قسط نمبر (93) سیرتِ اِمام الآنبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم

 ذکوة الفطر (صدقۂ فطر ) 

ذکوة الفطر یعنی صدقۂ فطر جسے عرفِ عام میں “فطرانہ” بھی کہا جاتا ھے ، ایک مالی انفاق ہے جو عیدالفطر کی نماز سے پہلے ادا کیا جاتا ھے ۔ صدقۂ فطر کا حکم  نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے دو ھجری کو جس سال رمضان المبارک  کے روزے فرض ہوئے زکوٰۃ کی فرضیت سے پہلے ماہِ شعبان کے آخری دنوں میں  دیا تھا  چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ھے:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّـٰى O

بے شک وہ کامیاب ہوا جو پاک ہو گیا۔

وَذَكَـرَ اسْـمَ رَبِّهٖ فَصَلّـٰى O

اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی

عمر بن عبدالعزیز  رحمہ اللہ اور ابو العالیہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر اس طرح بیان کرتے تھے  کہ” فلاح پائی اُس شخص نے جس نے ذکوةِ فطر ادا کی اور عید کی نماز پڑھی ( آحکام القرآن للجصاص)

صدقہ فطر غریبوں اور مسکینوں کو دیا جاتا ہے۔ اس کا ادا کرنا ہر مالدار شخص کے لئے ضروری ہے تا کہ غریب اور مسکین لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ علاوہ ازیں صدقۂ فطر روزے دار کو فضول اور فحش حرکات سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے صدقۂ فطر کو اس لئے ضروری قرار دیا ہے کہ یہ روزہ دار کے بیہودہ کاموں اور فحش باتوں کی پاکی  کا سبب ھے اور مساکین کے لئے کھانے کا باعث بنتا ہے۔

( ابو داؤد، السنن، کتاب الزکاة، باب زکاة الفطر)


نمازِ عیدین کی ابتداء

صلاة العید کا حکم بھی سَن دو ھجری ماہِ شعبان میں نازل ھوا چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ھے:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّـٰى O

بے شک وہ کامیاب ہوا جو پاک ہو گیا۔

وَذَكَـرَ اسْـمَ رَبِّهٖ فَصَلّـٰى O

اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی

عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ  اور ابو العالیہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر اس طرح بیان کرتے تھے  کہ” فلاح پائی اُس شخص نے جس نے ذکوة فطر ادا کی اور عید کی نماز پڑھی ( آحکام القرآن للجصاص)

رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ دو تہوار منایا کرتے تھے اور ان میں کھیل تماشے کرتے تھے، رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے ان سے پوچھا کہ یہ دو دن جو تم مناتے ہو اس کی کیا حقیقت ہے ؟ انہوں نے عرض کیا  کہ ہم جاہلیت میں یہ تہوار اسی طرح مناتے تھے تو  رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا : 

إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْأَضْحَى، وَيَوْمَ الْفِطْرِ 

یعنی ”اللہ نے تمہارے ان دو تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر  دو دن تمہارے لیے مقرر کردیے  ہیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن 

اس طرح دینِ اسلام میں عید الفطر اور عید الاضحی کی ابتدا ہوئی ، مشہور مؤرخ ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے بقول سن دوہجری میں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو پہلی مرتبہ عید کی نماز پڑھائی۔


اضحیہ یعنی قربانی 

سن دو ھجری ھی میں قربانی اور بقر عید کا حکم آیا۔  لغوی اعتبار سے "قربانی" لفظ "قربان" سے ہے جس کے معنی ہر اس چیز کے ہیں جس کے ذریعے اللہ تعالی  کی قربت حاصل کی جاتی ہے چاہے یہ کسی جانور کو ذبح کرنے کے ذریعے ہو یا صدقات اور خیرات دینے کے ذریعے۔

اصطلاح میں عید قربان کے دن جانور ذبح کرنے کو قربانی کہا جاتا ہے چاہے یہ عمل حجاج کرام منی میں انجام دیں یا دوسرے مسلمان دنیا کی کسی بھی حگہ پر انجام دیں یعنی  مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب الہی ذبح کرنا قربانی ہے قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کو قربانی کرنے کا حکم دیا گیا، ارشاد فرمایا:

فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ (الکوثر)

تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔

قربانی کرنا حج  کرنے  والے ہر مسلمان پر جو حج قران یا حج تمتع کر رھا ھو واجب ہے اور حج افراد کرنے والے کے لئے یہ مستحب ھے جس کے مخصوص احکام اور شرائط ہیں۔ حجاج کے علاوہ باقی مسلمان بھی اپنے اپنے ملکوں میں 10 ذی الحجہ کو عید قربان کے دن اس سنت پر عمل کرتے ہیں جو ایک مستحب عمل ہے جس پر احادیث میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔

 قربانی کے جانور کے موٹا تازہ اور صحتمند ھونے کی تاکید کی گئی ھے اور مستحب یہ ھے کہ اس کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کیلئے دوسرا حصہ فقراء اور نیاز مندوں کیلئے اور تیسرا حصہ عزیز و آقارب کو دیا جائے چنانچہ قرآن کریم میں اس حوالے سے ارشاد ہے

وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ ٭ۖ فَاذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرۡنٰہَا لَکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَO 

اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تم لوگوں کے لیے شعائر اللہ میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے، پس اسے کھڑا کر کے اس پر اللہ کا نام لو پھر جب یہ پہلو پر گر پڑے تو اس میں سے خود بھی کھاؤ اور سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے فقیر کو کھلاؤ، یوں ہم نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر کرو۔(الحج 

قربانی کا آصل مقصد حصولِ تقوی ھے چنانچہ قرآن مجید میں بھی ارشاد ھے 

لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ O

اللہ تعالی تک ان جانوروں کا گوشت جانے والا ہے اور نہ خون ... اس کی بارگاہ میں صرف تمہارا تقویٰ جاتا ہے اور اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارا تابع بنادیا ہے کہ خدا کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اعلان کرو اور نیک عمل والوں کو بشارت دے دو

قربانی  اللہ تعالی کی نشانیوں اور شعائر الہی میں سے ہے اور صاحب قربانی کیلئے خیر و برکت کا سبب ہے۔ قربانی اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کا وسیلہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ قربانی میں کیا کیا فوائد ہیں تو ہر سال قربانی کرتے اگرچہ قرض لینا ہی کیوں نہ پڑہے


درود شریف

حضرت ابوزر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ھیں کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم پر درود شریف پڑھنے کا حکم  سن دو ھجری میں نازل ھوا ۔ اور بعض کا قول یہ بھی ھےکہ شب معراج میں یہ حکم نازل ھوا 

( فتح الباری)

حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم پر درود و سلام بھیجنا ایک مقبول ترین عمل ہے۔ یہ سنت الٰہیہ ہے، اس نسبت سے یہ جہاں شان مصطفی  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے بے مثل ہونے کی دلیل ہے، وہاں اس عمل خاص کی فضیلت بھی حسین پیرائے میں اجاگر ہوتی ہے کہ یہ وہ مقدس عمل ہے جو ہمیشہ کے لیے لازوال، لافانی اور تغیر کے اثرات سے محفوظ ہے کیونکہ نہ خدا کی ذات کے لیے فنا ہے نہ ھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  پر درود و سلام کی انتہا۔

اللہ تعالٰیٰ نہ صرف خود اپنے حبیب مکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم پر درود و سلام بھیجتا ہے بلکہ اس نے فرشتوں اور اہل ایمان کو بھی پابند فرما دیا ہے کہ سب میرے محبوب پر درود و سلام بھیجیں۔ اس لیے قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ھے :-

إِنَّ ٱل‍لَّٰهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَىٰ ٱلنَّبِيِّ يَا أَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُوا۟ صَلُّوا۟ عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا۟ تَسْلِيمًا O

بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبی (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو.

اسی طرح درود و سلام کے فضائل اور دینی و دنیوی مقاصد کے حصول میں اس کی برکات مستند احادیث سے ثابت ہیں۔ حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا:

میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا آیا اور عرض کیا یا رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کا امتی مجھ پر ایک بار درود شریف پڑھے اللہ تعالٰیٰ اس کے بدلے اس امتی پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے دس درجے بلند کرتا ہے اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دیتا ہے اور اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے۔

ایک اور مقام پر ارشاد نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  ہے، حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں:

میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  میں آپ پر کثرت سے درود شریف پڑھتا ہوں۔ میں کس قدر درود شریف پڑھا کروں؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا : جتنا چاہو اگر زیادہ کرو تو بہتر ہے میں نے عرض کیا ’’نصف‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا : جتنا چاہو البتہ زیادہ کرو تو بہتر ہے میں نے عرض کیا دو تہائی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا : جتنا زیادہ کرو تو بہتر ہے میں نے عرض کیا۔ میں سارے کا سارا وظیفہ آپ کے لیے کیوں نہ کرو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : اب تیرے غموں کی کفایت ہوگی اور گناہ بخش دیئے جائیں گے

درود و سلام ایک ایسا محبوب و مقبول عمل ہے جس سے گناہ معاف ہوتے ہیں، شفا حاصل ہوتی ہے اور دل و جان کو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے پڑھنے والے کے لیے سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ اگر وہ روضۂ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم پر درود و سلام پڑھتا ھے تو اسے حضور نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  بنفس و نفیس سلام کے جواب سے مشرف فرماتے ہیں اور اگر روضۂ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے علاوہ کسی بھی مقام پر پڑھتا ھے تو یہ بذریعہ ملائکہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں پیش کر دیا جاتا ھے ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ درود شریف کسی صورت میں اور کسی مرحلہ پر بھی قابلِ رد نہیں بلکہ یہ ایسا عمل ہے جو اللہ تعالٰیٰ کی بارگاہ میں ضرور مقبول ہوتا ہے اگر نیک لوگ پڑھیں تو اُن کے درجے بلند ہوتے ہیں اور اگر فاسق و فاجر پڑھے تو نہ صرف یہ کہ اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں بلکہ اس کا پڑھا ہوا درود و سلام بھی قبول ہوتا ہے۔


جاری ھے

Share: