کو روانہ کیا۔ حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ بھی مسلمانوں کے ساتھ مرتدین کا قلع قمع کرتے رہے، یہاں تک کہ ارتداد کا زور فرو ہوگیا۔اس کے بعد آپ نے اپنے لڑکے عمرو بن طفیل رضی اللّہ عنہ کو ساتھ لے کر مسلمانوں کی معیت میں جنگ یمامہ کا رخ کیا ۔مسلمان مجاہدین کا لشکر جرار کشاں کشاں یمامہ کی طرف رواں دواں تھا ،اثنائے سفر حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ نے خواب دیکھا کہ میرے سر کو مونڈ دیا گیا ہے اور میرے منہ سے ایک پرندہ نکل کر فضا میں پرواز کر گیا اور میری ملاقات ایک عورت سے ہوئی اس نے مجھ کو اپنی شرم گاہ میں داخل کر لیا اور دیکھا کہ میرے لڑکے نے تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں پایا ۔حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ نے پورا خواب اپنے ساتھیوں سے بیان کیا اور تعبیر معلوم کرنا چاہی ،ساتھیوں نے کہا خواب کی تعبیر تو اچھی ہے، لیکن حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ خود اس کی تعبیر بیان کرنے لگے ،فرمایا کہ حلق راس سے مراد اس کا قتل ہونا ہے اور وہ پرندہ جو میرے منہ سے نکلا تھا اس سے مراد میری روح ہے اورا س عورت کی تعبیرجس نے مجھ کو اپنی شرم گاہ میں داخل کرایا تھا وہ زمین ہے، جو میرے لیے کھودی جائے گی اور مجھ کو اس میں دفن کیا جائے گا ،یعنی میری قبر ،رہا میرے لڑکے کا تلاش بسیار کے بعد مجھے نہ پانا تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ میرا بیٹا میرے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے گا۔بہر کیف یہ لشکر یمامہ پہنچا لڑائی  کا میدان گرم ھوا اور حضرت طفیل رضی اللّہ عنہ نے بہادری اور دلیری سے لڑتے ھوئے جام شہادت نوش فرمایا  اور ان کے صاحبزادے  شدید زخمی ہوئے لیکن  اس زخم سے وہ صحت یاب ہوئے پھر حضرت عمر رضی اللّہ عنہ  کے زمانۂ خلافت میں جنگ یرموک میں  لڑتے ھوئے شہید ہوئے #

        خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را


جاری ھے۔۔۔۔۔،

Share: