قسط نمبر (63) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 معراج کے موقعہ پر دیدار و کلام اور عطاءِ  آحکام

معراج کے موقعہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی کا دیدار ھوا یا نہیں ھوا اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے اختلاف چلا آرہا ہے، بعض صحابہ کرام کی رائے یہ ہے کہ  حضور آکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنی ان آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے، ان کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے۔ ﴿ لَاتُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ…﴾ کہ نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں، لیکن جمہور صحابہ کرام  اور تابعین کرام کی رائے اور راحج قول یہی ہے کہ  حضور آکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جسمانی آنکھوں سے بھی اور دل کی آنکھوں سے بھی اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، کیوں کہ خود حضور آکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے رب کو دیکھا؟ تو  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ہاں!"رَأَیْتُ رَبِّيْ عَزَّ وَجَلَّ"۔ نیز طبرانی میں حضرت ابن عباس کا قول منقول ہے:"رَاٰهُ مَرَّتَیْنِ، مَـرَّةً بِقَلْبِه وَمَرَّةً بِبَصَرِهٖ " … کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا دل سےبھی  اور آنکھ سے بھی،  یہاں "مَرَّتَیْن" سے مراد یہی ہے کہ  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دونوں طرح سے دیکھا، دل کی آنکھوں سے بھی اور سر کی آنکھوں سے بھی، علاوہ ازیں جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے  پوچھا گیا کہ  حضور آکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو کیسے دیکھا؟ قرآن میں تو ہے ﴿ لَاتُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ ﴾ نگاہیں اس کا حاطہ نہیں کرسکتیں؟ تو حضرت ابن عباس   رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: "وَیْحَکَ ذَاکَ إذْا تَجَلّٰی بِنُوْرِ الَّذِيْ هو نُوْرُه"،تیرا بھلا ہو وہ تو اس طرح نگاہیں نہیں دیکھ سکتیں کہ اللہ تعالیٰ کا مکمل ادراک کریں، اس کا کامل احاطہ کریں۔

"عن عکرمة عن ابن عباس قال: راٰی محمد ربه، قلت: ألیس اللّٰه یقول: ﴿ لَا تُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ﴾؟ قال: ویحک ذاک إذا تجلی بنوره الذي هو نوره وقد راٰی ربه مرتین". (ترمذی)

 عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر میں نے رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی زیارت کی ہوتی تو میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  سے ضرور پوچھا ہوتا ، انہوں نے پوچھا :تم رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کیا بات پوچھتے ؟ میں نے کہا:  میں پوچھتاکہ کیا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ بات تو میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پوچھی تھی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا کہ میں نے (اپنی آنکھوں سے ) نور ( کے حجاب) کو دیکھا تھا۔

"عن عبداللّٰه بن شقیق قال: قلت لأبي ذر: لو رأیت رسول اللّٰه لسألته، فقال: عن أي شيءٍ کنت تسأله؟ قال: کنت أسأله هل رأیت ربك؟ قال أبو ذر: قد سألته، فقال: رأیت نوراً". (مسلم)

 معلوم ہوا کہ اس طرح دیکھنا کہ نگاہیں مکمل ادراک کریں جیسے جنت میں اللہ تعالیٰ نصیب کریں گے، ایسا دنیاوی زندگی میں کوئی نہیں دیکھ سکتا، ہاں فی الجملہ حق تعالیٰ شانہ کو دیکھنا ممکن ہے ،اور یہی رؤیت رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو شبِ معراج میں میسر ہوئی، یہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کی ایسی خصوصیت ہے جس میں آپ کا کوئی  شریک نہیں، لہٰذا اس صورت میں کوئی اختلاف نہیں رہا، اس طرح تمام روایات میں بھی تطبیق ہو جاتی ہے۔

مروزی سے نقل کیا گیا ہے کہ میں نے امام احمد سے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، وہ فرماتی ہیں کہ جوشخص یہ سمجھے کہ  رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ بولا ہے ، حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا کی اس حدیث پر لوگ بڑے شش وپنج میں ہیں، حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کی اس حدیث کا کس دلیل سے جواب دیا جائے؟ (اوپر روایات کی تطبیق سے یہ جواب مفہوم ہوگیا کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کو کامل ادراک اور سارے علم کے ساتھ جان لینے کی نفی ہے) حضرت امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ حضرت  عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا جواب خود  حضور آکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں موجود ہے،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ’’ رَئَیْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ‘‘۔

اوپر روایات اور تطبیق سے یہ بات واضح ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، ہاں کامل ادراک کے ساتھ دیدار اللہ تعالیٰ جنت میں کروائیں گے۔ البتہ فی الجملہ دیکھنے میں کوئی اشکال نہیں، اس طرح کا دیدار  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اللہ تعالی  نے کروایا، جمہور صحابہ اور تابعین کا یہی مذہب ہے، اورمحققین کا راحج  قول یہی ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکی آنکھوں سے اللہ تعالی کو دیکھا ہے


نمازوں کی فرضیت

اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے محبوب سیدنا حضرت محند صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ہر دِن رات پچاس نمازوں کا تحفہ (بھی) عَطا فرمایا۔ واپس آتے ہوئے جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچے تو وہ عرض گُزَار ہوئے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ربّ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اُمَّت پر کیا فرض فرمایا؟ ارشاد فرمایا :  پچاس نمازیں اس پر حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کیا : ”اِرْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ فَاِنَّ اُمَّتَکَ لَا یُطِیْقُوْنَ ذٰلِکَ فَاِنِّیْ قَدْ بَلَوْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَخَبَرْتُہُمْ یعنی واپس اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس جائیےاور اُس سے کمی کا سوال کیجئے کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اُمَّت سے یہ نہیں ہو سکے گا، میں نے بنی اسرائیل کو آزما کر دیکھ لیا ہے اور ان کا تجربہ کر لیا ہے۔“ چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم واپس ربّ تَعَالٰی کی بارگاہ میں حاضِر ہوئے اور عرض کیا : ”یَارَبِّ خَفِّفْ عَلٰی اُمَّتِیْ یعنی اے میرے ربّ! میری اُمَّت پر تخفیف فرما۔“ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم واپس حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے پانچ نمازیں کم کر دی ہیں۔ حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پھر وہی عرض کیا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اُمَّت سے یہ نہ ہو سکے گا ، واپس اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس جائیے اور اُس سے کمی کا سوال کیجئے۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، ربّ تَعَالٰی کی بارگاہ میں حاضِر ہوتے تو وہ پانچ نمازیں کم فرما دیتا پھر حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس تشریف لاتے تو وہ اور کمی کا عرض کر کے واپس ربّ تَعَالٰی کی بارگاہ میں بھیج دیتے، حتی کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرمایا : اے محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)! دِن اور رات میں یہ پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز کا ثواب دس گُنا ہے، اِس طرح یہ پچاس نمازیں ہوئیں۔ جو نیکی کا ارادہ کرے پھر اسے نہ کرے تو اُس کے لئے ایک نیکی لکھ دی جائے گی اور اگر کر لے تو دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور جو بُرائی کا ارادہ کرے پھر اس سے باز رہے تو اُس کے نامۂ اَعْمال میں کوئی بُرائی نہیں لکھی جائے گی اور اگر بُرا کام کر لیا تو ایک بُرائی لکھی جائے گی۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس تشریف لائےاور انہیں اس بارے میں بتایا تو حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پھر وہی عرض کیا کہ واپس اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس جائیے اور اُ س سے کمی کا سوال کیجئے۔ اس پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : میں اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس اتنی بار گیا ہوں کہ اب مجھے حَیَا آتی ہے۔ (صحيح مسلم، كتاب الايمان،)


جنت و جہنم کا مشاھدہ

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رب تعالیٰ کے دیدار کےبعد اپنی امت کےلئے نمازوں کا تحفہ لیکر واپسی کا سفر شروع فرمایا، جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم واپس لوٹے تو حضرت جبریل علیہ السلام  آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رہے۔ چنانچہ حضرت جبریل نے عرض کیا: یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  !بے شک آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر اور اس کے چنے ہوئے ہیں، اللہ پاک نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اس رات وہ بلند مقام و مرتبہ عطا فرمایا جہاں تک مخلوق میں سے نہ کوئی مقرب فرشتہ پہنچا اور نہ ہی کوئی نبی، بس یہ عزت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہی کے لئے ہے۔ اس کے بعد حضرت جبریل نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو جنت و دوز خ کی سیر کرائی، ان کے مناز ل آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کو دکھائے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جنت میں جن چیزوں کو ملاحظہ فرمایا ان میں حوریں، محلات، جنتی غلام/خادم، چھوٹے بچے، درخت، پھل، کلیاں، نہریں، باغیچے، پھول، باغات، حوض، کمرے اور گیلریاں وغیرہ۔ اور جہنم میں جو ملاحظہ  فرمایا وہ زنجیریں، ہتھکڑیاں یا طوق، بیڑیاں، سانپ، بچھو، گدھے کے رینگنے کی طرح کی آوازیں، کھولتا پانی، جلتے دھوئیں وغیرہ۔ (تاریخ الخمیس، )


سفرِ معراج کے بعض حیرت و عبرت آنگیز آسمانی مشاہدات


بعض آنبیاء کرام کے حلیے

ابن عباسؓ سے روایت ہے رسول اﷲ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے حضرت ابراہیم ؑ علیہ السلام کے حلیہ مبارکہ کے بارے فرمایا کہ  وہ میرے ہم شکل تھے ،حضرت  موسیٰ علیہ السلام  کی صفت میں فرمایا کہ وہ طویل قامت اور گندم گوں تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حلیہ مبارک کے سلسلے میں فرمایا ان کا قدد درمیانہ اور بال گھنگھریالے تھے ،اسی ضمن میں حضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے داروغہ جہنم مالک کا بھی تذکرہ فرمایا


حضرت  جبرائیل ؑعلیہ السلام کو ان کی اصل  صورت میں دیکھنا

معراج کی تاریخی سیر میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے حضرت  جبرائیل علیہ السلام  کو ان کی اصل بارُعب صورت میں بھی دیکھا اور ان کی صفت میں یہ بھی فرمایا کہ جبرائیل  علیہ السلام کے پَروں کی تعداد چھ سو ھے اور ان سے موتی اور یاقوت جھڑتے ہیں اور ان کی وسعتوں کا عالم یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام  ان پَروں سے افق آسمان کو ڈھانپ لیتے ہیں۔


آواز نعالِ حضرت بلالؓ :

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے‘ اِس کو حضرت اِمام احمد بن حنبلؒ نے روایت کیا کہ سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے وہاں (حضرت) بلالؓ کے پاﺅں کی آواز کو سُنا۔ (حضرت) جبرائیلؑ سے پوچھا تو اُنہوں نے عرض کیا یہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے مؤذن (حضرت) بلالؓ ہیں۔ جب رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  واپس تشریف لائے تو فرمایا کہ فلاح پائی (حضرت) بلالؓ نے۔ اور حضرت بلالؓ سے پوچھا اے بلالؓ ہم نے جنت میں تیرے پیروں کی چاپوں کی آواز سُنی ہے توُ کیا عمل کرتا ہے؟ عرض کیا‘ یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  پر قربان ہو جائیں مجھے تو کوئی بات معلوم نہیں۔ سوائے اِس کے کہ جب بھی میں نے وضو کیا تو دو رکعت نماز تحیتہ الوضو پڑھی (سوائے مکروہ اوقات کے)۔


جنت کی حسین وادی:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  ایک وادی میں پہنچے جہاں نہایت نفیس‘ معطر‘ خوشگوار ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور نہایت راحت و سکون کی مبارک آوازیں آ رہی تھیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے سُن کر فرمایا جبرائیلؑ یہ کیسی خوشگوار‘ معطر‘ مبارک‘ راحت و سکون والی آوازیں ہیں۔ عرض کیا اے محبوب کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  یہ جنت کی آوازیں ہیں‘ وہ کہہ رہی ہیں کہ اے بار ی تعالیٰ میرے ساتھ تو نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا فرما۔ میرے بالا خانے میں موتی‘ مونگے‘ سونا‘ چاندی‘ جام‘ کٹورے‘ شہد‘ پانی‘ دودھ‘ شراب طہور وغیرہ وغیرہ نعمتیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ اسے ربّ کائنات کی طرف سے جواب ملا کہ ہر ایک وہ مسلمان جو مجھے اور میرے رسولوں ؑ کو مانتا ہے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا اور نہ ہی میرے برابر کسی کو سمجھتا ہے وہ سب تجھ میں داخل کئے جائیں گے۔ پھر فرمایا ، اے جنت سُن جس کے دل میں میرا خوف ہے وہ ہر خوف و خطر سے محفوظ ہے۔ مجھ سے سوال کرنے والا محروم نہیں رہتا۔ مجھے قرض دینے والا بدلہ پاتا ہے جو میرے اوپر بھروسہ کرتا ہے اسے خوب عطا فرماتا ہوں۔ کفالت کرتا ہوں ‘ میں سچا معبود واحد ہوں میرے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں۔ میرے وعدے غلط نہیں ہوا کرتے۔ مومن نجات یافتہ ہے (اللہ تعالیٰ نے فرمایا) میں بابرکت اور سب سے بہتر خالق ہوں۔یہ سُن کر جنت نے کہا بس میں خوش ہوں۔


داروغۂ جہنم ، مالک سے ملاقات 

رسول اﷲ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  سے روایت ہے آپ نے حضرت جبرائیل  علیہ السلام  سے فرمایایہ کیا بات ہے کہ میں جس آسمان پر پہنچا وہاں والوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور مسرت وشادمانی کا اظہار کیا علاوہ ایک فرشتہ کے ،میں نے اسے سلام کیا اس نے جواب  تو دیا اور خوش  آمدید بھی کہا لیکن خوش نہ ہوا اور نہ ہنسا ؟حضرت جبرائیل علیہ السلام  نے عرض کیا ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم  ! یہ داروغہ جہنم مالک ہے اپنی پیدائش سے لے کر اب تک اسے کبھی ہنسی نہیں آئی اگر وہ کسی کے لئے ہنستا تو آپ کے لئے ہنستا


اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں‘ سیدالانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا میں نے ایک قوم کو دیکھا جو ایک روز کھیتی بوتی ہے اور دوسرے دن کھیتی کاٹتی ہے جونہی کاٹ کر فارغ ہوتی ہے تونئی کھیتی بڑھ جاتی ہے۔ حضرت جبرائیلؑ سے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کیا یا حبیب اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں جن کی نیکیاں ختم ہی نہیں ہوتیں۔ سات سات سو گنا تک بڑھتی ہیں اور جو خرچ کریں اُس کا بدلہ پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہترین رازق ہے۔


  ستر ھزار کا بغیر حساب کتاب  جنت میں داخلہ

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : جب نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم معراج کے لیے تشریف لے گیے تو وہاں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا  کئی نبیوں کے پاس سے گزر ہوا، ان میں سے کسی نبی کے ساتھ ان کی پوری امت تھی، کسی کے ساتھ ایک جماعت تھی، کسی کے ساتھ کوئی نہ تھا، یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا گزر ایک بڑے گروہ سے ہوا، توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ کہا گیا : یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ہے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے سرکو بلند کیجئے اور دیکھیے: تویکایک میں نے ایک بہت بڑا گروہ دیکھا جس نے آسمان کے کناروں کو اس جانب سے اس جانب تک گھیر رکھاتھا، مجھ سے کہاگیا کہ یہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی امت ہے اور اس کے سوا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی امت میں ستر ہزار اور ہیں جو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے،پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  گھر میں تشریف لے گئے اور لوگ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اس کی بابت نہیں پوچھ سکے اورنہ ہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کے سامنے اس کی تفسیربیان کی، چنانچہ ان میں سے بعض صحابہ نے کہا: شاید وہ ہم ہی لوگ ہوں اور بعض نے کہا: شاید ہماری وہ اولاد ہیں جو فطرت ِ اسلام پر پیدا ہوئیں ۔ لوگ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  باھر نکل آئے اور فرمایا:’ یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ بدن پر داغ لگواتے ہیں اور نہ جھاڑپھونک اور منتر کرواتے ہیں اور نہ ہی بدفالی لیتے ہیں ، وہ صرف اپنے رب  پر توکل و اعتماد کرتے  ہیں ‘، اسی اثناء میں عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا: اللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کیامیں بھی انہیں میں سے ہوں ؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’ ہاں ‘، (تم بھی انہی میں سے ہو) پھرایک دوسرے شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا: کیا میں بھی انہیں میں سے ہوں ؟ تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’ عکاشہ نے تم پر سبقت حاصل کرلی ‘۔ (جامع ترمذی؛رقم الحدیث 2446 )


صدقہ کا ثواب دس گنا اور قرض کا اٹھارہ گنا

حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: معراج کی رات میں نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا: صدقے کا ثواب دس گنا ہے اور قرض کا اٹھارہ گنا۔ میں نے کہا: اے جبریل! کیا وجہ ہے کہ قرض صدقے سے بھی زیادہ فضیلت کا حامل ہے؟ انہوں نے کہا: اس لیے کہ سائل (بعض اوقات) سوال کرتا ہے، حالانکہ اس کے پاس (اس کی ضرورت کا مال) موجود ہوتا ہے جبکہ قرض لینے والا ضرورت (اور مجبوری) کی حالت ہی میں قرض لیتا ہے (کیونکہ قرض کی واپسی تو ضروری ہے، اس لیے مجبوری کے وقت ہی لیا جاتا ہے)۔ (رواہ ابن ماجہ )

اس اہم وعظیم سفر میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت ودوزخ کے مشاہدہ کے ساتھ مختلف گناہگاروں کے احوال بھی دکھائے گئے جن میں سے بعض گناہگاروں کے احوال اس جذبہ سے تحریر کیے جا رھے ھیں  کہ ان گناہوں سے ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔ 


دوزخ کی خوفناک وادی :

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ کہ سیّد کونین رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک  وادی دیکھی جہاں سے نہایت بھیانک اور خوفناک آوازیں آ رہی تھیں۔ اور سخت بدبو آ رہی تھی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کے بارے میں (حضرت) جبرائیلؑ سے پوچھا اُنہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہ جہنم کی آواز ہے جو یہ کہہ رہی ہے مجھے وہ دے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ میرے طوق و زنجیریں‘ میرے شعلے‘ تھوہر لہو اور پیپ‘ میرے عذاب اور سزا کے سامان بہت وافر ہو گئے ہیں۔ میرا گہراﺅ بہت زیادہ ہے میری آگ بہت تیز ہے۔ مجھے وہ عنایت فرما جس کا وعدہ مجھ سے ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہر مشرک و کافر‘ خبیث‘ منکر‘ بے اِیمان مرد عورت تیرے لئے ہے۔ یہ سن کر جہنم نے اپنی رضامندی ظاہر کی۔


راستوں میں بیٹھنے والے لوگ

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا  گزر راستے میں ایک  ایسی لکڑی کے پاس سے ہوا  جس کے پاس اگرکوئی کپڑا گزرتا تو اسے وہ لکڑی چاک کردیتی یا کوئی شے گزرتی اسے بھی چاک کردیتی۔ حبیبِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے  پوچھا !جبریل یہ کیا ہے ؟حضرت جبریل علیہ السلام  نے بتایا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی امت کے وہ لوگ ہیں جو راستوں پر بیٹھتے اور راستہ کاٹا کرتے  ہیں 


آمانتیں ادا نہ کرنے والے لوگ

پھر نبی  کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  ایک  ایسے شخص کے پاس آئے جو بہت زیادہ لکڑیاں جمع کررہا تھا اور انھیں اٹھا نہیں  پارہا ہے اور زیادہ کرتا جارہا ہے ۔نبی  کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھا !جبریل یہ کون ہے ؟حضرت جبرائیل علیہ السلام  نے جواب دیا ،یہ آپ کی امت کا وہ شخص ہے جسکے پاس لوگو ں کی امانتیں ہوتیں اور وہ انکی ادائیگی پر قادر نہ ہوتا اور مزید جمع کرتا جاتا وہ انکو اُٹھانا  چاہتا ہے مگر اٹھا نہیں سکتا ۔


خود عمل نہ کرنے والے واعظین کی سزا 

اسطرح شب ِمعراج میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایسے لوگوں کوبھی دیکھا جن کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچی سے کاٹے جاتے تھے اور جب بھی کاٹ دیئے جاتے پھر دوبارہ صحیح ہوجاتے ۔اس سلسلہ میں کوئی کمی نہ آتی یہ سلسلہ برابر جاری رہتا۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا، اے جبریل ! یہ کون ہیں ،انھوں نے عرض کیا، یہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی امت کے وہ فتنہ پرور مقررین اور واعظین ھیں یہ جو کہتے تھے اس پر خود عمل نہ کرتے تھے ۔ ( جو کہتے کچھ تھے کرتے کچھ تھے)۔


پتھر کے سوراخ سے بیل کا نکلنا:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں‘ معراج کے موقعہ پر حبیب کبریا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دیکھا کہ ایک بہت بھاری بھر کم قوی ہیکل بیل ایک پتھر کے چھوٹے سے سوراخ سے نکل رہا ہے‘ جب باہر آ جاتا ہے پھر اُسی سوراخ میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے مگر ناکام رہتا ہے۔ پوچھا اے جبرائیلؑ یہ کیا ہے؟ عرض کیا یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! یہ اُس شخص کی مثال ہے جو منہ سے بڑی بات نکالتا تھا پھر خود ہی نادم ہو جاتا تھا اور چاہتا تھا کہ میری بات واپس لوٹ آئے لیکن اَیسا نہیں ہوتا۔


اُلٹی لٹکی ہوئی عورتیں:

نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں کہ کچھ دُور چلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ عورتیں سینوں سے بندھی اُلٹی لٹکی ہوئی ہیں‘ ہائے وائے کر رہی ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون عورتیں ہیں؟ تو بتایا گیا یہ بدکار عورتیں ہیں (اور اپنی اَولاد کو قتل کرتی تھیں)۔


یتیموں کا مال کھانے والوں کو عذاب 

اسی طرح نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے شب معراج میں ایسے لوگوں کا بھی مشاہدہ کیا جن کے منہ کھولے جاتے اور آگ کے گیند ان کے منہ میں ڈال دیئے جاتے پھر یہ گیند ان کے نیچے سے باہر نکل جاتے یہ وہ لوگ تھے جو یتیموں کا مال غلط طور سے کھاتے تھے ۔

جو لوگ یتیموں کامال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں وہ صرف اور صرف اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے  ہیں اور وہ جلدہی بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے ۔پس اے اﷲ !  اس نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  پر اپنا درود نازل فرما اور ہم سب کو آپ کی شفاعت سے بہرہ  و ر فرما(آمین )


جنت میں غرباء اور جہنم میں عورتوں کی اکثریت 

حضرت عمران بن حصینؓ نےبیان کیا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا  تو وہاں رہنے والے اکثر غریب لوگ تھے اور میں نے جہنم میں جھانک کر دیکھا ( شب معراج میں ) تو وہاں عورتیں زیادہ تھیں ۔ (رواہ البخاری

جیسا کہ رسول اﷲ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  سے ثابت ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرمایا ،میں نے جہنم کا مشاہدہ کیا تو کیا دیکھتا ہو ں کہ اس میں زیادہ تر تعداد عورتوں کی ہے صحابہ رضی اﷲتعالیٰ عنہم نے عر ض کیا ،یا رسول اﷲ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایسا کیوں ہے ؟ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم   نے فرمایا، اپنی ناشکری کی وجہ سے عر ض کیا گیا کہ کیا وہ اﷲکی ناشکری کرتی ہیں اور احسا ن فراموشی کرتی ہیں  فرمایا  گیا وہ شوھر  کی ناشکری کرتی ہیں احسان فراموشی کرتی ہیں اگر تم کسی ایک کے ساتھ زمانہ بھر تک احسان کرتے رہو پھر اس نے ذراسا بھی فر ق دیکھا تو کہہ اٹھی تم سے تو میں نے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں ۔(البخاری


غیبت کرنے والوں کو عذاب

حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔ میں نے جبرئیل  علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ: یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں (یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔ (ابوداود)


سود خوروں کو عذاب

حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جس رات مجھے سیر کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر بھی گزرا جن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے جیسے (انسانوں کے رہنے کے) گھر ہوتے ہیں، ان میں سانپ تھے جو باہر سے ان کے پیٹوں میں نظر آرہے تھے۔ میں نے کہا کہ: اے جبرئیل ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ سود کھانے والے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح)


نماز میں کاھلی کرنے والوں کو عذاب

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے، کچل جانے کے بعد پھر ویسے ہی ہوجاتے تھے جیسے پہلے تھے۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری تھا، ختم نہیں ہورہا تھا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل  علیہ السلام نے کہا کہ: یہ لوگ نماز میں کاہلی کرنے والے ہیں۔ (انوار السراج فی ذکر الاسراء والمعراج ، شیخ مفتی عاشق الہٰی ؒ)


زکوة  نہ دینے والوں کو عذاب 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کی شرمگاہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے ہیں اور اونٹ وبیل کی طرح چرتے ہیں اور کانٹے دار و خبیث درخت اور جہنم کے پتھر کھا رھے  ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل  علیہ السلام نے کہا کہ: یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں۔ (انوار السراج فی ذکر الاسراء والمعراج ، شیخ مفتی عاشق الہٰی ؒ)


زنا کرنے والوں کو عذاب

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت ہے اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا ہے، یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھا رھے ہیں اور پکا ہوا گوشت نہیں کھارہے ہیں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل  علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال اور طیب عورت موجود ہے، مگر وہ زانیہ اور فاحشہ عورت کے ساتھ شب باشی کرتے ہیں اور صبح تک اسی کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ عورتیں ہیں جو حلال اور طیب شوہر کو چھوڑکر کسی زانی اور بدکار شخص کے ساتھ رات گزارتی ہیں۔ (انوار السراج فی ذکر الاسراء والمعراج ، شیخ مفتی عاشق الہٰیؒ)


سفرِ معراج سے کرہ ارض کی طرف واپسی

رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے  جنت اور دوزخ کو ملاحظہ فرمایا، اس کے بعد آسمانوں سے ہوتے ہوئے بیتُ المقدس پھر مکہ شریف حضرت ام ہانی کے گھر تشریف لائے جہاں سے سفر کی ابتدا ھوئی  تھی، چنانچہ ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیت المقدس تک آئے، حضرت جبریل علیہ السلام آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ تھے، پھر آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  وہاں سے مکہ شریف حضرت ام ہانی کے گھر اپنے بستر پر تشریف لائے، جبکہ رات کا کچھ حصّہ باقی تھا۔ (تاریخ الخمیس، 1/315)


معراج کا اعلان اور مشرکینِ قریش کی تکذیب 

رات کے صرف ایک حصہ میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس جانا، انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت میں وہاں نماز پڑھنا،پھر وہاں سے آسمانوں تک تشریف لے جانا، انبیاء کرام علیہم السلام سے ملاقات اور پھر اللہ جل شانہٗ کی دربار میں حاضری، جنت ودوزخ کو دیکھنا، مکہ مکرمہ تک واپس آنا اور واپسی پر قریش کے ایک تجارتی قافلہ سے ملاقات ہونا جو ملک شام سے واپس آرہا تھا، جب حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کو معراج کا واقعہ بیان کیا تو قریش تعجب کرنے لگے اور جھٹلانے لگے

چنانجہ روایت کے مطابق آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رات گزارنے کےبعد یہ واقعہ لوگوں میں بیان کرنے کا ارادہ فرمایا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مجھے اس رات بیت المقدس تک سیر کروائی گئی، پھر وہاں سے آسمانوں کی۔ ابو جہل نے کہا: آپ نے اس ایک رات میں بیت المقدس کا سفر کیا اور مکہ میں ہمارے ساتھ ہی صبح کررہے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں۔ابو جہل اس خوف سے انکار نہ کرسکا کہ آپ یہ بات اپنی قوم میں بیان کریں گے۔تو حضور ِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا کہ کیا یہ بات اپنی قوم کو بتائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔یہ سن کر ابو جہل نے آواز لگائی کہ اے بنی کعب! یہاں آؤ۔ تو سب لوگ جمع ہوئے، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ابو جہل کےپاس بیٹھ گئے۔ ابوجہل نے کہا: جو بات بیان کرنی ہے اپنی قوم سے کریں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مجھے اس رات سیر کرائی گئی تھی۔ لوگوں نے پوچھا: کہاں سے کہاں تک؟فرمایا بیت المقدس تک۔پھر لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے یہاں آکر صبح کی ہے؟ فرمایا :ہاں۔ لوگوں نے کہا یہ تو عجیب بات ہے۔ ان میں بعض نے تالیاں بجائیں، بعض ہنسنے لگے، اور بعض نے اپنے سروں پر ہاتھ رکھا۔اس معاملے کو محال اور تعجب کی نگاہ سے دیکھا گیا، اس کی وجہ سے بعض ایمان والے بھی تصدیق نہ کرسکے جبکہ  بعض اپلِ ایمان نے زبان اور دل سے تصدیق کی۔(تاریخ الخمیس، 1/315)


بیت المقدس کے متعلق مشرکین کے سوالات

اس مبارک سفر کی تفصیل اہل مکہ کے سامنے بیان کرنے کے لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  حرم تشریف لے گئے جہاں سردارانِ قریش اپنی محفل لگایا کرتے تھے۔ جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے سفر کی تفصیل پیش کی تو کچھ لوگوں نے بیت المقدس کے اندرونی حصے کی تفصیل پوچھی۔ اس موقع پر اللہ رب العزت نے بیت المقدس آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے سامنے کردیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  اسے دیکھ دیکھ کر قریش مکہ کو تفصیل بتاتے رہے

مشرکینِ مکّہ کے سُوالات بھی لَایَـعْـنِـیْ (فُضُول)تھے ۔مثلاً یہ کہ بَیْتُ الْمَقْدَس میں سُتُون کتنے ہیں، سِیْڑھیاں کتنی ہیں،مِنْبَر کِس طرف ہے اور ظاہِر ہے کہ یہ چیزیں تو بار بار دیکھنے پر بھی یاد نہیں رہتیں تو ایک بار دیکھنے پر یاد کیسے رہتیں۔کُفَّار نے کہا کہ عَرْش و کُرسِی کی باتیں جو آپ بیان کررہے ہیں ،اُن کی تو ہم کو خَبَر نہیں ،بَیْتُ الْمَقْدَس ہم نے دیکھا ہوا ہے، وہاں کی نِشانیاں آپ ہم کو بتائیں اِسی لیے رَبّ کریم نے اس مِعْراج کے دو حِصّے کئے(ایک مسجدِ حرام سے )بَیْتُ الْمَقْدَس تک،پھر (دوسرا)وہاں سے عَرْش کے آگے تک تاکہ لوگ اس (پہلے)حِصّۂ مِعْراج کو بہت دلائل سے مَعْلُوم کرلیں۔(

) (لہٰذا جب بَیْتُ الْمَقْدَس کی کَیْـفِـیَّت پوچھی گئی تو نبیِ کرىم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو کچھ تَرَدُّد(شک ) ہوا، کىونکہ اگرچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ بَیْتُ الْمَقْدَس مىں داخِل ہوئے تھے لىکن آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے اس کى کَیْـفِـیَّت کے مُتَعَلِّق گہرى نظر نہىں فرمائى تھى، مزىد برآں وہ رات بھى تاریک تھى۔اللہ تعالىٰ نے حضرت جِبْرائىلِ امىن عَلَیْہِ السَّلَام کو حکم فرماىا تو اُنہوں نے اپنے پَروں پر بَیْتُ الْمَقْدَس کو اُٹھا لِىا اور  مَکَّهٔ مُکَرَّمه مىں حضرت عَقِىْل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کے گھر کے پاس رکھ دِىا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُسے دىکھتے جاتے اور اُن کے سُوالوں کے جوابات  دىتے جاتے۔(یاد رہے کہ)بَىْتُ الْمَقْدَس کو اُٹھا کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کى خِدمتِ عالِىہ مىں حاضِر کِىا جانا آپ کا مُعْجِزَہ ہے، جس طرح بِلْقِىْس کا تَخْت (اُٹھا کر دَرْبار مىں حاضِر کِىا جانا) حضرت سلیمان علیہ السلام کا معجزہ تھا 

اسی طرح مشرکین نے اُن قافلوں کے بارے بھی سوالات کیے جو سفر میں تھے جس کے جوابات رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے انہیں دیے  اور اسی دوران حبس شمش کا معجزہ ظاھر ھوا ان سب کی تفصیل پہلے گزر چکی ھے 


واقعۂ معراج اور حضرت صدیقِ آکبر رضی اللہ تعالی عنہ  کی تصدیق 

امُّ المؤمین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہےکہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مسجد اقصیٰ تک کی سیر کرائی گئی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے صبح لوگوں کو خبر دی، مؤمنوں میں سے کچھ نے تصدیق کی اورکچھ نے نہیں کی، کچھ مشرکین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ کے پاس آ کر کہا کہ کیا آپ  اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں جو آپ کے دوست نے کہی ہے کہ اُنہوں نے راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ کی سیر کی؟ حضرت ابو بکر نے فرمایا: اَوَ قَالَ ذٰلِکَ؟ کیا واقعی میرے آقا نے یہ فرمایا ہے؟ کہا: جی ہاں۔ ارشاد فرمایا: لَئِنْ کَانَ قَالَ ذٰلِکَ لَقَدْ صَدَقَ یعنی اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے یہ فرمایا ہے تو یقیناً سچ فرمایا ہے۔ لوگوں نے کہا: کیا آپ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ رات کو بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس آ گئے؟ فرمایا: ”نَعَمْ! اِنِّیْ لَاُصَدِّقُہٗ فِیْمَا ہُوَ اَبْعَدُ مِنْ ذٰلِکَ اُصَدِّقُہٗ بِخَبْرِ السَّمَاءِ فِیْ غُدْوَۃٍ اَوْ رَوْحَۃٍ جی ہاں! میں تو ان کی آسمانی خبروں کی بھی صبح وشام تصدیق کرتا ہوں اور یقیناً وہ تو اِس بات سے بھی زِیادہ حیران کُن اور تَعَجُّب خیز ہے۔ واقعۂ معراج کی فوراً تصدیق کرنے کی وجہ سے آپ کو صدّیق کہا جاتاہے۔(المستدرك للحاكم)


واقعۂ معراج اور ایک عیسائی عالم کی تصدیق

سفرِمعراج کی قدم قدم پر اغیار کے حوالے سے تصدیق بھی ہو رہی تھی اور توثیق بھی، لیکن جن دلوں پر کفر کے تالے پڑے تھے انہیں سورج کی روشنی کیا نظر آتی! وہ معجزاتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادو کا لیبل لگا کر اپنے کفر کو تسکین دے لیتے۔ آج صدیاں گزر جانے کے بعد جب سائنسی ارتقاءاپنی معراج کو چھو رہا ہے، کائنات کی بیکراں وسعتیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقوشِ کفِ پا کی تصدیق کر رہی ہیں۔

کتبِ حدیث اور کتبِ تفسیر میں ایک اہلِ کتاب عالم کا واقعہ بھی درج ہے۔ خاص طور پر امام ابنِ کثیر رحمة اللہ علیہ نے اپنی تفسیر اور امام ابو نعیم اصفہانی رحمة اللہ علیہ نے دلائل النبوة میں بیان کیا ہے کہ محمد بن کعب الکربی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابی دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو قیصرِ روم کی طرف اسلام کا پیغام دے کر بھیجا۔ آپ نے اس عیسائی بادشاہ کو دعوتِ اسلام پہنچائی اور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل اور مناقب بیان کئے تو اس نے کہا کہ میں عرب کے کچھ تاجروں سے چند سوالات کرنا چاہتا ہوں۔ اتفاق سے ابو سفیان تجارت کی غرض سے وہاں موجود تھا اسے بادشاہ کے دربار میں بلایا گیا اور ان سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات بیان کرنے کو کہا گیا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ کسی طرح بادشاہ کی نظروں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درجہ گر جائے اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماننے سے انکار کر دے لیکن محتاط بھی رہا کہ کسی جھوٹ پر پکڑا نہ جاؤں۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے قیصرِ روم! میں تمہیں اس نبی کی ایک ایسی بات بتاتا ہوں جسے سن کر تجھے (معاذاللہ)اس کے جھوٹے ہونے کا یقین آ جائے گا۔ یہ کہہ کر واقعہ معراج بیان کیا۔ جب وہ اس مقام پر پہنچا کہ اس نبی نے کہا کہ میں برّاق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچا جہاں بابِ محمد میرے لئے کھلا تھا۔ وہاں پتھر سے برّاق کو باندھا گیا تھا تو قیصرِروم کے دربار میں موجود دنیائے عیسائیت کے سب سے بڑے پادری نے کہا کہ ہاں اس رات کا مجھے علم ہے۔ قیصرِ روم نے کہا تجھے اس رات کی کیا خبر ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ میرا معمول تھا کہ میں ہر رات مسجدِاَقصیٰ کے دروازے اپنے ہاتھوں سے بند کر کے اور تالے لگا کر سویا کرتا تھا۔ اس رات جب میں اس دروازے پر پہنچا تو وہ بند نہ ہوا۔ میں نے اپنے کئی ساتھیوں کو بلایا جنہوں نے مل کر زور لگایا مگر پھر بھی دروازہ بندہ نہ ہوا حتیٰ کہ مستریوں کی سب کوششیں بھی بے کار گئیں لہٰذا فیصلہ یہ ہوا کہ اب تو اسے کھلا چھوڑ کر سو جائیں۔ صبح اٹھ کر اسے بند کر دیں گے۔ پادری کہتا ہے کہ خدا کی قسم! اس رات میں دروازہ کھلا چھوڑ کر سو گیا لیکن ساری رات سوچتا رہا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ جب علی الصبح میں نے دروازہ بند کرنا چاہا تو وہی دروازہ جو رات کو بند نہ ہوا تھا اس وقت آرام سے بند ہو گیا۔ میں بھی حیران ہو رہا تھا کہ میری نظر دروازے کے باہر پتھر پر پڑی تو اس پر سواری کے باندھنے کا نشان تھا۔ اس پتھر کے بارے میں تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا :

لما انتہینا لی بیت المقدس قال جبرئیل بصبعہ، فخرق بہ الحجر و شدّ بہا البُرّاق.

جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبرئیل نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا تو اس پتھر میں سوراخ ہو گیا۔ پھر جبرئیل نے اس کے ساتھ براق باندھا۔

1. جامع الترمذی، 2 : 141، کتاب التفسیر، رقم : 3132

2. المستدرک للحاکم، 2 : 360، رقم : 3370

3. مشکوة المصابیح، 3 : 306، رقم : 5921

وہ پادری کہتا ہے کہ میں نے اس کیفیت کو دیکھا تو مجھے پرانی الہامی کتابوں میں پڑھا ہوا یہ واقعہ یاد آ گیا جو ہم انبیاءکی زبانی سنتے آئے ہیں کہ جب نبی آخر الزماں  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ آئے گا تو انہیں سفرِمعراج پر بلایا جائے گا اور وہ اس رات بیت المقدس آ کر انبیاءکی امامت کرائیں گے اور اس پتھر پر ان کی سواری باندھی جائے گی۔ میں سمجھ گیا کہ آج نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج کی رات ہے اور ابوسفیان رضی اللہ عنہ اپنے بیان میں سچا ہے۔

ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ سنا تو میرے قدموں کے نیچے سے زمین نکل گئی کہ یہ تو ایسی حقیقت ہے کہ عالمِ عیسائیت کا بڑا پادری بھی اپنی مخالفت کے باوجود جسے تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ امام ابو نعیم اصفہانی رحمة اللہ علیہ تو یہاں تک بیان کرتے ہیں کہ وہ پتھر ان کے زمانے تک موجود رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم! لوگ آج بھی سواری باندھے جانے والی جگہ پر ہاتھ لگا کر برکتیں حاصل کرتے ہیں۔

(دلائل النبوة )

ادھر سے کون گزرا تھا کہ اب تک

دیارِ کہکشاں میں روشنی ہے


معراج کے موقعہ پر  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کے تین انعام

معراج کے موقعہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین انعام دیئے گئے:

۱:-حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ سے انسان کا رشتہ جوڑنے کا سب سے اہم ذریعہ یعنی نماز کی فرضیت کا تحفہ ملا اور حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی اُمت کی فکر اور اللہ کے فضل وکرم کی وجہ سے پانچ نمازوں کی ادائیگی پر پچاس نمازوں کا ثواب دیا جائے گا۔ 

۲:- سورۃ البقرہ کی آخری آیت ’’آمَنَ الرَّسُولُ‘‘سے لے کر آخر تک عنایت فرمائی گئی۔ 

۳:- اس قانون کا اعلان کیا گیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے شرک کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی ممکن ہے، یعنی کبیرہ گناہوں کی وجہ سے ہمیشہ عذاب میں نہیں رہیں گے، بلکہ توبہ سے معاف ہوجائیں گے یا عذاب بھگت کر چھٹکارا مل جائے گا، البتہ کافر اور مشرک ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

جاری ھے ۔۔۔۔۔
Share: