قسط نمبر (79) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 مکہ مکرمہ میں ایک جِنّ کی آواز کے بعد حضرت حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے کچھ اشعار

لَقَد خابَ قَومٌ غابَ عَنهُم نَبِيُّهُم

وَقَد سُرَّ مَن يَسري إِلَيهِم وَيَغتَدي

تَرَحَّلَ عَن قَومٍ فَضَلَّت عُقولُهُم

وَحَلَّ عَلى قَومٍ بِنورٍ مُجَدَّدِ

هَداهُم بِهِ بَعدَ الضَلالَةِ رَبُّهُم

وَأَرشَدَهُم مَن يَتبَعِ الحَقَّ يَرشُدُ

وَهَل يَستَوي ضُلّالُ قَومٍ تَسَفَّهوا

عَمىً وَهُداةٌ يَهتَدونَ بِمُهتَدِ

لَقَد نَزَلَت مِنهُ عَلى أَهلِ يَثرِبٍ

رِكابُ هُدىً حَلَّت عَلَيهِم بِأَسعَدِ

نَبِيٌّ يَرى ما لا يَرى الناسُ حَولَهُ

وَيَتلو كِتابَ اللَهِ في كُلِّ مَسجِدِ

وَإِن قالَ في يَومٍ مَقالَةَ غائِبٍ

فَتَصديقُها في اليَومِ أَو في ضُحى الغَدِ

لِيَهنِ أَبا بَكرٍ سَعادَةُ جَدِّهِ

بِصُحبَتِهِ مَن يُسعِدِ اللَهُ يَسعَدِ

ترجمہ

جس قوم کا نبی ان سے غائب تھا وہ یقیناً مایوس ہو چکی ہے۔

اور اس نے ان لوگوں کو خوش کیا جو ان کے پاس چل کر دوپہر کا کھانا کھاتے تھے۔

ان لوگوں کو چھوڑ دو جن کے دماغ بھٹک گئے ہیں۔

اور وہ ایک نئی روشنی کے ساتھ ایک قوم پر آیا

ان کے رب نے انہیں گمراہی کے بعد اس سے ہدایت دی۔

اور ان کی رہنمائی کرو جو حق کی پیروی کرتے ہیں۔

کیا بے وقوف قوم کی گمراہی برابر ہے؟

اندھا پن اور رہنمائی

میں نے اسے یثرب والوں پر نازل کیا۔

ہدایت کے مسافر سب سے زیادہ خوشی کے ساتھ ان پر اترے۔

ایک نبی وہ دیکھتا ہے جو اس کے آس پاس کے لوگ نہیں دیکھتے

اور وہ ہر مسجد میں خدا کی کتاب کی تلاوت کرتا ہے۔

اور اگر وہ اس دن غیر حاضر مضمون کہے۔

تو اس کی توثیق آج یا کل دوپہر میں کر دیں۔

ابوبکر کو دادا کی خوشیاں نصیب ہوں۔

اس کی صحبت میں، جو خدا کو خوش کرتا ہے وہ خوش ہوگا۔

(اس روایت کو مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم  نے مختلف اسناد کے ساتھ روایت کیا ھے)


 واقعۂ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ 

ہجرت کی رات جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ  بخیرو عافیت رات کے اندھیرے میں مکہ مکرمہ سے رخصت ہو گئے تو قریش مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو بے حد تلاش کیا۔ انہوں نے ہر طرف ادمی دوڑائے پورے علاقے کا چپہ چپہ چھان مارا حتی کہ قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے غار ثور تک پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم غار کے اندر موجود تھے اور غار کے منہ پر کھڑے تھے۔  ان کے کھوجی کہہ رہے تھے کہ اللہ کی قسم آپ کا مقصود اس غار سے آگے نہیں گیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی  عنہ ان کو دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر پریشان ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا کہ “غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے” ۔ جب مشرکین کو اپنے مقصد میں ناکامی ہوئی تو انہوں نے اعلان کروا دیا کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   اور حضرت ابوبکرصدیق  رضی اللہ تعالی عنہ  کو قتل کر دے گا یا انہیں زندہ پکڑ کر لائے گا اس کو سو اونٹ انعام دیا جائے گا۔ اس اعلان کا ہونا تھا کہ بہت سارے قبائل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ (جو ابھی تک مسلمان نہیں ھوئے تھے) اپنے قبیلہ بنی مدلج کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آکر ان سے کہا کہ میں نے ابھی ساحل کی طرف کچھ سیاہی دیکھی ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور ان کے ساتھی تھے۔ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کو یقین ہو گیا لیکن انعام کی طمع میں انہوں نے تردید کی کہ نہیں وہ لوگ نہیں ہیں۔ تم نے فلاں فلاں شخص کو دیکھا ہوگا جو ابھی ہمارے سامنے سے گزر کر گئے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد  حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بڑی ہوشیاری اور رازداری کے ساتھ مجلس سے اٹھے اور اپنی باندی سے کہا کہ میرا فلاں تیز ترین  گھوڑا تیار کرکے فلاں ٹیلے پر لے جاکر کھڑا کرو اور خود اپنا نیزہ وغیرہ لے کر گھر کے پچھلے راستے سے نکل کر وہاں پہنچ گئےاور گھوڑے کو سرپٹ دوڑا کر چند گھنٹوں کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے قریب پہنچ گئے۔ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  پر حملہ آور ہونے لگے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اللہ تعالی کی مدد و نصرت طلب فرمائی اور اس کے لئے بد دعا فرمائی۔ اسی وقت اس کا گھوڑا پتھریلی زمین میں گھٹنوں تک دھنس گیا اور اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا  حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے پکار کر عرض کیا یقینا تم دونوں کی بددعا سے ایسا ہوا ہے آپ دونوں حضرات اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ میرے گھوڑے کو آزادی ملے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ حضرات سے تعرض نہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے دعا فرمائی تو اسی وقت زمین نے گھوڑے کو چھوڑ دیا۔ لیکن دوسری دفعہ حضرت سراقہ رضی اللہ تعالی عنہ   نے اتنے بڑے انعام کا تصور کرتے ہوئے پھر حملہ کرنا چاہا اب پہلے کی نسبت ان کا گھوڑا زمین میں اور بھی زیادہ دھنس گیا اور پھر انہوں نے دوبارہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے دعا کی درخواست کی اور کہنے لگے کہ آپ میرا زادِ راہ اور سامان وغیرہ بھی لے لیں میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو کچھ نہ کہوں گا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے تعاقب میں آنے والے ہر شخص کو واپس بھیج دوں گا اور نہ ہی کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے متعلق اطلاع دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا ہمیں سامان وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے البتہ ہمارا حال کسی پر ظاہر نہ کرنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اس کے لئے دعا فرمائی اور اس کے گھوڑے کو آزادی مل گئی۔ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سمجھ گئے کہ یقینا اللہ تعالی کی غیبی مدد ونصرت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ ہے یقینا ایک نہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو لازمی غلبہ نصیب ہوگا اس لئے اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے عرض کیا کہ جب اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غلبہ دے گا اس وقت کے لئے مجھے امن نامہ یا معافی نامہ لکھ دیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی تعالی عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک چمڑے یا ہڈی پر امن نامہ لکھ کر دے دیا۔

حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ جب یہ تحریر لے کر واپس جانے لگے تو  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا ۔  سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کا وہ منظر بڑا دیدنی ہوگا جب سراقہ رضی اللہ عنہ کے  ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہونگے۔  حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ حیرت و استعجاب میں ڈوب گئے کے کہاں میں اور کہاں سپر طاقت فارس کا بادشاہ اور اس کے کنگن۔ بڑی حیرانی کے ساتھ سوال کیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کسریٰ بن ہرمز شاہ فارس کی بات کر رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے فرمایا ہاں ہاں اس دین کو اللہ تعالی اتنا غلبہ دے گا کہ کسریٰ بن ہرمز کے کنگن تجھے پہنائے جائیں گے۔ یہ پیشن گوئی سن کر حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ اپنے خیالوں میں گم واپس چلا گئے بلکہ راستے میں ملنے والے تمام لوگوں کو بتاتے چلے گئے کہ ادھر کوئی بھی نہیں ھے۔ ادھر سے میں دور دور تک تلاش کر کے واپس آ رہا ہوں۔  حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خبر کو چھپائے رکھا یہاں تک کہ آپ بخیر و عافیت مدینہ منورہ پہنچ گئے۔  

وقت اسی طرح گزرتا رہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے مدینہ منورہ میں ایک اسلامی ریاست قائم کر لی جنگ بدر ہوئی پھر جنگِ احد اور جنگِ خندق ہوئی۔ پھر آٹھ ہجری میں حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم فاتح مکہ بن کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔  قریشِ مکہ  لرزاں تھےکہ  اب  معلوم نہیں ہمارے ساتھ کیا بنے گا؟ لیکن رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اس موقع پر تاریخی اعلان فرمایا “جاؤ تم سب میری طرف سے آزاد ہو” ۔ بعدازاں جعرانہ کے مقام پر حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ وہ تحریر لے کر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں حاضر ہوئے ۔ صحابہ کرام نے حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ  کو بے تکلف آگے بڑھنے سے بار بار روکا۔ انہوں نے دور سے ہی ہاتھ بلند کرکے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم!   میں سراقہ بن مالک ہوں اور یہ میرے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا امان نامہ  ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے انہیں  قریب بلا لیا اور ان کے ساتھ انتہائی اچھا سلوک کیا حتیٰ کہ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کرلیا۔ 

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ساتھ  حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کی اس ملاقات کو تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا انتقال ہو گیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آ گیا پھر انکی بھی وفات ہوگئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا دورِ خلافت آیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت کے آخری دور میں ایران فتح ھوا اور بہت سارا مالِ غنیمت وھاں سے مدینہ منورہ لایا گیا۔جس میں کسری کا تاج ، اس کےقیمتی ملبوسات ، جواہرات سے جڑا ہوا اس کا سینہ بند اور اس کے سونے کے کنگن بھی تھے. اس طرح اتنی بڑی مقدار میں اتنا قیمتی سامان آیا کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  میں ایک بڑا ڈھیر لگ گیا۔ 

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس ڈھیر کو اپنے عصا کے ساتھ الٹ پلٹ کر فرماتے تھے جن لوگوں نے اتنا قیمتی مال بغیر کسی خیانت کے یہاں پہنچا دیا ھے یقینا وہ انتہائی امین اور دیانت دار لوگ ہیں۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ  وہ سارا مال غازیان اسلام میں تقسیم کرنے بیٹھے ایک ایک شخص حاضر ہوا آپ رضی اللہ تعالی عنہ  اسے مال و متاع دے رہے تھے یہاں تک کہ  حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کی باری آ گئی۔ادھر حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کی باری تھی اور ادھر حضرت  فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ  کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن آگئے۔  حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ  نے ارشاد فرمایا کہ  یا سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ لو یہ کنگن تمہارے حصے میں آگئے۔  حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے جونہی کنگن دیکھےتو آج سے کئی سال پہلے کی یاد تازہ ہو گئی۔  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی پیشن گوئی سامنے آ گئی اور حضرت سراقہ رضی اللہ تعالی عنہ  کے بےاختیار آنکھوں سے آنسو آگئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ  نے حیران ہو کر پوچھا کہ اس وقت رونے کا کیا سبب ہے؟ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے سارا واقعہ تفصیل کے ساتھ بتایا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ  بھی آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا اب ایسے نہیں۔ اپ رضی اللہ تعالی عنہ  نے  حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ  کو منبر پر بٹھایا اس کے ہاتھوں میں کنگن پہنائے سر پر کسری کا تاج رکھا اور فرمایا کہ ہاتھ بلند کرکے سب کو دکھاؤ اور اعلان کرو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے جو کچھ فرمایا تھا سچ ثابت ہوا  حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ منبر پر بیٹھے ہیں لوگ نعرہ تکبیر بلند کر رہے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ  حیرت ومسرت سے فرماتے ہیں کہ بنی مدلج کے ایک عام دیہاتی کے سر پر ایران کی بادشاہ کسریٰ کا تاج اور اس کے ہاتھوں میں کسری کے کنگن کا ھونا کوئی معمولی واقعہ نہیں ھے ۔  واقعی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے فرمان کے مطابق یہ منظر دیدنی تھا۔

حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ  کے عہدِ خلافت میں 24ھ میں وفات پائی


حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کا اسلام لانے سے پہلے ابوجہل کے روبرو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار

حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفرِ ھجرت میں جو واقعہ پیش آیا تھا جس میں اُن کے گھوڑے کی ٹانگیں پتھریلی زمین میں دھنس گئی تھیں یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا معجزہ تھا  بالکل اسی طرح  جیسے حضرت موسی علیہ السلام کا معجزہ ظاھر ھوا تھا اور قارون مع اپنی دولت کے زمین میں دھنس گیا تھا  حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے  مکہ مکرمہ میں یہ واقعہ ابوجہل کے روبرو درج ذیل الفاظ میں بیان کرتےھوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی نبوت کا کھلم کھلا اقرار کیا تھا حالانکہ حضرت سراقہ رضی اللہ تعالی عنہ اس وقت تک ابھی اسلام نہیں لائے تھے  

ابا حکم واللہ لو کنت شاھداً

لِامر جَوادی حین سلخت قوائمہ

علمت ولم تشکک بان محمد

نبی ببرحان فمن ذایُقاومُہٗ

ترجمہ

اے ابو حکم(ابو جہل) تو اگر اُس وقت حاضر ھوتا

کہ جب میرے گھوڑے کے قدم زمین پر دھنس رھے تھے

تو تو یقین کرتا اور ذرہ برابر بھی تجھے شک نہ رھتا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 

اللہ کے نبی ھیں دلائل اور براھین کے ساتھ

(فتح الباری)


سفرِ ھجرت کے دوران حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات

 جب رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے مدینہ منورہ کو ہجرت فرمائی تو اس وقت حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام گئے ہوئے تھے۔ جب وہ شام سے مکہ مکرمہ کی طرف واپس آرہے تھے تو رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  کے ہمراہ مدینہ منورہ کی طرف تشریف لے جا رہے تھے۔ حسنِ اتفاق سے راستہ میں حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ  کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے شرفِ نیاز حاصل ہو گیا۔ اس موقع پر انہوں نے حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ   کی خدمت میں کچھ سفید کپڑے ہدیۃً پیش کئے اور پھر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔   (بخاری)

تھوڑے ہی عرصہ بعد انہوں نے اپنی والدہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا  اور بیوی حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہا کے ہمراہ مدینہ منورہ کو ہجرت کی اور کچھ مدت قباء میں قیام پذیر رہے۔ وہیں ۱ ؁ھ میں (اور ایک دوسری روایت کے مطابق ۲ ہجری میں) حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہ   کے بطن سے حضرت عبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ  پیدا ہوئے جو ھجرت کے بعد مسلمانوں میں پہلی پیدائش تھی 


سفرِ ھجرت کے دوران رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ملاقات

حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے مکہ میں نہایت خاموش زندگی بسر کی اوراپنے تجارتی مشاغل میں مصروف رہے، چنانچہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وآصحابہ وسلم مدینہ تشریف لے جا رہے تھے،اس وقت وہ اپنے تجارتی قافلہ کے ساتھ ملکِ شام سے واپس آ رہے تھے، راستے میں ملاقات ہوئی، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ  نے ان دونوں حضرات کی خدمت میں کچھ شامی کپڑے پیش کیے اور عرض کیا کہ اہل مدینہ نہایت بے چینی اوراضطراب کے ساتھ  آپ لوگوں کا انتظار کر رہے ہیں، غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وآصحابہ وسلم نہایت عجلت کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف بڑھے اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے مکہ پہنچ کر اپنے تجارتی کاموں سے فراغت حاصل کی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  کے اہل و عیال کو لے کر مدینہ منورہ پہنچے، حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالی عنہ  نے ان کو اپنا مہمان بنایا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ  سے ان کا بھائی چارہ کرادیا۔


جاری ھے۔۔۔۔۔

Share: