قسط نمبر (94) سیرتِ اِمام الآنبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم

 زكوةُ المال

علماء کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ مال کی سالانہ زکاۃ کب فرض ہوئی، جمہور کا قول یہ ہے کہ  ہجرت کے بعد فرض ہوئی،  بعض کہتے ہیں کہ سن: 1 میں اور بعض کہتے ہیں کہ سن: 2 میں صوم رمضان کی فرضیت کے بعد ہوئی۔

مسند احمد  اور صحیح ابن خزیمہ اور نسائی اور  ابن ماجہ میں قیس بن سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے باسناد صحیح  مروی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے زکاۃ کا حکم نازل ہونے سے پیشتر صدقۃ الفطر دینے کا حکم فرمایا۔

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زکاۃِ مال ہجرت سے پہلے فرض ہوئی، جیساکہ ہجرتِ حبشہ کے واقعہ میں ام سلمہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کی حدیث میں ہے کہ جب نجاشی نے حضرت جعفر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے دریافت کیا کہ تمہارے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  تم کو کس چیز کا حکم کرتے ہیں؟  تو حضرت جعفر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ جواب  دیا:

’’إنّه يأمرنا بالصلاة و الزكاة و الصيام‘‘. ( فتح الباري: ٢ / ٢١١)

ترجمہ: تحقیق وہ  نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  ہم کو نماز اور زکاۃ اور روزے کا حکم دیتا ہے۔

حافظ عراقی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

’’و فيه فرض الصوم و الزكاة ... للفطر و العيدين بالصلاة

بخطبتين بعد و الأضحية ... كذا زكاة مالهم و القبلة

اور اسی دوسرے سال میں رمضان کے روزے اور زکاۃ الفطر  یعنی صدقۃ الفطر اور عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز شروع ہوئی اور عید کی نماز کے بعد دو خطبے اور قربانی، اور زکاۃ المال، بھی اسی سال شروع ہوئی، اور اسی سال تحویلِ قبلہ کا حکم نازل ہوا۔

 (سیرۃ  المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم از  حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی رحمة اللہ علیہ)


زکوٰۃ  کے لغوی معنی اور مفہوم

لفظ’’زکوٰۃ‘‘ کا لغوی مفہوم پاکیزگی اوراضافہ ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پہلے مفہوم کے مطابق اس عبادت سے انسان کامال پاک بنتا ہے جبکہ دوسرے مفہوم کے مطابق زکوٰۃ ادا کرنے سے نہ صرف اجروثواب میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ مال میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔


 فرضیتِ زکٰوة 

فرضیتِ زکوة  پر بے شمار حدیثیں وارد ھوئی  ہیں ۔ چند یہاں ذکر کی جا رہی ہیں :

(1) حضرت عبداللہ ابن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُھما سے روا یت ہے کہ رسول پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : ”مجھے اللہ پاک نے اس پر مامور کیا ہے کہ مَیں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک وہ یہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کو ئی سچا معبود نہیں اور محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم )خدا کے سچے رسول ہیں، ٹھیک طرح نماز ادا کریں، زکاة دیں، پس اگر ایسا کر لیں تو مجھ سے ان کے مال اور جانیں محفوظ ہو جائیں گے سواے اس سزا کے جو اِسلام نے (کسی حد کے سلسلہ میں)ان پر لازم کر دی ہو ۔” (صحیح البخاری)

(2) نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے حضرت معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو جب یمن کی طر ف بھیجا تو فرمایا: ان کو بتاؤ کہ اللہ پاک نے ان کے مالوں میں زکاة فرض کی ہے مال داروں سے لے کر فقراء کو دی جائے ۔”(سنن الترمذی)

(3) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں جب رسول پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کا وصالِ ہو گیا اور حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  خلیفہ بنے اور کچھ قبا ئل عرب مرتد ہو گئے (کہ زکاة کی فرضیت سے انکار کر بیٹھے) تو حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: آپ لوگوں سے کیسے معاملہ کریں گے جب کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : ”مَیں لو گوں سے جہاد کرنے پر مامور ہوں جب تک وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ نہ پڑھیں ۔ جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا اقرار کر لیا اس نے اپنی جان اور اپنا مال مجھ سے محفوظ کر لیا مگر یہ کہ کسی کا حق بنتا ہو اور وہ اللہ پاک کے ذمے ہے۔” (یعنی یہ لوگ تو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہنے والے ہیں، ان پر کیسے جہاد کیا جائے گا) حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: ”اللہ کی قسم! مَیں اس شخص سے جہاد کروں گا جو نماز اور زکاةً میں فرق کرے گا (کہ نماز کو فرض مانے اور زکاۃ کی فرضیت سے انکار کرے) اور زکاة مال کا حق ہے بخدا اگر انھوں نے (واجب الاداء) ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے دور میں دیا کرتے تھے تو مَیں ان سے جنگ کروں گا۔” حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں :”واﷲ! میں نے دیکھا کہ اﷲ پاک نے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا سینہ کھول دیا ہے۔ اُس وقت میں نے بھی پہچان لیا کہ وہی حق ہے ۔” (صحیح البخاری)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف کلمہ گو هونا هى اِسلام کے لیے کافی نہیں، جب تک تمام ضروریاتِ دِین کا اِقرار نہ کرے اورامیر المومنین فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بحث کرنا اس وجہ سے تھا کہ ان کے علم میں پہلے یہ بات نہ تھی، کہ وہ فرضیت کے منکر ہیں بلکہ یہ خیال تھا کہ وہ زکاة دیتے نہیں اس کی وجہ سے گنہگار ہوئے، کافر تو نہ ہوئے کہ ان پر جہاد قائم کیا جائے، مگر جب معلوم ہوگیا تو فرماتے ہیں میں نے پہچان لیا کہ وہی حق ہے، جو حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سمجھا اور کیا۔


زکوٰۃ ادا کرنے کے چند احکامات:

[اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۲۷۷ ](البقرۃ)

بے شک جو لوگ ایمان کے ساتھ (سنت کے مطابق) نیک کام کرتے ہیں، نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰة ادا کرتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب تعالیٰ کے پاس ہے، ان پر نہ تو کوئی خوف ہے، نہ اداسی اور غم۔

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کا ارشاد ھے 

بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ "(صحیح بخاری، صحیح مسلم) 

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ھے  جن میں سے ایک زکوٰۃ ادا کرنا ہے۔


زکوة  ادا کرنے کے فوائد، ثمرات و برکات

          زکاة اللہ رب العزت کی جانب سے جاری کردہ وجوبی حکم ہے، جس کا پورا کرنا ہرصاحب نصاب مسلم پر ضروری ہے، اس فریضہ کے سرانجام دینے پر انعامات کا ملنا سو فیصد اللہ تعالیٰ کا فضل ہے؛ کیونکہ اس فریضے کی ادائیگی تو ہم پر لازم تھی ، اس کے پورا کرنے پر شاباش ملنا اور پھر اس پر بھی مستزاد ،انعام کا ملنا (اور پھر انعام، دنیوی بھی اوراُخروی بھی)تو ایک زائد چیز ہے، دوسرے لفظوں میں سمجھیے کہ مسلمان ہونے کے ناطے اس حکم کا پورا کرنا ہر حال میں لازم تھا، چاہے کوئی حوصلہ افزائی کرے یا نہ کرے،کوئی انعام دے یا نہ دے؛ لیکن اس کے باوجود کوئی اس پر انعام بھی دے تو پھر کیا کہنے! اور انعام بھی ایسے کہ جن کے ہم بہر صورت محتاج ہیں،ہماری دنیوی و اُخروی بہت بڑی ضرورت ان انعامات سے وابستہ ہے، ذیل میں چند انعامات کا  ذکر کیا جارہا ہے:-

          (۱) زکاة کی ادائیگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مال کو بڑھاتے ہیں۔(البقرة)

صحیح البخاري)

          (۲) زکاة کی وجہ سے اجر و ثواب سات سو گنا بڑھ جاتا ہے۔(البقرة)

تفسیر البیضاوی


          (۳)زکاة کی وجہ سے ملنے والا اجر کبھی ختم ہونے والا نہیں، ہمیشہ باقی رہے گا۔ (الفاطر)

          (۴) اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسے افراد(زکاة ادا کرنے والوں)کا مقدر بن جاتی ہے۔ (الأعراف)

          (۵)کامیاب ہونے والوں کی جو صفات قرآن ِ پاک میں گنوائی گئیں ہیں، ان میں ایک صفت زکوة کی ادائیگی بھی ہے۔(الموٴمنین:۴)

          (۶) زکاة ادا کرنا ایمان کی دلیل اور علامت ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارة،)

          (۷) قبر میں زکاة (اپنے ادا کرنے والے کو)عذاب سے بچاتی ہے۔(المصنف لابن أبي شیبة)

          (۸) ایک حدیث شریف میں جنت کے داخلے کے پانچ اعمال گنوائے گئے ہیں، جن میں سے ایک زکاة کی ادائیگی بھی ہے۔ (سنن أبي داوٴد)۰

          (۹) انسان کے مال کی پاکی کا ذریعہ زکاة ہے۔ (مسند أحمد)

          (۱۰) انسان کے گناہوں کی معافی کا بھی ذریعہ ہے۔(مجمع الزوائد)

          (۱۱) زکاة سے مال کی حفاظت ہوتی ہے۔(شعب الإیمان للبیہقي)

          (۱۲)زکاة سے مال کا شر ختم ہو جاتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي)

           مندرجہ بالا تمام فضائل  ہر قسم کی زکاة سے متعلق ہیں ، چاہے وہ” زکاة “سونے چاندی کی ہو ، یا تجارتی سامان کی ،عشر ہو یا جانوروں کی زکاة


زکوٰۃ ادا نہ کرنے کے نقصانات:

[وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا يُنْفِقُوْنَہَا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۙ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۝۳۴ۙ يَّوْمَ يُحْمٰي عَلَيْہَا فِيْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُكْوٰي بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوْبُہُمْ وَظُہُوْرُہُمْ۝۰ۭ ہٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ۝۳۵ ](التوبۃ)

اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے ،جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزه چکھو ۔

رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کا ارشاد ہےکہ :

مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا، فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ – يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ – ثُمَّ يَقُولُ أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ، ثُمَّ تَلاَ: (لَا يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ) ” الآيَةَ(صحیح بخاری)

قیامت کے روز زکوٰۃادا نہ کرنے والوں کا مال ودولت گنجا سانپ (یعنی انتہائی زہریلا ) بناکر ان پر مسلط کردیاجائے گاجو انہیں مسلسل ڈستارہے گا اور کہے گا:میں تیرامال ہوں، میں تیراخزانہ ہوں۔

زکاة کی عدم ادائیگی کے متعدد نقصانات ہیں جن میں چند یہ ہیں :

(1) ان فوائد سے محرومی جو اسے ادائیگیِ زکاة کی صورت میں مل سکتے تھے ۔

(2) بخل یعنی کنجوسی جیسی بُری صفت سے(اگر کوئی اس میں گرفتار ہوتو)چھٹکارا نہیں مل پائے گا۔ رسول پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کا فرمانِ پاک ہے :”سخاوت جنت میں ایک درخت ہے جو سخی ہوا اس نے اس درخت کی شاخ پکڑ لی ،وہ شاخ اسے نہ چھوڑے گی یہاں تک کہ اسے جنت میں داخل کر دے اور بخل آگ میں ایک درخت ہے ،جو بخیل ہوا ،اس نے اس کی شاخ پکڑی ،وہ اسے نہ چھوڑے گی ،یہاں تک کہ آگ میں داخل کر ے گی ۔” (شعب الایمان )

(3)مال کی بربادی کا سبب ہے جیسا کہ رسول پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  فرماتے ہیں: ”خشکی وتری میں جو مال ضائع ہوا ہے وہ زکاة  نہ دینے کی وجہ سے تلف ہوا ہے ۔” (مجمع الزوائد،کتاب الزکوٰۃ)

ایک مقام پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا: ”زکاة کا مال جس میں ملا ہوگا اسے تباہ وبرباد کردے گا ۔” (شعب الایمان)

بعض ائمہ نے اس حدیث کے یہ معنی بیان کیے کہ زکاۃ واجب ہوئی اور ادا نہ کی اور اپنے مال میں ملائے رہا تو یہ حرام اُس کی حلال کو  بھی ہلاک کر دے گا 

(4)زکاة  ادا نہ کرنے والی قوم کو اجتماعی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جیسا کہ رسول پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا:”جو قوم زکاة نہ دے گی اللہ پاک اسے قحط میں مبتلاء فرمائے گا  (المعجم الاوسط)

ایک اورمقام پر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: ”جب لوگ زکاة کی ادا ئیگی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ پاک بارش کو روک دیتا ہے اگر زمین پر چوپا ئے موجود نہ ہو تے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا ۔” (سنن ابن ماجہ)

(5) زکاة  نہ دینے والے پر لعنت کی گئی ہے جیسا کہ حضرت سیدناعبداللہ ابن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں: ”زکاة نہ دینے والے پر رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے لعنت فرمائی ہے ۔”  (صَحِیْحُ ابْنِ خُزَیْمَۃ)

(6)بروزِقیامت یہی مال وبال جان بن جائے گا۔، جیسا کہ سورہ توبہ کی آیت بالا  میں اس کا ذکر ہے:

رسول پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کا فرمان ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اس کی زکاة ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا جس کے سر پر دو چوٹیاں  ہوں گی (یعنی دو نشان ہوں گے)، وہ سانپ اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا ۔پھر اس (یعنی زکاة نہ دینے والے) کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا : ”میں تیرا مال ہوں،میں تیرا خزانہ ہوں ۔” اس کے بعد نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے اس آیت کی تلاوت فرمائی :

وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَبْخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰىہُمُ اللہُ مِنۡ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ ؕ سَیُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ؕ

اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ، ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا۔ ( اٰل عمران)

(صحیح البخاری)

(7) حساب میں سختی کی جائے گی جیسا کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: ”فقیر ہر گز ننگے بھوکے ہونے کی تکلیف نہ اٹھائیں گے مگر اغنیاء کے ہاتھوں ، سن لو ایسے مالداروں سے اللہ تعالیٰ سخت حساب لے گا اور انہیں درد ناک عذاب دے گا ۔”(مجمع الزوائد)

(8) عذاب ِ جہنم میں مبتلا ہوسکتا ہے جیسا کی حدیث پاک میں ھے کہ رسول پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے کچھ لوگ دیکھے جن کے آگے پیچھے غرقی لنگوٹیوں کی طرح کچھ چیتھڑے تھے اور جہنم کے گرم پتھر اور تھوہر اور سخت کڑوی جلتی بدبو دارگھاس چوپایوں کی طرح چرتے پھرتے تھے۔ جبرائیل امین علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی : یہاں پر مالوں کی زکاة  نہ دینے والے ہیں اور اللہ پاک نے ان پر ظلم نہیں کیا ،اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم نہیں فرماتا ۔  (الزواجر)

ایک مقام پر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: زکاة نہ دینے والا قیامت کے دن دوزخ میں ہوگا ۔ (مجمع الزوائد)

ایک اور مقام پر فرمایا:”دوزخ میں سب سے پہلے تین شخص جائیں گے ان میں سے ایک وہ مال دار جو اپنے مال میں اللہ پاک کا حق ادا نہیں کرتا۔”(صحیح ابن خزیمہ)


مستحقینِ زکٰوة 

اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسَاكِيْنِ وَالْعَامِلِيْنَ عَلَيْـهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُـهُـمْ وَفِى الرِّقَابِ وَالْغَارِمِيْنَ وَفِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۖ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّـٰهِ ۗ وَاللّـٰهُ عَلِيْـمٌ حَكِـيْـمٌ O

زکوٰۃ مفلسوں اور محتاجوں اور اس کا کام کرنے والوں کا حق ہے اور جن کی دلجوئی کرنی ہے اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے قرض میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو، یہ اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے

قرآن پاک  کی آیتِ بالا میں اللہ تعالیٰ نے آٹھ قسم کے لوگوں کو زکوٰۃ کا مستحق قرار دیا ھے جس کی مختصراً تفصیل  مندرجہ ذیل ہے:

1- فقیر

 فقیر وہ ہے جومحتاج اور ضرورت مند ہو،جس کے پاس درہم ودینار ،روپیہ وپیسہ ،گھربار،مال وزرنہ ہواور نہ اس کاکوئی کاروبار ہو، قلاش اور خستہ حال ہو۔

2-  مسکین  

مسکین وہ ہے جس کے پاس ضروریات زندگی کے لئے ناکافی مال ہو اور بیشک ایسے شخص کا گھربار اور کاروبار بھی ہومگر پھر بھی وہ باوقار زندگی کے لئے ناکافی ہو۔


۳- عاملینِ زکٰوة

زکوٰۃ کا تیسرا مصرف ’’عاملین زکوٰۃ‘‘ ہیں جو زکوٰۃ کی وصولی اور اس کے حساب کتاب کے ذمہ دار ہیں۔


4-تالیفِ قلب 

 ایسے کافر کوزکوٰۃ میں سے مال  دیاجاسکتا ہے جس سے یہ توقع ہو کہ وہ مال لے کرمسلمان ہوجائیگا اور اہل ایمان کے دفاع میں تعاون کرےگا اس کے علاوہ نو مسلم کو بھی اسلام پرپختہ کرنے کےلیے زکوٰۃ میں سے مال دیاجاسکتا ہے۔

5گردنیں آزاد کرانا: یہ ان لوگوں کی آزادی کے لئے ہے جو غلام ہیں۔(آج کل غلاموں کا سلسلہ نہیں ہے) یا دشمن کی قید میں ہیں۔

6 - آدائے قرض 

مقروض لوگوں کو قرض  کے بوجھ سے نجات دلانا، 

مقروض غریب ہو، فقیر ہویابے روزگار،زکوٰۃ کی اس مد میں سے اس کاقرض ادا کیاجاسکتا ہے۔


7 - فی سبیل اللہ

اس سے جہاد کی جملہ ضرورتوں کو پوراکیاجاسکتا ہے، اسلحہ خریداجاسکتا ہے، زیرتربیت عسکری مجاہدین کی خوراک لباس، علاج معالجہ وغیرہ پر زکوٰۃ کو خرچ کیاجاسکتا ہے۔


8 -مسافر 

زکوٰۃ کی رقم کاحقدار صرف غریب مسافر ہی نہیں بلکہ غنی اور دولت مند شخص بھی اگردوران سفر زادِ راہ اور دیگر سفری ضروریات کا محتاج ہوجائے تو اس پر بھی زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے تاکہ وہ باوقار طور پر منزل تک پہنچ سکے۔


 وہ لوگ جنہیں زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی 

1نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی آل کےلئے زکوٰۃ حلال نہیں۔

2غیرمسلموں کو زکوٰۃ دیناجائز نہیں۔

3غنی اور صحت مند آدمی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔

4والدین، اولاد اور بیوی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔


وہ آثاثے  جن پر زکوٰۃ واجب ہے:

1سونا جس کانصاب ساڑھے سات تولہ ہے۔

2چاندی جس کانصاب ساڑھے باون تولہ ہے۔

3سونے چاندی کے زیراستعمال زیورات

4تجارت کامال(نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابرہے)


زکٰوة کا نصاب

بلحاظ وزن یابلحاظ قیمت مندرجہ بالا پر اڑھائی  فیصد زکوة  ہے اور یہ ایک سال گزر جانے پر ادا کی جائے گی۔

 اس کے علاوہ زمین کی پیداوار (یعنی عشر) شہد کی پیداواراور دفن شدہ خزانہ دریافت ہونے پر،معدنیات کی آمدنی پر اور جانوروں یعنی :اونٹ ،گائے ،بکری وغیرہ پر بھی زکوٰۃ ہے جن جس کا نصاب بوقتِ ضرورت علماء کرام سے دریافت کیا جا سکتا ھے 


جاری ھے

Share: