قسط نمبر (75) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم


رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ غارِ ثور میں 

رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پہاڑ کے اوپر غار تک پہنچ گئے کیونکہ ان دونوں حضرات نے تین دن یہاں قیام کرنا تھا ۔ غار کے پاس پہنچ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ! اللہ کے لیے ابھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) اس میں داخل نہ ہوں۔ پہلے میں داخل ہو کر دیکھ لیتا ہوں۔ اگر اس میں کوئی چیز ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) کے بجائے مجھے اس سے سابقہ پیش آئے گا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اندر گئے اور غار کو آچھی طرح صاف کیا۔ ایک جانب چند سوراخ تھے۔ انہیں کپڑا پھاڑ کر بند کیا لیکن ایک سوراخ باقی بچ  گیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس پر  اپنے پاؤں ڈال دیا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے عرض کی کہ اندر تشریف لائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اندرتشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی آغوش میں سر رکھ کر سو گئے۔ ادھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے پاؤں میں کسی چیز نے ڈس لیا۔ مگر اس لئے کوئی حرکت نہیں کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم آواز سن کر  جاگ نہ جائیں لیکن ان کے آنسو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے چہرے پر ٹپک گئے اور  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی آنکھ کھل گئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ عنہ تمہیں کیا ہوا ؟ عرض کی میرے ماں باپ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) پر قربان ! مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اس پر لعاب دہن لگادیا اور تکلیف جاتی رہی۔  یہاں دونوں حضرات نے تین راتیں یعنی جمعہ ، ھفتہ اور اتوار کی راتیں غار میں چھپ کر گزاریں۔ اس دوران حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی یہیں رات گزارتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بیان ہے کہ وہ گہری سوجھ بوجھ کے مالک ، سخن فہم نوجوان تھے۔ سحر کی تاریکی میں ان دونوں حضرات کے پاس سے چلے جاتے ، اور مکہ میں قریش کے ساتھ یوں صبح کرتے گویا انہوں نے یہیں رات گزاری ہے۔ پھر آپ دونوں کے خلاف سازش کی جو کوئی بات سنتے اسے اچھی طرح یاد کرلیتے اور جب تاریکی گہری ہوجاتی تو اس کی خبر لے کر غار میں پہنچ جاتے۔

ادھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت عامر بن فُہَیْرَہ رضی اللہ تعالی عنہ بکریاں چراتے رہتے اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو بکریاں لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے۔ اس طرح دونوں حضرات رات کو آسودہ ہوکر دودھ پی لیتے۔ پھر صبح تڑکے ہی حضرت عامر بن فُہیرہ رضی اللہ تعالی عنہ بکریاں ہانک کر چل دیتے۔ تینوں رات انہوں نے یہی کیا۔ مزید یہ کہ  حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے مکہ جانے کے بعد انہیں کے نشانات قدم پر بکریاں ہانکتے تھے تاکہ نشانات مٹ جائیں۔ 

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی بڑی صاحبزادی اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بڑی بہن ہیں ، اس موقعہ پر اُن  کی قربانیاں بھی لا جواب تھیں ،جب حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور حضرت ابوبکر  صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  سفر ہجرت پر نکلے اور غارِ ثور کے اندر تشریف فرما تھے ، اس وقت حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا ہی اُنہیں غار میں کھانا پہنچاتی تھیں ، جب پہلے دن کھانا دے کر واپس آرہی تھیں ، تو راستہ میں خبیث  ابوجہل سے ٹاکرا ھو گیا ابوجہل نے سوال کیا  کہ اے اسماء رضی اللہ تعالی عنہا! آپ کہاں  گئی تھی، آپ کے والد ابوبکر  رضی اللہ تعالی عنہ اور حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کہاں ھیں؟ حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنھا نے جواب دیا کہ مجھے معلوم تو ہے مگر میں بتاؤں گی نہیں ، ابو جہل نے دھمکی بھرے لہجے میں  کہا کہ بتاؤ، ورنہ تمہیں میں ماروں  گا، تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے جواب دیا کہ کچھ بھی کرلو میں  نہیں بتاؤں گی ، پھر ابو جہل  لعین نے بیچاری حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا  کو بہت ھی بے دردی سے پیٹا،جس سے وہ گرگئیں  اوربیہوش ہوگئیں ، پھر بھی انہوں  نے جواب دیا کہ میری جان جا سکتی ہے مگر میں  بتا نہیں سکتی ، یہ ہے محبت، جب آدمی کوکسی سے محبت ہوجاتی ہے تو اپنی جان کی بازی لگا دیتا ھے   اور اپنی جان پر کھیل جاتا ھے، اس کے بعد دوسرے دن کھانا لے کر آئیں ، تو حضور آکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان کے چہرے پر کچھ نشانات دیکھے تو دریافت فرمایا اے اسماء رضی اللہ تعالی عنہا یہ کیا ہے ؟ تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے پورا واقعہ سنا دیا  جو ان کے ساتھ پیش آیا تھا

دوسری طرف شبِ ہجرت کی صبح کو وہ واقعہ پیش آیا  جس سے   حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے گھرانے کے ایک ایک فرد کی قربانی ظاھر ھوتی ھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے  والد گرامی  حضرت ابو قُحافہ رضی اللہ تعالی عنہ (جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے) نابینا تھے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مخاطب ہو کر بولے۔ ’’بیٹی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے تمہیں دوہری مصیبت میں ڈالا ہے خود بھی چلا گیا اور سارا مال بھی ساتھ لے گیا۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ واقعی گھر میں رکھا ہوا سارا مال ساتھ لے گئے تھے، لیکن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے ضعیف العمر اور نابینا دادا کا دل توڑنا مناسب نہ سمجھا اور جواب دیا:

’’نہیں دادا جان انہوں نے خیرِ کثیر ہمارے لیے چھوڑی ہے۔‘‘

پھر انہوں نے ایک تھیلے میں کچھ پتھر ڈالے اور اور اس گڑھے یا طاق میں رکھ دیئے جہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنا مال رکھا کرتے تھے۔ اس کے بعد وہ حضرت ابوقُحافہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ پکڑ کر وہاں لے گئیں اور کہا: ’’ داداجان، آپ ہاتھ لگا کر دیکھ لیں یہ کیا رکھا ہے۔‘‘

حضرت ابوقُحافہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کپڑے کی پوٹلی پر ہاتھ رکھا تو مطمئن ہو گئے اور بولے:

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ اچھا کیا تمہارے لیے کافی انتظام کر گیا۔‘‘

حضرت  آسماء رضی اللہ تعالی عنہا  فرماتی ھیں یہ تو میں نے بس دادا کا دل رکھنے کے لئے ایسا کیا تھا ورنہ اللہ کی قسم وھاں  ایک درھم  بھی موجود نہیں تھا کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ تمام مال اس خیال سے ساتھ لے گئے تھے کہ مبادا راستے میں کہیں ضرورت پڑ جائے 


سردارانِ قریش کی تلملاہٹ

 اس ندامت بھری ناکامی کے بعد قریش کے سربرآوردہ لوگ پھر دارالندوہ میں جمع ہوئے، مشورہ ہوا، طے پایا کہ مکہ مکرمہ سے باہر جانے والے تمام راستوں پر آدمی دوڑائے جائیں، اعلان کیا گیا کہ جو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ   کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا اسے سو اونٹ انعام میں دیے جائیں گے۔ یہ اعلان سنتے ہی گھڑ سوار، پیدل چلنے والے اور نشانِ راہ کے ماہرین کی ٹولیاں  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی تلاش و جستجو میں نکل پڑیں، ایسی ہی ایک ٹولی اپنے خوجی کے ھمراہ غار ثور کے دہانے پر بھی پہنچ گئی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو  اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ لوگ غار کے اندر جھانک کر نہ دیکھ لیں، یا کوئی شخص تلاش کرتا ہوا اندر تک نہ آجائے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے اس اندیشے کا اظہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے کیا تو آپ نے تسلی کے طور پر یہ الفاظ فرمائے:

 ’’یا أبا بکر ما ظنک بأثنین اللّٰہ ثالثھا‘‘ 

اے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ! ان دو کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہو۔ (صحیح البخاری)  

رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی طرف سے یہ تسلی تھی کہ ابوبکر! تم گھبراؤ  مت، ہمارے ساتھ اللہ کی مدد اور اس کی نصرت ہے، ہم ہر طرح محفوظ ہیں۔

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اپنے رفیق کے ساتھ تین راتیں اس غار میں رہے۔ روایات میں ہے کہ غار کے منہ پر مکڑیوں نے جالا بنا لیا تھا، کفار مکہ جب ان حضرات کو تلاش کرتے ہوئے غار کے دہانے پر پہنچے تو آپس میں کہنے لگے کہ اگر اس غار میں کوئی شخص داخل ہوتا تو یہاں مکڑی کے جالے نہ ہوتے۔  (مسند احمد حنبل،  تاریخ الطبری ) 

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اور حضرت ابوبکر  صدیق رضی اللہ تعالی عنہ دونوں اندر غار میں تھے اور ان لوگوں کی بات چیت سن رہے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں ہے کہ مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے نشان قدم دیکھتے دیکھتے جبل ثور تک جا پہنچے تھے ، وہاں آ کر قدموں کے نشاناتِ گڈمڈ ہوگئے، مگر انہوں نے تلاش جاری رکھی اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے غار تک جا پہنچے، مگر غار کے منہ پر مکڑی کے جالے دیکھ کر یہ کہتے ہوئے واپس ہوگئے کہ اگر کوئی شخص اندر داخل ہوتا تو مکڑی کے جالے نہ ہوتے۔ (حوالۂ سابق) 

بہرحال مکڑی کی صورت میں یہ خدائی فوج تھی، جس نے کفار کو واپس جانے پر مجبور کردیا تھا۔ دیکھا جائے تو مکڑی کی حیثیت ہی کیا ہے، ایک جثۂ ناتواں جو بسا اوقات آنکھ سے نظر بھی نہیں آتا، اس طرح کی خدائی فوجیں اس کائنات میں جابجا بکھری ہوئی ہیں، جو ہمیں نظر نہیں آتیں اور نہ ہم ان کو محسوس کرتے ہیں مگر اللہ جب چاہے ان سے کام لے لیتا ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت میں اسی کی خبر دی گئی ہے: ’

وَمَا يَعْلَمُ جُنُـوْدَ رَبِّكَ اِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِىَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْبَشَرِ (O

اور آپ کے رب کے لشکروں کو اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا، اور دوزخ (کا حال بیان کرنا) صرف آدمیوں کی نصیحت کے لیے ہے - المدثر

 بعض کتابوں میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ  ، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایتوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اور  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے یارِ غار حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہ غار ثور میں فروکش ہوگئے اور کفار آپ دونوں کو تلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچے تو خدا کے حکم سے غار کے عین سامنے ایک درخت اُگ آیا، جنگلی کبوتروں نے گھونسلہ بنا کر انڈے دے لئے اور  مکڑی نے جالے بُن دئیے۔ مشرکین یہ کہتے ہوئے واپس چلے گئے کہ بھلا اس غار کے اندر کون ہوسکتا ہے، یہاں تو جانے کا راستہ ہی نہیں ہے۔ (الطبقات الکبریٰ )

 صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ مشرکین کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   کی تلاش میں غار کے قریب گھومتے پھرتے دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ بہت زیادہ پریشان اور غمگین ہوئے اور گھبرا کر کہنے لگے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اب کیا ہوگا؟ مجھے اپنی تو فکر نہیں ہے، میں اگر مارا جاتا ہوں تو ایک آدمی مارا جائے گا لیکن خدانخواستہ آپ کو اگر کوئی گزند پہنچی  تو ساری امت ہلاک ہوجائے گی، جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   نے وہ الفاظ بھی فرمائے جو پہلے نقل کئے گئے ہیں اوریہ بھی فرمایا :ـ

لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ’’

غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘

 یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  پوری طرح مطمئن ہوگئے۔ قرآن کریم میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّـٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا ثَانِىَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِى الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّـٰهَ مَعَنَا ۖ فَاَنْزَلَ اللّـٰهُ سَكِـيْنَتَهٝ عَلَيْهِ وَاَيَّدَهٝ بِجُنُـوْدٍ لَّمْ تَـرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى ۗ وَكَلِمَةُ اللّـٰهِ هِىَ الْعُلْيَا ۗ وَاللّـٰهُ عَزِيزٌ حَكِـيْـمٌ O

اگر تم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم )کی مدد نہ کرو گے تو اس کی اللہ نے مدد کی ہے جس وقت اسے کافروں نے نکالا تھا کہ وہ دو میں سے دوسرا تھا جب وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا تو غم نہ کھا بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے، پھر اللہ نے اپنی طرف سے اس پر تسکین اتاری اور اس کی مدد کو وہ فوجیں بھیجیں جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کی بات کو پست کر دیا، اور بات تو اللہ ہی کی بلند ہے، اور اللہ زبردست حکمت والا ہے

سورہ التوبہ))


غارِ ثور میں پیش آنے والے واقعات کی تحقیق

سوال

رسول اللہ ﷺ جب ہجرت کے موقع پر غارِ ثور میں تشریف لے گئے تھے، کیا اس وقت مکڑی نے غار کے دھانے جالا تن دیا تھا؟ اور کبوتر نے انڈے بچے دے دیے تھے؟ یہ ثابت ہے یا نہیں؟ اگر ثابت ہے تو کیا یہ اسی وقت اچانک ہوگیا تھا یا کبوتر نے پہلے سے گھونسلہ بناکر پہلے سے انڈے دیے ہوئے تھے؟ نیز کیا سانپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کاٹا تھا؟


جواب

مذکورہ سوال میں چند باتیں مذکور ہیں ، انہیں ذیل میں الگ الگ ذکر کیا جاتا ہے:


۱۔مکڑی کا جالا تننا۔ 

۲۔کبوتر کا انڈے دینا۔ 

۳۔گھونسلہ بنانا۔

۴۔سانپ کا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ڈسنا۔


پہلی بات : مکڑی کا جالا تننا:

یہ بات مختلف حضرات نے اپنی سندوں کے ساتھ نقل کی ہے، مثلاً: امام بیہقی رحمہ اللہ نے فرمایا :

  "وأمر الله العنکبوت فنسجت في وجه النبي صلی الله علیه وسلم فسترته". (دلائل النبوة: ۲/۳۵۴، ط:دارالحدیث القاهرة)

امام بیہقی رحمہ اللہ کی یہ سند اگرچہ کم زور ہے، لیکن مختلف حضرات نے چوں کہ اسے ذکر کیا ہے اور مسئلہ کا تعلق احکام سے بھی نہیں ہے، لہذا یہ روایت قابلِ قبول ہوگی۔


دوسری بات: کبوتر کا انڈے دینا

یہ بات ہمیں تاحال نہ مل سکی ، البتہ یہ بات ملی ہے کہ دو کبوتر آکر غار کے دہانے کھڑے ہوگئے اور امام بیہقی رحمہ اللہ  کی  روایت ھے 

"وأمر الله حمامتین وحشیتین فوقفتا بفم الغار". (دلائل النبوة: ۲/۳۵۴)


تیسری بات: کبوتر کا گھونسلہ بنانا:

اس بات کو بھی کئی حضرات نے نقل کیا ہے، امام مقریزی رحمہ اللہ نے فرمایا :

"وعششت حمامتان علی باب الغار". (إمتاع الأسماع :۱/۴۰مطبعة لجنة التالیف والترجمة)

دو کبوتروں نے غار کے آگے گھونسلہ بنایا ۔


چوتھی بات :سانپ کا ڈسنا 

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو سانپ کے ڈسنے کا واقعہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے ان الفاظ سے نقل کیا ہے:

"وکان في الغار خرق  فیه حیات وأفاعي، فخشي أبوبکر أن یخرج منهنّ شيءٌ یؤذي رسول الله صلی الله علیه وسلم، فألقمه قدمه فجعلن یضربنه ویلسعنه الحیات والأفاعي، وجعلت دموعه تنحدر و رسول الله صلی الله علیه وسلم یقول له: یا أبابکر لاتحزن إن الله معنا". (دلائل النبوة:۲/۳۵۱)

اس کے علاوہ سائل نے یہ بات پوچھی ہےکہ :"یہ انڈے دینے کا واقعہ اچانک ہوگیا تھا یا پہلے سے گھونسلہ بنا رکھا"؟ اس کے بارے میں عرض ہے کہ اس طرح کی مدد ونصرت کا ہونا ظاہر ہے ایک غیبی معاملہ ہے اور اس میں ظاہری اسباب کو نہیں دیکھا جاتا ہے، انڈے دینے والا واقعہ تو ہمیں نہیں مل سکا ہے، لیکن مکڑی کا جالا تننا اور کبوتر کا گھونسلہ بنانا اور پھر غار کے دہانے ایسی جگہ کھڑا ہونا جس کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نظر نہ آئیں یہ سارے واقعات  کا تعلق بھی عام معاملات سے نہیں ہے، اسی لیے جن روایات میں ان کا تذکرہ ہے اس میں اس بات کے ساتھ "أمر الله" کے الفاظ بھی ہیں کہ اللہ کے حکم سے ایسا ہوا، یہ عام اتفاقات نہیں تھے، اگر انڈہ دینے  کا واقعہ درست بھی ہو تو ممکن ہے کہ وہ بھی اللہ کے حکم سے ہو اور اسی وقت یہ معاملہ ہوجائے اس کا عقل میں آنا ضروری نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کامل قدرت والے ہیں، جب باقی کام خلافِ عادت کرسکتے ہیں تو انڈے دینے والا واقعہ خلاف عادت کیوں نہیں ہوسکتا ہے!

البتہ اس بات کی دوبارہ صراحت ضروری ہے کہ ہمیں یہ واقعہ (کبوتر کا انڈے دینا) کسی مستند کتاب میں نہیں مل سکا ہے ۔ فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144106200274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن


جاری ھے ۔۔۔۔

Share: