قسط نمبر (98) سیرتِ اِمام الآنبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم

 جہاد کی  اقسام 

جہاد سے مراد کسی نیک کام میں انتہائی طاقت و کوشش صرف کرنا اور ہر قسم کی تکلیف اور مشقت برداشت کرنا ہے۔ جہاد کو مسلسل عمل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی بہت سی آقسام ذکر ھوئی ھیں ۔ تاھم بنیادی طور پر بطور خلاصہ شریعتِ اسلامیہ کی رو سے اسے درجِ ذیل  پانچ اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ھے۔


1-جہاد بالعلم

وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا

اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں‘   حضرت فضیل بن عیاض اِس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ جو حصولِ علم میں مجاہدہ کرتے ہیں، ہم اُنہیں اس پر عمل کی راہیں دکھا دیتے ہیں۔ اسے امام بغوی نے ’معالم التنزیل‘ میں بیان کیا ہے۔

جہاد بالعلم وہ جہاد ہے جس کے ذریعے قرآن و سنت پر مبنی احکامات کا علم پھیلایا جاتا ہے تاکہ کفر وجہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور دنیا رشد و ہدایت کے نور سے معمور ہو جائے۔

اسلام میں جہاد بالعلم کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ غزوہ بدر میں قید ہونے والے ستر(70) جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے سامنے کئی آپشنز تھے مگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے اعلان  فرمایا  کہ جو فدیہ ادا نہیں کر سکتا وہ دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دے تو یہی اس کا فدیہ تصور ہوگا ۔ اس کے علاوہ بہت سی آحادیثِ مبارکہ جہاد بالعلم پر دلالت کرتی ھیں یہاں چند کا ذکر کیا جاتا ھے

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کو فرماتے ہوئے سنا: جو میری اس مسجد میں صرف خیر کے لیے علم سیکھنے یا اسے سکھانے کے لیے آیا تو وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد کے مقام و مرتبہ پر ہے۔

 (امام احمد ،ابن ماجہ ، ابن ابی شیبہ، ابو یعلی اور بیہقی)

 حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: علم حاصل کرو، کیونکہ اس کا سیکھنا اللہ کا خوف پیدا کرتا ہے، اس کا طلب کرنا عبادت ہے، اس کا مذاکرہ تسبیح ہے، اس کی جستجو میں لگے رہنا جہاد ہے، بے علم کو علم سکھانا صدقہ ہے اور جو اس کا اہل ہو اس پر مال خرچ کرنا (اللہ کے) قرب کا باعث ہے، کیونکہ علم حلال و حرام (میں امتیاز) کے لیے نشانِ راہ ہے۔ اسے امام ابن عبد البر، دیلمی اور ربیع نے روایت کیا ہے

حضرت قریش عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: اَہل بدر کا فدیہ چالیس چالیس اَوقیہ ہے۔ لیکن جو فدیہ ادا نہیں کر سکتا تھا اُس نے دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیا۔ حضرت زید بن ثابت  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ انہی قیدیوں میں سے تھے جنہوں نے (بطور فدیہ) لکھنا سکھایا۔ اسے امام ابن سعد نے ’الطبقات الکبریٰ‘ میں روایت کیا ہے۔

حضرت عبد اﷲ بن عباس  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں: بہترین جہاد اُس شخص کا ہے جس نے مسجد تعمیر کی تاکہ اس میں قرآن مجید اور فقہ و سنت کی تعلیم دی جائے (یعنی علم صحیح کو فروغ دیا جائے)۔ اسے امام قرطبی نے تفسیر ’الجامع لاحکام القرآن‘ میں اور ابن ابی یعلی نے ’طبقات الحنابلہ‘ میں بیان کیا ہے

حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ سے ایک بار سوال کیا گیا: دونوں میں سے افضل کیا ہے: جہاد یا قرآن مجید کی تعلیم دینا۔ تو امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے ثواب اور فضیلت کے اِعتبار سے تعلیمِ قرآن کو جہاد فی سبیل اﷲ پر ترجیح دی۔


جہاد بالعمل

ظلم و جبر کے خلاف  اور اَخلاقی اِصلاح کے لیے جد وجہد کرنا جہاد بالعمل کہلاتا  ہے یعنی جہاد بالعمل کا تعلق ہماری عملی زندگی سے ہے۔ اس جہاد میں قول کے بجائے عمل اور گفتار کی بجائے کردار کی قوت سے معاشرے میں انقلاب برپا کرنا مقصود ہے۔ جہاد بالعمل ایک مسلمان کیلئے احکامِ الٰہیہ پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زندگی کو ان احکام کے مطابق بسرکرنے کا نام ھے ۔ چنانچہ قرآن پاک میں ھے: 

وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُكَـفِّرَنَّ عَنْـهُـمْ سَيِّئَاتِـهِـمْ وَلَنَجْزِيَنَّـهُـمْ اَحْسَنَ الَّـذِىْ كَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ O

اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے ہم ان کے گناہوں کو ان سے دور کر دیں گے اور انہیں ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دیں گے۔

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِـدَيْهِ حُسْنًا ۖ وَاِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِىْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ اِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُـمْ تَعْمَلُوْنَ O

اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اور اگر وہ تجھے اس بات پر مجبور کریں کہ تو میرے ساتھ اسے شریک بنائے جسے تو جانتا بھی نہیں تو ان کا کہنا نہ مان، تم سب نے لوٹ کرمیرے ہاں ہی آنا ہے تب میں تمہیں بتا دوں گا جو کچھ تم کرتے تھے۔

وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّـهُـمْ فِى الصَّالِحِيْنَ O

اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے ہم انہیں ضرور نیک بندوں میں داخل کریں گے۔

چند آحادیثِ مبارکہ بھی ملاحظہ ھوں 

حضرت جریر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص ایسی قوم میں رہتا ہو جس میں بُرے کام کئے جاتے ہوں اور لوگ ان کو روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکتے ہوں تو اﷲ تعالیٰ انہیں ان کی موت سے قبل عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ اس حدیث کو امام احمد، ابوداؤد ، ابنِ ماجہ اور ابنِ حبان نے روایت کیا ہے


حضرت عبد اﷲ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے جس اُمت میں جو بھی نبی بھیجا اس نبی کے لیے اس کی اُمت میں سے کچھ مددگار اور رفقاء ہوتے تھے جو اپنے نبی کے طریق پر کار بند ہوتے اور اس کے اُمراء کی اقتدا کرتے تھے۔ پھر ان صحابہ کے بعد کچھ ناخلف اور نافرمان لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے فعل کے خلاف قول اور قول کے خلاف فعل کیا (یعنی دوسروں پر ظلم و ستم کیا)۔ لہٰذا جس شخص نے اپنے ہاتھ کے ساتھ (ظلم کے خلاف) ان سے جہاد کیا وہ بھی مومن ہے، جس نے اپنی زبان سے اُن کے ظلم کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے اور جس نے اپنے دل سے ان کے ظلم کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے۔ اس کے بعد رائی کے دانے برابر بھی ایمان کا کوئی درجہ نہیں ہے۔ اسے امام مسلم، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے


حضرت عبد اﷲ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یارسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم ! میں اجر و ثواب کے لئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  سے جہاد اور ہجرت کی بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں، بلکہ دونوں زندہ ہیں۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: کیا تو (واقعی) اﷲ تعالیٰ سے اجر و ثواب چاہتا ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: اپنے والدین کے پاس جا اور حسنِ خدمت کے ساتھ اُن دونوں کی صحبت اختیار کر۔  (متفق علیہ)

حضرت انس  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی والدہ سے منقول ایک اور روایت میں ہے: انہوں نے رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم ! مجھے نصیحت فرمائیے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: گناہوں (کی وادی) سے ہجرت کر کیونکہ یہ بہترین ہجرت ہے، فرائض کی حفاظت کر کیونکہ یہ بہترین جہاد ہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کر کیونکہ آپ اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں کوئی ایسا عمل پیش نہیں کرسکتیں جو اسے اپنے ذکر کی کثرت سے زیادہ محبوب ہو۔  (طبرانی اور ابن شاہین)

سیدنا علی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے: بہترین جہاد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا ہے۔

 الکشف والبیان ، التفسیر الکبیر اور ارشاد العقل السلیم ) 


جہاد بالمال

اپنے مال کو دین کی سر بلندی کی خاطر اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کو جہاد بالمال کہتے ہیں۔

قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے  کی تاکید و ترغیب وارد ھوئی ھے نمونہ کے طور پر چند آیات درج کی جاتی ھیں 

اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُکَذِّبُ بِالدِّيْنِo فَذٰلِکَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَo وَلَا يَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِيْنِo (الماعون)

کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟o تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو رد کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے)o اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)o

وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰیo وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرٰیo (الليل)

اور جس نے بخل کیا اور (راہِ حق میں مال خرچ کرنے سے) بے پروا رہاo اور اس نے (یوں) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کو جھٹلایاo تو ہم عنقریب اسے سختی (یعنی عذاب کی طرف بڑھنے) کے لیے سہولت فراہم کر دیں گے (تاکہ وہ تیزی سے مستحقِ عذاب ٹھہرے)o


 فَکُّ رَقَبَةٍo اَوْ اِطْعٰـمٌ فِيْ يَوْمٍ ذِيْ مَسْغَبَةٍo يَتِيْمًا ذَا مَقْرَبَةٍo اَوْ مِسْکِيْنًا ذَا مَتْرَبَةٍo (البلد)

وہ (غلامی و محکومی کی زندگی سے) کسی گردن کا آزاد کرانا ہےo یا بھوک والے دن (یعنی قحط و اَفلاس کے دور میں غریبوں اور محروم المعیشت لوگوں کو) کھانا کھلانا ہے (یعنی ان کے معاشی تعطل اور ابتلاء کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے)oقرابت دار یتیم کوoیا شدید غربت کے مارے ہوئے محتاج کو جو محض خاک نشین (اور بے گھر) ہےo

فَضَّلَ اﷲُ الْمُجَاهِدِيْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ عَلَی الْقٰعِدِيْنَ دَرَجَةً. (النساء)

اللہ نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر مرتبہ میں فضیلت بخشی ہے۔

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجَاهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اﷲِ. (التوبة)

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے رہے وہ اللہ کی بارگاہ میں درجہ کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں۔

 وَجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِيْ سَبِيْلِ اﷲِط ذٰلِکُمْ خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (التوبة)

اور اپنے مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم (حقیقت) آشنا ہوo

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اﷲِط اُولٰـئِکَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَo (الحجرات)

ایمان والے تو صرف وہ لوگ ہیں جو اﷲ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لائے، پھر شک میں نہ پڑے اور اﷲ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے رہے، یہی وہ لوگ ہیں جو (دعواے ایمان میں) سچے ہیںo

تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَرَسُوْلِهِ وَتُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ذٰلِکُمْ خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الصف)

(وہ یہ ہے کہ) تم اللہ پر اور اُس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر (کامل) ایمان رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو

اسی طرح رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے بہت سی آحادیث میں جہاد بالمال کی ترغیب فرمائی ھے 

حضرت ابو سعید خدری  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی خدمت میں آکر عرض کیا: لوگوں میں سے کون سا شخص افضل ہے؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: (سب سے بہترین وہ ہے)جو شخص اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرتا ہے۔ (مسلم اور احمد بن حنبل)

حضرت عبد اﷲ بن عباس  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: جس شخص نے تین یتیم بچوں کی کفالت کی وہ اُس شخص جیسا ہے جو رات بھر عبادت کرتا رہا، دن میں روزے رکھتا رہا اور صبح و شام تلوار لے کر اﷲ کی راہ میں جنگ کرتا رہا۔ میں اور وہ شخص جنت میں اِس طرح ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں۔ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی کو ملا کر دکھایا۔  ( ابن ماجہ) 

 شیخ اسماعیل الحقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حضرت طاووس رحمہ اللہ بہنوں کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کو جہاد فی سبیل اﷲ سے بھی اَفضل قرار دیتے تھے۔


جہاد بالنفس

جہاد بالنفس بندۂ مومن کیلئے نفسانی خواہشات سے مسلسل اور صبر آزما جنگ کا نام ہے۔ یہ وہ مسلسل عمل ہے جو انسان کی پوری زندگی کے ایک ایک لمحے پر محیط ہے۔ شیطان براہ راست انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اگر نفس کو مطیع کر لیا جائے اور اس کا تزکیہ ہو جائے تو انسان شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

وَمَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ ط اِنَّ اﷲَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰـلَمِيْنَo(العنکبوت)

جو شخص جدوجہد کرتا ہے وہ اپنے ہی لیے تگ و دو کرتا ہے، بے شک اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہےo


حضرت فضالہ بن عبید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: (بڑا) مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتا ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے، ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے

امام ابن بطال رحمہ اللہ  ’شرح صحیح البخاری‘ میں لکھتے ہیں: سیدنا علی بن ابی طالب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا سب سے پہلے تمہارے دین (پرعمل کرنے) میں جو چیز مفقود (یعنی ترک) ہو جائے گی وہ تمہارا اپنے نفوس کے خلاف جہاد ہے

اِسلام نے اِنسان کے اَخلاق و کردار کی اِصلاح یعنی نفسِ اَمارہ کے خلاف جد و جہد کو جہادِ اَکبر قرار دیا ہے۔ حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے پاس غازیوں کی ایک جماعت حاضر ہوئی، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا:

قَدِمْتُمْ خَيْرَ مَقْدَمٍ مِنَ الْجِهَادِ الْاصْغَرِ إِلَی الْجِهَادِ الْاکْبَرِ.

تمہیں جہادِ اَصغر (جہاد بالقتال) سے جہادِ اَکبر (جہاد بالنفس) کی طرف لوٹ کر آنا مبارک ہو۔

عرض کیا گیا: جہادِ اَکبر کیا ہے؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا:

مُجَاهَدَهُ الْعَبْدِ هَوَاهُ.

اِنسان کا اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا جہادِ اَکبر ہے۔ (بيهقي، ابن عساکر،  سيوطي، شرح سنن ابن ماجه)


جہاد بالقتال

اسلام کی سربلندی، دعوت و تبلیغ، انسانیت کی خدمت اور دفاع کے لیے مساعی اور نفس کی اصلاح یہ سب جہاد کی مختلف شکلیں ہیں۔اسی کی ایک قسم جنگ بھی ہے،جسے قرآنِ کریم نے’’ قتال‘‘ یا’’ جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کہا ہے۔ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے قتال تمام آسمانی مذاہب کا جُزو رہا ہے اور اسلام نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا۔

 نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  جیسی شفیق ذات نے ظلم وستم کی انتہا کے باوجود مخالفین کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے اور مدینہ منوّرہ ہجرت کے بعد بھی ایک پُرامن فضا قائم کرنے کی پوری کوشش کی، اس مقصد کے لیے مخالفین سے معاہدے بھی کیے۔ تاہم، کفّارِ مکّہ اور اُن کے اتحادیوں کی جانب سے مسلمانوں پر جنگ تھوپنے کی اعلانیہ اور خفیہ سازشیں ہوتی رہیں، جن کا مسلمانوں نے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے ارشادات کی روشنی میں بھرپور انداز میں جواب دیا۔ کفّار کے خلاف ان جنگوں میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم خود بھی بنفسِ نفیس شریک رھے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے ان جنگوں کی قیادت فرمائی  اور کئی بار صحابۂ کرامؓ پر مشتمل چھوٹے لشکر بھی سازشیوں کو کچلنے کے لیے روانہ کیے۔

جہاد بالقتال میدانِ جنگ میں کافروں اور دین کے دشمنوں کے خلاف اس وقت صف آراء ہونے کا نام ہے جب دشمن سے آپ کی جان مال یا آپ کے ملک کی سرحدیں خطرے میں ہوں۔ اگر کوئی کفر کے خلاف جنگ کرتا ہوا مارا جائے تو قرآن کے فرمان کے مطابق اسے مردہ نہ کہا جائے بلکہ حقیقت میں وہ زندہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَO

’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں، (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔‘ البقره،

جہاد بالقتال ( جہاد فی سبیل اللہ) کے بارے میں پہلے ھی گذشتہ اقساط میں کافی تفصیل سے لکھا جا چکا ھے لہذا اسے وھاں دیکھا جا سکتا ھے ۔

جاری ھے۔۔۔۔۔

Share: