قسط نمبر (65) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 موسمِ حج میں قبائل اور افراد کو اسلام کی دعوت

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج سے واپس تشریف لائے تو کفار حسبِ سابق آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو جھٹلانے لگے لیکن آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کفار کی باتوں کو  بالکل خاطر میں نہ  لائے اور پورے ذوق و شوق اور ھمت کے ساتھ اسلام کی دعوت دینی شروع کردی  طائف سے واپسی کے بعد سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زیادہ توجہ کا مرکز  قریش کی بجائے باھر کے قبائل اور افراد تھے ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے  یہاں آئے ھوئے  زائر افراد اور قبائل کو اسلام کی دعوت دینی شروع کی۔ چونکہ موسم حج قریب تھا اس لیے فریضۂ حج کی ادائیگی ، اپنے منافع اور اللہ کی یاد کے لیے دور ونزدیک ہر جگہ سے پیدل اور سواروں کی آمد شروع ہوچکی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھا اور ایک ایک قبیلے کے پاس جاکر اسے اسلام کی دعوت دی، جیسا کہ نبوت کے چوتھے سال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول  چلا آ رھا تھا۔ 

مکہ مکرمہ اس زمانہ میں ایک تجارتی شہر تھا، حج کے عالمگیر اجتماع کی وجہ سے اسے پورے عرب میں ھی نہیں بلکہ پورے عالم میں مرکزیت حاصل تھی، حج سے پہلے اور بعد میں مکہ مکرمہ کے ارد گرد کئی میلے اور منڈیاں لگتی تھیں، ’’عکاظ‘‘،’’مجنۃ‘‘ اور ’’ذوالمجاز‘‘ نامی ان میلوں میں صرف خرید و فروخت ہی نہیں بلکہ اپنے اپنے فن کا مظاہرہ بھی ہوتا تھا، مقابلے بھی ہوتے تھے اورمباحثے بھی چلتے تھے، یہی وجہ تھی کہ عرب کے تقریباً تمام خاندان نہ صرف ان میں شرکت کرتے بلکہ قوموں کے وڈیرے یہاں آ کر کئی کئی روز تک خیمہ زن رہتے، اسی طرح حج کے دنوں میں بھی منیٰ کے اندر مختلف علاقوں اور خاندانوں کے خیمے الگ الگ ہوتے، پورے پورے خاندان اپنے سردار کی قیادت میں یہاں پر بھی پڑاؤ ڈالے ہوتے تھے۔

 حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہ ابتداء ہی میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے، ان کے دل میں اسلام و نو مسلموں کی فکر بھی تھی اور تبلیغ کا جذبہ بھی، چنانچہ  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی رفاقت میں اس دعوتی تحریک میں حصہ لے کر کسی بھی امتی کی طرف سے تبلیغ اسلام کی ایک نئی طرح ڈالی،اسی پاداش میں  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی طرح مصائب کا سامنا کرنا پڑا، انہیں  بھی پتھروں کا نشانہ بنایا گیا، اُن کا جسم بھی لہو لہو ہوا، انہیں بھی مکہ مکرمہ  جیسا شہر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا مگر؂

پروانے کو شمع بلبل کو پھول بس  

صدیق کے لئے خدا کا رسول بس

طائف سے واپسی پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے جانثار ساتھی  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی معیت میں باہر سے آنے والے خاندانی سرداروں میں دعوت کا سلسلہ شروع  کر دیا تھا، میلوں میں جا جا کر قرآن سناتے ، فصاحت و بلاغت کے مقابلوں میں حصہ لیتے اور عربوں پر قرآن کی دھاک بٹھاتے، یہاں تک کہ ایک شخص کو مسلمان کرنے کے لئے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو کُشتی کا مقابلہ بھی کرنا پڑا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو ساتھ لے کر مختلف قبائلی سرداروں کے پاس جاتے ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ خاندانوں اور نسب ناموں کے بہت بڑے عالم تھے، اس لئے عموماً  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہی گفتگو کا آغاز کرتے، تعریف و تعارف ہوتا، حال و احوال دریافت ہوتے، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے عموماً اس طرح کے سوال کئے جاتے:

’’تمھارے لشکر میں کتنے افراد ہیں؟

 تمھارے پاس دفاع کا کیا نظام ہے؟ 

تمھاری جنگیں کس طرح ہوتی ہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ

(سیرۃ النبویۃ: دکتورعلی محمد الصلالی)

جب خاندانی وجاہت کا اندازہ ہو جاتا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آگے بڑھ کر درفشانی کرتے:

یا ایھا الناس! قولو لا الہٰ الا اﷲ تفلحوا و تملکو بھا العرب و تذل لکم العجم، واذا آمنتم کنتم ملوکاً فی الجنۃ۔ (فقہ السیرۃ النبویۃ)

من رجل یحملنی الیٰ قومہ، لیمنعنی، حتیٰ ابلغ رسالۃ ربی، فان قریشاً قد منعونی أن ابلغ رسالٰۃ ربی؟ (السیرۃ النبویۃ، محمد الصلابی)

اے لوگو! لاالہ الا اﷲ کہو کامیاب ہوجاؤ گے،اس کلمہ کے ذریعہ عرب کے مالک بنو گے اور عجم تمھارے سامنے سر نگوں ہو گا، جب تم ایمان لے آؤ گے تو جنت میں بھی بادشاہی ملے گی۔

کون ہے جو مجھے اپنے قبیلے میں لے جائے، میری حفاظت کرے کہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں، قریش نے مجھے اپنے رب کی پیغام رسانی سے روک رکھا ہے۔

آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے یہ مذاکرات چل ہی رہے ہوتے تھے  کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا چچا ابو لہب آن دھمکتا، گلا پھاڑ پھاڑ کے کہتا: ’’یہ جھوٹا ہے، اس کی نہ سننا، یہ بے دین ہے، اس کی بات نہ ماننا‘‘

ان حالات میں لوگوں کی طرف سے طرح طرح کے جوابات دیے جاتے، اسی طرح کی گفتگو بنو عامر، غسان، بنو فزارہ، بنو مرۃ، بنو حنیفہ، بنو نصر ، ثعلبہ، کندہ، کلب، بنوالحارث، بنو عذرۃ اور بنو قیس نامی قبائل کے ساتھ چلتی رہی، مسلیمہ کذاب کے ’’بنو حنیفہ‘‘ نے تو سخت برے اخلاق کا مظاہرہ کیا،

امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جن قبائل کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور انہیں اسلام کی دعوت دیتے ہوئے اپنے آپ کو ان پر پیش کیا ان میں حسب ذیل قبیلوں کے نام ہمیں بتائے گئے ہیں: 

بنو عامر بن صعصعہ، محارب بن خصفہ، فزارہ، غسان، مرہ، حنیفہ ، سلیم ، عبس ، بنو نضر ، بنوالبکاء ، کندہ ، کلب ، حارث بن کعب ، عذرہ ، حضارمہ …لیکن ان میں سے کسی نے بھی اسلام قبول نہ کیا۔ 

واضح رہے کہ امام زہری کے ذکر کردہ ان سارے قبائل پر ایک ہی سال یا ایک ہی موسم حج میں اسلام پیش نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ نبوت کے چوتھے سال سے ہجرت سے پہلے کے آخری موسم حج تک دس سالہ مدت کے دوران یہ سلسلہ جاری تھا ۔ ابن اسحاق رحمہ اللہ نے بعض قبائل پر رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے اسلا م  پیش کرنے  اور ان کے جواب کی کیفیت بھی ذکر کی ہے۔ ذیل میں مختصرا ان کا ذکر کیا جارہا ہے۔ 


بنی ذھل بن شیبان

ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت علی ؓ رضی اللہ تعالی عنہ کی ہمراہی میں بنو ذھل بن شیبان کے قبیلہ میں تشریف لے گئے، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم تینوں ایک ایسی مجلس میں پہنچے جہاں سکون و وقار تھا ، قبائلی سردار اپنی شان و شوکت کے ساتھ براجمان تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے آگے بڑھ کر سلام کیا(حضرت علی  رضی اللہ تعالی عنہ یہاں فرماتے ہیں کہ ’’ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہر بھلائی میں آگے آگے رہتے تھے‘‘) اور کہا،’’کون سی قوم میں سے ہو؟‘‘ جواب آیا:’’بنو شیبان سے‘‘ ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ یہ لوگ قوم کے سب سے زیادہ معزز معلوم ہوتے ہیں، وہاں مفروق، ھانی، مثنیٰ اور نعمان بن شریک نامی سردار موجود تھے، مفروق ان سب میں زیادہ سمجھ دار تھا، اس کے بالوں کی مینڈھیاں اس کے سینے تک پہنچی ہوئی تھیں، یہ  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  کے قریب تھا، انہی کے درمیان  پہلا مکالمہ ہوا۔


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ

تمھارے جوانوں کی تعداد کتنی ہے؟

مفروق:

ایک ہزار سے زائد اور ہزار افراد کے لشکر کو قلت کی وجہ سے شکست نہیں ہوتی۔


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ

تمھارا دفاعی نظام کیسا ہے؟

مفروق:

ہم اس کے لئے خوب محنت کرتے ہیں۔


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ

دشمنوں سے تمھاری جنگیں کس طرح رہتی ہیں؟

مفروق

جب ہم غصہ میں بپھر جاتے ہیں تو ہمارا مقابلہ نہایت ہی سخت ہوتا ہے، ہم اولاد سے زیادہ جنگی گھوڑوں کی خاطر کرتے ہیں، ہم دودھ والی اونٹنیوں کی بجائے اسلحہ جمع رکھتے ہیں، مگر مدد تو اﷲ کی طرف سے ہوتی ہے، کبھی ہم ڈول کھینچ لیتے ہیں تو کبھی ہمارا دشمن کامیاب ہو جاتا ہے۔

مفروق

شاید کہ تو قریشی بھائی ہے؟


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ

 اگر تجھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارہ میں خبر پہنچ چکی ہے تو وہ یہ ہیں(رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اشارہ کر تے ہوئے)

مفروق

ہمیں خبر پہنچی ہے کہ ان کے تذکرے ہو رہے ہیں(رسول اﷲ ؐصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر) اے قریشی بھائی! تم کس چیز کی دعوت دیتے ہو؟


رسولؐ اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم:

 ( حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر سے رسول اﷲؐ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  پر سایہ کیا) میری دعوت یہ ہے کہ’’ تم یہ گواہی دو کہ ُاس اﷲ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جو اکیلا ہے، جس کا کوئی ساجھی نہیں، اور یہ گواہی دو کہ میں اﷲ کا رسول ہوں، اور مجھے اپنے ہاں ٹھکانہ دو، میری مدد کرو، تاکہ اﷲ کے احکام کو پورا کر سکوں، قریش نے تو اﷲ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے، وہ اﷲ کے رسول کو جھٹلاتے ہیں اور حق کو چھوڑ کر باطل پر خوش ہیں، اﷲ تو تعریفوں والا بے پرواہ ہے۔‘‘

مفروق

قریشی بھائی! تمھاری دعوت اور کیا ہے؟

رسولؐ  اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم:

قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ أَلاَّ تُشْرِکُواْ بِہِ شَیْئاً وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَاناً وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَکُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَإِیَّاہُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُون۔ (الانعام)

(ان سے ) کہو کہ: ’’آؤ، میں تمھیں پڑھ کر سناؤں کہ تمھارے پروردگار نے (در حقیقت) تم پر کون سی باتیں حرام کی ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو۔ہم تمھی بھی رزق دیں گے ، اور ان کو بھی۔ اور بے حیائی کے کاموں کے پاس بھی نہ پھٹکو، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی، اور جس جان کو اﷲ نے حرمت عطا کی ہے اُسے کسی برحق وجہ کے بغیر قتل نہ کرو۔ لوگو! یہ ہیں وہ باتیں جن کی اﷲ نے تاکید کی ہے تاکہ تمھیں کچھ سمجھ آئے۔

مفروق:

کچھ اور بھی سناؤ، اﷲ کی قسم یہ تو زمین والوں کا کلام نہیں، اگر روئے زمین میں سے کسی کا کلام ہوتا تو ہم ضرور پہچان جاتے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم :

إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِیْتَاء ذِیْ الْقُرْبَی وَیَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُون (النحل)

بے شک اﷲ انصاف کا،احسان کا، اور رشتہ داروں کو(اُن کے حقوق) دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی ، بدی اور ظلم سے روکتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے ، تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔

مفروق:

قریشی بھائی! اﷲ کی قسم آپ تو عمدہ اخلاق اور نیک اعمال کی دعوت دیتے ہیں، جن لوگوں نے آپ کو جھٹلایا ہے وہ گمراہ ہی کئے گئے ہیں، اب اس نے ھانی کو گفتگو میں شریک کرتے ہوئے کہا: یہ ہانی بن قبیصہ ہیں جو ہمارے بڑے ہیں۔


ھانی:

قریشی بھائی! میں نے تمھاری گفتگو سنی اور تیرے کلام کو سچا پایا، میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا اپنے دین کو چھوڑ کر تیرے دین پر آنا صرف پہلی مجلس میں نہیں ہونا چاہیے، ہم نے ابھی تک تیرے معاملہ میں غور نہیں کیا ، جلدی میں آدمی پھسل جاتا ہے، اور ہماری قوم بھی ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ان پرکوئی معاہدہ مسلط کریں، ابھی آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم لوٹ جائیں، ہم بھی اپنی قوم کے پاس جاتے ہیں، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم انتظار کریں ہم بھی غور و فکر جاری رکھتے ہیں، مثنیٰ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ ہمارے بڑے اور جنگی کمانڈر ہیں۔

مثنیٰ:

 قریشی بھائی! میں نے تیری گفتگو سنی، میں اس کی تحسین کرتا ہوں، جو کچھ تو نے کہا مجھے بہت ہی اچھا لگا، مگر جواب وہی ہے جو ہانی نے دیا ہے، ہم ایران کے بادشاہ کسریٰ کے زیر اثر ہیں، اس کے ساتھ ہم معاہدہ کر چکے ہیں، جس میں ہم ابھی کوئی تبدیلی نہیں کرنا چاہتے، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جس کام کی طرف بلا رہے ہیں شاید کہ وہ ان بادشاہوں پر گراں گذرے، عرب کے حکمران تو عذر قبول کر لیتے ہیں اور خطا کار کوبھی معاف کر دیتے ہیں، مگر فارسی بادشاہوں کے ہاں نہ تو عذر قابل قبول ہوتا ہے اور نہ ہی خطائیں معاف ہوتی ہیں، اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو عربوں کے مقابلہ میں ہماری حمایت کی ضرورت ہے تو یہ ہم کر سکتے ہیں مگر ایران کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

رسول اﷲؐ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم :

جب تم نے سچ واضح کر دیا ہے تو یہ کوئی برا جواب نہیں، یقینا دین کی خدمت وہی کر سکتا ہے جو ہر پہلو کو مد نظر رکھے۔

حضرت علی  رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اس مجلس میں نعمان بن شریک کے ساتھ کچھ مزید گفتگو ہوئی اور پھر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہوئے اور اس مجلس سے رخصت ہوگئے۔

(الحاکم ، ابو نعیم والبیھقی)

ابو نعیم فرماتے ھیں کہ مجھ کو معلوم نہیں کہ بعد میں مفروق اسلام لائے  یا نہیں (اسد الغابہ)



بنو کلب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  بنو کلب کے قبیلے کی ایک شاخ بنو عبد اللہ کے پاس تشریف لے گئے، انہیں اللہ کی طرف بلایا ، اور اپنے آپ کو ان پر پیش کیا۔ باتوں باتوں میں یہ بھی فرمایاکہ اے بنو عبد اللہ ! اللہ نے تمہارے جد اعلیٰ کا نام بہت اچھا رکھا تھا لیکن اس قبیلے نے آپ کی دعوت قبول نہ کی۔ 

بنو حنیفہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ڈیرے پر تشریف لے گئے، انہیں اللہ کی طرف بلایا اور اپنے آپ کو ان پر پیش کیا لیکن ان کے جیسا برا جواب اہلِ عرب میں سے کسی نے بھی نہ دیا۔


بنو صعصعہ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ان کے ڈیرے پر تشریف لے گئے اور اُنہیں اسلام کی دعوت دی مگر انہوں نے اسلام  قبول  نہیں کیا  ان میں سے ’’بیحرۃ‘‘نامی شخص نے کچھ زیادہ ہی تیزی دکھائی، اپنوں میں سرگوشی کرنے لگا کہ ’’اگر میں قریش کے اس جوان کو پکڑ لوں تو اﷲ کی قسم پورے عرب کوکھا سکتاہوں‘‘ پھر رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے سامنے اپنی شرائط پیش کرنے لگا:’’ اگر ہم آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر لیں، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو غلبہ بھی مل جائے تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بعد خلافت ہمیں مل سکتی ہے؟‘‘ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا،’’خلافت کا معاملہ تو اﷲ کے ہاتھ میں ہے، وہ جہاں چاہے گا تاج خلافت رکھے گا‘‘ اس پر جواب آیا:’’آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی وجہ سے ہم اپنے سینوں کو عرب کے تیروں کا ھدف بنائیں، جب غلبہ مل جائے تو خلافت کوئی اور لے جائے، ہمیں یہ معاملہ منظور نہیں‘‘


جاری ھے۔۔۔۔۔

Share: