قسط نمبر (88) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 

آذان کی ابتداء 

اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز کا حکم ابتدائے اسلام میں آگیا تھا، تاہم پانچ نمازوں کی فرضیت معراج کے موقع پر نازل ہوئی، نماز کی فرضیت کے آنے کے بعد اللہ رب العزت نے نماز کا طریقہ اور اوقاتِ نماز کی تعلیم عملی طور پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو بذریعہ جبرئیل علیہ السلام دی، جس کے بعد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے امت کو تعلیم دی، اور اپنی طرح نماز ادا کرنے کا حکم دیا

حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہجرت فرما کر جب مدینہ طیبہ سے چند میل باہر قبا شریف میں پہنچے تو مسجد قبا کی بنیاد رکھی اور حضرات صحابہ  کرام  رضوان اللہ علیہم کی جو مختصر جماعت تھی حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ نمازیں ادا کرتی رہی ۔ یہاں  نہ تو بہت بڑی آبادی تھی اور نہ دور تک نماز کی اطلاع پہنچانے  کی ضرورت پڑتی تھی۔ پھر جیسے ہی مدینہ طیبہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم تشریف فرما ہوئے تو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی تعمیر ھوئی ۔ آھستہ آھستہ نمازی بھی زیادہ ہو گئے اور شہر کے گلی کوچوں اور بازاروں تک نماز کی اطلاع کی بھی ضرورت پڑی۔ چنانچہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ فرمایا کہ کیا طریقہ ہو جس سے نمازوں کے وقت نمازی مسجد میں جمع ہو جائیں؟ کیونکہ اب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  تعمیر  ہو چکی تھی۔ گو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو مشورے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا فرمان ہی اللہ  کا فرمان ہوتا ہے لیکن اس میں حکمت  یہ تھی کہ اہل اسلام کو مزید اسلامی تعلیمات سے آگاہ کر دیا جائے

صحيح احاديث سے پتہ چلتا ہے كہ اذان رسول كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم كے عہد مبارك ميں مدينہ شريف ميں مشروع ہوئى، ذيل ميں چند صحيح احاديث پيش كى جاتى ہيں:

حدثنا ابو عبيد محمد بن عبيد بن ميمون المدني ، حدثنا محمد بن سلمة الحراني ، حدثنا محمد بن إسحاق ، حدثنا محمد بن إبراهيم التيمي ، عن محمد بن عبد الله بن زيد ، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد هم بالبوق وامر بالناقوس فنحت، فاري عبد الله بن زيد في المنام، قال: رايت رجلا عليه ثوبان اخضران، يحمل ناقوسا، فقلت له: يا عبد الله تبيع الناقوس؟، قال: وما تصنع به؟، قلت: انادي به إلى الصلاة، قال:" افلا ادلك على خير من ذلك؟ قلت: وما هو؟ قال: تقول: الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله، قال: فخرج عبد الله بن زيد حتى اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبره بما راى، قال: يا رسول الله رايت رجلا عليه ثوبان اخضران يحمل ناقوسا، فقص عليه الخبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن صاحبكم قد راى رؤيا، فاخرج مع بلال إلى المسجد فالقها عليه وليناد بلال، فإنه اندى صوتا منك"، قال: فخرجت مع بلال إلى المسجد فجعلت القيها عليه وهو ينادي بها، فسمع عمر بن الخطاب بالصوت فخرج، فقال: يا رسول الله، والله لقد رايت مثل الذي راى، قال ابو عبيد فاخبرني، ابو بكر الحكمي، ان عبد الله بن زيد الانصاري، قال في ذلك: احمد الله ذا الجلال وذا الإكـ ـرام حمدا على الاذان كثيرا إذ اتاني به البشير من اللـ ـه فاكرم به لدي بشيرا في ليال والى بهن ثلاث كلما جاء زادني توقيرا.

عبداللہ بن زید (عبداللہ بن زید بن عبدربہ) رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے بگل بجوانے کا ارادہ کیا تھا (تاکہ لوگ نماز کے لیے جمع ہو جائیں، لیکن یہود سے مشابہت کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا)، پھر ناقوس تیار کئے جانے کا حکم دیا، وہ تراشا گیا، (لیکن اسے بھی نصاری سے مشابہت کی وجہ سے چھوڑ دیا)، اسی اثناء میں عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کو خواب دکھایا گیا، انہوں نے کہا کہ میں نے خواب میں دو سبز کپڑے پہنے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے ساتھ ناقوس لیے ہوئے تھا، میں نے اس سے کہا: اللہ کے بندے! کیا تو یہ ناقوس بیچے گا؟ اس شخص نے کہا: تم اس کا کیا کرو گے؟ میں نے کہا: میں اسے بجا کر لوگوں کو نماز کے لیے بلاؤں گا، اس شخص نے کہا: کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں؟ میں نے پوچھا: وہ بہتر چیز کیا ہے؟ اس نے کہا: تم یہ کلمات کہو «الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حي على الصلاة حي على الصلاة حي على الفلاح حي على الفلاح. الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله»  ”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اللہ کے رسول ہیں، آؤ نماز کے لیے، آؤ نماز کے لیے، آؤ کامیابی کی طرف، آؤ کامیابی کی طرف، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں“۔ راوی کہتے ہیں: عبداللہ بن زید نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس آ کر پورا خواب بیان کیا: عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے ایک آدمی کو دو سبز کپڑے پہنے دیکھا، جو ناقوس لیے ہوئے تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے پورا واقعہ بیان کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ”تمہارے ساتھی نے ایک خواب دیکھا ہے“، عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تم بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مسجد جاؤ، اور انہیں اذان کے کلمات بتاتے جاؤ، اور وہ اذان دیتے جائیں، کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند تر ہے“، عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد گیا، اور انہیں اذان کے کلمات بتاتا گیا اور وہ انہیں بلند آواز سے پکارتے گئے، عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جوں ہی یہ آواز سنی فوراً گھر سے نکلے، اور آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! میں نے بھی یہی خواب دیکھا ہے جو عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا ہے۔ ابوعبید کہتے ہیں: مجھے ابوبکر حکمی نے خبر دی کہ عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں چند اشعار کہے ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے: میں بزرگ و برتر اللہ کی خوب خوب تعریف کرتا ہوں، جس نے اذان سکھائی، جب اللہ کی جانب سے میرے پاس اذان کی خوشخبری دینے والا (فرشتہ) آیا، وہ خوشخبری دینے والا میرے نزدیک کیا ہی باعزت تھا، مسلسل تین رات تک میرے پاس آتا رہا، جب بھی وہ میرے پاس آیا اس نے میری عزت بڑھائی

‏‏‏‏سنن ابی داود،  سنن الترمذی ، تحفة الأشراف ، صحیح مسلم ، مسند احمد 

  ایک روایت میں یہ بھی ھے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا: یہ خواب سچا ہے، ان شاء اللہ تعالی اور عمر رضی اللہ عنہ کے دیکھنے سے اس کی سچائی کا اور زیادہ یقین ہوا، اس پر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے صرف خواب پر حکم نہیں دیا، بلکہ اس کے بعد آپ پر وحی بھی نازل کی گئی کیونکہ دین کے احکام خواب سے ثابت نہیں ہو سکتے، لیکن انبیاء کرام کے خواب وحی میں داخل ہیں، تو عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے جس شخص کو خواب میں دیکھا وہ اللہ تعالی کا فرشتہ تھا، اور اذان اور بھی کئی شخصوں کو خواب میں دکھلائی گئی تو اس میں بھی یہ راز تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی سچائی اور عظمت کا زیادہ ثبوت ہو۔

نافع رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى كہا كرتے تھے: جب مسلمان مدينہ منورہ آئے تو وہ نماز كے ليے جمع ہوا كرتے تھے، اور نماز كے ليے اذان نہيں ہوتى تھى، چنانچہ اس سلسلہ ميں ايك روز انہوں نے بات چيت كى تو كچھ لوگ كہنے لگے عيسائيوں كى طرح ناقوس بنا ليا جائے، اور بعض كہنے لگے: يہوديوں كے سينگ كى طرح كا بگل بنا ليا جائے.

چنانچہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: تم كسى شخص كو كيوں نہيں مقرر كرتے كہ وہ نماز كے ليے منادى كرے، تو رسول كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمايا: بلال رضی اللہ تعالی عنہ اٹھ كر نماز كے ليے منادى كرو "

(صحيح بخارى)

اور ابن عمير بن انس رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ايك انصارى چچا سے بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم كو يہ مسئلہ پیش آيا كہ لوگوں كو نماز كے ليے كيسے جمع كيا جائے؟ كسى نے كہا كہ نماز كا وقت ہونے پر جھنڈا نصب كر ديا جائے جب وہ اسے ديكھيں گے تو ايك دوسرے كو بتا ديں گے ، ليكن رسول كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم كو يہ طريقہ پسند نہ آيا.

راوى بيان كرتے ہيں كہ بگل كا ذكر ہوا، زياد كہتے ہيں كہ يہوديوں والا بگل چنانچہ رسول كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم كو يہ بھى پسند نہ آيا، اور فرمايا يہ تو يہوديوں كا طريقہ ہے، راوى كہتے ہيں چنانچہ رسول كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم كے سامنے ناقوس كا ذكر ہوا، تو نبى كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمايا: يہ تو عيسائيوں كا طريقہ ہے.

چنانچہ عبد اللہ بن زيد رضی اللہ تعالی عنہ وہاں سے نكلے تو انہيں نبى كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  كے اسى معاملہ كى فكر كھائے جارہى تھى اور وہ اسى سوچ ميں غرق تھے، چنانچہ انہيں خواب ميں اذان دكھائى گئى، راوى كہتے ہيں جب وہ صبح رسول كريم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم كے پاس آئے تو انہيں اپنى خواب بيان كرتے ہوئے كہنے لگے: ميں اپنى نيند اور بيدارى كى درميان والى حالت ميں تھا كہ ايك شخص آيا اور مجھے اذان سكھائى، راوى كہتے ہيں: اس سے قبل عمر رضى اللہ تعالى عنہ بھى يہ خواب ديكھ چكے تھے، ليكن انہوں نے اسے بيس روز تك بیان نہیں فرمایا 

راوى كہتے ہيں: پھر انہوں نے بھى رسول كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم كو اپنى خواب بيان كىا تو رسول كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  فرمانے لگے: تمہيں خواب بيان كرنے سے كس چيز نے منع كيا تھا ؟ توانہوں نے جواب ديا عبد اللہ بن زيد رضی اللہ تعالی عنہ مجھ سے سبقت لے گئے تو ميں نے بيان كرنے میں شرم محسوس كى چنانچہ رسول كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمايا:

بلال رضی اللہ تعالی عنہ اٹھو اور ديكھو تمہيں عبد اللہ بن زيد رضی اللہ تعالی عنہ كيا كہتے ہيں تم بھى اسى طرح كرو، چنانچہ بلال رضى اللہ تعالى عنہ نے اذان كہى "(سنن ابو داود )

عبد اللہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: جب رسول كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے لوگوں كو نماز كے وقت جمع كرنے كے ليے ناقوس بنانے كا حكم ديا تو ميرے پاس خواب ميں ايك شخص آيا جس كے ہاتھ ميں ناقوس تھا ميں نے كہا: اے اللہ كے بندے كيا تم يہ ناقوس فروخت كروگے ؟ تو اس نے جواب ديا: تم اسے خريد كر كيا كرو گے ؟ ميں نے جواب ديا: ہم اس كے ساتھ نماز كے ليے بلايا كرينگے، تو وہ كہنے لگا: كيا ميں اس سے بھى بہتر چيز تمہيں نہ بتاؤں ؟ تو ميں نے اس سے كہا: كيوں نہيں، وہ كہنے لگا: تم يہ كہا كرو:


" اللَّهُ أَكْبَرُ   اللَّهُ أَكْبَرُ

 ( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )


اللَّهُ أَكْبَرُ   اللَّهُ أَكْبَرُ

 ( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )


َأشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ

 ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )


أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ

 ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )


أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ 

( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )


أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ

 ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )


حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ 

( نماز كى طرف آؤ )


حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ

 ( نماز كى طرف آؤ )


حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ

 ( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )


حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ

 ( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )


اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ 

( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )


لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ

 ( اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں )


راوى بيان كرتے ہيں: پھر وہ كچھ ہى دور گيا اور كہنے لگا:


اور جب تم نماز كى اقامت كہو  تو 

حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ  کے بعد 

قَدْ قَامَتْ الصَّلاةُ

 ( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )


قَدْ قَامَتْ الصَّلاةُ

 ( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )

کا آضافہ کرو

عبد اللہ رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں چنانچہ جب صبح ميں رسول كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم كے پاس گيا تو اپنا خواب بيان کیا تو رسول كريم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمايا: 

ان ھذہ لرؤیا حق ان شاء اللہ تعالی

ان شاء اللہ يہ خواب حق ہے

 تم بلال رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ كھڑے ہو كر اسے اپنى خواب بيان كرو، اور وہ اذان كہے، كيونكہ اس كى آواز تم سے زيادہ بلند ہے.

چنانچہ ميں بلال رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ كھڑا ہوا اور انہيں كلمات بتاتا رہا اور وہ ان كلمات كے ساتھ اذان دينے لگے، جب عمر رضى اللہ تعالى نے يہ اپنے گھر ميں آذان کے یہ الفاظ سنے تو وہ اپنى چادر كھينچتے ہوئے چلے آئے اور كہنے لگے:

اے اللہ تعالى كے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اس ذات كى قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم كو حق دے كر مبعوث كيا ہے، ميں نے بھى اسى طرح كا خواب ديكھا ہے چنانچہ رسول كريم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمايا: الحمد للہ۔  (سنن ابو داود )

يہ آحادیث مبارکہ اس بات كى دليل ہیں كہ اذان كى ابتداء رسول كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم كے مدنى دور يعنى مدينہ منورہ ميں مشروع ہوئى، اور يہ اس امت مسلمہ كى ايك فضيلت شمار ہوتى ہے جسے اللہ تعالى نے سارى امتوں پر فضيلت دى ہے


فجر کی اذان میں زائد کلمات کی تفصیل

ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ فجر کے وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو نماز کے  لیے بلانے آئے تو دیکھا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   تہجد پڑھنے کے بعد آرام فرمارہے  ہیں،  حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ  ’’الصلاة  خیر من النوم‘‘  (یعنی نماز نیند سے بہتر ہے)، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم   نے جب یہ جملہ سنا تو فرمایا کہ یہ کتنا اچھا جملہ ہے!  آپ اس جملہ کو اپنی (فجر) کی اذان کا حصہ بنا لو، چنانچہ اس کےبعد سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے مستقل فجر کی اذان میں یہ جملہ بڑھا دیا، بعد میں جب ایک صحابی حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے اذان سکھانے کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ان کو اذان سکھاتے وقت فجر کی اذان میں یہ جملہ ’’الصلاة  خیر من النوم‘‘ بھی کہنے کا حکم دیا، خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ جملے کو اذان کا حصہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ھی بنایا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے آذان میں شامل نہیں کیا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ھے ۔ 

 حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایک مرتبہ اپنے دورِ خلافت میں آرام فرما رہیے تھے کہ مؤذن نے آکر آپ کو بیدار کرنے کے لیے یہ الفاظ(الصلاۃ  خیر من النوم)  کے الفاظ کہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ان الفاظ کا جو مقام ہے (یعنی اذانِ فجر میں) یہ وہیں کہے جائیں، کسی کو بیدار کرنے کے لیے یہ الفاظ نہ کہے جائیں ۔


 آذان کا جواب دینا

آذان سن کر اس کا جواب دینے کی ترغیب آحادیثِ مبارکہ میں آئی ھے 

اذان سن کر اس کا جواب دینے  کی دو قسمیں ھیں :-


(۱) عملی جواب دینا 

یعنی اذان سن کر مسجد میں نماز باجماعت کے لیے حاضر ہونا

 (۲) قولی جواب دینا 

یعنی اذان سن کر کلماتِ اذان  كااعادہ کرنا 

ان میں سےعملی جواب دینا تو ھر مسلمان پر واجب ہے اور قولی جواب دینا ھر ایک  کے لئے مستحب ہے،جو شخص مسجد میں پہلے سے موجود ہو تو اس پرعملی جواب نہیں، لیکن قولی جواب دینا مستحب ہے اور وہ اس طرح کہ اذان کے جواب میں اذان ہی کےکلمات  کا اعادہ کرے لیکن (حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح) کے جواب میں (لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم) کہنا چاہیے، اور جو شخص مسجد سے باہر ہو اس پر بھی اذان کا قولی جواب اسی طرح دینا مستحب ہے، جب کہ عملی جواب  دینا  اُس پر واجب ہے۔

عن حفص بن عاصم بن عمر، عن أبيه، عن جده عمر بن الخطاب رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا قال المؤذن: الله أكبر الله أكبر، فقال:أحدكم: الله أكبر الله أكبر، فإذا قال: أشهد أن لا إله إلا الله، قال: أشهد أن لا إله إلا الله، فإذا قال: أشهد أن محمدا رسول الله قال: أشهد أن محمدا رسول الله، ثم قال: حي على الصلاة قال: لا حول ولا قوة إلا بالله، ثم قال: حي على الفلاح، قال: لا حول ولا قوة إلا بالله، ثم قال: الله أكبر الله أكبر، قال: الله أكبر الله أكبر، ثم قال: لا إله إلا الله قال: لا إله إلا الله من قلبه دخل الجنة "(سنن ابى داؤد،)

واضح رہے کہ اذان درحقیقت نماز کے لیے ایک اعلان ہے، اصل عبادت تو نماز ہے جو ہر عاقل بالغ مرد و عورت پر فرض ہے، لہٰذا اذان سن کر نماز میں مشغول ہونا ہی اذان کا جواب دینا ہے جو شرعاً واجب ہے، اور زبانی جواب دینا یعنی اذان کے الفاظ دہرانا مستحب ہے۔


چار سنگ دل اور بے رخے شخص

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:  ’’چار شخص بڑے سنگ دل اور بے رخے ہیں:

 (1) وہ جو کھڑے ہوکر پیشاب کرے،

 (2) وہ جو نماز سے فارغ ہونے سے پہلے اپنی پیشانی صاف کرے،

(3) وہ جو اَذان سنے اور اس کا جواب نہ دے،

 (4) وہ جو میرا ذکر سنے اور مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘


زبان سے آذان کا جواب دینے کا طریقہ

زبان سے اذان کا جواب دینے کا طریقہ یہ ہے کہ جو الفاظ مؤذن کہے وہی الفاظ دہرائے جائیں اور مؤذ ن جب  حي على الصلاة اور  حي على الفلاح کہے تو سننے والا ان کے بدلے لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ کہے، اسی طرح فجر کی اذان میں الصلاة خير من النوم کی جگہ صَدَقْتَ وَ بَرَرْتَ کہے۔


 آذان  کے بعد کا عمل 

اذان کا جواب مکمل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ و سلم پر درود شریف پڑھے اور درج ذیل دعا پڑھے

اَللّٰهُمَّ رَبَّ هٰذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاَةِ القَائِمَةِ، اٰتِ مُحَمَّدَ نِ الْوَسِيلَةَ وَ الْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَّحْمُودَ نِ الَّذِيْ وَعَدْتَّهٗ، اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَـ

اے اللہ! اس پوری پکار کے رب اور قائم ہونے والی نماز کے رب! محمد ﷺ کو وسیلہ عطا فرما (جو جنت کا ایک درجہ ہے)، اور ان کو فضیلت عطا فرما، اور ان کو مقام محمود پر پہنچا جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔ بے شک تو وعدہ خلافی نہیں فرماتا ہے۔  (صحيح البخاري)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اذان سن کر یہ کلمات کہے گا وہ قیامت کے دن میری شفاعت کا مستحق ہوگا۔‘‘ (بخاری، )

"وَعَنْ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ فَقَالَ أَحَدُكُمُ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مِنْ قَلْبِهِ دخل الْجنَّة» . رَوَاهُ مُسلم".

ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ  علیہ  وسلم  نے فرمایا: جب مؤذن "اللّٰه أكبر اللّٰه أكبر" کہے، اور  تم میں سے کوئی اس کے جواب میں "اللّٰه أكبر اللّٰه أكبر" کہے، پھر مؤذن "أشھد أن لا إله  إلا اللّٰه"  کہے، اور یہ شخص  بھی  "أشھد أن لا إله  إلا اللّٰه" کہے،  پھر مؤذن  "أشهد أنّ محمّدًا رسول اللّٰه"  کہے، یہ شخص بھی "أشهد أنّ محمّدًا رسول اللّٰه" کہے، پھر مؤذن "حي على الصلاة"  کہے، یہ شخص  "لا حول ولا قوة  إلا باللّٰه"  کہے،  پھر مؤذن  "حي على الفلاح" کہے، یہ شخص "لا حول ولا قوة  إلا باللّٰه"کہے،  پھر مؤذن  "اللّٰه أكبر اللّٰه أكبر"   کہے، تو یہ شخص بھی  "اللّٰه أكبر اللّٰه أكبر" کہے، پھر مؤذن  "لا  إله إلا اللّٰه" کہے تو یہ شخص صدقِ دل سے  "لا  إله إلا اللّٰه" کہے، تو یہ (جواب دینے والا) جنت میں جائے گا ۔ (مسلم)


"وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ؛ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَاتَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ وَ أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ فَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ. رَوَاهُ مُسلم".

ترجمہ:  حضرت عبداللہ  بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:  فرمایا رسول اللہ صلی اللہ  علیہ  وسلم  نے: جب تم مؤذن کو سنو تو تم بھی وہی الفاظ کہو جو وہ کہہ رہا ہے،  پھر مجھ پر درود بھیجو؛ کیوں کہ جو مجھ  پر ایک درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ پھر  اللہ سے میرے لیے وسیلہ مانگو وہ جنت میں ایک درجہ ہے جو  اللہ کے بندوں میں سے ایک ہی کے مناسب ہے مجھے امید ہے کہ وہ میں ہی ہوں گا، جو میرے لیے وسیلہ مانگے اس کے لیے میری شفاعت لازم ہے۔ (مسلم)  


ملا علی قاری رحمہ اللہ مشکاۃ کی شرح مرقاۃ میں اس حدیث کی تشریح کے بعد فرماتے ہیں: ’’وفيه إشارة إلى بشارة حسن الخاتمة‘‘ یعنی اس حدیث میں حسن خاتمہ کی بشارت کی طرف اشارہ ہے۔


واضح رہے کہ اقامت کا جواب بھی اذان کی طرح ہی دیا جائے اور قد قامت الصلاة کی جگہ أَقَامَهَا اللهُ وَ أَدَامَهَا کہے۔ البتہ آخر میں درود شریف اور دعا نہیں پڑھے۔

نیز اذان و اقامت کے وقت بات چیت کرنا ادب کے خلاف ہے، حتیٰ کہ اگر کوئی شخص قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہو اور اذان ہو جائے تو وہ تلاوت روک کر پہلے اذان کا جواب دے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع

 

 آذان کی اہمیت

اسلام میں اذان کی بہت اہمیت ہے۔ اللہ کی طرف سے دعا مانگنا ہے۔ صرف یہ نماز کی آواز نہیں ہے، بلکہ کامیابی کی آواز ہے، کیونکہ جو بھی اذان کو دھیان سے سنتا ہے اور اس کی تکمیل کے بعد نمازیں پیش کرتا ہے وہ اس دنیا اور اس کے بعد کی کامیابی کی سب سے بڑی بلندیوں کو پہنچے گا۔ ایک مسلمان کو جو فائدہ ملنا ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب اذان نے شیطان کو اتنا پریشان کردیا کہ وہ اسے سن نہیں سکتا ۔ شیطان اپنی طرف سے پوری کوشش کرتا ہے کہ مسلمان کو نماز پڑھنے سے روکے کیونکہ وہ جانتا ھے کہ نماز جنت کی کلید ہے۔


اذان کے فضائل

اذان ایک مسلمان کو اللہ کے ساتھ روحانی تعلق پیدا کرنے کی یاد دہانی ہے۔ اللہ کے ساتھ ربط قائم کرنے سے زیادہ کوئی اور نیک کام نہیں ہوسکتا جو صلوٰۃ نے کیا ہے۔ اذان نماز کے لیے پکار ہے، اس اعزاز کا فیصلہ مندرجہ ذیل حدیث کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر لوگ اذان کی خوبی کے بارے میں جانتے اور مسجد میں پہلی سطر میں نماز پڑھتے تو وہ ان کے لئے بہت ساری چیزیں کھینچ لیتے۔

نہ صرف اذان کو اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے ایک کو پکارا جاتا ہے اور اسی وجہ سے کامیابی حاصل ہوتی ہے، بلکہ اس سے اسلام کے ایک اور بنیادی ستون کو بھی تقویت ملتی ہے۔ اللہ کی بڑائی اور وحدانیت کی حتمی بات سے بھی اقرار کرنے کا موقع ملتا ہے۔


مؤذن کی  فضیلت

اذان اسلام کا شعار ہے، اس کی اہمیت اور عظمت مسلم ہے، اور مؤذن کا بھی بہت اونچا مقام ہے، احادیث میں مؤذن کی  فضیلت  کے سلسلے میں بہت ساری روایتیں وارد ھوئی ہیں، چند روایتیں ملاحظہ ہوں:

(1) " عن عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي صعصعة الأنصاري ثم المازني، عن أبيه، أنه أخبره أن أبا سعيد الخدري، قال له: إني أراك تحب الغنم والبادية، فإذا كنت في غنمك، أو باديتك، فأذنت بالصلاة فارفع صوتك بالنداء، فإنه: «لايسمع مدى صوت المؤذن، جن ولا إنس ولا شيء، إلا شهد له يوم القيامة» ، قال أبو سعيد: سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم". ( صحيح البخاري )

عبد الرحمن بن ابی صعصعہ کہتے ہیں کہ مجھے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے، اس لیے جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کو لیے ہوئے موجود ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو تم بلند آواز سے اذان دیا کرو، کیوں کہ جن و انس بلکہ تمام ہی چیزیں جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں قیامت کے دن اس پر گواہی دیں گی۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے سنا ہے۔


(2) "عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: المؤذن یغفر له مد صوته، ویستغفر له کل رطب ویابس". (المعجم الکبیر للطبراني، )

عبد اللہ  بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ جہاں تک مؤذن کی اذان کی آواز پہنچتی ہے، وہاں تک کی وہ تمام چیزیں جو اس کی اذان سنتی ہیں سب اس کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتی ہیں۔


(3) "عن معاویة -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله صلی الله علیه وسلم یقول: المؤذنون أطول الناس أعناقاً یوم القیامة". (صحیح مسلم)

حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما  فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے سنا کہ : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مؤذن کی گردن کو تمام مخلوق سے بلند فرمادیں گے، (مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤذن کو قیامت کے دن بہت اونچا مقام عطا کریں گے)۔


(4) "عن ابن عباس -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله ﷺ: من أذن محتسباً سبع سنین کتبت له براء ة من النار". (جامع الترمذي)

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا : جو شخص ثواب کی امید رکھتے ہوئے سات سال تک اذان دے تو اس کے لیے جہنم سے خلاصی لکھ دی جاتی ہے ۔


(5) "عن عبد الله بن عمر أن رسول الله ﷺ قال: ثلاثة علی کثبان المسک یوم القیامة رجل أم قوماً وهم به راضون، ورجل یؤذن في کل یوم ولیلة خمس صلوات"... الخ (مسند أحمد )

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ: تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ٹیلے پر ہوں گے، جنہیں دیکھ کر تمام اولین وآخرین رشک کریں گے، ایک ایسا غلام جو اللہ اور اپنے آقا کے حقوق ادا کرتا ہو، دوسرے وہ امام جس سے اس کے مقتدی راضی ہوں، تیسرے وہ مؤذن جو پانچوں وقت کی اذان دیتا ہو۔


(6)  "عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لو يعلم الناس ما في النداء والصف الأول، ثم لم يجدوا إلا أن يستهموا عليه لاستهموا، ولو يعلمون ما في التهجير لاستبقوا إليه، ولو يعلمون ما في العتمة والصبح، لأتوهما ولو حبواً»". (صحيح البخاري )

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے کی کتنی فضیلت ہے پھر وہ اس پر قرعہ اندازی کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہ پائیں تو وہ اس پر ضرور قرعہ اندازی کریں. اور اگر وہ جان لیں کہ (نماز کے لیے) اول وقت آنے میں کیا فضیلت ہے تو وہ ضرور اس کی طرف دوڑ کر آئیں. اور اگر وہ جان لیں کہ نماز عشا اور نماز فجر کی کتنی فضیلت ہے تو وہ ضرور ان میں شریک ہوں ،اگر چہ انہیں سرین کے بل گھسٹ کر آنا پڑے۔


مؤذن جس طرح آذان  کے  ذریعے اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان کرتا ہے اور اس کی وحدانیت کا ترانہ گاتا ہے، اسی طرح کا اس کو اجر بھی رب العزت مرحمت فرمائیں گے  کہ قیامت کے دن یہ لوگوں پر بلند ہوگا، اس کو امتیازی شان حاصل ہوگی، اور وہ ساری کائنات جس نے اس کی آواز سن لی ہے، اس کے حق میں گواہی دے گی۔ یہ وہ اجر ہے جو حدیثوں میں مذکور ہے،  احادیث میں بعض فضیلت پنچ وقتہ نمازوں کے لیے اذان دینے کے ساتھ خاص ہیں، اور بعض ایک معتد بہ وقت تک مستقل اذان دینے کے لیے، لیکن باقی دیگر احادیث مطلقاً اذان دینے والے کی فضیلت میں وارد ہیں، لہذا  اللہ کی رضا کے لیےجو  اذانیں دی گئی  ہیں قیامت میں اس کا اجر اور اذان دینے والے سے متعلق جو فضیلتیں وارد ہیں ان  شاء اللہ  اذان دینے والے کو  وہ فضیلتیں حاصل ہوں گی، البتہ حدیث مبارکہ میں سات سال تک آذان دینے کی فضیلت بھی وارد ھوئی ھے سو وہ فضیلت سات سال تک اذان دینے کی ہے ۔ ازروئے حدیث وہ فضیلت اسی مقررہ وقت تک اذان دینے کی صورت میں حاصل ہوگی، بہرحال  جب بھی موقع ملے یہ سعادت حاصل کرتے رہناچاہیے، البتہ اگر ملازمت وغیرہ کی مجبوری کی وجہ سے اذان نہیں دے سکتے تو پھر بھی یہ خالص نیت ضرور رکھنی چاھیے کہ موقعہ مل گیا تو میں ان شاء اللہ آذان دیا کروں گا اللہ تعالیٰ کی رحمت واسعہ سے امید ھے  کہ اللہ تعالی اس خالص نیت کا بھی ضرور اجر عطا فرمائیں گے


جاری ھے ۔۔۔۔۔

Share: