قسط نمبر (70) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

دوسری بیعتِ عقبہ 

بہت زیادہ آزمائشوں اور سختیوں کے بعد آخر وہ وقت  بھی آ گیا  کہ اسلام کا جھنڈا اپنے پورے جاہ وجلال اوراس کی مبارک  شریعت اپنی پوری آب وتاب سے نمایاں ہوئے ۔ مدینہ منورہ میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ  نے اپنے مختصر قیام میں جو کامیابی حاصل کی وہ درحقیقت اسلام کی سب سے نمایاں فتح تھی؛چنانچہ حج کے زمانہ میں جب وہ مکہ مکرمہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے تو ان کے ساتھ اوس وخزرج کا وہ مقدس قافلہ بھی تیار ہو گیا تھا جو گو تعداد کے لحاظ سے تو اتنا بڑا نہ تھا تاہم ان کے اخلاص اور جوش وولولہ نے اگے چل کر وہ منظر پیش کیا کہ روم وفارس کی سلطنتیں بھی  ان کے سامنے زیروزبر ہوگئیں۔ ان بزرگ ھستیوں کے جذبے کا  اس وقت یہ عالم تھا کہ یہ لوگ ابھی  یثرب ہی میں تھے یا مکہ کے راستے ہی میں تھے کہ آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہم کب تک رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو یونہی مکّے کے پہاڑوں میں چکر کاٹتے، ٹھوکریں کھاتے اور خوفزدہ کئے جاتے چھوڑے رکھیں گے؟

انصارِ مدینہ کا  یہ قافلہ جس میں مسلمانوں کے ساتھ مشرک  بھی شریک ھو گئے تھے اور جس کی تعداد پانچ سو  کے لگ بھگ تھی،  ذوالحجہ کے مہینہ میں مکہ مکرمہ پہنچا اور منی میں عقبہ کے قریب مقیم ہوا، اس اثنا میں حضرت براء بن معرور رضی اللہ تعالی عنہ ، رئیس خزرج کو آنحضرت  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے ملنے کی ضرورت پیش آئی، حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ منورہ میں  حضرت مصعب بن عمیر  رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر ایمان لا چکے تھے اور تمام مسلمانوں کے خلاف کعبہ مکرمہ کی سمت نماز پڑہتے تھے اور مسلمان اور خود رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  بھی اس وقت تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے ،لوگ  حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ کو ٹوکتے اور عام جماعت کی مخالفت پر ان پر تنقید کرتے تھے،لیکن وہ بیت اللہ کی شدید محبت کی وجہ سے اپنی رائے پر نہایت شدت سے عمل پیرا تھے؛ مکہ مکرمہ پہنچ کر ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید اُن کے اس عمل میں اُن سے اجتہادی غلطی ہوئی ہو، چنانچہ انہوں نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ ہم کو رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے پاس چلنا چاہئے حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت کعب  رضی اللہ تعالی عنہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے ناواقف تھے،البتہ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے ان کی شناسائی تھی ۔ پوچھنے پر لوگوں نے اُنہیں  بتلایا کہ اس وقت رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تشریف فرما ہیں ۔ یہ لوگ فوراً حاضرِ خدمت ھوئے تو آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے ان  حضرات کے متعلق استفسار کیا، حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے دونوں بزرگوں کا تعارف کرایا ،حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کانام آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے سنا تو فرمایا؛  کعب شاعر؟ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا جی ہاں اس قدر گفتگو کے بعد اصل مسئلہ پیش ہوا، حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا یا نبی اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! میں الحمد للہ اس سفر سے پہلے  مسلمان ہو چکا  ہوں اور میرا خیال ہے کہ کعبہ کی طرف پشت کرنے کے بجائے میں اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھوں اور میں ایسا کرتا ہوں ،لیکن میرے ساتھی میری مخالفت کرتے ہیں، اب آپ جو کچھ ارشاد فرمائیں، آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا تم ایک قبلہ پر تو ضرور ہو، لیکن فی الحال بیت المقدس کی ھی سمت پر اکتفا کرنا چاہئے؛چنانچہ حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ اس کے بعد سے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑہنے لگے،عون بن ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے اس واقعہ کو ایک شعر میں نظم کیا ہے کہتے ہیں:

ومنا المصلی اول الناس مقبلا علی کعبۃ الرحمن بین المشاعر
حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ انصار کے ایک اور رئیس حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس قافلہ کے ساتھ آئے تھے وہ اس وقت تک  تک وہ اسلام نہیں لائے  تھے، دورانِ سفر انصار صحابہ کرام خفیہ طور سے ان کو اسلام کی تبلیغ  کرتے رھے۔  اللہ پاک نے ھدایت کے لئے ان کے سینے کو کھول دیا اور وہ بھی بیعتِ عقبہ سے پہلے ھی مسلمان ہوگئے۔

(سیرت ابن ہشام)

حج سے فارغ ہونے کے بعد رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ان لوگوں سے ملاقات کے لئے ایک رات مقرر کی اور تہائی رات کو یہ صحابہ کرام  عقبہ کی گھاٹی میں ایک درخت کے نیچے جمع ہوئے ،رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے ہمراہ  مقررہ مقام پر تشریف لائے اور وہاں حسب ذیل گفتگو ہوئی۔

حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے بات کا آغاز کرتے ھوئے کہا  اے گروہ خزرج! محمد  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہم میں جس درجہ کے شخص  ہیں اس سے تم بھی واقف ہو اورہم نے ان کی حفاظت میں اپنی طرف سے کوشش کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا ہے، اگر تم اپنے وعدوں کا پورا کرسکتے ھو اور دشمنوں سے ان کی حفاظت کر سکتے ہو،تو بہتر اوراگر ان کو چھوڑ دینے  کا ارادہ ہے تو صاف صاف اسی وقت کہہ دو ؛کیونکہ یہاں وہ اپنی قوم میں نہایت محفوظ و مامون ہیں۔

انصار نے  کہا  اے عباس رضی اللہ تعالی عنہ ؛ ہم نے تمہاری گفتگو سن لی ھے پھر وہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت میں عرض گزار ھوئے کہ یارسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم آپ فرمائیے اورجو کچھ اپنے اوراپنے اللہ کے لئے ھم سے مطلوب ھو وہ ارشاد فرما دیجیے  اس درخواست پرآنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے تکلم کا آغاز فرمایا اورقرآن مجید سنا کر اسلام کی دعوت دی اورفرمایا کہ میں تم سے اس شرط پر بیعت لیتا ہوں کہ میری حفاظت اپنی جانوں کے برابر کروگے براء بن معرور رضی اللہ تعالی عنہ ،  رئیس خزرج نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر کہا،بے شک ہم آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی اس طرح حفاظت کریں گے،آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہم سے بیعت لیں گے، ہم نسل در نسل سپہ گر اورجنگ جو واقع ہوئے ہیں، براء رضی اللہ تعالی عنہ ابھی یہ گفتگو کرہی رہے تھے کہ ابو الہیثمؓ بن الیتھان رضی اللہ تعالی عنہ بولے، یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ! ہم نے یہودیوں سے معاہدے کیے ھوئے ہیں لیکن اب ھم انہیں ختم کر دیں گے لیکن ھمیں اندیشہ یہ ھے کہ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو غلبہ حاصل ھو جائے گا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہم کو چھوڑ کر واپس اپنی  قوم میں جاملیں گے، رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم یہ سن کر مسکرائے اورفرمایا:

بل الدم الدم !والھدم الھدم!انا منکم وانتم منی! احارب من حابتم واسالم من سالمتم
بلکہ میرا خون تمہارا خون اورمیرا ذمہ تمہارا ذمہ ہے! میں تم سے ہوں اورتم مجھ سے ہو! تم جس سے لڑوگے میں بھی لڑوں گا اورجس سے تم صلح کروگے میں بھی صلح کروں گا۔
عباس بن عبادہ بن نضلہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا اے گروہِ خزرج!تمہیں خبر بھی ہے کہ تم آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے کس چیز پر بیعت کررہے ہو؟ تم ان سے عرب وعجم کے ساتھ جنگ پر بیعت کررہے ہو! خوب سمجھ لو کہ اس میں تمہاری جائدادیں ضائع ہوں گی اورشرفاء  قتل ہوں گے، اگر ایسی حالت میں تم نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو چھوڑ دیا  تو اللہ  کی قسم اس میں دین و دنیا دونوں میں تم ناکام ھو جاؤ گے اور دونوں جہانوں میں تمہاری  رسوائی ھو گی  لیکن اگر تم اپنے عہد پر پوری طرح قائم رہے اور وعدہ کو پورا کر دیا تو  یقیناٍ دنیا وآخرت میں کامیاب ھو جاؤ گے اور یہ تمہارے لئے دین و دنیا دونوں میں سب سے بہتر ھو گا اور خیرِ کثیر کو تم حاصل کر سکو گے۔  (سیرت ابن ہشام)

اس گفتگو سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا  ہے کہ اس عظیم ذمہ داری کو اٹھانے اور اس کے پرخطر نتائج کو جھیلنے کے سلسلے میں انصار کے عزم محکم، شجاعت و ایمان اور جوش و اخلاص کا کیا حال تھا ؟ یہ باتیں  چونکہ نہایت جوش و جذبہ میں ہورہی تھیں اس لئے انجانے میں کچھ لوگوں کی آوازیں کسی قدر بلند بھی ہوگئی تھیں، حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں کو کہا ، اپنی آوازیں کو پست رکھو ؛کیونکہ مشرکینِ مکہ کے جاسوس یقیناً ادھر ادھر پھر رہے ہوں گے اورتم میں سے ایک شخص آھستہ آواز میں نہایت اختصار کے ساتھ گفتگو کرے،حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالی عنہ اس مقصد کے لئے سامنے آئے اورکہا: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم! آپ اپنے رب کے لئے جو چاہیں  ھم سے مطالبہ کر  لیں ،پھر اپنے لئے اور اپنے ساتھیوں  کے لئے بھی جو چاھیں طلب فرما لیں  پھر ہمیں یہ بتلائیں  کہ اگر ھم نے یہ سب کچھ کر دیا تو پھر ہم  اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے کس اجر کے مستحق ھوں گے ۔ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا: تم سے اللہ کے متعلق یہ کہتا ہوں کہ تم اس کی عبادت کرو اوراس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اوراپنے اور اپنے اصحاب کے لئے یہ چاہتا ہوں کہ تم ہمیں مدینہ منورہ میں پناہ دو، ھماری مدد کرو اورجس طرح اپنی جانوں کی حفاظت کرتے ہو، اسی طرح ہماری بھی  حفاظت کرو، انصار نے کہا اگر ھم  یہ تمام باتیں کریں تو ہم کو کیا ملے گا؟ ارشاد ہوا، ان کے بدلے میں آپ کو جنت  ملے گی تو انصار بولے تو جو کچھ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم چاہتے ہیں ہم اس کے لئے راضی ہیں۔  (مسند ابن حنبل)

شعبی کہا کرتے تھے کہ اتنا مختصر اوربلیغ خطبہ آج تک نہیں سناگیا۔  (طبقات ابن سعد)

خطبہ ختم ہونے کے بعد لوگ بیعت کے لئے اگے بڑھے ۔ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے برا ء بن معرور رضی اللہ تعالی عنہ نے بیعت کی،بعض کا قول ابو الہیثم  رضی اللہ تعالی عنہ کا ھے اور بعض کا اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف بھی اشارہ ہے۔  (طبقات ابن سعد)

 ان لوگوں کے بعد  تمام شرکاءِ مجلس  نے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دستِ مبارک پر بیعت  کی ۔ باقی رہیں دو صحابیہ عورتیں جو اس موقعہ پر یہاں حاضر تھیں تو انکی بیعت صرف زبانی ھی ہوئی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی اجنبی عورت سے مصافحہ نہیں کیا

  درحقیقت بیعتِ عقبہ عرب وعجم کے ساتھ جنگ پر بیعت تھی، اس لئے ھمارے لئے ان جانباز مجاھدوں  کے ناموں کا جاننا بھی باعثِ سعادت ھو گا  جنہوں نے  رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اور اُن کے آصحاب کو اس مشکل وقت میں پناہ دی جبکہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اور ان کے آصحاب کے لئے اورکوئی جائے پناہ موجود نہ تھی اور اس وقت میں انصار نے اپنے آپ کو جان نثاری کے لئے پیش کیا؛جبکہ عرب کا کوئی قبیلہ اس میدان میں اترنے کی ہمت نہیں کرتا تھا، ان  انصار صحابہ کرام  کی مجموعی تعداد پچھتر تھی ۔ ان میں تہتر مرد تھے اور دو عورتیں تھیں جن کے اسماءِ گرامی مندرجہ ذیل ھیں :-

اسماء گرامی بیعتِ عقبہ ثانیہ


قبیلہ اوس کے شریک

بني عبد الأَشهل

1 – اسید بن حضیر رضی اللہ تعالی عنہ

2 – ابو الہیثم بن تیہان رضی اللہ تعالی عنہ

3 – سلمة بن سلامہ بن وقش بن زغبہ رضی اللہ تعالی عنہ


بني حارثة

4 – ظہير بن رافع بن عدی ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

5 – أَبو بردہ بن نيار رضی اللہ تعالی عنہ

6 – نہير بن الہيثم رضی اللہ تعالی عنہ


بني عمرو بن عوف بن مالك

7 – سعد بن خیثمہ رضی اللہ تعالی عنہ

8 – رفاعہ بن عبد المنذر رضی اللہ تعالی عنہ

9 – عبد اللہ بن جبیر ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

10 – معن بن عدي بن الجد رضی اللہ تعالی عنہ

11 – عویم بن ساعدہ رضی اللہ تعالی عنہ


قبیلہ خزرج کے شریک

بنى النجار

12 – خالد بن زيد بن كليب رضی اللہ تعالی عنہ

13 – معاذ بن الحارث بن رفاعة  ابن عفراء رضی اللہ تعالی عنہ

14 – عوف بن الحارث۔ رضی اللہ تعالی عنہ

15 – معوذ بن الحارث ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

16 – عمارہ بن حزم بن زيد۔ رضی اللہ تعالی عنہ

17 – اسعد بن زرارہ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

18- سہل بن عتيك رضی اللہ تعالی عنہ

19 – اوس بن ثابت بن المنذر۔ رضی اللہ تعالی عنہ

20 – ابو طلحہ انصاری زيد بن سہل ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

21 – قیس بن ابی صعصہ ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

22 – عمرو بن غزيہ بن عمرو۔ رضی اللہ تعالی عنہ


بنى الحارث
23 – سعد بن الربيع ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

24 – خارجہ بن زيد بن ابي زہير ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

25 – عبد اللہ بن رواحہ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

26 – بشير بن سعد بن ثعلبہ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

27 – عبد اللہ بن زيد بن ثعلبة۔ رضی اللہ تعالی عنہ

28 – خلاد بن سويد بن ثعلبہ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

29 – عقبہ بن عمرو بن ثعلبہ۔ رضی اللہ تعالی عنہ


بنى بياضة بن عامر
30 – زياد بن لبيد بن ثعلبہ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

31 – فروہ بن عمرو بن ودقہ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

32 – خالد بن قیس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ


بني زريق بن عامر
33 – رافع بن مالك بن العجلان۔ رضی اللہ تعالی عنہ

34 – ذكوان بن عبد قيس بن خلدة ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

35 – عباد بن قيس بن عامر۔ رضی اللہ تعالی عنہ

36 – حارث بن قیس بن خلدہ۔ رضی اللہ تعالی عنہ


بنى سلمة بن سعد
37 – براء بن معرور رضی اللہ تعالی عنہ

38 – سنان بن صيفی بن صخر رضی اللہ تعالی عنہ

39 – مسعود بن يزيد بن سبيع۔ رضی اللہ تعالی عنہ

40 – يزيد بن حرام بن سبيع۔ رضی اللہ تعالی عنہ

41 – جبار بن صخر بن اميہ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

42- طفيل بن نعمان بن خنساء۔ رضی اللہ تعالی عنہ

43 – معقل بن المنذر بن سرح۔ رضی اللہ تعالی عنہ

44 – يزيد بن المنذر بن سرح۔ رضی اللہ تعالی عنہ

45 – ضحاك بن حارثہ بن زيد۔ رضی اللہ تعالی عنہ

46 – بشر بن براء بن معرور۔ رضی اللہ تعالی عنہ

47 – الطفيل بن مالك بن خنساء۔ رضی اللہ تعالی عنہ


بني سواد بن غنم بن كعب
48 – كعب بن مالك بن ابی كعب رضی اللہ تعالی عنہ


بني غنم بن سواد
49 – سليم بن عمرو بن حديدہ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

50 – قطبہ بن عامر بن حديدہ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

51 – يزيد بن عامر بن حديدہ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

52 – أَبو اليسر ۔۔ كعب بن عمرو۔ رضی اللہ تعالی عنہ

53 – صيفی بن سواد بن عباد۔ رضی اللہ تعالی عنہ


بني نابي بن عمرو بن سواد
54 – ثعلبہ بن عنمہ بن عدی۔ رضی اللہ تعالی عنہ

55 – عمرو بن عنمہ بن عدی۔ رضی اللہ تعالی عنہ

56 – عبس بن عامر بن عدی۔ رضی اللہ تعالی عنہ

57 – عبداللہ بن انيس ۔رضی اللہ تعالی عنہ

58 – خالد بن عمرو بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ


بني حرام بن كعب بن غنم
59 – عبد اللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ تعالی عنہ

60- جابر بن عبد اللہ ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

61 – معاذ بن عمرو بن الجموح۔ رضی اللہ تعالی عنہ

62 – ثابت بن الجذع۔ رضی اللہ تعالی عنہ

63 – عمير بن حارث بن ثعلبہ رضی اللہ تعالی عنہ

64 -خديج بن سلامہ بن اوس بن عمرو  رضی اللہ تعالی عنہ

65 - معاذ بن جبل بن عمرو بن رضی اللہ تعالی عنہ


 قبیلۂ اوس کے شریک 

بني عوف بن الخزرج

66 - عبادہ بن الصامت ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

67 - عباس بن عبادہ بن نضلہ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

68 - يزيد بن ثعلبہ بن حزمہ  رضی اللہ تعالی عنہ

69 - عمیر بن حارث بن لبدہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ


بني سالم بن غنم بن عوف
70 - رفاعہ بن عمرو بن زيد۔ رضی اللہ تعالی عنہ

71 - عقبہ بن وہب بن كلدة (حليف لهم من غطفان) رضی اللہ تعالی عنہ


بني ساعدة بن كعب بن الخزرج
72 - سعد بن عبادہ۔ رضی اللہ تعالی عنہ

73 - المنذر بن عمرو بن خنيس رضی اللہ تعالی عنہ


 صحابیات کے نام
74 - نسيبہ بنت كعب بن عمرو ام عمارہ رضی اللہ تعالی عنہا 

75 - اسماء بنت عمرو بن عدی رضی اللہ تعالی عنہا 


نقباء کا انتخاب

آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے بیعت  لے کر ارشاد فرمایا کہ حضرت موسی علیہ السلام نے بنو اسرائیل کے لئے بارہ نقیب منتخب کئے تھے تم بھی اپنی جماعت میں سے  بارہ نقیب  منتخب کر لو ۔ چنانچہ بارہ نقباء کا انتخاب عمل میں آیا ۔ 


نقباء کے آسمائے گرامی

قبیلۂ الخزرج

ابوامامہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالی عنہ 

سعد بن ربیع، رضی اللہ تعالی عنہ

عبداللہ بن رواحہ، رضی اللہ تعالی عنہ

رافع  بن مالک بن عجلان ، رضی اللہ تعالی عنہ

براء بن معرور، رضی اللہ تعالی عنہ

عبداللہ بن عمروبن حرا،  رضی اللہ تعالی عنہ

عبادہ بن صامت، رضی اللہ تعالی عنہ

سعد بن عبادہ، رضی اللہ تعالی عنہ

منذر بن عمروبن خنیس رضی اللہ تعالی عنہ


قبیلۂ  اوس

اسید بن حضیر رضی اللہ تعالی عنہ 

سعد بن خیثمہ  رضی اللہ تعالی عنہ

رفاعہ بن عبدالمنذر رضی اللہ تعالی عنہ

(اسد الغابہ)


بعض لوگوں نے رفاعہ بن عبدالمنذر رضی اللہ تعالی عنہ کی  بجائے ابو الہیثم  رضی اللہ تعالی عنہ کا نام لیا ہے؛ ،حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے جو انصار کے مشہور شاعر تھے اوراس بیعت میں شریک تھے نقباء کے نام اپنی ایک نظم میں بیان کئے ہیں، اس نظم میں بھی رفاعہ رضی اللہ تعالی عنہ  کا نام نہیں؛بلکہ ان کے بجائے ابو الہیثم رضی اللہ تعالی عنہ کا نام ہے۔

(سیرت ابن ہشام)

غرض نقباء کا انتخاب ہوچکا تو  رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا تم اپنی اپنی  آبادی کے اسی طرح ذمہ دار ہو جس طرح کہ حواری عیسیٰؑ بن مریم کے ذمہ دار تھے اورمیں اپنی قوم کا ذمہ دار ہوں سب حاضرین نے کہا بے شک۔

بیعت کا  یہ واقعہ امام احمد رحمة اللہ علیہ  نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے تفصیل کے ساتھ روایت کیا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس بات پر بیعت کریں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اس بات پر کہ:

(1) چستی اور سستی ہر حال میں بات سنو گے اور مانو گے۔

(2) تنگی اور بدحالی ہر حآل میں مال خرچ کروگے۔

(3) بھلائی کا حکم دوگے اور برائی سے روکو گے۔

(4) اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہوگے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں کروگے۔

(5) اور جب میں تمہارے پاس آجاؤں گا تو میری مدد کروگے اور جس چیز سے اپنی جان اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو اس سے میری بھی حفاظت کروگے۔

اور تمہارے لئے جنّت ہے"۔(4)


امام مالک  رحمہ اللہ فرماتے ھیں کہ کہ مجھ سے انصار کے ایک شیخ نے بیان کیا  کہ بیعت کے تمام مراحل طے ہوچکے تو حضرت عباس  رضی اللہ تعالی عنہ کا وہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا،یعنی ایک شیطان (جاسوس) نے زور سے آواز دی کہ یا اہل المنازل ! تمہیں کچھ مذمم کے بارے معلوم ھے  (یہ مشرکین نے رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا نام محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے بجائے رکھا تھا) اور تمہیں ان  بے دینوں کی خبر ہے؟ یہ سب تم سے لڑنے کے لئے تیار ہوئے ہیں، آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے یہ سن کر فرمایا کہ یہ اس پہاڑی کا شیطان ھے اور انصار سے کہا کہ تم اپنی فرودگاہ پر واپس جاؤ، حضرت عباس بن عبادہ بن نضلہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نہ رہا گیا بولے خدا کی قسم اگر آپ چاہیں تو ہم کل ھی اہل منیٰ پر تلواریں لے کر ٹوٹ پڑیں! رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا نہیں  ابھی ہمیں اس کا حکم  نہیں ھوا 

(ابن ہشام)

 بیعتِ عقبہ کا حال حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کی زبانی

بیعتِ عقبہ ثانیہ کے اس تاریخی اجتماع نے اسلام اور بت پرستی کی جنگ میں زمانہ کا رخ موڑ دیا۔اس اجتماع  کے احوال، انصار کے ایک قائد حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کی زبانی ملاحظہ ھوں ۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حج کیلئے نکلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایّام تشریق کے درمیانی روز عقبہ میں ملاقات طے ہوئی۔اور بالآخر وہ رات آ گئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات طے تھی۔ہمارے ساتھ ہمارے ایک معزّز سردار عبداللہ بن حرام رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے (جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے) ہم نے ان کو ساتھ لے لیا تھا- ورنہ ہمارے ساتھ ہماری قوم کے جو مشرکین تھے ہم ان سے اپنا سارا معاملہ خفیہ رکھتے تھے۔مگر ہم نے عبداللہ بن حرام رضی اللہ تعالی عنہ سے بات چیت کی اور کہا کہ اے ابو جابر رضی اللہ تعالی عنہ ! آپ ہمارے ایک معزز اور شریف سربراہ ہیں اور ہم آپ کو آپ کی موجودہ حالت سے نکالنا چاہتے ہیں تاکہ کل کلاں کو آپ آگ کا ایندھن نہ بن جائیں۔ اسکے بعد ہم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور بتلایا کہ آج عقبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری ملاقات طے ہے۔ انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ہمارے ساتھ عقبہ میں تشریف لے گئے اور پھر نقیب بھی مقرر ہوئے۔

حضرت کعب رضی اللہ عنہ واقعہ کی تفصیلات بیاں کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہم لوگ حسب دستور اس رات اپنی قوم کے ہمراہ اپنے ڈیروں میں سوئے، لیکن جب تہائی شب گزر گئی تو اپنےاپنے ڈیروں سے نکل نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طے شدہ مقام پر جا پہنچے۔ ہم اسطرح چپکے چپکے دبک کر نکلتے تھے جیسے چڑیا گھونسلے سے سکڑ کر نکلتی ہے، یہاں تک کہ ہم سب عقبہ میں جمع ہو گئے۔ ہماری کل تعداد پچھتّر تھی۔ تہتّر مرد اور دو عورتیں۔ عورتوں میں ایک امّ عمارہ نسیبہ بنت کعب رضی اللہ عنہا تھیں جو قبیلہ بنو مازن بن نجار سے تعلق رکھتی تھیں اور دوسری امّ منیع اسماء بنت عمرو رضی اللہ تعالی عنہا تھیں جن کا تعلق قبیلہ بنو سلمہ سے تھا۔

ہم سب گھاٹی میں جمع ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاانتظار کرنے لگے آخر وہ لمحہ بھی آ ہی گیا جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  تشریف لائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے۔ وہ اگرچہ ابھی تک اپنی قوم کے دین پر تھے مگر وہ یہ چاہتے تھے کہ اپنے بھتیجے کے معاملے میں خود بھی مجلس میں موجود رہیں تاکہ انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں  پختہ اطمینان حاصل ھو جائے ۔ اس مجلس میں سب سے پہلے بات بھی انہوں  نے ھی شروع کی۔

بیعت مکمل ھونے کے بعد انصار اپنے خیموں میں آکر سورہے ،صبح کو ان کے قیام میں رؤسائے قریش کی ایک جماعت پہنچی اورکہا کہ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ رات تم نے ہم سے لڑنے کے لئےمحمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے بیعت کی ھے ۔ حالانکہ تمام عرب میں ہم تم سے لڑنا سب سے برا سمجھتے ہیں، مشرکین مدینہ کو چونکہ اس بیعت کا بالکل علم ھی نہ تھا، اس لئے سب نے قسم کھا کر انکار کیا، اورعبداللہ بن ابی رئیس خزرج نے کہا،یہ بالکل جھوٹ ہے اگر یہ واقعہ پیش آتا تو مجھ سے ضرور مشورہ لیا جاتا، قریش یہ سن کر واپس چلے گئے؛لیکن ان کے آدمی ہر طرف موجود تھے اور اُنہیں انصار  کے ان آدمیوں کی  جنہوں نے بیعت میں حصہ لیا تھا ہر جگہ تلاش تھی؛ دوسری طرف چونکہ انصار کے  ان لوگوں کو قریش کی تلاش کا علم ھو چکا تھا اور انہیں اب  قریش سے اپنی جانوں کا خوف پیدا ہوگیا تھا، اس لئے انہوں نے چپکے چپکے مدینہ منورہ روانہ ھونے کا پروگرام بنایا ۔ یہ متفرق ٹولیوں میں یکے بعد دیگرے سب کے سب خفیہ طریقے سے مدینہ منورہ  روانہ ہوئے ،قریش کو پہلے تو ان کے جانے کا کچھ پتہ ھی نہ چل سکا جب انہیں پتہ چلا تو اس وقت  یہ لوگ  بہت دور جا چکے تھے ، لیکن  کسی طرح سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ ، سردار خزرج قریش کا گروپ سب سے پیچھے تھا کہ قریش نے ان پر حملہ کر دیا باقی  لوگ تو نکلنے میں کامیاب ھو گئے لیکن حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ   کسی  طرح قریش کے آدمیوں کے ہاتھ آگئے، قریش کے آدمیوں نے ان کو سخت تکلیف دی اور اُنہیں رسیوں سے  باندھ کر مارتے  پیٹتے مکہ مکرمہ  لائے۔  یہاں مطعم بن عدی اورحارث بن امیہ نے ان کو  دیکھا تو انہوں  نے حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ  کو قریش سے چھڑایا کیونکہ ان حضرات کے تجارتی قافلے سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کی پناہ میں مدینہ منورہ سے ھو کر گزرتے تھے

 دوسری طرف  انصارِ مدینہ  کو سعد بن عبادہ  رضی اللہ تعالی عنہ کی فکر لاحق ہوئی،   آپس میں مشورہ ھوا اور سب نے بالاتفاق مکہ چلنے کی رائے دی ۔ ابھی مکہ مکرمہ جانے کی بات  طے ھی ھوئی تھی کہ اتنے میں حضرت سعد  رضی اللہ تعالی عنہ آتے ھوئے دکھائی دیئے، اوران کو لے کر سب خوشی خوشی مدینہ منورہ  روانہ ہوگئے۔  (طبقات ابن سعد

بہرحال  یہی عقبہ کی دوسری بیعت تھی جسے بیعت عقبہ کبریُٰ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بیعت ایک ایسی فضا میں عمل میں آئی جس پر محبت اور وفاداری، منتشر اہل ایمان کے درمیان تعاون و تناصر، باہمی اعتماد، اور جان نثاری و شجاعت کے جذبات چھائے ہوئے تھے۔چنانچہ یثربی اہل ایمان کے دل اپنےکمزور مکّی بھائیوں کی شفقت سے لبریز تھے ان کے اندر ان بھائیوں کی حمایت کا جوش تھا اور ان پر ظلم کرنے والوں کے خلاف غم و غصّہ تھا۔انکے سینے اپنے ان بھائیوں  کی محبت سے سرشار تھے جسے دیکھے بغیر ھی  للہ فی اللہ اپنا بھائی قرار دے دیا تھا۔

اور یہ جذبات و احساسات محض کسی عارضی کشش کا نتیجہ نہ تھے جو دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہو جاتی ہے بلکہ اس کا منبع ایمان باللہ، ایمان بالرسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور ایمان بالکتاب تھا۔ یعنی وہ ایمان جو ظلم و عدوان کی کسی بڑی سے بڑی قوت کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتا، وہ ایمان کہ جب اسکی باد بہاری چلتی ہے تو عقیدہ و عمل میں عجائبات کا ظہور ہوتا ہے۔اسی پختہ ایمان کی بدولت مسلمانوں نے صفحاتِ زمانہ پر ایسے ایسے کارھائے نمایاں ثبت کئے اور ایسے ایسے آثار و نشانات چھوڑے کے انکی نظیر سے نہ صرف ماضی و حاضر خالی ہیں بلکہ غالباٌ مستقبل بھی خالی ہی رہے گا

(مسند احمد)


مدینہ منورہ میں دوسری بیعتِ عقبہ کے اثرات

دوسری بیعتِ عقبہ  کے مدینہ منورہ میں  گہرے  اثرات  مرتب ھوئے ۔ بیعت کے بعد انصار نے نہایت سرگرمی سے بت پرستی کی بیخ کنی شروع کر دی اورمذہب اسلام کو نہایت آزادانہ طور سے اہل شہر کے سامنے پیش کیا بنو سلمہ کی نسبت لکھا ہے کہ جب معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ اورمعاذ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ مسلمان ہوگئے تو انہوں نے عمرو بن  جموح  رضی اللہ تعالی عنہ رئیس قبیلۂ سلمہ کے مسلمان کرنے کی عجیب تدبیر نکالی، عمرو رضی اللہ تعالی عنہ نے عام رؤسا کی طرح اپنے گھر میں پوجا کرنے کی ایک جگہ علیحدہ بنالی تھی اور وہاں مناۃ کی لکڑی کی ایک مورتی رکھی تھی،جب عمرو رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ اورخاندان سلمہ کے چند نوجوان مسلمان ہوگئے تو وہ روزانہ رات کو مناۃ کو چھپ کر اٹھا لے جاتے اورکسی گڑھے میں پھینک دیتے،صبح کو عمرو رضی اللہ تعالی عنہ ڈھونڈ  کر وہاں سے اٹھا لاتے اور اسے دھوکر اورخوشبو لگا کر پھر اس کی جگہ پر رکھ دیتے ،جب کئی دن تک مسلسل یہ واردات ہوتی رہی اور لے جانے والوں کا پتہ نہ چلا تو ایک دن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ نے جھنجلا کر بت کی گردن میں تلوار باندھ دی اورکہا مجھے تو کچھ پتہ نہیں چلتا ، اگر تم خود اپنی حفاظت کے لئے کچھ کرسکتے ہو تو یہ تلوار حاضر ہے۔ حسب معمول جب رات کو لڑکے آئے تو بت کے گلے میں تلوار لٹکتی ھوئی دیکھی ۔ اُنہوں نے تلوار اس  مورتی کے گلے سے اتارلی اور رسی کے ایک سرے میں مرا ہوا کتا اور دوسرے میں اس بت کو باندھ کر کنویں  میں لٹکا دیا،صبح کو لوگ آتے اوریہ تماشا دیکھتے تھے،عمرو رضی اللہ تعالی عنہ جب بت ڈھونڈنے نکلے اوراس کو کنویں میں اس حالت میں پایا تو اُن کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ، وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اُس کا معبود اتنا بےبس بھی ھو سکتا ھے مسلمانوں کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو انہوں نے موقعہ غنیمت دیکھتے ھوئے عمرو رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے اسلام پیش کیا اور وہ فوراً  ھی مسلمان ہوگئے، حضرت عمروبن  جموح  رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے اس واقعہ کو خود نظم  میں بیان کیا ہے اوراس میں اپنے مسلمان ہونے پر اللہ کا بڑا شکر ادا کیا ہے۔

  (سیرت ابن ہشام)

حضرت سہل بن حنیف  رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق بھی تصریح ہے کہ وہ رات کو اپنی قوم کے بت خانوں اورپوجا کی جگہوں میں گھس جاتے اورلکڑی کے بتوں کو توڑ ڈالتے اورایک مسلمان بیوہ کو لاکر دیتے کہ وہ اس کو جلا ڈالے ،حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ اس عورت سے معلوم ہوا تھا؛چنانچہ جب حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت علی  رضی اللہ تعالی عنہ نے ان لوگوں سے ان کی اس خدمت جلیلہ کا تذکرہ فرمایا۔ (طبری)

ان واقعات سے یہ معلوم ہوا کہ بیعت عقبہ کے بعد مشرکینِ مدینہ میں مدافعت کی قوت بھی باقی نہ رھی تھی،یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن ابی اور دیگر منافقین گو حقیقتاً مسلمان نہ تھے؛لیکن  چار رونا چار ان کو اپنے آپ کو مسلمان  ظاھر کرنا ھی پڑا تھا،ورنہ ان کے لئے مدینہ منورہ  میں زندگی گزارنے کی  کوئی صورت باقی نہ رہ گئی تھی۔

جاری ھے ۔۔۔۔

Share: