قسط نمبر (77) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

جبلِ  ثور

پہاڑوں کی سرزمین، شہرِ مکہ مکرمہ کا ہر پہاڑ اپنی جداگانہ خصوصیت اور تاریخ رکھتا ہے،جب کہ ان بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان مکّہ مکرّمہ ایک انگوٹھی کے خُوب صُورت نگینے کی مانند نظر آتا ہے۔کوہ ثَور بھی مکہ مکرمہ کا ایک مشہور اور مقدس پہاڑ ہے۔ اس کی وجۂ شہرت اس میں واقع وہ غار ہے جہاں شبِ ہجرت کے موقع پر جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے مشرکین سے بچنے کے لئے یہاں  پناہ لی تھی مشرکین غار کے دہانے تک پہنچ گئے تھے  مگر اللہ تعالی کی غیبی نصرت کی  بدولت مشرکین  رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو نہ پاسکے۔ 

کوہ ثور مکہ مکرمہ اور مسجد الحرام کے جنوب میں یمن کے راستے میں  کدی محلے میں واقع ہے جہاں آج کل ایک بستی آباد ھے جسے “ہجرت ٹاؤن  “ کا نام دیا گیا ہے ـ یہ مسجد الحرام سے چار کلومیٹر دور ہے ـ سطح زمین سے اس کی بلندی 458 میٹر ہے اور اس کا رقبہ 10 مربع کلومیٹر ہے(1)

بعض مؤلفین نے اس کو "جبل اطخل" یا "ثور اطخل" کا نام بھی دیا ہے، جبکہ بعض  نے اس پہاڑ کو "ابو ثور" کا نام دیا ہے 

یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں ہے کہ اس پہاڑ کو ثور [بمعنی بیل] کا نام اس وجہ سے ہو کہ اس کی ہیئت ایک بیل کی سی ہے جس نے مکہ مکرمہ کے جنوب کی طرف رخ کیا ھوا ہے۔

زمانۂ قدیم میں لوگ دور کوہستانی راستوں سے کوہ ثور کی طرف جاتے تھے جن میں سے ایک راستہ دشوارگزار مگر مختصر تھا جبکہ دوسرا آسان مگر خاصا طویل تھا۔ مکہ مکرمہ سے کوہ ثور تک کی مسافت راستے کے انتخاب پر منحصر تھی؛ اسی بنا پر اس راستے کو اختلاف کے ساتھ ایک فرسخ، دو یا تین میل، اور مکہ سے دو گھنٹوں کا راستہ  بیان کیا گیا ہے۔ آج مسجد الحرام سے کوہ ثور کا راستہ تین سے چار کلو میٹر ہے۔ جبلِ ثور پر مجموعی طور پر چار غار موجود ہیں جن میں سے نیچے سے اوپر جاتے ھوئے تیسرا  غار “غار ثور “ ہے یعنی دو غار اس سے نیچے اور ایک اس سے اوپر ہے۔

یہ نہایت بلند ، پر پیچ اور مشکل چڑھائی والا پہاڑ ہے۔ یہاں پتھر بھی بکثرت ہیں۔ جن سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   کے دونوں پاؤں زخمی ہوگئے تھے اور کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   نشان قدم چھپانے کے لیے پنجوں کے بل چل رہے تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   کے پاؤں زخمی ہوگئے تھے ۔ بہر حال وجہ جو بھی رہی ہو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی  عنہ نے پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو اٹھالیا اور دوڑتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار کے پاس جاپہنچے جو تاریخ میں ’’غارِ ثور‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ 


غارِ ثور کا تعارف

غارِ ثور اسلام کے تاریخی مقامات میں سے ایک نہایت مقدس اور مبارک مقام ہے، دنیا بھر سے آئے ھوئے زائرین دیگر ایام میں بالعموم اور حج کے موقع پر بالخصوص اِس مقدس مقام کی نہ صِرف زیارت کرتے ہیں بلکہ یہاں نوافل وغیرہ بھی ادا کرتے ھیں 

غار ثور واقعۂ ہجرت کی یاد دلاتی ہے جب رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اپنے انتہائی قریبی ساتھی اور دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ ہجرت کے وقت وہاں قیام پذیر رہے اور کفار مکہ سے محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالی کے حکم سے اس غار کے داخلی راستے پر مکڑی نے جالا بن دیا اور دشمن انہیں ڈھونڈ نہیں سکے۔

اس غار کی ایک خصوصیت یہ بتائی جاتی ہے کہ اس کے اندر جو کوئی بھی اونچی آواز میں بات کرتا ھے تو باہر آواز قطعی نہیں آتی اور جو کوئی غار کے باہر آہستہ بات بھی کرے تو غار کے اندر بہت تیز آواز آجاتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ہمراہ شب ہجرت اس غار میں تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے آقا نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر اس پہاڑ کی بلندی کو طے کیا تھا  تاکہ اگر تعاقب میں آنے والے مشرکین پیروں کے نشانات دیکھیں تو انہیں ادراک ہوکہ دو افراد نہیں بلکہ ایک ہی شخص کے پیروں کے نشان ہیں۔جبل ثور کے انتہائی بلندی کے دوسری جانب کچھ نشیب اور پھر بلندی پر ڈھلوان کی جانب غارِ ثور واقع ہے


 غارِ ثور کی وجۂ تسمیہ 

اس غار میں چونکہ ثَور بن عبدِ منات آکر ٹھہرا تھا اسی لئے اسے غارِ ثَور کہتے ھیں ۔ یہ بھی کہا جاتا ھے کہ اس کو یہ نام عبدِ مناة کے ثور(بیل)کی نسبت کی وجہ سے دیا گیا ہے کیونکہ یہ اسکا مسکن تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسکی شکل بیل کی طرح  تھی جو اس پر ہل چلاتا تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس غار کی شکل بھی بیل کی طرح  ھے اس لئے اسے یہ نام دیا گیا تھا۔   یہی وہ غار ہے جس میں ہجرت مدینہ کے وقت نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے (کفار کی نظروں سے اوجھل ہونے کے لئے تین دن تک قیام فرمایا تھا،اس غار کے دو دروازے یعنی دراڑیں ہیں ایک اس کے شروع میں اور ایک اس کے آخر میں ہے ـ 


غارِ ثور کا محلِ وقوع 

غارِ ثور مکۂ مکرمہ کی دائیں جانِب’’ مَحَلَّۂ مَسفَلہ‘‘ کی طرف یمن کے راستے میں  کم و بیش چار کلومیٹر پر واقِع جبلِ ثور میں ہے، جبلِ ثور کے شمال میں جبلِ اکحل (اکحل پہاڑ)  واقع ہے جو تاریخی حیثیت رکھتا ھے ۔ 


رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غارِ ثور میں قیام 

رسول کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وآصحابہ وسلَّم اپنے  یارِ غار  سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ بَوَقتِ ہِجرَت یہاں تین رات قِیام پذیر رہے۔ جب دشمن تلاش کرتے ہوئے غارِ ثور کے منہ پر آپہنچے تو حضرتِ سیِّدُنا صدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ غمزدہ ہو گئے اور عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم! دشمن اتنے قریب آچکے ہیں کہ اگر وہ اپنے قدموں کی طرف نظر ڈالیں گے تو ہمیں دیکھ لیں گے، رسول کریم  صلی  اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وآصحابہ وسلَّم نے انہیں تسلّی دیتے ہوئے فرمایا:

 لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ

غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ (التوبہ)

رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  یکم ربیع الاوّل جمعرات کی رات کو مکۂ مکرمہ سے نکل کر غارِثور میں مقیم ہوئے، تین راتیں یعنی جمعہ، ہفتہ اور اتوار کی راتیں غارمیں قیام فرمایا، پھر وہاں سے پیر کی رات یعنی پانچ ربیع لاول کو عازمِ  مدینہ منورہ ہوئے۔  


جبل ثَور اور غارِ ثَور کا رقبہ

جبلِ ثور کی بلندی 759 میٹر ہے یعنی یہ پہاڑ جبلِ اُحُد سے 120میٹر زیادہ اونچا ہے، جبلِ ثَور کی چوٹی کا رقبہ تقریباً 30 مربع میٹر ہے۔ غارِ ثور کی لمبائی 18 بالشت اور چوڑائی 11بالشت ہے، غارِ ثور سطحِ سمندر سے تقریباً 748 میٹر بلند ہے۔ اس کا چھوٹا دَہانہ تقریباً نصف میٹر کھلا ہے جبکہ غار میں کھڑے ہوں تو سر چھت سے لگتا ہے۔ 


 غارِ ثَور کی اندرونی کیفیت

اس غار کے دو دروازے یعنی دو قدرتی دراڑیں ہیں، کہا جاتا ھے کہ کفار اُس دروازے پر پہنچے تھے  جس سے حضور اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ غار کے اندر داخل ہوئے تھے۔اس دروازے کی لمبائی ایک ہاتھ ہے اور چوڑائی صرف ایک بالشت ھے ۔ وہاں پر اب کوئی سوارخ وغیرہ تو نہیں ہے۔ اندرچھ سات آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ ھے 


غارِ ثور کی شرعی حیثیت

بلاشبہہ غارِ ثور ایک مبارک اور مقدس مقام ھے اس کی تاریخی حیثیت بھی مسل٘م ھے ۔ سیرت نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں غارِ ثور کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ اس غار کو رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی تین دن کی میزبانی کا عظیم شرف حاصل ھے اور اس دوران اس مقام پر وحی کا نزول بھی اس غار کی سعادت کو چار چاند لگا دیتا ھے  تاھم  یہ بھی جاننا ضروری ھے  کہ تمام  تر سعادتوں کے باوجود جو اس غار کو حاصل ھیں ، حج اور عمرہ کے کسی بھی احکام سے غارِ ثور کا کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے بالفرض اگر کوئی حاجی یا زائر کسی وجہ سے یا پھر قصداً  بھی یہاں نہیں جاتا تو اس پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ھے نہ ھی اس وجہ سے اُس کے حج یا عمرہ میں کوئی نقص پیدا ھوتا ھے

 جاری ھے۔۔۔۔

Share: