قسط نمبر (71) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 بیعت کیا ھے؟ 

گذشتہ اقساط میں بیعتِ عقبہ کے حوالے سے کچھ ذکر ھوا ھے۔ بیعت ایک قسم کا پیمانِ اطاعت ہے. بیعت کرنے والا بیعت کرکے نہ صرف اپنے کاموں بلکہ مسلمانوں کے تمام کاموں میں اپنے امیر کی بالادستی تسلیم کرتا ہے اور یہ بھی کہ وہ اس کی بات کے خلاف نہیں کرےگا اور اسے جو حکم ملےگا اسے بلا چوں و چرا بجا لائےگا خواہ اس سے خوش ہو یا ناخوش


*بیعت کے لفظی معنی*

 بیعت کا لفظ بیع سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے: فروخت کرنا سپرد کرنا ، سودا کرنا وغیرہ، چاہے یہ سودا مال کا ہو یا کسی اور ذمہ داری کا،

فرمانِ باری تعالی ھے

إِنَّ ٱللَّهَ ٱشْتَرَ‌ىٰ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَ‌ٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ ٱلْجَنَّةَ ۚ يُقَـٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِى ٱلتَّوْرَ‌ىٰةِ وَٱلْإِنجِيلِ وَٱلْقُرْ‌ءَانِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِۦ مِنَ ٱللَّهِ ۚ فَٱسْتَبْشِرُ‌وا۟ بِبَيْعِكُمُ ٱلَّذِى بَايَعْتُم بِهِۦ ۚ وَذَ‌ٰلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ۔ (سورہ توبہ)

”بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے انکی جانوں کو اور انکے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔ وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں۔ اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور کون ہے اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا؟ تو تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے، خوشی مناؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے۔”


*بیعت کے اصطلاحی معنی*

اور اصطلاحاً بیعت اس معاہدے کو کہتے ہیں جو امیر کی اطاعت کے لئے کیا جاتا ہے۔ بیع و شراء میں چونکہ خریدنے والا، بیچنے والے کے ہاتھ میں پیسہ تھماتا ہے اور بیچنے والا مشتری کے ہاتھ میں اس کی خرید کردہ چیز دیتا ہے، اُسی طرح بیعت کرنے والا اپنے امیر کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کا اقرار کرتا ہے۔ بیعتِ عقبہ اس کی مثال ھے جس میں صحابہ کرام نے اپنی جان اور مال کے عوض جنت کا سودا کر لیا تھا

قرآنِ مجید میں تین مقامات پر رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے ہاتھ پر اہل ایمان کی بیعت ھونے کا ذکر کیا گیا  ہے:


*عمومی بیعت*

اللہ تعالیٰ نے فرمایا 

إِنَّ ٱلَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ ٱللَّـهَ يَدُ ٱللَّـهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِۦ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَـٰهَدَ عَلَيْهُ ٱللَّـهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرً‌ا عَظِيمًا۔ (سورة الفتح)

”جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں، وہ یقینا اللہ سے بیعت کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ تو جو شخص عہد شکنی کرے، وہ اپنے نفس پر ہی عہد شکنی کرتا ہے اور جو شخص اس اقرار کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کیا ہے تو اسے عنقریب اللہ بہت بڑا اجر دے گا۔”


*بیعت ِ رضوان  

یہ بیعت چھ ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقع پر لی گئی تھی:

ارشاد باری تعالی ہوتا ہے

لَّقَدْ رَ‌ضِىَ ٱللَّـهُ عَنِ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ ٱلشَّجَرَ‌ةِ فَعَلِمَ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ ٱلسَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَـٰبَهُمْ فَتْحًا قَرِ‌يبًاO(سورة الفتح )

یقینا اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کررہے تھے۔ ان کے دلوں میں جو تھا، اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔”


عورتوں کی بیعت 

فتح مکہ کے موقعہ پر اور پھر اس کے بعد بھی عورتوں سے خاص طور پر بیعت لی گئی چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ھے 

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُؤْمِنَـٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰٓ أَن لَّا يُشْرِ‌كْنَ بِٱللَّـهِ شَيْـًٔا وَلَا يَسْرِ‌قْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَـٰدَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَـٰنٍ يَفْتَرِ‌ينَهُۥ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْ‌جُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِى مَعْرُ‌وفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَٱسْتَغْفِرْ‌ لَهُنَّ ٱللَّـهَ ۖ إِنَّ ٱللَّـهَ غَفُورٌ‌ۭ رَّ‌حِيمٌ (سورة الممتحنہ )

”اے نبی ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ) جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی اورکوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری حکم عدولی نہ کریں گی تو آپ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ) اُن سے بیعت کر لیا کریں اور اُن کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں۔ بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے اور معاف کرنے والا ہے۔”


عورتوں  سے بیعت کی کیفیت

        عورتوں  سے لی جانے والی بیعت میں رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے مصافحہ نہیں فرمایا اور عورتوں   کو اپنا دست ِمبارک چھونے نہیں دیا۔حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا فرماتی ہیں  :اللّٰہ تعالیٰ کی قسم! بیعت کرتے وقت  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے ہاتھ نے کسی عورت کے ہاتھ کو مَس نہیں  کیا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   ان کو صرف  اپنے کلام سے بیعت کرتے تھے ۔( صحیح بخاری) چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"إِنِّي لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ ، إِنَّمَا قَوْلِي لِامْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ قَوْلِي لِمِائَةِ امْرَأَةٍ "

"میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، میرا ایک عورت کو کہنا سو عورتوں کو کہنے کی مثل ہے۔"(اس کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)

لہذا آج کل  جن نام نہاد پیروں کا عمل اس کے خلاف  پایا جاتا ھے اسلام اس سے بری ھے ۔ لوگ ایسے پیروں کے دھوکے میں نہ آئیں 


حضرت ہندہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا  اور دیگر خواتین کی بیعت

             جب  فتحِ مکہ کے موقعہ پر رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وآصحابہ وَسَلَّمَ  مردوں کی بیعت لے کر فارغ ہوئے تو کوہِ صفا پر عورتوں  سے بیعت لینا شروع کی، حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نیچے کھڑے ہوکر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کلام مبارک عورتوں  کو سناتے جاتے تھے۔اسی دوران حضرت ابو سفیان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی زوجہ حضرت ہندہ بنتِ عتبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا  ڈرتے ڈرتے برقع پہن کر اس طرح حاضر ہوئیں  کہ پہچانی نہ جائیں ۔نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’ میں  تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں  کہ تم اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو گی۔ حضرت ہندہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے سر اٹھا کر کہا :آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ہم سے وہ عہد لے رہے ہیں  جو ہم نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مردوں  سے لیتے ہوئے نہیں  دیکھا ۔ اس دن مردوں  سے صرف اسلام و جہاد پر بیعت لی گئی تھی۔ پھر حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اور چوری نہ کرو گی۔ حضرت ہندہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے عرض کی:حضرت ابوسفیان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بخیل آدمی ہیں  اور میں  نے اُن کا مال ضرور لیا ہے ، میں نہیں سمجھتی کہ مجھے حلال ہوا یا نہیں  ۔حضرت ابوسفیان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وہاں حاضر تھے، اُنہوں نے کہا: جو تو نے پہلے لیا اور جو آئندہ لے گی سب حلال ہے۔ اس پر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’تو ہندہ بنت ِعتبہ ہے ۔عرض کی:جی ہاں  !مجھ سے جو کچھ قصور ہوئے ہیں  وہ معاف فرما دیجئے۔ پھر حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اور بدکاری نہ کرو گی۔ حضرت ہندہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے کہا: کیا کوئی آزاد عورت بدکاری کرتی ہے ۔پھر ارشاد فرمایا’’ اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گی ۔حضرت ہندہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے کہا: ہم نے چھوٹے چھوٹے بچے پالے تھے جب وہ بڑے ہوگئے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے انہیں  قتل کردیا، اب آپ جانیں  اور وہ جانیں  ۔حضرت ہندہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے یہ اس لئے کہا کہ ان کا لڑکا حنظلہ بن ابو سفیان بدر میں  قتل کردیا گیا تھا۔ حضرت ہندہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا کی یہ گفتگو سن کر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بہت ہنسی آئی۔ پھر حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اپنے ہاتھ پاؤں  کے درمیان کوئی بہتان نہ گھڑو گی۔حضرت ہندہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے کہا :خدا کی قسم ! بہتان بہت بری چیز ہے اور حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں  نیک باتوں  اور اچھی خصلتوں  کا حکم دیتے ہیں ۔ پھر حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’کسی نیک بات میں  رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی نہ کرو گی۔ اس پر حضرت ہندہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے کہا: اس مجلس میں ہم اس لئے حاضر ہی نہیں  ہوئے کہ اپنے دل میں  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی نافرمانی کا خیال آنے دیں  ۔عورتوں  نے ان تمام اُمور کا اقرار کیا اور457 عورتوں نے بیعت کی۔


*انفرادی بیعت*

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں : ”جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی تو میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کی خدمت میں حاضر ھوا  اور عرض کیا : اپنا دایاں ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں آپ کی بیعت کرسکوں۔ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا، لیکن میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے کہا: عمرو! کیا ہوا۔؟ میں نے کہا: میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے کہا: کون سی شرط۔؟ میں نے کہا کہ اللہ میری مغفرت فرمائیں ! تو  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام لانے سے پچھلے (تمام گناہ) ختم ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی ہجرت کرنے اور حج کرنے سے جو کچھ پہلے کیا تھا، سب معاف ہوجاتا ہے؟” (صحیح مسلم)


صاحبِ اَمَر کی  بیعت 

حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سے ان باتوں پر بیعت کی:آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سمع و اطاعت کریں گے چاہے تنگی کا عالم ہو یا فراخی کا، چاہے پسندیدہ بات ہو یا ناپسندیدہ، چاہے ہمارے اوپر کسی کو ترجیح ہی کیوں نہ دی گئی ہو، اس شرط کے ساتھ کہ ہم صاحبِ امر کے ساتھ جھگڑا نہیں کریں گے، اور یہ کہ ہم جہاں کہیں ہوں حق بات کہیں گے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔” (صحیح بخاری، صحیح مسلم،  سنن نسائی)

ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایة والنھایة میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے، ”اور یہ کہ جب حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   یثرب آئیں تو ہم ان کی مدد کریں گے اور جس طرح ہم اپنی جانوں، اپنی اَرواح اور اپنی اولاد کا دفاع کرتے ہیں، ویسا ہی اُن کا بھی دفاع کریں گے اور ہمارے لئے جنت ہوگی۔”

( البدایة والنہایة)

ابنِ کثیر رحمہ اللہ کے ان الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیعت وہی ہے جو حضور آکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے مدینہ منورہ سے آنے والوں سے مقامِ عقبہ (منیٰ) میں لی تھی:

سیرت ابنِ ہشام میں بھی انصار سے متعلق جس بیعت کا ذکر ہے، وہ یہ ہے:

بایعنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیعۃ الحرب ۔۔۔۔۔ ومنھا انا ناخذہ علی مصیبۃ الاموال، وقتل الاشراف

’’ہم نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہاتھ پر جنگ کی بیعت کی ’بیعت الحرب‘…اور یہ کہ ہم اس کے نتیجے میں اموال کا نقصان اور اشراف کے قتل کو قبول کریں گے‘‘

یہ اوس اور خزرج کی بیعت ہے جو انہوں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو نصرت دیتے ہوئے کی تھی،تاکہ مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی جاسکے ،چاہے اس کے لئے ان کا سب کچھ قربان ہو جائے


  بیعتِ توبہ

  بیعتِ توبہ کا مطلب یہ ہے کہ کسی صالح، متبع شریعت شخص کے ہاتھ پر گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے برائیوں سے بچنے کی بیعت کی جائے،  جیساکہ دورِ نبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے لے کر آج تک  یہ سلسلہ اہل اللہ مشائخ کے درمیان جاری ہے نیز اللہ جل شانہ کی معرفت اور رضامندی حاصل کرنے کے لئے، اس کی راہ میں حائل ہونے والے اخلاق رذیلہ کو چھوڑ کر اخلاق فاضلہ و اعمال صالحہ کے ساتھ متصف ہونے کے لئے کوشش کرے اور اس سلسلے میں ہدایات اور رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اس متبع سنت شیخ کو اپنا مقتدیٰ بنائے اور قرآن  و سنت  کی روشنی میں جس قدر مجاہدہ و ریاضت وغیرہ شیخ بتلائیں ان پر عمل کرے۔ ایسے صاحب نسبت متبع شریعت عالم دین کو نصب العین بنانے سے اعمال کی اصلاح اور دائرہ شریعت میں رہ کر  شریعتِ اسلامیہ کے مطابق  زندگی گزارنا کافی آسان ھو جاتا  ہے؛


بیعتِ توبہ کی شرعی حیثیت 

محققین علماء کرام  کے نزدیک بیعتِ توبہ (بیعتِ سلوک) جو ھمارے ھاں مشائخ کراتے ہیں اُمت  پر فرض یا واجب نہیں ھے بلکہ یہ صرف ایک مسنون عمل  ہے۔ یہ بھی جاننا چاھیے کہ صرف بیعت پر نجاتِ اُخروی  کا دارو و مدار نہیں ہے، پس اگر کوئی شخص بیعت کیے بغیر دین پر صحیح طرح عمل کرنے والا ہے تو وہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ نجات پائے گا، اصل چیز اتباعِ شریعت ہے، بیعت اس میں صرف معاون و مددگار کا درجہ رکھتی   ہے۔


بیعتِ اطاعت  

جس کا مطلب یہ ہے کہ امام المسلمین اور حاکم شرعی کے ہاتھ پر اس کی سمع وطاعت کا عہد کیا جائے، اسی میں بیعت ہجرت وجہاد بھی شامل ہے۔


اللہ تعالی کی نصرت و مدد کا نزول

اللہ تعالی کی یہ سنت ھے کہ جب آنبیاء کرام کے منکرین اور  مکذبین کا انکار حد سے بڑھ جاتا ھے اور ان کی ماننے والوں  پر   مصیبتوں اور ازمائشوں  کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ھیں  تو پھر اللہ تعالی کی رحمتوں کا ظہور ھوتا ھے اور اللہ پاک کی جانب سے اُن کی مدد و اعانت کر دی جاتی ھے  چنانچہ قرآن پاک میں ارشادِ ربانی ھے

اَمْ حَسِبْتُـمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّـذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۖ مَّسَّتْهُـمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّـٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مَعَهٝ مَتٰى نَصْرُ اللّـٰهِ ۗ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّـٰهِ قَرِيْبٌ O (سورہ البقرہ)

کیا تم خیال کرتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ تمہیں وہ (حالات) پیش نہیں آئے جو ان لوگوں کو پیش آئے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں، انہیں سختی اور تکلیف پہنچی اور ہلا دیے گئے یہاں تک کہ رسول اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کب ہوگی! سنو بے شک اللہ کی مدد قریب ھے۔

دوسری جگہ فرمایا کہ

حَتّــٰٓى اِذَا اسْتَيْاَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّـوٓا اَنَّـهُـمْ قَدْ كُذِبُـوْا جَآءَهُـمْ نَصْرُنَاۙ فَنُجِّىَ مَنْ نَّشَآءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ O (سورہ یوسف)

یہاں تک کہ جب رسول نا امید ہونے لگے اور خیال کیا کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا تب انہیں ہماری مدد پہنچی، پھر جنہیں ہم نے چاہا بچا لیا، اور ہمارے عذاب کو نافرمانوں سے کوئی بھی روک نہیں سکتا۔

اسی طرح جب رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم  کی مشکلات اور مصائب انتہا کو پہنچ گئے تو اللہ پاک نے انصارِ مدینہ کو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کی حمایت و نصرت میں کھڑا کر دیا اور اُنہوں نے بتوفیقِ خداوندی مکہ مکرمہ آکر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے دستِ مبارک پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کی نصرت و حمایت  کی بیعت کی اور ساتھ ھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کو مدینہ منورہ آنے کی دعوت دے دی  جو مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی ریاست  کے قیام کا سبب بنی

جاری ھے۔۔۔۔



Share: