قسط نمبر (87) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 مواخات (بھائی چارہ) اور اس کے فوائد

یہ بات تو کسی بھی شک و شبہہ سے بالاتر ھے کہ  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جیسی ھر لہاظ سے کامل اوصاف والی ھستی نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے پہلے کوئی آئی نہ ھی قیامت تک آئے گی . ھر موقع کی مناسبت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے جو فیصلے صادر فرمائے اُن کے دورس اور حیران کن  نتائج برآمد ھوئے ۔ اس کی سینکڑوں مثالیں تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں محفوظ ھیں 

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے اہم فیصلوں میں ایک  فیصلہ مواخات کا فیصلہ بھی ھے ۔ بلاشبہہ اسلامی اخوت کا ایک اہم اور مثالی مظہر مواخات ہے جس کا تذکرہ تقریباً سبھی سیرت نگاروں نے اپنی اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ عام طور پر مواخات کا ذکراس انداز سے کیا جاتا ہے کہ یہ محض انصار و مہاجرین کے درمیان بھائی چارہ پیدا کرنے کے لئے کیا گیا تھا جس کے نتیجہ میں ان دونوں طبقوں کے درمیان گہرا رشتہ اخوت استوار ہو گیا تھا۔ بعض سیرت نگاروں نے اس کے معاشی پہلو کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے عمل مواخات میں ملحوظ رکھا تھا۔

لیکن اگر مواخات کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے اور ان حالات و اسباب کے پس منظر میں اس پر سوچ بچار کی جائے جن میں یہ عمل وجود پذیر ہوا تھا تو اور بہت سے دوسرے پہلو بھی اجاگر ہوتے ہیں جن سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو فکر و بصیرت میں کس قدر وسعت و گہرائی عنایت فرمائی ھوئی تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں مواخات کا عمل دو مرتبہ پیش آیا ۔ پہلی مرتبہ ھجرت سے پہلے اسلام لانے والوں میں مکہ مکرمہ میں اور دوسری مرتبہ ھجرت کے بعد مدینہ منورہ میں مہاجرین اور انصار کے درمیان عملِ مواخات کو نافذ کیا گیا۔ 


مکہ مکرمہ میں عملِ مواخات 

 پہلی مرتبہ مکہ مکرمہ میں مواخات اسلام قبول کرنے والوں کے درمیان کرائی گئی، یہ مواخات ان لوگوں کے درمیان کرائی گئی تھی جو دولتِ ایمان سے مالا مال  تھے، ان میں زیادہ تر لوگ مکہ مکرمہ ہی کے رہنے والے تھے لیکن کچھ ایسے حضرات بھی تھے جو حبشہ، فارس اور دیگر دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔

مکی زندگی میں جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا خواہ ان کا تعلق سرزمین مکہ سے تھا یا بیرون مکہ سے، وہ مختلف قبائل اور گھرانوں کے ایک ایک دو دو افراد تھے۔ ان میں صاحب ثروت بھی تھے اور غریب و نادار بھی، قریش جیسے سیاسی و معاشی طور پر مستحکم قبیلہ کے لوگ بھی تھے اور دیگر نسبتا کمزور قبائل کے لوگ بھی تھے چونکہ وہ مختلف قبائل کے اکا دکا لوگ تھے اس لیے انہیں حلقۂ اسلام میں داخل ہونے کے خمیازہ کے طور پر اپنے ہی خاندان کی دشمنی مول لینا پڑی تھی۔ اپنےھی گھر والوں نے منہ موڑ لیا  تھا اور رشتہ دار اور احباب نہ صرف قطع تعلق کر لیتے تھے بلکہ سخت رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے خلاف ظالمانہ کاروائیاں کرنے لگتے تھے۔ قبائلی نظام میں خاندان کی سرپرستی اور ضمانت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ سرپرستی اور تحفظ کی ضمانت ختم ہو جائے تو اس سے جو خلا پیدا ہوتا ہے یا عدم تحفظ کا جو احساس ابھرتا ہے وہ بہت سے معاشرتی مسائل پیدا کرتا ہے۔ اس صورت حال میں یہ لوگ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگے تھے۔ مصائب و ابتلاء کے دور میں یہ احساس شدت سے ابھر رہا تھا کہ کوئی ان کا قریبی دوست ایسا ہوتا جس سے وہ حالِ دل کہہ سکیں ۔ کوئی ایسا شریکِ غم ہوتا جس کے سامنے اپنے غم کو ہلکا کر سکیں۔ خونی رشتوں کے منقطع ہوجانے کی وجہ سے جس انس و محبت اور تعلق کے فقدان کا احساس ہو رہا تھا وہ کسی طرح ختم ہو جائے۔

یہ ایک معاشرتی مسئلہ تھا جسے حل کرنا بہت ضروری تھا۔ اس کے ساتھ ایک دوسرا مسئلہ بھی درپیش تھا جو اس سے بھی زیادہ اہم تھا۔ وہ مسئلہ ان غلاموں کی تعلیم و تربیت کا تھا جو اسلام قبول کر کے مسلم معاشرہ کا حصہ بن گئے تھے لیکن علمی اور فکری طور پر بہت پیچھے تھے ، ان کی ذہنی سطح بھی بہت پست تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں معاشرہ میں کبھی بھی انسانیت کے مقام پر فائز نہیں سمجھا گیا تھا۔ نہ انہیں کبھی ایسے مواقع ہی مہیا کیے گئے تھے جس میں وہ علم و تربیت کی طرف متوجہ ہو سکتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم چاہتے تھےکہ غلاموں کی تمام صلاحیتوں کو اجاگر کر کے انہیں معاشرہ میں انسانیت کے قابل احترام مقام پر لایا جائے، تاکہ ان کی ان صلاحیتوں سے معاشرہ کو استفادہ کا موقع ملے جو اللہ تعالی نے ان میں ودیعت کر رکھی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان دونوں مسائل کو حل کرنے کے لئے اسلام قبول کرنے والے مسلم بھائیوں کے درمیان مواخات کرائی۔

محمد بن حبیب رحمہ اللہ نے مکہ مکرمہ کی مواخات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 

اخی بینھم علی الحق والمواساۃ وذلک بمکہ 

کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے باہمی ہمدردی و تعاون کی بنیاد پر مواخات کرائی اور یہ مکہ مکرمہ میں وقوع پذیر ہوئی تھی ۔ مکہ مکرمہ میں یہ مواخات مندرجہ ذیل صحابہ کرام کے درمیان کرائی گئی

سیدنا حمزہ  بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ 

اور زید بن حارثہ  کے درمیان۔


سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ 

اور سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے مابین۔


سیدنا عثمان غنی  رضی اللہ عنہ 

اور سیدنا عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کے درمیان۔


سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ 

اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان۔


سیدنا عبیدہ بن الحارث رضی اللہ عنہ 

اور سیدنا  بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کے مابین۔


سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ 

اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے مابین۔


سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ 

اور سیدنا سالم  رضی اللہ عنہ  کے درمیان۔


سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ 

اور سیدنا طلحہ  رضی اللہ عنہ کے مابین

جب مواخات کا عمل مکمل ھو گیا تو اس موقع پر سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان لوگوں کے درمیان تو مواخات کرادی، میں رہ گیا ہوں، میرا بھائی کون ہوگا؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا کہ میں صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم تمہارا بھائی ہوں۔ سیدناعلی رضی اللہ تعالی عنہ تو پہلے ہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہی ان کی کفالت فرمایا کرتے تھے اس لیے شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان کے لیے یہ ضرورت محسوس نہ کی ہو، بہر حال  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے یہ فرما کر کہ میں تمہارا بھائی ہوں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی دلجوئی فرمائی۔


مدینہ منورہ میں عملِ مواخات

دوسری مرتبہ مواخات مدینہ منورہ میں ہجرت کے تقریبا پانچ ماہ بعد انصار و مہاجرین کے مابین کرائی گئی۔ اس مواخات کا آغاز سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر سے ہوا۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر پر جو مواخات منعقد ہوئی اس میں ان انصار و مہاجرین کو آپس میں بھائی بھائی بنایا گیا جو اس وقت وہاں موجود تھے۔ بعد میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا چنانچہ جو لوگ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کسی نہ کسی انصاری کا بھائی بنا دیتے۔ مورخین اور سیرت نگار پنتالیس اور پچاس مہاجرین کا ذکر کرتے ہیں جنہیں اتنے ہی انصار کے ساتھ اس رشتہ میں وابستہ کر دیا گیا، اس طرح تقریبا پچاس مہاجر خاندان پچاس انصار خاندانوں کے ساتھ رشتہ مواخات میں منسلک ہو گئے۔

بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پنتالیس یا پچاس مہاجرین اور پنتالیس یا پچاس انصار وہ تھے جن کے درمیان اجتماعی طور پر سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر میں مواخات کرائی گئی تھی۔ بعد میں اکادکا خاندان آتے رہے اور ان کے درمیان بھی یہ عمل کرایا جاتا رہا، اس لیے کہ تاریخ و سیرت کی کتب میں اس سے کہیں زیادہ اسمائے گرامی ملتے ہیں جن کے مابین مواخات کرائی گئی تھی۔

ابن ہشام رحمہ اللہ نے سولہ مہاجرین اور سولہ انصار کے ناموں کا تذکرہ کیا ہے۔ بلا ذری رحمہ اللہ نے “انساب الاشراف “میں بائیس انصار اور بائیس مہاجرین کے ناموں کا ذکر کیا ہے۔ البتہ وہ بعض مورخین کی اس رائے کا ذکر بھی کرتے ہیں کہ انصار و مہاجرین میں کوئی بھی ایسا نہیں بچا تھا جو سلسلہ مواخات میں منسلک نہ کر دیا  گیا ھو۔  یہ رائے زیادہ صائب معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ جن مقاصد کے حصول کے لیے مواخات کرائی گئی تھی ان کے لیے سب ہی کا اس میں شریک ہونا ضروری تھا۔

سیرت نگاروں اور مورخین نے ان انصار و مہاجرین کے ناموں کو جمع کیا ہے جن کے مابین مواخات کروائی گئی تھی ۔ ابن حبیب رحمہ اللہ نے چھپن انصار اور چھپن مہاجرین کے نام ذکر کیے ہیں۔  ابن سید الناس رحمہ اللہ نے پنتالیس انصار اور پنتالیس مہاجرین کے ناموں کا احاطہ کیا ہے۔کچھ ناموں میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ اگر تمام ناموں کو اکھٹا کیا جائے تو تقریبا پینسٹھ انصار اور پینسٹھ مہاجرین کے اسمائے گرامی ملتے ہیں۔ اس طرح کل ایک سو تیس انصار و مہاجرین کے ناموں کو مورخین نے محفوظ کیا ہے جن کے درمیان مواخات کرائی گئی۔ کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے اسمائے گرامی نیچے دیے جارہے ہیں:

١: سیدنا ابو بکر صدیق -- سیدنا خارجہ بن زید بن ابی زہیر

٢: سیدنا عمر فاروق -- سیدنا عتبان بن مالک

٣: سیدنا عبدالرحمن بن عوف--سیدنا سعد بن الربیع

٤: سیدنا عثمان بن عفان--سیدنا اوس بن ثابت

٥: سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح--سیدنا سعد بن معاذ

٦: سیدنا زبیر بن العوام --سیدنا سلمہ بن سلامہ

٧: سیدنا مصعب بن عمیر-- سیدنا ابو ایوب خالد بن زید

٨: سیدنا عمار بن یاسر-- سیدنا حذیفہ بن الیمان

٩: سیدنا ابو حذیفہ بن عتبہ-- سیدنا عباد بن بشر

١٠: سیدنا بلال بن رباح--سیدنا ابو رویحہ عبداللہ بن عبدالرحمن الخشعمی

١١: سیدنا عبیدہ بن الحارث بن المطلب--سیدنا عمیر بن الحمام اسلمی

١٢: سیدنا سلمان الفارسی--سیدنا ابو الدرداء

١٣: سیدنا سعد بن ابی وقاص--سیدنا سعد بن معاذ

١٤: سیدنا عثمان بن مظعون-- سیدنا ابو الہیثم بن التہان

١٥: سیدنا ارقم بن الارقم--سیدنا طلحہ بن زید بن سہل

١٦: سیدنا علی بن ابی طالب--سیدنا سہل بن حنیف

١٧: سیدنا زید بن الخطاب--سیدنا معن بن عدی

١٨: سیدنا عمر و بن سراقہ-- سیدنا سعد بن زید

١٩: سیدنا عبداللہ بن مظعون-- سیدنا قطبہ بن عامر

٢٠: سیدنا شماع بن وھب          --سیدنا اوس بن خوالی

٢١: سیدنا عبداللہ بن جحش -- سیدنا عاصم بن ثابت بن ابی افلح

٢٢: سیدنا ابو سلمہ بن عبدالاسد-- سیدنا سعد بن خیشمہ

٢٣: سیدنا طفیل بن الحارث --سیدنا مقدر بن محمد

٢٤: سیدنا سالم مولی ابی حذیفہ--سیدنا معاذ بن ماعص

٢٥: سیدنا خباب بن الارت--سیدنا جبار بن صحر

٢٦: سیدنا صہیب بن سنان-- سیدنا حارث بن الصمہ

٢٧: سیدنا عامر بن ربیعہ الغزی--سیدنا یزید بن المقدر

٢٨: سیدنا سعید بن زید بن عمرو-- سیدنا رافع بن مالک

٢٩: سیدنا وھب بن سرخ          --سیدنا سوید بن عمرو

٣٠: سیدنا معمر بن الحارث--سیدنا معاذ بن عفراء

٣١: سیدنا عمیر بن ابی وقاص-- سیدنا عمر بن معاذ

٣٢: سیدنا زید بن حارثہ--سیدنا اسید بن حضیر

۳۳:   سیدنا صفوان بن بیضاء    سیدنا رافع   بن معلی 

۳۴:  سیدنا مقداد  سیدنا عبداللہ بن رواح 

۳۵: سیدنا ذوالشمالین  سیدنا یزید  بن الحارث

۳۶:  سیدنا عاقل بن بکیر سیدنا مبشر بن عبدالمنذر

۳۷: سیدنا خنیس بن حذافہ  سیدنا منذر بن محمد

۳۸:   سیدنا سرہ بن ابی رہم  سیدنا عبادہ بن الخشخاس 

۳۹:  سیدنا  مسطح بن اثاثہ سیدنا زید بن المرین 

۴۰: سیدنا عکاشہ بن محصن  سیدنا مجذر  بن ومار

۴۱:   سیدنا عامر بن فہیرہ    سیدنا حارث  بن صمہ

رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین

مسلمان کے اجتماعی مسائل کے حل کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زندگی میں تین اصول نمایاں طور پر نظر آتے ہیں:-

 باقاعدہ منصوبہ بندی

ترجیحات کا تعین 

حصول مقاصد کے لیے عملی جدوجہد

مواخات کا عمل بھی آپ کی منصوبہ بندی کا حصہ تھا اور ہجرت کے بعد ترجیحات میں سرفہرست تھا۔ مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد سب سے اہم مسائل مدینہ منورہ کا دفاع اور مہاجرین کی آبادکاری تھے۔ دفاعی سلسلہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے جہاں اور بہت سے اقدام کیے ان میں ایک اہم قدم امت مسلمہ کی وحدت اور یکجہتی بھی تھا۔


مواخات کے مقاصد

عملِ مواخات صرف بھائی چارے تک ھی محدود نہیں تھا بلکہ اس کے بہت سے اور بھی مقاصد تھے جن میں سے چند مندرجہ ذیل ھیں 

امت مسلمہ کی وحدت اور یکجہتی

ہجرت سے قبل مدینہ منورہ خانہ جنگی کا شکار تھا، شہر مدینہ جو چھوٹی چھوٹی بہت سی آبادیوں کا مجموعہ تھا۔ مختلف جنگی قبائل میں بٹا ہوا تھا۔ یہاں کی باہمی جنگوں میں عبداللہ بن اُبی بن سلول نے اپنے آپ کو کسی حد تک غیر جانب دار رکھ کر اس بات کے لیے راہ ہموار کر لی تھی کہ مدینہ منورہ کے عرب و یہودی قبائل اسے اپنا لیڈر تسلیم کر لیں اور اسے مدینہ کا حکمران مان لیں تاکہ وہ اس خطہ میں امن قائم کرے۔ کچھ قبائل جو خانہ جنگی سے تنگ آئے ہوئے تھے، اسے حکمران بنانے پر تیار ہو گئے تھے۔ چنانچہ عبداللہ بن اُبی نے اپنی تاج پوشی کے لیے تیاریاں بھی شروع کر دی تھیں۔ ہجرت کی وجہ سے اس کا حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ شاید اسی وجہ سے عبداللہ بن اُبی کا رویہ شروع سے معاندانہ رہا۔ وہ کھل کر ظاہر طور پر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور مسلمانوں کی مخالفت نہ کر سکا لیکن خفیہ طور پر امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع اس نے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔


تہذیبی فرق کا خاتمہ

مہاجرین جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو انصار اور مہاجرین میں جو تہذیبی فرق تھا رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی بن سلول  اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ مکہ مکرمہ سے آنے والے مہاجرین کا تعلق عدنانی عربوں سے تھا۔ یہ لوگ مکہ مکرمہ اور حجا زکے صحرائی علاقوں میں آباد تھے۔ ان کی تمام عادات و اطوار میں صحرائی اقوام کے اثرات تھے۔ صحرا کی آزاد اور بدویانہ زندگی کے یہ لوگ دلدادہ تھے، ان کی تہذیب و تمدن اور رسوم و رواج میں صحرائی تہذیب ہی رچی بسی ہوئی تھی۔ صحرا کی آزادانہ زندگی کے ساتھ ہی اہل مکہ نے اپنا شہری نظام وضع کر لیا تھا اور معاش کے لیے تجارت اور شکار پر بھروسہ کرتے تھے۔ تجارت کو انہوں نے زیادہ بہتر طور پر منظم کر لیا تھا۔

انصار میں زیادہ تر اوس اور خزرج کے قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ یہ افراد صدیوں سے زراعت پیشہ چلے آرہے تھے۔ مدینہ منورہ میں آباد ہونے سے قبل یہ لوگ یمن میں آباد تھے۔ وہاںبھی زراعت اور کاشت کاری ہی ان کا پیشہ تھا۔ یمن میں آباد عربوں نے زراعت میں بہت ترقی حاص کر لی تھی۔ انہوں نے اپنی زمینوں کی آباد کاری کے لیے ایک عظیم الشان بند تعمیر کیا تھا جو تاریخ میں سدمآرب کے نام سے مشہور ہے۔ پانی کی کثرت اور زرخیر زمینوں کی وجہ سے یہ لوگ خوشحال تھے۔ قرآن حکیم میں بھی ان کی خوشحالی اور زراعت کی طرف سے اشارہ اور ان کے تعمیر کردہ بند مآرب کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ بند بعد میں ایک طوفانی سیلاب سے تباہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے زبردست سیلاب آیا اور اہل یمن کے بہت سے زراعت پیشہ لوگوں کو ترک وطن کرنا پڑا۔ یہ لوگ یمن سے نکلے تو ایسی جگہوں پر جا کر آباد ہوئے جہاں زمینیں قابل کاشت تھیں اور آپ پاشی کے لیے پانی موجود تھا۔ ان میں کچھ لوگ مدینہ منورہ آکر آباد ہوگئے اور یہاں زراعت میں مصروف ہو گئے۔ ان لوگوں کی تہذیب و ثقافت میں متمدن اور متمول قومون کے اثرات تھے۔ ان کی تہذیب زرعی تہذیب تھی جو صحرا کی تہذیب و تمدن سے مختلف تھی۔ مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد ان دو تہذیبوں کا اجتماع ہو گیا تھا۔ ایک صحرائی تہذیب تھی تو دوسری کا تعلق زرعی تہذیب سے تھا۔ عبداللہ بن اُبی اور اس کے معاونین اس تہذیبی اختلاف سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لیے جو منصوبہ بندی فرمائی تھی اس کا ایک حصہ یہ تھا کہ انصار و مہاجرین کے مابین اس تہذیبی اختلاف کو جلد از جلد ختم کیا جائے، اور کسی گروہ کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ وہ اس اختلاف سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھائے۔ چنانچہ مواخات کے عمل کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ انصار و مہاجرین مل جل کر ایک ساتھ رہیں، ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھیں اور ایک دوسرے کی اچھی عادات و اطوار کو اپنائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے تعلیم و تربیت کے ذریعہ سے ان حضرات کا عقیدہ اس قدر مضبوط کر دیا کہ اس کی بنیاد پر ایک نئی تہذیب وجود میں آنے لگی اور انصار و مہاجرین کے مابین تہذیبی اختلاف بتدریج ختم ہو گیا۔ عبداللہ بن اُبی اور اس کے گروہ کے علاوہ یہودی بھی اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کے درمیان باہمی نسلی تعصب کو ابھار کر یا مقامی اور غیر مقامی کا مسئلہ اٹھا کر ایک دوسرے سے لڑادیا جائے۔ لیکن منافقین اور یہودیوں کی یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اس چیز کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا، چنانچہ آپ نے مواخات کرا کے منافقین کی اس قسم کی سازشوں کا سد باب کر دیا۔


آزاد شدہ غلاموں  کی ذہنی و فکری تعلیم و تربیت 

مواخات اولی ہو یا مواخات ثانیہ، اس منصوبہ کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ اس کے ذریعہ سے موالی (آزاد شدہ غلام) کی ذہنی و فکری تعلیم و تربیت کا ایسا اہتمام کیا جائے کہ وہ لوگ جو صدیوں سے ذہنی و فکر پستی کا شکار چلے آرہے تھے، انہیں آزاد لوگوں کے ہم پلہ کیا جائے اور غلامی نے جو ان کی فکر اور نفسیات کو متاثر کیا ہوا تھا، وہ ختم ہو جائے تاکہ یہ لوگ بھی معاشرہ میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔

غلامی کی تاریخ پر نظر رکھنے والے افراد اچھی طرح جانتے ہیں کہ جن لوگوں کے ساتھ مال و متاع کے جیساسلوک کیا جاتا ہو اور جو آزاد فکری سے محروم رکھے گئے ہوں ان کی ذہنی و فکری سطح کس قدر پست ہو جاتی ہے۔ جدید دور میں بھی بھارت میں ایسے گروہ ملتے ہیں جنہیں نیچی ذات قرار دے کر دھتکار اور نسلی طور پر کمتر قرار دیا جاتا ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوتا ہے اس وجہ سے یہ زیادہ تر احساس کمتری کا شکار اور ذہنی و فکری اعتبار سے بہت پیچھے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو سامنے رکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو جسمانی طور پر غلام چلے آرہے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو ان آزاد شدہ غلاموں کی تعلیم و تربیت کی بہت فکر تھی۔ آپ چاہتے تھے کہ یہ لوگ احساس کمتری کے جال سے نکل آئیں اور فطرت نے انہیں جو صلاحیتیں عطا کی ہیں انہیں اجاگر کیا جائے تاکہ یہ لوگ بھی اس قابل ہو جائیں کہ وہ کردار ادا کر سکیں جو قائدانہ صلاحیت رکھنے والے آزاد لوگ انجام دے رہے تھے۔

موالی کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان میں سے کچھ کو ایسے لوگوں کے ساتھ مواخات میں منسلک کیا تھا جو قریش میں نمایاں قائدانہ صلاحیتوں کے مالک تھے مثلا سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدناعبیدہ بن الحارث رضی اللہ تعالی عنہ کا بھائی بنا دیا گیا۔ سیدنا سالم مولی ابی حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بھائی بنایا گیا۔ مدنی مواخات میں سیدنا سالم رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کا بھائی بنایا گیا۔ سیدنا صہیب بن سنان رضی اللہ تعالی عنہ سیدناحارث بن الصم رضی اللہ تعالی عنہ کے بھائی قرار پائے، سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا جبار بن صحر رضی اللہ تعالی عنہ کے بھائی بن گئے۔ اور  سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ، سیدنااسید بن حضیر رضی اللہ تعالی عنہ کے بھائی قرار پائے۔ان حضرات میں آزادی اور مساوات کی بنیاد پر آزاد لوگوں کی صحبت میں رہنے اور ان کے ساتھ افکار و خیالات کا تبادلہ کرنے سے نفسیاتی طور پر زبردست تبدیلی آئی، ان کی ذہنی و فکری سطح بلند ہوئی اور غلامی کے اثرات دھل گئے، ان کے عزائم اور طبیعت میں قائدین کا سا ولولہ پیدا ہو گیا، خیالات میں وسعت و بلندی پیدا ہوئی اور بہت جلد یہ لوگ اعلی درجہ کی قائدانہ صلاحیتوں کے مالک بن گئے۔ سیدنا ابو حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام کا مقام تو اس قدر بلند ہوا کہ اس کا اندازہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے اپنی وفات کے وقت سیدنا سالم رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’کاش اگر آج سالم مولی ابی حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ زندہ ہوتے تو میں انہیں مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کر دیتا۔

سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ان الفاظ سے انداہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیدنا سالم رضی اللہ تعالی عنہ میں کس قدر تبدیلی آگئی تھی کہ وہ بہت سے آزاد اور نمایاں حیثیت رکھنے و والوں سے بھی سبقت لے گئے تھے۔ منصب خلافت کوئی معمولی عہدہ نہ تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے میں سیدناسالم رضی اللہ تعالی عنہ میں وہ تمام صلاحیتیں پیدا ہو گئی تھیں جو اس عظیم الشان منصب کے لیے ضروری ہیں۔ نو آزاد غلاموں میں اتنا بڑا انقلاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی کامیاب منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔ اسلامی نظام زندگی ہی یہ عظیم الشان انقلاب پیدا کر سکتا تھا۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بعد بھی یہی اسلامی روح کار فرما نظر آتی ہے۔ موالی کو اسلامی معاشرہ میں وہ تمام سہولیتیں میسر تھیں جو کسی بھی آزاد فرد کو حاصل ہوسکتی تھیں۔ سہولتوں سے زیادہ اہم مسئلہ معاشرہ میں ان کے ساتھ سلوک اور طرز عمل کا ہے۔ اسلامی معاشرہ میں ان کے ساتھ باعزت سلوک ہوتا تھا، ان کی عزت نفس اور وقار کا پورا پوا خیال رکھا جاتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ علم و فکر کے میدان میں موالی نے شاندار خدمات انجام دیں۔ چند مثالوں سے اندازہ کیا جا سکتاہے کہ مسلم معاشرہ میں انہیں کیا مقام حاصل رہا او ر انہوں نے کس طرح اپنا کردار ادا کیا۔ مثلا مدینہ منورہ میں سیدنا نافع مولی عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ، امام مالک رحمہ اللہ کے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں عطاء بن رباح رحمہ اللہ  ، یمن میں طائوس بن کیسان رحمہ اللہ ، بصرہ میں حسن البصری رحمہ اللہ ، خراسان میں ضحاک بن مزاحم رحمہ اللہ ، شام میں امام مکحول رحمہ اللہ ، مصر میں یزید بن حبیب رحمہ اللہ ، جزیرہ میں میمون بن مہران رحمہ اللہ  وغیرہ اور اسی طرح مجاہد بن جبیر رحمہ اللہ ، سعید بن جبیر رحمہ اللہ ، عکرمہ مولی عبداللہ بن عباس، وہ حضرات ہیں جو علم حدیث اور علم تفسیر کے ائمہ شمار ہوتے ہیں اور ان کے بغیر علم حدیث اور علم تفسیر کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ بڑے بڑے حکمران اپنے بچوں کو حصول علم کے لیے ان کے پاس بھیجنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ مجاہد بن جبیر رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے تین مرتبہ قرآن کریم پڑھا، تین مرتبہ تو اس طرح پڑھا کہ ایک ایک آیت پر رک رک کر اس کی تفسیر کی وضاحت معلوم کی اور مقام و کیفیت نزول کے بارے میں علم حاصل کیا۔ ابوزناد عبدالرحمن بن ذکوان موالی رحمہ اللہ  میں سے تھے، یہ بھی امام مالک رحمہ اللہ  کے اساتذہ میں رہے، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ  نے انہیں عراق میں وصولی خرج کا افسر اعلی مقرر فرمایا تھا۔ عبدالملک بن الماجیشوں بنو تمیم رحمہ اللہ  کے موالی میں سے تھے، علم فقہ میں ان کا اہم مقام تھا۔ شرجیل بن سعد رحمہ اللہ  بھی آزاد کردہ غلام تھے، سیرت و فتاوی میں ان کو بلند مقام حاصل ہے۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ  نے جمع تدوین حدیث و آثار پر بڑا کام کیا ہے۔ ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ ابتدا میں غلام تھے بعض نے انہیں انصار کا غلام لکھا ہے، وہ اپنے دور کے سب سے بڑے عالم تھے، بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں، ان میں سب سے زیادہ شہرت کتاب الاموال کو حاصل ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہو ا کہ مواخات کے عمل نے آزاد غلام کے درمیان فرق کو ختم کر کے نفسیاتی طور پر موالی کی تعلیم وتربیت کے لیے بہترین ماحول مہیا کر دیا تھا۔


معاشی مسائل کا حل 

مواخات کا ایک پہلو معاشی مسائل کا حل بھی تھا۔ مہاجرین مکہ مکرمہ سے ترک وطن کر کے مدینہ منورہ آئے تو یہ لوگ اپنا تمام مال و متاع مکہ مکرمہ چھوڑ آئے تھے۔ مدینہ منورہ میں ان کی آباد کاری کا مسئلہ تھا، نیز شہر مدینہ کے وسائل محدود تھے، چند سو مہاجرین کی آمد سے یہاں معاشی مشکلات بڑھ گئیں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ان مسائل کو احسن طریقہ پر حل کرنا چاہتے تھے، چنانچہ انصار و مہاجرین کے درمیان مواخات کے ذریعہ سے غریب مہاجرین کو وقتی طور پر انصار کے اموال میں شریک کر دیا گیا اور وفات کی صورت میں ایک دوسرے کی وراثت میں بھی شریک قرار دیے گئے۔ اس عمل کا فوری طور پر اقتصادی فائدہ یہ ہوا کہ بے خانماں مہاجرین کی آباد کاری کا مسئلہ حل ہو گیا۔


معاشی وسائل کی وسعت 

مدینہ منورہ کے معاشی وسائل کو وسعت دینا بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے منصوبہ کا حصہ تھا۔ اہل مدینہ (اوس و خزرج) زراعت پیشہ لوگ تھے۔ ان کی ساری معاشی جدوجہد زراعت تک محدود تھی، تجارت اور اس کے اصول و ضوابط سے یہ لوگ ناواقف تھے۔ مدینہ منورہ میں تجارتی سرگرمیاں محدود تھیں، ان پر بھی مکمل طور پر یہودیوں کا قبضہ تھا۔اوس و خزرج کے لوگ عام طو پر یہودیوں کے مقروض رہتے تھے، یہودی انہیں سود پر قرضہ دیا کرتے تھے۔ عمل مواخات کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ انصار و مہاجرین ایک دوسرے کے معاشی تجربات اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ مہاجرین نے انصار کے تعاون سے یہاں نہ صرف تجارتی سرگرمیاں شروع کیں بلکہ زراعت کو بھی بہتر بنانے کی کوششیں کیں۔

قرآن کریم نے تجارت کے ذریعہ حصول معاش کو اپنی نعمت اور فضل قرار دیا اور لوگوں کو آمادہ کیا کہ تجارت کو فروغ دیں۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے تجارت کو حصول معاش کا ذریعہ بنایا۔ دوسری طرف زراعت کو اس قدر اہمیت دی کہ ایک پودا لگانا بھی عبادت قرار پایا اور اس کا پھل خواہ انسان کھائے،پرندہ یا چوپایہ، درخت لگانے والے کے لیے صدقہ قرار دیا گیا۔(۱۰)

انصار و مہاجرین کی مشترکہ کوششوں سے مدینہ منورہ کے معاشی وسائل میں اضافہ ہوا اور جلد ہی تجارت پر یہودیوں کی اجارہ داری بھی ختم ہوگئی۔ اس طرح مواخات کا عمل معاشی مسائل کو حل کرنے اور معاشی بنیادیوں کو از سرنو منظم کرنے میں بہت مفید اور مئوثر ثابت ہوا۔


مہاجرین اور انصار میں تعلیمی فرق کا خاتمہ

مواخات کا تعلیمی پہلو بھی اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مواخات کے ذریعہ سے مدینہ منورہ کے ہرمسلم گھرانہ کو ایک تعلیمی ادارہ میں ڈھال دیا تھا۔

دراصل تعلیم کے میدان میں مہاجرین اور انصار کے درمیان فرق پیدا ہو گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس فرق کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ مہاجرین تیرہ برس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہے، انہوں نے مکی دور میں بھی نزول وحی کا مشاہدہ کیا تھا، وہ مقامات وحی سے بھی واقف تھے، یہ لوگ تیرہ برس تک وحی کی تعبیر و تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے سنتے رہے اور یہ تمام عرصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی صحبت میں گزارا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے اعمال و اقوال کو دیکھتے اور سنتے رہے اور انہیں اپنی زندگی میں منتقل کرتے رہے۔ صحابہ کرام صرف عمل ہی کو اپنے اندر منتقل نہیں کرتے تھے بلکہ جذبات و احساسات کو بھی منتقل کرتے تھے۔ اس صحبت کی وجہ سے ان کے اعمال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے  اعمال کی روح جھلکتی تھی اس تقدیم ایمانی کی وجہ سے انہیں علم کے میدان میں بھی سبقت حاصل تھی اور وہ انصار سے تیرہ برس آگے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم چاہتے تھے کہ معرفت و علم کا یہ فرق ختم ہو جائے اور مہاجرین کے پاس جو مکی دور کا علم ہے وہ تمام کا تمام انصار کو منتقل کیا جائے تاکہ نہ صرف یہ کہ شرح تعلیم میں اضافہ ہو جائے بلکہ مسلم معاشرہ کے تمام افراد کی ذہنی و فکری صلاحیتون کو بھی نشوونما دیا جا سکے۔ مواخات کے عمل کی وجہ سے ہر گھر غیر رسمی تعلیمی ادارہ کی شکل اختیارکر گیا۔ مہاجرین نے نہ صرف یہ کہ مکی دور کے علم وحی کو انصار تک منتقل کیا بلکہ وہ علم و تجربہ بھی منتقل کیا جو انہیں تجارت کے میدان میں حاصل تھا۔ اسی طرح صنعت و زراعت سے متعلق جو علم اہل مدینہ کے پاس تھا مہاجرین نے وہ ان سے حاصل کیا۔ یوں علم و ہنر کے میدان میں بہت بڑی تبدیلی آئی اور یہ اُمّی قوم جلد ہی علمی و فکری میدان میں دنیا کی قیادت کے لیے تیار ہو گئی۔


مواخات کے نتائج اور آثرات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا مواخات کا عملی قدم بہت کامیاب رہا اس لیے کہ انصار و مہاجرین کے اس قریبی تعلق و باہمی اخوت اور محبت اور تعاون سے ایک نئی تہذیب اور نیا تمدن وجود میں آیا، وہ تہذیب و تمدن جس کی بنیاد اسلامی عقائد، اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ تھے۔ یہ عقیدہ کی قوت اور جذبہ عمل ہی تھا جس نے انصار کے دلوں میں اپنے مہاجرین بھائیوں کے لیے بے پناہ قربانیوں کا جذبہ پیدا کیا۔ انصار کی جانب سے جذبہ قربانی کو قرآن نے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا:

الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚO

اوروہ جنہوں نے ان (مہاجرین) سے پہلے اس شہر کواور ایمان کو ٹھکانہ بنالیا وہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور وہ اپنے دلوں میں اس کے متعلق کوئی حسد نہیں پاتے جو ان کو دیا گیا اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچالیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں   (الحشر) 

انصارِ مدینہ  کے لیے قرآن کریم کی یہ شہادت باعث سعادت و صدافتخار ہے۔ مواخات کے طرزِ عمل نے مسلم معاشرے کو استحکام بخشا اور اُسے ہر جارحیت کے خلاف مجتمع ہو کر لڑنے میں مدد دی۔مدینے میں مسلمانوں کی عدوی اکثریت تھی اور انصار وہاں کا ایک مضبوط گروہ تھا۔ہجرت کے بعد سب سے بڑا مسئلہ مہاجرین کی آباد کاری کا درپیش تھا، کیوں کہ وہ دین کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ آئے تھے۔اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ایک نہایت اہم قدم اُٹھاتے ہوئے انصار اور مہاجرین کو اسلام کے رشتۂ اخوّت میں منسلک کر دیا۔ایک مہاجر کو دوسرے انصار کا بھائی بنا دیا گیا۔ انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں سے فیّاضی اور ایثار کا جو ثبوت دیا، وہ اسلامی اور عالمی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ آنے والے مہاجر اور مقامی انصار میں ہم آہنگی، یک جہتی اور استحکام کا یہ اہم مسئلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے جس سیاسی حکمتِ عملی سے طے کیا اور مسلم معاشرے کی بنیاد مواخات کے اصول پر جس طرح مضبوط کی، وہ حکمرانوں کے لیے ایک روشن مثال ہے۔بحیثیت حکمران آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی فکر اور دُور اندیشی بے مثال تھی۔یہی وجہ ہے کہ ارباب دانش کا آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے اصابتِ فکر کے سامنے سَرجُھکائے بنا چارہ نہیں۔مدینے میں قائم ہونے والے اس جدید مستقر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ایسی وحدت میں بدل دیا، جو عرب کے وہم وخیال میں بھی نہ آسکتی تھی۔مواخاتِ مدینہ سے معاشرے کو اطمینان وسکون حاصل ہوا، کیوں کہ وہاں کے منافقین، اوس اور خزرج قبائل میں پُھوٹ ڈالنے کی تدابیر کر رہے تھے۔اسی طرح منافقین نے مہاجر و انصار کی بنیاد پر منافرت پھیلانے کی مہم بھی شروع کر رکھی تھی، مگر معاہدۂ مواخات نے اُن کی چالیں اُن ہی پر اُلٹ ردیں۔


انصارِ مدینہ کی خواہش:

عقدِمؤاخات کے قیام کے بعد انصارِمدینہ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ہمارے اور ہمارے مہاجربھائیوں کے درمیان کھجوروں کے باغات تقسیم فرما دیجیے!انصار مدینہ یہ چاہتے تھے کہ مہاجرین کا حصہ زمین اور باغات ان کے قبضے میں دے دیا جائے تاکہ وہ اپنی مرضی اور اختیار کے ساتھ اس میں جو کچھ تصرف کرنا چاہیں تو کر سکیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ان کے ایثار و اخلاص کو قدر کی نگاہ سے دیکھا لیکن اپنی نگاہ بصیرت وفراست کے پیش نظر اسے منظور نہیں فرمایا کیونکہ اس سے مہاجرین کا معاشی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا تھا جائیداد کی تقسیم سے مہاجرین” صاحبِ جائیداد“ تو ضرور بن جاتے لیکن تاجر پیشہ ہونے اور زراعت سے ناواقف ہونے کی وجہ سے معاشی طور پر مضبوط نہ ہو سکتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا:باغات دینے کے بجائے باغات کی پیداوار کا حصہ مہاجرین کو دیا جائے انصار مدینہ نے کہا جو حکم ہو تعمیل کریں گے، چشم فلک نے انقلابات زمانہ تو کئی دیکھے لیکن پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جیسا انقلاب نہیں دیکھا کہ بغیر جبر واکراہ زمیندار خود کاشت کاری کر کے پردیسی و اجنبی لوگوں کو پیداوار کا مقرر حصہ دیتے رہے ۔انصارِ مدینہ اگرچہ یہی چاہتے تھے کہ زمینیں بھی مہاجرین کو دے دی جائیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اسے قبول نہ فرمایا بلکہ مہاجرین کو عارضی ملکیت دی جب حالات سازگار ہوئے اور مہاجرین خود صاحب جائیداد ہو گئے تو انصار کو زمینیں واپس کر دی گئیں۔


انصار کا جذبۂ ایثار:

انصار نے واقعی مواخات کا پورا پورا حق اس طرح ادا کیا  کہ اس کی نظیر ملنا ناممکن ھے یہاں تک کہ جس انصاری کی دو بیویاں تھیں اس نے اپنےمہاجر بھائی کو کہہ دیا کہ جس بیوی کو تم پسند کرو میں اُس کو طلاق دے دیتا ھوں عدت مکمل ھونے کے بعد تم اٗس سے نکاح کر لینا (یہاں یہ بات بھی یاد رھے کہ اُس وقت تک ابھی پردے کے آحکامات بازل نہیں ھوئے تھے اس لئے مرد اور عورتیں ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے)  ۔ بہرحال انصار میں ایثار کا جذبہ اپنی انتہا کو پہنچا ھوا تھاچنانچہ حدیثِ مبارکہ ھے

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ أَتَى رَجُلٌ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ أَصَابَنِي الْجَهْدُ فَأَرْسَلَ إِلَى نِسَائِهِ فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَهُنَّ شَيْئًا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا رَجُلٌ يُضَيِّفُهُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ يَرْحَمُهُ اللهُ فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ أَنَا يَا رَسُولَ اللهِ فَذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ ضَيْفُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَدَّخِرِيهِ شَيْئًا قَالَتْ وَاللهِ مَا عِنْدِي إِلَّا قُوتُ الصِّبْيَةِ قَالَ فَإِذَا أَرَادَ الصِّبْيَةُ الْعَشَاءَ فَنَوِّمِيهِمْ وَتَعَالَيْ فَأَطْفِئِي السِّرَاجَ وَنَطْوِي بُطُونَنَا اللَّيْلَةَ فَفَعَلَتْ ثُمَّ غَدَا الرَّجُلُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَقَدْ عَجِبَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ ضَحِكَ مِنْ فُلَانٍ وَفُلَانَةَ فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ۔  (صحیح البخاری )

ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے پاس حاضر ہوا اور آ کر عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم !مجھے بھوک نے ستایا ہوا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اپنے تمام گھروں سے معلوم کرایا ،وہاں سے کچھ نہ ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے صحابہ کرام سے سے فرمایا کہ کوئی ہے جو ان کی ایک رات کی مہمانی قبول کرے۔ ایک صحابی رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں مہمانی کروں گا۔ ان کو گھر لے گئے اور بیوی سے فرمایا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے مہمان ہیں ان کی مہمان نوازی میں کمی نہ ہونے پائے اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا خدا کی قسم بچوں کے لیے کچھ تھوڑا سا رکھا ہے اور کچھ بھی گھر میں نہیں۔ فرمایا کہ بچوں کو بہلا کر سلا دینا اور جب وہ سو جائیں تو کھانا لے کر مہمان کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اور تو چراغ درست کرنے کے بہانے سے اٹھ کر اس کو بجھا دینا۔ چنانچہ بیوی نے ایسا ہی کیا اور دونوں میاں بیوی اور بچوں نے فاقہ سے رات گذاری۔ اللہ نے قرآن کریم کی آیت یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ نازل فرمائی ۔

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ قَالَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَأَعْطَاهُ غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ فَرَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ أَسْلِمُوا فَإِنَّ مُحَمَّدًا يُعْطِي عَطَاءً لَا يَخْشَى الْفَاقَة۔

(صحیح مسلم )

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریوں کا بہت بڑا ریوڑ جو کہ دو پہاڑوں کے درمیان پھیلا ہوا تھا ، اسے عنایت فرمایا، وہ شخص آپ کی اس دریا دلی فیاضی سخاوت اور ایثار وہمدردی سے اس قدر متاثر ہوا کہ وہ اپنی قوم میں جا کر کہنے لگا :” اے لوگو ! اسلام لے آؤ کیونکہ )اس دین کی طرف بلانے والا (محمد صلی اللہ علیہ وسلم)اس قدر سخی ہیں اور ( اتنا دیتے ہیں کہ وہ اپنے فقیر ہونے کی بھی پروا نہیں کرتے۔


عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ المَدِينَةَ آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ فَقَالَ لَهُ هَلُمَّ أُقَاسِمُكَ مَالِي نِصْفَيْنِ وَلِيَ امْرَأَتَانِ فَأُطَلِّقُ إِحْدَاهُمَا فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا فَتَزَوَّجْهَا فَقَالَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ دُلُّونِي عَلَى السُّوقِ فَدَلُّوهُ عَلَى السُّوقِ۔

(جامع الترمذی)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ان کے اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی بندی قائم فرمائی ۔ ان کے انصاری بھائی حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ایک بھائی ہونے کے ناتے اپنا آدھا مال تمہیں پیش کرتا ہوں اس کے علاوہ میری دوبیویاں ہیں۔ تم انہیں دیکھ لو)ابھی پردہ کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے( اور جو تمہیں اچھی لگے میں اسے طلاق دے دوں گا اور عدت کے بعد تم اس سے نکاح کرلینا ۔ آپ نے جواب میں کہا کہ خدا تمہارے گھر والوں اور تمہارے مال میں برکت عطا فرمائے مجھے کوئی بازار بتادو کہ میں وہاں جاکر تجارت کروں چنانچہ انہیں) بنو قینقاع کا( بازار بتا دیا گیا۔


كَانَ الْمُهَاجِرُونَ فِي دُورِ الْأَنْصَارِ فَلَمَّا غَنِمَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أَمْوَالَ بَنِي النَّضِيرِ دَعَا الْأَنْصَارَ وَشَكَرَهُمْ فِيمَا صَنَعُوا مَعَ الْمُهَاجِرِينَ فِي إِنْزَالِهِمْ إِيَّاهُمْ فِي مَنَازِلِهِمْ وَإِشْرَاكِهِمْ فِي أَمْوَالِهِمْ ثُمَّ قَالَ: إِنْ أَحْبَبْتُمْ قَسَمْتُ مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ بَنِي النَّضِيرِ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ وَكَانَ الْمُهَاجِرُونَ عَلَى مَا هُمْ عَلَيْهِ مِنَ السُّكْنَى فِي مَسَاكِنِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَإِنْ أَحْبَبْتُمْ أَعْطَيْتُهُمْ وَخَرَجُوا مِنْ دُورِكُمْ فَقَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَسَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ: بَلْ نَقْسِمُهُ بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ وَيَكُونُونَ فِي دُورِنَا كَمَا كَانُوا وَنَادَتِ الْأَنْصَارُ: رَضِينَا وَسَلَّمْنَا يَا رَسُوْلَ اللهِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْأَنْصَارَ وَأَبْنَاءَ الْأَنْصَارِ وَأَعْطَى رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا۔

( قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا ، وہ کامیاب نہ ہوئے پہلی  ہجری میں ان سے جو معاہدہ تھا انہوں نے خود اس کی خلاف ورزی کرکے توڑ دیا، اس لیے ان کا علاقہ بغیر جنگ کے اسلامی سلطنت کے زیر نگیں آیا چونکہ یہ بغیر جنگ کے اہل اسلام کے قبضہ میں آیا اس لیے مجاہدین اسلام میں تقسیم نہ ہوا بلکہ اسے خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا حق قرار دیا گیا ( آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے سامنے صحابہ کرام کی مشکلات تھیں ،آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے انصار کو جمع فرما کر ان کی رائے معلوم کرنا چاہی کہ یہ زمین انصار و مہاجرین دونوں میں تقسیم کی جائے یا صرف مہاجرین کو دے دی جائے تاکہ وہ انصار کی زمینیں واپس کریں اور ان کے مکانات خالی کر دیں؟ اوس و خزرج کے دونوں سردار سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما نے عرض کی: آپ یہ سب کچھ مہاجرین میں تقسیم فرما دیں ہم اپنے مکانات و باغات اور زمینیں واپس نہیں لیتے بلکہ ہمیں خوشی ہو گی کہ ہماری کچھ اور زمینوں کا حصہ مہاجرین کو عنایت فرمایا جائے یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے انصار کو یوں دعا دی : اے اللہ !انصار اور ان کی اولادوں پر اپنی خاص رحمت نازل فرما۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اس زمین کا ایک حصہ مہاجرین میں تقسیم فرمایا اور انصار میں سے دو ضرورت مند انصاری حضرت ابو دجانہ اور سہل بن حنیف رضی اللہ عنہما کو بھی دیا باقی اپنے پاس رکھا اور اس پر کاشت ہوتی تھی جس کی پیدوار سے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا نان و نفقہ ادا فرماتے ۔ (تفسیر قرطبی)


مواخات ایک مضبوط رشتہ

کہا جاتا ھے کہ رشتۂ مواخات اُس زمانہ میں  قرابت اور نسب سے بھی زیادہ مضبوط و مربوط رشتہ سمجھا جاتا تھا ۔ جب کوئی انصاری صحابی فوت ھوتا تو مھاجر صحابی بغیر کسی   رکاوٹ کے  اُس  کا وارث بن جاتا تھا چنانچہ ارشادِ ربانی ھے

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓىٕكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ-وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یُهَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَایَتِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰى یُهَاجِرُوْاۚ-وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰى قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌO

بےشک جو ایمان لائے اور اللہ کے لیے گھر بار چھوڑے اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے لڑے اور وہ جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہ ایک دوسرے کے وارث ہیں اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت نہ کی تمہیں ان کا ترکہ کچھ نہیں پہنچتا جب تک ہجرت نہ کریں اور اگر وہ دین میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر مدد دینا واجب ہے مگر ایسی قوم پر کہ تم میں ان میں معاہدہ ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے

بعد میں وراثت کا حکم تو منسوخ  ھوگیا اور تمام مؤمنوں کو بھائی بھائی قرار دے دیا گیا اور قرآن پاک کی یہ آیت مبارکہ نازل ھوئی

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُـوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُـوْنَ O

بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں سو اپنے بھائیوں میں صلح کرادو، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے

اس آیات مبارکہ کے بعد وراثت صرف نسبی رشتہ داروں کے لئے خاص کر دی گئی  گویا مواخات کا رشتہ ایک دوسرے سے ھمدردی اور غمخواری کے لئے رہ گیا جیسا کہ بہت سی آحادیث مبارکہ میں مسلمانوں  کے باہمی تعلق کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ھے ، چند آحادیث مبارکہ ملاحظہ کریں 

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مسلمان ،مسلمان کابھائی ہے نہ وہ اس پرظلم کرے نہ اس کورُسواکرے ،جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں  مشغول رہتاہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتاہے اورجوشخص کسی مسلمان سے مصیبت کودورکرتاہے تواللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مَصائب میں  سے کوئی مصیبت دُورفرمادے گااورجوشخص کسی مسلمان کاپردہ رکھتاہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کاپردہ رکھے گا۔( بخاری)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں ، جب تیری اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کر ، جب وہ تجھے دعوت دے تو اسے قبول کر ، جب وہ تجھ سے خیر خواہی و نصیحت طلب کرے تو اس سے خیر خواہی کر ، جب اسے چھینک آئے اور الحمد للہ کہے تو اسے یرحمک اللہ کہکر جواب دے ، جب وہ بیمار ہو تو اسکی مزاج پرسی کر اور جب وہ مرجائے تو اسکے جنازے میں شریک ہو 

(صحيح البخاري ، صحيح مسلم)


حضر ت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’سارے مسلمان ایک شخص کی طرح ہیں  ،جب اس کی آنکھ میں  تکلیف ہوگی توسارے جسم میں  تکلیف ہوگی اور اگراس کے سرمیں  دردہوتوسارے جسم میں  دردہوگا۔( مسلم) 

حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔(مسلم)

            اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں  کو اپنے باہمی تعلقات سمجھنے اور ا س کے تقاضوں  کے مطابق عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔


دورِ حاضر میں مواخات کی ضرورت

مواخات کا عمل آج بھی دہرایا جاسکتا ہے بلکہ اس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رھی ھے اس کا  ایک پہلو یعنی وراثت میں شریک ہونا تو قرآن کریم نے منسوخ کر دیا تھا، لہٰذا وراثت میں تو شریک نہیں کیا جاسکتا، البتہ مال ومتاع میں بے خانماں مہاجرین کو شریک کر کے ان کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ آج بوسنیا، کوسوو، کشمیر، افغانستان، عراق، فلسطین، برما اور بہت سے شورش زدہ علاقوں کے مسلمان معاشی، معاشرتی، تہذیبی مسائل کا شکار ہیں۔ برما، فلپائن اور بعض دیگر علاقوں میں بھی مسلمان پر عرصہ حیات تنگ ہے۔ بعض علاقوں میں مسلمان بچوں کے لیے تعلیم و تربیت کے مسائل ہیں۔ کہیں کفار کے سیاسی و معاشی غلبہ کی وجہ سے تہذیبی مشکلات درپیش ہیں، کہیں علم و تہذیبی غلبہ نے مسائل پیدا کئے ہوئے ہیں۔ امت مسلمہ کی تمام ممالک کو مشترکہ طور پر ان مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض کا احساس کرنا چاہیے اور مواخات کے ادارے کا احیاء کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہر دور اور ہر زمانہ میں واجب العمل ہے۔ اجتماعی طور پر امت مسئلہ کے معاشی و معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لئے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے روشنی حاصل کرنی چاہیے، اس لیے کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی پیروی ہی میں ہماری نجات و کامیابی کا راز مضمر ہے۔


جاری ھے ۔۔۔۔۔

Share: