قسط نمبر (76) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے مختصر مناقب و فضائل

رسول کریم  صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ھجرتِ مدینہ منورہ کے پہلے مرحلے میں  تین دن غارِ ثور میں قیام فرمایا اس دوران کفارِ مکہ ان حضرات کی تلاش میں غار کے داھنے تک پہنچ گئے اس موقعہ پر رسول کریم صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہ کے درمیان جو مکالمہ ھوا رب کریم نے اُس کا ذکر قرآن پاک میں  فرمایا چنانچہ ارشادِ باری تعالی ھے 

اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّـٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا ثَانِىَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِى الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّـٰهَ مَعَنَا ۖ فَاَنْزَلَ اللّـٰهُ سَكِـيْنَتَهٝ عَلَيْهِ وَاَيَّدَهٝ بِجُنُـوْدٍ لَّمْ تَـرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى ۗ وَكَلِمَةُ اللّـٰهِ هِىَ الْعُلْيَا ۗ وَاللّـٰهُ عَزِيزٌ حَكِـيْـمٌ O

اگر تم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم )کی مدد نہ کرو گے تو اس کی اللہ نے مدد کی ہے جس وقت اسے کافروں نے نکالا تھا کہ وہ دو میں سے دوسرا تھا جب وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا تو غم نہ کھا بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے، پھر اللہ نے اپنی طرف سے اس پر تسکین اتاری اور اس کی مدد کو وہ فوجیں بھیجیں جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کی بات کو پست کر دیا، اور بات تو اللہ ہی کی بلند ہے، اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔ سورہ التوبہ))

سورہ  توبہ کی مذکورہ بالا آیت مبارکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل و مناقب اور خصائص کے بیان میں نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ حضرت  ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  کے دل میں رسول اکرم صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے جس قدر محبت تھی اور جتنا عشق تھا اس کا عشر عشیر بھی اس امت میں کسی دوسرے فرد کو نصیب نہیں ہوا۔ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی محبت میں انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا، مال و دولت، گھر بار، آل اولاد، ایک جان باقی تھی وہ بھی خطرے میں ڈال کر رسول کریم صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ سفرِ ھجرت میں آگئے، چاہتے تو تنہا بھی ہجرت کرسکتے تھے، دوسرے قافلوں کے ساتھ بھی جاسکتے تھے مگر ان کی دیرینہ تمنا رسول کریم صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے  ساتھ ھی جانے کی تھی تاکہ آپ صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی حفاظت کریں، آپ صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے آرام و راحت کا خیال رکھیں۔ حضور آکرم صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی وفاداری اور محبت کا پورا یقین تھا تب ہی تو آپ صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے سے پہلے ہجرت کی اجازت نہیں دی، بلکہ بار بار یہی فرماتے رھے کہ ابھی ٹھہرو، ابھی رکو، کیا خبر اللہ تمہیں اس سفر میں میرا رفیق بنادے اور ایسا ہی ہوا، گویا اللہ تعالی  کے نزدیک بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا اخلاص، عشق اور وفاداری مسلم تھی، جب ہی تو ایسے پُرخطر سفر میں انہیں آپ صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی رفاقت کے لئے منتخب کیا۔

 بہرحال قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کا ایک دوسرا  رخ دیکھنے سے یہ بات بخوبی واضح ھوتی ھے  کہ اس میں رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی مدد نہ کرنے والوں پر عتاب کیا جارہا ہے۔ اس عتاب میں کسی کو بھی کوئی استثناء نہیں ہے، اگر استثناء ہے تو صرف حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہ کو دیا گیا ھے ۔ جنہوں نے اس نازک گھڑی میں بھی رسول کریم  صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لئے ھر قسم کی قربانی بھرپور  طریقے سے پیش  کی اور دوستی کا  صحیح  حق ادا کردیا۔

 قرآن کریم میں “ثانی اثنین”  فرمایا یعنی دو آدمیوں میں دوسرا، اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے بعد نبیوں کے علاوہ اگر کسی کا مرتبہ مسلّم ہے تو وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ  کا ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے بعد خلافت کا استحقاق صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہی کو حاصل تھا، اسی آیت مبارکہ  میں ان کو “صاحب” کہا گیا ہے جس کے معنی رفیق، ساتھی ،  دوست  ، صحبت یافتہ اور ہم نشیں کے ہیں، اسی سے لفظ صحابی بنا ہے، گویا اللہ رب العزت نے خود حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ  کو صحابیت کے عظیم مرتبے پر فائز کرنے کا اعلان اپنی آخری کتاب میں کیا  ۔ لاکھوں صحابہ میں صرف حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہ ایسے صحابی ہیں جن کی صحابیت نصِ قطعی سے ثابت  ہے، اس لئے علماء کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہ کی صحابیت سے انکار کرتا ہے تو وہ قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کا انکار کرتا ھے اور قرآن پاک کی کسی ایک آیت بلکہ کسی ایک لفظ کا انکار کرنے والا دائرہِ اسلام سے خارج ھو جاتا ھے ۔

 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے غارِ ثور میں جس پریشانی  کا آظہار فرمایا وہ ایک فطری بات تھی، مگر جس پیار سے رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے انہیں “لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا”  فرما کر تسلی و تشفی دی اس سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے قلب گرامی پر ان کی آزردگی و پریشانی کا گہرا اثر ہوا، اس لئے آپ صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے انہیں اطمینان دلایا اور ان کے سکونِ قلب کے لئے دعا بھی فرمائی۔ اسی لئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک رات اور ان کا ایک دن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی تمام عمر کی عبادت سے بدرجہا بہتر ہے۔ رات تو وہ رات جو رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ساتھ غار ثور میں گزری اور دن؛ وہ دن ہے جس دن رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی وفات ھوئی اور عرب کے بہت سے قبائل مرتد ھوگئے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ میں اس دن آپ کی خدمت میں حاضر ھوا اور خیرخواہانہ مشورہ دیا کہ اے خلیفۂ رسول آپ ذرا نرمی کیجیے اور تالیف سے کام لیجیے یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے شدید غصہ کا اظہار فرماتے ھوئے کہا 

یاعمر انت جباراً فی الجاھلیہ وخوار فی الاسلام

اے عمر ! زمانۂ جاھلیت میں  تو تم بہت بہادر اور دلیر تھے اب کیا اسلام  میں آکر بزدل بن گے 

اے عمر!  مجھے بتلا تو سہی کس چیز سے ان کی تالیف کروں  پس اس دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے مرتد ہوجانے والے قبائل کے ساتھ قتال کا فیصلہ کیا۔ (فتح الباری)


افضلیتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق  صحابہ کرام اور آئمہ کرام  کا اجماعی فیصلہ

حضرت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ  فرماتے ہیں میں نے اپنے والد حضرت امام باقر رحمہ اللہ   سے حدیث سنی انہوں نے امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ سے انہوں نے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو فرماتے ھوئے سنا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے بہتر کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ اس کے بعد حضرت امام جعفر صادق  رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے روایت میں غلط بیانی کی ہو تو مجھے شفاعت نصیب نہ ہو اور میں تو قیامت کے دن بھی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ  کی شفاعت کا طلب گار رہونگا ۔ اسی کے ساتھ دوسری روایت ہے کہ ساری امت سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (الرّیاض النضرہ )

حضرت ابو الدرداء رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السّلام کے بعد ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) سے افضل کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ ایک روایت میں ہے کہ انبیاء و رسل علیہم السّلام کے بعد ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ حضرت جابر رضی ﷲ عنہ کی حدیث میں بھی ہے کہ حضور کریم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں فرمایا ﷲ کی قسم آپ سے افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے

ابو نعیم طبرانی))

حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ما طلعت الشمس ولاغربت علی احدبعدالنبیین والمرسلین أفضل من أبی بکر ۔

کسی بھی ایسے شخص پرآفتاب طلوع وغروب نہیں ہوا ، جو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے افضل ہو سوائے انبیاء و مرسلین کے ۔ (کنزالعمال،(

حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ابوبکر خیرالناس الاان یکون نبی ۔

ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سب لوگوں سے افضل ہیں،سوائے نبی کے ۔ 

حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان روح القدس جبریل اخبرنی ان خیرأمتک بعدک أبوبکر ۔

 بیشک روح القدس جبریل امین علیہ السلام نے مجھے خبردی کہ آپ کے بعد آپ کی امت میں سب سے بہتر ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ (المعجم الاوسط )

انبیائے کرام علیہم الصلاة و والسلام کے بعد لوگوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ  ، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پھرحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے افضل ہونے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں : قال کنا نخیر بین الناس فی زمان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، فنخیر ابا بکر ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان ۔

ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں : ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے میں آپس میں فضیلت دیتےتھے ، تو ہم سب سے افضل ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ،پھر عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ ،پھر عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فضیلت دیا کرتےتھے ۔ (صحیح البخاری)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ : کنا نقول و رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حی افضل ھذہ الامة بعد نبیھا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔ ابوبکر و عمر و عثمان و فیسمع ذلک رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فلاینکرہ ۔

ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں  کہا کرتے تھے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعداس امت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ افضل ہیں، پس یہ بات رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سنتے اور آپ انکار نہ فرماتے ۔ (المعجم الکبیر(

حضرت محمد بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کابیان ہے : قلت لابی ای الناس خیربعدالنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ؟ قال : ابوبکرقلت ثم من ؟ قال : عمر ۔

 میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھاکہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل کون ہے ؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں ۔ میں نے کہا پھر کون افضل ہیں؟ تو آپ نے جواب دیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ افضل ہیں ۔ (صحیح البخاری)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ : كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ۔ (صحیح البخاری،ج:5،ص:4،كِتَابٌ : فَضَائِلُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ، بَابُ فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں : ہم گروہ صحابہ زمانۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ،پھر عمر رضی اللہ تعالی عنہ ، پھر عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے برابر کسی کو نہ گنتے ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مُتَوَافِرُونَ نَقُولُ: «أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ عُثْمَانُ ثُمَّ نَسْكُتُ ۔ (مسندالحارث)

ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : ہم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اکثر و بیشتر کہا کرتے : افضل امت بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ،پھرعمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ۔

 قَالَ : قُلْتُ لِمَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ عِنْدَكَ أَفْضَلُ أَوْ عَلِيٌّ ؟ قَالَ : فَارْتَعَدَ حَتَّى سَقَطَتْ عَصَاهُ مِنْ يَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: «مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنِّي أَبْقَى إِلَى زَمَانٍ يَعْدِلُ بَيْنَهُمَا، إِنَّهُمَا كَانَا رَأْسَ الْإِسْلَامِ، وَرَأْسَ الْجَمَاعَةِ ۔ (السنۃ لابی بکر بن الخلال) 

 حضرت میمون بن مہران سے سوال ہوا : حضرت ابوبکر  رضی اللہ تعالی عنہ افضل ھیں یا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ؟ ، اس کلمہ کے سنتے ہی ان کے بدن پر لرزہ پڑا ، یہاں تک کہ عصا دست مبارک سے گر گیا ، اور فرمایا : مجھے گمان نہ تھا کہ اس زمانے تک زندہ رہوں گا ، جس میں لوگ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ و عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے برابر  کسی کو بتائیں گے ۔

ان احادیث و روایات سے ظاہر ہوا کہ : زمانہ صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم میں آفضیلتِ حضرت ابوبکر  رضی اللہ تعالی عنہ  اور حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  پر اجماع تھا ، اور اور اس کے خلاف سے ان کے کان بھی آشنا نہ تھے ۔بلکہ امام شافعی علیہ الرحمہ اکابر ائمہ نے اس عقیدہ پرصحابہ کرام وتابعین عظام رضی اللہ عنہم کا اجماع نقل کیا ہے ۔

امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ : ما اختلف أحد من الصحابة والتابعين في تفضيل أبي بكر وعمر و تقديمها على جميع الصحابة ۔ (الاعتقاد والھدایۃ الی سبیل الرشاد)

صحابہ کرام اور تابعین میں سے کسی نے بھی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہم کے افضل ہونے اور باقی تمام صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے مقدم ہونے کے لحاظ سے اختلاف نہیں کیا ۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : افضل النا س بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان  ثم علی  بن ابی طالب رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین ۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ، پھر عمر بن خطاب ، پھرعثمان بن  عفان، پھرعلی بن ابی طالب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین افضل ہیں ۔ 

امام احمد بن  محمد خطیب قسطلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتےہیں : الافضل بعدالانبیاء علیھم الصلوة والسلام ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ وقداطبق السلف علی انہ افضل الامة ۔ حکی الشافعی وغیرہ اجماع الصحابة والتابعین علی ذلک ۔

 انبیائے کرام علیہم الصلوة والسلام کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ افضل ہیں اور سلف نے ان کے افضل الامت ہونے پر اتفاق کیا ۔ امام شافعی وغیرہ نے اس مسئلہ پر صحابہ اورتابعین کااجماع نقل کیا ۔ (ارشاد الساری باب فضل ابی بکر بعدالنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم)

امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وتفضیل أبی بکروعمررضی اللہ عنھمامتفق علیہ بین اھل السنۃ ، وھذا الترتیب بین عثمان وعلی رضی اللہ تعالی عنھما ھو ما علیہ أکثرأھل السنة .... والصحیح ما علیہ جمھور أھل السنة ۔

 اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا افضل ہونا اہلسنت کے درمیان متفق ہے اور یہی ترتیب (حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے افضل ہیں) عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کےدرمیان ہے ۔ اس مؤقف کے مطابق جس پر جمہور اہلسنت ہیں اور صحیح وہی ہے ، جس پر جمہور اہلسنت ہیں۔


عامہ کتب اصول میں اس مسئلہ پر صراحتاً اجماع  منقول ہے ، یا کم از کم  بلا ذکرِ خلاف اسے مذہب اہل سنت قرار دیا گیا ہے ۔

امام نووی علیہ الرحمہ شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں : اتفق اهل السنة على أن افضلهم ابو بكر، ثم عمر ۔ (شرح صحیح مسلم للنووی،)

اہل سنت کا اتفاق ہے کہ افضل صحابہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ ۔

امام قسطلانی علیہ الرحمہ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں : الأفضل بعد الانبياء عليهم الصلاة والسلام أبو بكر رضي الله تعالى عنه وقد اطبق السلف على أنه أفضل الأمة. حكى الشافعي وغيره إجماع الصحابة والتابعين على ذلك ۔ 

 انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد افضل البشر ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور تحقیق سلف صالح  نے ان کے افضل امت ہونے پر اتفاق کیا ۔ اور امام شافعی علیہ الرحمہ وغیرہ اس امر پر اجماع صحابہ وتابعین نقل کرتے ہیں ۔

تہذیب الاسماء واللغات للنووی میں ہے : أجمع أهل السنة على أن أفضلهم على الاطلاق أبو بكر، ثم عمر ۔ (تہذیب الاسماء واللغات للنووی،ج 1،ص 28،فصل فی حقیقۃ الصحابی)

اہل سنت نے اجماع کیا کہ مطلقاً سب صحابہ سے افضل ابوبکر ہیں ، پھر عمر رضی اللہ عنہم ۔

امام مالک رحمه الله سئل أي الناس أفضل بعد نبيهم ؟ فقال : ابو بكر ،ثم عمر . ثم قال : أو في ذلك شك ؟ ۔ (الصواعق المحرقۃ )

  امام مالک علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ نبی کریم صلی  اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے بعد سب سے افضل کون ہیں ، تو آپ نے جواب دیا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے بعد عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ۔ پھر ارشاد فرمایا:کیا اس بارے میں کوئی شک ہے؟

اور شرح عقائد نسفی میں ہے : 

أفضل البشر بعد نبينا ، أبو بكر الصديق ، ثم عمر الفاروق ۔ (شرح العقائد للنسفی)

ترجمہ : ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کے بعد  افضل بشر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ،پھر  عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔

حضرت شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں : جمہور ائمہ دریں باب اجماع نقل کنند  (تکمیل الایمان،ص 104،باب فضل الصحابہ)

جمہور ائمہ اس باب (افضلیت صدیق) میں اجماع نقل کرتے ہیں ۔ 

بریلوی مکتبِ فکر  کے بانی مولانا احمد رضا خان  بریلوی  لکھتے ہیں : اہل سنت و جماعت  کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکۃ و رسل وانبیائے بشر صلوات اللہ تعالی و تسلیماتہ علیہم کے بعد حضرات خلفائے اربعہ رضوان اللہ تعالی علیہم تمام مخلوق ِالہٰی سے افضل ہیں ، تمام امم اولین و آخرین میں  کوئی شخص ان کی بزرگی و عظمت وعزت و وجاہت و قبول و کرامت و قرب و ولایت کو نہیں  پہنچتا ۔

 (وَ اَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ) ، 

فضل اللہ تعالی کے ہاتھ میں  ہے جسے چاہے عطا فرمائے ، اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔ 

بہرحال   باہم ترتیب یوں ھی  ہے کہ سب سے افضل حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ، پھر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ، پھر عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ ، پھر  علی رضی اللہ تعالی عنہ 


افضلیت حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شیعہ کتب کی روشنی میں

شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب “رجال کشی “میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے اور حضرت ابو بکر و حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے فرمایا ۔ اصل عبارت درج کی جاتی ہے ۔ شیعوں کا محققِ اعظم لکھتا ہے : انہ رای علی رضی اللہ تعالی عنہ علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ،،،، وحب ابی بکر و عمر ایمان و بغضہما کفر ۔ 

 انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ،،،،،،، حضرت ابو بکر و حضرت عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ (رجال کشی )

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ (شرح نہج البلاغہ )

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ  نے فرمایا ۔ ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر 

یعنی اس امت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ و عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ (کتاب الشافی)

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ  نے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ و عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں فرمایا ۔ انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول ﷲ ومن اقتدی بہما عصم 

یعنی یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ و عمر رضی اللہ تعالی عنہ دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا ۔ (تلخیص الشافی للطوسی، )

حضرت  علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر 

یعنی بے شک ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔ ( تفسیر حسن عسکری)


حضرت علی  نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا ۔ لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری 

یعنی اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیاتو جو مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ و عمر رضی اللہ تعالی عنہ پر فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔ (رجال کشی (

ان تمام تصریحات سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت پر صحابہ کرام ، رضی اللہ تعالی عنہم  تابعین عظام  اور اکابر علماء علیہم الرحمہ کا اجماع ہے ۔ اب اس اجماعی عقیدہ کا جو انکار کرے اور پھر اپنے آپ کو دائرہ اسلام میں داخل بھی سمجھے تو کسی اور کو نہیں اپنے آپ کو ھی دھوکہ دے رھا ھے کیونکہ وہ یقیناً  گمراہ و بد مذہب ھو چکا ھے 


افضلیتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے منکر کا حکم

مسلمانوں کا یہ متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے کہ انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے بعد سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ اور یہی عقیدۂ اجماعی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم تابعین عظام رحمة  اللہ عنہم اور  امت کے اسلاف علیہم الرحمہ کا ہے ۔ تمام صحابہ کرام  اور تابعین عظام رحمة  اللہ تعالیٰ عنہم  اجمعین  کا اس بات پر اجماع  ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ  والسلام کے بعد تمام مخلوق میں افضل حضرت سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، پھرحضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور یہی عقیدہ مسلکِ حق اہلسنت و جماعت کا ہے اور اس عقیدے پر  بکثرت احادیث نبویہ ، آثارِ صحابہ و اقوال ائمہ ، بلکہ خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا فرمان موجود ہے اور جمہور اہلسنت کے نزدیک حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ بھی حضرت  علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں ۔ جو شخص علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرات ِشیخین کریمین صدیق اکبر و عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر فضیلت دے ، وہ شخص گمراہ ھے اور  اہلسنت والجماعت سے خارج ہے ۔

جاری ھے۔۔۔۔

Share: