قسط نمبر (68) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 بیعتِ عَقَبہ

بیعت عَقَبہ ہجرت سے پہلے یثرب کے لوگوں کی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی بیعت کرنے کو کہا جاتا ھے مدینہ منورہ  کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی دو مرتبہ بیعت کی۔ پہلی بیعت نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بارھویں  سال میں اور دوسری بیعت  نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے تیرھویں سال میں ہوئی۔ یہ دونوں بیعتیں بیعت عقبہ کے نام سے معروف  ہیں۔ پہلی بیعت کو بیعت عقبہ اولی اور دوسری بیعت کو بیعت عقبہ ثانیہ  کہا جاتا ہے۔ 

یہ دونوں بیعتیں ہجرتِ مدینہ منورہ  کا مقدمہ قرار پائیں اور اس کے ذریعے مسلمانوں کیلئے مکہ مکرمہ کے مشرکین کےظلم وستم سے نجات حاصل کرنے اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے مواقع حاصل ہوئے جہاں انہیں اپنے دین کی دعوت کا مطلوبہ ماحول میسر آ گیا 


وجۂ تسمیہ

عَقَبہ لغوی معنی کے لحاظ سے پہاڑی راستے میں آنے والے موڑ کو کہا جاتا ہے کہ جس کے ذریعے پہاڑ کی بلندی کی طرف جایا جاتا ہے۔ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور یثرب کے لوگوں کے درمیان ہونے والی دونوں بیعتیں منی اور مکہ مکرمہ کے درمیان منی  کے نزدیک واقع ہوئیں اسی وجہ سے یہ “بیعت عقبہ” کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ مقام  خانہ کعبہ سے تقریبا 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اب پہاڑ کاٹ کر یہاں کشادہ سڑکیں نکال لی گئی ہیں


بیعتِ عقبہ کی گواہ مسجد

حجاج کرام منی کے قیام میں تین مقام پر کنکریاں مارتے ھیں جن میں ایک مقام کو اردو میں “بڑا شیطان” اور عربی میں  “جمرة العقبہ”  کہا جاتا ھے ۔ مِنی میں جُمُرات کے علاقے سے گزرنے والے حجاج کرام کو سب سے بڑے شیطان  یعنی جمرہ "العقبہ" سے تقریبا 500 میٹر کی دُوری پر ایک مسجد نظر آتی ہے جس کا نام "مسجد البیعة " ہے۔ اس مسجد کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ یہ مسجد اُسی مقام پر بنائی گئی ھے جہاں سن بارہ نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو  تاریخ اسلام کی پہلی بیعت کا روح پرور منظر وقوع پذیر ھوا  تھا ۔

اس مسجد کی شمالی جانب مِنی کا علاقہ ہے جب کہ اس کی جنوبی جانب "شعب الانصار" یا "شعب البیعہ" کے نام سے معروف گھاٹی پڑتی ہے۔ مسجد کی قبلے کی سمت واقع دیوار میں ایک تختی نصب ہے جس پر لکھا  ھوا ہے کہ مسجد البیعہ کو 144 ہجری میں عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور نے اس مقام پر تعمیر کروایا۔ یہاں پر دو پتھر پائے جاتے ہیں جن میں سے ایک پر یہ عبارت تحریر ہے کہ " امیر المؤمنین عبداللہ نے اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا"۔ یہ  اس وقت کے مذکورہ بالا عباسی خلیفہ کی جانب اشارہ ہے۔ مسجد میں دو برآمدے بھی ہیں  ان میں ہر برآمدے کی چھت پر تین گنبد ہیں۔  مسجد میں ابھی تک اس کی تعمیر کے کچھ ابتدائی آثار کے چند نقوش برقرار ہیں۔


 بیعتِ عقبہ کے اسباب

ایک جانب جب رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے شفیق چچا حضرت ابوطالب اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی غمگسار زوجہ اُم٘ المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری  رضی اللہ تعالی عنہا  بعثت کے دسویں سال اس دنیا سے رخصت ہو گئے تو اب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا مکہ مکرمہ میں اسباب کے درجہ میں کوئی حمایتی نہ رہا تو دوسری جانب مشرکین مکہ کی سخت گیریاں پہلے سےبھی زیادہ ہو گئیں۔ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے گیارہویں سال رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ملاقات  یثرب کے چھ افراد سے ہوئی۔ بعض کے نزدیک اس ملاقات کا مقام عقبہ اور بعض نے یہ مقام منی بتایا  ہے۔ یہ چھ افراد خزرج قبیلے سے تھے یہ بت پرست لوگ تھے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ان کی شناخت معلوم کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ قبیلۂ خزرج سے ہیں؛ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اُن سے سوال کیا کہ کیا تم نے یہودیوں سے کوئی عہد و پیمان باندھا ہوا ہے؟ انہوں نے اثبات میں  جواب دیا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو شروع کی اور انہیں اسلام کی دعوت پیش کی اور ان کے سامنے قرآن پاک کی تلاوت کی۔ چونکہ انہوں نے مدینہ منورہ کے یہودیوں سے یہ سن رکھا تھا کہ آخری نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ظہور کا وقت اب قریب آچکا ھے اس وجہ سے انہوں نے رسول آکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی باتوں کی جانب خصوصی توجہ دی ۔ اُنہیں اس بات سے یہ امید بھی پیدا ھوگئی تھی  کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی موجودگی کی وجہ سے یثرب میں اوس و خزرج کے دو قبیلوں کے درمیان طویل عرصے سے جاری دشمنی کا خاتمہ بھی ھو سکتا ہے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا اور مدینہ منورہ  واپسی پر لوگوں کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ظہور کی پوری داستان بیان کی۔


پہلی بیعتِ عَقبہ

یہ بیعت بعثت نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بارہویں سال حج کے موقع پر ہوئی۔ اوس و خزرج قبیلوں کے سات خاندانوں کے بارہ افراد نے عقبہ میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے ملاقات کی۔ انہوں نے اسلام قبول کیا ۔ جیسا کہ بتایا جا چکا کہ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے گیارھویں سال موسم حج میں یثرب کے چھ آدمیوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا تھا کہ اپنی قوم میں جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تبلیغ کرینگے۔اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے سال جب موسم حج آیا تو بارہ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان میں حضرت جابر بن عبداللہ کو چھوڑ کر باقی پانچ  آفراد تو وہی تھے جو پچھلے سال بھی آ چکے تھے اور انکے علاوہ سات آدمی نئے تھے۔ جن کے نام یہ ہیں۔

(1) معاذ بن الحارث رضی اللہ عنہ (قبیلہ بنی النجار) (خزرج)

(2) ذکوان بن عبدالقیس رضی اللہ عنہ بنی زریق(خزرج)

(3) عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ( قبیلہ بنی غنم) ( خزرج)

(4) یزید بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ (قبیلہ بنی غنم کے حلیف) (خزرج)

(5) عباس بن عبادہ بن نضلہ رضی اللہ عنہ (قبیلہ بنی سالم) (خزرج)

(6) ابوالہیثم بن التیہان (قبیلہ بنی عبدالاشہل) (اوس)

(7) عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ (قبیلہ بنی عمرو بن عوف) (اوس)


ان میں صرف دو آفراد قبیلہ اوس کے تھے باقی  سب کے سب قبیلہ خزرج سے تھے۔ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منیٰ میں عقبہ کے مقام پر ملاقات کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چند باتوں  پر بیعت کی۔ یہ باتیں وہی تھیں جن پر آئندہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر صحابہ کرام اور فتح مکہ کے وقت عورتوں سے بیعت لی گئی۔


شرائطِ بیعت

خدا کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا۔

چوری اور زنا نہیں کرنا۔

اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا۔

بہتان نہ باندھنا۔

خیر و صلاح میں رسول  اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی حکم عدولی نہ کرنا۔

اگر اس بیعت پر پابند رہے تو بہشت ان کیلئے ہوگی اور اگر اس کی مخالفت کی تو پھر اللہ کو اختیار ہے کہ انہیں معاف کرے یا عذاب دے۔ 

عقبہ  کی اس بیعت کی تفصیل صحیح بخاری میں بھی آئی ھے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:" آؤ! مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کروگے،چوری نہ کروگے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کروگے، اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان سے گھڑ کر کوئی بہتان نہ لاؤگے اور کسی بھلی بات میں میری نافرمانی نہ کروگے۔جو شخص یہ ساری باتیں پوری کرے گا اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کر بیٹھے گا پھر اللہ اس پر پردہ ڈال دے گا تو اسکا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، چاہے گا تو سزا دے گا اور چاہے گا تو معاف کردے گا۔" 

حضرت عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مذکورہ بالا شرائط پر  بیعت کی۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ روانہ کرنا

حضرتِ سَیِّدُنا عُرْوَ ہ بن زُبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے مَرْوِی ہے کہ جب اَنصار بَـیْعَتِ عَقَبۂ اُولی کے بعدآئندہ سال مَوسَمِ حج میں ملنے کا وعدہ کر کے اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے  ۔ تو واپَس پہنچ کر اُنہوں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف پیغام  بھیجا کہ ہمارے پاس کسی ایسے شخص کو بھیجیں ، جو لوگوں کو قرآنِ پاک پڑھائے ۔چنانچہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قبیلۂ بَنِی عَبْدُ الدَّار سے تعلُّق رکھنے والے حضرتِ سَیِّدُنا مُصْعَب بِنْ عُمَیْر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو ان کے پاس بھیجا ۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے قبیلۂ بنی غَنَم کے حضرتِ سَیِّدُنا اَسْعَد بِن زُرارہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے ہاں قِیام فرمایا اور لوگوں کو قرآنِ پاک پڑھانے لگے  ۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ دیگر لوگوں کے پاس جا کر انہیں اِسْلَام کی دَعْوَت بھی دیا کرتے ، یہاں تک کہ انصار کے اکثر گھرانے اور سردار و شُرَفا اِسْلَام لے آئے۔پھر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ واپَس بارگاہِ رِسَالَت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں لوٹ گئے۔ حضرت  مصعب بن عمیر عبدری رضی اللہ عنہ سابقون الاولون میں سے تھے ۔ 


حضرت  مصعب بن عمیر  رضی اللہ عنہ کی بےمثال  کامیابی:​

حضرت مصعب بن عمیر عبدری رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے تو حضرت سعد بن زراہ رضی اللہ عنہ کے گھر نزول فرما ہوئے، پھر دونوں نے مل کر اہل یثرب میں جوش و خروش سے اسلام کی تبلیغ شروع کر دی۔حضرت مصعب رضی اللہ عنہ مقری کے لقب سے مشہور ہوئے۔( مقری کے معنی ہیں پڑھانے والا۔اس وقت معلم اور استاد کو مقری کہتے تھے)

تبلیغ کے سلسلے میں ان کی کامیابی کا ایک شاندار واقعہ یہ ہے کہ ایک روز حضرت اسعد بن زراہ رضی اللہ تعالی عنہ انہیں ہمراہ لے کر بنی عبدالاشہل اور بنی ظفر کے محلے میں تشریف لے گئے اور وہاں بنی ظفر کے ایک باغ کے اندر مرق نام کے ایک کنویں پر بیٹھ گئے۔ان کے پاس چند مسلمان بھی جمع ہوگئے۔ اس وقت تک بنی عبدالاشہل کے دونوں سردار یعنی سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ  مسلمان نہیں ہوئے تھے بلکہ شرک پر ھی  قائم  تھے۔ انہیں جب خبر ہوئی تو حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت اسید رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا جاؤ ذرا ان دونوں کو جو ہمارے کمزوروں کو بیوقوف بنانے آئے ہیں ڈانٹ دو اور ہمارے محلے میں آنے سے منع کردو۔ کیونکہ اسعد بن زراہ رضی اللہ تعالی عنہ میری خالہ کا لڑکا ہے ( اس لئے تمہیں بھیج رہا ہوں) ورنہ یہ کام میں خؤد انجام دے  دیتا۔

اسید رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا حربہ (لڑائی کا ہتھیار) اٹھایا اور ان دونوں کے پاس جا پہنچے۔ حضرت اسعد رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں آتا دیکھ کر حضرت مصعب رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: یہ اپنی قوم کا سردار تمہارے پاس آ رہا ہے اس کے بارے میں اللہ سے مدد طلب کریں ۔ حضرت مصعب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اگر یہ بیٹھا تو اس سے بات کروں گا۔ حضرت اسید رضی اللہ تعالی عنہ پہنچے تو ان کے پاس کھڑے ہو کر سخت سست کہنے لگے بولے: تم دونوں ہمارے ہاں کیوں آئے ہو؟ ہمارے کمزوروں کو بیوقوف بناتے ہو؟ یاد رکھو! اگر تمہیں اپنی جان کی ضرورت ہے تو ہم سے الگ ہی رہو۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہ آپ بیٹھیں اور کچھ سنیں۔ اگر کوئی بات پسند آ جائے تو قبول کرلیں پسند نہ آئے تو چھوڑ دیں۔ حضرت اسید رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: تم بات منصفانہ کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد اپنا حربہ (لڑائی کا ہتھیار)  زمین میں گاڑ کر بیٹھ گئے۔ اب حضرت مصعب رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام کی بات شروع کی اور قران کی تلاوت فرمائی۔ان کا بیان ہے کہ واللہ ہم نے حضرت اسید رضی اللہ تعالی عنہ کے بولنے سے پہلے ہی ان کے چہرے کی چمک دمک سے ان کے اسلام کا پتہ لگا لیا۔ اسکے بعد انہوں نے زبان کھولی تو فرمایا: یہ تو بڑا ہی عمدہ اور بہت ہی خوب تر کلام ہے۔ تم لوگ کسی کو اس دین میں داخل کرنا چاہتے ہو تو کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: آپ غسل کر لیں، کپڑے پاک کرلیں پھر حق کی شہادت دیں، پھر دو رکعت نماز پڑھیں۔ انہوں نے اٹھ کر غسل کیا،کپڑے پاک کئے، کلمہ شہادت ادا کیا اور دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر بولے! میرے پیچھے ایک اور شخص ہے اگر وہ تمہارے دین کا  پیروکار بن جائے تو اسکی قوم کا کوئی آدمی پیچھے نہ رہے گا، میں اس کو تمہارے پاس بھیج رہا ہوں۔(اشارہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف تھا)

اس کے بعد حضرت اسید رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا حربہ (لڑائی کا ہتھیار) اٹھایا اور پلٹ کر حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچے،وہ اپنی قوم کے ساتھ محفل میں تشریف فرما تھے (حضرت اسید رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر ) بولے: میں  واللہ کہہ رہا ہوں کہ یہ شخص تمہارے پاس جو چہرہ لیکر آ رہا ہے یہ وہ چہرہ نہیں جسے لے کر گیا تھا۔پھر جب حضرت اسید رضی اللہ تعالی عنہ محفل کے پاس آن کھڑے ہوئے تو حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے دریافت کیا کہ تم نے کیا کیا؟ انہوں نے کہا: میں نے ان دونوں سے بات کی تو واللہ مجھے کوئی حرج تو نظر نہیں آیا، ویسے میں نے انہیں منع کر دیا ہے اور انہوں نے کہا ہے ہم وہی کرینگے جو آپ چاہیں گے۔

اور ھاں مجھے معلوم ہوا ہے کہ بنی حارثہ کے لوگ حضرت اسعد بن زراہ رضی اللہ تعالی عنہ کو قتل کرنے کے لئے لے گئے ہیں اور اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اسعد رضی اللہ تعالی عنہ آپ کی خالہ کا لڑکا ہے لہذا وہ چاہتے ہیں کہ آپ کا عہد توڑ دیں۔یہ سن کر سعد رضی اللہ تعالی عنہ غصے سے بھڑک اٹھے اور اپنا نیزہ لے کر سیدھے ان دونوں کے پا س پہنچے۔ دیکھا تو دونوں اطمینان سے بیٹھے باتیں کر رھے  ہیں۔ سمجھ گئے کہ اسید رضی اللہ تعالی عنہ کا منشاء یہ تھا کہ آپ بھی ان کی باتیں سنیں۔ لیکن یہ ان کے پاس پہنچے تو کھڑے ہو کر سخت سست کہنے لگے۔ پھر اسعد بن زراہ رضی اللہ تعالی عنہ کو مخاطب کرکے بولے: خدا کی قسم اے ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ! اگر میرے اور تیرے درمیان قرابت کا رشتہ نہ ہوتا تو تم مجھ سے اسکی امید نہ رکھ سکتے تھے۔ ہمارے محلے میں آکر ایسی حرکتیں کرتے ہو جو ہمیں گوارا نہیں۔

ادھر حضرت اسعد رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت مصعب رضی اللہ تعالی عنہ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ  واللہ تمہارے پاس ایک ایسا سردار آ رہا ہے جس کے پیچھے اسکی پوری قوم ہے۔اگر اس نے تمہاری بات مان لی تو پھر ان میں سے کوئی بھی نہ پچھڑے گا۔ اسلئے حضرت مصعب رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: کیوں نہ آپ تشریف رکھیں اور سنیں۔اگر کوئی بات پسند آ گئی تو قبول کرلیں اور اگر پسند نہ آئی تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات کو آپ سے دور ہی رکھیں گے۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: انصاف کی بات کہتے ہو۔ اسکے بعد اپنا نیزہ گاڑ کر بیٹھ گئے۔ حضرت مصعب رضی اللہ تعالی عنہ نے ان پر اسلام پیش کیا اور قران کی تلاوت کی۔ ان کا بیان ہے کہ ہمیں حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کے بولنے سے پہلے ہی ان کے چہرے کی چمک دمک سے ان کے اسلام کا پتہ لگ گیا تھا ۔ اسکے بعد انہوں نے زبان کھولی اور فرمایا: تم لوگ اسلام لاتے ہو تو کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: آپ غسل کر لیں، کپڑے پاک کر لیں، پھر حق کی شہادت دیں، پھر دو رکعت نماز پڑھیں۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے ایسا ہی کیا۔اسکے بعد اپنا نیزہ اٹھایا اور اپنی قوم کی محفل میں تشریف لائے، لوگوں نے دیکھتے ہی کہا: ہم  واللہ کہہ رہے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ جو چہرہ لے کر گئے تھے اس کے بجائے دوسرا ہی چہرہ لے کر پلٹے ہیں پھر جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ اہل مجلس کے پاس آکر رکے تو بولے: اے بنی عبدالاشہل! تم لوگ اپنے اندر میرا معاملہ کیسا جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: آپ ہمارے سردار ہیں، سب سے اچھی سوجھ بوجھ کے مالک ہیں اور ہمارے سب سے بابرکت پاسباں ہیں۔ انہوں نے کہا: اچھا تو سنو! اب تمہارے مردوں اور عورتوں سے میری بات چیت حرام ہے جب تک کہ تم لوگ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لاؤ۔ ان کی اس بات کا اثر یہ ہوا کہ شام ہوتے ہوتے اس قبیلے کا کوئی بھی مرد و زن  ایسی نہ بچا جو مسلمان نہ ہو گیا ہو،صرف ایک شخص جس کا نام اصیرم رضی اللہ تعالی عنہ تھا اُس وقت  اسلام نہ لایا بعد میں  عین جنگ احد کے دن اس نے اسلام قبول کیا  جہاد میں شریک ھوا اور اسی جنگ میں لڑتا ہوا  شہید ھو گیا ۔ اس نے ابھی اللہ کیلئے ایک سجدہ بھی نہ کیا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے جنت کی بشارت دی اور فرمایا: اس نے تھوڑا عمل کیا اور زیادہ  اجر پایا۔

حضرت مصعب رضی اللہ عنہ، حضرت اسعد بن زراہ رضی اللہ تعالی عنہ ہی کے گھر مقیم رہ کر اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ انصار کا کوئی گھرانہ نہ بچا جس میں چند مرد اور عورتیں مسلمان نہ ہو چکی ہوں۔صرف بنی امیّہ بن زید اور خطمہ اور وائل کے مکانات باقی رہ گئے تھے۔ مشھور شاعر قیس بن اسلت انہیں کا آدمی تھا اور یہ لوگ اسی کی بات مانتے تھے۔ اس شاعر نے انہیں جنگ خندق (5 سن ہجری) تک اسلام سے روکے رکھا، 

بہر حال اگلے موسم حج یعنی نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تیرھویں سال  کا موسم حج آنے سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کامیابی کی بشارت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مکہ تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبائل یثرب کے حالات، انکی جنگی اور دفاعی صلاحیتوں اور خیر کی لیاقتوں کی تفصیلات سنائیں۔ 

۔(صحیح بخاری - زاد المعاد - سیرت ابنِ ھشام ) 


شہیدِ غزوۂ احد، سفیرِ اسلام حضرت سیدنا مُصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی  عنہ 

آپ کا نام مصعب ، کنیت ابو محمد ، والد کا نام عمیر والدہ کا نام حناس بنت مالک اورآپ کا تعلق قریش کے معروف قبیلہ بنو عبدالدار  سے تھا۔ سلسلہ نسب کچھ یوں ہے۔مصعب بن عمیرؓ بن ھاشم بن عبد مناف بن عبدالدار بن قصی القرشی

حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ  مکہ مکرمہ  کے ایسے حسین و جمیل اور خوشرو نوجوان تھے.. کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ واصحابیہ وسلم بھی ان کا تذکرہ کرتے تو فرماتے کہ:..’’ مکے میں مصعب سے زیادہ کوئی حسین و خوش پوشاک اور پروردۂ نعمت نہیں ہے..‘‘ان کے والدین کو ان سے شدید محبت تھی.. خصوصاً ان کی والدہ خناس بنت مالک نے اُن کے والد کی وفات کے بعد مالدار ہونے کی وجہ سے اپنے جگر گوشے کو نہایت ناز و نعم سے پالا تھا.. وہ اپنے زمانہ کے لحاظ سے عمدہ سے عمدہ پوشاک پہنتے اور لطیف سے لطیف خوشبو استعمال کرتے تھے.. حضرمی جوتا جو اس زمانے میں صرف امراء کے لئے مخصوص تھا.. وہ ان کے روزمرہ کے کام آتا تھا.. اور ان کے وقت کا اکثر حصہ آرائش و زیبائش میں بسر ہوتا تھا..

اللہ تعالیٰ نے جہاں انہیں انتی نعمتوں سے نوازا تھا.. وہاں ان کے آئینۂ دل کو بھی نہایت صاف و شفاف بنایا تھا.. جس پر صرف ایک عکس کی دیر تھی..چنانچہ مکہ مکرمہ میں توحید کی صدا بلند ہوئی.. اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے لوگوں کو توحید کی دعوت دی.. تو یہ بھی شرک و بت پرستی سے متنفر ہو گئے.. اور آستانۂ نبوت صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم پر حاضر ہو کر اسلام کے جانبازوں میں داخل ہو گئے.. یہ وہ زمانہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ واصحابیہ وسلم ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان میں قیام پذیر تھے.. اور مکہ مکرمہ کی سرزمین مسلمانوں پر تنگ ہو رہی تھی.. حضرت مصعب رضی اللہ عنہ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے.. وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان کی ماں اور ان کے اہلِ خاندان آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ واصحابیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کے پیغام کے اس قدر دشمن ہیں.. کہ اس کو ایک لحظہ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتے.. لیکن نیکی کی رغبت او بدی سے نفرت نے انہیں ہر چیز سے بے نیاز کر دیا تھا اور وہ زندگی کے حقیقی مقصد کو جان کر اس کے حصول میں لگ گئے..حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ’’بہترین امت‘‘ میں داخل تو ہو گئے.. لیکن کفر و شرک کی بے پناہ یلغار کے باعث ایک عرصے تک انہیں اپنے اسلام کو پوشیدہ رکھنا پڑا.. اور وہ اپنے گھر والوں سے چھپ چھپ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ واصحابیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتے.. اور اسلامی تعلیمات حاصل کرتے رہے تاھم وہ سب سے زیادہ اپنی والدہ سے خوفزدہ رھتے تھے جو اسلام کی کٹر دشمن تھیں ..ایک روز کا واقعہ ہے کہ عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے جو اس وقت تک مشرف باسلام نہیں ہوئے تھے.. انہیں کہیں نماز پڑھتے ھوئے دیکھ لیا  اور جا کر ان کی ماں اور ان کے اہلِ خاندان کو خبر کر دی.. بس پھر کیا تھا ماں اور خاندان والوں کی ساری محبت شدید نفرت میں بدل گئی.. سارے ناز و نعم ختم ہو گئے اور ’’مجرم توحید‘‘ کو قیدِ تنہائی کے مصائب و آلام کے حوالے کر دیا گیا.. حضرت مصعب رضی اللہ عنہ ایک عرصے تک تمام اذیتیں برداشت کرتے رہے.. نرم و نازک لباس میں ان کے لئے کوئی جاذبیت نہ رہی.. انواع و اقسام کے کھانے ان کی نظروں میں ہیچ ہو گئے.. نشاط افزا عطریات کا شوق ختم ہو گیا.. اور دنیاوی عیش و تنعم اور مادی اسباب و وسائل سے یکسر بے نیاز ہو گئے..

اب ان کے سامنے صرف ایک ہی مقصد تھا.. یہ وہ مقصد تھا جسے جلوۂ توحید نے ان کے دل میں روشن کیا تھا .. اور تمام فانی ساز و سامان سے بے پرواہ کر دیا تھا..حضرت مصعب رضی اللہ عنہ اب زندانِ تنہائی سے تنگ آگئے تھے . اشاعت اسلام کا جذبہ ان کے دل میں ابھرتا  اور وہ اپنی اس تلخ زندگی پر سخت متاسف ہوتے.. ادھر کچھ دوسرے دلدادگانِ جلوۂ توحید بھی کفار کی سختیاں سہتے سہتے عاجز آگئے تھے اور کسی ایسی جائے پناہ کی تلاش میں تھے.. جہاں انہیں کچھ اطمینان و سکون میسر ہو.

آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ واصحابیہ وسلم نے انہیں مشورہ دیا کہ تم لوگ فی الحال حبشہ کو ہجرت کر جاؤ.. وہاں کا بادشاہ رحمدل اور منصف مزاج ہے.. وہ تم کو آرام سے رکھے گا..یہ حکم پاتے ہی مصیبت زدہ مسلمانوں کا ایک کثیر التعداد قافلہ ہجرت کے لئے آمادہ ہو گیا..حضرت عثمان رضی االلہ عنہ بن عفان اور ان کی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ واصحابیہ وسلم بھی اس قافلے میں شامل تھے.. حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے بھی ان متلاشیانِ امن و سکون کے ساتھ سرزمینِ حبشہ کی طرف ھجرت کی اور آاپنے آپ کو غریب الوطنی کے مصائب و آلام کے حوالے کر دیا.

ابھی یہ لوگ کچھ ہی دن حبش میں رہے تھے.. کہ ان کو اہل مکہ کے اسلام  لانے کی جھوٹی خبر ملی.. اور فطرۃً وطن لوٹنے کا شوق پیدا ہوا.. لہٰذا یہ لوگ مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے.. مگر مکہ مکرمہ کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی.. بہرحال یہ سب کسی نہ کسی کی امان میں مکہ مکرمہ میں  داخل ہو گئے.. اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام حضرات مکہ مکرمہ  ہی میں ٹھہر گئے.. ہجرت کے مصائب نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی ظاہری حالت میں نمایاں فرق پیدا کر دیا تھا.. اب نہ وہ رنگ باقی رہا تھا اور نہ وہ روپ چہرے پر دکھائی دیتا تھا.. یہاں تک کہ خود ان کی ماں کو اپنے نورِ نظر کی پریشان حالی پر رحم آگیا.. اور وہ مظالم کے اعادہ سے باز آگئی..

آپ رضی اللہ عنہ کا شمار سابقون  الاولون کے اس طبقے میں ہوتا ہے جنہوں نے تین ہجرتیں کی۔ اسلام لانے کے بعد بڑے ذوق و شوق سے ہادی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی تعلیم حاصل کرتے اور قرآن کی جو آیت نازل ہوتی اسے فوراً حفظ کر لیتے۔ یہاں تک کہ کچھ عرصہ بعد عالم دین اور فقیہ سمجھے جانے لگے۔ آپ رضی اللہ عنہ زہد و فقر کی زندگی کو عیش کی ہزار زندگیوں پر ترجیح دیتے تھے۔ ایک واقعہ یوں ھے کہ ایک دن دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں اس حال میں داخل ہوئے کہ جسم پر ستر پوشی کے لیے معمولی کپڑا بھی میسر نہ تھا۔ ایک کھال کے ٹکڑے سے جسم کو باندھ رکھا تھا اور اس میں بھی جا بجا پیوند لگے ہوئے تھے۔ یہ حال دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آنکھیں نم ہو گئیں

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے  اپنے اس پیارے ساتھی کو ایک ایسی ذمہ داری سونپی جو اس سے قبل کسی کے نصیب میں نہ آئی تھی۔ مدینہ منورہ کے کچھ لوگ مسلمان ہو چکے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت اور اسلام کی دعوت کو مزید وسعت دینے کیلئے ایک سفیر،معلم اور مرشد کی ضرورت تھی۔ اس منصب کیلئے سیدنا حضرت مصعب بن عمیرؓ کا انتخاب کیا گیا

اسلام کے اس پہلے سفیر نے اپنے اخلاص ٗ حسن اخلا ق اور انتھک جدوجہد سے بے پناہ کامیابیاں حاصل کیں۔ اگلے حج سے پہلے وہ مکہ مکرمہ پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کو پوری رپورٹ پیش کی۔ قبائل کے حالات نیز مدینہ منورہ کی اقتصادی اور سیاسی صورت حال سے آپ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کو آگاہ کیا۔ اسی سال بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم  کی ہجرت کیلئے روانگی کی راہ ہموار ہوئی۔ ہجرت کے بعد غزوۂ بدر ہوا جس میں مشرکینِ مکہ کو شکست فاش ہوئی۔ اسلامی ریاست مضبوط ہو گئی۔ بدر میں جھنڈاحضرت مصعب بن عمیرؓ ہی کے ہاتھ میں تھا۔ ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ مکہ والے ایک اور لشکرِ جرار لے کر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے۔احد کے میدان میں آمنا سامنا ہوا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے اس موقع پر جن مہاجرین اور انصار کو جھنڈے عطافرمائے۔ ان خوش قسمت لوگوں میں  سیدنا مصعب بن عمیر ؓ بھی شامل تھے۔ جھنڈے کا ملنا ایک بڑی سعادت سمجھی جاتی تھی اور اس کی حفاظت کرنا اس سے بھی بڑی ذمہ داری تھی۔سیدنا مصعب بن عمیرؓ اس ذمہ داری کو خوب سمجھتے تھے چنانچہ احد کے دن آپؓ نے اس ذمہ داری کا حق ادا کر دیا۔ مورخین نے اس دن سیدنا مصعبؓ کا کردار کچھ یوں بیان کیا ہے : احد کی جنگ شروع ہونے لگی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے سوال کیا کہ آج مشرکین  کا جھنڈا کس کے پاس ہے؟ انہوں نے بتایا کہ بنو عبد الدار اس جھنڈے کو تھام کر رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے فرمایا: ہم صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم اپنا جھنڈا بھی بنو عبد الدار ہی کے ایک نوجوان کے سپرد کریں گے ۔ آپ  صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے فرمایا: مصعب بن عمیرؓ کو میرے پاس بلاؤ۔ جب وہ حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم  نے لشکرِ اسلام کا جھنڈا ان کے سپرد کر دیا۔ جنگ کے دوران یہ جھنڈا حضرت مصعب بن عمیرؓ نے سنبھالا اور پھر اس کا حق ادا کر دیا۔انہوں نے جھنڈا اٹھانے کے ساتھ ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم  کے دفاع کا فریضہ بھی انجام دیا۔ جب ابی بن خلف نے آپ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی تو سیدنا مصعب ؓنے ابی کے چہرے پر زور دار ضرب لگائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے اس کے خود اور زرہ کے درمیان تھوڑی سی خالی جگہ دیکھی تو اسی جگہ کا نشانہ لے کر اس کو ضرب لگائی۔ وہ منہ کے بل گرااور بیل کی طرح ڈکارنے لگا۔ مسلمان جب تتر بتر ہوگئے تب بھی حضرت مصعبؓ ثابت قدم رہے۔ ابن قمئہ لیثی آگے بڑھا ۔ چونکہ حضرت مصعب رضی اللہ تعالی عنہ کی شکل و شباہت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم سے بہت ملتی جلتی تھی اس لئے اس نے یہ سمجھا کہ یہی محمد صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم ھیں  اور موقع غنیمت جانتے ہوئے حضرت مصعبؓ کے داہنے ہاتھ پر زوردار وار کیا۔ہاتھ کٹ گیا تو آپؓ نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں پکڑ لیا۔پھر اس نے بائیں ہاتھ پر تلوار کا وار کیا۔ بایاں بازو بھی کٹ گیا، اس وقت آپؓ یہ آیت تلاوت کر رہے تھے: 

وَمَامُحَمَّدٌ إلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ،أَفَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی أَعْقَابِکُمْ[

محمد (صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم) صرف اللہ کے رسول ہی تو ہیں، آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں،اگر وہ فوت ہو جائیں یا شہید کر دیے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں پر (دین سے) پھر جاؤ گے۔ ‘‘ (آل عمران )

 اب سیدنا مصعبؓ نے کٹے ہوئے بازوؤں کے بقایا حصو ں کو سہارا دے کر جھنڈا اپنے سینے سے لگا لیا۔ اب کی بار ابن قمئہ لیثی نے نیزے سے حملہ کیا ۔ آپؓ کی زبان پر مسلسل قرآن پاک کی آیت کریمہ کی تلاوت جاری تھی۔نیزے کی اَنی آپؓ کے سینے سے پار ہو گئی۔ آپؓ زمین پر گر گئے اور اس کے ساتھ ہی شہید ہو گئے۔ شہادت کے وقت عمرِ مبارک  چالیس یا بیالیس سال تھی۔ جھنڈا زمین پر گرا تو سیدنا علیؓ نے آگے بڑھ کر جھنڈا سنبھال لیا۔ معرکہ ختم ہوا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم  دیگر صحابہ کرام کے ساتھ  شہداء اُحد کو الوداع کر رہے تھے۔ ان صحابہ کرام میں سیدنا مصعب بن عمیرؓ بھی تھے۔سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ تعالی عنہ نے آنسوؤں کی برسات میں انہیں یوں نذرانۂ عقیدت پیش کیا: ’’ہم لوگوں نے محض رضائے الٰہی کی خاطر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی۔ اس کا اجر و ثواب اور بدلہ یقینا اللہ تعالیٰ سے ملے گا۔ ہم میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے ہجرت کا بدلہ دنیا میں بھی پایا۔ کچھ ایسے تھے جن کو کوئی مادی فائدہ دنیا میں حاصل نہ ہواجن میں مصعب بن عمیرؓ بھی شامل تھے۔ جب ان کو دفن کرنے لگے تو کفن میسر نہ تھا، ایک چھوٹی سی چادر میسر آئی جس کو سر پر ڈالتے تو پاؤں ننگے رہ جاتے اور پاؤں پر سرکاتے تو سر ننگا رہ جاتا۔‘‘ اُن کی شہادت کی  نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کو خبر دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم تشریف لائے ،اپنے پیارے ساتھی کی نعش کے قریب کھڑے ہوئے، آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم فرما رہے تھے : ’’مؤمنوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو سچا کر دکھایا۔ مصعب! میں نے تمہیں مکہ مکرمہ میں دیکھا تھا۔ تم سے زیادہ نفیس لباس اور تم سے زیادہ خوبصورت بال کسی کے نہیں تھے۔ اب ایک یہ وقت ہے کہ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں،تم بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ ایک معمولی چادر میں لپٹے ہوئے ہو۔‘‘ پھر آپنے تمام شہداء کی طرف ایک نظر ڈالی اور فرمایا: ’’اللہ کا رسول  صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم گواہی دیتا ہے کہ تم قیامت والے دن شہداء میں اٹھائے جاؤ  گے۔‘‘ پھر آپنے صحابہ کرام  کو حکم دیا:مصعب رضی اللہ تعالی عنہ  کے سر کو چادر سے ڈھانپ دو اور قدمو ں کو اذخر گھاس سے ڈھانپ دو (اور پھر قبر میں دفن کر دو)۔ حضرت مصعب رضی اللہ تعالی عنہ کی اسی ایک چادر میں تدفین کی گئی۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ

 (  (اسد الغابہ،استیعاب ،مستدرک ،سیرۃ صحابہ)،


حضرت رفاعہ بن رافع زرقی انصاری  رضی اللہ تعالی عنہ کا قبولِ اسلام

ھجرت سے پہلے مدینہ منورہ سے تعلق رکھنے والے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا اُن میں ایک نام حضرت رفاعہ بن رافع زرقی انصاری  رضی اللہ تعالی  عنہ کا بھی ھے 

آپ  کا نام رفاعہ رضی اللہ تعالی  عنہ جبکہ  کنیت ابو معاذ تھی۔ آپ  کاسلسلہ نسب یہ ہے: رفاعہ بن رافع بن مالک بن العجلان بن عمرو بن عامر بن زریق بن عبد حارثہ بن غضب بن حشم بن خزرج۔ آپ  کی والدہ  کا نام ام مالک بنت ابی بن سلول تھا۔آپ  مشہور  منافق عبداللہ بن ابی کے بھانجے تھے۔ آ پ کے والد حضرت رافع بن مالک رضی اللہ عنہ قبیلہ خزرج کے سب سے پہلے مسلمان تھے۔ انہوں  نے بیعتِ عقبہ سے دو سال پہلے پانچ چھ آدمیوں کے ہمراہ مکہ مکرمہ جا کر  رسول کریم  صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کے دست مبارک  پر بیعت کی تھی۔ حضرت رفاعہ رضی اللہ تعالی  عنہ نے  “بیعتِ ثانیہ”   میں  اپنے والد  کے ساتھ مکہ مکرمہ  جا کر  رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی ۔ ایک دوسری روایت کے مطابق جسے خود حضرت رفاعہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ھیں کہ “ چھ انصار سے پہلے میں اور میرا  خالہ ذاد بھائی  معاذ بن عفراء رضی اللہ تعالی عنہ  مکہ مکرمہ آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم سے ملے آپ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے ھمیں اسلام  کی دعوت دی اور آپ  صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم  یہ فرمایا

 اے رفاعہ یہ بتاؤ ؛ 

آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟ 

ھم نے کہا اللہ نے

آپ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم  نے فرمایا  تم  کو کس نے پیدا کیا؟، 

 ھم نے کہا اللہ نے

آپ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم  نے فرمایا  ان بتوں کو کس نے پیدا کیا؟،  

ھم نے کہا اللہ نے

آپ  صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے فرمایا  خالق عبادت کا مستحق ھے یا مخلوق ؟ 

ھم نے کہا خالق

آپ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے فرمایا  ؛ تو تم  مستحق ھو اس کے کہ یہ بت تمہاری عبادت کریں اور تم  ایک  اللہ کی عبادت کرو جو تمہارا خالق ھے 

میں تمہیں ایک خدا کی عبادت کی دعوت دیتا ھوں کہ تم خدا کو ایک مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو اور مجھے اللہ کا رسول اور نبی مانو ، صلہ رحمی کرو ،  ظلم و زیادتی کو چھوڑ دو ۔ میں نے کہا ؛ بے شک آپ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے بلند اُمور  اور  پاکیزہ اخلاق کی طرف بلایا ھے 

میں آپ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم  کے پاس سے اُٹھ کر حرم میں پہنچا اور پکار کر کہا

أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

اس روایت کے مطابق  حضرت رفاعہ رضی اللہ تعالی  عنہ نے بیعتِ عقبہ اُولی سے بھی پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور پھر بیعت عقبہ ثانیہ میں بھی اپنے والد صاحب کے ساتھ  بیعت میں  شریک تھے 

آپ نے  تقریبا تمام غزوات   میں شرکت  کی۔  غزوہ بدر میں   آپ اور آپ  کے والد حضرت رافع بن مالک، بھائی  حضرت خلاد بن رافع اور  مالک بن  رافع رضوان اللہ علیہم  اجمعین بھی شریک ہوئے۔  اس غزوہ میں تیر لگنے سے آپ کی ایک آنکھ پھوٹ  گئی  مگر  حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کے لعابِ دہن  سے ایسی شفاء حاصل ہوئی کہ درد بھی جاتا رہا اور آنکھ کی روشنی بھی برقرار رہی۔آپ  رضی اللہ عنہ کی وفات حضرت  امیر معاویہ  رضی اللہ تعالی  عنہ  کے دورِ حکومت  میں 41 یا 42 ھجری میں ہوئی۔

جاری ھے ۔۔۔۔۔

Share: