قسط نمبر (62) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 واقعۂ معراج کی تفصیل

واقعہ معراج اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو چشم زدن میں بظاہر رونما ہوا لیکن حقیقت میں اس میں کتنا وقت لگا یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ میں اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی قدرت کاملہ کا مشاہدہ کرایا۔ اس واقعہ کے دو حصے ہیں: ایک حصہ اس ملکوتی سیر کا مکہ معظمہ سے شروع ہوتا ہے اور بیت المقدس پر ختم ہوتا ہے، یعنی مکہ معظمہ کے حرم پاک سے بیت المقدس کے حرم پاک تک۔ یہ مضمون قرآن مجید کی سورۂ بنی اسرائیل کے شروع میں بیان ہوا ہے اور دوسرا حصہ اس سے اوپر عرشِ اعظم اور خصوصی دربارِ اقدس تک ہے۔ اس مضمون کو سورۃ النجم میں اشارہ کیا ھے


امِّ ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر سے مسجدِ حرام تک

 معراج کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ اس بارے میں شارح ِ بخاری علامہ محمود عینی حنفی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت اُمِّ ہانی رضی اللہُ عنہا کے گھر پر آرام فرمارہے تھے جوشعب ابی طالب کے قریب واقع تھا، آچانک گھر کی چھت کھل گئی، فرشتہ اندر داخل ہوا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو گھر سے اٹھاکر مسجد حرام لائے جبکہ آپ پر اونگھ کا اثر تھا۔ (عمدۃ القاری)


شقٌِ صدر اور براق پر سواری

 اللہ تعالی کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں حطیم میں آرام کررہا تھا کہ اچانک ایک آنے والا میرے پاس آیا اور میری ہنسلی کی ہڈّی سے لے کر پیٹ کے نیچے تک کا حصّہ چاک کیا۔ میرا دل نکالا، پھر سونے کا ایک طشت لایا گیا، اس میں میرا دل زم زم سے دھویا گیا، پھر اسے حکمت سے بھرا گیا، پھر اسے دوبارہ اس کی جگہ رکھا گیا۔ پھر میرے پاس سفید رنگ کا ایک جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا میں اس پر سوار ہوا۔   (بخاری و مسلم)

ایک روایت  میں براق کا حلیہ یوں بیان  ھوا  ھے کہ سینہ سرخ یاقوت کی مانند چمک رہا تھا، اس کی پشت پر بجلی کوندتی تھی، ٹانگیں سبز زمرد، دُم مرجان، سر اور اس کی گردن یاقوت سے بنائی گئی تھی۔ بہشتی زین اس پر کسی ہوئی تھی جس کے ساتھ سرخ یاقوت کے دو رکاب آویزاں تھے۔ اس کی پیشانی پر لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رّسُولُ اللهِ  ہوا تھا۔


مسجد حرام سے مسجد آقصی تک 

براق پر سوار ہونے کے بعد بیتُ المقدس کی طرف آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سفر شروع ہوا، دورانِ سفر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت جبرائیل کے کہنے پر مختلف مقامات پر دوگانہ نماز ادافرمائی اور مختلف مشاہدات کئے،ان میں سے چند کا ذکر کیاجاتاہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیتُ المقدس کی طرف جاتے ہوئے دورانِ سفر تین مقامات پر نمازیں پڑھیں۔ چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں کہ دورانِ سفر ایک مقام پر حضرت جبرائیل نے عرض کیا :اترئیے اور نماز پڑھ لیجئے! میں نے اُتر کرنماز پڑھی، پھر عرض کیا: معلوم ہے کہ آپ نےکس جگہ نماز پڑھی ہے؟ (پھر کہنے لگے)آپ نے طیبہ(یعنی مدینہ پاک) میں نماز پڑھی ہے، اسی کی طرف آپ کی ہجرت ہو گی۔ پھر ایک اور مقام پر عرض کیا کہ اتر کر نماز پڑھ لیجئے، میں نے اتر کر نماز پڑھ لی، جبریل علیہ السّلام نے عرض کیا: معلوم ہے کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟(پھر کہنے لگے) آپ نے طُورِ سیناپر نماز پڑھی ہے جہاں اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو ہَم کلامی کا شَرَف عطا فرمایا تھا۔ پھر ایک اور جگہ عرض کیاکہ اتر کر نماز پڑھ لیجئے، میں نے اتر کر نماز پڑھی، جبریل نے عرض کیا: معلوم ہے کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ (پھر کہنے لگے) آپ نے بیتِ لحم میں نماز پڑھی ہے جہاں حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کی وِلادت ہوئی تھی۔(نسائی)


حضرت موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز ادا کرنا

 بیت المقدس جاتے ھوئے راستہ میں ایک سرخ ٹیلا آتا ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے۔ حضور آکرم  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ معراج کی رات میں سرخ ٹیلے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہاں موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے اور حضرت موسی علیہ السلام اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ھیں یہ مضمون کئی آحادیث میں آیا ھے 

سنن النسائي (3/ 215)

'' أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَتَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ»

محمد بن علی بن حرب، معاذ بن خالد، حماد بن سلمہ، سلیمان تیمی، ثابت، انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں شب معراج میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قریب سرخ ریت کے ٹیلے کے پاس پہنچا تو وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔


سنن النسائي (3/ 215)

'' أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، وَثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَتَيْتُ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي» قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: «هَذَا أَوْلَى بِالصَّوَابِ عِنْدَنَا مِنْ حَدِيثِ مُعَاذِ بْنِ خَالِدٍ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ»''۔

عباس بن محمد، یونس بن محمد، حماد بن سلمہ، سلیمان تیمی، ثابت، انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں سرخ ریت کے ٹیلے کے قریب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ امام نسائی بیان کرتے ہیں کہ پیچھے گزرنے والی روایت کی نسبت یہ روایت زیادہ صحیح ہے۔


سنن النسائي (3/ 216)

''أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَبَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ثَابِتٌ، وَسُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَرَرْتُ عَلَى قَبْرِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ وَهُوَ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ»''۔

احمد بن سعید، حبلان، حماد بن سلمہ، ثابت و سلیمان، تیمی، انس ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا میں موسیٰ علیہ السلام کی قبر کے پاس سے گزرا تو وہ قبر میں کھڑے ہوئے نماز ادا فرما رہے تھے۔


سنن النسائي (3/ 216)

'' أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ وَهُوَ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ»''۔

علی بن خشرم، عیسی، سلیمان تیمی، انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں شب معراج کے موقع پر حضرت موسیٰ کے پاس سے گزرا تو وہ قبر میں نماز ادا فرما رہے تھے۔

اس کے علاوہ امام مسلم اور امام آحمد نے بھی اسے روایت کیا ھے


فرعون کی لڑکی کی مشاطہ کا واقعہ :

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضور آکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں ایک مقام سے مجھے نہایت ہی اعلیٰ خوشبو کی مہک آنے لگی۔ میں نے کہا یہ کیسی خوشبو ہے؟ جواب ملا کہ فرعون کی بیٹی کی کنگھی کرنے والی (خادمہ) اور اُس کی اَولاد (کے محل) کی ہے‘ عرض کیا‘ ایک مرتبہ  اُس کے ہاتھ سے کنگھی گری تو اُس نے کہا بسم اللہ۔ فرعون کی بیٹی نے کہا اللہ تو میرا باپ ہے۔ اُس (خادمہ) نے جواب دیا کہ میرا اور تیرا اور تیرے باپ کا پروردگار اللہ ہے۔ فرعون کی بیٹی نے کہا کیا میرے باپ کے علاوہ تیرا کوئی اور ربّ ہے۔ اُس نے کہا میرا اور تیرا اور تیرے باپ کا ربّ ہے۔ اُس نے اپنے باپ کو ساری بات سُنائی۔ فرعون نے اُس (خادمہ) کو بلوایا اور کہا کیا تم میرے سوا کسی اور کو ربّ مانتی ہو۔ کہا ہاں میرا اور تیرا پروردگار اللہ ہے۔ فرعون نے اُسی وقت حکم دیا کہ تانبے کی گائے کو آگ میں تپایا جائے‘ جب وہ بالکل آگ جیسی ہو جائے تو پھر اِسے اور اِس کے بچوں کو ایک ایک کر کے اُس میں ڈال دیا جائے۔ اُس مومنہ عورت نے فرعون سے کہا میری ایک درخواست ہے اُس نے کہا کیا ہے؟ اُس نے کہا میری اور میرے بچوں کی ہڈیاں ایک جگہ ڈال دینا۔ فرعون نے کہا اَچھا تیرے کچھ حقوق ہمارے ذمہ ہیں اِس لئے یہ منظور ہے۔ بعد ازاں فرعون نے حکم دیا کہ ایک ایک کر کے اِس کے بچوں کو آگ کی طرح تپتی ہوئی گائے میں ڈال دو۔ جب دُودھ پیتے بچے کی باری آئی (فرعون کے سپاہیوں نے جب اُس بچے کو چھینا) تو وہ گھبرائی تو اللہ تعالیٰ نے دُودھ پیتے بچے کو گویائی عطا فرمائی۔ اُس نے (اپنی ماں سے) کہا امی جان اَفسوس نہ کریں اور نہ ہی پس و پیش کریں آپ حق پر ہیں۔ وہ لوگ اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں جو روپے پیسے کی خاطر بے دین مشرک اور کافر ہو جاتے ہیں۔


دورانِ سفر عجائبات ومشاھدات 

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیتُ المقدس کی طرف جاتے ہوئے راستے کے کنارے ایک بوڑھی عورت دیکھی، حضرتِ جبرائیل سے دریافت فرمایا: یہ کون ہے؟ عرض کیا: حضور! بڑھے چلئے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آگے بڑھ گئے، پھر کسی نے آپ کو پُکار کر کہا: ہَلُمَّ یَامُحَمَّد یعنی اے محمد! اِدھر آئیے۔ حضرتِ جبرائیل نے پھر وہی عرض کیا کہ حُضُور! بڑھے چلئے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آگے بڑھ گئے۔ پھر ایک جماعَت پر گزر ہوا۔ انہوں نے آپ کو سلام عرض کرتے ہوئے کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَوَّلُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا آخِرُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حَاشِرُ یعنی اے اوّل! آپ پر سلامتی ہو، اے آخر! آپ پر سلامتی ہو۔ اے حاشِر! آپ پر سلامتی ہو۔حضرتِ جبرائیل علیہ السّلام نے عرض کیا: حُضُور! ان کے سلام کا جواب مرحمت فرمائیے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سلام کا جواب ارشاد فرمایا۔ اس کے بعد مسلسل دو جماعتوں پر گزر ہوا تو وہاں بھی ایسا ہی ہوا۔(دلائل النبوة للبيهقى)


مشاہدات کی تفصیل

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بیتُ المقدس پہنچنے کے بعد حضرتِ جبرائیل نے عرض کیا: وہ بڑھیا جسے آپ نے راستے کے کنارے مُلاحَظہ فرمایا تھا، وہ دنیا تھی، اس کی صرف اتنی عمر باقی رہ گئی ہے جتنی اس بڑھیا کی ہے۔ جس نے آپ کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا وہ اللہ کا دشمن ابلیس تھا، چاہتا تھا کہ آپ اس کی طرف مائل ہو جائیں۔ جنہوں نے آپ کو سلام عرض کیا تھا وہ حضرتِ ابراہیم، حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ عیسیٰ علیہم السّلام تھے۔(دلائل النبوة للبيهقى،)


رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا بیتُ المقدس  میں نزول 

  ایک روایت میں ہے کہ حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیت المقدس میں بابِ ِیمانی سے داخِل ہوئے پھر مسجد کے پاس آئے اور وہاں اپنی سواری باندھ دی۔(سیرت حلبیہ، 1/523) آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں: میں نے براق کو اسی حلقے میں باندھا جہاں انبیائے کرام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔ پھر مسجد میں داخل ہوا اور دو رکعتیں پڑھیں، پھر باہر نکلا تو بُخاری شریف کی رِوَایَت کے مُطَابِق یہاں آپ کے پاس دودھ اور شراب کے دو پیالے لائے گئے، آپ نے انہیں مُلاحظہ فرمایا پھر دودھ کا پیالہ قبول فرما لیا۔ اس پر حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کہنے لگے : ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَاکَ لِلْفِطْرَۃِ لَوْ اَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ اُمَّتُکَ یعنی تمام تعریفیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے جس نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی فطرت کی جانب رہنمائی فرمائی، اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شراب کا پیالہ قبول فرماتے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اُمَّت گمراہ ہو جاتی۔  “( صحيح البخارى)

ایک روایت یہ بھی ھے کہ حضرت جبریل علیہ السلام ایک پتھر کے پاس آئے جو اس جگہ موجود تھا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس پتھر میں اپنی انگلی مار کر اس میں سوراخ کردیا اور براق کو اس میں باندھ دیا۔(تفسير ابن کثیر )


بیت المقدس میں آنبیاءِ کرام کی امامت

ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور آکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ ’’میں نے اپنی سواری براق کو اُس جگہ باندھا جہاں انبیاء کرام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے.(دوسری روایت میں جبرائیل کا سوراخ  کرکے سواری  باندھنے کا بھی ذکر ھے ) ۔ مسجد آقصی میں بہت سے لوگ نماز کے لیے جمع تھے. میں منتظر تھا کہ کون امامت کرائے گا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے آگے کیا‘ میں نے نماز پڑھائی اور پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مجھے بتایا کہ آپؐ کی اقتدا میں نماز ادا کرنے والے وہ تمام انبیاء کرام  ہیں جو دنیا میں مبعوث ہوئے اور آج آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ان سب کی امامت کی

ایک اور روایت کے مطابق  آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ جب میں بیتُ المقدس میں آیا تو انبیا ئے کرام جمع تھے، حضرت جبریل علیہ السّلام نے مجھے آگے کیا تو میں نے ان کی امامت کی۔(نسائى،)

شب معراج میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کرام علیہم السلام کی جو امامت فرمائی اس سے متعلق تفسیر خازن میں مذکور ہے کہ اللہ تعالی نے حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خاطر انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو جمع فرمایا تاکہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کی امامت فرمائیں اور تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام آپ کی عظمت و فضیلت اور آپ کی برتری کو جان لیں- واقعۂ معراج کی تفصیلی روایات صحیح بخاری و صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں موجود ھیں  امامت کے بارے میں ارشاد ہے :

 فحانت الصلوة فاممتهم

ترجمه: نماز کا وقت ہوا تو نے انبیاء کی امامت کی-

 (صحیح مسلم، کتاب الایمان)

اس حدیث پاک کی شرح میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: و لعل المراد بها صلوة التحية او يراد بها صلوة المعراج علی الخصوصية- ترجمہ: شاید اس نماز سے مراد نمازِتحیة المسجد ہے یا معراج کی خصوصی نماز ہے- (مرقاۃ المفاتیح،)


انبیائے کِرام  کی  اللہ کے حضور حمد وثنا 

مسجدِ اقصیٰ میں نماز کے بعد بعض انبیائے کرام علیہم السّلام نے اللہ پاک کی حمد و ثنا بیان فرمائی  ۔ 


حضرت سیِّدنا ابراہیم علیہ السّلام کی حمد و ثنا

سب سے پہلے اللہ کے خلیل حضرت سیِّدنا ابراہیم علیہ السّلام نے کہا: تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے مجھے خلیل بنایا، عظیم بادشاہت عطا فرمائی، امام اور اپنا فرمانبردار بندہ بنایا، میری اقتدا و پیروی کی جاتی ہے، مجھے آگ سے نجات عطا فرمائی اوراسے مجھ پر ٹھنڈی اور سلامتی والی کر دیا۔


حضرت سیِّدنا موسی علیہ السّلام کی حمد و ثنا

ان کے بعد حضرت سیِّدنا موسیٰ علیہ السّلام کہنے لگے: تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے مجھ سے کلام فرمایا، مجھے اپنی رِسالت اور کلمات کے لئے منتخب فرمایا، مجھے راز کہنے کو قریب کیا، مجھ پر تورات نازِل فرمائی، میرے ہاتھ پر فِرعون کو ہلاک فرمایا اور میرے ہی ہاتھ پر بنی اسرائیل کو نجات عطا فرمائی۔


حضرت سیِّدنا داؤد علیہ السّلام کی حمد و ثنا

ان کے بعد حضرتِ سیِّدنا داوٗد علیہ السّلام نے کہا: تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے مجھے بادشاہت عطا فرمائی، مجھ پر زبور نازِل فرمائی، لوہے کو میرے لئے نرم فرما دیا، میرے لئے پرندوں اور پہاڑوں کو مسخر فرما دیا، مجھے حکمت اور فصل خِطاب عطا فرمایا۔


حضرت سیِّدنا سلیمان علیہ السّلام کی حمد و ثنا

ان کے بعدحضرت سیِّدنا سلیمان علیہ السّلام کہنے لگے: تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے میرے لئے ہواؤں، جنوں اور انسانوں کو مسخر فرما دیا، شیاطین کو بھی مسخر فرما دیا اور اب یہ وہ کام کرتے ہیں جو میں ان سے چاہتا ہوں مثلاً بلند وبالا مکانات تعمیر کرنا اور تصویریں بنانا، مجھے پرندوں کی بولی اور ہر چیز سکھائی، میرے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایا اور مجھے ایسی بادشاہت عطا فرمائی جو میرے بعد کسی کے لئے نہیں۔


حضرت سیِّدنا عیسی علیہ السّلام کی حمد و ثنا

ان کے بعد حضرت سیِّدنا عیسیٰ علیہ السّلام نے کہا: تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے مجھے تورات اور انجیل سکھائی، مجھے پیدائشی اندھے اور کوڑھ کے مرض والے کو تندرست کرنے والا اور اپنے اِذْن سے مُردوں کو زندہ کرنے والا بنایا، مجھے آسمان پر اُٹھایا، مجھے کافِروں سے پاک کیا، مجھے اور میری ماں کو شیطان مردود سے پناہ عطا فرمائی جس کی وجہ سے اُسے میری ماں پر کوئی راہ نہیں۔


امام الانبیاء سیدنا حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی حمد و ثنا اور  خطبہ

ان سب حضرات کے بعد اللہ کے حبیب، امام الانبیاء، صاحبِ معراج صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خطبہ دیا، خطبے سے پہلے آپ نے انبیائے کرام سے فرمایا کہ تم سب نے اپنے ربّ کی ثنا بیان کی ہے، اب میں رب کی تعریف وثنا بیان کرتا ہوں۔ پھر آپ نے اس طرح خطبہ پڑھا: تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے مجھے تمام جہانوں کے لئے رحمت اور تمام انسانوں کے لئے خوش خبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا، مجھ پر حق وباطِل میں فرق کرنے والی کِتاب کو نازِل فرمایا جس میں ہر شے کا روشن بیان ہے، میری اُمَّت کو لوگوں میں ظاہِر ہونے والی سب اُمَّتوں میں بہترین اُمَّت بنایا، درمیانی اُمَّت بنایا اور انہیں اوّل بھی بنایا اور آخر بھی، میرے لئے میرا سینہ کُشادہ فرمایا، مجھ سے بوجھ کو دُور فرمایا، میرے ذِکْر کو بلند فرمایا اور مجھے فاتِح اور خاتِم بنایا۔ یہ سن کر حضرتِ سیِّدنا ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا: بِہٰذَا فَضَلَکُمْ مُحَمَّدٌ یعنی اسی وجہ سے محمد نے تم پر فضیلت پائی۔ (دلائل النبوة للبيهقى)


آسمانوں کی طرف سفر اور وہاں آنبیاء کرام  سے ملاقات 

 مسجدِ اقصیٰ تک کے معاملات مکمل ہونے کے بعد رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پھر براق پر سوار کیا گیا اور اس طرح آسمانوں کا سفر شروع ہوا۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ براق کو تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیت المقدس ہی میں چھوڑ دیا اور آسمان سے ایک مرصع زینہ نمودار ہوا  تھا ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کے ذریعہ حضرت جبریل ؑ کے ساتھ آسمان پر گئے۔ اس زینے کے بارے میں جو روایات ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا’’وہ زینہ جس کے ذریعے بنی آدم کی روحیں بعدازمرگ چڑھتی ہیں اور اس زینے سے زیادہ خوبصورت کوئی چیز مخلوق کی نظر سے نہ گزری ہو گی اور میرے رفیقِ سفر جبریل ؑ نے مجھ کو اس پر چڑھایا یہاں تک کہ میں آسمان کے دروازے تک پہنچ گیا‘

پہلا آسمان

چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتےہیں: پھرمجھے سواری پر سوار کیا گیا، جبرئیل علیہ السّلام مجھے لیکر چلے حتّٰی کہ وہ پہلے آسمان پر پہنچے تو دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا: کون؟ فرمایا:جبریل، پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے، فرمایا: حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں، پوچھا گیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟فرمایا:ہاں۔ تو کہا گیا: مَرْحَباً بِهِ فَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ(یعنی ان کو خوش آمدید ہو وہ خوب آئے) پھر دروازہ کھولا گیا،جب میں داخل ہوا تو وہاں حضرت آدم علیہ السّلام تھے، جبریل نے کہا: یہ آپ کے والد آدم علیہ السّلام ہیں انہیں سلام کرو، میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا،پھر فرمایا: مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ (یعنی صالح فرزند، صالح نبی تم خوب تشریف لائے)، آپ نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر فرمائی۔ پہلے آسمان پر حضور آکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نہرِ کوثر بھی دیکھی جس کے کناروں پر جواہر کے محل بنے ہوئے تھے، اور جس کی مٹی مشک کی طرح خوشبودار تھی۔ یہ نہر کوثر اللہ نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے مخصوص کر رکھی ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہا کہ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید  تھا، اور میں نے نہر کوثر کا پانی پیا

جنتی وجہنمی اولادِ آدم

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے دائیں بائیں کچھ لوگوں کو ملاحظہ فرمایا، جب حضرت آدم علیہ السلام اپنی دائیں جانب دیکھتے تو ہنس پڑتے ہیں اور جب بائیں جانب دیکھتے تو رو پڑتے ہیں۔ حضرت جبریل نے عرض کیا: ان کے دائیں اور بائیں جانب جو صورتیں ہیں یہ ان کی اولاد ہیں، دائیں جانب والے جنتی ہیں اور بائیں جانِب والے جہنمی ہیں۔ (بخاری)


دوسرا آسمان

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں:پھر مجھے جبریل علیہ السّلام اوپر لے گئے حتّٰی کہ دوسرے آسمان پر پہنچے دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا: کون؟ فرمایا: جبریل، پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، پوچھا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ فرمایا: ہاں،کہا گیا: خوش آمدید تم بہت ہی اچھا آنا آئے،پھر دروازہ کھول دیا گیا، جب میں اندر پہنچا تو وہاں حضرت یحیی ٰعلیہ السّلام اور عیسیٰ علیہ السّلام تھے۔جبریل علیہ السّلام نے کہا:یہ یحیی ٰعلیہ السّلام ہیں اور یہ عیسیٰ علیہ السّلام ہیں، انہیں سلام کرو۔میں نے سلام کیا: ان دونوں نے جواب دیا۔پھر انہوں نے کہا: مَرْحَبًا بِالاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ (صالح بھائی صالح نبی آپ خوب آئے)۔ انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ 


تیسرا آسمان

پھر جبریل علیہ السّلام مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے گئے، دروازہ کھلوایا، پو چھا گیا کون؟ فرمایا: جبریل، پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں، پوچھا گیا: انہیں بلایا گیا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ کہا گیا: خوش آمدید تم خوب ہی آئے۔ پھر دروازہ کھولا گیا، جب میں داخل ہوا تو وہاں حضرت یوسف علیہ السّلام تھے۔ جبریل علیہ السّلام نے کہا: یہ یوسف علیہ السّلام ہیں، انہیں سلام کرو۔ میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے جواب دیا۔ پھر کہا: مَرْحَبًا بِالاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ(یعنی صالح بھائی صالح نبی آپ خوب آئے) انہیں حسن کا ایک حصّہ دیا گیا تھا، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔


چوتھا آسمان

پھر جبریل مجھے اوپر لے گئے حتّٰی کہ چوتھے آسمان پر پہنچے تو دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا: کون ہے؟ فرمایا: جبریل ہوں، پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، پوچھا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ کہا گیا: خوش آمدید اچھا آنا، آپ آئے۔ تو دروازہ کھولا گیا، جب اندر گئے تو وہاں حضرت ادریس علیہ السّلام تھے۔ جبریل علیہ السّلام نے کہا:یہ ادریس علیہ السّلام ہیں، انہیں سلام کریں۔ میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا اور کہا: مَرْحَبًا بِالاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ (یعنی خوش آمدید اے صالح بھائی صالح نبی)۔ انہوں نے مجھے بھی خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ 


پانچواں آسمان

پھر مجھے اوپر لے گئے حتّٰی کہ پانچویں آسمان پر پہنچے تو دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا کون ہے؟ کہا: جبریل ہوں، پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں، پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ فرمایا: ہاں۔کہا گیا خوش آمدید آپ اچھا آنا آئے۔ دروازہ کھولا گیا تو وہاں حضرت ہارون علیہ السّلام تھے۔ جبریل علیہ السّلام نے کہا: یہ ہارون علیہ السّلام ہیں، انہیں سلام کیجئے۔ میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا۔ پھر کہا:مَرْحَبًا بِالاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ (یعنی خوش آمدید اے صالح بھائی صالح نبی) انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ 


چھٹا آسمان

پھر مجھے اوپر لے گئے حتّٰی کہ چھٹے آسمان پر پہنچے دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا کون ہے؟ فرمایا: جبریل ہوں، پوچھاگیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں، پوچھاگیا کیا انہیں بلایاگیا ہے؟ فرمایا: ہاں،کہاگیا: خوش آمدید آپ اچّھا آنا آئے۔ دروازہ کھولا گیا میں اندر پہنچا تو وہاں حضرت موسیٰ علیہ السّلام تھے۔ جبریل علیہ السّلام نے کہا: یہ موسیٰ علیہ السّلام ہیں انہیں سلام کیجئے۔ میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا۔ پھر کہا: بِالاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ (یعنی خوش آمدید اے صالح بھائی صالح نبی)۔ انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی جب وہاں سے آگے بڑھے تو موسیٰ علیہ السّلام رونے لگے۔ ان سے پوچھا گیا کیا چیز آپ کو رُلا رہی ہے؟ فرمایا: اس لئے کہ ایک فرزند میرے بعد نبی بنائے گئے، ان کی امّت میری امت سے زیادہ جنّت میں جائے گی۔


ساتواں آسمان

پھر مجھے ساتویں آسمان کی طرف لے گئے، جبریل علیہ السّلام نے دروازہ کھلوایا، پوچھا: گیا کون ہے؟ فرمایا: جبریل ہوں، پوچھا گا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں، پوچھا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟فرمایا: ہاں۔ کہا گیا خوش آمدید آپ بہت اچھا آنا آئے، میں داخل ہوا تو وہاں حضرت ابراہیم علیہ السّلام تھے۔ آپ بیتُ المعمور کے ساتھ ٹیک لگا کر تشریف فرماتھے، جبریل علیہ السّلام نے کہا: یہ آپ کے والد ابراہیم علیہ السّلام ہیں انہیں سلام کریں، میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا۔ پھر فرمایا:مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ۔(یعنی خوب آئے اے صالح فرزند صالح نبی)

(بخاری و مسلم)

اس کے بعد ’’البیت المعمور‘‘ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا گیا، بیت المعمور عین خانہ کعبہ کے اوپر واقع ھے۔ یہ فرشتوں کا وہ کعبہ ہے جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے عبادت اور طواف کے لیے آتے ہیں اور ایک دفعہ طواف کے بعد ان کو قیامت تک دوبارہ موقع نہیں ملے گا۔ ہر روز نئے ستر ہزار فرشتے آتے ہیں۔


سدرۃ ُالمنتہی

آسمانوں کے بعد مزید قربِ ِخاص کی طرف سفر کا آغاز ہوا، اس بارے میں پیار ے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں:پھر میں سدرۃُ المنتہیٰ تک اٹھایا گیا۔(سدرۃُ المنتہیٰ بیری کا ایک نورانی درخت ہے) ا س کے پھل مٹکوں کی طرح اور پتے ہاتھی کے کانوں کی طر ح تھے۔ جب اسے اللہ کا کوئی حکم پہنچتا ہے تو متغیر ہوجاتاہے۔ اللہ کی مخلوق میں ایسا ایک بھی نہیں جو اس کے حسن کی تعریف کرسکے۔ تو اللہ نے مجھ پر وحی فرمائی جو وحی فرمائی۔ جبریل علیہ السّلام نے کہا:یہ سدرۃُ المنتہیٰ ہے۔ وہاں چار نہریں تھیں: دو نہریں خفیہ تھیں اور دو نہریں ظاہر۔ میں نے: پوچھا اے جبریل! یہ کیا ہے؟عرض کیا کہ خفیہ نہریں جنّت کی دو نہریں ہیں اور ظاہری نہریں وہ نیل اور فرات ہیں۔ پھر میرے سامنے بیتُ المعمور لایا گیا، اس کے بعد میرے پاس ایک برتن شراب کا، ایک برتن دودھ کا اور ایک برتن شہد کا لایا گیا، میں نے دودھ کا پیا لہ لیا تو جبریل علیہ السّلام نے کہا:یہ فطرت ہے، اسی پر آپ اور آپ کی امت ہوگی۔

(بخاری،  مسلم)


مقامِ صریف الاقلام 

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آسمانوں اور سدرۃُ المنتہی کے بعد سفر جاری رکھتے ہوئے ایک مقام پر پہنچےجسے مستوی کہاجاتاہے، وہاں آپ نے قلموں کے چلنے کی آوازیں سنیں۔اس کے بعد آپ براق پر سوار ہوئے تو اس حجاب کے پاس آئے جو اللہ کریم کے قربِ خاص میں ہے۔اچانک اس حجاب سے ایک فرشتہ نکلا، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت جبریل سےفرمایا: یہ کون ہے؟ حضرت جبریل نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق سے ساتھ مبعوث فرمایا، بطور مکان کے میں تمام مخلوق میں سب سے زیادہ قریب ہوں لیکن اس فرشتہ کو میں نے اپنی تخلیق سے لیکر اب تک دیکھا نہیں تھا۔(تاریخ الخمیس) یوں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (سفر کو جاری رکھتے ہوئے) ایک مقام سے دوسرے مقام تک، ایک حجاب سے دوسرے حجاب تک گئے، حتّٰی کہ ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں حضرت جبریل رک گئے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے جبریل! مجھ سے الگ نہ ہو، عرض کیا: اے میرے آقا! ہماری رسائی بس ایک معلوم مقام تک ہے۔ میں اگر ایک بال برابر بھی آگے جاؤں گا تو جل جاؤں گا۔ اس رات تو میں آپ کے احترام کی وجہ سے یہاں تک پہنچا ہوں ورنہ میراآخری ٹھکانہ سدرۃُ المنتہی ہے۔(تاریخ الخمیس)


حضرت جبرائیل علیہ السلام کی انتہا

حضرت جبرائیل علیہ السلام  نے خود ہی فرمایا تھاکہ میرا آخری ٹھکانہ سدرۃُ المنتہی ہے، لیکن شبِ معراج  میں نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے انہیں سدرۃُ المنتہی سے آگے جانے کی اجازت مل گئی، حضرت جبریل کے رکنے کے بعد اب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اکیلے چلے، آپ اندھیرے والے حجابات سے گزرتے گئے حتّٰی کہ سترّ ہزار(70000) ایسے موٹے حجابات سے بھی تجاوز کر گئے جن میں سے ہر ایک کی طوالت پانچ سو(500) سال کے برابر تھی، اور ہر حجاب کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ تھا، تو ایک مقام پر براق رک گیا، وہاں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رفرف نامی ایک سبز خیمہ ملاحظہ فرمایا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ تھی، آپ اس خیمے پر چڑھے اور اس کے ذریعے عرش تک پہنچے۔ (تاریخ الخمیس) 


دَنَا،  فَتَدَلّـٰى اور قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى

ثُـمَّ دَنَا فَتَدَلّـٰى (8) 

فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى (9)

پھر نزدیک ہوا پھر اور بھی قریب ہوا۔ پھر فاصلہ دو کمان کے برابر تھا یا اس سے بھی کم۔

اس کے بعد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مزید قربِ خاص کی طرف بڑھے، آپ سے فرمایا گیا، میرے قریب ہوجائیے،میرے قریب ہوجایئے  آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر بار پکارے جانے پر ترقی کرتے گئے حتّٰی کہ دنا کےمقام پر پہنچے، پھر مزید ترقی کرتے گئے تو فتدلی تک پہنچے۔ پھر مزید ترقی کرتے گئے حتی کہ اپنی منزل قاب قوسین او ادنی تک پہنچے جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰن ِکریم میں ارشاد فرمایا۔ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے رب کے قریب ہوئے، یہ قرب مقام و مرتبے کے اعتبار سے تھا نہ کہ مکان کے اعتبار سے، کیونکہ اللہ پاک مکان سے پاک ہے۔(اب آپ وہاں پہنچے جہاں، نہ زماں تھا نہ مکاں، نہ اوپر تھا نہ نیچے، نہ شمال تھا نہ جنوب، نہ مشرق تھا اور نہ ہی مغرب، یہ سب نہ تھے، بس خدا کی ذات تھی اور اس کے حبیب تھے،جو قرآن و حدیث میں آیاہے اس پر ہمارا ایمان، مزید ہمیں سوچنے اور عقل دوڑانے کی ضرورت نہیں) اس کے بعد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اللہ کریم کو سجدہ کیا، کیونکہ اس مرتبے کو آپ نے اللہ تعالی کی فرمانبرداری کےذریعے حاصل کیا، سجدے میں خاص قرب ملتاہے جیساکہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اپنے رب کے زیادہ قریب وہ بندہ ہوتاہے جو سجدہ کرتا ہے۔(تاریخ الخمیس)

جاری ھے ۔۔۔۔۔

Share: