قسط نمبر (96) سیرتِ اِمام الآنبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم

 

جہاد فی سبیل اللہ 

           فساد وبدامنی  اور ظلم وجبر کو دفع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو تلوار اٹھانے کا حکم دیا ہے؛ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتِلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ o الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلاَّ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ﴾ (الحج)

جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے، انھیں لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے؛ کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے اور اللہ ان کی مدد پر یقینا قدرت رکھتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں، جو اپنے گھروں سے بے قصور نکالے گئے، ان کا قصور صرف یہ تھا کہ یہ اللہ کو اپنا رب  کہتے تھے“ 

اس آیت کے اندر جن لوگوں کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا جارہا ہے، ان کا جرم یہ نہیں بیان کیا جارہا ہے کہ وہ ایک دوسرے مذہب کے پیروکار ہیں؛ بلکہ ان کا جرم واضح انداز میں یہ بیان کیاجارہا ہے کہ وہ ظلم کرتے ہیں، لوگوں کو بے قصور ان کے گھروں سے نکالتے ہیں، ایسے لوگوں کے خلاف صرف مدافعتی جنگ کا حکم نہیں دیاگیا بلکہ دوسرے مظلوموں کی اعانت کا بھی حکم دیاگیا اور تاکید کی گئی کہ کمزور و بے بس لوگوں کو ظالموں کے پنجوں سے چھڑاؤ۔


جہاد کا پہلا حکم

جہاد کا  سب سے پہلا حکم سن دو ھجری میں مدینہ منورہ میں نازل ہوا۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جب مسلمان مکّہ مکرمہ میں تھے تو اکثر مشرکین مکّہ کے ظلم وستم کا نشانہ بنتے تھے، بڑی تکالیف اور اذیتیں اٹھاتے تھے اور جب کبھی مارپیٹ کے بعد رنجیدہ خاطر ہوکر بارگاہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم میں آتے اور مظالم کے خلاف شکایت کرتے اور جہاد کی اجازت مانگتے) تو رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  فرماتے، صبر کرو اور ابھی مجھے جہاد کا حکم نہیں دیا گیایہاں تک کہ مسلمانوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو مندرجہ ذیل آیت مبارکہ جو جہاد کی اجازت لئے ہوئے ہے نازل ہوئی ۔


اُذِنَ لِلَّـذِيْنَ يُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّـهُـمْ ظُلِمُوْا ۚ وَاِنَّ اللّـٰهَ عَلٰى نَصْرِهِـمْ لَقَدِيْرٌ O

جن سے کافر لڑتے ہیں انہیں بھی (کافروں کے خلاف) لڑنے کی اجازت دی گئی ہے اس لیے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔

اگلی دو آیات مبارکہ میں بھی جہاد کے متعلق ذکر کیا گیا ھے 

اَلَّـذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِـمْ بِغَيْـرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّـٰهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْـعُ اللّـٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُـمْ بِبَعْضٍ لَّـهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَـعٌ وَّصَلَوَاتٌ وَّمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيْـهَا اسْمُ اللّـٰهِ كَثِيْـرًا ۗ وَلَيَنْصُرَنَّ اللّـٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٝ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ لَقَوِىٌّ عَزِيْزٌ O

وہ لوگ جنہیں ناحق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے صرف یہ کہنے پر کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا تو تکیئے اور مدرسے اورعبادت خانے اور مسجدیں ڈھا دی جاتیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے، اور اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا، بے شک اللہ زبردست غالب ہے۔

اَلَّـذِيْنَ اِنْ مَّكَّنَّاهُـمْ فِى الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلَاةَ وَاٰتَوُا الزَّكَاةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَـهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۗ وَلِلّـٰهِ عَاقِـبَةُ الْاُمُوْرِ O

وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں دنیا میں حکومت دے دیں تو نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں اور نیک کام کا حکم کریں اور برے کاموں سے روکیں، اور ہر کام کا انجام تو اللہ کے ہی ہاتھ میں ہے


چنانچہ مندرجہ بالا پہلی آیت جہاد کے بارے میں نازل ہونے والی پہلی آیت ہے تاھم  اس کے حکم جہاد کے لئے پہلی ہونے کے بارے میں مفسرین میں اختلاف پایا جاتا ہے، بعض اسے پہلی آیت گردانتے ہیں اور بعض سورہٴ بقرہ کی اس آیت  کو پہلی آیت قرار دیتے ہیں،

وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَکُمُْ (بقرہ)

اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں


جبکہ بعض مفسرین سورہٴ توبہ کی مندرجہ ذیل آیت کو اس سلسلے کی پہلی آیت سمجھتے ہیں

اِنَّ اللّـٰهَ اشْتَـرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُـمْ وَاَمْوَالَـهُـمْ بِاَنَّ لَـهُـمُ الْجَنَّـةَ ۚ يُقَاتِلُوْنَ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِى التَّوْرَاةِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ ۚ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّـٰهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّـذِىْ بَايَعْتُـمْ بِهٖ ۚ وَذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْـمُ O

بے شک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر خرید لیے ہیں کہ ان کے لیے جنت ہے، اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں پھر قتل کرتے ہیں اور قتل بھی کیے جاتے ہیں، یہ سچا وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں، اور اللہ سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے، خوش رہو اس سودے سے جو تم نے اس سے کیا ہے (توبہ)

 ”اذن جہاد “ کے موضوع کی مناسبت سے اس آیت مبارکہ کا لب ولہجہ زیادہ قرین حقیقت معلوم ہوتا ہے کیونکہ لفظ ”اذن“ کا قرینہ صراحت کے ساتھ اجازت دے رہا ہے، جبکہ یہ قرینہ مذکورہ بالا باقی دو آیتوں میں نہیں ہے، بالفاظ دیگر اس آیت کی تعبیر اس خاص موضوع کے بارے میں ہے ۔

بہرحال اگر گذشتہ آخری آیت جس میں مومن کے دفاع اور حمایت کا وعدہ دیا گیا ہے، کو ذہن میں رکھا جائے تو زیرِ بحث آیت کا اس سے تعلق خاصّہ واضح معلوم ہوتا ہے، زیر بحث آیت مبارکہ میں فرمایا جارہا ہے: الله نے ان لوگوں کو جن پر جنگ ٹھونسی گئی، جہاد کی اجازت دی ہے، کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے

اس کے بعد قادر وطاقتور رب  کی طرف سے کامیابی کے وعدے کے ساتھ اذن جہاد کی تکمیل کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے: الله ان کی مدد ونصرت پر قادر ہے ۔ یہ بھی ممکن ھے اس جملے سے جو خدائی طاقت وقوت کے ساتھ نصرتِ الٰہی کی ضمانت دی جا رھی ہے، اس طرف  اشارہ ہو کہ خدائی مدد اس وقت میسّر ہوگی  جب حتی المقدور دفاع کے لئے تیار ہوجاوٴگے تاکہ یہ گمان نہ ہوجائے کہ گھر بیٹھے الله مدد کرے گا، بالفاظ دیگر عالمِ اسباب میں سے جو بھی میسّر ہے اسے کام میں لایا جائے اور تمھاری قوت ختم ہوجائے تو مایوس ہونے کے بجائے الله قادر کی نصرت کے منتظر رہو یہی، وہ کلیہ تھا جسے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے تمام غزوات وسرایا میں عملی طور پر اپنایا تھا اور کامیاب رہے ۔

اس کے بعد ان مظلوموں کی حالتِ زار کی مزید وضاحت کی گئی ہے جن کو جہاد کی اجازت دی گئی ہے اور جہاد سے متعلق اسلامی نقطہٴ نظر کو واضح کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے: وہی لوگ جو ناحق اپنے گھر بار چھوڑکر نکل جانے پر محبور کر دیے گئے 

ان کا قصور سوائے اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا پروردگار صرف الله ہے 

 یہ بالکل واضح  بات ہے کہ اللہ تعالی کی توحید ویگانگت کا اقرار  کوئی جرم تو نہیں بلکہ یہ تو ایک عظیم سعادت ہے، یہ کوئی ایسا عمل نہیں جس کی بنیاد پر مشرکین کو یہ حق مِل جائے کہ وہ انھیں ان کے گھروں اور علاقوں سے نکال باہر کریں اور مکّہ مکرمہ سے مدینہ منورہ  کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کردیں ۔

آیت  مبارکہ میں اس مفہوم کے بیان میں جو تعبیر استعمال کی گئی ھے وہ ایسے مواقع پر مدّمقابل کو محکوم ومغلوب کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ بعض اوقات ہم خدمت ونعمت پر ناشکری کرنے والے شخص کے لئے یوں کہتے ہیں (ہمارا گناہ صرف یہ تھا کہ ہم نے تیری خدمت کی) مخاطب کے بے خبری کے اظہار کے لئے یہ لطیف کنایہ ہے، جس نے خدمت کے بدلے ایسا رویہ اختیار کیا جو کسی جرم کے جواب میں روا رکھا جاتا ہے ۔


جہاد کے اغراض و مقاصد

آیات بالا میں اللہ تعالی نے آجمالاً جہاد کے آغراض اور مقاصد کی طرف اشارہ فرمایا ھے ۔ حکم جہاد کے اغراض و مقاصد  کی وضاحت کرتے ہوئے اس طرح ارشاد ہوتا ہے: اگر الله مومنین کا دفاع نہ کرے اور جہاد کی اجازت نہ دے کر بعض کو بعض کے ذریعے مغلوب نہ کرے تو دیر، گرجے یہود ونصاریٰ کے عبادت خانے اور مساجد کہ جن میں کثرت سے الله کا ذکر ہوتا ہے، ویران ہوجائیں چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ھے 

وَلَوْلَادَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیھَا اسْمُ اللهِ کَثِیرًا O 

بیشک اگر صاحبان ایمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں، ظالموں، جابروں اور بے ایمان دنیا پرستوں کی تابہ کن کارستانیوں کے مقابلے میں خاموش تماشائی بنے رہیں اور انھیں کھل کر کھیلنے کی کھلی چھٹی دیتے رہیں، تو یقیناً وہ معابد اور عبادتگاہوں کا نام ونشان تک نہ چھوڑریں کیونکہ معابد وعبادتگاہیں، بیداری کی درسگاہیں ہیں، محرابِ عبادت میدان جنگ ہے اور مسجد سرکشوں کے خلاف مورچہ ہے، دراصل ہر قسم کی خدا پرستی کی دعوت ان کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہے، کیونکہ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی  کی طرح خود ان کی پرستش کی جائے، چنانچہ اگر انھیں موقع ملے تو عبادت کے تمام مراکز کا مسمار کردیں جہادکا حکم دینے اور جنگ جہاد کی اجازت دینے کا یہ ایک مقصد بیان کیا گیا ہے ۔

”صوامع“ ”بیع“ صلوات اور مساجد میں فرق سے متعلق مفسرین میں اختلاف ہے، لیکن جو بات زیادہ واضح  نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ”صوامع“ ”صومعہ“ کی جمع ہے، یہ اس جگہ کو کہتے ہیں جو عام طور پر شہروں کے باہر لوگوں کے شور وغل سے دور تارک الدنیا زاہدوں اور عبادت گذاروں کے لئے بنائی جاتی ہے، فارس میں اسے ”دیر“ کہتے ہیں، یاد رہے کہ ”صومعہ“ اس عمارت کو کہتے ہیں جس کا اُوپر کا حصّہ ایک دوسرے سے ملحق ہوتا ہے، ظاہراً اس سے چوکور گلدستوں کی طرف سے اشارہ ہے جو راہب لوگ اپنے دیروں کو سجانے کے لئے بناتے ہیں ۔

”بیع“ بیعة“ کی جمع ہے، اس سے مراد عیسائیوں کی عبادتگاہ یعنی گرجا ہے ”صلوات“ صلوٰة“ کی جمع ہے، یہ لفظ یہودیوں کی عبادتگاہوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، ”مساجد“ ”مسجد“ کی جمع ہے، جو مسلمانوں کی عبادتگاہ ہے اور دوسری تارکین دُنیا کی، نیز ”بیع“ کو عیسائیوں او یہودیوں دونوں کی عبادتگاہوں کے لئے لفظ مشترک سمجھاجاتا ہے ۔

حتمی طور پر  ”یُذْکَرُ فِیھَا اسْمُ اللهِ کَثِیرًا“ (کثرت سے ذکرِ خدا کیا جاتا ہے) مساجد کی تعریف میں آیا ہے کیونکہ جملہ مذاہب کے تقابلی جائزے کے مطابق مسلمان ہر روز پانچ مرتبہ سال بھر عبادت کرتے رہتے ہیں اور یوں مسلمانوں کے عبادتی مراکز سب سے زیادہ بارونق رہتے ہیں، جبکہ بہت سے دوسرے مذاہب کے عبادتی مراکز ہفتے میں ایک بار یا سال بھر میں چند مخصوص ایّام میں استعمال میں آتے ہیں ۔

رفعِ فساد جہاد کے اھم مقاصد میں سے ھے چنانچہ ارشادِ ربانی ھے 

وَلَوْلَا دَفْعُ اللّـٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُـمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللّـٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِيْنَ O

اور اگر اللہ کا بعض کو بعض کے ذریعے سے دفع کرا دینا نہ ہوتا تو زمین فساد سے پُر ہو جاتی، لیکن اللہ جہان والوں پر بہت مہربان ہے


آخر میں ایک بار پھر  مددِ الہی  کے وعدے کا اعادہ کیا  گیا ھے جارہا ہے

وَلَیَنصُرَنَّ اللهُ مَنْ یَنصُرُہُ

یقیناً الله ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اس کی مدد کرتے ہیں  یعنی اس کے دین اور عبادتگاہوں کا دفاع کرتے ہیں

اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ خدا کا وعدہ پورا ہوکر رہتا ہے کیونکہ وہ قادر اور ناقابل شکست ہے  جیسا کہ ارشاد باری ھے 

إِنَّ اللهَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ

یہ اس لئے فرمایا کہ توحید کے متوالے اور پاسدار کہیں یہ تصور نہ کربیٹھیں کہ وہ حق وباطل اور طاقتور دشمنوں کے نرغے میں اکیلے اور بے سہارا ہیں، اسی وعدے کے بھروسہ میں اکثر مسلمان مجاہدوں نے باوجوود اس کے کہ تعداد اور آلاتِ حرب وضرب کے لحاظ سے کفار کے مقابلہ میں کہیں کم تھے، زبردست اور شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ صاف ظاھر ھے کہ ان کامیابیوں کی وجہ غیبی نصرت الٰہی کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے؟ 

 پھر ان کی یوں تعریف کی گئی ہے: وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب زمین پر ان کو صاحب اقتدار بناتے ہیں، وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة ادا کرتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں 

الَّذِینَ إِنْ مَکَّنَّاھُمْ فِی الْاٴَرْضِ اٴَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوْا الزَّکَاةَ وَاٴَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَھَوْا عَنْ الْمُنْکَرِ) ۔

وہ کامیابی کے بعد سرکشوں، متکبروں اور ظالموں کی طرح کبھی داد عیش نہیں دیتے، نہ لہو ولعب میں زندگی ضائع کرتے ہیں اور نہ نشہٴ اقتدار سے بدمست ہوتے ہیں، بلکہ وہ کامیابیوں، کامرانیوں اور اس توفیقِ خاص کو اپنی اور معاشرے کی اصلاح وتعمیر وترقی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں وہ حکومت حاصل ہونے کے بعد خدا کے خلاف ایک اور طاغوتی طاقت بن کر نہیں اُبھرتے بلکہ  رب ذوالجلال اور اس کی مخلوق کے ساتھ ان کے روابط اور گہرے ہوجاتے ہیں، کیونکہ وہ نماز قائم کرتے ہیں، جو الله سے گہرے روابط کی علامت ہے، زکوٰة دیتے ہیں، جو حقوق بشر وخدمت خلق کی نشانی ہے، بھلائی کی ترغیب دے کر اور بُرائی کی حوصلہ شکنی کرکے صاف ستھرا معاشرہ تشکیل دیتے ہیں، یہی چار صفات ان کے تعارف کے لئے کافی ہیں، انہیں کے زیرِ سایہ باقی عبادات اعمال صالح اور اچھے معاشرے کی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں اور فلاحی کام پروان چڑھتے ہیں ۔

یاد رہے ”مکنّا“ ”تمکین“ کے مادہ سے ہے، جس کا مطلب وسائل وذرائع کی فراہمی ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ آلات ہوں یا کافی علم وآگاہی یا جسمانی توانائی ”معروف“ اچھے اور پسندیدہ امور کے معنی میں ہے اور ”منکر“ قبیح وناپسندیدہ اور باطل کے معنی میں کیونکہ اوّل الذکر ہر عقل سلیم رکھنے والے شخص کے لئے جانا پہچانا ہے اور موخر الذکر اجنبی بیگانہ ۔ بالفاظ دیگر اوّل الذکر فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ ہے، جبکہ موخر الذکر خلاف فطرت، آیت کے آخر میں ارشاد ہورہا ہے: تمام کاموں کا انجام واختتام الله کے ہاتھ میں ہے 

وَلِلّٰہِ عَاقِبَةُ الْاٴُمُورِ

جس طرح ہر کام، ہرکامیابی اور تسلط کی ابتداء ومنتہا الله کی طرف سے ہے، اسی طرح اس کا اختتام وانجام ونتیجہ کی بازگشت بھی اسی کی طرف ہے 



حکمِ جہاد کا فلسفہ

زیرِ بحث آیت  ان پہلی آیات میں سے ہے جن میں مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دی گئی ہے اور ان آیتوں کا مضمون اور مفہوم اس حکم کے فلسفے کے دو اہم اجزاء کی طرف اشارہ کرتا  ہے:

۱- ظالم  وجابر کے خلاف مظلوم کا جہاد 

بلاشبک وشبہ یہ مظلوم کا پیدائشی، فطری اور عقلی حق ہے کہ ظلم کے سنگ گراں کے نیچے پسنے کی بجائے ظالم کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو، چیخ وپکار کرے، ہتھیار اُٹھائے، اس کو اس کے اصلی مقام تک پہنچائے اور اپنے حقوق کی جانب اُٹھنے والے اس کے ہاتھوں کو قطع کرے ۔

۲- طاغوتی طاقتوں کے خلاف جہاد

طاغوتی طاقتیں دلوں سے نامِ خدا کو نکالنے اور خدا کے ذکر وعبادت کے مراکز کو ویران اور برباد کردینا چاہتی ہیں، کیونکہ یہی عبادتگاہیں شعور وبیداری کے مراکز ہیں، لازم ہے کہ ان طاقتوں کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوجائے تاکہ وہ نامِ خدا کو محو نہ کرسکیں او لوگوں کی سوچ پر پہرے بٹھاکر ان کو اپنا زرخرید غلام نہ بنالیں ۔

یہ نکتہ بھی قابل توجّہ ہے کہ معابد ومساجد کو برباد کرنے کا صرف یہی طریقہ نہیں ہے کہ ان کی عمارات کو مسمار کردیا جائے بلکہ بالواسطہ ذرائع بھی استعمال کئے جاسکتے ہیں اور منفی سرگرمیوں اور غلط پراپیگنڈے کے ذریعے سے عوام کو مساجد ومعابد سے بدظن کیا جاسکتاہے تاکہ وہ خود ہی مساجد ومعابد کا رُخ نہ کریں اور بارونق مساجد ویرانوں میں بدل جائیں ۔

رھا یہ سوال کہ اسلام نے دلیل ومنطق کی بجائے مسلح جنگ کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کا طریقہ کیوں اختیار کیا ہے؟ اس کا جواب گذشتہ سطور میں دیا جا چکا ھے، کیا وہ ظالم درندے جو صرف ”لاالٰہ الّا الله“ کہنے کے جرم میں لوگوں کو بے گھر اور دربدر کردیتے ہیں، ان کے سیاہ وسفید کے مالک بن جاتے ہیں ان پر طرح کا ظلم روا رکھنے کے لئے کسی قانون کی پاسداری نہیں کرتے، کیا ایسے بے منطق وحشیوں کا مقابلہ طاقت کی زبان کی بجائے مذاکرات سے مسائل کا حل کیوں نہیں کرتے؟ تو آج کے دور میں اسرائیل اس کی ایک مثال ھے ۔ وہی اسرائیل جو غاصب وجارح ہے، جس نے تمام بین الاقوامی قوانین، عالمی اداروں کی تمام قراددیں اور تنبیہیں اور ہر قوم مذہب اور ملّت کے مسلّمہ انسانی حقوق کو پامال کردیا ہے، ایا وہ مذاکرات میں دلیل ومنطق کی زبان سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے! وہ اسرائیل جس نے ہزاروں بچّوں ، بوڑھوں، عورتوں، مردوں اور ہسپتالوں پر بمباری کی ھے ، ان کو آگ کی بھٹی میں جھونک دیا، کیا اس پر مذاکرات کا کچھ اثر ہوسکتا ہے؟ اسی طرح کے اور لوگ جو عوام الناس کی بیداری اور شعور کے مراکز مساجد اور دیگر عبادتگاہوں، جن کو وہ اپنے غیرقانونی مفاد کے حُصول میں سدرہ سمجھتے ہیں، کو جیسے تیسے تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کیا اس قابل ھیں کہ ان کے ساتھ مصالحانہ رویہ اختیار کیا جائے؟

بہرحال نظریاتی مسائل سے قطع نظر اگر آج دُنیا کے مختلف معاشروں کی حقیقی کیفیت پر غور کریں اور ان پر ماضی قریب وبعید میں گزرنے والے واقعات پر نظر رکھیں تو یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ بعض حالات میں طاقت اور آلات حرب وضرب کا سہارا لینا ناگزیر ہوجاتا ہے، اس لئے نہیں کہ دلیل  ومنطق میں کسی قسم کا جھُول ہے، بلکہ ظالموں اور جابروں کو دلیل اور صحیح منطق کی طرف مائل کرنے کے لئے یقیناً جہاں کام دلیل وبرہان سے بنتا ہو وہاں منطق مقدم ہے ۔


الله تعالی نے کن لوگوں سے مدد کا وعدہ فرمایا ہے

یہ نظریہ غلط ہے کہ مذکورہ بالا آیت یا دوسری آیتوں میں الله تعالی کے قوانین اور ضابطہٴ آفرینش  فطرت کے خلاف ہے، یہ وعدہ صرف ان لوگوں سے کیا گیا ہے، جو مقدور بھر قوت وطاقت اور تمام وسائل کے ساتھ میدان میں آئیں اور آیت میں بھی یہی فرمایا گیا ہے:

وَلَوْلَادَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ

خدا جابر و ظالم طاقتوں کو (سوائے استثانائی اور معجزاتی حالات کے غیبی طاقتوں مثلاً صاعقہ اور ”زلزلہ“ سے ختم نہیں کرتا بلکہ؛ خالص اور سچّے مومنین کے ذریعے دور کرتا ہے ۔

ان سچّے مومنین کی مدد اور حمایت کی جاتی ہے، یہ اس لئے ہے کہ کہیں الله کے وعدے نہ صرف یہ مسلمانوں کی سستی، کاہلی اور عدمِ احساس ذمہ داری کا موجب بن جائیں، بلکہ حرکت، فعالیت اور حصولِ مقصد کے لئے تشویق وترغیب کا سبب بھی بنیں، البتہ اس صورت میں حتمی کامیابی کی ضمانت دی گئی ہے، یہ بھی یاد رہے کہ مومنین کا یہ طبقہ کامیابی سے پہلے ہی الله سے متمسک نہیں ہوتا، بلکہ کامیابی کے بعد بھی اس آیت ”الَّذِینَ إِنْ مَکَّنَّاھُمْ فِی الْاٴَرْضِ اٴَقَامُوا الصَّلَاةَ“ کا مصداق بنتے ہوئے الله سے اپنا رابط مستحکم کرلیتا ہے اور دشمن پر کامیابی کو حق، انصاف اور شرافت کی ترویج کا ذریعہ بناتا ہے ۔

بعض روایات میں عمومی طور پر حضرات آلِ محمد امام مہدی(علیه السلام) کے انصار کو مندرجہ بالا آیت کا مصداق قرار دیا گیا ہے، مثلاً امام باقر رحمہ اللہ نے اسی آیت کی تفسیر کے ذیل میں فرمایا:

یہ آیت اوّل سے آخر آلِ محمد اور حضرت مہدی علیہ السلام کے انصار وجاں نثار کے بارے میں ناز ل ہوئی ہے ۔

”یملکھم الله مشارق الارض ومغاربھا، ویظھر الذین، ویمیت الله بہ وباصحابہ البدع والباطل کما اٴمات الشقاة الحق، حتّیٰ لایریٰ اٴین الظلم، ویاٴمرون بالمعروف وینھون عَنِ المنکر“

”الله زمین کے مشرق ومغرب کو ان کی حکمرانی میں دے دے گا، اپنے دین کو غالب قرار دے گا، امام مہدی اور آپ کے اصحاب کے ذریعے بدعت اور باطل کو اسی طرح ملیا میٹ کردے گا، جس طرح غاصبوں نے حق کو کیا تھا اور دُور دُور تک کہیں ظلم کا نام ونشان تک نہ ملے گا (کیونکہ) وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کریں گے ۔

اس سلسلے میں اور احادیث بھی روایت کی گئی ہیں، لیکن یاد رہے کہ ایسی روایات ہمیشہ آیت کے اعلیٰ اور نمایاں مصادیق کا ذکر کرتی ہیں، آیت کے عام مفہوم پر ہرگز اثر انداز نہیں ہوتیں، اس بناء پر اس آیت کا وسیع تر مفہوم تمام صاحبانِ ایمان مجاہدوں اور مومنین کو دامن میں لئے ہوئے ہے ۔


محسنین اور مخبتین اور الله کے انصار

مندرجہ آیات اور ان سے پہلے کی آیات کہتی ہیں کہ ”محسنین“ کو خوشخبری سنا دو اور بعد ازاں ان کا تعارف صاحبانِ ایمان اور کفران نعمت نہ کرنے والوں کی حیثیت سے کرواتی ہیں اور کبھی ”مخبتین“ (عجز وانکساری کرنے والے) کے طور پر اُن کا ذکر کیا ہے اور انھیں ذکر خدا کے موقع پر خوفِ خدا سے لرزاں اور مصائب وشدائد کے مواقع پر صبر وتحمل کے پیکر بننے والے، نماز قائم کرنے والے اور اپنے خدا داد وسائل ونعمات میں بندگانِ خدا شریک کرنے والے، کہہ کر پیش کیا گیا ہے، آخر میں ”الله کے انصار“ کا یوں تعارف کرایا جاتا ہے کہ وہ غالب آنے کے بعد گھمنڈ، غرور اور تکبر کی بجائے تواضع وعاجزی کی روش اختیار کرتے ہوئے نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة ادا کرتے ہیں ۔اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتے ہیں، اگر ان آیتوں کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مندرجہ بالا خصوصیات کے حامل سچّے اور خالص مومن وہ ہیں جو ایک طرف نظریات، اعتقادات اور احساس کی ذمہ داری کے اعتبار سے بہت مضبوط اور دوسری طرف میدان عمل میں خالق ومخلوق دونوں کے تمام حقوق پُوری طرح ادا کرتے ہیں، بدعنوانیوں اور برائیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور ہر قسم کی مشکلات ومصائب کا مقابلہ پامردی اور استقامت سے کرتے ہیں ۔

جاری ھے۔۔۔۔۔

Share: