قسط نمبر (97) سیرتِ اِمام الآنبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم

 جہاد فی سبیل اللہ کی حقیقت 

یہ ایک کھلی ھوئی حقیقت ھے کہ کسی بھی آمن پسند معاشرے میں انسان کی جان اور اس کے خون کو محترم  سمجھا جاتا ھے اور اس کی حفاظت کے لئے قوانین بنائے جاتے ھیں  دنیا کے سارے مذاہب میں احترامِ نفس کا یہ اصول موجود ھے اورجس مذہب اورقانون میں اس آصول کو تسلیم نہیں کیا گیا  اس مذہب اور قانون کے تحت رہ کر کوئی انسان پُرامن زندگی نہیں گذارسکتا ۔ 

           اور اگر مذھب کے علاوہ خالص انسانیت کے نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے، تو اس لحاظ سے بھی کسی ذاتی مفاد کی خاطر کسی انسان کو قتل کرنا بدترین جرم ہے، جس کا ارتکاب کرکے انسان میں کوئی اخلاقی بلندی پیدا کرنا تو در کنار، اس کا درجہٴ انسانیت پر قائم رہنا بھی ناممکن ہے۔ دنیا کے سیاسی قوانین، تو انسانی احترام کو صرف سزا کے خوف سے قوت کے بل بوتے پر قائم کرتے ہیں؛ مگر ایک سچے دین ومذہب کا کام انسانی دلوں میں اس کی صحیح قدر وقیمت پیدا کر دیتا ہے؛ تاکہ جہاں انسانی تعزیر کا خوف نہ ہو، وہاں بھی ایک انسان دوسرے انسان کا خون کرنے سے پرہیز کرے، اس نقطئہ نظر سے احترامِ نفس کی جیسی صحیح اور موٴثر تعلیم اسلام میں دی گئی ہے، وہ کسی دوسرے ادیان ومذاہب میں ناپید ہے، قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر مختلف انداز وپیرایہ سے اس تعلیم کو انسانی دلوں میں دل نشیں کیاگیا ہے؛ چنانچہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: 

وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ أَثَاماًOالفرقان)

اور جس ذات کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہیں کرتے ہیں، ہاں مگر حق پر اور وہ زنا نہیں کرتے اور جو شخص ایسے کام کرے گا تو سزا سے اس کو سابقہ پڑے گا۔“

          اس حکم  کے اولین مخاطب تو وہ لوگ تھے، جن کے نزدیک انسانی جان ومال کی کوئی قدر وقیمت نہ تھی اور جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے اولاد جیسی عظیم نعمت کو بھی موت کے گھاٹ اتارنے میں فخر محسوس کیا کرتے تھے؛ اس لیے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم ان کی طبیعتوں کی اصلاح کے لیے خود بھی ہمیشہ احترامِ نفس کی تلقین کیا کرتے  تھے، احادیثِ مبارکہ کا مطالعہ کرنے والے حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ انسانی حقوق کے متعلق  ارشادات وبیانات سے بھرا پڑا ہے، جس کے اندر ناحق خون بہانے کو گناہِ عظیم اور بدترین جرم بتایا گیا ہے، جیسے حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کا فرمان ہے

 ”الکبائرُ الاشراکُ باللہِ وقتلُ النَفْسِ وعقوقُ الوالدینِ والیَمِیْنُ الغَمُوسُ“ (مشکوٰة)

بڑے گناہوں میں سے اللہ کے ساتھ شرک کرنا، قتل کرنا ، والدین کی نا فرمانی کرنا اور جھوٹی قسمیں کھانا ہے۔

          حرمتِ نفس کی یہ تقسیم کسی فلسفی، دانشور  یا معلم اخلاق کی نہ تھی کہ اس کا دائرۂ کار صرف کتابوں کی حد تک محدود رہتا بلکہ یہ تو  اللہ تعالی اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی تعلیم تھی، جن کا ہر ہر لفظ مسلمانوں کے لیے ایمان ویقین کا درجہ رکھتا ہے، جن کی پیروی ہر اس شخص پر واجب اور ضروری ہو جاتی ہے، جو کلمہٴ توحید (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) کا اقرار کرتا ہو؛ چنانچہ ایک چوتھائی صدی کے قلیل عرصہ میں ہی اس تعلیم کی بدولت عرب جیسی خونخوار اور جانور نما قوم کے اندراحترامِ نفس اور امن پسندی کا ایسا مادہ پیداہوا کہ ایک عورت رات کی تاریکی میں تنِ تنہا قادسیہ سے صنعا تک سفر کرتی تھی اور کوئی اس کی جان ومال پر حملہ نہ کرتا تھا اور باحفاظت وہ اپنی منزل تک پہنچ جایا کرتی تھی؛ حالانکہ یہ انھیں درندوں اور لٹیروں کا شہر اور ملک تھا، جہاں بڑے بڑے دل گردے والے بھی گذرتے ہوئے لرزجایا کرتے تھے، گویا کہ حیوانیت اور قساوتِ قلبی ان کے لیے عام بات تھی، ایسے سنگین حالات میں اسلام نے ببانگِ دُہُل یہ آواز بلند کی: 

وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہُ اِلاَّ بِالْحَقِّO (الفرقان

یعنی انسانی جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے،اس کو ناحق قتل مت کرو؛ مگر اس وقت جب کہ حق اس کے قتل کا مطالبہ کرے“ اس آواز میں ایک قوت وطاقت تھی؛ اس لیے دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچی اور اس نے انسانوں کو اپنی جان کی صحیح قدر وقیمت سے آگاہ کیا، خواہ کسی قوم وملت نے یا کسی ملک وشہر نے اسلام کو اختیار کیا ہو یا نہ کیا ھو، اجتماعی تاریخ کا کوئی بھی انصاف پسند انسان اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا کے اخلاق وقوانین میں انسانی جان کی حرمت وکرامت قائم کرنے کا جو فخر مذہبِ اسلام کو حاصل ہے وہ کسی دوسرے ادیان ومذاہب کو حاصل نہیں۔

          غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ﴿وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہُ﴾ ہی نہیں فرمایا؛ بلکہ ﴿اِلاَّ بِالْحَقِّ﴾ بھی کہا گیا، ایسے ہی ﴿مَنْ قَتَلَ نَفْساً فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً﴾ ہی نہیں فرمایا؛ بلکہ اس کے ساتھ ﴿بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِیْ الْاَرْضِ﴾ بھی کہا گیا، یہ نہیں کہ کسی بھی جان کو کسی بھی حال میں قتل مت کرو، اگر ایسا کہا جاتا ، تو یہ عدل کے بالکل خلاف ہی نہیں؛ بلکہ حقیقی ظلم ہوتا، دنیا کو اصل ضرورت اس بات کی نہ تھی کہ انسان کو قانونی گرفت سے بالکل آزاد کردیاجائے کہ جتنا چاہے، جہاں چاہے، جب چاہے فساد برپا کرے، جس قدر چاہے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے، جس کو چاہے اور جب چاہے بے آبرو کرکے اس کی عزت وآبرو کا جنازہ نکال دے اور ان تمام کے باوجود اس کی جان محترم ہی رہے بلکہ اصل ضرورت یہ تھی کہ دنیامیں امن وامان کی خوش گوار فضا قائم کی جائے اور ایک ایسا منظم دستورالعمل تیار کیا جائے، جس کے تحت ہر فرد اپنی حدود میں آزاد رہے اور کوئی شخص اپنے حدود سے تجاوز نہ کرے، اس غرض کے لیے ﴿اِلاَّ بِالْحَقِّ﴾ کی محافظ قوت درکار تھی ورنہ امن کی جگہ بدامنی ھوتی


قتلِ حق اور قتلِ بغیر الحق کا فرق

          قتل ناحق کی ایسی سخت ممانعت اور قتل حق کی ایسی سخت تاکید کرکے شریعت ِ اسلامیہ نے افراط وتفریط کی راہوں کے درمیان عدل و توسط کی سیدھی راہ کی طرف  راہ نمائی کی ہے، ایک طرف وہ مُسرف اور حد سے تجاوز کرنے والا گروہ ہے، جو انسانی جان کی کوئی قدر وقیمت نہیں سمجھتا اور دوسری طرف وہ غلط فہم اور کورچشم گروہ ہے، جو انسانی خون کی دائمی حرمت کا قائل ہے اور کسی صورت میں بھی اسے بہانا جائز نہیں گردانتا،اسلام نے ان دونوں غلط خیالوں کی تردید کردی اور اس نے یہ تعلیم دی کہ انسانی نفس کی حرمت نہ تو ابدی اور دائمی ہے اور نہ اس کی قدر وقیمت اس قدر ارزاں اور سستی ہے کہ نفسانی جذبات کی تسکین کی خاطر اسے ہلاک کردینا جائز ھو ۔ مگر جب وہ سرکشی اختیار کرکے حق پر دست درازی کرتاہے، تو اپنے خون کی قیمت کو کھودیتا ہے، پھر اس کے خون کی قیمت اتنی بھی نہیں رہ جاتی جتنی کہ پانی کی قیمت ہوتی ہے۔


جہاد فی سبیل اللہ ایک اخلاقی فریضہ

          جب کوئی جماعت سرکشی پر اتر آتی ہے، تو وہ کوئی ایک فتنہ نہیں ہوتا، جو وہ برپا کرتی ہو؛ بلکہ ان میں طرح طرح کے شیطان صفت انسان بھی شامل ہوتے ہیں اور ہزاروں طرح کے فتنے ان کی بدولت وجود پذیر ہوتے ہیں، ان شیطانوں میں سے تو بعض طمع وحرص کے پجاری ہوتے ہیں جو غریب قوموں پرڈاکہ ڈالتے ہیں اور ان کے خون پسینہ سے کمائے ہوئے روپیوں پیسوں کو اپنی عیارانہ چالوں سے لوٹتے ہیں اور پھر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں، عدل وانصاف کو مٹا کر جور وجفا کے علَم کو بلند کرتے ہیں، ان کے ناپاک اثر سے قوموں کے اخلاق تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں، تو ایسی حالت میں جنگ جائز ہی نہیں؛ بلکہ فرض ہو جاتی ہے، اس وقت انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہی ہوتی ہے کہ ان ظالم بھیڑیوں کے خون سے صفحہٴ ہستی کے سینے کو سرخ کردیا جائے اور ان مفسدوں کے شر سے اللہ کے مظلوم وبے کس بندوں کو نجات دلائی جائے، جو شیطان کی امت بن کر اولادِ آدم پر اخلاقی، روحانی اور مادی تباہی کی مصیبتیں نازل کرتے ہیں، وہ لوگ انسان نہیں بلکہ انسانوں کی شکل وصورت میں درندے اورانسانیت کے حقیقی دشمن ہوتے ہیں، جن کے ساتھ اصلی ہمدردی یہی ہے کہ ان کو صفحہٴ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا جائے، ایسے وقت میں ہر سچے، بہی خواہ انسانیت کا اولین فرض ہوجاتا ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف تلوار اٹھائے اور اس وقت تک آرام نہ کرے، جب تک کہ خدا کی مخلوق کو اس کے کھوئے ہوئے حقوق واپس نہ مل جائیں۔


حق وباطل کی حد بندی

          پھر اللہ تعالیٰ نے لڑائی کی اہمیت وضرورت کو ظاہر کرنے کے بعد یہ تصریح بھی فرمادی : 

﴿اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ج وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْآ اَوْلِیَآءَ الشَّیْطٰنِ ج اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفاًO﴾ (النساء) 

جو لوگ ایمان دار ہیں، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جو کافر وسرکش ہیں وہ ظلم وسرکشی کی خاطر لڑتے ہیں، پس شیطان کے دوستوں سے لڑوکہ شیطان کی تدبیر لچر ہوتی ہے“ 

یہ ایک قولِ فیصل ہے، جس کے اندر حق وباطل کے درمیان خط کھینچ دی گئی ہے کہ جو لوگ ظلم وسرکشی کے لیے جنگ کریں گے، وہ شیطان کے حامی ہیں اور جولوگ ظلم کو مٹانے کے لیے جنگ کرتے ہیں، وہ راہِ خدا کے مجاہد ہیں۔


جہاد فی سبیل اللہ اور افرادی قوت کا تناسب

جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں سورۃ الانفال  میں اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اہل ایمان کو لڑائی پر ابھاریں اور اس کے ساتھ یہ وعدہ فرمایا ہے کہ اگر دس کافروں کے مقابلہ میں ایک مسلمان ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ساتھ شامل ہوگا تو دس کے مقابلہ میں ایک مسلمان کو غلبہ نصیب ہوگا چنانچہ ارشادِ باری تعالی ھے:-

يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صَابِـرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَـةٌ يَّغْلِبُـوٓا اَلْفًا مِّنَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّـهُـمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ O

اے نبی! مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو، اگر تم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے، اور اگر تم میں سو ہوں گے تو ہزار کافروں پر غالب آئیں گے اس لیے کہ وہ لوگ کچھ نہیں سمجھتے۔

 یہ ابتدائی حکم تھا جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تخفیف فرما دی کہ دو کے مقابلہ میں ایک مسلمان کو غلبہ ملے گا اگر اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا حکم اور حکمت شامل ہوگی۔ چنانچہ آیتِ مبارکہ ھے

اَلْاٰنَ خَفَّفَ اللّـٰهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِيْكُمْ ضَعْفًا ۚ فَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَـةٌ صَابِرَةٌ يَّغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ اَلْفٌ يَّغْلِبُـوٓا اَلْفَيْنِ بِاِذْنِ اللّـٰهِ ۗ وَاللّـٰهُ مَعَ الصَّابِـرِيْنَ O

اب اللہ نے تم سے بوجھ ہلکا کر دیا اور معلوم کر لیا کہ تم میں کس قدر کمزوری ہے، پس اگر تم سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے، اور اگر ہزار ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئیں گے، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

یہ دونوں حکم  قرآن مبارک میں ایک ہی جگہ یکے بعد دیگرے مذکور ہیں جس سے فقہاء یہ مسئلہ بیان کرتے ہیں کہ اگر کسی جگہ مسلمانوں کا لشکر اپنے سے دوگنے  کافروں کے مقابلہ میں ہے تو اسے میدان جنگ سے تعداد کی کمی کی بنیاد پر پیچھے ہٹنے کی اجازت نہیں ہے، ہاں اس سے زیادہ تعداد اور تناسب ہو تو پھر اس کی اجازت ہے کہ میدان سے ہٹ جائیں۔ اس سے بعض اہل علم  و دانش  کو یہ مغالطہ ہوا ہے کہ یہ ایک اور دو کا تناسب جہاد کی فرضیت کے لیے شرط کا درجہ رکھتا ہے اس لیے اگر کسی جگہ کافروں کی طاقت اور تعداد مسلمانوں کی طاقت و تعداد کی دوگنے سے زیادہ ہے تو وہاں مسلمانوں پر جہاد سرے سے فرض ہی نہیں ہوتا بلکہ اگر وہ اس صورت میں کافروں کے مقابلہ میں صف آراء ہوں گے تو قرآن کریم کے حکم کی خلاف ورزی کریں گے اور ان کا یہ اقدام شرعی تقاضوں کے منافی ہوگا۔ اسی پس منظر میں مختلف ممالک میں مسلمانوں کی ان جہادی گروپوں کی عسکری کاروائیوں کو بھی  ان دانشوروں کی طرف سے ناروا یا کم از کم خلاف حکمت و مصلحت قرار دیا جاتا ہے جو اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتوں کے خلاف عسکری جدوجہد میں مصروف ہیں اور بعض جگہ تو ان کا تناسب سو گنا سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ جہادی تحریکیں محض جذبات کے تحت کام کر رہی ہیں اور حکمت و دانش بلکہ شرعی اصولوں اور احکام کی رو سے ان کی اس جذباتی جدوجہد کی حمایت کرنا ضروری نہیں ہے۔ یہ بات محض مغالطہ کی حیثیت رکھتی ہے اور عام مسلمانوں کو جہادی تحریکات کے بارے میں بلاوجہ تشویش اور تذبذب میں ڈالنے کے مترادف ہے اس لیے کہ قرآن کریم نے کافروں کے مقابلہ میں قتال یعنی لڑائی کے لیے کم از کم ایک اور دو کا جو تناسب ان آیات میں بیان کیا ہے وہ جہاد کی فرضیت یا آغاز کے لیے شرط کے طور پر نہیں بلکہ میدان جنگ سے پیچھے ہٹنے کے لیے جواز کے درجہ میں ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر کسی جگہ مسلمانوں کی قوت کا تناسب اس سے کم ہو تو وہ جہاد شروع نہیں کر سکتے بلکہ یہ ہے کہ جہاں قوت کا تناسب ایک اور دو سے کم ہو اور مسلمان حالات کے پیشِ نظر تعداد کی کمی کی وجہ سے پیچھے ہٹنا چاہیں تو انہیں اس کی اجازت ہے اور اگر اس صورت میں وہ میدان سے ہٹ آئیں گے تو وہ ’’فرار من الزحف‘‘ یعنی میدان جنگ سے بھاگنے کے مجرم قرار نہیں پائیں گے۔ یہاں بھی بات صرف اجازت تک ہے کہ ہٹنا چاہیں تو ہٹ سکتے ہیں، یہ حکم نہیں ہے کہ اس صورت میں ان پر میدان جنگ چھوڑ دینا شرعاً ضروری ہو جائے گا۔ چنانچہ انہی آیات کے تحت حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی رحمہ اللہ  ’’موضح القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’دورِ اول کے مسلمان یقین میں کامل تھے ان پر حکم ہوا کہ آپ سے دس برابر کافروں پر جہاد کریں، پچھلے مسلمان ایک قدم کم تھے تب یہی حکم ہوا کہ دو برابر جہاد کریں، یہی حکم اب بھی باقی ہے لیکن اگر دو سے زیادہ پر حملہ کریں تو بڑا اجر ہے کیونکہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے وقت میں ایک ہزار مسلمان اسی ہزار سے بھی لڑے ہیں۔ ‘‘

حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی رحمہ اللہ فرما رہے ہیں کہ اپنے سے دو گنا سے زیادہ کافروں پر جہاد میں حملہ کرنا منع نہیں بلکہ زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے اور اس کی دلیل کے طور پر وہ جناب نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے دور کے جس واقعہ کا ذکر فرما رہے ہیں اس میں تناسب ایک اور اسی کا بنتا ہے کہ صرف ایک ہزار مسلمانوں نے اسی ہزار کافروں کا مقابلہ کیا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن کریم کا بیان کردہ ایک اور دو کا تناسب جہاد کی فرضیت اور آغاز کے لیے نہیں بلکہ میدان جنگ سے پیچھے ہٹنے کے لیے جواز کی شرط کے طور پر ہے اور اس حکم کے حوالہ سے جہادی تحریکات پر حرف گیری کرنا قرآن کریم کے منشا کے خلاف ہے۔

یہ بات بھی قابلِ غور ھے کہ مفسرین کرام  کے نزدیک ان آیات کا نزول غزوۂ بدر کے موقعہ پر ہوا۔ ایک اور دس کے تناسب میں جنگ جاری رکھنے کا حکم غزوۂ بدر سے پہلے کا ہے اور اس میں ایک اور دو کے درجہ تک تخفیف غزوۂ بدر کے بعد ہوئی ہے۔ جبکہ اس کے بعد خود جناب نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے دور میں جو غزوات ہوئے ان میں اکثر جنگوں میں مسلمانوں اور کافروں کا تناسب ایک اور دو کا نہیں تھا لیکن اس کے باوجود نہ صرف جنگ ہوئی بلکہ جناب رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے اس کی قیادت بھی فرمائی۔ غزوۂ احد میں جناب نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے لشکر کی تعداد سات سو تھی اور مقابلہ میں تین ہزار کفار تھے، یہاں کفار کا تناسب چار گنا سے بھی زیادہ بنتا ہے لیکن اس کے باوجود جناب رسالت مآب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے میدان جنگ میں مقابلہ کیا حتیٰ کہ کفار کے میدان چھوڑ کر چلے جانے کے بعد بھی حمراء الاسد تک ان کا تعاقب کیا۔ غزوۂ خندق میں بعض روایات کے مطابق چوبیس ہزار کے لگ بھگ کفار کا جم غفیر مدینہ منورہ پر چڑھ دوڑا تھا جس کا مقابلہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے صرف تین ہزار کی نفری کے ساتھ کیا، یہاں مسلمانوں اور کافروں کا تناسب ایک اور آٹھ کا بنتا ہے۔

اگر سورۃ الانفال کی مذکورہ آیات کا مطلب یہی تھا کہ اپنے سے دو گنا سے زائد کافروں کے مقابلہ میں جہاد کرنا جائز نہیں ہے تو نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  اپنے سے آٹھ گنا زیادہ قوت کے مقابلہ میں صف آراء ہونے کی بجائے مذاکرات، صبر کے ساتھ حالات کو برداشت کرنے اور قوت کا توازن درست ہونے تک تیاری اور انتظار کرنے کی پالیسی اختیار فرماتے لیکن ایسا نہیں ہوا اور جناب رسالت مآب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے آٹھ گنا زیادہ قوت کے مقابلہ میں نہ صرف ہتھیار اٹھائے بلکہ انہیں میدان سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیا۔ خیبر کے غزوہ میں حضور آکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کا لشکر سولہ سو افراد پر مشتمل تھا جس کی قیادت کرتے ہوئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے خیبر پر چڑھائی کی اور ان کا مقابلہ بیس ہزار یہودیوں سے ہوا۔ اور یہ غزوۂ خندق کی طرح دفاعی جنگ نہیں تھی بلکہ اقدامی جہاد تھا کہ جناب نبی اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے خیبر پر حملہ کیا اور اپنے سے کم از کم بارہ گنا زیادہ قوت کو شکست دے کر خیبر پر قبضہ کر لیا۔

جناب نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے بعد خلفاء راشدین اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی یہ صورت حال قائم رہی۔ قادسیہ کی جنگ میں مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار تھی اور مقابلہ ایک لاکھ بیس ہزار ایرانیوں سے ہوا جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔ یرموک کی جنگ میں علامہ ابن خلدونؒ کے مطابق بتیس ہزار مسلمان چار لاکھ رومیوں کے مقابلہ میں صف آراء ہوئے اور رومیوں کو کم و بیش ایک لاکھ لاشیں میدان میں چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ اسپین کے معروف معرکہ میں طارق بن زیادؒ کی فوج کی تعداد صرف بارہ ہزار تھی اور مقابلہ میں ایک لاکھ عیسائیوں کا لشکر تھا اور یہاں بھی دفاع مقصود نہیں تھا بلکہ طارق بن زیادؒ نے سمندر پار کر کے خود اسپین پر چڑھائی کی تھی اور آٹھ گنا زیادہ قوت کو شکست دے کر اسپین پر قبضہ کر لیا تھا۔ پانچویں صدی ہجری میں قیصر ارمانوس دیوجانس نے تین لاکھ کا لشکر لے کر سلطان ارسلان سلجوقی پر چڑھائی کر دی۔ سلطان کے پاس صرف پندرہ ہزار کی نفری تھی، سلطان کو پہلے پریشانی ہوئی مگر اس وقت کے ایک بڑے عالم امام ابونصر محمد بن عبد المالکؒ نے سلطان کو حوصلہ دیا اور کہا کہ تعداد کی قلت کی وجہ سے میدان سے ہٹنا درست نہیں ہے ہمیں مقابلہ کرنا چاہیے، چنانچہ سلطان نے میدان میں مقابلہ کیا اور فتح پائی۔

ماضی قریب میں آفغانستان کے مجاھدین کی مثال سب کے سامنے ھے کہ اُن کا مقابلہ تو تمام دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں سے تھا جو ھر طرح کے جدید سامانِ حرب سے لیس تھیں اور مجاھدین اور ان کی تعداد کا  سرے سے کوئی موازنہ تھا ھی نہیں ۔    لیکن  قلیل تعداد اور سامانِ حرب کے اعتبار سے  نہتے مجاھدین  نے اللہ کے بھروسے پر جہاد کیا اور اللہ کے فضل سے پوری دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کے دانت کھٹے کر دیے اور اُنہیں اپنے وطن سے نکال باھر کرنے میں کامیاب ھوئے 

یہ چند واقعات بطور نمونہ کے ہیں ورنہ تاریخ اسلام اور اسلامی غزوات کا تسلسل کے ساتھ مطالعہ کر کے ایسے واقعات معلوم کیے جائیں تو ان کی تعداد سینکڑوں سے بڑھ جائے گی جہاں مسلمانوں کا مقابلہ دو گنا سے زیادہ نہیں بلکہ پانچ گنا اور دس گنا سے بھی زیادہ فوجوں سے ہوا لیکن پوری تاریخ اسلام میں کہیں بھی کسی عالم یا دانشور نے قرآن کریم کی ان آیات کا حوالہ دے کر مسلمانوں سے یہ نہیں کہا کہ تمہارے مقابلہ میں کافروں کی تعداد قرآن کریم کے بیان کردہ تناسب سے زیادہ ہے لہذا تم پر جہاد فرض نہیں 


جہاد کی فرضیت اور  ترکِ جہاد پر سخت وعیدیں  قرآن وحدیث کی روشنی میں 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں متعدد مقامات پر جہاد کی فرضیت کے متعلق ارشاد فرمایا ھے ۔ تبرکاً چند آیات مبارکہ کا یہاں ذکر کیا جاتا  ہے

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَO ۔ (البقرہ)

قتال کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو (طبعاً) برا لگتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی بات کو برا سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور ممکن ہے تم ایک کام کو بھلاسمجھو اور وہ تمہارے حق میں برا ہو اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔


وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌO  (البقرہ۔)

اور لڑو اللہ کے راستے میں اور جان لو بے شک اللہ تعالیٰ خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں۔


وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الأرْضُ وَلَكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ Oالبقرہ)

اور اگر اللہ تعالیٰ کا بعض لوگوں کے ذریعے بعض کو دفع کرانا نہ ہوتا تو زمین فساد سے بھر جاتی لیکن اللہ تعالیٰ جہاں والوں پر بڑے مہربان (کہ انہوں نے جہاد کا حکم نازل فرما کر فساد کے خاتمے اور امن کے قیام کی صورت پیدا فرما دی)


فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ (التوبہ) 

ان مشرکوں کو جہاں پاؤ مارو اور پکڑو اور گھیرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو۔


قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ O(التوبہ)

لڑو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور نہ آخرت کے دن پر اور حرام نہیں سمجھتے ان چیزوں کو جن کو اللہ نے اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور سچے دین اسلام کو قبول نہیں کرتے اہل کتاب میں سے یہاں تک کہ وہ ذلیل (ماتحت) ہو کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دینا منظور نہ کرلیں۔


وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ O(الحج)

اور اگر اللہ تعالیٰ(ہمیشہ سے) لوگوں کا ایک دوسرے (کے ہاتھ) سے زور نہ گھٹاتا تو نصاریٰ کے خلوت خانے اور عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور وہ مسجدیں جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے سب ڈھا دئیے جاتے اور بے شک اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو اللہ کے دین کی مدد کرے گا بے شک اللہ تعالیٰ قوت والا(اور) غلبے والا ہے۔

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں امام عبداللہ الحلیمی رحمہ اللہ  اپنی کتاب شعب الایمان میں ارشاد فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں یہ بات کھول کر سمجھا دی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ [مجاہد ] مسلمانوں کے ذریعے سے مشرکوں کو نہ روکیں اور مسلمانوں کو اس بات کی قوت عطا نہ فرمائیں کہ وہ مشرکوں اور کافروں سے مرکز اسلام کا دفاع کرسکیں اور کافروں کی طاقت کو توڑ سکیں اور ان کی قوت کو پارہ پارہ کر سکیں تو شرک زمین پر چھا جائے گا اور دین تباہ و برباد ہوجائے گا۔

پس یہ بات ثابت ہوگئی کہ جہاد ہی دین کی بقا اور دینداروں کی اپنی عبادات میں آزادی کا واحد راستہ ہے جب جہاد کا یہ مقام ہے تو وہ اس بات کا حقدار ہے کہ وہ ارکان ایمان میں سے ایک رکن ہو اور مسلمانوں کو چاہئے کہ جس قدر ہو سکے وہ اپنے اندر جہاد کرنے کی حد درجہ حرص پیدا کریں۔‘‘ ( شعب الایمان )

فَإِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ (محمد)

پس جب تمہارا کافروں سے مقابلہ ہو تو ان کی گردنیں مارو۔

آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! تم پر میدان جنگ میں کافروں کی گردنیں اڑانا لازم ہے۔ یہ چند آیات تو بطور نمونہ ہیں ورنہ وہ آیات جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو مشرکین اور اسلام دشمنوں کے ساتھ جہاد کا حکم دیا ہے بہت زیادہ ہیں۔


 جہاد فی سبیل اللہ پر بہت سی احادیث شریفہ ھیں جن میں سے چند آحادیثِ مبارکہ درج کی جاتی  ھیں 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ بیان فرماتے ہیں حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا مجھے [اللہ تعالیٰ کی طرف سے] حکم دیا گیا کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کرتا رہوں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار نہ کرلیں پھر جب وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرلیں گے تو ان کے جان ومال سوائے شرعی حق کے ہم سے محفوظ ہوجائیں گے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہوگا۔ (بخاری و مسلم ) 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا جہاد تم پر واجب ہے ہر امیر کے ساتھ [وہ امیر] نیک ہو یا فاسق۔ نماز تم پر لازم ہے ہر مسلمان کے پیچھے وہ نیک ہو یا فاسق اگرچہ کبائر کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو۔(ابوداؤد)


 حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا تین چیزیں ایمان کی بنیاد ہیں۔

۱۔ جو شخص لا الہ الا اللہ کا اقرار کرے اس سے ہاتھ اور زبان کو روکنا کہ ہم نہ تو کسی گناہ کی وجہ سے اسے کافر قرار دیں اور نہ کسی عمل کی وجہ سے اسے اسلام سے خارج سمجھیں۔

۲جہاد جاری رہے گا جب سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے یہاں تک کہ میری امت کے آخری لوگ دجال سے لڑیں گے کسی ظالم کا ظلم یا کسی عادل کا عدل اس جہاد کو نہیں روک سکے گا۔

۳۔ تقدیر پر ایمان رکھنا

۔ (ابوداؤد)

حضرت ابن الخصاصیہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی خدمت میں اسلام پر بیعت کرنے کیلئے حاضر ہوا تو حضور اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے میرے سامنے یہ تین شرطیں رکھیں کہ تم لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دو گے، پانچ وقت کی نمازیں پڑھو گے، زکوٰۃ ادا کرو گے، بیت اللہ شریف کے حج کرو گے، اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرو گے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم!  ان میں سے دو چیزوں [ یعنی زکوٰۃ اور جہاد ] کی میں طاقت نہیں رکھتا، زکوٰۃ کی طاقت اس لئے نہیں رکھتا کہ میرے پاس چند اونٹ ہیں جو میرے گھر والوں کے دودھ اور سواری کے کام آتے ہیں اور جہاد کی طاقت اس لئے نہیں رکھتا کہ لوگ کہتے ہیں جو شخص جہاد میں پیٹھ پھیر کر میدان سے بھاگ جائے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دے گا میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میدان جنگ میں میں موت سے ڈر جاؤں اور میرا دل گھبرا جائے [ اور میں بھاگ کھڑا ہوں ] ابن الخصاصیہ فرماتے ہیں کہ [ یہ بات سن کر ] حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے میرا ہاتھ پکڑ کر اسے ہلایا اور فرمایا نہ صدقہ دو گے، نہ جہاد کرو گے تو جنت میں کیسے داخل ہوگے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر عرض کیا اے اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم !  میں آپ سے [ تمام شرطوں کے ساتھ ] بیعت کرتا ہوں پس آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے مجھے ان تمام چیزوں پر بیعت فرمالیا۔ (المستدرک) یہ روایت امام بیہقی نے سنن الکبریٰ میں بھی ذکر فرمائی ہے۔

 حضرت سلمہ بن نفیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم ! گھوڑے چھوڑ دئیے گئے ہیں اور اسلحہ رکھ دیا گیا ہے اور کچھ لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ اب لڑائی [جہاد ] ختم ہوچکی ہے [ یہ سن کر ] حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ [جو جہاد ختم ہونے کا گمان کررہے ہیں] جھوٹے ہیں جہاد تو ابھی شروع ہوا ہے اور میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتی رہے گی اور اس کی مخالفت کرنے والے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خاطر کچھ لوگوں کے دل ٹیڑھے کرے گا تاکہ ان کے ذریعے ان [ مجاہدین ] کو روزی دے۔ [ یعنی امت کے یہ مجاہد لوگ کافروں سے لڑیں گے تو ان کے مال ان کے ہاتھ آئیں گے ] یہ [مجاہدین ] قیامت تک جہاد کرتے رہیں گے اور گھوڑوں کی پیشانی میں ہمیشہ کیلئے خیر رکھ دی گئی ہے قیامت کے دن تک۔ [ اور ] جہاد بند نہیں ہوگا یہاں تک کہ یاجوج ماجوج نکل آئیں ۔(نسائی)


 حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے ارشا د فرمایا جہاد کرو مشرکوں کے ساتھ اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے اور اپنی زبانوں سے۔

(ابوداؤد۔ نسائی، حاکم وقال صحیح علی شرط مسلم) 

 حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا ہر امام کے پیچھے نماز پڑھو اور ہر [ مسلمان] میت کی نماز جنازہ ادا کرو اور ہرامیر کے ساتھ جہاد کرو۔ (ابن ماجہ۔ ابن عساکر)

 حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اسلام کے آٹھ حصے ہیں۔ اسلام قبول کرنا ایک حصہ ہے۔ نماز ایک حصہ ہے۔ زکوٰۃ ایک حصہ ہے۔ حج ایک حصہ ہے۔ جہاد ایک حصہ ہے۔ رمضان کے روزے ایک حصہ ہے۔ امر بالمعروف ایک حصہ ہے۔ نہی عن المنکر ایک حصہ ہے اورمحروم ہوگیا وہ شخص جس کے پاس [ ان حصوں میں سے ] کوئی حصہ بھی نہ ہو۔ (ابو یعلی) یہی روایت حضرت حذیفہ  اور حضرت عمر سے بھی موقوفاً مروی ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ)

 حضرت حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت یحییٰ بن زکریا علیہم السلام کو پانچ باتوں کا حکم دیا کہ ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کا حکم دیں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے لوگوں کو بیت المقدس میں جمع فرمایا [ لوگ جمع ہوگئے اور ان سے ] مسجد بھر گئی اور کچھ لوگ [باہر] اونچی جگہوں پر بیٹھ گئے تب حضرت یحییٰ علیہ السلام نے ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے پانچ باتوں کے بارے میں حکم دیا ہے کہ میں [خود] ان پر عمل کروں اور تمہیں بھی اس نے ان باتوں پر عمل کا حکم فرمایا ہے۔ ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ صر ف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ بے شک اس شخص کی مثال جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے اس شخص کی مانند ہے جس نے خالص اپنے مال یعنی سونے چاندی سے ایک غلام خریدا اور اسے کہا یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا کاروبار ہے پس تم یہ کاروبار کرو اور اسکا نفع مجھے لا کر دو پس وہ غلام کام تو کرتا ہے مگر اس کا نفع اپنے مالک کے علاوہ کسی اور کو دے دیتا ہے۔ پس تم میں سے کون شخص یہ بات پسند کرے گا کہ اس کا غلام ایسا ہو [ جس طرح تم اپنے غلام کے بارے میں یہ پسند نہیں کرتے اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے بارے میں یہ پسند نہیں فرماتا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں ] اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں نماز کا حکم فرمایا ہے پس جب تم نماز پڑھو تو ادھر ادھر توجہ نہ کیا کرو کیونکہ جب تک بندہ نماز میں ادھر ادھر توجہ نہیں کرتا اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف متوجہ رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں روزے کا حکم دیا ہے بے شک روزے دار کی مثال اس شخص جیسی ہے جو کسی جماعت میں مشک کی تھیلی لے کر بیٹھا ہو چنانچہ وہ خوشبو سب کو اچھی لگتی ہے اور بے شک روزے دار کے منہ کی خوشبو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔

اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں صدقہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ بے شک صدقہ کرنے والے کی مثال اس شخص کی مانند ہے جسے دشمن قید کرلیں اور اس کے ہاتھ اس کی گردن سے باندھ کر اسے قتل کرنے کیلئے لے جائیں تب وہ کہے کہ میں اپنا تمام تھوڑا زیادہ مال تمہیں بطور فدیہ دیتا ہوں پس وہ مال دے کر اپنی جان چھڑا لے [ اسی طرح صدقہ دینے والا شخص صدقہ دے کر عذاب الٰہی اور آفات سے خود کو بچا لیتا ہے ] اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرو بے شک اس کی مثال اس شخص کی مانند ہے جس کے پیچھے دشمن دوڑ رہا ہو اور وہ کسی مضبوط قلعے میں پناہ لے کر اپنی جان دشمن سے بچالے اسی طرح بندہ صرف اللہ کے ذکر کی بدولت ہی شیطان سے محفوظ ہو سکتا ہے پھر فرمایا حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے کہ میں تمہیں [ یعنی اس امت کو] پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں ان باتوں کا حکم مجھے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ (۱) امیر کے حکم کو سننا۔ (۲) [ امیر کی اطاعت کرنا۔(۳) جہاد کرنا۔ (۴)ہجرت کرنا۔ (۵) [ مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنا۔ بے شک جو شخص ایک بالشت کے برابر جماعت سے الگ ہو اس نے اسلام کی رسی کو اپنے گلے سے نکال دیا مگر یہ کہ وہ دوبارہ جماعت میں لوٹ  آئے۔ (ترمذی وقال حدیث حسن صحیح،نسائی (مختصراً)وابن خزیمہ۔ ابن حبان۔ حاکم)


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ حضور اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم سے ہجرت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا فتح مکہ کے بعد ہجرت باقی نہیں رہی البتہ جہاد اور نیت جہاد باقی ہے اور جب تمہیں [ امیر کی طرف سے ] نکلنے کا حکم دیا جائے تو تم [جہاد میں ] نکل پڑو۔ (مسلم) یہی حدیث بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔


عبدالمؤمن خالد کہتے ہیں مجھ سے نجدہ بن نفیع نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے قرآن مجید کی اس آیت الا تنفروا یعذبکم  [ اگر تم جہاد میں نہیں نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دردناک عذاب دے گا۔التوبہ ۳۹ ] کا مطلب پوچھا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے عرب کے قبائل میں سے ایک قبیلے کو جہاد میں نکلنے کا حکم دیا تو انہوں نے سستی کی پس اللہ تعالیٰ نے ان پربطور عذاب کے بارش بند کردی۔ ( ابوداؤد۔ حاکم) یہ اور اس سے پچھلی حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جس مسلمان کو جہاد میں نکلنے کا حکم امیر کی طرف سے دے دیا جائے اس پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے اگرچہ عمومی حالات کے اعتبار سے اس وقت جہاد فرض کفایہ ہو۔

 حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے اپنے خطبے میں جہاد کا ذکر فرمایا اور فرض نماز کے علاوہ کسی عمل کو جہاد سے افضل قرار نہیں دیا۔ (ابوداؤد، بیہقی)

امام بیہقی اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ جہاد [ عام حالات میں ] فرض کفایہ ہوتا ہے اسی وجہ سے اس پر فرض نماز کو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فضیلت دی کیونکہ نماز فرض عین ہے۔ وہ  فرماتے ہیں کہ جہاد [ ہمیشہ فرص کفایہ نہیں رہتا بلکہ ] کبھی فرض عین بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ  قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے 

انفروا خفافا وثقالا (توبہ)

اس کا عام طورپر ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ جہاد میں نکل پڑو ہلکے اور بوجھل۔ ہلکے اور بوجھل یا خفیف و ثقیل سے کیا مراد ہے؟ امام بیہقی نے اسی کی وضاحت کیلئے آگے کئی آثار پیش فرمائے ہیں اور اس آیت سے بھی جہاد کی فرضیت کو ثابت فرمایا ہے ۔ 

 ابو راشد الحبرانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی زیارت کی وہ حمص [ نامی شہرمیں ] کسی صراف کے چھوٹے صندوق پر بیٹھے ہوئے تھے اور جہاد میں تشریف لے جانے کا ارادہ رکھتے تھے میں نے ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معذور قرار دے دیا ہے پھر آپ اس بڑھاپے میں جہاد کی مشقت میں خود کو کیوں ڈال رہے ہیں  حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ منافقوں کے راز کھولنے والی سورۃ  یعنی سورۃ توبہ  مجھے نہیں بیٹھنے دیتی [ اس سورۃ میں] اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : انفروا اخفافا وثقالا [یعنی جس حال میں بھی ہو جہاد میں نکلو] (تفسیر ابن جریر طبری)

حضرت ابو صالح رحمہ اللہ قرآن مجید کی آیت انفروا اخفافا وثقالا کا مطلب یہ بیان فرماتے ہیں کہ بوڑھے ہو یا جوان [ ہر حال میں جہاد میں نکلو] (مصنف ابن ابی شیبہ)

حضرت حسن بصری بھی خفافا و ثقالا کی یہی تفسیر فرماتے ہیں [ یعنی خفافاً سے مراد جوانی ثقالاً سے مراد بڑھاپا ] ( مصنف ابن ابی شیبہ)

 حضرت قتادہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں چست ہو یا غیر چست [ یعنی طبیعت ہشاش بشاش اور دل جہاد میں نکلنے پر راضی ہو۔ تب بھی نکلو اور اگر طبیعت ہشاش بشاش نہ ہو اور دل نہ چاہے تب بھی جہاد میں نکلو] (مصنف ابن ابی شیبہ)

 حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں ابو العوام بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے ایک سال جہاد کا ناغہ فرمایا پھر انہوں نے یہ آیت انفروا اخفافا وثقالا پڑھی تو فوراً جہاد میں نکل کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے کہ اس آیت میں مجھے تو کوئی چھوٹ نظر نہیں آتی۔

حضرت حکم رحمہ اللہ اس آیت انفروا اخفافا وثقالا کا یہ مطلب بیان فرماتے ہیں کہ مشغول ہو یا فارغ [ یعنی اگر دینی و دنیوی، ذہنی و جسمانی طور پر مصروف ہو تب بھی جہاد میں نکلو اور اگر فارغ ہو تب بھی نکلو] (مصنف ابن ابی شیبہ)

مشغول اور فارغ کا ایک معنی یہ بھی کیا جاتا ہے کہ جس شخص کے پاس ایسی چیزیں [ باغات تجارت وغیرہ ] ہوں جنہیں چھوڑ کر جانا اسے ناگوار گزرتا ہو ایسا شخص مشغول ہے اور جس کے پاس ایسی چیزیں نہ ہوں وہ غیر مشغول ہے۔

 ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں خفیف [ ہلکے ] سے مراد بہادر اور ثقیل [ بھاری ] سے مراد بزدل ہے [ یعنی تم بزدل ہو یا بہادر ہر حال میں جہاد کیلئے نکل پڑو ] (تفسیر ابن جریر طبری)

تفسیر قرطبی میں حضرت امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آیت [ انفروا اخفافا وثقالا ] کا درست مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو جہاد میں نکلنے کا حکم دیا ہے خواہ جہاد میں نکلنا ان کیلئے آسان ہو یا مشکل۔

 امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ ایک مرتبہ جہاد کے لئے ایسی حالت میں تشریف لے گئے کہ ان کی ایک آنکھ کام نہیں کررہی تھی ان سے کہا گیا کہ آپ تو بیمار ہیں[ پس اس مجبوری و معذوری کی وجہ سے گھر میں بیٹھ رہیں] یہ سن کر فرمانے لگے اللہ سے توبہ کرو اللہ تعالیٰ نے ہلکے اور بھاری سب کو نکلنے کا حکم دیا ہے۔ اگر میرے لئے میدان میں جا کر لڑنا ممکن نہ بھی ہوا تو میں مجاہدین کی تعداد بڑھاؤں گا اور ان کے سامان کی بھی حفاظت کروں گا۔

اسی طرح روایت ہے کہ شام کے غزوات میں ایک شخص نے ایک ایسے بزرگ کو میدان جنگ میں لڑتے دیکھا جن کی پلکیں بڑھاپے کی وجہ سے ان کی آنکھوں پر گری ہوئی تھیں اس شخص نے کہا چچا جان اللہ تعالیٰ نے آپ کو معذور قرا ر دیا ہے [ پھر آپ اس بڑھاپے میں کیوں اس قدر مشقت اٹھا رہے ہیں ] یہ سن کر وہ فرمانے لگے۔ اے بھتیجے ہم خفیف [ ہلکے ] ہوں یاثقیل [ بھاری] ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نکلنے کا حکم دیا گیاہے۔حضرت عمرو بن ام مکتوم نے غزوہ احد کے دن فرمایا میں نابیناآدمی ہوں آپ لوگ لشکر کا جھنڈا مجھے دے دیں کیونکہ اگر علمبردار [ جھنڈے والا ] پیچھے ہٹ جائے تو پورا لشکر شکست کھا جاتا ہے مجھے تو یہ پتہ ہی نہیں چلے گا کہ کون مجھ پر وار کرنا چاہتا ہے چنانچہ میں اپنی جگہ پر ڈٹا رہوں گا [ اور کسی حملے کے خوف سے پیچھے نہیں ہٹوں گا ] [یہ تو ان کا جذبہ تھا مگر ]اس دن جھنڈا برداری کی سعادت حضرت مصعب ابن عمیر رضی اللہ عنہ کو نصیب ہوئی۔ ( الجامع لاحکام القرآن )

 حضرت عبداللہ بن مبارک عطیہ بن ابی عطیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کوفہ کی لڑائی کے دنوں میں حضرت ابن ام مکتوم کو دیکھا کہ وہ [شوق جہاد میں] اپنی لمبی زرہ کو لشکر کی صفوں کے درمیان گھسیٹتے پھر رہے تھے۔ (کتاب الجہاد لابن مبارک)

 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ آیت انفروا اخفافا وثقالا پڑھی تو فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جہاد کا حکم دیا ہے اور ہم بوڑھے ہوں یا جوان ہمیں نکلنے کا حکم دیا ہے[ان کے عزم اور تیاری کو دیکھ کر ] ان کے بیٹھے کہنے لگے کہ آپ نے حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کے زمانے میں جہاد فرمایا ہے اب ہم آپ کی طرف سے جہاد کریں گے [ مگر وہ خود نکلے ] پھر انہوں نے سمندری لڑائی میں حصہ لیا اور دوران جہاد جہاز ہی پر انتقال فرمایا ان کے رفقاء نے کوئی جزیرہ ڈھونڈنا شروع کیا تاکہ انہیں دفن کر سکیں مگر انہیں سات دن بعد اس میں کامیابی ملی [ ان سات دنوں میں ] حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک میں کوئی تغیر نہ آیا۔ (کتاب الجہاد لا بن مبارک)

 حضرت امام ضحاک رحمہ اللہ آیت کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جب جہاد کی آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں پر یہ گراں گزری پھر جب اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کا اجرو ثواب ان کی فضیلت اور شہادت کے بعد ان کی زندگی اور ان کیلئے [ خاص ] روزی کا بیان فرمایا تو پھر [ اللہ تعالیٰ کے وعدں پر ] یقین رکھنے والوں نے جہاد پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دی پس انہوں نے جہاد کو اپنا محبوب بنالیا اور اس میں انہیں خوب رغبت ہوگئی یہاں تک کہ وہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم سے جہاد میں جانے کیلئے سواری مانگتے تھے۔ مگر جب اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم ان کے لئے سواری نہ پاتے تو وہ روتے ہوئے واپس لوٹتے تھے اس غم میں کہ ان کے پاس جہاد کیلئے خرچہ نہیں ہے۔ (کتاب الجہاد لا بن مبارک)

 حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم لوگوں پر تین سفر لازم کر دئیے گئے ہیں حج، عمرہ اور جہاد۔

حضرت مکحول رحمہ اللہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ قبلہ رخ ہو کر دس قسمیں کھاتے اور فرماتے کہ جہاد تم پر فرض ہے پھر فرماتے کہ اگر تم چاہو تو میں [ تمہارے اطمینان قلب کے لئے ] مزید قسمیں بھی کھا سکتا ہوں۔ (مصنف عبدالرزاق)


جاری ھے ۔۔۔۔۔

Share: