قسط نمبر (64) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 سفرِ معراج کے اسرار ، حکم  و لطائف اور معارف و فوائد

معراج کے قصہ میں عجیب وغریب لطائف وحکم اور معارف واسرار ہیں، جن کو علماء کرام نے اپنی کتابوں میں بیان فرمایا ھے

حضرت اقدس مولانا آشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہٗ نے اپنی   بیمثال اور شہرہ آفاق  کتاب “نشرالطیب” میں دو طرح کے فوائد ولطائف بیان کئے ہیں، پہلی قسم فوائد حُکْمِیَہْ اور دوسری قسم فوائد حِکمیہ، دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ پہلی قسم کے فوائد عملی ہیں اور دوسری قسم کے فوائد علمی ہیں


بعد از خدا بزرگ توئی قصۂ مختصر

سفرِ معراج وہ عظیم الشان سفر ھے کہ اس کے رموز و اسرار کو مکمل طور پر قلمبند کرنا شاید ناممکن ھی ھے تاھم یہ بھی حقیقت ھے کہ سفرِ معراج کے خصائص و امتیازات اور فوائد و ثمرات کو شعور و وجدان کی کیفیت کے ساتھ اخذ کرنے اور گہرائی و گیرائی سے آشنا ہونے کیلئے، ان اسرار و حکم حقائق و معارف اور دروس و عبر کا قلب و ذہن میں پیوست ہونا اور نظر میں آنا ضروری ہے، جو اس بلندی و رفعت کے دلچسپ  مبارک سفر میں مضمر ہے۔


سفرِ معراج کے بعض اسرار و حکم

واقعہٴ معراج محض ایک مشاہداتی سفر اور قطع مسافت کی پرکیف و عجیب داستان نہیں ہے، سورۂ اسراء اور سورہ نجم اوراس سلسلے میں مروی صحیح ومشہور احادیث سے بہت سے اسرار و حکم اور لطائف و معارف  اور فوائد سامنے آتے ہیں۔

(۱)   خاتم النّبیین  صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ دونوں قبلوں کے نبی اور مشرق و مغرب دونوں سمتوں کے امام ہیں۔

(۲)  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیش رو تمام انبیاء کرام کے وارث اور بعد میں آنے والی پوری نسل انسانی کے رہبر و رہنما ہیں۔

(۳)  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام، دعوت کی عمومیت و آفاقیت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کی ابدیت اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی ہمہ گیری و صلاحیت کی دلیل و علامت ہے۔

(۴)  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا صحیح تعارف اور صحیح نشاندہی ہے۔

(۵)  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اصل مقام و حیثیتِ عرفی کا تعین ہے۔

(۶)  آپ کی نبوت کی محدود، مقامی اور عارضی نوعیت اور ابدی و عالمگیری حیثیت کے درمیان خطّ فاصل ہے۔

(۷) آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت و سیادت کا قومی اور سیاسی قیادت پر غلبہ و تفوق اور بالاتری کا ثبوت اور امتیازی حیثیت ہے۔

(۸)  ایسا معجزہ اور کرامت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سوا کسی  اور کو حاصل نہیں ہوا۔

(۹)  عبادت اور تقرب و بندگی کے ذریعہ کو بطور تحفہ آسمان کے اوپر مہمان بناکر عطا کرنا جو رفعِ ذکر کی وقوعی اور خارجی تفسیر ہے۔

(۱۰) نبی آخر الزماں  صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے انبیاء پر جو فضیلت ہے، ان میں دو باتیں خاص طور پر فضیلت کا باعث ہیں: دنیا میں معراج اور آخرت میں شفاعت۔ حضور  آکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دونوں فضیلتیں تواضع کی بدولت حاصل ہوئیں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ کے ساتھ تواضع کی، تو دولت معراج  پائی، اور مخلوق کے ساتھ تواضع کی تو دولت شفاعت پائی، حق تعالیٰ کے سوال پر شب معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام القاب میں سب سے زیادہ پسندیدہ لقب میرے لئے عبد کا ہے، تیرا بندہ ہونا، یعنی عبدیت کی اساسی صفت جو باری تعالیٰ کو انسانیت کی جانب سے سب سے زیادہ مطلوب اور محبوب ہے۔

(۱۱) رات کی خلوت و تنہائی میں بلانا، مزید تقرب اور اختصاصِ خاص کی دلیل ہے۔

(۱۲) مسجد اقصیٰ کے معاملات کا سارے عالم اسلام سے گہرے ربط و تعلق کا ثبوت، نیز یہ کہ فلسطین، کا دفاع اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت ساری دنیا کے مسلمانوں پر حسب استطاعت واجب ہے، اوراس سے غفلت ایسی کوتاہی ہے جس پر موٴاخذہ بھی ہوسکتا ہے۔

(۱۳) امت مسلمہ کے مرتبے کی بلندی اور عظمت شان اور دنیا کی خواہشات و رغبات سے اس امت کے مستوی اور معیار کی رفعت ہے۔

(۱۴) اس میں اشارہ ہے کہ فضاء کا خلائی سفر اور کرۂ ارضی کے مقناطیسی دائرے سے نکل کر اوپر دوسرے دائرے میں داخل ہونا ممکن ہے، اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلے خلا باز مسافر ہیں، اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آسمان سے کرۂ ارضی کی طرف صحیح سالم لوٹ کر آنا ممکن ہے۔

(۱۵) معراج میں نماز کی فرضیت سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ روزانہ پانچ مرتبہ اللہ کے حضور سارے مومنین کی روحوں اور دلوں کو پہنچنا چاہئے، تاکہ خواہشات کی سطح سے بلندی نصیب ہو۔


سفرِ معراج دعوت و تبلیغ کی ایک کڑی

سفر معراج کے اندر پوشیدہ بلند و بالا مقاصد اور لطائف ومعارف، دروس و عبر، جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اوپر پے در پے نازل ہونے والے رنج و غم کا مداویٰ ثابت ہوئے، جس کے ذریعہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اوپر سے حزن و ملال کے بادل چھٹ گئے، آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم نے اپنی زندگی کے لمحات میں ولسَوف یعطیک ربُّک فترضیٰ کا منظر دیکھا، اور خوشی و مسرت کا سانس لیا، اور فرحت و انبساط کے حالات کی طرف عود کر آئے، اور نہ صرف غم و اندوہ کافور ہوئے بلکہ دعوت و تبلیغ کی راہیں ہموار ہوتی گئیں، بلکہ رغبت و لگن اور مولا کریم  کی رضا جوئی کے ساتھ قدم بڑھتے رہے، آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم کے عزم و حوصلہ اور پختگی و ثبات قدمی کو مہمیز کرنے والی قوت ملی، کیونکہ اس سفر مبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم  کے مرتبے کی بلندی بھی تھی۔

سچ ہے جب کفار و مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم  کے نرینہ اولاد کے زندہ نہ رہنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا، اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم کو منقطع النسل اور قلیل الخیر ہونے کا طعنہ دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم  کے قلب اطہر پر سورة الکوثر نازل کرکے ان دشمنان رسول کا دندان شکن جواب دیاگیا، اور ان کے باطل نظریات پر کاری ضرب لگائی گئی: انا أعطینٰک الکوثر، فصَلّ لربک وانحر، انَّ شَانئک ہُوالأبتر․ 

اس میں مفسرین کے اقوال کے مطابق کوثر، حوض کوثر کے ساتھ خیر کثیر کے معنی کو بھی شامل ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم کے دشمنوں کے منقطع النسل ہونے کا اعلان ہے، جیسا کہ ”ہو الابتر“ سے ظاہر ہے، اور کسی بھی تحریک اور مشن کو لے کر چلنے والے کے لئے راستہ سے موانع و عوائق کا دور ہوجانا اس کے قلب و ذہن کا غم و اندوہ اور افکار پریشاں سے خالی ہوجانا اور مرتبے کی بلندی کے ذریعے عزم کا پختہ ہونا، حوصلے کا بلند ہونا، فلاح و کامیابی کا پیش خیمہ اور حیرت انگیز پیش قدمی کا ضامن ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی عظمت و رفعت کا کرشمہ تھا کہ ایسے ماحول میں جبکہ اہل مکہ بلکہ تمام اہل عرب نہ صرف یہ کہ ضلالت و شقاوت میں ڈوبے ہوئے تھے، بلکہ اسی کے دلدادہ تھے، اور وہی ان کی طبیعت بن گئی تھی، اور جہالت و بہیمیت کی حدود کو پار کرنے میں ایک فرد دوسرے سے پیچھے رہنا گوارہ نہیں کرتا تھا، اور اس کیلئے دنیا کا سارا خسارہ اور آخرت کی محرومی قبول کرلینا سستا سودا سمجھتا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم  نے تنہا دعوتِ عظمیٰ اور رسالت خداوندی کی تمام تر ذمہ داری تیئس (۲۳) سال کی قلیل مدت میں ایسے حیرت انگیز طریقہ پر پوری کی کہ تمام  عالم  اس کے اعتراف پر مجبور ہوگیا، کہ صدیوں میں پایہٴ تکمیل کو نہ پہنچنے والا پیغام محمد  صلی اللہ علیہ وسلم نے تیئس (۲۳) سال کی قلیل مدت میں اس طرح مکمل کردکھایا کہ تاریخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔


واقعۂ معراج کے بعض لطائف، معارف و فوائد

 نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِ معراج کے کچھ اسرار و حکم کا تذکرہ اوپر گزرا معراج کے اسرار و حکم کے ساتھ اس کے معارف ، لطائف و فوائد پر بھی نظر رھنی ضروری ھے لہذا ملاحظہ کیجئے واقعہ ٔ معراج  کے بعض  لطائف، معارف و فوائد۔ معراج کے سفر میں پیش آنے والا ہر واقعہ ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم کی حیات ِ طیبہ میں پیش آنے والے واقعات کی کس طرح جھلک پیش کرتا ہے۔ یہ تو معلوم ھے کہ مکہ مکرمہ کیلئے موسم حج کی بڑی اہمیت تھی، دور دور سے لوگ حج کا فریضہ ادا کرنے کے لئے آیا کرتے تھے، ایسے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم کس طرح تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم حج کے موقع پر مکہ مکرمہ پہنچنے والے قبائل اور وفود سے ملاقات کرتے اور دین کی دعوت دیتے

 واقعۂ معراج میں علماء کرام  نے بڑی محنت اور توجہ سے کچھ معارف ، لطائف و فوائد ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے ہیں، ان میں سے بعض یہاں لکھے جاتے ہیں۔ 

(۱)  واقعۂ معراج  میں یہ بھی ہے کہ بیت المقدس پہنچ کر براق کو ایک حلقۂ زنجیر سے باندھ دیا گیا تھا حالانکہ بظاھر اس کی ضرورت محسوس نہیں ھوتی ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ معاملات میں احتیاط کا پہلو اختیار کرنا صحیح ہے اور ظاہری اسباب سے کام لینا توکل کے خلاف نہیں ہے، مگر اصل اعتماد حق تعالیٰ پر ہونا چاہئے۔

(۲) آسمان کے دروازے پر جب وہاں متعین فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے تو حضرت جبریل علیہ السلام  نے جواب میں اپنا نام بتلایا کہ میں جبریل ہوں، یہ نہیں کہا کہ “میں “ھوں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے موقعوں پر ادب کا تقاضا یہ ہے کہ اپنا نام بتلانا چاہئے محض ’’میں‘‘ کہنے سے بعض اوقات آنے والے کی شناخت نہیں ہوتی۔ 

 (۳)  اس سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ کسی کے گھر میں خواہ وہ مردانہ ہو، بلا اجازت داخل ہونا صحیح نہیں ہے۔

 (۴) واقعۂ معراج میں یہ بھی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام دائیں جانب کی روحوں کو دیکھ کر تبسم فرماتے اور خوش ہوتے تھے اور بائیں طرف کی ارواحِ خبیثہ کو دیکھ کر روتے تھے اور غم زدہ ہوجاتے تھے، اس سے اولاد کے تئیں والد کی شفقت اور محبت ثابت ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی خوش حالی اور نیکی دیکھ کر مسرور ہوتا ہے اور بدحالی دیکھ کر مغموم۔

 (۵)  حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ کہہ کر رونے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی تعداد میری امت سے بڑھ جائے گی اور  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم  کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ جنت میں جائیں گے۔ یہ رونا بطور غبطہ تھا، نہ کہ بوجہ حسد۔ غبطہ امر خیر میں محمود اور پسندیدہ ہے۔ غبطہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان دوسرے کی نعمت دیکھ کر یہ تمنا کرے کہ کاش میرے پاس بھی یہ نعمت ہوتی، اس کے پاس سے زوالِ نعمت کی تمنا نہ کرے کیوںکہ یہ حسد ہے اور کسی سے حسد کرناحرام ہے۔

  (۷) روایات کے مطابق براق کی رکاب حضرت جبریل علیہ السلام نے پکڑی اور لگام حضرت میکائیل علیہ السلام نے تھامی، اس سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنی سواری پر بیٹھنے کے لئے یا بیٹھنے کے بعد اپنے خدام سے یا اپنے چھوٹوں سے کوئی خدمت لے یاکوئی دوسرا بطور اکرام ایسا کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہاں بطور کبر ایسا نہ ہونا چاہئے۔

  (۸) سفرِ معراج  کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم بہت سے مقامات سے گزرے، کئی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم  ٹھہرے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم نے وہاں نماز پڑھی، یہ متبرک مقامات تھے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ متبرک مقامات میں حصولِ برکت و فضیلت کی نیت سے نماز پڑھنا موجبِ نجات ہے، شرط یہ ہے کہ اس طرح کی کسی جگہ کا تعلق کسی مخلوق کی بندگی سے نہ ہو اور نہ اس نماز کے ذریعے غیراللہ سے حاجت روائی مقصود ہو۔

   (۹) سفرِ معراج  میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت موسیٰ  علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آپ کو سلام پیش کیا۔ اس سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص سواری پر بیٹھا ہوا ہو اور اس کی نظر پیدل چلنے والے پر یا بیٹھنے والے پر نہ پڑی ہو تو افضل یہ ہے کہ پیدل چلنے والا یا بیٹھنے والا خود ہی سلام کرلے۔

  (۱۰) رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ بعض اعمال پر سزا اور بعض پر جزا دی جارہی ہے، اس سے ثابت ہوا کہ خیر کے اعمال کرنے چاہئیں اور شر کے اعمال سے اجتناب کرنا چاہئے، کیوںکہ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔

  (۱۱) مسجد  اقصیٰ میں داخل ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم نے نماز پڑھی، حالاںکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم  مکہ میں نماز عشاء پڑھ چکے تھے اور فجر واپس مکہ پہنچ کر پڑھی تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ فرض نماز نہیں تھی بلکہ نفل نماز تھی۔ اس سے تحیۃ المسجد کا مسنون ہونا ثابت ہوا۔

  (۱۲) بیت المقدس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملائکہ اور انبیاء کا امام بنایا گیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حاضرین میں جو سب سے افضل ہو اس کو امام بنانا چاہئے۔ نماز کے بعد بعض  انبیاء کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم کے مناقب و فضائل بیان کئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بزرگوں کے مناقب ان کے سامنے بیان کئے جاسکتے ہیں۔ 

  (۱۳) تمام انبیاء علیہم السلام نے بیت المقدس میں اپنے فضائل کا خطبہ پڑھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ تحدیثِ نعمت کے طور پر اپنے فضائل و کمالات بھی بیان کئے جاسکتے ہیں۔

  (۱۴) رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کئی طرح کے مشروب پیش کئے گئے، اس سے پتہ چلتاہے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں فراخی کرنا خصوصاً مہمانوں کے لئے کھانے میں تنوع کرنا جائز ہے۔

  (۱۵) اگر مشروبات پیش کرنے کا مقصد امتحان لینا تھا یعنی یہ دیکھنا تھا کہ آپ کون سا مشروب پیتے ہیں تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دین میں امتحان لینا جائز ہے۔

 ( ۱۶) جب  حضور اکرم ؐصلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم آسمانوں پر تشریف لے گئے تو فرشتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم کو مرحبا کہا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہمان کی آمد پر اظہارِ خوشی اور بیان انبساط کے لئے اس طرح کے کلمات کہنے چاہئیں۔

  (۱۷) نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم نے بوقت ملاقات حضرات انبیاء علیہم السلام کو سلام کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھڑا ہوا شخص یا چلنے والا شخص بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کر ے اگرچہ وہ درجے میں ان سے افضل ہی کیوں نہ ہو جن کو سلام کیا گیا ہے۔

  (۱۸) معراج  کے واقعات میں یہ بھی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے انبیاء علیہم السلام کے فضائل و مناقب بیان فرمائے، پھر ان کے حوالے سے اپنے لئے دعا فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کی نسبت کے حوالے سے دعا کی جاسکتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کتنا ہی مقرب اور برگزیدہ کیوں نہ ہو اسے رفع درجات اور حصولِ فضیلت کے لئے دعا مانگنی چاہئے۔

  (۱۹) سفرِ معراج میں  نمازوں کی فرضیت کے بعد واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تعداد میں تخفیف کی درخواست کرنے کا مشورہ دیا اور بار بار یہ تقاضہ کرتے رہے کہ اور تخفیف کرائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ خیرخواہی کے طور پر ازخود مشورہ دینا جائز ہے، اگرچہ جس کو مشورہ دیا جائے وہ شخص مشورہ دینے والے سے افضل و اعلیٰ ہی کیوں نہ ہو۔

 (۲۰) آپ  نے حضرت موسیٰ علیہ السلام  کے مشورے پر نمازوں کی تعداد میں تخفیف کی درخواست کی اور نو بار یہ درخواست لے کر بارگاہِ الہی  میں واپس گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشورہ ماننا پسندیدہ عمل ہے۔ 

 (۲۱) حضرت ام ہانیؓ نے جو آپ ؐصلی اللہ علیہ وآلہ و آصحابہ  وسلم کی قریبی رشتہ دار  ہیں یہ عرض کیا کہ آپ اس واقعے کا ذکر کسی سے نہ کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی حق بات کے اظہار سے فتنہ پھیلنے کا یا ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس کو ظاہر نہ کرنے کا مشورہ دینا درست ہے۔

 (۲۲) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مشورہ قبول نہیں فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر مشورہ قبول کرنا خلافِ مصلحت ہو تو آدمی کو اپنی رائے پر عمل کرنا چاہئے۔ رہی بات فتنہ پھیلنے کی تو اگر وہ معاملہ دنیوی امور سے متعلق ہو تو اس کو ظاہر نہ کرنا ہی بہتر ہے، لیکن اگر دین سے تعلق رکھتا ہو تو پھر کسی بات کی پرواہ  نہ کرنی چاھیے 

(۲۳)  حضرت ابوبکر  صدیق رضی اللہ عنہ نے  حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المقدس کے حالات پوچھے، جس کی غرض یہ تھی کہ میری تصدیق کرنے سے شاید کفار اعتبار کریں گے جیسا کہ پہلے گذرا، اس سے معلوم ہوا کہ اہل حق واہل باطل کے درمیان بات چیت کے وقت حق کی تائید میں گفتگو میں ظاہراً مخالف کا طرفداربن جانا جائز ہے

(۲۴) حضرت ابراہیم علیہ السلام  بیت المعمور سے کمر لگائے بیٹھے تھے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قبلہ سے سر لگانا اور قبلہ کی طرف پشت پھیر کر بیٹھنا جائز ہے، اگرچہ ہمارے لئے ادب یہی ہے کہ بلا ضرورت ایسا نہ کریں

(۲۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو پیاس لگی تو کئی قسم کے مشروبات  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر کئے گئے، اس سے ثابت ہوا کہ مہمان کے لئے کھانے پینے میں وسعت کرنا  جائز ہے

(۲۶) احادیثِ معراج میں مذکور ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا سینہ مبارک چاک کیاگیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرد کو مرد کے سینہ کی طرف دیکھنا درست ہے، گو فرشتے مرد اور عورت ہونے سے پاک ہیں۔ مگر ان کا ذکر شریعت میں مذکر کے صیغہ سے آیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذکر ہیں۔

(۲۷) آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بعض اعمال پرلوگوں کو ثواب ملتے ہوئے اور بعض کو سزا ملتے ہوئے دیکھا، اس سے ان اعمالِ خیر کا اختیار کرنا اور ان اعمالِ شر سے بچنا معلوم ہوتا ہے

(نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب، مؤلفہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی)

صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَ سَلَّمَ


جاری ھے۔۔۔۔۔

Share: