قسط نمبر (80) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم


حضرت بریدۃ بن الحصیب الاسلمی رضی اللہ تعالی عنہ کا قصّہ 

 ہجرت کے اس سفر میں حضرت بریدۃ بن الحصیب الاسلمی رضی اللہ تعالی عنہ کے قبول اسلام کا اھم واقعہ بھی رونما ہوا، حضرت بریدۃ بن الحصیب الاسلمی رضی اللہ تعالی عنہ  اور ان کے قبیلے کے اسّی افراد کسی سفر سے واپس ہورہے تھے کہ کُراعُ الغَمِیْم کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا سامنا ہوگیا۔ حافظ ابن عبدالبرؒ نے الاستیعاب میں اس ملاقات کو اچانک ملاقات قرار نہیں دیا، بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ  اور ان کے رفقاء بھی سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ  کی طرح آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی تلاش میں نکلے تھے تاکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو پکڑ کر کفار کے حوالے کردیں اور سو اونٹ انعام میں حاصل کرلیں۔بہر حال جب ملاقات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ  سے سوال کیا : تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا میں بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ  ہوں، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا ہمارا کام تو ٹھنڈا اور اچھا ہوگیا۔ 

 بریدہ؛ برد سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں ٹھنڈا ہونا۔ یہ بات آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے بطور تفاول ارشاد فرمائی کہ گھبرانے کی یا پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ  سے مل رہے ہیں، ان شاء اللہ یہ ملاقات اچھی رہے گی۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان سے یہ بھی پوچھا تم کس قبیلے سے ہو؟ انہوں نے کہا قبیلہ بنو اسلم سے۔ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ   سے فرمایا : ہم سلامت رہے، یہ بات بھی آپ نے بطور تفاول ارشاد فرمائی، اس کے بعد آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے دریافت کیا : تم بنو اسلم کی کس شاخ سے تعلق رکھتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا بنو سہم سے، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: اے بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ  ! تمہارا حصہ نکل آیا، یعنی اسلام میں تمہارا حصہ بھی نکل آیا جو تمہیں ملنے والا ہے۔ بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ  نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا :آپ رضی اللہ تعالی عنہ  کون ہیں؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: میں محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم )بن عبداللہ، اللہ کا رسول ہوں۔

 یہ سن کر حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ  نے 

أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

 پڑھا اور مسلمان ہوگئے، ان کے ساتھ ہی اُن کے تمام اسّی رفقاء بھی مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ 

 قبولِ اسلام کے بعد انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا ایک جھنڈا ہونا چاہئے۔ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم مدینہ منورہ  میں داخل ہوں تو وہ جھنڈا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے آگے ہو، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اُن کی یہ تجویز پسند فرمائی، اپنا عمامہ اتار کر بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ  کو دیا، انہوں نے اسے اپنے نیزے پر باندھ لیا اور قافلے کے آگے آگے لے کر چلے۔ یہ قافلۂ اہل ایمان اس حال میں مدینے میں داخل ہوا کہ اسلام کا جھنڈا حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ  کے ہاتھ میں تھا اور وہ قافلے کے آگے چل رہے تھے۔ حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ  کے واقعات میں یہ بھی لکھا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد عشاء کی نماز کا وقت ہوگیا، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے جماعت سے نماز ادا فرمائی۔ بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ  اور ان کے تمام ساتھیوں نے بھی نماز ادا کی، بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے مدینے میں داخل ہونے سے پہلے عرض کیا: یارسولؐ اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میرے مہمان بن جائیں۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: یہ میری اونٹنی اللہ کی طرف سے مامور ہے، یہ جہاں ٹھہرے گی میں وہیں قیام کروں گا۔  بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ   کے قبولِ اسلام کا واقعہ بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ مدینے میں داخل ہونے سے پہلے ہی اللہ کی مدد اور نصرت کا ظہور شروع ہوگیا اور کامیابی ملنے لگی۔ ایک پورا قبیلہ بلکہ بڑا قبیلہ کسی دباؤ  اور محنت کے بغیر اسلام کے دامن سے وابستہ ہوگیا۔ (الاستیعاب،الوفاء.،  شرح المواہب

 حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ  نے اشاعتِ اسلام کی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی۔ حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ   نے اس واقعے کے پینسٹھ برس بعد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ   کے عہد خلافت میں خراسان میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔ 


مِن مُہانَانً  اِلی  مُکرمَان 

ذلیل وخوار سے مکرم و معزز

 ( سفرِ ھجرت میں دو ڈاکو  دولتِ اسلام سے مالا مال

رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  کے سفرِ ھجرت کی برکات کی کوئی انتہا ھی نہیں تھی  جہاں جہاں سے بھی اس مقدس  قافلے کا  گزر ھوا وھیں وھیں پر  یہ اپنی بے شمار برکتوں کا ظہور کرتا چلا گیا ۔ قدم قدم پر اللہ تعالی کی رحمت کے ایسے نظارے رونما ھوئے کہ شاید آسمان نے اس سے پہلے یہ نظارے نہیں دیکھے ھوں گے  اور جو بھی اس مقدس قافلے کے  راستے میں آ گیا وہ بھی ایک نہ ایک دن ھدایت پا گیا

جب یہ بابرکت قافلہ مدینے کے قریب ہوا تو دو ڈاکوؤں سے اس کا امنا سامنا ھو گیا ۔ ڈاکوؤں  کا کام ھی لوٹ مار کرنا ھوتا ھے لہذا وہ اپنے مشن پر تھے  ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے ملاقات ھوئی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ان دونوں کو اسلام کی دعوت دی، دونوں نے دعوت کو قبول کر لیا اور دونوں نے 

أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ 

کہا اور دائرۂ اسلام  میں داخل ھو گئے ، مسلمان ھونے کے بعد جب ان دونوں سے اُن کے نام دریافت کئے گئے تو  انہوں نے کہا کہ ہم “مُہانَانً “ کہلاتے ہیں، اس کے معنی ہیں “ذلیل و خوار”، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں! تم تو “مُکرمَان “ ہو، یعنی “مکرم و معزز”  ہو۔ (المجمع الزوائد

  یہ لوگ جب رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس آئے تھے تو ڈاکو تھے اور ذلیل و خوار  تھے اور جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زیارت کر لی تو اس قدر مکرم  و معزز ھو گئے کہ وہ نہ صرف یہ کہ صحابیت کے آعلی درجے پر فائز ھو گئے تھے بلکہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اُنہیں مکرم و معزز ھونے کا سرٹفکیٹ بھی عنایت فرما دیا تھا 


سفرِ ھجرت کی شاندار اور قابلِ رشک موت 

 وقائع ہجرت کا ایک اور ایمان افروز اور سبق آموز واقعہ تاریخ و سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اور صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنہم کی ہجرت کے بعد مکہ مکرمہ اہل ایمان سے تقریباً خالی ہوگیا تھا، صرف چند مسلمان باقی رہ گئے تھے، جو اپنے بڑھاپے، ضعف یا بیماری یا پھر غلامی کی وجہ سے ہجرت نہ کرسکے تھے، مکہ مکرمہ ھی میں  ٹھرنے والوں میں ایک صحابی حضرت ضمرۃ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے ماشاء اللہ بڑے خاندان والے تھے، خود ان کے چالیس بیٹے تھے، بھائی بھتیجے بھی بڑی تعداد میں تھے، جب ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ کافی بوڑھے ہوچکے تھے، اتنے بوڑھے کہ ان کے لئے سفر کرنا انتہائی مشکل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی ہجرت کے بعد مکہ مکرمہ کی فضا میں اُن کا دم گھٹنے لگا تھا، یوں بھی ہجرت کا حکم نازل ہونے کے بعد وہ مکہ مکرمہ  سے نکلنا اپنا فرض سمجھ رہے تھے، گو وہ اپنے اعذار کی وجہ سے اس حکم کی بجاآوری کے مکلف نہیں تھے۔ ایک روز انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میرے لئے دو قدم چلنا اگرچہ دشوار ہے، مگر میں یہاں مشرکین کے درمیان رہنا نہیں چاھتا، تم لوگ میری چارپائی اٹھا کر لے چلو اور اسی طرح مجھے مدینہ منورہ پہنچادو۔ بیٹے بھی والد کے فرماںبردار تھے، فوراً اپنے باپ کی چارپائی اٹھا کر چل دئیے، ابھی مکہ مکرمہ سے نکل کر تنعیم تک ہی پہنچے تھے کہ حضرت ضمرۃ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ  کی موت کا وقت آ پہنچا اور ہجرت کی آرزو دل میں لئے وہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے۔ ان کی وفات کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام نے اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت ضمرہ  رضی اللہ تعالی عنہ  کے انتقال کی خبر دی، قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ انہی صحابی کے بارے میں نازل ہوئی:

وَمَنْ يُّـهَاجِرْ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ يَجِدْ فِى الْاَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيْـرًا وَّسَعَةً ۚ وَمَنْ يَّخْرُجْ مِنْ بَيْتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَى اللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ ثُـمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَـعَ اَجْرُهٝ عَلَى اللّـٰهِ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا O (سورہ النساء)

اور جو کوئی اللہ کی راہ میں وطن چھوڑے وہ اس کے عوض بہت جگہ اور وسعت پائے گا، اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کر کے نکلے پھر اس کو موت پالے تو اللہ کے ہاں اس کا ثواب طے ہو چکا، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو جمع فرمایا اور انہیں حضرت ضمرہ رضی اللہ تعالی عنہ  کی ہجرت اور وفات کے بارے میں بتلایا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زبان مبارک سے وہ جملہ بھی نکلا جس سے امام بخاریؒ نے اپنی کتاب  “صحیح بخاری “ کا آغاز فرمایا ہے یعنی

 اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات 

’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے

(الاستیعاب )

ان صحابی کی خوش بختی کا کیا ٹھکانہ کہ ان کے بارے میں ایک آیت مبارکہ بھی نازل ہوئی اور ایک حدیث نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بھی ان کی نسبت سے مشہور ہوئی۔


واقعۂ ہجرت کی اہمیت

 ہجرت کا واقعہ اسلامی تاریخ کا عظیم ترین  واقعہ ہے، اگر اسے اسلام کی اشاعت کا نقطۂ آغاز قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا، ہجرت سے پہلے مسلمان مکہ مکرمہ کی وادیوں میں ظلم و ستم سہنے پر مجبور تھے، ہجرت کے بعد مدینہ منورہ پہنچے تو اسلام کے لئے یہ سرزمین نہایت سرسبز و شاداب بن گئی اور کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ اسلام کا وہ چاند جو فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا تھا یثرب کی بلندیوں پر جگمگانے لگا اور اقصائے عالم میں اس کی کرنیں ضیا پاشیاں کرنے لگیں، یہ صورت حال ہجرت کے واقعے سے پیدا ہوئی، بظاہر ہجرت کا مطلب یہ ہے کہ انسان مایوس، مجبور بلکہ مغلوب ہو کر ترک وطن کر رہا ھے، لیکن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور ان کے صحابہ کرامؓ کے لئے ہجرت کا سفر غلبہ و ظہور کی طرف پیش قدمی ثابت ہوا، جو دین مکہ مکرمہ میں مغلوب اور محصور تھا وہ مدینہ منورہ کی وسعتوں میں اتنا پھیلا کہ آج چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی وہ مسلسل پھیل رہا ہے، اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ اسلام دنیا کے ایک سو نوے ملکوں میں پھیلا ہوا ہے، ایک جائزے کے مطابق دنیا کا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے۔

 ھجرت کا یہ عظیم الشان واقعہ یقیناً اس قابل تھا کہ اسے ہمیشہ ہمیشہ بلکہ ہر لمحہ یاد رکھا جاتا، امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ  کے دورِ خلافت میں یہ طے ہوا کہ واقعہ ہجرت کو یادگار بنانے کے لئے اسلامی تقویم کی ابتدا ھجرت کے سال اور محرم کے مہینے سے کی جائے۔ اسلام سے پہلے عیسوی سال اور مہینوں سے تاریخ لکھی جاتی تھی، مسلمانوں میں تاریخ لکھنے کا دستور نہیں تھا، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ   نے جب کہ وہ بصرہ کے گورنر تھے حضرت عمر بن الخطاب  رضی اللہ تعالی عنہ  کو لکھا کہ آپ کی طرف سے مختلف علاقوں کے گورنروں اور فوجی کمانڈروں کو وقتاً فوقتاً خطوط لکھے جاتے ہیں، مگر ان پر کوئی تاریخ درج نہیں ہوتی، حالانکہ تاریخ لکھنے کے بے شمار فوائد ہیں، ریکارڈ کے لئے بھی خطوط پر تاریخ کا ہونا بے حد ضروری ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ  کو یہ خیال بے حد پسند آیا، مجلس شوریٰ تک بات پہنچی، غور و فکر ہوا، مختلف تجاویز سامنے آئیں، کسی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ عآلہ وسلم کی ولادت باسعادت سے اسلامی سال کے آغاز کا مشورہ دیا، کسی نے نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے سال سے آغاز کرنے کی تجویز رکھی، کسی نے رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی وفات سے نیا سال شروع کرنے کے لئے کہا۔ ایک جماعت کی رائے یہ تھی کہ ہجرت سے اسلامی سال کا آغاز ہو، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ  کو یہ آخری تجویز پسند آئی اور اسی پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ 

واقعۂ ہجرتِ اسلام اور مسلمانوں کے لئے نہایت اہمیت کا حامل واقعہ ہے۔ اس واقعے کے بعد مسلمانوں کو عروج ملا اور مسلمان عالمی سطح پر ایک بڑی طاقت بن کر ابھرے اور جس شہر سے انہیں نکلنے پر مجبور کیا گیا تھا اس شہر میں وہ فاتح بن کر دوبارہ داخل ھوئے 

اس تاریخی سفر میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جن سے صدق و وفا کے پیکر حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی بے مثال وفا، استقامت اور صبروتحمل کے نمونے نکھر کے سامنے آتے ہیں وہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات و عنایات اور فیاضی و سخاوت سے اپنے اور بیگانے جام بھرتے نظر آتے ہیں۔ یارانِ سفرِ ھجرت جہاں جہاں سے بھی گزرے خوشبوئیں بکھیرتے چلے گئے۔مدینہ منورہ والے بڑی بے چینی سے قافلۂ سفرِ ھجرت کا انتظار کر رھے ھیں ۔ چناچہ ایک نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے ہر شعبہ زندگی میں انقلاب آفرین تبدیلیوں کا دور آنے والا ہے۔نئی صبح کے اجالوں سے منظرنامہ تحریر ہو رہا ہے باطل کی کمر ٹوٹ رھی ھے اور حق کا سورج پوری آب و تاب سے طلوع ھو رھا ھے

وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُؕ-اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًاO


جاری ھے ۔۔۔۔۔

Share: