رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ھجرت
رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ھجرت کا تذکرہ کرنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اُن چند امور پر روشنی ڈالی جائے جن سے معلوم ھو سکے کہ ھجرت کرنا کیوں ناگزیر ھو گیا تھا
ہجرت کیوں کی گئی
مکہ کے صنم کدے میں جہاں بیت ﷲ کی بنیاد اس لئے رکھی گئی تھی کہ ساری دنیا میں یہاں سے توحید کی آواز پہنچائی جائے گی وہاں سینکڑوں بتوں کی پوجا ہوتی تھی اور انہی کا نعرہ لگتا تھا، اس پر عقیدت و ارادت کا ایسا رنگ چڑھ گیا تھا کہ اس کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنا مصیبت کو دعوت دینا تھا اور جان بوجھ کر اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا تھا، آخری نبی اور رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے جب مکہ میں توحید کی صدا بلند کی اور لوگوں کو اس کی دعوت دی اور کچھ لوگوں نے اس کو قبول کرلیا تو مکہ کے صنم کدہ میں دفعتاً زلزلہ آ گیا اور بتوں کی حمایت اور توحید کی مخالفت میں ایک ساتھ پوری قوم نے ہجوم و یلغار سے کام لیا۔
وجہ نزاع صرف یہ تھی کہ مسلمان یہ کہتے تھے کہ ہم کو اپنے اعتقاد و ضمیر کی آزادی دو، ہم کو اپنی عقل اور اپنی فہم کے فیصلہ پر چلنے دو، اس کے خلاف جبراً نہ ہم پر کوئی چیز لادو، نہ اس پر مجبور کرو، کفار قریش کہتے تھے یہ نہیں ہوگا، تم کو توحید کا اقرار اور اعلان نہیں کرنا ہوگا، بلکہ بتوں کا احترام اور اس کی پوجا کرنی ہوگی اور آبائی دین پر ہی قائم رہنا پڑے گا، مکہ کے صنم کدہ میں اس کا حق کسی قیمت پر نہیں دیا جائے گا کہ تم توحید کا کلمہ پڑھو، بلکہ جبراً تم کو آبائی دین پر لوٹایا جائے گا اور اس کے لئے تمہیں ہر طرح کی اذیت دی جائے گی اور تمہاری زندگی اجیرن کر دی جائے گی۔
معاملہ جب اس حد کو پہنچ گیا کہ دین پر قائم رہنا مکہ کی مشرکانہ فضاء میں نا ممکن ہو گیا تو مجبوراً دین کو بچانے کے لئے مسلمانوں نے اپنا گھر چھوڑا، اپنا وطن چھوڑا، اعزاء و اقارب کو چھوڑا، مال و متاع کو چھوڑا اور جان سے بھی زیادہ عزیز اور محترم چیز بیت ﷲ کو چھوڑا، جس پر ان کو بھی اتنا ہی حق تھا جتنا کفار قریش کو تھا۔
ہجرت کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ مومن لوگ اپنے دین کی خاطر ﷲ اور ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اس ڈر سے بھاگتے تھے کہ وہ فتنہ میں نہ مبتلا کردئیے جائیں، یعنی ان کو ارتداد پر مجبور نہ کیا جائے، حضرت خباب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگوں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی، اس کا واحد مقصد صرف اللہ تعالی کی رضا تھی۔
جب مسلمان مکہ کو خیر باد کہہ کر مدینہ ہجرت کرگئے اور صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور چند گنے چنے مسلمان مکہ میں رہ گئے اور سب کے ظلم و ستم کے آپ ہدف بن گئے اور معاملہ اس حد تک پہنچا کہ آپ کے قتل کے لئے متحدہ قبائل کے نوجوانوں نے متحدہ تجویز کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور اسلام کو مٹا دینے کی سازش اپنی آخر حد کو پہنچ گئی تو ﷲ تعالیٰ نے آپ کو بھی ہجرت کا حکم دیا اور آپ عین محاصرہ کی حالت میں ان کے بیچ سے ہوکر نکل گئے اور بیت ﷲ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاشانۂ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے ہجرت کے خیال سے نکلے تو بیت ﷲ پر حسرت بھری نگاہ ڈالی اور فرمایا
وَاللَّهِ إِنَّكِ، لَخَيْرُ أَرْضِ اللَّهِ، وَأَحَبُّ أَرْضِ اللَّهِ إِلَيَّ، وَاللَّهِ لَوْلَا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ، مَا خَرَجْتُ»
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَصَحَّحَهُ
قسم ہے اللہ کی !تو اللہ کی زمین میں سب سے بہترین ( اور افضل مقام ) ہے ۔ او راللہ کی (ساری ) زمین میں سے تو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ۔ قسم ہے اللہ کی ! اگر مجھے تیرے اندر سے نکالا نہ جاتا تو میں ( کبھی ) نہ نکلتا ۔
ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ھے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اس موقعہ پر یہ الفاظ فرمائے
لِمَكَّةَ: مَا أَطْيَبَكِ مِنْ بَلَدٍ وأَحبَّكِ إلَيَّ، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُونِي مِنْكِ مَا سَكَنْتُ غَيْرَكِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَصَحَّحَهُ
اے مکہ! تو کتنا پیارا شہر ہے ، تو مجھے کس قدر محبوب ہے ، اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی دوسرے مقام پر سکونت اختیار نہ کرتا۔‘‘
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے ہر طرح کے خطرات سے محفوظ مدینہ منورہ پہنچ کر مہاجرین و انصار سے مل گئے تو مکہ اور مدینہ دونوں کی دنیا میں عجیب طرح کا انقلاب رونماء ہوا اور دونوں جگہ نئی نئی پیچیدگیاں پیدا ہوگئیں، نئے نئے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے اور دونوں جگہ کے لوگوں کو اپنی اپنی جگہ پر خطرات کے نئے نئے بادل نظر آنے لگے۔
قریشِ مکہ کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا گھیراؤ
ادھر قریش کے بڑے بڑے مجرموں نے اپنا سارا دن مکہ مکرمہ کی پارلیمان “دار الندوہ” کی پہلے پہر کی طے کردہ قرارداد کے نفاذ کی تیاری میں گزارا اور اس مقصد کے لیے ان اکابر مجرمین میں سے گیارہ کٹر اسلام دشمن سردار منتخب کیے گئے جن کے نام یہ ہیں :
ابوجہل بن ہشام !
حَکم بن عاص
عُقبہ بن ابی معیط
نضر بن حارث
اُمیہ بن خلف
زَمْعَہْ بن الاسود
طُعَیْمہ بن عدی '
ابولہب
اُبی بن خلف
نُبَیہ بن الحجاج
مُنَبہّ بن الحجاج
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ شروع رات میں عشاء کی نماز کے بعد سوجاتے اور آدھی رات کے بعد گھر سے نکل کر مسجد حرام تشریف لاتے اور وہاں نعافل میں مشغول رھتے ۔ اس رات آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ وہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بستر پر سوجائیں اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی سبز حضرمی چادر اوڑھ لیں۔ یہ بھی بتلا دیا کہ تمہیں ان کے ہاتھوں کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔ (آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم وہی چادر اوڑھ کر سویا کرتے تھے)
ادھر رات جب ذرا تاریک ہوگئی۔ ہر طرف سناٹا چھا گیا ، اور عام لوگ اپنی خوابگاہوں میں جاچکے تو مذکورہ بالا مشرکینِ مکہ نے خفیہ طور پر نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے گھر کا رخ کیا اور دروازے پر جمع ہوکر گھات میں بیٹھ گئے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے حکم کے مطابق آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بستر پر آرام فرما رھے تھے مشرکین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھ کر سمجھ رہے تھے کہ بستر پر رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سوئے ہوئے ہیں۔ اس لیے انتظار کرنے لگے کہ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اٹھیں اور باہر نکلیں تو یہ لوگ یکایک آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر ٹوٹ پڑیں اور مقررہ فیصلہ نافذ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو نعوذ باللہ قتل کردیں۔
ان لوگوں کو پورا وثوق اور پختہ یقین تھا کہ ان کی یہ ناپاک سازش کامیاب ہوکر رہے گی۔ یہاں تک کہ ابوجہل نے بڑے متکبرانہ اور غرور بھرے انداز میں مذاق واستہزاء کرتے ہوئے اپنے گھیرا ڈالنے والے ساتھیوں سے کہا : محمد ( صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) کہتا ہے کہ اگر تم لوگ اس کے دین میں داخل ہوکر اس کی پیروی کرو گے تو عرب وعجم کے بادشاہ بن جاؤ گے۔ پھر مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو تمہارے لیے اردن کے باغات جیسی جنتیں ہوں گی اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ان کی طرف سے تمہارے اندر ذبح کے واقعات پیش آئیں گے۔ پھر تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے اور تمہارے لیے آگ ہوگی جس میں جلائے جاؤگے۔
بہرحال اس مکروہ کاروائی کے لیے ان مجرمین کی مشاورت میں آدھی رات کے بعد کا وقت مقرر تھا۔ اس لیے یہ لوگ جاگ کر رات گزار رہے تھے اور وقتِ مقررہ کے منتظر تھے ، لیکن اللہ تعالی اپنے کام پر غالب ہے۔ اسی کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے وہ جو چاھتا ھے کرتا ہے۔ جسے بچانا چاہے کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا اورجسے پکڑنا چاہے کوئی اس کو بچا نہیں سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ذیل کی آیت کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ :
وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّـهُ ۖ وَاللَّـهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ O
''وہ موقع یاد کرو جب کفار تمہارے خلاف مکر کررہے تھے تاکہ تمہیں قید کردیں یاقتل کردیں یانکال باہر کریں اور وہ لوگ داؤ چل رہے تھے اور اللہ بھی داؤ چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر داؤ والاہے۔'' بہرحال یہ لعنتی کردار پورے یقین کے ساتھ یہاں بیٹھے تھے کہ وہ اپنے مکروہ مقصد میں کامیاب ھو جائیں گے لیکن اللہ تعالی کی طرف سے ان کے لئے ذلالت ، ناکامی، شرمندگی اور ندامت لکھ دی گئی تھی جو ھر صورت ھو کر رھنی تھی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے گھر سے خروج
قریش اپنے مکروہ پلان کے نفاذ کی انتہائی تیاری کے باوجود فاش ناکامی سے دوچار ہوئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بحکمِ ربی گھر سے باہر تشریف لے آئے۔ مشرکین کی صفیں چیریں اور بحکمِ ربی ایک مٹھی سنگریزوں والی مٹی لے کر ان کے سروں پر ڈالتے ھوئے اُن کے درمیان میں سے گزر گئے لیکن اللہ نے مشرکین کی نگاہیں پکڑ لیں اور وہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔ اس وقت آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زبانِ مبارک پر یہ آیت مبارکہ تھی
وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ O
''ہم نے ان کے آگے رکاوٹ کھڑی کردی اور ان کے پیچھے رکاوٹ کھڑی کردی۔ پس ہم نے انہیں ڈھانک لیا ہے اور وہ دیکھ نہیں رہے تھے۔''
اس موقع پر کوئی بھی مشرک باقی نہ بچا۔ جس کے سر پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مٹی نہ ڈالی ہو۔ اس کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور پھر ان کے مکان سے نکل کر دونوں حضرات نے رات ہی رات یمن کی طرف کا رخ کیا اور چند میل پر واقع ثور نامی پہاڑ کے ایک غار میں جا پہنچے۔
ادھر محاصرین رسول کریم رضی اللہ تعالی عنہ کی اُٹھنے کے وقت کا انتظار کررہے تھے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا فجر سے پہلے گھر سے حرم شریف جانے کا معمول تھا اور یہ بات ان مجرمین کے بھی علم میں تھی لیکن اس سے ذرا ھی پہلے مشرکین کو اپنی ناکامی ونامرادی کا علم ہوگیا تھا ۔ ہوا یہ کہ ان کے پاس ایک غیر متعلق شخص آیا اورانہیں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دروازے پر دیکھ کر پوچھا کہ آپ لوگ یہاں کس کا انتظار کررہے ھو ؟ انہوں نے کہا: محمد(صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) کا۔اس نے کہا : آپ لوگ اپنے مقصد میں ناکام و نامراد ھو چکے ھو ۔ انہوں نے پوچھا وہ کیسے ؟ ۔ تو اس شخص نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم ! محمد( صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) تو تم لوگوں کے درمیان میں سے گزر کر جا چکے ھیں اور تمہارے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود کی طرف چلے گئے ھیں ۔ انہوں نے کہا :واللہ! ہم نے تو انہیں جاتے ھوئے نہیں دیکھا اور اس کے بعد جب سب نے اپنے سروں پر ھاتھ پھیرا تو واقعی اُن سب کے سروں پر مٹی موجود تھی وہ شرمندہ ھو کر اپنے سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اٹھ پڑے اور آپس میں جھگڑنے لگے۔ لیکن پھر دروازے کی دراز سے جھانک کر دیکھا تو بستر پر کوئی شخص لیٹا ھوا نظر آیا ۔ کہنے لگے :اللہ کی قسم ! یہ تو یقیناً محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ھی سوئے پڑے ہیں۔ ان کے اوپر ان کی چادر موجود ہے۔ چنانچہ یہ لوگ صبح تک وہیں ڈٹے رہے۔ مشرکینِ مکہ نے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے گھر کو تو گھیرا ھوا تھا لیکن وہ گھر کے اندر داخل نہیں ھوئے تھے کیونکہ تمام تر برائیوں کے باوجود جو مشرکینِ قریش میں تھیں وہ زنانہ گھر میں بغیر آجازت کے داخل ھونے کو معیوب سمجھتے تھے ادھر صبح ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بستر سے اٹھے تو مشرکین اُنہیں دیکھ کر ھاتھ مَلنے لگے ۔ اُن کے چہروں پر ھوائیاں اُڑنے لگیں ۔ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کہا ں ہیں؟ ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا : مجھے معلوم نہیں تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مارتے ہوئے باہر لے آئے اور گھسیٹتے ھوئے اُنہیں مسجد حرام تک لائے، کچھ دیر تک انہوں نے انہیں روکے رکھا، پھر خود ھی چھوڑ دیا ۔ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر جا پہنچے۔ دستک ہوئی، تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے دروازہ کھولا۔ ابو جہل لعین نے غضب ناک انداز میں پوچھا ’’تیرا باپ کہاں ہے؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘ یہ سُننا تھا کہ اُس بدبخت نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کے رخسارِ مبارک پر اس زور سے تھپڑ مارا کہ اُن کے کان کی بالی اُتر کر دُور جاگری (سیرت ابنِ اسحاق)
گھر سے غارِ ثور تک کا سفر
رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنے مکان سے نکل کر اپنے سب سے قابل اعتماد ساتھی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر تشریف لائے تھے اور وہاں سے پچھواڑے کی ایک کھڑکی سے نکل کر دونوں حضرات نے غارِ ثور کی راہ لی تھی تاکہ مکہ سے جلد از جلد، یعنی طلوع فجر سے پہلے پہلے باہر نکل جائیں۔
چونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو معلوم تھا کہ قریش پوری جانفشانی سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی تلاش میں لگ جائیں گے اور جس راستے پر سب سے پہلے اُن کی نظر اٹھے گی وہ مدینہ کا کاروانی راستہ ہوگا جو شمال کے رخ پر جاتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے وہ راستہ اختیار کیا جو اس کے بالکل الٹ تھا۔ یعنی یمن جانے والا راستہ جو مکہ کے جنوب میں واقع ہے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اس راستے پر کوئی پانچ میل کا فاصلہ طے کیا اور اس پہاڑ کے دامن میں پہنچے جو ثور کے نام سے معروف ہے۔ یہ نہایت بلند ، پر پیچ اور مشکل چڑھائی والا پہاڑ ہے۔ یہاں پتھر بھی بکثرت ہیں۔ جن سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دونوں پاؤں زخمی ہوگئے اور کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نشان قدم چھپانے کے لیے پنجوں کے بل چل رہے تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاؤں زخمی ہوگئے۔ بہر حال وجہ جو بھی رہی ہو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اٹھالیا اور دوڑتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار کے پاس جاپہنچے جو تاریخ میں ''غارِ ثور'' کے نام سے معروف ہے۔
دورانِ سفر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی بےچینی
سفر کے دوران حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ غار ثور کی طرف جارہے تھے تو حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبھی حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے آگے چلتے اور کبھی پیچھے چلنے لگتے یہ دیکھ کر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے پوچھا :
اے ابو بکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) ایساکیوں کرتے ہو ؟۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا ۔
یارسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جب مجھے تلاش کرنے والوں کا خیال آتا ہے تو میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پیچھے ہوجاتا ہوں اور جب گھات میں بیٹھے ہوئے دشمنوں کاخیال آتا ہے تو آگے آگے چلنے لگتا ہوں مبادا کوئی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو گزندنہ پہنچے ۔
حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
کیا تم خطرہ کی صورت میں میرے سامنے مرنا پسند کرتے ہو ؟
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا :
یارسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم رب ذوالجلال کی قسم ، میری یہی آرزو ہے ۔
اس طرح رات کی تاریکی میں سفر کرتا ھوا یہ مقدس قافلہ غارِ ثور تک پہنچ گیا
جاری ھے۔۔۔۔۔