قسط نمبر (90) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 پہلے ھجری سال میں ھونے والے متفرق اھم واقعات


حضرت کلثوم بن ھدم رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات

پورا نام و نسب كلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بن ہدم بن امرئ القيس بن الحارث بن زيد بن عبيد بن زيد بن مالك ابن عوف بن عمرو بن عوف بن مالك بن الأوس الأنصاری الأوسی ہے ۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ضعیفی کا عالم تھا کہ اسلام کی صدا کانوں میں پہنچی اور انہوں نے فوراٍ اس کو لبیک کہا ۔ ھجرت کے پہلے ھی سال آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات ھو گئی  ۔ ہجرت مدینہ کے بعد حضرت کلثوم  بن ہدم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سب سے پہلے وفات پانے والے ہیں 

کلثوم بن ہدم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ مدینہ منورہ کے رہنے والے انصاری صحابی ہیں جب حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ہجرت فرما کر قبا میں تشریف لائے تو سب سے پہلے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم انہی کے مکان میں قیام فرمایا تھا اور بڑے بڑے مہاجرین صحابہ بھی انہی کے مکان میں ٹھہرے تھے اور انہوں نے سرور دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اپنے گھر میں مہمان بنا کر ایسی میزبانی اور مہمان نوازی کی کہ قیامت تک تاریخ رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے صفحات پر ان کا نام نامی میزبان رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی صورت میں چمکتا رہے گا۔

کلثوم بن ہدم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ایک زمین تھی جہاں خاندان عمرو بن عوف کی کھجوریں سکھائی جاتی تھیں۔ آپ نے یہ زمین مسجد کے لئے وقف فرما دی تھی  اسی جگہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے مقدس ہاتھوں سے ایک مسجد کی بنیاد ڈالی۔ یہ وہ مسجد ہے جو آج بھی موجود ھے اور مسجد قباء کے نام سے مشہورھےجسے قرآن پاک  میں مسجد تقوی کہا گیا ھے


حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالی عنہ  کی وفات

حضرت اسعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نام، ابو امامہ کنیت، خیر لقب، قبیلہ خزرج سے تھے اور بخارا کے خاندان سے وابستہ تھے، نسب نامہ یہ ہے، اسعدؓ بن زرارہ بن عبید بن ثعلبہ بن غنم بن مالک ابن نجار بن ثعلبہ بن عمرو بن خزرج۔ 

بعثت نبوی  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے قبل اگرچہ جزیرہ عرب کا پورا خطہ کفر و ظلمت کا نشیمن تھا، تاہم چند نفوس طیبہ ایسے بھی تھے جو اپنی فطرت سلیمہ کے اقتضاء سے توحید کے قائل تھے، حضرت اسعد بن زرارہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اور ابو الہیثم بن تیہان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی انہی نیک لوگوں میں سے تھے۔ ابھی مسجد نبوی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی عمارت تیار ہو رہی تھی، کہ شوال ۱ھ میں پیغام اجل آ گیا ، حلق میں ایک درد اٹھا جس کو ذبحہ کہتے ہیں، آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم عیادت کو تشریف لے گئے اور دستِ مبارک سے سر کو داغا، لیکن یہ درد پیغام اجل تھا، اس لئے روح جسم سے پرواز کر گئی،  رسول کریم  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو سخت رنج ہوا، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا کیا کہوں؟ یہ کیسی موت ہوئی، اب یہودیوں کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اگر نبی اور رسول  تھے تو اپنے دوست کو اچھا کیوں نہ کر دیا، حالانکہ یہ ظاہر بات ہے کہ میں (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) قضا کا کیا علاج کرسکتا ہوں، 

جنازہ کی نماز  رسول کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے پڑھائی، اور بقیع میں لے جاکر دفن کیا، کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے مدینہ شہر میں سب سے پہلی نماز جنازہ انہی کی پڑھی تھی اور انصار کے خیال کے مطابق شاید بقیع میں سب سے پیشتر دفن ہونے والے مسلمان بھی یہی تھے۔ لیکن  روایات میں بقیع میں سب سے پہلے دفن ھونے والے صحابی کا نام عثمان بن مظعون رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی بتایا گیا ھے ۔ واللہ عالم 

چونکہ حضرت  اسعد بن زرارہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قبیلۂ بنو نجار کے نقیب تھے، اس لئے ان کی وفات پر اس خاندان کے چند ارکان آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت اقدس میں حاضر ھوئے اور درخواست کی کہ حضرت  اسعد بن زرارہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی جگہ پر کسی کو نقیب تجویز فرما دیا جائے، رسول کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ میرے ماموں ( یعنی ننہیالی) ہو، اس لئے میں (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) خود تمہارا نقیب ہوں آنحضرت  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا نقیب بننا بنو نجار کے لئے ایسا لازوال شرف تھا جس پر وہ ہمیشہ فخر و ناز کیا کرتے تھے۔  (تاریخ طبری)


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی رخصتی

حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کے رخصتی ھجرت سے آٹھ ماہ بعد ماہِ شوال میں ھوئی ۔ رخصتی کے وقت آپ کی عمر نو سال تھی  بعض کا قول یہ بھی ھے کی آپ کی رخصتی ھجرت سے آٹھارہ ماہ بعد دو ھجری کو ھوئی (تاریخ طبری)

ہجرتِ مدینہ منورہ کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا اپنے عزیزوں کے ساتھ بنو حارث بن خزرج کے محلہ میں اُتریں اور 7 یا 8 مہینوں تک اپنی والدہ حضرت ام رومان رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ رہیں۔ اکثر مہاجرین کو مدینہ منورہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی اور متعدد اشخاص بیمار پڑ گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی سخت بیمار ہوئے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا اپنے والد کی تیمارداری میں مصروف رہیں۔ بعد ازاں آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  بھی بخار میں مبتلا ہوگئیں، مرض کی شدت کا یہ حال تھا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سر کے تمام بال گر گئے تھے۔ کچھ مدت بعد آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  صحت مند ہوئیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے کہا: یا رسول اللہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! آپ (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) اپنی اہلیہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کو رخصت کیوں نہیں کرا لیتے؟  اِس میں کیا رکاوٹ ہے؟  (مطلب یہ تھا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنی زوجہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کو اپنے گھر کیوں نہیں بلوا لیتے؟)۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا: اِس وقت میرے پاس مہر اداء کرنے کے لیے رقم موجود نہیں۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کی خدمت میں ساڑھے بارہ اوقیہ یعنی 500 درہم  پیش کیے ۔ سرورِ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے یہ تمام رقم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بھجوا دی اور اِس طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی رخصتی عمل میں آئی (یہ واقعہ خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے جسے ابن سعد رحمہ اللہ نے “طبقات ابن سعد” میں نقل کر دیا ہے)

حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا ماہِ شوال میں خواتین کی رخصتی کو محبوب خیال فرماتی تھیں، تابعی حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے مجھ سے شوال میں نکاح کیا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے میرے ساتھ شوال میں ہی بیاہ کیا (یعنی رخصتی ھوئی )، رسول اللہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی کونسی بیوی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی نگاہ میں مجھ سے زیادہ محبوبہ اور نصیبا والی تھی؟ 

دراصل دورِ جاہلیت میں ایک مرتبہ ماہِ شوال میں مدینہ منورہ میں طاعون پھوٹ پڑا تھا جس کے سبب اہلیانِ مدینہ منورہ ماہِ شوال میں رخصتی یا نکاح کو نیک خیال نہیں کرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ذات اقدس کے سبب یہ جاہلانہ رسم ختم ہو گئی


حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا یہودی سے پانی کا کنواں خرید کر وقف کرنا

مدینہ منورہ میں حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی جانب سے ایک یہودی سے پانی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کرنا ایک مشہور واقعہ ھے ۔ یہ واقعہ بھی ھجرت کے پہلے سال پیش آیا ۔ اس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ نبوت کے تیرہوں سال میں جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں پینے کے پانی کی بہت قلت تھی ،مدینہ منورہ میں ایک یہودی کا کنواں تھا جو مسلمانوں کو پانی مہنگے داموں فروخت کرتا تھا۔۔ اس کنویں کا نام “بئرِ رومہ” یعنی رومہ کا کنواں تھااور پریشانی کے عالم میں مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے شکایت کی ، اللہ کے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا “کون ہے جو یہ کنواں خریدے اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دے؟ ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں چشمہ عطاء فرمائے گا۔

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ اس یہودی کے پاس گئے اور کنواں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا، کنواں چونکہ منافع بخش آمدنی کا ذریعہ تھا اس لیے یہودی نے اسے فروخت کرنے سے انکار کر دیا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ تدبیر کی کہ کنویں کے مالک یہودی سے کہا کہ پورا کنواں نہ سہی، آدھا فروخت کر دو۔ آدھا کنواں فروخت کرنے پر ایک دن کنویں کا پانی تمہارا ہو گا اور دوسرے دن میرا ہو گا۔۔یہودی ان کی اس پیشکش پر لالچ میں آ گیا۔ اس نے سوچا کہ حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے دن میں پانی مہنگے داموں فرخت کریں گے، اس طرح اسے بھی زیادہ منافع کمانے کا موقع مل جائے گا۔۔ چنانچہ اس نے آدھا کنواں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کر دیا۔

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے وہ کنواں اللہ کی رضا کے لئے وقف کر کے اپنی باری کے دن مسلمانوں کو کنویں سے مفت پانی حاصل کرنے کی اجازت دے دی، لوگ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی باری کے دن مفت پانی حاصل کرتے اور اگلے دن کے لئے بھی ذخیرہ کر لیتے۔۔ یہودی کی باری کے دن کوئی بھی شخص پانی خریدنے نہ جاتا۔یہودی نے دیکھا کہ اس کی تجارت ماند پڑ گئی ہے تو اس نے حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے باقی آدھا کنواں بھی خریدنے کی پیشکش کر دی جس پر حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ راضی ہو گئے اور کم و بیش پینتیس ہزار درہم میں پورا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔

اس دوران مدینہ منورہ کے ایک مالدار شخص نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو کنواں دوگنی  قیمت پر خریدنے کی پیش کش کی، حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ “مجھے اس سے کہیں زیادہ منافع کی پیش کش ھو چکی ہے”تو وہ شخص بھی اپنی پیشکش مزید بڑھاتا چلا گیا اور حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہی جواب دیتے رہے۔یہاں تک اس آدمی نے کہا کہ “حضرت آخر کون ہے جو آپ کو دس گنا دینے کی پیش کش کر رہا ہے؟”سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ’میرا رب مجھے ایک نیکی پر دس گنا اجر دینے کی پیش کش کرتا ہے۔


ابو صرمہ انصاری  رضی اللہ تعالی عنہ کا قبول اسلام 

ابو صرمہ انصاری مازنی غزوہ بدر میں شامل ہونے والے انصار صحابہ میں شامل ہیں۔

ان کا نام بہت اختلافی ہے مالک بن ابی بن انس اورمالک بن اسعد بتایا گیا ہے، ابو صرمہ الانصاری کنیت ہے، نام سے زیادہ کنیت سے مشہور تھے ۔ عالم پیری تھا کہ سرزمین یثرب میں اسلام کا غلغلہ بلند ہوا اور آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  مدینہ تشریف لائے،انہوں نے نہایت جوش سے خیر مقدم کیا اوراسلام کے شرف سے مشرف ہوئے اس خوشی وانبساط کے موقع پر انہوں نے جو کچھ اشعار لکھے  وہ درج ذیل ہیں: 

ثوى في قريش بضع عشرة حجة 

ويعرض في أهل المواسم نفسه 

فلما أتانا واستقرت به النوى 

وأصبح لا يخشى ظلامة 

ظالم بذلنا له الأموال من جل مالنا 

اقول اذا صلیت فی کل بیعۃ 

يذكر لو يلقى صديقاً مواتيا 

فلم ير من يؤوي  ولم ير داعيا 

وأصبح مسرورا بطيبة راضيا 

بعيد ولا يخشى من الناس باغيا 

وأنفسنا عند الوغى والتآسيا 

خانیک لا تظھر علی الاعادیا

بڑھاپے کے باوجود  غزوہ بدر ، غزوہ احد ، غزوہ خندق اور صلح حدیبیہ میں شریک  رھے ۔ ان کا شمار بہت عمدہ شاعروں میں ہوتا تھا ۔ اُن کے چند آشعار ملاحظہ ھوں :-

لنا صرم يدول الحق فيها ... وأخلاق يسود بها الفقير

ونصح للعشيرة حيث كانت ... إذا ملئت من الغش الصدور

وحلم لا يسوغ الجهل فيه ... وإطعام إذا قحط الصبير

بذات يد عَلَى مَا كَانَ فِيهَا ... نجود به قليل أَوْ كثير

ترجمہ

ہمارے پاس ایسی تلوار ہے جو حق کو غالب کرنے والی ہے اور ایسا اخلاق ہے جو فقیر کو بھی بلند وبالا مرتبے پر فائز کر دیتا ہے اور ایسی معاشرتی نصیحت ہے جو برائی سے بھرے سینوں کو بھی صاف کر دے اور ایسی برد باری ہے جو جہالت کو گوارا نہیں کرتی اور قحط سالی میں بھی ایس کھانا میسر ہوتا ہے جیسے چوری ہے اور ہمارے اندر ایسی شخصیت ہے جس چیز مین ان کا ہاتھ شامل ہو جائے اس مین برکت ہو جاتی ہے چیز کم ہو یا زیادہ ۔ 


 جاری ھے۔۔۔۔


Share: