اُمتِ دعوت و اُمتِ اِجابت اور تہتر فرقے

 واضح رہے کہ  امتِ محمدیہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی دو قسمیں ہیں :  

 (1) امتِ  دعوت

(2) امتِ اجابت۔


  پہلی قسم “ امتِ دعوت “

 اس میں قیامت تک آنے والے وہ تمام لوگ  شامل ہیں جنہوں نے اسلام قبول نہ کیا ھو مثلاً یہودونصاریٰ ، ہندو و سکھ ، پارسی  اور قادیانی و لاھوری اور ہر قسم کے دیگر کافر۔  ان سب لوگوں پر فرض ہے کہ دین اسلام قبول کریں اور کفر وشرک ترک کردیں۔  کیوں کہ  نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو قیامت  تک آنے والے تمام لوگوں  کے لیے نبی بناکر بھیجا گیا ہے اور آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سب کے لیے رحمۃ للعالمین ہیں، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی نبوت  کسی قوم اور کسی ملک کے ساتھ خاص نہیں ہے،  اس لیے اس اعتبار سے  غیر مسلم بھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی ”امت “  میں  شامل ہیں۔


دوسری قسم ”امتِ اجابت“  

اس کا مطلب یہ ہے کہ  وہ لوگ جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول کیا  اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے اور کسی  دوسرے  دین کو قبول نہیں کیا، اس کو ”امتِ اجابت“ کہتے ہیں، ان کے لیے مغفرت کا وعدہ ہے،  اور  تمام فضائل اور مناقب اسی امتِ اجابت کے لیے خاص ہیں بشرطیکہ وہ ضروریات دین کا انکار کرکے کافر ومرتد نہ قرار  پائے گئے ھوں  ،مثلاً مرجیہ، خوارج اور مبتدعین وغیرہ۔      لہذا تمام غیر مسلم ”امتِ دعوت“ میں اور تمام مسلمان ”امتِ اجابت“ میں داخل ہیں۔


تہتر فرقے 

حدیث شریف میں امت کی تہتر فرقوں میں تقسیم  بیان کی گئی ہے، ذیل میں  اس کے متعلق مکمل حدیث مبارکہ مع  ترجمہ اور مختصر تشریح ذکر کی جاتی ہے: 

وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عُمْرِوقَالَ: وَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیَا تِیَنَّ عَلَی اُمَّتِی کَمَا اَتَی عَلٰی بَنِی اِسْرَائِیْلَ حَذْوَالنَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتّٰی اِنْ کَانَ مِنْھُمْ مَنْ اٰتَی اُمَّہ، عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی اُمَّتِی مَنْ یَّصْنَعُ ذٰلِکَ وَاِنَّ بَنِی اِسْرَائِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ مِلَّۃً وَتَفْتَرِقُ اُمَّتِی عَلٰی ثَلَاثِ وَّسَبْعِیْنَ مِلَّۃِ کُلُّھُمْ فِی النَّارِ اِلَّا مِلَّۃً وَّاحِدَۃً) قَالُوْا مَنْ ھِیَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ ؟ قَالَ ((مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِی)) 

رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَ اَحْمَدِ وَاَبِی دَاؤُدَ 

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: "بلاشبہ میری امت پر (ایک ایسا زمانہ آئے گا، جیسا کہ بنی اسرائیل پر آیا تھا اور دونوں میں ایسی مماثلت ہوگی) جیسا کہ دونوں جوتے بالکل برابر اور ٹھیک ہوتے ہیں، یہاں تک کہ  بنی اسرائیل میں سے اگر کسی نے اپنی ماں کے ساتھ علانیہ بدفعلی کی ہوگی، تو میری امت میں بھی ایسے لوگ ہوں گے، جو ایسا ہی کریں گے اور بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے، میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی اور وہ تمام فرقے دوزخی ہوں گے، ان میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا۔ صحابہ نے عرض کیا:یا رسول اللہ (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم )! جنتی فرقہ کون سا ہوگا؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو میرے اور میرےصحابہ کے طریقے پر ہوگا"۔ 

مذکورہ بالا حدیث میں ’’امت ‘‘ سے مراد ’’امت اجابت‘‘ ھی ہے، ’’امت دعوت ‘‘اس میں شامل  نہیں ہے، یعنی یہاں پر مسلمانوں کے تہتر فرقے مراد ہیں، جن میں سے ایک نجات پانے والا ہوگا، کیونکہ کفار کے بے شمار فرقے ہیں۔ 

حدیث شریف میں کہا گیا ہے "کلھم فی النار" (وہ تمام فرقےجہنم میں ہوں گے) اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سب اپنے غلط عقائد اور بد اعمالیوں کی بنا پرجہنم میں داخل کیے جائیں گے اور ان کا جہنم میں داخل ہونا ہمیشہ کے لیے نہیں ہوگا، بلکہ یہ فرقے اپنی گمراہی کی سزا پانے کے بعد جہنم سے نکالے جائیں گے، بشرطیکہ ان کے عقائد واعمال اس درجہ خراب نہ ہوں کہ وہ کفر کے دائرے میں آتے ہوں۔ 

 نجات پانے والے فرقے سے متعلق جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ما انا علیہ واصحابی(جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہوگی )اس جماعت سے مراد "اہلِ سنت والجماعت" ہیں۔ 

اہل ِ سنت والجماعت‘‘ یعنی وہ مسلمان جو عقائد واحکام میں حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کے مسلک پر ہوں اور قرآن کریم کے ساتھ سنّتِ نبویہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو بھی حجت مانتے ہوں، اور اس پر عمل کرتے ہوں اور دین میں اپنی طرف سے کچھ کمی، زیادتی کرنے والے نہ ہوں اور جو فرقہ اس قسم کے عقائدِ صحیحہ نہ رکھتا ہو، وہ نجات پانے والا نہیں ہے۔


نجات پانے والے فرقہ ( فرقۂ ناجیہ) 

نجات پانے والے فرقے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے صحابہ کے سوال کے جواب میں حدیث کی بعض روایات میں اس کی صفت اور خوبیوں کی وضاحت بھی بیان فرما دی: نجات پانے والا فرقہ کون ہے؟ فرمایا: جو ہوگا (اس راستے پر) جس پر آج میں اور میرے اصحاب ہیں۔ ایک دوسری روایت میں فرمایا: وہ جماعت ہے، اللہ کا ہاتھـ جماعت پر ہے۔

ناجی فرقہ وھی ھوگا جو اپنے عقیدے، قول، عمل اور اخلاق کے اعتبار سے اس پر ہوگا جس پر نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  اور صحابہ رضی اللہ عنھم ہیں، اور ہر بات میں اس کا منہج کتاب اور سنت ہوگا، اور مسلمانوں کی جماعت کے طریقے کی پابند ہوگا اور وہ جماعت صحابہ رضی اللہ عنھم ہیں، پس جو کتاب وسنت کی  اور اجماع امت کی پیروی کرے گا ۔ وہ جو اس طرح ہوگا تو وہ نجات پانے والے فرقے اہل سنت وجماعت میں سے ہوگا۔

حدیث ذیل میں امت محمدیہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  کے تہتر فرقے میں بٹنے کا ذکر ہے اور اس حدیث میں اس بات کی بھی وضاحت فرمادی گئی ہے کہ کونسا فرقہ ناجی ہوگا اور جنت میں جائے گا چنانچہ حدیثِ مبارکہ میں ھے :-

إن بني إسرائیل تفرقت علی ثنتین و سبعین ملة وتفترق أمتي علی ثلاث و سبعین ملة کلهم في النار إلا ملة واحدة قالوا من ھي یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! قال ما أنا علیہ وأصحابي (رواہ الترمذي، مشکوة: ص۳۰) 

یقینا بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹے ہیں اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی، سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک فرقہ کے۔ صحابہٴ کرام نے دریافت کیا وہ کونسی جماعت ہے؟ تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا وہ جماعت ہے جو بالکل اس طریقہ کے مطابق ہو جو میرا اور میرے صحابہٴ کرام کا طریقہ ہے۔ یعنی جو اعتقادات و اعمال اور اقوال میں صحابہٴ کرام کے نقش قدم پر ہوں، یہ جماعت اہل سنت والجماعت کی ہے۔ اس کے علاوہ جو اس طریقے سے ہٹے ہوئے ہیں، مثلاً شیعہ، خوارج، قدریہ، جبریہ، معتزلہ، مرجیہ وغیرہ وہ صحابہٴ کرام کے طریقے سے ہٹے ہوئے ہیں، بہتر فرقوں میں داخل ہیں۔


خلاصۂ کلام

حدیث شریف میں تہتر فرقوں میں تقسیم ھونے والی امت سے مراد "امت اجابت" ہے، یعنی اہلِ قبلہ اور مسلمان اس کا مصداق ہیں،جو سب کے سب جہنم سے نجات پائیں گے، البتہ بعض لوگوں کو حساب و کتاب کے بعد ہی سے جہنم سے نجات مل جائے گی اور یہی وہ فرقہ ناجیہ ہے، جسے ’’اہل ِسنت والجماعت‘‘ کہا جاتا ہے، جب کہ بعض لوگ جہنم میں داخل ہو کر اپنے گناہوں کی سزا کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نجات حاصل کریں گے اور یہ وہ باقی بہتر فرقے ہوں گے اور جو لوگ فاسد عقائد کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوکر دائرہ کفر میں داخل ہوگئے ہیں، جیسے: ذکری، آغاخانی، بوہری، منکرین حدیث اور قادیانی وغیرہ، یہ فرقے غیرناجیہ ہیں۔


Share: