قسط نمبر (91) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 دوسرا ھجری سال 


تحویل قبلہ


اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وَّضِعَ للِنَّاسِ لَلِّذِیْ بِبَکَّۃَمُبَارَکًاوًّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْن O۔ (سورہ آلِ  عمران )

بے شک سب سے پہلا مبارک گھر جو انسانوں کے لئے بنا وہ ہے جو مکہ میں ہے اور تمام جہانوں کے لیئے مرکزِِ ہدایت  ہے

 مکہ مکرمہ میں حضوراکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازپڑھتے تھے اور کعبہ بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے سامنے ہوتا تھا جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے ابن عباس  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے نقل کیا ہے ، جب رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم ہجرت کے بعد مدینہ چلے آئے تو دونوں (بیت اﷲ اور بیت المقدس) کی طرف منہ کرنا ناممکن تھا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم سولہ یا سترہ ماہ بیت اﷲ کی طرف پشت کرکے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ (ابن کثیر)

مکہ میں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کو دو ضرورتیں ایک ساتھ پیش تھیں ، ملت ابراہیمی کی تاسیس و تجدید کے لحاظ سے کعبہ کی طرف رخ کرنے کی ضرورت تھی ؛لیکن مشکل یہ تھی کہ قبلہ کی جو اصلی غرض ہے یعنی امتیاز اور اختصاص وہ نہیں حاصل ہوتی تھی؛ کیونکہ مشرکین اور کفار بھی کعبہ ہی کو اپنا قبلہ سمجھتے تھے، اس بناء پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم مقام ابراہیم کے سامنے نماز ادا کرتے تھے جس کا رخ بیت المقدس کی طرف تھا، اس طرح دونوں قبلے سامنے آجاتے تھے ، مدینہ میں دو گروہ آباد تھے، مشرکین جن کا قبلہ کعبہ تھا اور اہل کتاب جو بیت المقدس کی جانب نماز ادا کرتے تھے ، شرک کے مقابلہ میں یہودیت اور نصرانیت دونوں کو ترجیح تھی اس لئے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے تقریباً سولہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کی۔ مزید مکہ میں اسلام لانے والی اکثر و بیشتر چونکہ مشرکین مکہ میں سے تھے۔ اس لیےفی الحقیقت ان کا اس بات میں بڑا کڑا امتحان تھا کہ وہ اسلام لانے کے بعد کس قدر اتشال امر الہی اور اتباع سنت رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کا فراخدلانہ مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اپنا آبائی قبلہ بیت اللہ چھوڑ کر بیت المقدس کو اپنا قبلہ بناتے ہیں یا پھر اسی آبائی قبلہ پر اڑے رہتے ہیں؟ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۴۳ میں اللہ نے اسی آزمائش کی طرف اشارہ فرمایا

وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ O

اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے، اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں، کون (ہمارے) رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کا تابع رہتا ہے، اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ اور یہ بات (یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو) گراں معلوم ہوئی، مگر جن کو خدا نے ہدایت بخشی (وہ اسے گراں نہیں سمجھتے) اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی کھو دے۔ اللہ تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحبِ رحمت ہے۔


ہجرت کے بعد جب رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم مدینہ منورہ پہینچے تو صورت حال اب بالکل ہی بدل چکی تھی۔ مسلمانوں کی ایک آزاد چھوٹی سی اسلامی ریاست معرض وجود میں آچکی تھی، اب بیت المقدس کو قبلہ بنائے  رکھنا گویا یہود کی قیادت و سیادت قبول کر لینے کے مترادف تھا۔ اسکے علاوہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے یہ محسوس فرمایا کہ یہودی کسی قیمت پر بھی اسلام قبو ل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور یہودِ مدینہ یہ بھی کہنے لگے تھے کہ مسلمان قبلہ کے معاملہ میں ہماری موافقت کرتے ہیں اور دین میں ھماری مخالفت کرتے ھیں جو عجیب قسم کا تضاد ہے گویا مدینہ منورہ  میں یہودی مسلمانوں کے بیت المقدس کے قبلہ ہونے سے سوئے استفاده کرتے اور اسے اسلام کا نقص اور اپنی حقانیت کی دلیل ظاھر کرتے تھے ۔بعض روایات کی بنا پر مدینے کے یہودی مدعی تھے کہ مسلمانوں کا قبلہ نہیں ہے اور انہیں اپنے قبلے کی طرف راہنمائی کرتے تھے ۔


یہود کی یہ باتیں سن کر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کا دل چاہتا تھا کہ خانۂ کعبہ ہی ہمار قبلہ ہو جائے۔ اسی لیے بار بار بارگاہ الہی میں التجا کرتے تھے کہ تمام امم سابقہ کے قبلہ “خانہ کعبہ” ہی کو امت مسلمہ اور ملت اسلامیہ کے لیے مستقل قبلہ قرار دے دیا جائے۔

 ایک مرتبہ  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  صحابہ کرام کے ساتھ حضرت بشر بن برا  بن معرور رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس دعوت میں تشریف لے گئے تھے، ظہر کی نماز کا وقت آیا تو محلہ بنو سلمہ کی مسجد میں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نماز پڑھانے کھڑے ہوئے ، ایک روایت کے مطابق دو رکعتیں پڑھا چکے تھے اور دوسری روایت کے مطابق دوسری رکعت کے رکوع میں تھے کہ تحویل قبلہ کا حکم سورۂ بقرہ کی آیت ۱۴۴ کے ذریعہ نازل ہوا

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ O

(اے رسول ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم) تحویل قبلہ کی خاطر) تیرا بار بار آسمان کی طرف منہ کرنا ہم دیکھ رہے ہیں۔ تو ضرور اب ہم تمہیں موڑ دیں گے اس قبلہ کی طرف جو تمہیں پسند ہے۔ بس اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ دیجئے۔ اور (اے اہل ایمان) تم جہاں کہیں بھی ہو اپنے منہ (نماز پڑھتے وقت) اسی طرف کیا کرو۔ جن لوگوں کو (آسمانی) کتاب (تورات وغیرہ) دی گئی ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ (تحویل قبلہ کا فیصلہ) ان کے پروردگار کی طرف سے ہے اور یہ حق ہے۔ اور جو کچھ (یہ لوگ) کر رہے ہیں اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔   (سورہ بقرہ )

اور  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نماز کے دوران ہی فی الفور کعبہ کی طرف رُخ کر لیا ، جماعت میں موجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے بھی اپنا رُخ کعبہ کی طرف کر لیا ، 

اس آیت میں  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کی حالت کی تصویر کشی ان الفاظ میں کی گئی تھی کہ اے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم! یہ تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے تھے ، اس سے اس شدید خواہش کا اظہار ہوتا ہے جو  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم تحویل قبلہ کے سلسلے میں رکھتے تھے ۔اللہ تعالیٰ کے لیے تو دونوں سمتیں برابر ہیں۔کعبہ ہو کہ بیت المقدس مگر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کو چونکہ کعبہ پسند ہے اس لیے صرف محبوب کی رضا کی خاطر اللہ تعالیٰ نے قبلہ تبدیل کر دیا۔ درآصل یہودیوں اور کٹ حجتیوں اور دلیل بازیوں سے مجبور ہو کر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  یہ چاہنے لگے تھے کہ مسلمانوں کا موجودہ قبلہ بدل جائے ۔چونکہ مسلمان یہودیوں کے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے اور یہودیوں نے اس غلط پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی ناپاک کوشش کی تھی۔ اس لیے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  اپنی دلی خواہش کے تحت بار بار منہ آسمان کی طرف اٹھاتے ، ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی بات کا اظہار نہ کرتے  مبادا کہ اللہ تعالی کو پسند نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی خواہش پوری کردی اور جن الفاظ میں یہ خواہش پوری کی ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے حبیب کی رضا منظور تھی۔ 

بلاشبہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے حبیب رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی رضاجوئی ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  سے عرض کرتی ہیں:میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے رب تعالیٰ عزوجل کو دیکھتی ہوں کہ وہ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی خواہش پوری کرنے میں جلدی فرماتا ہے ۔(بخاری)

 تحویل قبلہ میں ربِ کریم کو رضائے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  مطلوب تھی ،اس کے بارے میں امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے کہ حضرت  قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   آسمان کی طرف چہرہ انور کئے ہوئے تھے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  یہ چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کو کعبہ کی طرف پھیر دے تب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ۔ 

قبلہ کی تبدیلی پر جس طرح سے اہلِ ایمان نے عمل کیا اس کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں: 

سیدناانس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے ، پھر جب تحویلِ قبلہ کی آیت کریمہ نازل ہوئی تو بنو سلمہ میں سے ایک آدمی اُدھر سے گزر رہا تھا کہ وہ لوگ فجر کی نماز میں رکوع کی حالت میں تھے اور ایک رکعت بھی پڑھ لی تھی اس آدمی نے بلند آواز سے کہا کہ قبلہ بدل گیا ہے یہ سنتے ہی وہ لوگ اسی حالت میں قبلہ کی طرف پھر گئے ۔(مسلم شریف)

 سیدناعبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے  ہیں کہ: ایک مرتبہ لوگ صبح کی نماز قباء میں پڑھ رہے تھے اسی دوران ایک آنے والے نے آکر کہا کہ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے اور بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے پہلے ان کے منہ شام کی طرف تھے پھر کعبہ کی طرف گھوم گئے (مسلم شریف) 

مسجد قبلتین میں بھی دورانِ نماز جہت تبدیل کی گئی۔یہ ساری آدائیں اللہ تعالیٰ کے محبوب کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   کی شان محبوبیت کو واضح کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ حکم اس لیے بھی نازل فرمایا کہ دیکھیں کون کون میرے محبوب کی اتباع میں کامل ہے : 

اِس نماز میں صفوں کی تعداد کا ذکر تو نہیں ملتا  البتہ یہ ذکر ملتا ھے کہ  مردوں کے ساتھ عورتیں بھی اس نماز میں شریک  تھیں۔ جو ظاھر ھے پیچھلی صف میں ھی ھوں گی ۔ اب یہاں بعض لوگوں کی طرف سے لا علمی کی بنا پر یہ سوال اُٹھایا جاتا ھے کہ نماز میں رخ کی تبدیلی سے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  جو اس نماز کے امام تھے وہ سب سے پیچھے ھو گئے تھے اور دوسرے نمازی آپ کے اگے اور عورتیں سب سے اگے آ گئی تھیں تو پھر بقیہ نماز کیسے ادا کی گئی ھو گی؟ کیونکہ نماز میں امام کا اگے ھونا ضروری امر ھے  ۔ تو صورت حال کو سمجھنے کے لئے یہاں یہ بات جاننی ضروری ھے کہ اُس وقت تک  نماز میں ابھی  عملِ کثیر کی ممانعت کا کوئی حکم نہیں آیا تھا یعنی نماز میں بوقتِ ضرورت چلنے کی گنجائش تھی بالکل اسی طرح جیسے پہلے نماز میں کلام کرنے کی  بوقتِ ضرورت گنجائش تھی ، بعد میں ممانعت ھو گئی۔  لہذا نماز کے امام  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم    گھوم کر اور چل کر بیت المقدس کی سمت آکلی صف میں  تشریف لے آئے تھے اور بقیہ نماز پوری کرائی تھی ۔ 

بیت المقدس مدینہ منورہ کے شمال میں اور مسجدالحرام جنوب کی جہت میں ہے ۔اس اعتبار سے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  جس سمت میں پہلے نماز پڑھ رہے تھے اسکے بالکل عکس گھومے تھے ۔  رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے کعبہ کی جانب گھومنے کے بعد اپنی جگہ سے مسجد کے دروازے کی طرف دوسری سمت حرکت کی اور نمازیوں سے آگے آ گئے ۔ نمازیوں نے بھی رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی پیروی کرتے ہوئے اپنا رخ کعبہ کی جانب پھیرا اور اپنی جگہ تبدیل کی۔

اُس دن سے اس مسجد کا نام " مسجد قبلتین،، ھے، قبلہ کی تبدیلی کی تاریخ اور مہینہ کے بارے میں اختلاف ہے ، ابن جوزی نے " الو فا" میں منگل ۱۵ شعبان ۲ ہجری لکھی ہے، لیکن مورخین اور محدثین کا زیادہ رحجان ماہ رجب کی طرف ہے۔

تحویل قبلہ کی بہت سی حکمتوں میں سے ایک حکمت مسلمانوں کی آزمائش بھی تھی کیونکہ جو حقیقی اللہ تعالی کے فرمان  کے تابع تھے انہوں نے کسی تعصب و کراہت کے بغیر اس تبدیلی کو  فوراٍ قبول کر لیا لیکن جو خالص ایمان نہیں رکھتے تھے اور مقام تسلیم تک نہیں پہنچے تھے انہوں نے یہودیوں کے ہم صدا ہو کر بہانہ بازی اور چوں و چرا کا آغاز کردیا اور اس حکم کی اطاعت انکے لیے نہایت دشوار ہوئی ۔

تحویلِ قبلہ کے مختلف  نتائج اور رد عمل سامنے آئے ۔ کچھ مسلمانوں نے اپنی گذشتہ مرحومین کی عبادتوں کے ضائع ہو جانے پر پریشانی کا اظہار  کیا تو سورہ بقرہ کی ۱۴۳ویں آیت نازل ھوئی ۔ 

وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِالنَّاسِ 

لَرَ‌ءُوفٌ رَّ‌حِيمٌ O

اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ تمہارے ایمان کو ضائع کر دے۔ بے شک اللہ لوگوں پر بڑی شفقت اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔ 

دشمنان اسلام اور مشرکوں کی زبانیں بند ہو گئیں جو مسلمانوں کو بیت المقدس کے قبلہ قرار دینے پر ملامت کرتے تھے ۔حجاز کے بہت سے لوگ کعبہ کو دوست رکھتے تھے  وہ اس قبلے کی تبدیلی کی وجہ سے اسلام کے زیادہ نزدیک ہو گئے اور اسطرح ان کے اسلام نہ لانے کی ایک رکاوٹ ختم  ہو گئی ۔قرآن کریم  نے اس کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ O

اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   جب بھی کہیں نکلیں تو (نماز کے وقت) اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف ہی موڑیں اور (اے مسلمانو!) تم بھی جہاں کہیں ہو (نماز کے وقت) اپنے مونہوں کو اسی (مسجد الحرام) کی طرف ہی کر لیا کرو۔ اس حکم کی بار بار تکرار سے ایک غرض یہ ہے کہ تاکہ (مخالفین) کو تمہارے خلاف کوئی دلیل نہ ملے۔ سوا ان لوگوں کے لیے جو ظالم ہیں (کہ ان کی زبان تو کسی طرح بھی بند نہیں ہو سکتی)۔ تو تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو (دوسری غرض یہ ہے) کہ تم پر میری نعمت تام و تمام ہو جائے (اور تیسری غرض یہ ہے) کہ شاید تم ہدایت یافتہ ہو جاؤ ۔ 

حجاز کے یہودی تحویلِ قبلہ سے بہت زیادہ ناخوش ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کی مخالفت میں مختلف باتیں کرنا شروع کر دیں ۔ 

قبلہ کے متعلق ماضی کی اُمم میں روایات اور نظریات مختلف رھے ہیں بعض روایات کی بنا پر خانہ کعبہ زمانۂ حضرت آدم علیہ السلام سے قبلہ تھا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کو از سر نو تعمیر کیا ۔اور حضرت موسی علیہ السلام نے مسجدالاقصی کو شرک اور انحراف سے نجات کیلئے حکم خداوندی سے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا.


مسجد قبلتین 

مسجد نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے مغرب میں واقع جامع مسجد "قبلتین" تحویل قبلہ کے حوالے سے اپنا ایک منفرد تاریخی مقام رکھتی ہے۔ اس مسجد کو "قبلتین" کا نام بھی ھجرت مدینہ کے دوسرے سال حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے اس وقت دیا جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کو دوران نماز اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنا رُخ انور بیت المقدس سے مکہ مکرمہ کی طرف موڑنے کا حکم دیا گیا۔ یوں یہ مسجد قبلہ اول (مسجد اقصیٰ) سے قبلہ دوم (مسجد حرام) کی جانب تبدیلی قبلہ کا "ٹرننگ پوائنٹ" سمجھی جاتی ہے

یہ مسجد مدینہ منورہ کے محلہ بنو سلمہ میں واقع ہے۔ جہاں ۲ھ میں نماز کے دوران تحویل قبلہ کا حکم آیا اور رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم  نے نماز کے دوران اپنا رخ بیت المقدس سے کعبہ کی جانب پھیرا۔ کیونکہ ایک نماز دو مختلف قبلوں کی جانب رخ کر کے پڑھی گئی اس لیے اس مسجد کو ’’مسجد قبلتین‘‘ یعنی دو قبلوں والی مسجد کا نام رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے دیا۔ یہ مسجد بئر رومہ کے قریب واقع ہے۔ مسجد کا داخلی حصہ قبہ دار ہے جبکہ خارجی حصے کی محراب شمال کی طرف ہے۔ 

مرور زمانہ کے ساتھ "مسجد قبلتین" بھی ترمیم و توسیع کے مراحل سے گذرتی رہی ہے۔ مسلمان خلفاء اور امراء و سلاطین مسجد قبلتین کی تزئین وآرائش میں خصوصی دلچسپی لیتے اور فن تعمیرمیں ید طولیٰ رکھنے والے ماہرین کے ذریعے اس کی تعمیرو مرمت کراتے رہے ہیں۔

عثمانی سلطان سلیمان اعظم رحمہ اللہ نے 1543 میں اس کی تعمیر نو کرائی ۔سلطان کی حکم سے اس توسیع میں مسجد میں دو محرابیں بنائی گئی تھیں  ایک خانہ کعبہ کی سمت میں اور دوسری بیت المقدس کی سمت میں عین اُس مقام پر جہاں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نماز کی امامت کے وقت تشریف فرما تھے ۔

 مسجد کی توسیع کا سب سے بڑا کام موجودہ السعود خاندان کے دور میں ہوا۔ سعودی حکومت نے مسجد کو تقریباً چار ہزار مربع میٹر تک توسیع دی۔ الحرمین الشریفین کی طرح مسجد "قبلتین" میں بھی چوبیس گھنٹے زائرین، معتمرین اور موسم حج میں مردو خواتین حجاج کرام کا رش لگا رہتا ہے۔ مسجد کا ایک حصہ مستورات کے لیے مختص ہے، جہاں خواتین دن کے کسی بھی وقت داخل ہو کرعبادت کرسکتی ہی

اس کی موجودہ تعمیر و توسیع سعودی شاہ فہد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں مکمل ہوئی۔ اس نئی عمارت کی دو منزلیں ہیں جبکہ میناروں اور گنبدوں کی تعداد بھی دو، دو ہے۔ مسجد کا مجموعی رقبہ 3920 مربع میٹر ہے۔


جاری ھے ۔۔۔۔۔

Share: