قسط نمبر (95) سیرتِ اِمام الآنبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم

 حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا نکاح 

 حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کا نکاح سیدنا حضرت علی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راجح قول کے مطابق سن 2 ہجری میں ہوا ہے، نکاح کے مہینہ میں قدرے اختلاف ہے، اس سلسلے میں مختلف اقول ہیں :-

(1) رمضان 2 ہجری

 (2) رجب 2 ہجری ۔

(3) صفر 2 ہجری

(4) سن 2 ہجری کے شروع میں یعنی محرم کے مہینہ میں ۔

اسی طرح رخصتی کے بارے میں بھی مختلف اقوال ہیں:

 (1) ذی القعدہ 2 ہجری 

(2) ذی الحجہ 2 ہجری

(3) ایک قول یہ ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا سے رخصتی کے ساڑھے چار ماہ بعد  حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا نکاح کیا، اور نکاح کے بعد ساڑھے نو ماہ بعد ان کی رخصتی کی ہے، اور حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کی رخصتی ہجرت کے پہلے سال شوال کے مہینے میں ہوئی، اور اس کے ساڑھے چار ماہ بعد کا مطلب ہے کہ صفر میں حضرت فاطمہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا نکاح ہوا، اور اس کے ساڑھے نو ماہ بعد رخصتی کا مطلب یہ ہوا کہ سن 2 ہجری ذی القعدہ میں حضرت فاطمہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کی رخصتی ہوئی۔

لہذا ان میں راجح قول یہی ہے کہ سن 2 ہجری میں غزوہ بدر سے پہلے حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کا نکاح ہوا ، اور غزوہ بدر رمضان میں ہوا تھا ، اس کے بعد  ذی القعدہ کے آخر یا ذی الحجہ کے شروع میں آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کی رخصتی ہوئی۔ (دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن)

اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کی چار بیٹیاں تھیں _ حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا نکاح آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے ابو العاص بن الربیع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کیا انھیں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے بہترین داماد قرار دیا _ حضرت رقیّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا اور حضرت ام کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا نکاح یکے بعد دیگرے حضرت عثمان بن عفّان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کیا ۔  اس بنا پر وہ ذو النورین کہلائے ۔  سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا نکاح آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کیا ۔  یہ نکاح  بہت زیادہ اہمیت کا حامل  تھاـ 

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے چچا  جناب ابو طالب کثیر العیال اور مالی اعتبار سے تنگ دست تھے _ انھیں سہارا دینے کی غرض سے حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے طے کیا کہ ان کے ایک ایک بچے کو اپنی کفالت میں لے لیں _ چنانچہ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت جعفر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اور اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اپنی اپنی کفالت میں لے لیا ۔  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کی بعثت ہوئی تو حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عمر 10 برس کے قریب تھی وہ سب سے پہلے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم پر ایمان لانے والوں میں سے تھے ۔  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم ان کی سرپرستی کرتے اور وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم پر جان چھڑکتے تھے ۔ ان پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے غیر معمولی اعتماد کا مظہر یہ ہے کہ ہجرت کی رات ، جب دشمن گھر کے باہر تلواریں سونتے ہوئے کھڑے تھے ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے انھیں اپنے بستر پر لٹایا اور اہلِ مکہ کی امانتیں بحفاظت انھیں واپس کرکے مدینہ منورہ  آنے کی تاکید کی ـ 

ہجرتِ مدینہ منورہ کے بعد اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کو اُن کے نکاح کی فکر ہوئی _ اس وقت حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عمر 20 برس سے کچھ زائد اور حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کی عمر 20 برس سے کم تھی _ حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لیے پیغامات آنے لگے ۔ متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم  ان سے رشتے کے ذریعے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم سے نسبت کے خواہش مند تھے ، یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے بھی حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا سے  نکاح کی خواہش کا اظہار کیا ، لیکن آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے ہر موقع پر خاموشی اختیار کی  تب متعدد لوگوں نے ، جن میں بعض خواتین بھی شامل تھیں ، حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو مشورہ دیا کہ وہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا سے رشتہ کی خواہش کا اظہار کریں _ ان کے بار بار کہنے پر حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہمّت کی ، خدمتِ نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم میں حاضر ہوئے ، لیکن دیر تک بیٹھے رہنے کے باوجود مارے شرم کے اظہارِ مدّعا نہ کر سکے  اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے دریافت بھی کیا : " کیوں آئے ہو؟ " مگر حضرت علی خاموش رہے تب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : " شاید تم  حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا سے نکاح کے خواہش مند ہو؟" انھوں نے اثبات میں سَر ہلا دیا ـ 

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیٹی حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا نکاح حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کرنے کی اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کی اپنی مرضی بھی تھی ، لیکن اس موقع پر آپ نے صراحت سے بیٹی کی مرضی اور اجازت ضروری سمجھی ۔ آپ گھر کے اندر تشریف لے گئے اور فرمایا :

" بیٹی !

یہ حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آئے ہیں ، تم سے نکاح کے خواہش مند ہیں ، تمھاری کیا مرضی ہے؟ " حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی پرورش رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے گھر ہی میں ہوئی تھی _ وہ ان کے شب و روز سے اچھی طرح واقف تھیں _حضرت  علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی دین داری ، علم و فضل ، دین کی راہ میں قربانی ، جذبۂ جہاد اور شجاعت ان کی نگاہوں کے سامنے تھی _ انھوں نے شرماتے ہوئے جواب دیا : " اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے فیصلے پر میں راضی ہوں " اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے دریافت کیا : " تمھارے پاس حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کو مہر میں دینے کے لیے کیا ہے؟" عرض کیا : " آپ میری مالی حالت اچھی طرح جانتے ہیں میرے پاس ایک حُطَمی زرہ کے علاوہ اور کچھ نہیں " (ابوداؤد) اس زرہ کی قیمت تقریباً 400 درہم تھی آپ نے فرمایا : " اسے بیچ  دو " علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے فروخت کرکے حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کو مہر ادا کیا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : " جاؤ ، حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، حضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور فلاں فلاں کو بُلا لاؤ _ " وہ آئے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے ان کی موجودگی میں نکاح پڑھایاـ

بعض روایات کے مطابق رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے فرمایا کہ اے علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ!  اللہ تعالی کا حکم ہے کہ میں حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا نکاح  تم سے کر دوں۔ کیا تمہیں منظور ہے۔ انہوں نے کہا ہاں ، چنانچہ نکاح  ہو گیا۔ یہی روایت صحاح میں حضرت عبد اللہ ابن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت ام سلمیٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  سے بھی مروی ہے۔ ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا نکاح حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کردوں

اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے نکاح کے بعد حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا اور حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لیے علیٰحدہ گھر کا انتظام کیا ۔ ایک صحابی نے اس کے لیے اپنا ایک گھر پیش کردیا تھا ۔ حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ چونکہ رسول کریم  رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے زیرِ کفالت تھے اس لئے  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے گھر گرہستی کا کچھ ضروری سامان بھی فراہم کیا : چارپائی ، چمڑے کا تکیہ ، جس میں روئی کی جگہ کھجور کی پتیاں بھری ہوئی تھیں ، کچھ برتن  حضرت اسماء بنت عمیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا اور حضرت ام ایمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا نے حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو نئے گھر پہنچایا اور انھیں تیّار کیا ۔ عشاء کی نماز کے بعد رسول اللہ کے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم بھی تشریف لے گئے _ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے پانی منگایا ، اسے حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا دونوں پر چھڑکا اور ان کے لیے خیر و برکت اور سلامتی و عافیت کی دعا کی ـ

حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ولیمہ میں جَو ، باجرہ ، کھجور اور گھی کھلایا _ ایک روایت میں ہے کہ ایک مینڈھا بھی ذبح کیا تھا ۔  یہ انتظام انھوں نے بعض انصار صہابہ کرام کی مدد سے کیا تھاـ

حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کی چہیتی بیٹی تھیں _ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم ان سے بہت محبت کرتے تھے _ وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم سے ملاقات کے لیے آتیں تو آپ اٹھ کر ان کا استقبال کرتے ، ان کی پیشانی کا بوسہ لیتے ، ان سے پیار و محبت کی باتیں کرتے _ وقتاً فوقتاً خود بھی ان کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کے احوال دریافت کرتے ۔ حضرت  فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا گھر کا سارا کام خود کرتیں ۔ کنویں سے پانی لاتیں ، کھانا پکاتیں ، چکّی پیستیں ، جس کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں نشانات پڑ گئے تھے اور دوسرے گھریلو کام انجام دیتیں ـ

ایک مرتبہ حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو خبر ملی کہ اللہ کے رسول  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے پاس کچھ غلام آئے ہیں ۔ انھوں نے حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا سے کہا :" جاکر اپنے ابّا سے ایک غلام مانگ لاؤ ، تاکہ تمھیں کام میں کچھ سہولت ہو جائے " وہ گئیں ، لیکن باپ کے سامنے اظہار کرنے کی ہمّت نہ کرسکیں حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کو بتا کر واپس آگئیں ۔  بعد میں حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم تک وہ بات پہنچائی ۔ رات کے وقت میں اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم خود بیٹی کے گھر تشریف لے گئے ،  دونوں کے درمیان میں جاکر بیٹھ گئے ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا :

" أَلَا أُعَلِّمُكُمَا خَيْرًا مِمَّا سَأَلْتُمَانِي ؟ إِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا ، تُكَبِّرَا أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ ، وَتُسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ ، وَتَحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ ، فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ (بخاری )

کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ سکھادوں جو اس سے بہتر ہے جس کی تم نے خواہش کی ہے _ جب لیٹنے لگو تو 33 مرتبہ سبحان اللہ ، 33 مرتبہ الحمد للہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو ۔  یہ ایک خادم سے بہتر ہے_ "

ایک مرتبہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  بیٹی کے گھر تشریف لے گئے تو گھر میں حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو نہ پایا ۔ دریافت کرنے پر حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا نے بتایا کہ کسی بات پر ناراض ہوکر باہر چلے گئے ہیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تلاش میں نکلے ۔  اِدھر اُدھر پتا لگایا ،  معلوم ہوا کہ مسجد میں سو رہے ہیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم مسجد پہنچے تو دیکھا کہ چادر جسم سے ہٹ گئی ہے اور بدن پر مٹّی لگ گئی ہے ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم پیار سے مٹّی جھاڑنے لگے اور کہتے جاتے تھے : قُمْ أَبَا تُرَابٍ "اٹھو ، اے مٹّی میں اَٹے ہوئے سونے والے" (بخاری )

چنانچہ اُسی دن سے حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا لقب ہی 'ابو تراب' پڑگیا _


حضرت فاطمہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عنہا  کے شمائل و خصائل

حدیث شریف کی کتابوں میں حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کے متعلق ان کی سیرت اور طرزِ طریق کو محدثین اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ:

فاقبلت فاطمۃ تمشی ماتخطئی مشیۃ الرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم شیئا۔

یعنی حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  جس وقت چلتی تھیں تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کی چال ڈھال رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے بالکل مشابہ ہوتی تھی  ترمذی شریف میں یہی مضمون حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا سے اس طرح مروی ہے کہ:

عن عائشۃ قالت مارأیت احدا أشبہ سمتاً ولاھدیا برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم

یعنی نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے ساتھ قیام وقعود میں نشست و برخاست کے عادات واطوار میں حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  سے زیادہ مشابہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کا طرز و طریق اخلاق شمائل میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے زیادہ مشابہ تھا:  آپ کی گفتار رفتار اور لب و لہجہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے بہت مطابق تھا۔

حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کا حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  پرشفقت فرمانا:

حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  جب نبی اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم صلی  کے پاس تشریف لاتیں تو آنجناب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  (ان کی رعایت خاطر کے لیے) کھڑے ہو جاتے تھے اور پیار کرنے کے لیے ہاتھ پکڑ لیتے اور بوسہ دیتے اور اپنے بیٹھنے کے مقام پر بٹھا لیتے تھے۔

اور جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کے ہاں تشریف لے جاتے تو احتراماً حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کھڑی ہوجاتیں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک کو چوم لیتیں اور اپنی نشست پر بٹھا لیتی تھیں۔ 


حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کو سیدہ عائشہ صدیقہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا سے محبت رکھنے کی ترغیب:

ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ بعض  ازواج مطہرات نے حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کو ایک کام کے لیے رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کی خدمتِ اقدس میں بھیجا۔ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کے گھر میں تشریف فرما تھے تو اس کام کے متعلق گفتگو ہوئی، نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُاسے فرمایا:

’’أی بنّیۃ الست تحبین ما احب قالت بلیٰ قال فاحبی ھٰذہٖ‘‘

یعنی اے میری بیٹی جس کو میں محبوب رکھتا ہوں کیا تو اسے محبوب نہیں رکھتی؟تو حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  نے عرض کیا کیوں نہیں! میں بھی اُسے محبوب رکھتی ہوں۔ تو رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کے ساتھ محبت رکھنا 

یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا احترام ام المؤمنین ہونے کی بناء پر لازماً کرتی تھیں اور اس کی رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے انھیں تاکید کر رکھی تھی۔ ارشاد نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم ہوا کہ حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُاکے ساتھ محبت اور عمدہ سلوک قائم رکھنا نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  جس کو محبوب جانیں اس کو محبوب ہی رکھنا چاہیے۔


رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کی حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا سے  رازدارانہ گفتگو:

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے آخری ایام میں ایک واقعہ پیش آیا تھا جس کو اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  نے ذکر کیا ہے کہ ایک دفعہ سردار دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  گھر میں تشریف فرما تھے اور ہم آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے پاس موجود تھیں۔ حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  تشریف لائیں اور اس وقت نبی اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی اولاد میں سے صرف حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا ہی زندہ تھیں ان کی باقی تمام اولاد قبل ازیں فوت ہوچکی تھی۔

حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا اندازِ رفتار اپنے والد گرامی کی رفتار کے موافق تھا۔ جس وقت  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو دیکھا تو مرحبا فرمایا اور انھیں اپنے پاس بٹھالیا۔ پھر ان کے ساتھ  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے سرگوشی فرمائی تو حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا بے ساختہ رونے لگیں، جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے ان کی غمگینی دیکھی تو دوبارہ سر گوشی فرمائی، اس دفعہ حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  ہنسنے لگیں۔

جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  اس مجلس سے تشریف لے گئے توحضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے وہ بات دریافت کی جس کے متعلق سرگوشی ہوئی تھی تو حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کہنے لگیں کہ نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کی رازدارانہ بات کو میں افشاء اور اظہار کرنا نہیں چاہتی۔

اس کے بعد جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کا انتقال ہوگیا تو میں نے حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کو اس حق کی قسم دلا کر بات کی جو میرا ان پر ہے کہ آپ مجھے ضرور خبر دیں۔ اس وقت حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  نے کہا کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے پہلی مرتبہ میرے ساتھ سرگوشی فرمائی تو   آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام ہر سال ایک دفعہ آکر قرآن مجید کا دَور  کرتے یعنی مجھے قرآن مجید سناتے اور مجھ سے سنتے تھے۔ اس سال دوبار مجھے انھوں نے قرآن سنا او رسنایا، میں اس سے یہی خیال کرتا ہوں کہ میری وفات قریب آگئی ہے۔ اے فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا ! اﷲ سے خوف کھانا اور صبر اختیار کرنا۔ میں تیرے لیے بہترین پیش روہوں گا۔ پس میں یہ سن کر رونے لگی۔ جب رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے میری گھبراہٹ اور پریشانی دیکھی تو آنجناب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے دوبارہ سرگوشی فرما کر مجھے فرمایا کہ: اے فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا ! تم اس بات کو پسند نہیں کرتی کہ تم اہلِ جنت کی عورتوں کی سردار ہو یا مؤمنوں کی عورتوں کی سردار ہو۔

اور بعض روایات میں آتا ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے مجھے پہلی مرتبہ خبر دی کہ میں اسی مرض میں اﷲ تعالیٰ کی طرف رحلت کر جاؤں گا پس میں رونے  لگی پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے سرگوشی فرمائی اور فرمایا کہ اے فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا! تم میرے اہل بیت میں سے پہلی شخصیت ہو جو میرے پیچھے آئے گی یہ سن کرمیں ھنسنے لگی [مشکوٰۃ شریف)


رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی سیدہ فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کو وصیت:

جناب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے آخری اوقات میں حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کو متعدد وصایا فرمائی تھیں۔ ان میں سے ایک خصوصی وصیت ’’ماتم‘‘ سے منع کرنے کے متعلق بھی تھی کہ میرے وصال پر کسی قسم کا  ماتم نہ کیا جائے۔

اس وصیت میں سردارِ دو جہاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے مروجہ ماتم کے جمیع اقسام (چہرہ نوچنااور پیٹنا، بال کھولنا، واویلا کرنا، بین کرنا اور نوحہ خوانی کرنا وغیرہ) سے تاکیداً منع فرمایا ہے۔ گویا حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کی وساطت سے تمام امت کو یہ وصیت فرمادی گئی ہے کہ جتنے بھی اہم مصائب مؤمن کو پیش آئیں ان میں صبر اور استقامت پر رہے اور بے صبری سے اجتناب کرے۔


 رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کی رحلت  پر سیدہ فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا اظہارِ غم:

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم پر بیماری کا غلبہ تھا۔ جب مرض شدت اختیار کر گیا تو حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  پریشانی کے عالم میں کہنے لگیں کہ ’’واکرب اباہ‘‘ (افسوس! میرے بابا کی تکلیف) اس وقت رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ: ’’آج کے بعد تیرے والد پر کوئی تکلیف نہیں‘‘ پھر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کا ارتحال ہوگیا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  دارِ فانی سے دارِ بقاء  کی طرف انتقال فرما گئے۔ (اللّٰھم صل علی محمد و علی آل محمد وبارک وسلم)

 رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کا وصال اُمّت کے لیے مصیبت ِعظمیٰ تھی اور اس چیز کا رنج والم تمام اہلِ اسلام کے لیے ناقابل برداشت صدمہ تھا۔ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے ازواج مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُن تمام اقرباء اور تمام صحابہ رضی اﷲ عنہم پر دہشت اور پریشانی کی کیفیت طاری تھی جس کی تفصیلات حدیث اور سیرت کی کتابوں میں بڑی وضاحت سے درج ہیں۔اس مقام پر  چونکہ صرف حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کے متعلقات ذکر ھو رہے ہیں۔ اس بنا پر باقی حضرات صہابہ کرام کے ہم وغم کی کیفیات شدیدہ یہاں ذکر نہیں کی گئیں۔

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے وصال ہوجانے کے بعد اظہارِ تأسف کے طور پر حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی تھیں کہ’’ اے باپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم!آپ نے اپنے رب کی دعوت قبول کی۔ اے باپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم! جنت الفردوس آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کا ٹھکانہ ہوگا۔ اے باپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم! ہم جبرائیل علیہ السلام کو آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے انتقال کی خبر دیتے ہیں‘‘۔

اس کے بعد  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے کفن دفن اور جنازہ کے مراحل گزرے اور حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کے حجرہ مبارکہ میں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  دفن ہوئے آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے دفن کے بعد حضرات صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم  واپس ہوئے، خادم نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم حضرت  انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا دریافت فرمانے لگیں اور ازراہِ تحسر و افسوس سوال کیا کہ:

یا انس! اطابت انفسکم ان تحثوا علی رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم التراب! (رواہ البخاری)

یعنی اے انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ !  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے جسم مبارک پر مٹی ڈالنا تم لوگوں کو کس طرح اچھا معلوم ہوا؟ اور کس طرح تم نے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  پر مٹی ڈالنا گوارہ کرلیا[۶]۔( انا ﷲ وانا الیہ راجعون)


سیدہ فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کی مرض الوفات اور ان کی تیمار داری:

رسولِ اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے وصال کے بعد حضرت سیدہ فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا نہایت مغموم رہتی تھیں اور یہ ایام انھوں نے صبر و استقامت  کے ساتھ پورے کیے۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کی تیمار داری کے لیے حضرت اسماء بنت عمیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا جو خلیفۂ اوّل حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی زوجہ محترمہ تھیں تشریف لاتیں اور خدمات سرانجام دیتی تھیں۔

اسماء بنت عمیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا وہ خوش بخت خاتون ہیں جو قبل ازیں حضرت جعفر طیار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کے نکاح میں رہیں ان سے ان کی اولاد بھی ہوئی تھی مگر جب حضرت جعفر طیار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  غزوہ موتہ میں شہید ہوگئے تو ان کے بعد ان کا نکاح حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہوا۔ وصالِ  رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد حضرت فاطمہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا بیمار ہوئیں تو ان کی تیمار داری میں حضرت اسماء بنت عمیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا خصوصی حصہ تھا۔ حضرت اسماء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ خلیفۂ اوّل کے نکاح میں تھیں آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات کے بعد حضرت اسماء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا نے حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے نکاح کیا۔


سیدہ فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کا انتقال:

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے وصال کے چھ ماہ بعد حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  بیمار ہوئیں اور چند روز بیمار رہیں۔ پھر تین رمضان المبارک ۱۱ھ میں منگل کی شب ان کا انتقال ہوا۔ اس وقت ان کی عمر مبارک علماء کرام نے اٹھائیس یا انتیس برس ذکر کی ہے۔ حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کے سن وفات اورا ن کی عمر کی تعیین میں سیرت نگاروں نے متعد و مختلف اقوال لکھے ہیں حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا انتقال  خصوصاً اس وقت کے اہلِ اسلام کے لیے ایک عظیم صدمہ تھا۔ جو صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہم مدینہ منورہ میں موجود تھے ان کے غم والم کی انتہا نہ رہی اور ان کی پریشانی حد سے متجاوز ہوگئی۔ تمام اہلِ مدینہ اس صدمہ سے متاثر تھے خصوصاً مدینہ طیبہ میں موجود صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم  اس صدمۂ کبریٰ کی وجہ سے نہایت اندوہ گین تھے اور صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم  کا اندوہ گین ہونا اس وجہ سے بھی نہایت اہم تھا کہ ان کے محبوب رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی بلاواسطہ اولاد کی نسبی نشانی اختتام پذیر ہوگئی تھی۔ ان حالات میں سب حضرات کی خواہش تھی کہ ہم اپنے نبی اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی پیاری صاحبزادی کے جنازہ میں شامل ہوں اور اس سعادتِ عظمیٰ سے بہرہ اندوز ہوں۔ حضرت فاطمۃ الزہراء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا بعد از مغرب اور قبل العشاء انتقال ہونا علماء نے ذکر کیا ہے۔ اس مختصر وقت میں جو حضرات موجود تھے وہ سب جمع ہوئے۔


حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کاغسل اور اسماء بنت عمیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کی خدمات:

حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا نے قبل از وفات حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو یہ وصیت کی تھی کہ آپ مجھے بعد از وفات غسل دیں اور حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  ان کے ساتھ معاون ہوں۔

چنانچہ حسب وصیت حضرت اسماء بنت عمیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  نے حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کے غسل کا انتظام کیا ان کے ساتھ غسل کی معاونت میں بعض اور بیبیاں بھی شامل تھیں مثلاً آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے غلام ابورافع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بیوی سلمیٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  اور اُمِ ایمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  وغیرہ ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ اس سارے انتظام کی نگرانی کرنے والے تھے

حضرت فاطمۃ الزہرا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کے بعض وصایا جو غسل واغتسال کے متعلق پائے جاتے ہیں ان میں بعض چیزیں بالکل قابلِ اعتبار نہیں ہیں۔۔ چنانچہ علماء کرام نے اس موقع پر فرمایا ہے کہ:

وماروی من انھا اغتسلت قبل وفاتھا واوصت ان لا تغسل بعد ذالک فضعیف لایعول علیہ۔ اللّٰہ علم

مطلب یہ ہے کہ بعض روایات میں جو آیا ہے کہ حضرت فاطمہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا نے اپنے انتقال سے قبل غسل کر لیا تھا اور وصیت فرمائی تھی کہ مجھے اس کے بعد غسل نہ دیا جائے  یہ بہت ھی ضعیف روایت ہے اس قسم کی روایتوں  پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ (

غسل کے متعلق وہ روایت صحیح ہے جو اوپر ذکر کر دی گئی ہے یعنی حضرت اسماء  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا اور دیگر خواتین نے مل کر حسب قاعدہ شرعی بعداز وفات غسل سرانجام دیا تھا۔ اس لیے کہ میت کے لیے اسلام کا قاعدہ شرعی یہی ہے۔


حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کی صلوٰۃِ جنازہ اور حضرات شیخین کی شمولیت:

غسل اور تجہیز و تکفین کے مراحل کے بعد حضرت فاطمۃ الزہرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کے جنازہ کا مرحلہ پیش آیا تو حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کے جنازہ پر خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اور حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  او ردیگر صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم  جو اس موقع پر موجود تھے، تشریف لائے۔ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کو حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ آگے تشریف لا کر جنازہ پڑھائیں ۔ جواب میں حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے عرض کیا کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ خلیفۂ رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  ہیں جناب کی موجودگی میں مَیں جنازہ پڑھانے کے لیے پیش قدمی نہیں کرسکتا۔ نماز جنازہ پڑھانا آپ ہی کا حق ہے آپ تشریف لائیں اور جنازہ پڑھائیں اس کے بعد حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آگے تشریف لائے اور حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کا چار تکبیر کے ساتھ جنازہ پڑھایا۔ باقی تمام حضرات نے ان کی اقتداء میں صلوٰۃِ جنازہ ادا کی۔ یہ باتیں متعدد مصنفین نے اپنی اپنی تصانیف میں باحوالہ ذکر کی ہیں ، چنانچہ چند عبارتیں  نقل  کی جاتی ھیں ۔ 

۱۔عن حمّاد عن ابراہیم قال صلی ابوبکر الصدیق علی فاطمۃ بنت رسول اﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فکبر علیھا اربعاً

یعنی حماد بن  ابراہیم (النخعی) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے سیدہ فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  بنت رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کا جنازہ پڑھایا اور اس پر چار تکبیریں کہیں۔

۲۔عن جعفر ابن محمد عن ابیہ قال ماتت فاطمۃ بنت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فجاء ابوبکر وعمر لیصلوا فقال ابوبکر لعلی ابن ابی طالب تقد م فقال ماکنت لا تقدم وأنت خلیفۃ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فتقدم ابوبکر وصلی علیھا

یعنی امام جعفر صادق رحمہ اللہ  اپنے والد امام محمد باقر رحمہ اللہ سے ذکر فرماتے ہیں کہ محمد باقر رحمہ اللہ نے فرمایاکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا فوت ہوئیں تو حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اور حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ دونوں تشریف لائے تاکہ جنازہ کی نماز پڑھیں۔ تو حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت علی المرتضی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو فرمایاکہ آپ آگے ہو کر نماز پڑھائیے تو حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے کہاکہ آپ خلیفۂ رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  ہیں آپ (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ) کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں ہوتا۔ پس حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  آگے تشریف لائے اور حضرت فاطمۃ الزہراء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کی نماز جنازہ  پڑھائی ۔ 

۳۔ طبقات ابن سعد میں ہے:عن مجاہد عن الشعبی قال صلی علیھا ابوبکر رضی اﷲ عنہ و عنھا۔

یعنی شعبی کہتے ہیں کہ حضرت فاطمۃ الزھراء  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  کی نمازِ جنازہ  (خلیفۂ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم ) حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  نے پڑھائی ۔ 


جاری ھے ۔۔۔۔۔


Share: