قسط نمبر (73) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم


رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ھجرتِ مدینہ منورہ کی آجازت

 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم ھجرت کی آجازت ملتے ھی احتیاط کے پہلو کو مدِ٘نظر رکھتے ھوئے ھجرت کر کے مدینہ منورہ جا چکے تھے۔  مکہ مکرمہ میں اب صرف تین مبارک اور منور ھستیاں ھی باقی رہ گئ  تھیں ۔رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  اور حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ ۔ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو ھجرت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم اور اجازت کا انتظار تھا کہ ایک دن قرآن کریم کی یہ آیت  مبارکہ نازل ہوئی : 

وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِىْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِىْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّىْ مِنْ لَّـدُنْكَ سُلْطَانًا نَّصِيْـرًا O

اور کہہ دیجیے اے میرے رب مجھے خوبی کے ساتھ پہنچا دے اور مجھے خوبی کے ساتھ نکال لے اور میرے لیے اپنی طرف سے غلبہ دے جس کے ساتھ نصرت ہو۔(بنی اسرائیل)

یہ آیت  مبارکہ گویا سفرِ ھجرت کا آجازت نامہ تھا۔ اس سے قبل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کئی مرتبہ ہجرت کی اجازت مانگ چکے تھے، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم انہیں ہر مرتبہ یہ فرما کر ہجرت کرنے سے روک دیتے تھے کہ جلدی نہ کرو، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ اس سفر میں کسی کو تمہارا رفیق بنادے۔ یہ جواب سننے کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی تمنا یہ ہوتی تھی کہ کاش میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہی کا رفیق سفر بن جاؤں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا  فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ منورہ  جانے کی تیاری کئے بیٹھے تھے، بس اجازت کا انتظار تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ان سے فرمایا: ہجرت کرنے میں جلدی نہ کرو، مجھے اجازت ملنے کی امید ہے۔حضرت  ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! کیا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو  اجازت ملنے والی ہے، فرمایا: ہاں! یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی رفاقت کے خیال سے خود کو ہجرت کرنے سے روکے رکھا۔  (مسند احمد بن حنبل )

 اجازت مل گئی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے سب سے پہلے یہ مژدہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو ہی سنایا۔ ایک دن دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور انہیں یہ خوش خبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہاں سے نکل جانے کی اجازت دے دی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہ نے دو اونٹنیاں پیش کیں  اور عرض کیا کہ میں نے اسی مقصد کے لئے انہیں تیار کیا ہے،  ان میں سے ایک آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم لے لیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں قیمت دے کر لوں گا۔ (صحیح البخاری ، مسند احمد بن حنبل )

معجم طبرانی میں حضرت اسماء بنت ابی بکر سے مروی کہ ابوبکر نے عرض کیا  کہ بہتر ھے اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  قیمتاً لینا چاھیں تو قیمتاً لے لیں ۔ مقصد یہ تھا کہ میری اپنی تو کوئی ذاتی خواھش نہیں بلکہ میری ھر خواھش اور میلان آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے اشارہ کے تابع ھے 

روض الانف اور زرقانی میں ھے کہ رسول کریم نے اُونٹنی کی قیمت دینے پر اس لئے اصرار فرمایا کہ ھجرت ایک عظیم عبادت ھے جسے اللہ پاک نے ایمان کے بعد ذکر فرمایا ھے۔  رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اس عبادت عظمی میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاھتے تھے بلکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اللہ کی راہ میں ھجرت صرف اپنی ھی جان اور اپنے ھی مال سے کرنا چاھتے تھے 

واقدی کا قول ھے کہ اس اُونٹنی کا نام “قصواء “ تھا محمد بن اسحاق کہتے ھیں کہ اس کا نام “جدعاء”  تھا صحیح بخاری کی روایت میں بھی یہی آیا ھے کہ جو اُونٹنی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی  عنہ نے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو دی تھی اس کا نام “جدعاء “تھا 

صحیح بخاری میں ھی سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا  سے مروی ھے وہ فرماتی ہیں کہ ایک دن ہم اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے، عین دوپہر تھی کہ کسی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: رسول اﷲ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سر پر رومال ڈالے تشریف لا رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   کا معمول ہمارے یہاں اس وقت آنے کا نہیں تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ بولے: آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  پر میرے ماں باپ فدا ہوں، ایسے وقت میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کسی خاص وجہ سے ہی تشریف لائے ہوں گے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ پھر نبی کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت چاہی، ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   کو اجازت دی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اندر داخل ہوئے پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   نے ان سے فرمایا: ’’اس وقت یہاں سے تھوڑی دیر کے لیے سب کو اٹھادو۔‘‘ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ  نے عرض کیا: اﷲ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   ! یہاں تو آپ ہی کے گھر والے ہیں، میرے ماں باپ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   پر فدا ہوں۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   نے اس کے بعد فرمایا کہ ’’مجھے ہجرت کی اجازت دے دی گئی ہے‘‘۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی: اﷲ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، کیا مجھے رفاقت سفر کا شرف حاصل ہوسکے گا؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   نے فرمایا۔ ’’ہاں ۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہ جوش مسرت میں رونے لگے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ تب مجھے پہلی بار یقین ہوا کہ انسان غم میں ہی نہیں بلکہ خوشی میں بھی روتا ہے

حضرت علی سے مروی ھے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے جبرائیل سے دریافت کیا کہ میرے ساتھ کون ھجرت کرے گا جبرائیل آمین نے عرض کیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

(رواہ الحاکم وقال صحیح الاسناد)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  کے ساتھ  ہجرتِ مدینہ منورہ کے سفر  کا  تمام پروگرام طے کرکے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اپنے دولت کدہ پر تشریف لائے اور رات کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔


ھجرتِ مدینہ منورہ کے لئے راستہ کا انتخاب

حضور آکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے  مدینہ منورہ جانے کے لئے طے شدہ پروگرام کے مطابق عام راستہ اختیار نہیں کیا تھا  ظاھر ھے  سارا راستہ چھپتے چھپاتے ھی سفر طے ھوا تھا ، کبھی غار میں کبھی راستے میں۔ اسی لئے راستہ بھی عام اختیار نہیں کیا گیا تھا۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کا جو معروف راستہ تھا وہ بدر والا راستہ  ہے، اسے آج کل طریق البدر کہتے ہیں، آج بھی وہ سڑک موجود  ہے، براستہ بدر پرانا تاریخی راستہ چلا آرہا تھا۔، مقامِ بدر اس راستے کے تقریباً وسط میں آتا  ہے۔ اُس زمانہ میں لوگوں کے آنے جانے کا یہ معروف راستہ تھا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   کو چونکہ دُشمنوں سے خطرے کا سامنا تھا ، اس لئے اس معروف راستے سے سفر نہیں کیا۔ غاروں کے ساتھ ادھر ادھر گھومتے ہوئے سفر طے ھوا  تاکہ راستے میں  کہیں ٹریس نہ ہو جائیں یہ احتیاطی پہلو تھا اور سب کچھ  اللہ تعالی کے حکم کے مطابق تھا ۔ امت کے لئے بھی اس میں ایک سبق ھے کہ احتیاطی تقاضوں کو اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ھے ورنہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی حفاظت تو خود رب کریم کی ذات کر رھی تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   نے جس راستے سے ہجرت کی تھی اس راستے پر سعودی حکومت نے بڑا اچھا روڈ بنا دیا  ھوا ہے۔ جس راستے سے اس مقدس قافلے نے ہجرت کی تھی وہ آج کل “طریق الہجرۃ‘‘ کہلاتا ہے، اُس زمانے میں وہ معروف راستہ نہیں تھا۔ اب مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان جو موٹروے ہے وہی طریق الہجرۃ  کہلاتی ھے ہے یعنی اس وقت موٹر وے کا جو راستہ ہے یہی ہجرت روڈ ہے۔

رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ چھپتے چھپاتے سفر کر رھے تھے اور سب سے بڑا ہدف یہ تھا کہ بغیر کسی رکاوٹ کے کسی طریقے سے مدینہ منورہ  پہنچ جائیں۔ مشرکین کی ٹولیاں اور گروپ ان کے پیچھے لگے ہوئے تھے کہ کہاں ہیں کہاں نہیں ہیں، حتٰی کہ آپ کی احتیاط کا عالم دیکھیں کہ سفر دن کو نہیں کرتے تھے رات کو کرتے تھے۔ معروف راستے پر نہیں کرتے تھے الگ راستہ سے سفر ھوتا تھا۔ راستے کا ایک واقعہ ذکر کیا گیا  ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ  کو  راستے میں کوئی پہچان والا مل گیا (اس نے پوچھا) ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ! کدھر جا رہے ہو؟ آپ نے اشارے کرکے فرمایا ادھر کام سے جا رہا ہوں اس نے پوچھا آپ کے ساتھ کون ہے؟ حضرت ابوبکر نے تعارف نہیں کروایا بلکہ یہ کہا کہ یہ بندہ میری رہنمائی کرتا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہ  کا مطلب یہ تھا کہ یہ بندہ میری دینی رھنمائی کرتا ھے لیکن پوچھنے والا یہ سمجھا کہ سفر کے راستے کی رھنمائی کرتا ھے 


 دارالندوہ میں قریش کا اجلاس اور رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کا مشورہ

 قریش مکہ مسلمانوں کی اس اجتماعی ہجرت سے سخت پریشان تھے، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس نئی صورتِ حال میں کیا کریں، اس نئے دین کے بڑھتے ہوئے خطرات سے کس طرح نمٹیں، وہ دیکھ رھے تھے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد مکہ مکرمہ  سے جا چکی ہے، مکہ سے باہر بھی رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے کافی ہم نوا اور ہم خیال موجود ہیں، یہ سب لوگ اگر یک جا ہوگئے تو ایک بڑی طاقت بن کر ہم پر حملہ آور ہوسکتے ہیں اور ہم سے ہمارا وطن چھین سکتے ہیں اور ہم پر غالب آسکتے ہیں۔ مستقبل کے اندیشوں نے مشرکین کی نیندیں حرام کردی تھیں، طے پایا کہ سب لوگ دارالندوہ میں جمع  ہوجائیں۔ عام طور پر قریش کے لوگ اہم امور میں مشاورت کے لئے قصی بن کلاب کے گھر میں ھی جمع ہوا کرتے تھے جس کو’’ دارالندوہ‘‘ کہا جاتا تھا، اس اجلاس کا واحد ایجنڈا یہ تھا کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   کو یہاں روک کر رکھیں یا انہیں اپنے ساتھیوں کے پاس جانے دیں۔  قریش کے لئے اس اجلاس  کی بڑی اہمیت تھی، یہی وجہ ہے کہ تمام سردارانِ  قریش اس مشورے میں شریک رہے۔  اس خطرناک اجتماع میں نمائندگان قبائل قریش کے نمایاں چہرے یہ تھے: 

ابوجہل بن ہشام قبیلہ بنی مخزوم سے۔

جبیر بن مطعم، طعیمہ بن عدی اور حارث بن عامر بنی نوفل بن عبد مناف سے۔

شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ابوسفیان بن حرب بنی عبد شمس بن عبد مناف سے۔

نضر بن حارث بنی عبد الدار سے۔

ابو البختری بن ہشام، زمعہ بن اسود اور حکیم بن حزام بنی اسد بن عبد العزیٰ سے۔

نبیہ بن حجاج اور منبہ بن حجاج بنی سہم سے۔

امیہ بن خلف بنی جمح سے

جب اجلاس کی کاروائی شروع ھونے کا وقت آیا تو  ابلیس بھی ایک خوش شکل اور خوش لباس بوڑھے کی صورت اختیار کرکے دارالندوہ کے دروازے پر آکر کھڑا ہوگیا، لوگوں نے ایک اجنبی بوڑھے کو وہاں دیکھا تو اس سے پوچھا کہ بڑے میاں! آپ کون ہیں اور یہاں کس غرض سے تشریف لائے ہیں؟ ابلیس نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہوا تھا کہ آج تم محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے متعلق کوئی اہم مشورہ کرنے والے ہو، میں نجد سے آیا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم کیا طے کرتے ہو، ہوسکتا ہے میں بھی خیرخواہی کے طور پر کوئی رائے جو میری سمجھ میں آتی ہو پیش کردوں۔

   اجلاس کے شرکاء نے کہا:  اہلاً و سہلاً، تشریف لائیں، اس طرح ابلیس لعین بھی اس اجلاس  کا حصہ بن گیا، اس دن کو اس کی اس وجہ کے پیش نظر یوم الزحمۃ (یوم مزاحمت) کہا گیا ہے۔ یہ اجلاس جو بڑے اہتمام کے ساتھ منعقد کیا گیا تھا اور جسے قریش اپنے مستقبل کیلئے فیصلہ کن سمجھ رہے تھے شروع ہوا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے سلسلے میں بہت سی آراء سامنے آئیں۔ 

ایک شخص نے کہا کہ میرا خیال تو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو مکہ مکرمہ ہی میں محبوس رکھا جائے اور ان کے ہاتھ پاؤں  میں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈال دی جائیں تاکہ یہ راہِ فرار اختیار نہ کرسکیں۔ 

بوڑھے نجدی نے کہا یہ رائے تو مناسب معلوم نہیں ہوتی، بھلا تم محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو کب تک قید میں رکھ سکو گے، ویسے بھی جب ان کے ماننے والوں کو یہ خبر ملے گی کہ تم نے ان کے قائد کو قید کردیا ہے وہ اکٹھے ہو کر آئیں گے اور پوری قوت سے تم پر حملہ آور ہوں گے، عین ممکن ہے کہ وہ انہیں تمہارے ہاتھوں سے چھین کر لے جائیں، اس چھینا جھپٹی میں تمہارے لوگوں کی جانیں بھی  ضائع ہوں گی اور محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  بھی تمہارے ہاتھوں سے نکل  جائیں گے ، اس خیال کو تو رہنے دو، کوئی اور تجویز پیش کرو۔

 ایک اور شخص نے کھڑے ہو کر یہ تجویز رکھی کہ ان کو  مکہ مکرمہ سے نکال دیا جائے ، ھم انہیں جلا وطن کردیں گے تو ہماری بلا سے وہ کہیں بھی جائیں، کسی بھی جگہ جا کر رہیں، جب وہ یہاں سے چلے جائیں گے تو ہمارا ان سے کوئی واسطہ بھی باقی نہیں رہے گا، ہم پہلے کی طرح شیر و شکر ہو کر پیار محبت سے رہیں گے۔ 

یہ سن کر  ابلیس لعین  نے اپنا سر پیٹ لیا، کہنے لگے: تم کس غلط فہمی میں مبتلا ہو، کیا وہ یہاں سے نکل کر سکون سے بیٹھ جائیں گے، وہ جہاں بھی جائیں گے اپنی شیریں کلامی اور خوش اخلاقی سے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنا لیں گے، پھرانہیں لے کر تم پر چڑھائی کردیں گے اور تمہیں یہاں سے نکال کر خود قابض ہوجائیں گے، یہ رائے بھی ٹھیک نہیں ہے، کچھ اور سوچو۔  ابلیس ہر تجویز کی مخالفت کرتارہا، 

جب قوم کسی ایک تجویز پر متفق ہوتی نظر نہیں آئی تو آخر میں ابوجہل نے کہا کہ میرے ذہن میں ایک تجویز ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم قریش کے تمام قبیلوں میں سے ایک ایک مضبوط شخص کا انتخاب کریں اور ان سب کو ایک ایک تلوار دےدیں، تمام لوگ  بہ یک وقت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   پر حملہ آور ہوں اور (نعوذ باللہ) ان کو قتل کردیں، اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے قتل کی ذمہ داری کسی ایک قبیلے پر نہیں آئے گی، آخر ان کے خاندان والے کس کس سے بدلہ لیں گے، اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ خوں بہا دینا پڑا تو اس کی رقم تمام قبیلوں پر تقسیم ہوجائے گی۔ 

یہ تجویز سن کر ابلیس خوشی سے اچھل پڑا اور ابوجہل کی ستائش کرتے ہوئے کہنے لگا: واہ جوان! تم نے تو کمال ہی کردیا، تمہاری رائے بالکل صحیح ہے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس سے بہتر تجویز کوئی دوسری نہیں ہوسکتی۔ بس اس پر اتفاق کرلو اور عمل کے لئے تیار ہوجاؤ۔ حاضرینِ جلسہ نے اس رائے کو ہسند کیا اس طرح قریش کے تمام سربرآوردہ لوگ ابوجہل کی رائے پر متفق ہوگئے۔(طبقات ابن سعد)

اور یہ بھی طے کیا گیا کہ یہ کام آج کی رات میں مکمل کر لیا جائے ادھر جلسہ برخاست ھوا اُدھر حضرت جبرائیل آمین وحیِ ربانی لے کر رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ھوئے 

وَاِذْ يَمْكُـرُ بِكَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا لِـيُـثْبِتُـوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ ۚ وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُـرُ اللّـٰهُ ۖ وَاللّـٰهُ خَيْـرُ الْمَاكِـرِيْنَ O

اور جب کافر آپ کے  متعلق تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کردیں یا آپ کو  قتل کردیں یا آپ کو  دیس بدر کر دیں، وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا، اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے (سورہ الانفال)

   اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیج کر رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو قریش کی سازش سے باخبر کردیا اور حکم دیاکہ آج کی رات آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں۔ (کتاب الوفاء لابن  الجوزی، زاد المعاد ، سیرت ابن ہشام )


سفرِ ہجرت کی تیاری

 اس کے بعد سفرِ ھجرت  کی تیاری کا آغاز ہوا، یہ سفر تمام اسفار سے بہت مختلف تھا۔ ان لوگوں کو مکہ مکرمہ سے اس طرح نکلنا تھا کہ دشمنوں کو اس کی بھنک بھی نہ لگے۔ راز داری کا یہ عالم تھا کہ اس سفر کی خبر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے گھر والوں کے علاوہ کسی کو نہ تھی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے راستے کی رہنمائی کے لئے ایک تجربہ کار اور حجاز کے راستوں سے واقفیت رکھنے والے شخص عبداللہ بن اریقط قریشی کو اجرت پر رکھ لیا تھا  اور اپنی دونوں اونٹنیاں اس کے سپرد کرتے ہوئے اس سے کہا کہ وہ تین روز کے بعد ان اونٹنیوں کو لے کر غار ثور کے قریب آجائے. یہ شخص قریش کے ھی دین پر تھا لیکن  قابلِ بھروسہ تھا، اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا کہ وہ دن بھر اِدھر اُدھر گھوم پھر کر یہ پتہ لگاتے رہیں کہ قریش کے لوگ ہمارے خلاف کیا منصوبے بنا رہے ہیں اور یہاں رہ جانے والوں کے خلاف ان کے عزائم کیا ہیں، جو بھی خبر ملے شام کو جب اندھیرا چھا جائے ان کے پاس غار میں آ جائیں  اور انہیں تمام صورت حال سے اگاہ کریں ۔ اپنے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالی عنہ  کو حکم دیا کہ وہ دن میں بکریاں چرانے کے بعد شام کو انہیں لے کر غار پر آ جایا کریں  تاکہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے لئے تازہ دودھ حاصل کیا جاسکے، چنانچہ وہ شام کے وقت بکریوں کو ہانکتے ہوئے اُدھر لے آتے اور عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی واپسی کے بعد بکریوں کو لے کر اسی راستے سے واپس چلے جاتے جس راستے سے عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ آتے تھے تاکہ بکریوں کے چلنے سے ان کے قدموں کے نشانات مٹ جائیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ ہر روز رات کے وقت  غارِ ثور میں کھانا پہنچایا کرتی تھیں۔ (السیرۃ النبویۃ ابن ہشام )

 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ ہم نے ان دونوں حضرات کا سامانِ سفر تیار کیا اور اسے ایک تھیلے میں رکھا، اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ  نے اپنا پٹکا کھولا اور اس کے دو ٹکڑے کئے، ایک ٹکڑے سے اس تھیلے کو باندھ دیا اور دوسرے سے مشکیزے کا منہ بند کر دیا  یاد رہے کہ اسی لئے حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہ کا نام ’’ذات النطاقین‘‘(دو پٹکوں والی) پڑ گیا۔ (صحیح البخاری ) 

حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا جن کی عمر اس وقت ستائیس برس تھی رات کے وقت غار میں کھانا بھی پہنچایا کرتی تھیں۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب )

دوسری طرف رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے حضرت علی  رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا کہ تم ہم لوگوں کے جانے کے بعد  مکہ مکرمہ ہی میں رہو گے، میرے پاس لوگوں کی امانتیں رکھی ہوئی ہیں ان کو واپس کرکے ہمارے پاس  مدینہ منورہ آجانا۔ یہ عجیب بات ہے کہ مکہ والے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی دشمنی میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے جس کی نظیر نہیں ملتی، دوسری طرف وہ آپ کو صادق و امین بھی سمجھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنی قیمتی چیزیں بطور امانت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس رکھوا دیا کرتے تھے۔ ان حالات میں بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے اُن کی مخالفت اپنے عروج پر تھی اور یہ خبر بھی عام ہوچکی تھی کہ آپ مکہ چھوڑ کر یثرب جانے والے ہیں، لوگوں نے اپنی امانتیں واپس لینے کی کوشش نہیں کی کیوںکہ انہیں یقین تھا کہ ان کا سامان محفوظ ہاتھوں میں ہے اور وہ کسی بھی حالت میں ضائع ہونے والا نہیں ہے۔


جاری ھے ۔۔۔۔،


Share: