قسط نمبر (81) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

اہلِ مدینہ منورہ کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فقید المثال استقبال 

رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جیسی اتنی بڑی دولت جس کا اندازہ کرنا بھی ممکن نہیں اور نعمت عظمیٰ کی بد نصیب مشرکینِ قریشِ مکہ نے قدر نہ کی بلکہ انہیں مکہ معظمہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ اس کے برعکس مدینہ منورہ والوں کی یہ بہت بڑی خوش نصیبی ھے کہ اس نعمت کبریٰ کو مدینہ منورہ والوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ مدینہ منورہ والے شدت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زیارت کے منتظر تھے حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اپنے رفیق ہجرت کے ساتھ دو پہر کے وقت قباء کی بستی کے قریب پہنچے اور ایک ٹیلے کے پاس ٹھہرگئے۔یہاں کھجور کے ایک درخت کا سایہ تھا۔ قباء کے لوگوں کو خبر ہوئی تو وہ  حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے استقبال کے لئے بستی سے باہر آگئے


 قافلۂ ھجرت کی “قباء” میں تشریف آوری 

اہل مدینہ کو پہلے سے ھی اطلاع مل چکی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  مکہ مکرمہ سے روانہ ہوچکے ہیں، اس لئے تمام لوگ مرد و زن، بوڑھے بچے، جوان سب پلکیں بچھائے تشریف آوری کے منتظر تھے ۔  آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زیارت کا اس قدر شوق اہل مدینہ کے دلوں میں تھا کہ صبح ہوتے ہی وہ لوگ اپنے گھروں سے نکل پڑتے اور حرہ کی پہاڑی پر جا کر بیٹھ جاتے، سب کی آنکھیں اس راستے کو تکتی رہتیں جس راستے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو تشریف لانا تھا۔ یہ تمام لوگ اس وقت تک وہاں بیٹھے رہتے جب تک دھوپ ان کے سروں پر اپنا آنچل نہ ڈال دیتی۔ روزانہ  کا یہی معمول تھا، ایک دن جب کہ لوگ حرہ پہاڑی سے اتر کر اپنے گھروں میں واپس چلے گئے تھے، اچانک کسی یہودی کی آواز فضاؤں  میں بلند  ہوئی، وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا: اے بنی عوف!  “ تمہارے نصیب جاگ اٹھے، تمہارے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگئیں، تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  جن کا تم انتظار کر رہے تھے تشریف لے آئے۔”

 اتنا سننا تھا کہ سب لوگ وارفتگی کے عالم میں اُدھر دوڑ پڑے جدھر سے قافلہ آنے والا تھا۔ مدینہ منورہ کی فضائیں “نعرۂ تکبیر “ کی فلک شگاف نعروں  سے گونج اٹھیں، جو لوگ اپنے گھروں میں تھے وہ بھی نعروں کی آواز سن کر باہر نکل آئے، نئی دلہنیں اور نومولود بچوں کی مائیں تک چھتوں پر چڑھ کر یہ نظارہ دیکھنے لگیں۔

 جو لوگ مقام حرہ سے پہاڑی کے پیچھے دوڑے انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کھجور کے ایک درخت کے نیچے تشریف فرما ہیں، اکثر لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اس وقت تک دیکھا نہیں تھا؛ کیوںکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ بھی ساتھ تھے اور آپ بھی تقریباً حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہی کی عمر کے تھے، اور آپ پر بڑھاپے کے آثار زیادہ تھے اس لئے لوگ یہ نہیں جان پارہے تھے کہ ان دونوں میں ابوبکر  رضی اللہ تعالی عنہ کون ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کون ہیں۔ اچانک سروں پر دھوپ آئی، حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہ اپنی جگہ سے اٹھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے سر مبارک پر اپنی چادر تان کر کھڑے ہوگئےتب لوگوں کو معلوم ھوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  یہ ہیں۔ (البدایہ والنہایہ)

 حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہ روایت فرماتے ہیں کہ جب ہم لوگ مدینہ منورہ  آگئے تو لوگ راستوں پر نکل آئے اور اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے، غلاموں اور خادموں تک کی زبانوں پر یہ الفاظ تھے: 

اللہ اکبر، محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تشریف لے آئے، 

اللہ اکبر، اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)  آگئے۔ 

قبیلۂ بنی عوف کے نوجوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو دیکھتے ہی اپنی تلواریں اور نیزے اٹھا لائے اور اسلحہ کی چھاؤں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو لے کر آگے بڑھے، استقبال کا یہ منفرد اور دل فریب انداز تھا، نہ ایسا استقبال کسی کا پہلے ہوا اور نہ اس شان کے ساتھ کسی اور کا ہوگا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  قباء میں پہنچے تو دائیں جانب مڑ کر اس جگہ تشریف لے گئے جہاں قبیلۂ بنی عوف کے لوگ آباد تھے۔ اس قبیلے کے سردار کلثوم بن ہدم رضی اللہ تعالی عنہ بھی یہیں رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  وہاں پہنچ کر اپنی سواری سے اترے اور کلثوم بن ہدم رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان پر تشریف لے گئے، چودہ راتوں تک ( بعض روایات میں اس سے مختلف تعداد بھی آئی ھے )آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے انہی کے مکان پر قیام فرمایا، مشتاقانِ دید کا ہر وقت ہجوم لگا رہتا تھا، لوگ حاضر ھوتے، سلام اور مصافحہ کرتے اور ارشاداتِ عالیہ سے مستفید ہوتے۔ (صحیح البخاری) 

ابن قیم  رحمہ اللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی قباء آمد کا ذکر کرتے ھوئے کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی بنی عمرو بن عوف (ساکنان ِ قباء ) میں شور بلند ہوا اور تکبیر سنی گئی۔ مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی آمد کی خوشی میں نعرہ ٔ تکبیر بلند کرتے ہوئے استقبال کے لیے نکل پڑے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے مل کر تحیۂ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پیش کیا اور گرد وپیش پروانوں کی طرح جمع ہوگئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر سکینت چھائی ہوئی تھی اور یہ وحی نازل ہورہی تھی :

فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِ‌يلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ‌O

''اللہ آپ کا مولیٰ ہے اور جبریل علیہ السلام اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد فرشتے آپ کے مددگارہیں

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ  کا بیان ہے کہ یہ دوشنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ آنے والوں کے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم چپ چاپ بیٹھے تھے۔ انصار کے جو لوگ  آتے تھے، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو دیکھا نہ تھا وہ سیدھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو سلام کرتے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر دھوپ آگئی اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  نے چادر تان کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر سایہ کیا۔ تب لوگوں نے پہچانا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہیں

ادھر حضرت علی بن ابی طالب  رضی اللہ تعالی عنہ نے مکہ میں تین روز ٹھہر کر اور لوگوں کی جو آمانتیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس تھیں انہیں ادا کر کے پیدل ہی مدینہ کا رخ کیا اور قباء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے آملے اور کلثوم بن ہدم رضی اللہ تعالی عنہ کے یہاں قیام فرمایا

مسجد تقویٰ (قباء) کی تاسیس

 قباء میں جو یثرب ہی کا ایک محلہ تھا قیام کے دوران عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا جس طرح ہجوم ہوا اس علاقے کی تاریخ نے کبھی ایسا منظر نہ دیکھا تھا، بہت سے لوگ دور دراز علاقوں سے سفر کرکے وہاں پہنچتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زیارت کرتے، اسلام قبول کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دستِ مبارک پر بیعت کرکے واپس ہوجاتے۔ قباء  میں چودہ روزہ قیام کے دوران مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو خیال آیا کہ یہاں نماز ادا کرنے کے لئے ایک مسجد ہونی چاہئے، چنانچہ ایک مناسب جگہ پر مسجد کی بنیاد رکھی گئی، یہ مسجد اسلام کی سب سے پہلی مسجد ہے۔ قرآن کریم نے اس مسجد کو ’’مسجد تقویٰ‘‘ کے نام سے ذکر کیا ہے۔ قباء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے میزبان حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ تعالی عنہ تھے، انہوں نے ہی اپنی ایک قطعہ زمین مسجد کے لئے وقف کی تھی ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس کی بنیاد رکھی اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے ساتھ مل کر اس کی تعمیر میں حصہ بھی لیا۔ یہ پہلی مسجد ہے جس میں مسلمانوں نے علی الاعلان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ مکہ مکرمہ میں نماز  تو پڑھی جاتی تھی لیکن مشرکین کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے مسلمان چھپ کر نماز پڑھنے پر مجبور تھے۔ قبیلہ بنی عوف کی ایک خاتون حضرت شموس بنت نعمان رضی اللہ تعالی عنہا مسجد قباء کی تعمیر کے احوال پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم تشریف لائے، ہمارے پاس ٹھہرے اور مسجد کی بنیاد رکھی، اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو دیکھا، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس قدر بھاری پتھر اٹھا رہے ہیں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو سخت مشقت اٹھانی پڑ رہی ہے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پیٹ پر مٹی لگی ہوئی دیکھی، اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے اصحاب میں سے کوئی شخص تیزی سے آتا اور یہ عرض کرتا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر فدا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم یہ پتھر مجھے دے دیں، میں اٹھا کر وہاں پہنچا دیتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم فرماتے، نہیں! تم دوسرا پتھر اٹھا لو۔ اس طریقے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مسجد کی تعمیر فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم فرماتے تھے کہ مجھے جبریل علیہ السلام قبلے کا رخ بتلا رہے ہیں۔(مجمع الزوائد)

 قباء عربی میں کنویں کو کہتے ہیں، جہاں یہ مسجد واقع ہے وہاں اُس زمانے میں ایک کنواں ھوا کرتا تھا، اسی کنویں کی نسبت سے اس علاقے کا نام  قباء مشہور ہوا۔ (معجم البلدان) 

جس وقت مسجد تقوی (مسجد قباء) بن کر تیار ہوگئی تو قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی: 

ۚ لَّمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِيْهِ ۚ فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا ۚ وَاللّـٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ O

   ’’یقیناً وہ مسجد جس کی بنیاد اوّل ہی سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس میں (نماز کے لئے) کھڑے ہوں، اس میں ایسے لوگ ہیںجو پاکیزگی اور طہارت کوپسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی پاک رہنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔‘‘ (التوبہ)

 جس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اہل قباء سے دریافت فرمایا کہ تم لوگ طہارت اور پاکیزگی کے لئے کیا اہتمام کرتے ہو کہ حق تعالیٰ نے تمہاری صفائی، نظافت و طہارت کی مدح فرمائی ہے، انہوں نے عرض کیا کہ ہم ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے بعد پانی بھی استعمال کرتے ہیں۔

 (فوائد عثمانی، ترجمہ شیخ الہندؒ)


مسجد قباء کی فضیلت

 مسجد قباء میں نماز پڑھنے کی بڑی فضیلت وارد ھوئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص گھر سے نکل کر اس مسجد (مسجد قباء) میں آئے اور اس میں نماز  پڑھے اسے ایک عمرے کا ثواب ملے گا۔ (سنن ابن ماجہ،  المستدرک للحاکم)  

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو مسجد قباء بے حد عزیز تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اکثر اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے تشریف لایا کرتے تھے، کبھی پیدل چل کر اور کبھی سواری کے ذریعے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہر ھفتہ کو مسجد قباء میں پیدل یا سواری پر سوار ہو کر تشریف لایا کرتے تھے اور دو رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری ، صحیح مسلم )

ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سترہ رمضان المبارک کو بھی اس مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا بھی یہی معمول رہا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ  اور دوسرے حضرات صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم بڑی پابندی کے ساتھ مسجد قباء میں تشریف لاتے اور نماز ادا فرماتے۔ 

 مسجد کی تعمیر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو مسجد قباء کا امام  مقرر کیا اور مدینے تشریف لے گئے۔ تیرہ مہینوں کے بعد تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم دوبارہ یہاں تشریف لائے اور خانہ کعبہ کی سمت میں اس مسجد کی بنیاد رکھی۔ یہ مسجد آج تک اسی بنیاد پر موجود ہے، البتہ مختلف ادوار میں اس کی توسیع کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ تحویل قبلہ کے بعد جب یہ مسجد دوبارہ تعمیر کی جارہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جبریل علیہ السلام مجھے بیت اللہ کی سمت بتلا رہے ہیں۔ (الطبرانی فی الکبیر)  

 اس لئے کہا جاتا ہے کہ تمام مساجد میں سب سے زیادہ درست قبلے والی مسجد؛ مسجد قباء ہے۔ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس مسجد کی دوبارہ تعمیر کرائی، ان کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی تجدید کرائی، پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ  نے، جب وہ مدینہ منورہ کے گورنر تھے، اس کی توسیع کی، شمال کی طرف اس میں کچھ زمین کا اضافہ کیا اور اس پر ایک مینار بھی بنوایا۔ بعد میں بھی تعمیر، توسیع اور تزئین کا سلسلہ جاری رہا۔ حالیہ تاریخ میں سعودی حکومت نے خاصی بڑی اور خوبصورت نیز ضرورت اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق اس مسجد کی توسیع  کی، اب مسجد قباء  کا کل رقبہ تیرہ ہزار پانچ سو مربع میٹر ہوگیا۔


رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قباء  سے روانگی

 قباء میں چودہ دن ( یا کم و بیش) تک قیام کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   مدینہ منورہ  روانہ ہوئے، جمعہ کا دن تھا، چاشت کا وقت تھا، ابھی کچھ ہی دور چلے تھے کہ راستے میں جمعہ کی نماز کا وقت ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے بنو سالم بن عوف کے علاقے وادی رانونا میں کچھ دیرٹھہر کر قافلے میں شامل تمام مسلمانوں کے ساتھ نماز جمعہ ادا کی اور نماز سے قبل جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا۔ یہ ھجرت کے بعد اسلام کا پہلا جمعہ تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا اولین خطبہ تھا، چونکہ یہ پورا خطبہ تقوی کے موضوع پر ھی تھا اس لئے یہ خطبہ “خطبة التقوی “ کے نام سے معروف ھے 

“ حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب “سیرۃ المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   میں فرماتے ہیں کہ یہ وہ خطبہ ہے جس کا ہر لفظ دریائے فصاحت وبلاغت کی گہرائی میں ڈوبا ھوا ھے اور جس کا ہر حرف امراض نفسانی کیلئے شفا اور مردہ دلوں کیلئے آب حیات ہے اور جس کا ہر کلمہ ارباب ذوق کیلئے رحیق مختوم سے کہیں زیادہ شیریں اور لذیذ ھے ۔ لیجیے ملاحظہ کیجیے یہ عظیم الشان خطبہ ۔ 


“ھجرت کے بعد پہلا خطبہ “خطبۃ التقویٰ

الحمد للہ احمدہ واستعینہ واستغفرہ واستہدیہ واؤمن بہ ولا اکفر ہ واعادی من یکفرہ واشہد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ وان محمداً عبدہ ورسولہ ارسلہ بالھدی والنور والموعظۃ علی فترۃ عن الرسل وتلۃ من العلم وقرب من الاجل من یطع اللہ ورسولہ فقد رشد ومن یعصھما فقد غوی وفرط وضل ضلا لاًبعیداً اوصیکم بتقوی

اللہ فانہ خیر ما اوصی بہ المسلم المسلم ان یخصہ علی الاخرۃ وان یامرہ بتقوی اللہ فاحذروا ماحذرکم اللہ من نفسہ ولا الافضل من ذلک نصیحۃ ولا افضل من ذلک ذکری وان تقوی اللہ لمن عمل بہ علی وجل ومخافۃ من ربہ عون صدق علی ما تبتغون من امر الا خرۃ ومن یصلح الذی بینہ وبین اللہ من امرہ فی السروالعلانیۃ لاینوی بذلک الاوجہ اللہ یکن لہ ذکرا فی عاجل امری وذخرا فیما بعد الموت حین یفتقر المرأ الی ماقدم وماکان کان من سوی ذلک تود لو ان بینھا وبینہ امداً بعیداً یحذرکم اللہ نفسہ واللہ رؤف بالعباد والذی صدق قولہ انجز وعدہ لاخلف لذلک فانہ یقول مایبدل القول لدی وما انا بظلّا م للعبید فاتقواللہ فی عاجل امرکم واجلہ فانہ من یتق اللہ فی السر والعلانیۃ فانہ من یتق اللہ یکفر عنہ سیأتہ ویعظم لہ اجراً ومن یتق اللہ فقد فاز فوزاً عظیماً وا ن تقوی اللہ ویؤتی عقوبتہ ویوتی بحظکم ولا تفرطوا فی جنب اللہ قد علمکم اللہ کتابہ ونہج لکم سبیلہ لیعلم الذین صدقوا ولیعلم الکذ بین فاحسنوا کما احسن اللہ الیکم وعادوا اعدائہ واجتباکم وسماکم المسلمین لیھلک من ہلک عن بینۃ ویحیٰی من حی عن بینۃ ولا قوۃ الا باللہ فاکثروا ذکراللہ واعملوا لما بعد الیوم فانہ من یصلح مابینہ وبین اللہ یکفہ اللہ مابینہ وبین الناس ذلک بان اللہ

یقضی علی الناس ولا یقضون علیہ ویملک من الناس ولا یملکون منہ اللہ اکبر ولا قوۃ الا باللہ العظیم (کذافی البدایۃ والنہایۃ) ۔


اردو ترجمہ

الحمدللہ اللہ کی حمد کرتاہوں اور اسی سے اعانت ومغفرت اور ہدایت کا طلب گار ہوں اور اللہ پر ایمان رکھتا ہوں اس کا کفر نہیں کرتا بلکہ اسکے کفر کرنے والوں سے عداوت اور دشمنی رکھتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں جس کو اللہ نے ہدایت اور نور حکمت اور موعظت دیکر ایسے وقت میں بھیجا جب کہ انبیاء ورسل کا سلسلہ منقطع ہوچکا تھا اور زمین پر علم برائے نام تھا اور لوگ گمراہی میں تھے اور قیامت کا قرب تھا جو اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی اطاعت کرے اس نے ہدایت پائی اور جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی نافرمانی کی وہ بلا شبہ بے راہ ہوا اور کوتاہی کی اور شدید گمراہی میں مبتلا ہوا اور میں تم کو اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں اس لئے کہ ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان کو بہترین وصیت یہ ہے کہ اس کو آخرت پر آمادہ کرے اور تقویٰ پر ہیز گاری کا اس کو حکم کرے بس بچو اس چیز سے کہ اللہ  نے جس سے تم کو ڈرایا ہے ، تقویٰ سے بڑھ کر کوئی نصیحت و موعظت نہیں اور بلا شبہ اللہ کا تقویٰ اور خوف خداوندی آخرت کے بارے میں سچا معین اور مددگار ہے اور جو شخص ظاہر وباطن میں اپنا معاملہ اللہ کے ساتھ درست کرلے جس سے مقصود محض رضاء خداوندی ہو اور کوئی دنیوی غرض ومصلحت پیش نظر نہ ہو تو یہ ظاہر وباطن کی مخلصانہ اصلاح دنیا میں اس کیلئے باعث عزت وشہرت ہے اور مرنے کے بعد ذخیرۂ آخرت ہے کہ جس وقت انسان اعمال صالحہ کا غایت درجہ محتاج ہوگا اور خلاف تقویٰ امور کے متعلق اس دن یہ تمنا کرے گا کاش میرے اور اس کے درمیان مسافت بعیدہ حائل ہوتی اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی عظمت وجلال سے ڈراتے ہیں اور یہ ڈرانا اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ بندو ں پر نہایت ہی مہربان ہیں ، اللہ اپنے قول میں سچا اور وعدہ وفاکرنے والاہے ، ا ن کے قول اوروعدہ میں خلف نہیں مایبدل القول لدی وماانا بظلام للعبید پس دنیا اور آخرت میں ظاہر اور باطن میں اللہ سے ڈرو تحقیق جو شخص اللہ سے ڈرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کا کفارہ فرماتے ہیں اوراجر عظیم عطاء فرماتے ہیں اورجو شخص اللہ سے ڈرے تحقیق کہ وہ شخص بلاشبہ بڑاکامیاب ہوا اور تحقیق کہ اللہ کا تقویٰ ایسی شے ہے کہ اللہ کے غضب اور اس کی عقوبت اور سزا اور ناراضگی سے بچاتا ہے اور تقویٰ ہی قیامت کے دن چہروں کو روشن اور منور بنائے گا اور رضاء خداوندی اور رفع درجات کا وسیلہ وذریعہ ہوگا اور تقویٰ میں جس قدر حصہ لے سکتے ہو لے لو اور اس میں کمی نہ کرو اور اللہ کی اطاعت میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرو، اللہ تعالیٰ نے تمہاری تعلیم کیلئے کتاب اتاری اور ہدایت کا راستہ تمہارے لئے واضح کیا تاکہ صادق اور کاذب میں امتیاز ہوجائے پس جس طرح اللہ نے تمہارے ساتھ احسان کیا

 یہ پورا تفصیلی خطبہ تقوی کے موضوع پر ہے اور حدیث اور سیرت کی معروف کتابوں میں یہ پورا خطبہ لفظ بلفظ موجود ہے۔ صاحب سیرۃ المصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے یہ پورا خطبہ نقل  کرکے اس پر تبصرہ بھی کیا ہے کہ ’’یہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   کا پہلا خطبہ ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ہجرت کے بعد دیا، تیرہ سالہ مظلومانہ زندگی کے بعد جو خطبہ دیا جارہا ہے اس میں ایک حرف بھی اپنے دشمنوں کی مذمت اور شکایت کا نہیں، سوائے تقویٰ اور پرہیزگاری کے اور آخرت کی تیاری کے کوئی لفظ لسانِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے نہیں نکل رہا ہے، بے شک آپ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم کے مصداق تھے۔‘‘ (سیرۃ المصطفیٰ) 

وادی رانونا میں جہاں  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے نماز جمعہ پڑھائی اس مقام پر ایک مسجد بنائی گئی ھے جسے مسجد جمعہ، مسجد الوریٰ اور مسجد عاتکہ کہتے ہیں۔ حجاج کرام اور زائرین کرام  اس مسجد کی بھی زیارت کرتے ھیں اور یہاں نوافل ادا کرنے کا اھتمام کرتے ھیں 

جاری ھے ۔۔۔۔۔

Share: