قسط نمبر (69) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم


قیامِ جمعہ کی تاریخ اور مدینہ منورہ میں نمازِ جمعہ کی ابتداء


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَO

 اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو


قبل از اسلام ’’یومِ جمعہ‘‘

اسلام آنے سے بہت عرصہ پہلے اور سیدنا  حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد ’’ زمانۂ فترۃ‘‘ میں عرب کے اندر ملتِ ابراہیمی علیہ السلام کے پیروکار مختلف علاقوں میں موجود تھے اور عام عبادات کے علاوہ یہود کے مذہبی دن یوم السبت (سنیچر) اور نصاریٰ کے مذہبی دن یوم الاحد (اتوار) کی طرح اہلِ عرب بھی سنیچر سے ایک روز پہلے کچھ نہ کچھ خاص عبادت کیا کرتے تھے۔ تاریخ کی کتب کے مطابق  لغت اور نحو کے دو مشہور امام ’’فرّاء‘‘ اور ’’ثَعْلَب‘‘ کا قول ہے کہ دورِ قدیم میں اہلِ عرب سنیچر سے پہلے والے دن کو ’’یوم العروبہ‘‘ کہا کرتے تھے۔

 نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ایک جدِ٘ اعلیٰ کعب بن لُوَی، عرب میں پہلے شخص ہیں جنھوں نے یہود و نصاریٰ کے ہفتہ اور اتوار کی طرح سنیچر سے پہلا دن ’’یوم العروبہ‘‘ عام معمولات کے علاوہ اجتماعی عبادت کے لیے مقرر کیا تھا۔ وہ اس دن لوگوں کو جمع کرتے اور حمد و ثناءِ خداوندی اور مواعظ و نصائع پر مشتمل خطبہ دیا کرتے، جس میں صلۂ رحمی کی خصوصی ترغیب دیا کرتے تھے اور  صحف ابراہیمیہ اور تورات و انجیل کی مشہور و معروف تعلیمات و بشارات سے حاصل شدہ علم کے مطابق یہ پیش گوئی اور نصیحت کرتے تھے کہ میری اولاد میں ایک نبی آنے والا ہے۔ اگر تم لوگ اس کا زمانہ پاؤ تو ضرور ان کی اتباع کرنا۔

علامہ حافظ امام ابن کثیر رحمۃ اﷲ علیہ نے “البدایہ” میں  کعب بن لؤی کا خطبہ ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔  

کَعْبُ بْنُ لُؤَیٍّ رَوَیٰ اَبُوْ نُعْیْمٍ مِنْ طَرِیْقِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ زَبالَۃ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃ التَّیْمِیْ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ قَالَ : کَانَ کَعْبُ بْنِ لُؤَیٍّ یَجْمَعُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَکَانَتْ قُرَیْشٌ تُسَمّیْہِ ’’ اَلْعَرُوْبَۃَ ‘‘ فَیَخْطُبُہُمْ فَیَقُوْلُ أَمَّا بَعْدُ فَاسْمَعُوْا و تَعَلََّمُوْا وَافْہَمُوْا وَاعَلمُوْا لَیَلٌ سَاجٍ وَ نَہَارٌ ضاحٍ وَالْاَرْضُ مِہَادٌ والسَّمَاءُ بِنَآءٌ وَالْجِبَالُ اَوْتَادٌ وَالنُّجُوْمَ أَعْلَامٌ وَالْاَوَّلُوْنَ کَالْاٰخِرِیْنَ والَاُنْثیٰ وَالْذَّکَرُ والرُّوْحُ وَ مَا یَہِیْجُ اِلَی بلَی فَصِلُوْا اَرْحَامَکُمْ وَاحْفَظوْ اَصْہَارَکُمْ وَ ثَمِّرُْوا اَمْوَالَکُمْ فَہَلْ رَأَیْتُمْ مِنْ ہَالِکٍ رَجَعَ ؟ اَوْ مَیِّتٍ نُشِرَ ؟ الْدَّارُ أَمَامَکُمْ والظَّنُ غیْرُ مَا تَقُوْلُونَ، حَرَمکُمْ زَیَّنُوْہُ و عَظِّمُوْہُ و تَمَسَّکُوْ بِہٖ فَسَیأْتِیْ لَہٗ نَبَاءٌ عَظِیْمٌ وَ سَیَخْرُجْ مِنْہُ نَبِیٌ کَرِیْمٌ۔

ترجمہ: حضور آکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے اجداد میں سے کعب بن لُوَی کا ذکر ابو نُعیم بواسطہ محمد بن حسن بن زبالہ، محمد بن طلحہ تیمی سے، وہ محمد بن ابراہیم بن حارث سے، وہ ابو سلَمہ سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے بیان کیا کہ کعب بن لُوَی اپنی قوم کو بروز جمعہ اکٹھا کیا کرتے تھے۔ اور قریش نے اس دور میں جمعہ کو ’’عروبہ‘‘ کا نام دے رکھا تھا۔ کعب اُن کے سامنے خطبہ دیتے تو یوں کہتے: بعدِ حمد و ثنا جو کچھ کہتا ہوں اسے سنو اور خوب محفوظ کر لو، سمجھ اور جان لو، رات پُرسکون ڈھانپنے والی ہے اور دن بے ابر اور روشن ہے اور زمین گڑھوں والی ہے اور آسمان بلند و بالا عمارت ہے۔ اور پہاڑ زمین کی میخیں اور کھونٹے ہیں اور ستارے رہنما ہیں۔ پہلی اقوام بھی انجام میں پچھلوں جیسی تھیں۔ ہر نر و مادہ، ہر روح اور پیدا ہونے والے چیز گلنے سڑنے کے لیے ختم ہو رہی ہے۔ اپنی رشتہ داریوں کو جوڑے رکھو اور اپنے سسرالی و دامادی کے تعلقات کی حفاظت کرو، اپنے مال و دولت کو تجارت سے بڑھاتے رہو، کیا تم نے کسی مرنے والے کو دیکھا ہے جو لوٹ آیا ہو؟ یا کسی مردہ کو دیکھا ہے جو دوبارہ زندہ کر دیا گیا ہو؟ آخرت کا گھر تمہارے آگے ہے اور انجام کے متعلق یقین تمھاری گفتگو کے سوا ہے، یہ تمہارا حرم ہے، اس کو بناؤ سنوارو اور اس کی بڑائی کو قائم رکھو اور اسی کے ساتھ پختگی سے وابستہ رہو، عنقریب اس کے متعلق ایک بہت بڑی خبر آنے والی ہے اور اسی حرم سے ایک معزز نبی ظاہر ہونے والے ہے۔

پھر کہتے تھے

ہر صبح و شام کوئی نہ کوئی واقعہ ساتھ لاتے ہیں                        (چنانچہ) ہمارے لیے اُن حوادث کے صبح و شام برابر ہیں

¯دن رات مختلف واقعات اور خدائی انعامات کو بار بار لے کر آتے ہیں یہاں تک کہ لوٹ جاتے ہیں

اور ہماری زندگی پر ان شب و روز کے لمبے پردے پڑتے جاتے ہیں۔                                            ہماری بے خبری میں نبیِ مکرم حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   اچانک آ جائیں گے اور وہ غیبی خبریں سنائیں گے ، جن کا بتانے والا بہت سچا ہے

   پھر کہتے تھے، 

خدا کی قسم اگر اس نبی کے آنے کے وقت میرے کان آنکھ اور ہاتھ پاؤں باقی رہ سکتے (یعنی میں رہ سکتا) تو میں (اس کی تائید کے لیے) یوں اٹھ کھڑا ہوتا جیسے (سواری اور برداری والا) اونٹ کھڑا ہو جاتا ہے اور میں اسے ماننے کے لیے تیز سے تیز رفتار کے ساتھ چل کر جا پہنچتا۔

پھر یہ شعر پڑھتے تھے

       اے کاش میں بھی اس نبی کے اعلانِ دعوت کے سننے کے وقت حاضر ہوتا

جبکہ میرا قبیلہ (قریش) حق کو بے یار و مدد گار چھوڑ دے گا۔               (البدایہ والنہایہ)

ابو سَلَمہ کہتے ہیں کہ کعب بن لُوَی کی موت اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کو نبوت و رسالت عطا کیے جانے کے درمیان پانچ سو ساٹھ برس کا عرصہ ہے۔

کعب نے ہی سب سے پہلے یوم العَروبہ میں لوگوں کو عبادت کے لیے اکٹھا کرنے کا طریقہ جاری کیا تھا، تو لوگوں کے مسلسل جمع ہونے کی بنا پر اُس کا پہلا اور پرانا نام بدل کر موضوع و مضمون کے مطابق اس کا نیا اور دوسرا نام ’’یوم الجمعہ‘‘ (لوگوں کو جمعہ کرنے والا دن) بھی انھوں  نے ھی رکھا۔ جو اسلامی دور میں بھی نقل اور منتخب ہوا۔ حتیٰ کہ جب انصارِ مدینہ نے اپنی ہفت روزہ اجتماعی عبادات کے لیے قدرتی تحریک پر از خود اسی دن کو مقرر کیا اور کعب کے رکھے ہوئے نام کی تجدید بھی کر لی، تو ان کے اس اقدام کو منشاءِ ربانی قرار دیتے ہوئے وحی الٰہی نے بھی اُس کی مستقل تائید و تصدیق اور تصویب و تحسین کر ڈالی، جس پر قرآن کریم اور آحادیثِ مبارکہ گواہ ہیں۔

قبل از ہجرت مدینہ منورہ میں نمازِ جمعہ کا الہامی اجراء:

سنہ ۱۲ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے دوران ہجرت سے پہلے مدینہ منورہ میں اسلام کی اہم ترین عبادت ’’جمعہ‘‘ کا قیام عجیب و غریب انداز سے شروع  ہوا۔ اور اس کی غیبی اور الہامی صورت ظاہر ہوئی۔ جس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ ’’تورات و انجیل‘‘ کے احکام و ہدایات اور روایات کے مطابق مذہبی اجتماع اور عبادت کی غرض سے یہود کے لیے یوم السبت (ہفتہ) اور نصاریٰ کے لیے یوم الاحد (اتوار) کا دن مقرر تھا۔ اُس دن وہ اپنی عبادت گاھوں  میں جمع ہوتے تھے۔ مدینہ منورہ میں رہنے والے صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم یہ طریقہ دیکھتے اور اس کی اہمیت و اثر کو محسوس کرتے تھے۔ لیکن حضور آکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی طرف سے اُن کو کسی خاص مقرر دن میں کسی مستقل اجتماعی عبادت کے لیے اب تک کوئی حکم نہیں ملا تھا۔ اس لیے وہ خاموش تھے۔ البتہ بقیہ نمازیں حضور   آکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے معتبر و معتمد سفیر و قاصد، مدینہ میں اسلام کے معلم و مبلغ  حضرت مُصْعَب بن عمیر رضی اﷲ  تعالی عنہ کی اقتدا میں ادا کیا کرتے تھے۔

 نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت و رسالت عطا ہوئی۔ تو ابتداء میں فجر اور عصر صرف دو وقت کی نمازیں فرض کی گئیں۔ لیکن نماز کا کوئی مستقل سلسلہ اور مفصل طریقہ ابھی تک قائم اور مقرر نہیں ہوا تھا۔ ( فتح الباری ، البدایہ والنہایہ،)

پھر زیادہ مشہور قول کے مطابق سنہ ۱۱ ؍نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  میں  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو کائنات کا عظیم و عجیب ترین اور مُحیّر العقول آسمانی معجزہ ’’معراج‘‘ کی صورت میں عنایت فرمایا گیا، تو اﷲ تعالیٰ کے قربِ خالص میں حاضر ہونے پر دوسرے بے شمار انعامات کے علاوہ سب سے بڑی فرض عبادت کے طور پر ’’صلواتِ خمسہ‘‘ پچاس کا ثواب رکھنے والی پانچ نمازوں کا تحفہ عطا فرما دیا گیا۔ (المواہب للزرقانی)


نمازِ جمعہ کا نام رکھنے کی تجویز اور اُ س کی تصدیق:

مذکورہ صورتِ حال کے پیشِ نظر قبلِ ہجرت حضور آکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے اوّل مدنی پیروکار و جاں نثار، معروف صحابی حضرت اَسعد بن زُرارہ نجّاری، انصاری رضی اﷲ عنہ کی توجہ بطور خاص اس مسئلہ کی طرف مبذول ہوئی اور اُن کے دل میں یہ خیال پیداہوا کہ جب مصنوعی اہلِ کتاب، کافر ہو کر اس تنظیم کے ساتھ اپنی عبادات میں مصروف ہیں تو ہم نبی و رسولِ برحق، مُصدِّق و خاتم الابنیاء حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے سچے فرماں بردار اور عاشق ہو کر اپنے سب سے عظیم اور کامل و جامع دینِ برحق کے فرائض و واجبات کو کیوں نہ اُن سے بڑھ چڑھ کر تربیت و تنظیم کے ساتھ ادا کیا کریں؟ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کے اس احساس اور خیال و عزم کو غیبی تائید و قبولیت سے نوازا۔ جس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت اَسعد رضی اﷲ عنہ نے اپنے دل و دماغ کی پوری قوت فکر و فیصلہ کے مطابق اس عبادت کو اجتماعی تشکیل کے لیے یہود کے ہفتہ اور نصاریٰ کے اتوار کے مقابلہ میں یوم ’’جمعہ‘‘ کو پسند و منتخب اور مقرر و طے کر دیا تھا، پھر دوسرے انصاری صحابہ رضی اﷲ عنہم کو مشورتاً اپنی یہ تجویز بتائی تو انصار نے فطری سعادت کے تحت اپنی قلبی خواہش اور دینی آرزو کی تکمیل کے لیے غیر متوقع خدائی تائید سمجھ کر اسے فوراً قبول کر لیا۔ اس حسنِ اتفاق کے بعد حضرت اسعد رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک جمعہ کے دن سب انصار ی احباب کو اکٹھا کر کے اپنے پہلے ’’اجتہاد‘‘ کے مطابق نمازِ جمعہ پڑھا دی۔ اتوار اور ہفتہ سے پہلے آنے والے اس دن کو عرب کے جاہلی رواج کے مطابق ’’یوم العروبہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس سلسلہ میں انھوں نے دوسرا اجتہادی اقدام یہ کیا کہ یہ جاہلی نام ختم کر کے تقدیر الٰہی کی خاموش رہنمائی، روحانی رشد و ہدایت اور اپنی دینی بصیرت و فراست کے تحت اسے ’’یوم الجمعہ‘‘ کے مبارک الہامی نام کے ساتھ موسوم کر دیا۔ حضرت اسعد رضی اﷲ عنہ نے اپنے ممتاز دینی فکر و شعور اور بصیرت کے مطابق جو دو مذکورہ اجتہاد کیے تھے۔ وہ درحقیقت تقدیر و منشاءِ الٰہی کے مطابق امت محمدیہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی دینی اور اجتماعی زندگی میں تا قیامت زبردست روحانی اور انقلابی اثرات رکھنے والے خالص ’’ربّانی القاء‘‘ اور ’’رحمانی الہام‘‘ کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس عملِ خیر کی برکت و مقبولیت کا پہلا اظہار اور اس ’’اجتہاد‘‘ کی پہلی تصدیق یوں ہوئی کہ ہجرت سے کچھ عرصے پہلے حضور آکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مدینہ میں اسلام کے معلمِ اوّل حضرت مُصعَب بن عمیر رضی اﷲ عنہ کو یومِ جمعہ کی اہم عبادت کے متعلق ایک خصوصی مکتوبِ گرامی اور حکم نامہ لکھوا کر ارسال فرمایا۔ جس میں درج تھا کہ اس دن ’’نصف النہار‘‘ کے بعد سب اکٹھے ہو کر ایک ’’دوگانہ‘‘ ادا کر کے قربِ خداوندی حاصل کیا کرو۔

( دار قُطنی،  الزرقانی،  سیرت المطفیٰ، ص: ۲۴۸، ج:۱)

اور ہجرت کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے دورانِ قیامِ قُباء، جب بحکمِ خداوندی ’’محلہ بنی سالم بن عوف‘‘ کی مسجد میں  اسلام کے دورِ اقتدار کا پہلا اجتماعی جمعہ ادا کیا، تو حضرت اسعد رضی اللہ تعالی عنہ کے پہلے اجتہاد کی باضابطہ دوسری تائید ہوئی اور اس کے بعد مستقل قیامِ مدینہ اور تعیینِ مقام عبادت و تعمیرِ مسجد نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے عرصہ میں اس عبادت کی فرضیت و اہمیت بتانے کے لیے جب اﷲ تعالیٰ نے جمعہ کے نام سے ایک مستقل سورت اتاری اور مختصر احکامِ جمعہ کے طور پر اسی سورت کا دوسرا اور آخری مستقل رکوع نازل کیا تو وحی کے خطاب میں اس دن کو ’’یوم الجمعہ‘‘ اور اس کے اندر بوقتِ ظہر اس مستقل نماز کو ’’صلٰوۃ الجمعہ‘‘ کے نام سے ہی موسوم فرمایا۔ جس سے حضرت اسعد رضی اﷲ عنہ کے دوسرے اجتہاد کے لیے بھی آسمانی تصدیق حاصل ہو گئی، کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الجمعہ میں ’’اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ‘‘ (جب اذان دے کر پکارا جائے جمعہ کے دن)، کے الفاظ سے فرضیتِ جمعہ کا اعلانِ عام کیا، تو ساتھ ہی یہ بھی ظاہر فرما دیا کہ اُن کو  رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے انصاری صحابہ کی طرف سے قیامِ جمعہ کی تجویز اور ’’یوم العروبہ‘‘ کو ’’یوم الجمعہ‘‘ کے نام سے موسوم کرنے کا عمل بالکل پسندیدہ اور محبوب ہے۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے اُس دن کے لیے جاہلی دور کا نام ’’یوم العروبہ‘‘ استعمال کرنے سے گریز کیا اور صرف انصار کا مجوزہ نام ’’یوم الجمعہ‘‘ ہی استعمال کر کے اپنی پسند پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ گویا خطبہ و نمازِ جمعہ کو شریعت اسلامیہ کے ایک مستقل عباداتی ضابطہ اور قانون کی شکل عطا فرما کر، بواسطۂ حضرت اسعد رضی اللہ تعالی عنہ جملہ انصاری صحابہ رضی اﷲ عنہم کے ’’خالص الہامی مشورہ‘‘ اور ’’مشترک اجتہاد‘‘ کی ہمیشہ کے لیے باقاعدہ تائید و تصدیق اور تصویب و تحسین کر دی گئی۔ اس مستند ترین اور وحی کے ساتھ مصدقہ واقعہ سے ہر مسلمان کے دل و دماغ میں روشنی ہو جانی چاہیے ، کہ نبی تو نبی رھے  کہ اُن کا مقام تو بالکل ما فوق الفطرت ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم کی کتنی عظمت اور قدر و منزلت ہے کہ اُن کے خیالات و تجاویز او ر عزائم و اعمال تک کو بھی بہ منشاء و حکمِ خداوندی سیرت مطہرہ کا جزو و حصہ بنا دیا گیا ہے اور اُس کے ابدی قوانین کی حیثیت دی جا چکی ہے؟ تو یہیں سے دین میں اُن کی حیثیت اور منصب و عہدہ کی قانونی نوعیت بھی الم نشرح ہو گئی ہے کہ وہ عام مسلمانوں کی طرح محض مومن نہیں، بلکہ اُن کا وجود شریعت کی بنیاد میں شامل ہے۔ کتاب اﷲ اور سنتِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اُن کا فکر و عمل بھی اُمت کے لیے شرعی حجت واجب التقلید، موجبِ رضائے اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور باعثِ نجات و فلاحِ دارین بھی ہے۔ اور واقعتا تاریخِ اسلام اور سیرت صحابہ کرام کے ضمن میں انصار کی یہ ایک ایسی اہم فضیلت اور بے مثال خصوصیت ہے جس میں کوئی مہاجر اور کوئی غیر مدنی، غیر مہاجر صحابی بزرگ یا گروہ اُن کا  شریک نہیں بن سکا۔ وَ ذالِکَ فَضْلُ اللُّہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ ۔


مدینہ منورہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی نمازِ جمعہ

رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جب قبا سے بروز جمعہ کو مدینہ شہر کے لیے روانہ ہوئے تو راستہ میں بنو سالم کی مسجد میں تشریف لا کر پہلی  نمازِ جمعہ ادا کی جو بعد میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے اداءِ جمعہ کے باعث ’’مسجد جمعہ‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئی۔  پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم انصار کے مختلف چھوٹے خاندانی محلوں سے گزرتے ہوئے دارِ ابو ایوب انصاریؓ تک پہنچے۔

بارہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں  یعنی ہجرت سے  ایک سال قبل مدینہ منورہ میں  صحابئ رسول حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سب سے پہلے نمازِ جمعہ کا نظام  قائم فرمایا تھا ، اور حاضرین کو نمازِ جمعہ پڑھائی۔ اور مکہ مکرمہ میں زمانہ جاہلیت میں سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جدِِّ آمجد جناب کعب بن لوی نے جمعہ کا نظام قائم کیا تھا ۔

گویا اسلام میں سب سے پہلے جمعہ کا نظام قائم کرنے والے صحابئ رسول حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالی عنہ ھیں اُنہوں نے مدینہ منورہ میں یہ سعادت حاصل کی تھی اور اسلام سے پہلے زمانۂ جاھلیت میں سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جدِّ آمجد جناب کعب بن لوی نے جمعہ کا نظام قائم فرمایا تھا  ۔ انہوں نے جمعہ قائم کرنے کی سعادت مکہ مکرمہ میں حاصل کی تھی ۔ 

حضرت عبدالرحمن بن کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ میرے والد حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ جب جمعہ کی آذان سنتے تو حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے دعائے مغفرت فرماتے ۔ میں نے ایک بار دریافت کیا تو یہ فرمایا کہ مدینہ میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالی عنہ ھی نے ھم کو جمعہ پڑھایا تھا۔ 

(ابو داؤد ، الحاکم)

جاری ھے۔۔۔۔۔۔

Share: