اللہ کی رحمت بخشش کے لئے بہانہ ڈھونڈتی ہے

یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوْا عَلَی أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِن رَّحْمَۃِ اللہِ إِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا إِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ، وَأَنِیْبُوْا إِلٰی رَبِّکُمْ۔ ‘‘ (الزمر)

’’اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے: اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقین جانو اللہ سارے گناہوں کو معاف کردیتا ہے، یقیناً وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے، بس تم اپنے رب سے لو لگالو۔‘‘


وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ۔ (الاعراف)

’’میری رحمت ہر چیز کو محیط ہے۔‘‘


 اللہ رب العزت کی  بے شمار صفاتِ عالیہ ھیں ۔ اللہ تعالی کی ان صفات میں میں ایک بہت ھی نمایاں صفت اللہ کی شانِ رحمت ہے اللہ پاک نے بے شمار آیات مبارکہ میں مختلف انداز میں اپنی اس صفت کو بیان فرمایا ھے ۔  اسمائے حسنیٰ کو ملاحظہ فرمائیں ان  میں ’’الرحمٰن‘‘ اور ’’الرحیم‘‘ دونوں اسی صفت کے ترجمان ہیں، اور ان میں اللہ تعالی  کی رحمت کی کثرت، عموم، تسلسل اور دوام سب کی طرف اشارہ موجود ہے۔ قرآن مجید میں سیکڑوں مقامات پر اللہ تعالی  نے اپنی صفتِ رحمت کا ذکر کیا ہے اور حوالہ دیا ہے، تمام قرآنی سورتوں کے آغاز میں جو آیت تلاوت کی جاتی ہے اور تمام اہم کاموں کا آغاز جس بول سے کیے جانے کا حکم ہے وہ ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  ‘‘ ہے، جس میں اللہ تعالی کے ’’ رحمٰن‘‘ (سب پر مہربان) اور ’’رحیم‘‘ (بہت مہربان) ہونے کی صراحت  موجود ہے، قرآن پاک میں ایک مستقل سورت ’’سورۃ الرحمٰن‘‘ کے نام سے موجود  ہے، جسے قرآن پاک  کی زینت قرار دیا گیا ہے، اس کا آغاز بھی صفتِ ’’رحمٰن‘‘ کے ذکر سے ہوا ہے، اور پوری سورت میں ابتدا سے انتہا تک اسی صفت کے ثمرات اور نمونوں کا بیان ہے، اس کے علاوہ بہت سے مقامات پر گناہ گاروں، گناہوں اور جہنم کی سزاؤں کے ذکر کے بعد اللہ نے اپنے ’’ غفور‘‘ اور ’’رحیم‘‘ ہونے کی صراحت فرمائی ہے، اور کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف رحمت کی نسبت کی ہے اور کئی جگہ اپنی رحمت کی وسعت کو بیان فرمایا ہے: چنانچہ ملاحظہ ھوں چند آیاتِ مبارکہ

’’کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ۔‘‘ (الانعام)

’’تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کا معاملہ لازم کرلیا ہے۔‘‘


’’رَبُّکُمْ ذُو رَحْمَۃٍ وَاسِعَۃٍ۔ (الانعام)

’’تمہارا رب بڑی وسیع رحمت کا مالک ہے۔‘‘


’’وَرَبُّکَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَۃِ۔‘‘(الکہف)

’’تمہارا رب بہت بخشنے والا بڑی رحمت والا ہے۔‘‘


اسی طرح  فرشتوں کا یہ قول بھی قرآن میں نقل ہوا ہے:

’’رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَعِلْمًا۔ ‘‘ (الغافر)

’’اے ہمارے رب! آپ کی رحمت اور علم ہرچیز پر بھاری ہے۔‘‘

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں اللہ کی شانِ رحمت کا تذکرہ مختلف پیرایوں میں بڑی کثرت سے ملتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ نے لوحِ محفوظ میں لکھ دیا ہے:

’’إِنَّ رَحْمَتِیْ تَغْلِبُ غَضَبِیْ۔ ‘‘ (مسلم)

’’میری رحمت میرے غضب پر غالب رہتی ہے۔‘‘


’’سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ غَضَبِیْ۔ ‘‘ ( مسلم )

’’میری رحمت میرے غضب پر مقدم رہتی ہے۔‘‘

مختلف احادیث مبارکہ  میں یہ صراحت بھی ملتی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی رحمت کے سو حصے فرمائے، اس میں ۹۹؍ حصے اپنے پاس عالمِ آخرت کے لیے روک لیے، اورایک حصہ دنیا میں بھیج دیا، انسانوں، جنوں، حیوانات میں باہم جو محبت، تعلق اور اُنس پایا جاتا ہے وہ اسی ایک حصۂ رحمت کا اثر ہے۔ (مسلم) 

اللہ تعالی کی اسی شانِ رحمت کا مظہر ہے کہ اس نے اپنے احکام سے بغاوت کرنے والوں اور گناہوں میں مبتلا افراد کو توبہ و استغفار اور اپنی طرف رجوع کا حکم دیتے ہوئے ان کو ناامیدی سے نکالا ہے اور اپنی رحمت کی امیدوں کی ڈور انہیں تھمادی ہے، چنانچہ ارشاد  فرمایا:

’’لاَ تَیْأَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللہِ۔‘‘ (یوسف)

’’تم اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہوجاؤ۔‘‘

درآصل اللہ تعالی کی رحمت انسان کی بخشش کے لئے بہانہ ڈھونڈتی ہے، اور بسا اوقات بندوں کی بہت چھوٹی نیکیاں بلکہ دل سے احساسِ ندامت، آنکھوں کے چند قطرے  اور معافی کے بول  بھی اللہ تعالی  کی رحمت کو جوش دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اور انہیں بظاھر چھوٹے آعمال پر بے  اللہ تعالی کی طرف سے تما م گناہوں کی مغفرت اور جنت و رحمت کا فیصلہ ہوجاتا ہے جس کا انسان کو گمان بھی نہیں ھوتا ۔ احادیث  مبارکہ میں کئی جگہ ذکر آیا ہے کہ ایک بدکار عورت کو صرف پیاسے کتے کو پانی پلانے کے عمل پر اللہ کی طرف سے مغفرت عطا فرمادی گئی، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہدایت دی ہے:

’’وَلَا تَحْقِرَنَّ شَیْئًا مِنَ الْـمَعْرُوفِ۔‘‘ (ابوداؤد) 

’’تم کبھی کسی نیک کام کو ہرگز حقیر اور معمولی نہ سمجھو۔‘‘

کسی بھی نیکی کو معمولی سمجھنا اور اُسے چھوڑدینا بے حد خطرناک بات ہے، بہت ممکن ہے کہ اسی نیکی کی وجہ سے اللہ کی رحمت متوجہ ہوجائے اور بیڑا پار ہوجائے، نیکیوں کو معمولی قرار دے کر اسے چھوڑنے کا خیال ڈالنا شیطان کی مکارانہ تدبیر ہے، اس دام میں پھنسنا بڑی نادانی ہے۔

ایک بہت بڑے محدث جنہوں نے اپنی ساری عمر حدیث کی خدمت میں گزاری، جب ان کا انتقال ہوگیا تو کسی نے خواب میں ان کی زیارت کی، اور ان سے پوچھا کہ حضرت! اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیسا معاملہ فرمایا؟ جواب میں انہوں نے فرمایا کہ میرے  ساتھ  بڑا عجیب معاملہ ہوا، وہ یہ کہ ہم نے تو ساری عمر علم کی خدمت میں اور حدیث کی خدمت میں گزار دی، اور درس و تدریس اور تصنیف اور وعظ و خطابت میں گزاری، تو ہمارا خیال یہ تھا کہ ان اعمال پر ھمیں جو اجر ملے گا اس سے ھماری بخشش ھو جائے گی  لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے جب پیشی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے کچھ اور ہی معاملہ فرمایا، اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ ہمیں تمہارا ایک عمل بہت پسند آیا، وہ یہ کہ ایک دن تم حدیث شریف لکھ رہے تھے، جب تم نے اپنا قلم دوات میں ڈبو کرنکالا تو اس وقت ایک پیاسی مکھی آکر اس قلم کی نوک پر بیٹھ گئی، اور سیاہی چوسنے لگی، تمہیں اس مکھی پر ترس آگیا، تم نے سوچا کہ یہ مکھی اللہ کی مخلوق ہے، اور پیاسی ہے، یہ سیاہی پی لے تو پھر میں قلم سے کام کروں،چنانچہ اتنی دیر کے لیے تم نے اپنا قلم روک لیا اور اس وقت تک قلم سے کچھ نہیں لکھا جب تک وہ مکھی اس قلم پر بیٹھ کر سیاہی چوستی رہی، یہ عمل تم نے خالص میری رضامندی کی خاطر کیا، اس لیے اس عمل کی بدولت ہم نے تمہاری مغفرت فرمادی، اور جنت الفردوس عطا کردی۔

دیکھئے! ہم تو یہ سوچ کے بیٹھے ہیں کہ وعظ کرنا، فتویٰ دینا، تہجد پڑھنا، تصنیف کرنا وغیرہ وغیرہ یہ بڑے بڑے اعمال ہیں، لیکن وہاں ایک پیاسی مکھی کو سیاہی پلانے کا عمل قبول کیا جارہا ہے، اور دوسرے بڑے اعمال کا کوئی تذکرہ نہیں  حالانکہ اگر غور کیا جائے تو جتنی دیر قلم روک کر رکھا، اگر اس وقت قلم نہ روکتے تو حدیث شریف ہی کا کوئی لفظ لکھتے، لیکن اللہ تعالی کی مخلوق پر شفقت کی بدولت اللہ نے مغفرت فرمادی، اگر وہ اس عمل کو معمولی سمجھ کر چھوڑ دیتے تو یہ فضیلت حاصل نہ ہوتی۔

لہٰذا معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کونسا عمل مقبول ہوجائے، وہاں قیمت عمل کے حجم، سائز اور گنتی کی نہیں ہے، بلکہ وہاں عمل کے وزن کی قیمت ہے، اور یہ وزن اخلاص سے پیدا ہوتا ہے، اگر آپ نے بہت سے اعمال کیے، لیکن ان میں اخلاص نہیں تھا تو گنتی کے اعتبار سے تو وہ اعمال زیادہ تھے، لیکن فائدہ کچھ نہیں، دوسری طرف اگر عمل چھوٹا سا ہو، لیکن اس میں اخلاص ہو تو وہ عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑا بن جاتا ہے، لہٰذا جس وقت دل میں کسی نیکی کا ارادہ پیدا ہورہا ہے تو اس وقت دل میں اخلاص بھی موجود ہے، اگر اس وقت وہ عمل کرلو گے تو اُمید ہے کہ وہ ان شاء اللہ مقبول ہوجائے گا۔‘‘  (اصلاحی خطبات)

 حدیثِ مبارکہ میں آیا ہے کہ ایک تاجر اللہ کے دربار میں حاضر ہوگا، اس کے اعمال نامے میں نیکیاں بالکل نہیں ہوں گی، مگر اس کے پاس ایک خاص عمل ہوگا کہ وہ کاروبار میں دوسروں کے لیے آسانیاں فراہم کرتا رہا، دوسروں کو قرض دیتا رہا، پھر تنگ دستوں کا قرض  معاف کرتا رہا اور خوش حال لوگوں کے لیے بھی نرمی کا معاملہ کرتا رہا، جب اللہ کے سامنے اس کے اس عمل کا ذکر ہوگا تو اللہ کی رحمت جوش میں آئے گی اور اللہ اس کی مغفرت فرمادیں گے۔  (بخاری)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ بھی بیان فرمایا کہ ایک شخص کی پور ی زندگی گناہوں میں گزرتی رہی، موت کا وقت آیا تو اس نے اپنی اولاد کووصیت کی کہ میرا انتقال ہوجائے تو مجھے جلا دینا، اور میری راکھ ہوا میں سمندر کے پاس بکھیر دینا، مجھے ڈر ہے کہ اللہ نے مجھے پکڑا تو ایسا عذاب دے گا جیسا کسی کو نہ دے گا، بالآخر اس کی موت کے بعد اہلِ خانہ نے وصیت کے مطابق کیا، اللہ تعالیٰ نے اس کے منتشر اجزاء جمع فرمادیئے اور اپنے دربار میں حاضر کیا اور فرمایا: تم نے جو وصیت کی تھی اس کی وجہ کیا تھی؟ وہ بولا: اے اللہ: صرف آپ کے خوف کی وجہ سے، یہ سن کر اللہ کی رحمت کو جوش آیا اور اللہ نے اس مجرم کی مغفرت فرمادی۔  (مسلم)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بنی اسرائیل کے ایک عابد کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ عابد ساٹھ سال تک اپنے حجرے میں عبادت میں مشغول رہا، ایک دن کسی ضروت سے باہر نکلا تو ایک عورت پر اس کی نگاہ پڑگئی، وہ عابد اس عورت کے حسن پر فریفتہ ہوگیا، اور اس سے زنا میں مبتلا ہوگیا، اب اسے بے حد ندامت ہوئی، توبہ کرتا رہا، اس کے پاس دو روٹیاں تھیں، بھوک لگی تو کھانے چلا، ابھی کھانا شروع ھی کرنے لگا تھا کہ  اچانک ایک سائل آگیا،اور کھانے کا سوال کیا ۔  اس نے ایثار سے کام لیا اور وہ روٹیاں اس سائل کو دے دیں، کچھ عرصے بعد اس کا انتقال ہوگیا، اس کی ساٹھ سالہ عبادتیں زنا کے اس عمل کے مقابلے میں کم زور ثابت ہوئیں، وہ بےحد بے قرار ہوا، مگر آخر میں یہ ہوا کہ اس نے سائل کو دو روٹیاں جو دی تھیں، اللہ کو اس نیکی پر پیار آگیا اور اسی عمل نے اس کی مغفرت کرادی۔  (الترغیب والترہیب)

حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللّٰہ نے اپنی ایک کتاب میں ایک  شخص کا واقعہ درج کیا ھے وہ فرماتے ھیں کہ حدیث پاک میں بنی اسرائیل کے ایک عابدو زاہد شخص کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے. اور یہ حدیث علّامہ جلال الدین سیُوطی رحمہ اللّٰہ نے نقل کی ہے 

بنی اسرائیل میں ایک بہت بڑا عابد و زاہد شخص تھا، رات دن اللّٰہ کی عبادت کرتا تھا. چونکہ صاحب ِعیال تھا، اس لئے کمانے کا بھی کچھ دھندا کرتا تھا، دُکان کی صورت میں تھوڑی سی تجارت تھی مگر اس کا دل اس میں اُلجھا رھتا تھا اور چاہتا تھا کہ یہ سب کچھ نہ ہو. بس ہر وقت عبادت میں ہی لگا رھوں  مگر سوچتا کہ بیوی بچوں کا کیا کرے بہرحال ایک دن اسے جذبہ آیا اور ساری تجارت و دولت کو اس نے بیوی بچوں کے نام کیا اور خود فارغ ہوگیا اور سب سے رخصت ہوکر سمندر کے بیچ میں پہنچ گیا. وہاں ایک ٹیلہ تھا، اس میں ایک چھوٹی سی جھونپڑی باندھی کہ اب ہر وقت اس میں بیٹھ کر اللّٰہ کی عبادت میں مصروف رہوں گا (یاد رھے کہ اسلام سے پہلے مذاہب میں رہبانیّت جائز تھی یعنی ساری دنیا کو آدمی چھوڑچھاڑکر ایک کونے میں جابیٹھے لیکن اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی) یہ شخص اپنے مذہب کے مطابق جاکر عبادت کے لئے بیٹھ گیا گویا اس نے بڑی بھاری عبادت کی ۔ چونکہ مخلص تھا اور صاحبِ دل تھا اس لئے سمندر کے بیچ والے ٹیلے پر جہاں کوئی جہاز کشتی وغیرہ نہ آجاسکے حق تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے ایک میٹھے اور ٹھنڈے پانی کا  چشمہ جاری کردیا. اور اُسی ٹیلہ پر ایک انار کا درخت بھی اُگا دیا. اس عابد کا کام یہ تھا کہ روزانہ ایک انار کھالیا اور ایک کٹورہ پانی لیا اور چوبیس گھنٹے عبادت میں مصروف... دن رات اسی طرح گزرتے گئے اس کی عمر پانچ سو برس ہوئی اور یہ پانچ سو برس اسی شان سے گُزرے، اب اس کے انتقال کا وقت آیا. اس نے حق تعالٰی سے درخواست کی کہ اے اللّٰہ تیرا فضل تھا کہ تو نے مجھے عبادت میں لگایا، اب میری خواہش ہے کہ مجھے سجدے کی حالت میں موت دیجئے تاکہ میرا خاتمہ عبادت کے اُوپر ہو اور دوسری درخواست یہ ہے کہ سجدے کی حالت میں میرے بدن کو قیامت تک محفوظ رکھئے گا، نہ زمین کھائے اور نہ کیڑے مکوڑے کھائیں تاکہ قیامت تک میں تیرا عبادت گزار بندہ ہی سمجھا جاؤں حق تعالٰی نے اسکی دونوں دعائیں قبول فرمائیں اور عین نماز کے اندر سجدے کی حالت میں  اُس کا انتقال ہوا اور اس کا بدن محفوظ ہے. حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آج تک محفوظ ہے لیکن حق تعالٰی نے اس ٹیلے کے اوپر بڑے بڑے گنجان درخت ایسے اگا دیئے ہیں کہ وہاں تک جاتے ہوئے ہیبت کھاتے ہیں اس لئے وہاں کوئی نہیں جاتا ہے. مگر بدن آج تک محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا. وہاں نہ کوئی جانور جاتا اور نہ کوئی انسان جاتا ہے۔ اسی حالت حق تعالٰی کے سامنے اس کی پیشی ہوگی. حق تعالی ارشاد فرمائیں گے کہ اے بندے میں نے اپنے فضل و کرم اور رحمت  سے تجھے بخشا اور تجھے بڑے مقامات دیئے جنت میں جا، آرام کر،  وہ بندہ عرض کرےگا کہ اے اللہ میں نے تو ساری عمر تیری عبادت میں گزاری پھر بھی تیرے فضل و رحمت سے جنت میں جاؤں گا؟ میں تو اپنی عبادت کے بدلے جنت میں جارہا ہوں.  اللہ فرمائیں گے کہ نہیں ہم اپنے فضل سے جنت میں بھیج رہے ہیں. وہ پھر کہے گا کہ نہیں اے اللہ پھر میری عبادت کس کام آئے گی میں تو اپنی عبادت کے بدلے جنت میں جا رہا ہوں ... اللہ تعالی فرشتوں کو حکم دیں گے اسے جہنم کے قریب لے جاکر کھڑا کردو. جہنم میں داخل نہ کرنا اسے اتنی دور رکھو ملائکہ اسے لے جائیں گے اور لے جا کر کھڑا کردیں گے. جہنم کی طرف سے ایک گرم ہوا اور آگ کی لپٹ آئے گی اس کی وجہ سے وہ سر اے پاؤں تک خشک ہوجائے گا اور اسکی زبان پر کانٹے کھڑے ہوجائیں گے اور پیاس پیاس چلانا شروع کر دے گا اس وقت غیبی ہاتھ ظاہر ہوگا جس میں ٹھنڈے پانی کا کٹورا ہوگا، یہ عابد دوڑے گا اور کہے گا کہ اے خدا کے بندے یہ پانی مجھےدے دے میں بالکل مرنے کے حال میں ہوں- آواز آئے گی کہ پانی کا کٹورا تو تجھے ملے گا لیکن اس پانی کے کٹورے کی قیمت ہے مفت نہیں ملے گا. وہ پوچھے گا اس کی کیا قیمت ہے؟  کہا جائے گا اس کی قیمت خالص پانچ سو سال کی عبادت ہے وہ اگر کوئی پیش کردے تو یہ پانی کا کٹورا اسے مل جائے گا.  وہ عابد کہےگا کہ میرے پاس ہے پانچ سو برس کی عبادت.  آخرکار وہ عبادت دے کر پانی کا کٹورا لے لے گا. پانی پی کر کچھ جان میں جان آئے گی. 

حق تعالٰی فرمائیں گے اسے واپس لاؤ پھر اس کی پیشی ہوگی. حق تعالٰی دریافت فرمائیں گے کہ اے بندے تیری پانچ سو سال کی عبادت کے صلے میں تو ہم آزاد ہوگئے پانچ سو برس کی عبادت کے بدلہ ایک کٹورا پانی لے لیا اور یہ قیمت تو نے خود تجویز کی لہٰذا اب تو برابر سرابر ہوگیا تیری عبادت کا صلہ تجھے مل گیا. 

اب وہ جو تو نے لاکھوں دانے انار کے کھائے اس ایک ایک دانے کا حساب دے اس کے بدلے میں کتنی نمازیں پڑھی ہیں؟ کتنے سجدے کئے ہیں اور وہ جو ہزاروں کٹورے پانی کے پئے ہیں ایک ایک قطرے کا حساب دے.  اُس پانی کے بدلہ کتنی عبادات کی ہیں؟  اور وہ جو ٹھنڈا سانس لیتا، جس سے زندگی قائم تھی، ایک ایک سانس کا حساب دے کہ اُس کے بدلہ کیا عبادات لیکر آیا ہے؟ اور وہ جو تیری آنکھوں میں ہم نے روشنی دی تھی تو تا حدِنگاہ ایک ایک چیز  کو دیکھتا تھا. ایک ایک تارِ نگاہ کا حساب دے اس کے بدلے کتنی نیکیاں لایا ہے؟ پانچ سو برس کی عبادت کا صلہ تو ایک کٹورا پانی ہوگیا. اب جو دوسری نعمتیں استعمال کی ہیں، ان کا حساب دے. یہ عابد پتھرا جائے گا اور کہے گا کہ بیشک اے اللہ نجات آپ ہی کے فضل و رحمت سے ہوگی. کسی کا عمل کسی کو بھی نجات نہیں دلائے گا ۔ یا اللہ مجھے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے ( اللہ پاک اپنی رحمت سے اُسے جنت میں داخل کر دے گا  ) حقیقت یہ ہے کہ اگر لاکھوں برس عبادت کرے گا تو وہ بھی ذریعہ نجات نہیں بن سکے گی جب تک کہ اللہ پاک کا فضل و رحمت   شامل حال نہ ھو ۔ 

روایات میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ رب العزت دو بندوں کو بلائیں گے اور ان سے فرمائیں گے کہ تم نے دنیا میں بے شمار گناہ کیے ہیں، اب تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے، جاؤ! جہنم میں جاؤ، اس حکم کو سن کر ان میں سے ایک بہت تیزی سے جہنم کی طرف چل پڑے گا، دوسرا دھیرے دھیرے چلے گا اور بار بار مڑ کر اللہ کو دیکھے گا، اللہ تعالیٰ ان دونوں کو واپس بلائیں گے اور پہلے شخص سے سوال کریں گے کہ میں نے تم کو جہنم میں جانے کے لیے کہا، تم تیزی سے چل پڑے، اس کی کیا وجہ تھی؟ وہ بولے گا: اے میرے رب! میں نے دنیا میں آپ کا ہر حکم توڑا، اب آپ نے یہ آخری حکم دیا تو میں نے سوچا کہ اب یہ حکم نہیں توڑوں گا، اس لیے میں تیزی سے چل پڑا، اللہ دوسرے سے فرمائیں گے: تم بار بار پیچھے مڑ کر کیوں دیکھ رہے تھے؟ وہ عرض کرے گا: آپ کی رحمت کی اُمید میں، بس یہ سن کر اللہ تعالیٰ دونوں سے راضی ہوجائیں گے اور جنت کا فیصلہ فرمادیں گے۔  (التذکرہ، قرطبی)

روایات میں وارد ہوا ہے کہ: راستے سے خاردار ٹہنی اور درخت ہٹانے کے عمل پر اللہ کی رحمت متوجہ ہوئی اور ایسا کرنے والے کی مغفرت کا فیصلہ فرمادیا گیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)


امام رازیؒ لکھتے ہیں: ’’ایک دفعہ حضرت عیسیٰ  علیہ السلام  کا ایک قبر پر سے گزرا ہوا، آپ نے (بطور کشف) دیکھا کہ عذاب کے فرشتے میت کو عذاب دے رہے ہیں، آپ آگے چلے گئے، اپنے کام سے فارغ ہوکر جب آپ دوبارہ یہاں سے گزرے تو اس قبر پر رحمت کے فرشتے دیکھے جن کے ساتھ نور کے طبق ہیں، آپ کو اس پر تعجب ہوا، آپ نے نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی، اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی، اے عیسیٰ! یہ بندہ گناہ گار تھا اور جب سے مرا تھا، عذاب میں گرفتار تھا، یہ مرتے وقت اپنی بیوی چھوڑ گیا تھا، اس عورت نے ایک فرزند جنا اور اس کی پرورش کی، یہاں تک کہ بڑا ہوا، اس کے بعد اس عورت نے اس فرزند کو مکتب میں بھیجا، استاذ نے اسے ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ پڑھائی، پس مجھے اپنے بندے سے حیا آئی کہ میں اسے آگ کا عذاب دوں زمین کے اندر اور اس کا فرزند میرا نام لیتا ہے زمین کے اوپر۔‘‘ (التفسیر الکبیر)

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی:۲۹۷ھ) کووفات کے بعد کسی نے خواب میں دیکھا تو سوال کیا: حق تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ آپ نے کہا:

’’فَنِیَتِ الْـحَقَائِقُ وَالْاِشَارَاتُ وَ نَفِدَتِ الرُّمُوْزُ وَالْعِبَارَاتُ وَ مَا نَفَعَنَا اِلاَّ رُکَیْعَاتٌ فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ۔‘‘

’’یعنی سارے علوم و حقائق وغیرہ فنا ہوگئے، یہاں کچھ کام نہ آئے، اگر کچھ کام آئیں تو صرف وہ چھوٹی چھوٹی رکعتیں کام آئیں جو میں آدھی رات کو پڑھاکرتا تھا، یعنی تہجد۔‘‘ (الافاضات)

ایک مجلس میں اللہ کی وسعتِ رحمت کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’سب سے آخر میں جو گناہ گار جہنم سے نکالا جائے گا، اس کی کیفیت یہ ہوگی کہ باہر نکل کر بھی اس کا رخ جہنم کی طرف رکھا جائے گا اور وہ جھلس رہا ہوگا،وہ عرض کرے گا:’’یَا رَبِّ اِصْرِفْ وَجْہِيْ عَنِ النَّارِ فَقَدْ قَشَبَنِيْ رِیْحُہَا وَ اَحْرَقَنِيْ ذَکَاؤہَا۔ ‘‘یعنی ’’اے میرے رب! میرا رخ جہنم کی طرف سے ہٹا دیجئے، اس لیے کہ اس کی ہوامجھے جھلسا رہی ہے اور اس کے شعلے مجھے جلا رہے ہیں۔‘‘ یہ سن کر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’اگر تمہارا رخ جہنم کی طرف سے ہٹا دیا جائے تو کیا پھر کوئی اور مطالبہ تو نہیں کرو گے؟ وہ قسم کھاکر عہد و پیمان کرے گاکہ اگر یہ سہولت مجھے دے دی جائے تو میں کچھ اور مطالبہ نہیں کروں گا۔ اب اس کا رخ جہنم سے ہٹاکرجنت کی طرف کردیا جائے گا،اس کی نگاہ جنت کی نعمتوں اور رونقوں پر پڑے گی تو تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد بالآخر وہ کہے گا: ’’یَا رَبِّ! قَدِّمْنِيْ عِنْدَ بَابِ الْجَنِّۃِ۔‘‘یعنی ’’اے میرے رب ! مجھے جنت کے دروازے کے قریب کردیجئے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’اَلَیْسَ قَدْ اَعْطَیْتَ الْعُہُوْدَ وَ الْـمِیْثَاقَ اَنْ لَّا تَسْئَلَ غَیْرَ الَّذِيْ کُنْتَ سَاَلْتَ؟‘‘ یعنی ’’کیا تھوڑی دیر پہلے تم یہ عہد و پیمان نہیں کرچکے ہو کہ اب کچھ اور مطالبہ نہیں کرو گے؟‘‘ وہ بندہ بولے گا: ’’ یَا رَبِّ! لَا اَکُوْنُ أَشْقٰی خَلْقِکَ۔‘‘ یعنی ’’ اے میرے رب: مجھے اپنی مخلوقات میں سب سے محروم و بدنصیب مت بنایئے۔‘‘اللہ فرمائے گا: ’’اگر تمہاری یہ بات مان لی جائے تو پھر کچھ اور تو مطالبہ نہیں کرو گے؟‘‘ وہ کہے گا: مجھے آپ کی عزت کی قسم! عہد کرتا ہوں کچھ اور مطالبہ نہیں کروں گا۔ پھر اسے جنت کے دورازے کے قریب پہنچا دیا جائے گا، اب وہ قریب سے جنت کے مناظر اور نعمتوں کو دیکھے گا تو بے اختیار کہنے لگے گا: ’’یَارَبِّ! اَدْخِلْنِيْ الْجَنَّۃَ۔‘‘ یعنی ’’اے میرے رب! مجھے جنت میں داخل کردیجئے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’وَیْحَکَ یَاابْنَ آدَمَ! وَمَا اَغْدَرَکَ، اَلَیْسَ قَدْ اَعْطَیْتَ الْعَہْدَ وَ الْـمِیْثَاقَ اَنْ لَا تَسْاَلَ غَیْرَ الَّذِیْ اُعْطِیْتَ؟‘‘ یعنی ’’اے فرزند آدم! تعجب ہے، تو کتنا عہد شکن ہے، کیا تم نے یہ عہد و پیمان نہیں کیا تھا کہ تمہیں جو کچھ دیا جاچکا ہے اس کے سوا کچھ اور نہیں مانگوگے؟‘‘ اس پر وہ بندہ بولے گا: ’’یَا رَبِّ! لاَ تَجْعَلْنِی اَشْقَی خَلْقِکَ۔ ‘‘ یعنی ’’اے میرے رب! مجھے سب سے زیادہ محروم نہ بنایئے۔‘‘ یہ سن کر اللہ کی رحمت جوش میں آئے گی،اللہ ہنسے گا، راضی ہوجائے گا، اور اسے جنت میں داخل ہونے کی اجازت عطا فرما دے گا، اور اس پر بس نہیں، اللہ فرمائے گا: ’’تَمَنَّ‘‘مزید تمنا کرو اور مانگو۔وہ بندہ ساری تمنائیں رکھے گا،اللہ اپنی شانِ رحمت سے اسے بہت سی چیزیں یاد دلائے گا، اور آخر میں فرمائے گا: ’’لَکَ ذٰلِکَ وَ عَشَرَۃُ اَمْثَالِہٖ‘‘ یعنی ’’تمہیں یہ سب کچھ ملے گا اور اس کا دس گنا مزید بھی ملے گا۔ ‘‘  (بخاری)

واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی رحمت بے حد و بے پناہ ہے، وہ نیکیوں کے ارادے ہی پر اجر عطا کردیتا ہے، وہ ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا بخشتا ہے، اور اخلاص کے تناسب سے یہ ثواب بڑھاتا جاتا ہے، حتیٰ کہ سات سو گنا تک پہنچا دیتا ہے، پھر اس کی رحمت موجزن ہو تو جسے چاہتا ہے اس سے بھی کہیں زیادہ عطا فرماتا ہے، حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں، میں اپنے بند ے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتاہے، تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھے مجمع میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے زیادہ بہتر مجمع میں اسے یاد کرتا ہوں، جومجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے، میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں، جو مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتا ہے، میں اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں، جو میرے پاس چلتا ہوا آتا ہے، میں اس کے پاس دوڑتا ہوا آتا ہوں،جو شخص پوری روئے زمین کے برابر گناہ لے کر میرے پاس آئے گا، اگر وہ شرک سے بچتا رہا تو میں اپنی رحمت ومغفرت کی مکمل بارش اس پر برسادوں گا۔‘‘ (مشکوٰۃ، الدعوات، باب ذکر اللہ)

 ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنا دامنِ مراد اللہ کی رحمتوں سے مالا مال کرنے کی فکر کریں، اپنی غفلتوں سے باز آئیں، اپنے رب کو منانے کی کوشش کریں اور ایمان کی پختگی کے ساتھ اپنے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا کریں کہ اسی تدبیر سے ہم یقینی طور پر اللہ کی رحمت اپنی طرف متوجہ کراسکتے ہیں اور اپنی بگڑی سنوار سکتے ہیں۔

اللہ پاک ھمیں عمل کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: