قسط نمبر (67) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم


مدینہ منورہ میں اسلام کی کرنیں 

رحمت ِ کائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی بعثت کے وقت کفر و شرک اور غیر اللہ کی پرستش کی تاریکی نے فہم وفراست کے چراغ گُل کر رکھے تھے۔ قریش ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر جہالت کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں کہ دفعتاً افق ِ مکہ پر برقِ تجلی کی تابانی نے نورِ حق کا اجالا کر دیا۔ ابھی آفتابِ رسالت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی کرنیں پھوٹی ہی تھیں کہ ہر جانب سے ظلم و ستم کے بادل امڈ آئے تاکہ نورِ حق کی روح پرور روشنی کو کفر و شرک کے سیاہ اندھیروں میں چھپا دیں۔ رحمت للعالمین، سرور دو جہان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے توحید کی ایمان پرور صدا چہار دانگ عالم میں پہنچانے کی ہر ممکن تدبیر اختیار فرمائی۔ حج کے عالمی اجتماع سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا اور دور دراز شہروں اور ملکوں سے آئے ہوئے مختلف قبائل کی قیام گاہوں میں جا کر انہیں توحید کاپیغام دیا۔

جن جن قبائل وافراد  کو اسلام کی دعوت دی گئی اُن میں اھلِ یثرب بھی  خاص طور پر شامل تھے جن کی قسمت میں اللہ پاک نے یہ سعادتِ عظمی لکھ دی تھی ۔ نبوت کے گیارہویں سال حج کے موقع پر یثرب سے قبیلہ خزرج کے کچھ لوگ آئے، ایک رات حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے۔ چند تعارفی جملوں کے بعد رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے آیاتِ قرآنی سے ان کے قلوب کو گرما دیا اور دعوتِ اسلام پیش فرمائی۔

اسلامی تاریخ خصوصا سیرت نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا مطالعہ قاری کو  ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے، جابجا، قدم بقدم ایسے حادثات وواقعات درپیش ہوتے رھے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، باشندگان یثرب(مدینہ منورہ ) کا قلیل عرصے میں مائل بہ اسلام ہوجانا اپنے آپ میں ایک حیرت ناک پہلو ہےکیونکہ جو افراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچپن سے نبی بنائے جانے تک رہے، آپ کی بہتری کا اعتراف کیا،آپ کی سچائی اور دیانت کی گواہی دی،آپ کی زندگی کے ہر گوشے سے واقف ہوئے لیکن وہی لوگ اعلان نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے وقت آپ کے دشمن بن گئے دوسری جانب ایسے لوگ تھے جو آپ کو جانتے تک نہ تھے آپ کی سچائی کو پرکھا نہیں تھا مزید یہ کہ وہ آخری نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے خائف تھے(کیونکہ علماء یہود آخری نبی کے متعلق انھیں مبہم خبریں دیتے اور ان کی بنیاد پر انجام تک پہونچانے کی بات کہتے) لیکن جب انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی،آپ کی باتوں کو سنا تو مزید جاننے کی خواہش نے انھیں مہمیز لگائی ۔ نتیجتا پہلے مرحلہ میں انھوں نے اسلام قبول کیا اور وفاداری کے ثبوت میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو مدینہ منورہ تشریف لانے اور وھاں قیام کرکے اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کی دعوت  بھی دے دی 


اہل مدینہ کے فوراً  قبولِ اسلام کے اسباب

  یہ بات غور طلب ہے کہ وہ کون سے اسباب تھے جن کی بناء پر اہل یثرب نے فوراً ہی دعوت اسلام پر لبیک کہا اور اسے اپنی زندگی کا دستور بناکر اس کی تعلیمات کی روشنی میں باہمی عداوت کو بھلا کردشمنوں کو گلے لگا لیا اور آپس میں شیر وشکر ہوگئے.


سب سے پہلا سبب رحمتِ الہی 

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہدایت رب العالمین کے قبضۂ قدرت میں ہے وہ جسے چاہے ھدایت کی روشنی سے نوازے جسے چاہے تاریکی اس کا مقدر کردے.

اللہ تعالی کے فرمان ھے :  

 وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّہ

کسی نفس کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اللہ کے اذن کے بغیر ایمان لے آئے۔

 ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے:

  اَللهُ يَهْدِيْ مَن يَّشَاءُ  

اللہ تعالی جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے۔ 

توفیقِ ایمان  اور ہدایت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالی جسے چاہے ہدایت دیتا ہے، اور جسے گمراہ کرنا چاہے اسے گمراہ فرما دیتا ہے، فرمان باری تعالی ہے:

 ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ

 یہ اللہ کی ہدایت ہے، وہ جسے چاہتا ہے  اس کے ذریعے راہ راست پر لے آتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی راہ پر لانے والا نہیں۔ [الزمر: [

ایسے ہی فرمان باری تعالی ہے:

 مَنْ يَشَأِ اللَّهُ يُضْلِلْهُ وَمَنْ يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

جسے اللہ چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے اسے صراط مستقیم پر چلا دے۔[الانعام: [

ایک اور مقام پر فرمایا:

مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِي وَمَنْ يُضْلِلْ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

 جسے اللہ ہدایت دے سو وہی ہدایت پانے والا ہے اور جنہیں وہ گمراہ کر دے سو وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ [الاعراف]

ہر مسلمان اپنی نماز میں دعا کرتا ہے کہ: 

  اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ  

ہمیں صراط مستقیم دکھا۔[الفاتحہ]

 کیونکہ اسے علم ہے کہ ہدایت صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس کے باوجود انسان سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ہدایت کے اسباب اپنائے، صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ راہ استقامت پر ڈٹا رہے، اللہ تعالی نے انسان کو روشن عقل سے نواز کر مکمل آزادی دی کہ خیر یا شر کچھ بھی کرے، راہ رو بنے یا گمراہ بن جائے، چنانچہ جس وقت انسان ھدایت کے حقیقی اسباب اپناتا ہے اور اس بات کا بھی خصوصی اہتمام کرتا ہے کہ اللہ تعالی اسے مکمل ہدایت سے نوازے تو اللہ تعالی کی جانب سے اسے مکمل کامیابی ملتی ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

 وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ

اور اسی طرح ہم نے ان کو باہمی طور پر آزمائش میں ڈالا تاکہ وہ کہیں: کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے [ہدایت دے کر]ہم میں سے احسان فرمایا ہے ؟ کیا اللہ شکر کرنے والوں کو زیادہ جاننے والا نہیں ؟ [الانعام: ]

اصل بات یہ ہے کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہے اور سب پر عمل کرنے والا انسان خود ہے اگر سوال ہی نہ ہو تو امتحان کس چیز کا یعنی کہ بُرائی بھی نہ ہو تو پھر سزا کس بات کی۔ اس لیے قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :

وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِo

(الْبَلَد)

اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئےo

 یعنی اللہ پاک فرما رھے ھیں کہ  انسان  کو ہم نے دونوں راستے بتا دیے ہیں کہ یہ برائی کا راستہ ہے اور یہ نیکی کا راستہ اور انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ چاہے وہ اللہ کی اطاعت کرے یا شیطان کی۔ اگر وہ برائی کرتا ہے تو یہ اس کا اپنا فعل ہے اور اپنی مرضی سے کیا ہے اس لیے اس کو سزا دی جائے گی۔

اگر انسان نیکی کرتا ہے تو اس پر اسے جزا دی جاتی ہے۔ لہذا قیامت کے دن ان چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو انسان کے اختیار میں ہیں ۔ مثلاً حقوق اللہ اور حقوق العباد کا ادا کرنا ۔ جو چیز انسان کے اختیار میں نہ ہو اس کے بارے میں کوئی سوال ہی نہیں ھو گا  مثلاً  بارش برسنا، اولاد دینا اور مریض کو شفا دینا وغیرہ۔ اسکے بارے میں کوئی سوال نہیں ہوگا اس لیے کہ یہ سب  کچھ انسان کی طاقت سے باہر ہے۔

یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اس کی قدرت پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ چاہے تو سب کچھ سلب کرسکتا ہے اور چاہے تو سب کچھ دے سکتا ہے یہ اس کی قدرت ہے لیکن قانون یہ ہے کہ انسان نیکی اور برائی کرنے پر مختار ہے چاہے وہ نیکی کرے یا برائی۔


 دوسرا سبب اھل یثرب کا نرم خو و نیک طینت ہونا 

اہل یثرب کا نرم خو و نیک طینت ہونا فوراً قبولِ حق کے اسباب میں سے ہے جس نے انکے اندر قبول حق اور خیر کو اپنانے کا جذبہ بیدار رکھا اور انھیں اسلام کا جاں نثار بنا ڈالا.


تیسرا سبب ان کا ستم رسیدہ اور زخم خوردہ ہونا 

اس اجمال کی مختصر تفصیل یوں ہے کہ یہودیوں کے مکر و فریب نے انھیں اپنی صلاحیتوں سے استفادے کا موقع ہی نہیں فراہم کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں  ہونے کے باوجود وہ یہودیوں کے رحم و کرم پر زندگی کے پہیئے کو مشکل سے دھکیل رہے تھے. زخم خوردہ اس اعتبار سے تھے کہ اوس و خزرج کی آپسی لڑائی نے انھیں مضمحل اور ناتواں بنادیا تھا،جسمانی تھکاوٹ کے ساتھ ذہنی تناؤ کے شکار ہوگئے تھے اسی لئے وہ کسی ایسے کی راہ تاک رہے تھے جو ان کے نزاع کا تصفیہ کرکے انھیں امن و آشتی کی زندگی مہیا کرے، یہود کی ثالثی کے نتیجے میں عبداللہ بن ابی بن سلول کو یثرب کا بادشاہ بنانے پر اتفاق رائے ہو گیا تھا یہ اتفاق اپنے انجام کو پہنچنے کے قریب ھی تھا  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی  مدینہ منورہ میں آمد ہو گئی  اور منافقِ آعظم عبداللہ بن ابی کی بادشاھت کا سارا معاملہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔

مسلسل جبر اور ستم جہاں انسان کی قوت مدافعت کو ختم کرتا ہے وہیں بغاوت کی چنگاری بھی پیدا کرتا ہے،یثرب میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو یہودیوں کے مکر سے آگاہ تھے اور اس بات کو بھی جانتے تھے کہ ہماری باہمی رنجش میں یہودیوں کا پورا ہاتھ ہے اسی لئے وہ دل دے یہودیوں رنجش رکھے ہوئے تھے اور موقعہ کی تلاش میں تھے کہ یہودیوں سے اپنا حساب چکتا کرلیں لیکن انھیں کوئی ایسا قائد میسر نہیں تھا جو ایک جھنڈے تلے جمع کرکے انھیں یہود کے مقابلے پر لے آئے اسی لئے وہ مجبوری کی زندگی گزار رہے تھے ستم بالائے ستم یہ کہ علماء یہود انھیں دھمکی دیتے تھے کہ آخری نبی کے ظہور کا وقت آیا ہی چاہتا ہے اس کی قیادت میں ہم تمھیں نیست و نابود کر دیں گے


مدینہ منورہ کی چھ سعادت مند ھستیاں 

اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کا جو بیڑا اٹھا رکھا تھا اس  سے بچنے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی یہ تھی کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  رات کی تاریکی میں قبائل کے پاس تشریف لے جاتے۔ تاکہ مکے کا کوئی مشرک رکاوٹ نہ ڈال سکے۔ 


اسی حکمت عملی کے مطابق ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لے کر باہر نکلے۔ بنو ذُہل اور بنو شیبان بن ثعلبہ کے ڈیروں سے گزرے تو ان سے اسلام کے بارے میں بات چیت کی۔ انہوں نے جواب تو بڑا امید افزا دیا ، لیکن اسلام قبول کرنے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہ کیا۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور بنو ذُہل کے ایک آدمی کے درمیان سلسلہ نسب کے متعلق بڑا دلچسپ سوال وجواب بھی ہوا۔ دونوں ہی ماہر انساب تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ کی گھاٹی سے گزرے تو کچھ لوگوں کو باہم گفتگو کرتے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدھے ان کا رخ کیا اور ان کے پاس جاپہنچے، یہ یثرب کے وہ چھ سعادت مند نوجوان تھے جو رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی پہلی ھی دعوت پر اسلام لائے اور رتبۂ صحابیت پر فائز ھوئے اور تمام اہل مدینہ کی ھدایت کا سبب بھی بنے اور یہ  سب کے سب قبیلۂ خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ان سعادتمندوں کے  نام یہ ہیں : 

اسعد بن زُرَارَہ  رضی اللہ تعالی عنہ 

 قبیلۂ بنی النجار 


 عوف بن حارث بن رفاعہ رضی اللہ تعالی عنہ 

قبیلۂ ابن عفراء


 رافع بن مالک بن عجلان  رضی اللہ تعالی عنہ 

قبیلۂ بنی زُریق 


  قطبہ بن عامر بن حدیدہ  رضی اللہ تعالی عنہ 

قبیلۂ بنی سلمہ 


 عقبہ  بن عامر نابی  رضی اللہ تعالی عنہ 

قبیلہ بنی حرام بن کعب 


 جابر بن عبد اللہ بن رِباب  رضی اللہ تعالی عنہ

 قبیلۂ بنی عبید بن غنم 

بعض اھل سیر نے جابر بن عبداللہ کی بجائے  عبادہ بن صامت کا نام  ذکر کیا ھے 

(  سیرت ابنِ ھشام ، عیون الاثر زاد المعاد، فتح الباری)

یہ اہل یثرب کی خوش قسمتی ھی سمجھیے کہ وہ پہلے ھی رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی آمد سے اگاہ تھے کیونکہ وہ یہودِ مدینہ کی زبانی بارھا  سن چکے تھے  کہ اس زمانے میں ایک نبی بھیجا  جانے والا ہے جو جلد ہی  نمودار ہوگا۔ ہم اس کی پیروی کرکے اس کی معیت میں تمہیں قومِ عادِ  اور قومِ ارَم کی طرح قتل کر ڈالیں گے۔

 (صحیح مسلم ، مشکاۃ المصابیح )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس پہنچ کر دریافت کیا کہ آپ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا :ہم قبیلۂ خزرج سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یعنی یہود کے حلیف ؟ بولے: ہاں۔ فرمایا : پھر کیوں نہ آپ حضرات بیٹھیں،کچھ بات چیت کی جائے، وہ لوگ بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اسلا م کی حقیقت بیان فرمائی۔ انہیں اللہ عزوجل کی طرف دعوت دی اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا : بھئی دیکھو ! یہ تو وہی نبی معلوم ہوتے ہیں جن کا حوالہ دے کر یہود تمہیں دھمکیاں دیا کرتے ہیں۔ لہٰذا یہود تم پر سبقت نہ کرنے پائیں، اس کے بعد انہوں نے  فوراً آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی دعوت قبول کرلی اور مسلمان ہوگئے

یہ یثرب کے عقلاء الرجال تھے۔ حال ہی میں جنگ گزرچکی تھی ، اور جس کے دھویں اب تک فضا کو تاریک کیے ہوئے تھے ، اس جنگ نے انہیں چور چور کردیا تھا۔ اس لیے انہوں نے بجا طور پر یہ توقع قائم کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ، جنگ کے خاتمے کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے کہا : ہم اپنی قوم کو اس حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ کسی اور قوم میں ان کے جیسی عداوت ودشمنی نہیں پائی جاتی۔ امید ہے کہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انہیں یکجا کردے گا۔ ہم وہاں جاکر لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد کی طرف بلائیں گے اور یہ دین جو ہم نے خود قبول کر لیا ہے ان پر بھی پیش کریں گے۔ اگر اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کو یکجا کردیا تو پھر آپ سے بڑھ کر کوئی اور معزز نہ ہوگا۔ 

اس تاریخ ساز موقعہ پر سیّدنا  حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ  اور سیّدنا حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالی عنہ  بھی  رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ساتھ تھے۔ جب یہ قافلہ اپنے وطن واپس پہنچا تو ہر کسی کو یہ مژدہ سنایا کہ وہ رحمت ِ کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  مبعوث ہو چکے ہیں جن کے انتظار میں سارا عالم چشم براہ تھا ھم نے ان کے تاباں چہرۂ انور سے اپنی آنکھیں منور کیں۔ جب ان حضرات نے اہل ِ وطن کو اس روح پرور اور فرحت انگیز بشارت سے روشناس کیا تو مدینہ منورہ کے ہر گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکرِ مبارک ہونے لگا۔ 


جاری ھے

Share: