اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّكۡرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰـفِظُوۡنَ O
بیشک ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور بیشک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں
یہ پہلی وہ آسمانی کتاب ہے، جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا، گویا اس کی حفاظت کے لیے یہ وعدہ الٰہی ہے اور قرآن کا اعلان ہے:
”إِنَّّّ اللَّہَ لَاْ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ“(سورة آل عمران)
اللہ کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کرتے۔
بس اللہ نے اپنا یہ وعدہ سچ کر دکھایا۔ اور کتاب اللہ کی حفاظت کا حیرت انگیز انتظام کیا۔ اس طور پر کہ اس کے الفاظ بھی محفوظ، اس کے معانی بھی محفوظ، اس کا رسم الخط بھی محفوظ، اس کی عملی صورت بھی محفوظ، اس کی زبان بھی محفوظ، اس کا ماحول بھی محفوظ، جس عظیم ہستی پر اس کا نزول ہوا اس کی سیرت بھی محفوظ، اور اس کے اولین مخاطبین کی سیَرْ بھی یعنی زندگیاں بھی محفوظ۔
غرضیکہ اللہ رب ا لعزت نے اس کی حفاظت کے لیے جتنے اسباب و وسائل اور طریقے ہوسکتے تھے، سب اختیار کئے، اور یوں یہ مقدس اور پاکیزہ کتاب ہر لحاظ اور ہر جانب سے مکمل محفوظ ہوگئی۔ الحمدللہ آج چودہ سو انتیس سال گذرنے کے بعد بھی اس میں رتی برابر بھی تغیر و تبدل نہ ہوسکا، لاکھ کوششیں کی گئیں، مگر کوئی ایک کوشش بھی کامیاب اور کارگر ثابت نہ ہوسکی، اور نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔
قرآن کی حفاظت کی خاطر دیگر چیزوں کے علاوہ خاص طور پر اس کے الفاظ محفوظ کیے گئے یعنی قرآن کا متن یعنی اس کے بعینہ وہ الفاظ جو اللہ رب العزت نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطہ سے یا وحی کے کسی اور طریق سے نبی آخرالزماں صلى الله عليه وسلم پر نازل کئے، آپ صلى الله عليه وسلم پر جب وحی نازل ہوتی، تو آپ فوراً کاتبین وحی میں سے کسی سے کتابت کروالے لیتے، پھر صحابہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی زبانِ اقدس سے بھی اُسے سنتے، اور جو تحریر کیا ہوا ہوتا، اُسے بھی محفوظ کرلیتے، اس طرح ۲۳/سال تک قرآن، نزول کے وقت ہی لکھا جاتا رہا، صحابہ نے اسے حفظ بھی یاد کیا، کیوں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اس کے حفظ کی بڑی فضیلتیں بیان کی ۔ ایک روایت کے مطابق صحابہ میں سب سے پہلے حفظِ قرآن مکمل کرنے والے حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔
دورِ نبوی صلى الله عليه وسلم کے بعد دورِ ابی بکر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ، اور دیگر صحابہ کے کے مشورے سے اس کی تدوین عمل میں آئی، یعنی اس کو یکجا کر لیا گیا اور دورِ عثمانی میں اس کی تنسیخ‘ عمل میں آئی، یعنی اس کے مختلف نسخے بناکر کوفہ، بصرہ، شام، مکہ وغیرہ جہاں جہاں مسلمان آباد تھے بھیج دیے گئے، یہ تو تحریری صورت میں حفاظت کا انتظام ہوا، ا س کے علاوہ اس کو لفظ بلفظ یاد کرنے کا التزام کیا گیا، اس طرح قرآن سینہ و سفینہ دونوں میں مکمل لفظاً محفوظ ہوگیا، اور یہ سلسلہ نسلاً بعد نسلٍ آج بھی جاری ہے، قیامت تک جاری رہے گا، انشاء اللہ، اللہم اجعل القرآن ربیع قلوبنا و جلاء اعیننا.
جہاں اللہ رب العزت نے قرآن پاک کے متن کی حفاظت کی، وہیں اس کے معنی و مفہوم اور مراد کی حفاظت کا بھی انتظام کیا، اس لیے کہ صرف الفاظ کا محفوظ ہونا کافی نہیں تھا، کیوں کہ مراد اور معنی اگر محفوظ نہ ہو، تو ا س کی تحریف یقینی ہوجاتی ہے، کتب سابقہ کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا، کیوں کہ اس کے الفاظ اگرچہ کچھ نہ کچھ محفوظ رہے، مگر اس کے معانی و مفہوم تو بالکل محفوظ نہ رہے، اس لیے کہ انہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے اقوال و افعال و اعمال کو محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہ کیا، جس کے نتیجہ میں الفاظ محفوظہ بھی کارگر ثابت نہ ہوسکے، مثلاً عیسائی مذہب ان کا کہنا ہے کہ ہمیں دو اصولوں کی تعلیم دی گئی، اور ہم اس کے علمبردار ہیں: نمبر ایک عدل و انصاف۔ نمبردو محبت و الفت۔ مگر اگر آپ، ان سے دریافت کریں کہ عدل و انصاف کس کو کہتے ہیں، تو وہ اس کا مفہوم نہیں بیان کرسکتے۔ یہی حال محبت کا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عدل اور محبت کی پرواہ کیے بغیر لاکھوں نہیں، کروڑوں انسانوں کو عیسائیت کے فروغ کی خاطر قتل کر دیا گیا، اور یہ سلسلہ ابھی تک تھما نہیں۔ اسی طرح یہودیت کی اصل بنیاد اس اصول پر ہے،کہ تم اپنے پڑوسی کے لیے وہی پسند کرو،جو اپنے لیے پسند کرو۔ لیکن اگر آپ یہود کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا،کہ انہوں نے اپنے پڑوسیوں کو جتنا ستایا، اتنا دنیا میں کسی نے اپنے پڑوسیوں کو نہیں ستایا ہوگا، اور اب بھی اس کا سلسلہ جاری ہے، جو اسرائیل کی جارحیت سے عیاں ہے، مگر اسلام، الحمد للہ سنت نبوی کے پورے اہتمام کے ساتھ محفوظ رہنے کی وجہ سے، قرآن کی تعلیمات پر مکمل طور پر محفوظ چلا آرہا ہے۔ اس طرح اللہ نے سنتِ رسول جس کو احادیث رسول صلى الله عليه وسلم بھی کہا جاتا ہے، کے ذریعہ معانی و مفاہیم اور مراد الٰہی کو محفوظ رکھنے کا انتظام کیا۔ اس لیے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے قرآن کی جو تفسیر کی، جسے ”تفسیر بالمأثور“کہا جاتا ہے، جس پر امام سیوطی، امام ابن کثیر وغیرہ، بے شمار علماء نے تفسیر یں لکھیں، اور ہر آیت کی تفسیر، حدیث رسول سے کرکے دکھائی، وہ درحقیت اللہ ہی کی جانب سے ہے، کیوں کہ قرآن نے اعلان کیا ہے ”ان علینا بیانہ“ ( سورة القیٰمة: پ۲۹/۱۹)یعنی اس قرآن کی تفسیر بھی ہم نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ا یک جگہ پر”جمعہ وقرآنہ“ ہے، ایک جگہ ارشاد ہے ”
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْـهَـوٰى (3)
اور نہ وہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اپنی خواہش سے کچھ کہتے ھیں
اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰى (4)
یہ تو وحی ہے جو ان پر آتی ہے۔
قرآن کریم حفظ کرنا ایک عظیم عبادت ہے اور اس عبادت کے ذریعے حافظِ قرآن صرف اور صرف رضائے الہی چاہتا ہے اور آخرت میں ثواب لینا چاہتا ہے، اگر خدانخواستہ حافظ کی نیت رضائے الہی کے علاوہ کوئی اور ہو تو پھر اس کو کچھ بھی اجر نہیں ملے گا بلکہ اس عبادت کو غیر اللہ کے لیے بجا لانے پر قیامت والے دن بازپرس ھو گی اور یہ مستحقِ عذاب بن جائے گا۔
حافظ قرآن کو چاہیے کہ قرآن مجید حفظ کر کے اس کے عوض میں دنیاوی فوائد کی تمنا بالکل نہ کرے؛ کیونکہ قرآن مجید کو یاد کرنا ایسی چیز نہیں ہے کہ جس کے عوض دنیا میں مارکیٹنگ کی جائے، بلکہ یہ ایک عبادت ہے جو انسان صرف اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے اور اس کا آجر قیامت والے دن اسے ضرور ملے گا ۔ اللہ تعالی نے حافظِ قرآن شخص کو دنیا اور آخرت میں بے شمار خصوصی امتیازات سے نوازا ہے، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
نماز کی امامت کے لیے دوسروں پر ترجیح
ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (لوگوں کی امامت وہ کروائے جو سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والا ہو [یعنی حافظ ہو] ، اگر وہ اس میں یکساں ہوں تو پھر جو سب سے زیادہ سنت کا علم رکھنے والا ہو، اگر وہ علم حدیث میں بھی یکساں ہوں تو پھر جو سب سے پہلے ہجرت کر کے آیا ہو، اگر ہجرت میں برابر ہوں تو پھر جو سب سے پہلے اسلام لایا ہو۔ کوئی بھی شخص سلطان کی موجودگی میں سلطان کی امامت نہ کروائے اور نہ ہی اس کے گھر میں اس کی خاص مسند پر بیٹھے) مسلم: (673)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : جس وقت اولین مہاجرین قبا کے قریب عصبہ جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد سے قبل آئے تو ان کی امامت سالم مولی ابو حذیفہ کرواتے تھے کیونکہ آپ کو سب سے زیادہ قرآن مجید یاد تھا۔ بخاری: (660)
تدفین میں حافظِ قرآن کو ترجیح
اگر مجبوری کی بنا پر حافظ کے ساتھ کسی اور کو قبر میں دفن کرنا پڑے تو قبلے کی جانب حافظ کو اور اس کے پیچھے دوسری میت کو دفن کریں گے۔
چنانچہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ احد کے جان نثاروں کو ایک ایک کپڑے میں کفن دیتے اور پھر فرماتے: ان میں سے قرآن کس کو زیادہ یاد تھا؟ پس جب کسی کے بارے میں اشارہ کیا جاتا تو اسے لحد میں پہلے اتارتے۔ اور پھر فرمایا: میں روز قیامت ان سب کا گواہ ہوں، آپ نے جان نثاروں کو ان کے خون کے ساتھ غسل دئیے بغیر دفن کیا اور ان کی نماز جنازہ ادا نہیں فرمائی۔ بخاری: (1278)
امارت اور سربراہی سنبھالنے میں حافظ قرآن کو ترجیح
اگر امارت اور سربراہی سنبھالنے کی استطاعت ہو تو سب سے پہلے حافظ قرآن کو ترجیح دی جائے گی۔
عامر بن واثلہ کہتے ہیں کہ نافع بن عبد الحارث سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو عسفان جگہ پر ملے، عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مکہ کا گورنر مقرر کیا ہوا تھا، تو آپ نے ان سے پوچھا: اہل وادی پر کسے سربراہ مقرر کیا ہے؟ تو نافع نے کہا: ابن ابزی کو! عمر نے کہا: وہ کون ہے؟ نافع نے کہا: وہ ہمارے غلاموں میں سے ایک غلام ہے! عمر نے کہا: تم نے غلام کو ان کا سربراہ بنا دیا ہے؟ نافع نے کہا: وہ قرآن کا قاری ہے [یعنی قرآن کا حافظ ہے] اور انہیں فرائض [وراثت] کا علم بھی ہے، اس پر عمر نے کہا: تمہارے نبی نے [سچ] کہا ہے: (بیشک اللہ تعالی اس کتاب کی وجہ سے کچھ لوگوں کو عزت سے نوازتا ہے اور دوسروں کو ذلت سے) مسلم: (817)
حافظ قرآن کا جنت میں ٹھکانہ وہاں ہو گا جہاں وہ آخری آیت پڑھے گا۔
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ: (صاحب قرآن سے کہا جائے گا، پڑھتے جاؤ اور چڑھتے جاؤ نیز اس طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسے تم دنیا میں پڑھتے تھے ؛ کیونکہ تمہارا ٹھکانا وہیں ہو گا جہاں تم آخری آیت پڑھو گے) ترمذی: (2914) امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے، نیز البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی (2329)میں سے حسن صحیح کہا ہے، نیز یہ روایت ابوداود: (1464) میں بھی ہے۔
اس حدیث میں پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ زبانی پڑھتا جا۔
حافظ قرآن فرشتوں کے ہمراہ اپنے گھروں میں ہو گا۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور قرآن کا حافظ بھی ہے تو وہ نیک محرر فرشتوں کے ہمراہ ہو گا، اور جو شخص قرآن پڑھتا ہے لیکن قرآن پڑھنا اس کےلئے مشکل ہو جاتا ہے تو اس کے لیے دہرا اجر ہے) بخاری: (4653) مسلم: (798)
حافظ قرآن کو معزز تاج اور مکرم لباس پہنایا جائے گا
قرآن کریم قیامت کے دن آ کر کہے گا: پروردگار! اسے مزین فرما دے۔ تو اسے معزز تاج پہنایا جائے گا، پھر قرآن کہے گا: یا رب! مزید مزین فرما دے، تو پھر اسے مکرم لباس پہنایا جائے گا، پھر قرآن کہے گا: یا رب! اس سے راضی ہو جا، تو اسے کہا جائے گا: پڑھتا جا چڑھتا جا اور ہر ایک کے پڑھنے پر اس کا درجہ بڑھتا جائے گا چنانچہ حدیث مبارکہ ھے
يجئ القرآن يومَ القيامةِ فيقولُ: يا ربِّ حلِّهِ، فيُلبسُ تاجُ الكرامةِ، ثم يقولُ: يا ربِّ زدهُ، فيُلبسُ حُلَّةَ الكرامةِ، ثم يقول: يا ربِّ ارضِ عنهُ، فيقالُ: اقرأْ وارقأْ ويزادُ بكلِّ آيةٍ حسنةً. (سنن ترمذی)
قیامت کے دن قرآن آئےگا اور کہےگا اے میرے رب: اس کو (حافظ قرآن) کو جوڑا پہنا، تو اسے عزت و شرافت کا تاج پہنا دیا جائےگا، پھر قرآن کہےگا اے میرے رب: اس کو مزید نوازیے، پس اسے شرافت و کرامت کا جوڑا پہنا دیا جائےگا۔ پھر قرآن کہےگا اے میرے رب! تو اس سے راضی ہو جا، تو اللہ تعالی اس سے راضی ہو جائیں گے اور کہا جائےگا پڑھتا جا اور (بلندی کی طرف) چڑھتا جا، تیرے لیے ہر آیت کے عوض نیکی کا اضافہ ہوتا جائےگا۔
قارئ القرآن کے لیے اللہ تعالی کے ہاں قرآن پاک کی شفاعت
ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: قرآن پڑھو؛ کیونکہ یہ قرآن اپنے پڑھنے والوں کے لیے روزِ قیامت سفارشی بن کر آئے گا، تم زاہراوین یعنی سورت بقرہ اور آل عمران پڑھو یہ روزِ قیامت آئیں گی گویا کہ یہ دو بادل ہیں یا دو سائبان ہیں یا اڑنے والے دو پرندوں کے جھنڈ ہیں یہ اپنے پڑھنے والے کے لیے تکرار کریں گی۔ تم سورت بقرہ کی تلاوت کرو؛ کیونکہ سورت بقرہ کی تلاوت باعث برکت ہے، اسے چھوڑنا باعث حسرت ہے اور جادوگر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ مسلم: (804) بخاری نے اسے معلق روایت کیا ہے۔
حافظِ قرآن کے حق میں بروزِ حشر قرآن کی سفارش
حافظِ قرآن کے حق میں بروزِ حشر قرآن پاک سفارش کرےگا، جیسا کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے:
الصِّيامُ والقرآنُ يشفَعانِ للعبدِ يومَ القيامةِ يقولُ الصِّيامُ أي ربِّ منعتُهُ الطَّعامَ والشَّهواتِ بالنَّهارِ فشفِّعني فيهِ ويقولُ القرآنُ منعتُهُ النَّومَ باللَّيلِ فشفِّعني فيهِ قالَ فَيشفَّعانِ. (مسندِ احمد)
روزے اور قرآن روزِ قیامت بندے کے حق میں سفارش کریں گے، روزہ کہےگا اے میرے رب! میں نے اس شخص کو دن بھر کھانے پینے اور شہوات سے روکے رکھا، پس تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ اور قرآن کہےگا میں نے اس شخص کو رات بھر جگائے رکھا پس تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما، پس ان دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائےگی۔
حافظِ قرآن کے والدین کا اعزاز
حافظ قرآن کے والدین کو دو لباس پہنائے جائیں گے جن کی قیمت دنیا وما فیہا بھی نہیں ہے، اس لیے کہ حافظ قرآن کے والدین نے اپنے بچے کی خوب محنت کے ساتھ پرورش کی اور اسے تعلیم دلوائی، چاہے حافظ قرآن کے والدین ان پڑھ ہی کیوں نہ ہوں اللہ تعالی پھر بھی ان کی عزت افزائی فرمائے گا، لیکن اگر کوئی اپنے بچے کو قرآن مجید حفظ کرنے سے روکتا ہو گا تو وہ محروموں میں شامل ہوگا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: قیامت کے دن متغیر رنگت والے آدمی کی شکل میں قرآن مجید آ کر قرآن پڑھنے والے سے کہے گا: کیا تم مجھے جانتے ہو؟ میں ہی ہوں وہ جو تمہیں راتوں کو جگاتا تھا اور گرمی کے دنوں میں [روزے رکھوا کر ] پیاس برداشت کرواتا تھا۔ ہر تاجر کے سامنے اس کی تجارت ہوتی ہے اور میں آج تمہارے لیے کسی بھی تاجر سے پیش پیش ہوں گا، تو وہ حافظ قرآن کو دائیں ہاتھ میں بادشاہی دے گا اور بائیں ہاتھ میں سرمدی زندگی دے گا، اور اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا، اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے کہ دنیا و مافیہا بھی اس کے برابر نہیں پہنچ سکتے، تو والدین کہیں گے: پروردگار! یہ ہمارے لیے کہاں سے ؟ تو انہیں کہا جائے گا: تم نے اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دی اس کے عوض ۔ طبرانی نے اسے معجم الاوسط: (6/51) میں روایت کیا ہے۔
اسی طرح بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص قرآن کریم پڑھے اور پھر اس کے احکام سیکھے نیز اس پر عمل بھی کرے تو اللہ تعالی اس کے والدین کو نور کا تاج پہنائے گا، اس کی روشنی سورج جیسی ہو گی، اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے کہ پوری دنیا بھی اس کے برابر نہ پہنچ سکے، تو والدین کہیں گے: پروردگار! یہ ہمیں کس کے عوض پہنایا گیا؟ تو انہیں کہا جائے گا: تمہارے بچوں کے قرآن سیکھنے کی وجہ سے۔) حاکم (1/756)نے اسے روایت کیا ہے۔
حفظِ قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا عنصر
حفظِ قرآن کی سب سے بڑی فضلیت یہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا عنصر موجود ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حافظِ قرآن تھے اور ہر سال ماہِ رمضان میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ دور فرمایا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی ایک سنت کی اتباع کی توفیق نصیب ہو جانا کتنی بڑی سعادت مندی اور خوش بختی ہے؛ نیز حفظِ قرآن میں اکابر و اسلاف کی پیروی بھی ہے کہ ہمارے اسلاف و اکابر کا معمول بھی حفظ قرآن کا تھا۔
تلاوتِ قرآن اور فرشتوں کا نزول
جب حافظ قرآن محوِ تلاوت ہوتا ہے تو ملائکہ پروانہ وار اس مجلس میں ٹوٹ پڑتے ہیں پوری مجلس کو اپنی نازک پروں کے حصار میں لے لیتے ہیں، جس مجلس میں فرشتوں کا ورود اس کثرت سے ہو اس میں رحمتِ الہی کے نزول کا کیا عالم ہوگا، اور خود پڑھنے والے پر خدا کی کس قدر رحمتیں اترتی ہوں گی۔ چنانچہ حدیث مبارک ھے
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله تعالى، يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم، إلا نزلت عليهم السكينة، وغشيتهم الرحمة، وحفتهم الملائكة، وذكرهم الله فيمن عنده. (صحیح مسلم)
ترجمہ: جب بھی کوئی قوم کسی گھر میں جمع ہوکر قرآن کی تلاوت کرتی ہے اور آپس میں پڑھتی پڑھاتی ہے ان پر سکینہ نازل ہوتا ہے، رحمتِ الہی انھیں ڈھانپ لیتی ہے اور ملائکہ انھیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالی اپنی مجلس میں فرشتوں کے درمیان ان لوگوں کا تذکرہ فرماتے ہیں۔
روزِ قیامت حافظ قرآن کو شرافت و کرامت کا تاج اور عمدہ جوڑا پہنایا جائے گا
اللہ تعالی روزِ قیامت حافظ قرآن کو شرافت و کرامت کا تاج اور عمدہ جوڑا پہنائیں گے، جنھیں دیکھ کر دوسرے لوگ رشک کر رہے ہوں گے کہ کون خوش بخت ہے جس پر رب کی الطاف و عنایات کی بارش اس قدر ہے کہ محشر کی ہولناکیوں اور درد سامانیوں سے محفوظ مست تخت پر تاج پہنے جلوہ آرا ھے
اھلِ قرآن سب سے بہتر انسان
حافظِ قرآن اور قرآن پڑھنے پڑھانے والوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بہتر قرار دیا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
خيركم من تعلم القرآن و علمه. (بخاری شریف)
یعنی تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔
بھلا اس سے بڑا اعزاز و امتیاز حافظ قرآن کے لیے کیا ہو سکتا ہے کہ اسے سرورِ کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی دیگر افراد پر فوقیت و برتری عطا کی جا رہی ہے؛
لیکن حفاظِ قرآن کریم کے پیشِ نظر یہ بات بھی ضرور رہنی چاہیے کہ یہ ساری فضیلتیں اس وقت حاصل ہوں گی جب حفظِ قرآن اخلاص و للہیت کی بنا پر ہو اور اس عمل سے کوئی دنیاوی مفاد و غرض یا طلبِ مال و شہرت متعلق نہ ہو اور قرآنی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارتا ہو اور اس کی تلاوت کا خاص اہتمام کرتا ہو،
قرآن مجید ایک ناقابلِ تحریف کتاب
قرآنِ حکیم اللہ تعالی کا نازل کردہ وہ مقدس صحیفہ ہے، جس نے اپنے سے پہلے نازل شدہ تمام تر الہامی و آسمانی کتابوں کو منسوخ کر دیا، آج کوئی بھی آسمانی صحیفہ دنیا میں ایسا موجود نہیں ہے جو تحریف و تبدیل کے نقائص و عیوب سے پاک اور انسانوں کی خود تراشیدہ عبارات، دست درازی اور خرد برد سے کامل طور پر محفوظ ہو، یہ اعزاز صرف قرآن کو حاصل ہے کہ زمانے کے حوادث و تغیر اور دشمنانِ اسلام کی پیہم تحریفی کوششوں کے باوجود اپنی اصل شکل و صورت میں موجود ہے، اس کے زمانۂ نزول سے ہی شرپسندوں کی مساعی و کوششیں اس کی تحریق و نذرِ آتش میں صرف ہوئیں اور تاہنوز یہ تسلسل رواں ہے؛ مگر اسے قرآن کا اعجاز کہیے یا خدا کی کرشمہ سازی کہ اس کا ایک نقطہ بھی مسخ نہ ہوا۔ یہ در حقیقت اس کے نازل کرنے والی ذات کے اس عالم گیر و وسیع نظام اور اقدام و تدبیر کا نتیجہ تھا جو اس نے اپنے کلام کی حفاظت و صیانت کی خاطر حفظ قرآن کی صورت میں جاری فرمایا تھا، قرآن کے زمانۂ نزول سے ہی قدرت کا یہ نظام کار فرما ہوا اور تا قیامت جاری رہےگا، ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں؛ بلکہ کروڑوں افراد کلامِ الہی کو حرف بہ حرف اپنے سینوں اور ذہن کے آب گینوں میں محفوظ کیے ہوئے ہیں، اسی سال سے متجاوز عمر کے بھی حافظ و قاری مل جائیں گے اور بچپن و نوخیزی کی بہاروں کی آغوش میں چہچہانے والے معصوم حفاظِ قرآن بھی مل جائیں گے، جن کا شغلِ حیات از صبح تا شام قرأتِ قرآن کے ماتحت ہوتا ہے، اور عمرِ مستعار کے تمام لمحات اس کے پڑھنے پڑھانے اور سمجھنے سمجھانے میں صرف کر دیتے ہیں، اور ایسا کسی کے زور، زبردستی اور جبر و قہر سے محبور ہوکر نہیں کرتے ہیں؛ بلکہ قرآن کے لیے اپنی زندگی فنا کردینے کو اپنے حق میں سعادت و خوش بختی گردانتے ہوئے ایسا کرتے ہیں۔ اللہ پاک ان کی اس سعی کو قبول فرمائے اور قیامت والے دن ھمارا حشر بھی اِن با عمل حفاظ کرام کی جماعت کے ساتھ فرمائے
آمین یا رب العالمین