قسط نمبر (60) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 لیلۃ الجن

احادیثِ معتبرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جنات کے وفود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چھ مرتبہ حاضر ہوئے۔بعض مواقع پر یقینا جنات سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گفتگو بھی ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں قرآن کریم بھی سنایا۔

عبداللہ بن مسعود، زبیر،عبد اللہ بن عباس اور حسن بصری، سعید بن جبیر، زر بن حبیش، مجاہد، عکرمہ اور دوسرے بزرگوں سے منقول ہے وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ جن٘ات کی پہلی حاضری کا واقعہ بطن نخلہ میں پیش آیا تھا۔ اور ابن اسحاق، ابو نعیم اصفہانی اور واقدی کا بیان ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم طائف سے مایوس ہو کر مکہ معظمہ کی طرف واپس ہوئے تھے۔ راستہ میں آپ نے نخلہ میں قیام  فرمایا ۔ وہاں عشاء یا فجر یا تہجد کی نماز میں آپ قرآن پاک کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ آپ کی قرأت سننے کے لیے ٹھہر گیا۔ اور تلاوت  سن کر مسلمان ھو گیا

روایاتِ حدیث میں لیلۃ الجن کا جو واقعہ مذکور ہے اس میں عبد اللہ ابن مسعود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے۔ اس سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنات کو تبلیغ و دعوت کے لیے مکہ مکرمہ کے قریب ایک جنگل میں تشریف لے گئے تھے او انہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن کریم پڑھ کر سنایا تھا اور ان کے سوالات کے جواب بھی دیے تھے۔

ایک دوسری روایت میں رسول کریم کا اکیلے جنات میں جا کر قرآن پاک سنانا بھی مذکور ھے اس میں آپ کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود سمیت کوئی صحابی موجود نہیں تھا  چنانچہ حدیث مبارکہ ھے

عن عامر، قال: سألتُ عَلْقَمةَ: هل كان ابنُ مسعود شَهِدَ مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلةَ الجنِّ؟ قال: فقال عَلْقَمةُ، أنا سألتُ ابنَ مسعود فقلتُ: هل شَهِدَ أحدٌ منكم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلةَ الجنِّ؟ قال: لا، ولكنَّا كنَّا مع رسول الله ذاتَ ليلة ففَقَدْناه فالتمسناه في الأودية والشِّعاب. فقلنا: استُطِير أو اغْتِيل. قال: فبِتْنَا بِشَرِّ ليلة بات بها قومٌ، فلما أصبحْنا إذا هو جاء من قِبَل حِرَاء. قال: فقلنا يا رسول الله فقدْناك فطلبْناك فلم نجدْك، فبِتْنَا بِشَرِّ ليلة بات بها قوم. فقال: «أتاني داعي الجنِّ فذهبتُ معه فقرأتُ عليهم القرآنَ» قال: فانطلقَ بنا فأرانا آثارَهم وآثارَ نِيرانِهم وسألوه الزاد فقال: «لكم كلُّ عظم ذُكر اسمُ الله عليه يقع في أيديكم أوفر ما يكون لحمًا، وكلُّ بَعْرة عَلَفٌ لدوابِّكم» . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «فلا تسْتَنْجُوا بهما فإنَّهما طعامُ إخوانِكم».   

[صحيح] - [رواه مسلم]    المزيــد ...

عامر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے علقمہ سے پوچھا کیا لیلۃ الجن کو ابن مسعود رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ساتھ تھے؟ کہتے ہیں کہ علقمہ نے کہا، میں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور کہا کہ لیلۃ الجن کو تم میں سے کوئی رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ساتھ تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ لیکن ایک رات ہم رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم گم ہو گئے تو ہم نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو پہاڑ کی وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا، مگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نہیں ملے، تو ہم نے کہا کہ  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو جن اڑا لے گئے یا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو چپکے سے قتل کر دیا گیا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رات برے طور سے بسر کی، جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  حراء پہاڑ کی طرف سے آرہے ہیں، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! ہم نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو رات میں گم پایا ، ہم نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو تلاش کیا تب بھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نہ ملے، چنانچہ ہم نے رات بڑی تکلیف میں کاٹی، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس جنوں کا ایک ایلچی آیا تو میں اس کے ساتھ گیا اور میں نے جنوں کو قرآن سنایا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم کو اپنے ساتھ لے گئے اور ان کے نشان اور ان کے انگاروں کے نشان بتائے اور جنوں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے توشہ مانگا، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا تمہارے لیے ہر اس جانور کی ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے وہ تمہارے ہاتھ میں آتے ہی وافر مقدارمیں اس پر گوشت چڑھ جائے گا، اور ہر مینگنی تمہارے چوپایوں کے لیے چارہ ہو جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا کہ ان دونوں سے استنجا نہ کرو کیونکہ یہ دونوں تمہارے جن بھائیوں کی خوراک ہے۔    صحیح - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

سنن ابن ماجہ میں اس حوالے سے درج ذیل ایک حدیث مبارکہ بھی موجود ھے 

حدثنا العباس بن الوليد الدمشقي ، حدثنا مروان بن محمد ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا قيس بن الحجاج ، عن حنش الصنعاني ، عن عبد الله بن عباس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لابن مسعود ليلة الجن:" معك ماء"؟ قال: لا، إلا نبيذا في سطيحة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تمرة طيبة، وماء طهور صب علي"، قال: فصببت عليه فتوضا به.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے «لیلۃالجن» میں فرمایا: ”کیا تمہارے پاس پانی ہے“؟ انہوں نے کہا: نہیں، چھاگل (مشک) میں نبیذ کے سوا کچھ نہیں ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ پاک کھجور اور پاک پانی ہے، میرے اوپر ڈالو“، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے انڈیلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا 

نبیذ“ وہ پانی ھوتا ہے جس میں کھجور ڈال کر رات بھر بھگو یا جائے، جس کی وجہ سے پانی قدرے میٹھا ہو جائے، اور اس کا رنگ بھی بدل جائے، وہ نبیذ کہلاتا ہے۔ '' «لیلۃ الجن»: وہ رات ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنوں کو ہدایت کے لئے مکہ سے باہر تشریف لے گئے تھے، اور ان سے ملاقات کی، اور ان کو دعوت اسلام دی، اور وہ مشرف بہ اسلام ہوئے، 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنوں کے پاس جانا چھ مرتبہ ثابت ہے،

 پہلی بار کا واقعہ مکہ میں پیش آیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نہیں تھے جیسا کہ صحیح مسلم اور سنن ترمذی کے اندر سورۃ احقاف کی تفسیر میں مذکور ہے، 

دوسری مرتبہ کا واقعہ مکہ ہی میں جبل حجون پر پیش آیا، تیسرا واقعہ اعلی مکہ میں پیش آیا، جب کہ چوتھا مدینہ میں بقیع غرقد کا ہے، ان تینوں راتوں میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، 

پانچواں واقعہ مدنی زندگی میں مدینہ سے باہر پیش آیا، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ تھے، 

چھٹا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی سفر کا ہے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال بن حارث رضی اللہ عنہ تھے 

 شرح الترمذی)۔)


مستند تاریخی مصادر اور کتب سِیَر سے یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک بار آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جلیل القدر صحابی عبداللہ بن مسعود کو ہمراہ لیے رات کے وقت ایک جگہ پہنچے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود کو ایک خاص مقام سے آگے بڑھنے سے منع فرمایا تاکہ کہیں جنات انہیں نقصان نہ پہنچا دیں۔ پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی ملاقات جنات کے ایک گروپ سے ہوئی، جنہوں نےاسلام قبول کیا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے اسلامی تعلیمات حاصل کرنے کے بعد واپس چلے گئے۔  چنانچہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شب میں جنات کو اسلام کی دعوت اور قرآن کی تعلیمات بتانے میں مشغول ہوئے تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک جگہ بٹھا دیا اور ان کے اردگرد لکیر کھینچ کر ایک دائرہ بنایا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ اس دائرے سے باہر نہ نکلیں  ۔ قرآن پاک کی سورہ الجن وہیں اور اسی واقعے کے تناظر میں نازل ہوئی۔اسی مناسبت سے اُس مقام پر ایک مسجد تعمیر کی گئی، جسے 'مسجد الجن' کا نام دیا گیا۔  الحرمین الشریفین کی زیارت کا شرف حاصل کرنے والے 'مسجد الجن' کی زیارت بھی کرتے ہیں۔ ماہ صیام میں یہاں زائرین کا رش ھوتا ھے ۔ یہاں پر افطار کا خصوصی انتظام بھی کیا جاتا ہے جہاں دنیا بھر سے آئے زائرین اور معتمرین عقیدت واحترام کے ساتھ اس مسجد میں حاضر ہوتے، عبادت کرتے اور افطار میں شرکت کرتے ہیں۔

بہرحال مسجد حرام کے شمال میں تین ہزار میٹر کے فاصلے پر جہاں آج 'مسجد الجن' موجود ہے جنات کی ایک جماعت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر یہاں اسلام قبول کیا تھا ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے قران پاک سُنا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنات کے سوالوں کے جواب دیے۔


رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرنے والا  مبلغ جنّ

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی علی الاعلان دعوتِ اسلام پر مشرکینِ قریش بہت سیخ پا ھو گئے انہوں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو جادوگر اور جھوٹا مشہور کرنے کا منصوبہ بنایا  البتہ اس مقصد کے لئے انہوں نے جب اپنے  سردار ولید سے رائے لی تو اس نے اظہارِ رائے کے لئے تین دن کی مہلت مانگی اور اپنے گھر چلا آیا ، اس کے گھر  میں سونے چاندی کے دو بُت تھے ، جنہیں اس نے جواہرات و قیمتی لباس پہنا کر کرسیوں پر بٹھا رکھا تھا ، اس نے مسلسل تین دن ان کی خوب عبادت کی ۔ عبادت کرنے کے بعد نہایت ہی گِڑگِڑا کر اُس نے اپنے بُت سے کہا : میری بے لوث عبادت کا واسطہ مجھے بتاؤ کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سچے ہیں یا نہیں؟ عین اسی وقت ایک شیطانی جنّ جو  غالباً وھاں قریب  ھی  کہیں موجود تھا ، اُسے شیطانی شرارت سوجھی وہ اس بت کے اندر چلا گیا اور بت کے اندر جا کر  اس نے بولنا شروع کر دیا ولید نے سمجھا کہ یہ میرا معبود یعنی بت  میری عبادت سے خوش ھو کر مجھ سے بات کر رھا ھے جن بت کے اندر جا کر بولا : محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نبی نہیں ھیں ، ہرگز ان کی تصدیق مت کرنا۔ ولید خوش ہوگیا اور اس نے دوسرے کافروں کو بھی بلا کر بُت کی یہ بات سنائی ، پھر ان بدبختوں نے بڑے مجمع کا اہتمام  کیا اور اس میں رسول کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی بلوایا گیا ، مقصد یہ تھا کہ آپ کی موجودگی میں بت کی گواھی سے نعوذ باللہ آپ کو جھوٹا ثابت کر دیا جائے ۔ مشرکین  نے  اپنے اس  بُت کو مختلف رنگوں کا لباس پہنایا ، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر وھاں تشریف  لے گئے  ، کفّار نے پہلے تو اس بُت کو سجدہ کیا پھر ولید نے بُت سے کہا میرے معبود ! تو محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے بارے میں اظہارِ خیال کر ! بُت کے اندر جا کر اُس جن نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں بہت سی نازیبا باتیں کیں ، آپ  صلی وہاں سے اُٹھ کر تشریف لے آئے ،جب آپ واپس تشریف لا رھے تھے  تو  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو راستے میں سبز لباس میں ملبوس ایک گھوڑ سوار ملا اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی جس سے خون ٹپک رہا تھا ، سوار گھوڑے سے نیچے اُترا اور نہایت ادب سے  رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو سلام کیا اور بتایا : میرا نام مہین بن عبہر ہے ، کوہِ طور پر میرا گھر ہے میں نے حضرت نوح علیہ السّلام کے زمانے میں اسلام قبول کیا تھا ، میں سفر میں تھا ، وطن واپسی ہوئی تو گھر پہنچنے پر میری زوجہ نے روتے ہوئے بتایا کہ  ” مسفر “  نامی جن نے آپ کی شان میں گستاخی کی ہے ، میں اسی وقت اس کے تعاقب میں نکلا ، تلاش کرنے پر وہ صفا و مَروہ کے درمیان مجھے مل ہی گیا ، میں نے وہیں اس کا سر تن سے جدا کر دیا  ، یہ رہا اس کا سر اور وہ خود کتے کی صورت میں وہاں مَرا پڑا ہے۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس  جن کی باتیں سُن کر خوش ہوئے ۔ 

 اُدھر مشرکینِ مکہ کے ھاتھ تو گویا رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو غلط  ثابت کرنے کے لئے تُرپ کا  ایک پتہ ھاتھ لگ گیا تھا انہوں نے اگلے دن  پھر مجمع جمع کیا اور رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی بہت اھتمام سے اس  مجمع میں بلایا گیا پھر انہوں نے اسی ہبل نامی بُت کو زیورات و ملبوسات سے سجایا  اور اسے سجدہ کرکے بولے کہ محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بارے میں ھمیں بتاؤ  تو مہین نامی یہی جن جو وھاں موجود تھا حضور آکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت سے اس بت میں جاکر داخل ھو گیا اور  بولا ” اے اہلِ مکہ ! حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سچے ہیں ، ان کی باتیں اور دین سچا ہے ، یہ تمہیں باطل کی جگہ دینِ حق اپنانے کی دعوت دیتے ہیں ، جبکہ تم اور تمہارے بُت باطل و جھوٹے ہو ، خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے ہو ، اگر تم محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لاکر ان کی تصدیق نہ کرو تو روزِ قیامت دوزخ تمہارا دائمی ٹھکانہ ہوگا لہٰذا تم حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لے آؤ جو اللہ کے رسول اور خَلْقِ خدا میں سب سے افضل ہیں “ اپنے ہی بُت سے یہ باتیں سُن کر کفار آگ بگولہ ہوگئے بلکہ ابوجہل نے تو اسے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور پھر اسے نذرِ آتش کردیا جبکہ دوسری طرف رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہایت خوش ہوئے اور آپ نے اس جن کا نام عبدُ اللہ رکھ دیا

(معجم الکبیر ، دلائل النبوۃ للبیہقی )

Share: