اھلِ علم کا مقام اور ذمہ داریاں

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5)

پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا ہے جسے وہ نہیں جانتا تھا۔( سورہ العلق) 

دینِ اسلام میں حصولِ علم کی بہت تاکید کی گئی ہے اور علم و اہلِ علم کی متعدد فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور مسلمانوں کو علم کے حصول پر ابھارا گیا ہے۔ اور جس طرح علم کی اہمیت و فضیلت مسلّمہ ہے، اُسی طرح اِس نعمتِ عظیم کے حامل افراد کی فضیلت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ رسول اللہ صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کی اس امت میں تو بالخصوص اہلِ علم بہت اعلی مقام کے حامل ہیں حتیٰ کہ انہیں انبیائے کرام کا وارث قرار دیا گیا ہے۔

اس دنیا میں ہر انسان کا اپنا ایک نام اور اپنا ایک مقام ہوتا ہے اور ہر انسان کا مقام اس کی عکاسی کرتا ہے کہ معاشرے میں اس کا مرتبہ کیا ہے اور لوگ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ تو آئیے  ہم اس بات کا جائزہ لیں  کہ ھمارے معاشرے میں موجود ایک عالم دین کی فضیلت قرآن وسنت کے مطابق کیا ہے اور اس کی ذمہ داریاں کیا ھیں ؟  ہمارے معاشرے میں موجود کچھ لبرل ازم ذہن اور سوچ کے مالک اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ 

 بعض سیکولر مائنڈ اور جاھل قسم کے لوگ سمجھتے ہیں کہ عالم دین تو معاشرے میں معاذ اللہ ایک حقیر ترین انسان ہے، یہ لوگ برملا کہتے ھیں کہ ان مولویوں کو کیا معلوم  کہ دین کیا چیز ہے ؟ ان لبرل جاھلوں کے مطابق  یہ مولوی تو بس اپنے  نام اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے دین کا نام استعمال کرتے ہیں جبکہ  اصل دین کو تو یہی نام نہاد لبرل لوگ جانتے ہیں ۔ ان کے بقول دین تو بہت آسان سی چیز کا نام ہے لیکن  ھمارے ان مولویوں نے دین کو مشکل بنا کر رکھ دیا ہے اور اسی طرح کی بے شمار باتیں علماء حق کے خلاف کی جاتی ہیں کہ یہ شر پسند ہیں، یہ فرقہ پرست ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

قرآن وسنت کی روشنی میں ایک صحیح العقیدہ عالم دین کا مقام ومرتبہ کیا ہے؟۔اس بارے  اللّٰہﷻ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا 

قُلْ هَلْ يَسْتَوِى الَّـذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّـذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۗ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُو الْاَلْبَابِ (9) 

کہہ دیجیے کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں، )سمجھتے وہی ہیں جو عقل والے ہیں (سورہ الزمر

عالم دین کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے رسول اللّٰہ صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا کہ ایک عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کو ستاروں پر فضیلت حاصل ہے۔ علماء حق کے  بارے زبان درازی کرنے والے کو کون سمجھائے کہ حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ علماء حق انبیاء کرام کے وارث ہیں، عالم دین جس سیاہی سے حدیث تفسیر یا تحریر لکھتا ہے اس سیاہی کا مقام شہید کے خون سے زیادہ ہے۔ عالم دین اس اعلیٰ شخصیت کا نام ہے جس کے لیے سمندر کی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں۔ عالم دین کی صحبت میں بیٹھنا اور اس کی زیارت کرنا بھی باعثِ ثواب ہے۔ نادان کیا سمجھیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا کہ میری آل میری پشت میں سے ہے اور علماء حق میرے سینے میں سے ہیں۔ عالم دین کی یہ شان ہے کہ اس کا سانس لینا بھی اور یہاں تک کہ عالم دین کا سونا بھی عبادت ہے۔ ایک اور جگہ بیان کرتے ہوئے رسول اللّٰہ صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا کہ عالم دین کو عابد یعنی عبادت گزار پر اس طرح فضلیت حاصل ہے جس طرح مجھے ایک عام آدمی پر فضیلت حاصل ہے صاحبِ بصیرت لوگ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ شریعت اسلامیہ میں عالم دین کو عبادت گزار پر بہت فوقیت حاصل ہے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اگر ایک طالب علم جو گھر سے علم دین حاصل کرنے کی نیت سے نکلے اس نیت سے کہ وہ علم دین حاصل کر کے اسلام کی سربلندی کے لیے دین اسلام کا پیغام عام کرے گا لیکن وہ علم حاصل نہ کر سکے ابھی راستے میں ہی ہو یا کچھ علم ہی حاصل کیا ہو اور اسے موت آ جائے تو حضور آکرم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  فرماتے ہیں کہ جنت میں اس کے اور انبیاء کرام کے درمیان صرف ایک درجے کا فرق ہو گا۔ اللّٰہ اللّٰہ اب ہمیں اس بات سے سبق سیکھنا چاہیے کہ ایک طالب علم کی یہ شان ہے تو عالم دین کا مقام و مرتبہ کیا ہو گا۔

اب ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ ہم اس معاشرے کی عظیم ترین اور بابرکت شخصیت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ جس بندے کو پہلا کلمہ  بھی صحیح سے پڑھنا نہیں آتا، وہ بھی حقے پر بیٹھ کر علماء حق کے خلاف زبان درازی کر رہا ہوتا ہے اور ملکی سیاست  کے حوالہ سے اگر دیکھیں تو اس میں تو آچھے خاصے لوگوں کی عقل ماری گئی ھے ۔ وہ گندے کردار کے سیاستدانوں سے نہ صرف یہ کہ سیاست میں موجود جید علماء کرام کا موازنہ کرتے ھوئے نظر آتے ھیں بلکہ ان منفی کردار کے سیاست دانوں کو ان علماء کرام  سے بہتر ثابت  کرنے کے لئے ان علماء پر طرح طرح کے جھوٹے الزام لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے  کے تحط  عوام کے اندر علماء سے نفرت کے بیج بوئے جا رھے ھیں جو کہ ایک کھلی ھوئی گمراہی اور بہت بڑا گناہ ہے اور یہ روش ایمان کے لئے انتہائی خطرناک ھے ۔ ایسے لوگوں کو وقت ضائع کیے بغیر فوراً اپنے اس فعل سے توبہ کرنی چاھیے اور علماء کرام کی محبت اور عقیدت اپنے دل میں پیدا کرنی چاھیے اور یہ جاننا چاھیے کہ سیاست میں موجود ھمارے علماء کرام ھمارے بہت بڑے محسن ھیں جنہیں ملک کے ۹۹ فیصد غیر سیاسی علماء کرام کی تائید و حمایت بھی حاصل ھے ۔ اگر یہ علماء سیاست میں نہ ھوتے تو اللہ جانے آج ھمارا کیا حال ھوتا۔ جہاں  تک  ان سے نکمے کردار سیاستدانوں سے موازنہ کا تعلق ھے تو یہ حقیقت سمجھ لینی چاھیے کہ اس طرح کے لوگوں سے اگر تمام دنیا بھی بھر جائے ہھر بھی وہ ایک عالمِ دین کے پاؤں کے برابر بھی نہیں ھو سکتے 

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ بندہ جس کو اس کے باپ نے پالا، پرورش کی، پڑھایا، کمانے کے قابل  بنایا اسی باپ کا جب  وصال کا وقت آتا ہے تو وہی بیٹا جو علماء حق کے بارے میں زہر اگلتا نہیں تھکتا اسے اتنا  علم بھی نہیں  ہوتا کہ باپ کو غسل کیسے دینا ہے، باپ کی نماز جنازہ کیسے پڑھانی ہے؟ 

اب سوال یہ ہے معاشرے میں موجود علماء مخالف قوتوں سے ، کہ بچہ پیدا ہو تو اذان کے لیے علماء، اس کو دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے علماء، اس کا نکاح پڑھانے کے لیے علماء، مرنے کے بعد اُسے غسل دینے اور اُس کا جنازہ پڑھانے کے لئے علماء اس کے علاوہ اور بھی ایسے کئی کام جو زندگی کا خاص حصہ ہیں جن میں ہم علماء کے محتاج ہی نہیں بلکہ ان کے بغیر ادھورے ہیں تو ہم کس منہ سے ایسے برگزیدہ لوگوں کے بارے کچھ ایسا سوچ بھی سکتے ہیں جس کی ہمیں دینِ اسلام اجازت ہی نہیں دیتا۔

میرے معاشرے کے ممی ڈیڈی لوگوں کو سمجھنا ہوگا کہ عالم دین ایک بہت بڑی ھستی  کا نام ہے ہمیں ان کی قدر کرنا ہو گی۔ عالم دین ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی، کسی ذاتی یا سیاسی مفاد کی خاطر علماء حق کے بارے میں نازیبا الفاظ اور سوچ استعمال کر کے خود کو کبیرہ گناہوں کا مرتکب نہ ٹھہرائیں، محراب و منبر کے ان وارثوں کی عظمت و شان اور فضیلت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ علماء حق کو ہلکا نہ سمجھیں بلکہ ان کی قدر کریں اور ان کی صحبت اختیار کر کے زندگی کو خوشگوار بنائیں اور یاد رکھیں کہ علماءِ حق کی خدمت کرنا اور ان کے ساتھ محبت کرنا امت کے لیے ضروری ہے۔

ہر مسلمان کو اس بات کا علم ہے کہ ایمان قبول کرلینے کے بعد سب سے اہم چیز ”علم دین“ ہے۔ کیونکہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ومقصود ہیں، کہ جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال آتا ہے، اور جن پر دین کی اشاعت و حفاظت کا مدار ہے، وہ چزیں دین کے علم کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ  نے “کتاب الایمان” کے معاً بعد، علم سے متعلق احادیث کو جمع فرمایا ہے، اور انہی کی پیروی کرتے ہوئے صاحبِ مشکوٰة“ علامہ بغوی رحمہ اللہ نے بھی اپنی تالیف ”مشکوٰة“ شریف میں “کتاب الایمان “کے بعد ”کتاب العلم“ کو ھی جگہ دی ہے۔

چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک علم دین بہت ہی افضل چیز ہے لہٰذا ”صاحب علم“ کا بھی شریعت میں مخصوص ترین مقام ہے قرآن پاک میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے : ”

ہَلْ یَسْتوی الذینَ یَعْلَمُون والذین لا یعلمون“ 

یعنی جاہل آدمی خواہ کتنے ہی بڑے دنیاوی منصب پر فائز ہوجائے، کتنی ہی زیادہ عبادت و ریاضت کرلے؛ لیکن وہ صاحب علم کے مقام کو پالے یہ ناممکن اور محال بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عالم دین کی عزت و توقیر کے لئے نیز اس کے حق میں دعاء مغفرت کرنے کیلئے ساری کائنات کو لگارکھا ہے، اسی کے ساتھ میدان محشر میں اس کو ایسے انعامات سے سرفراز کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، جن کو سن کر فرشتے تک رشک کرتے ہیں؛ لیکن جس طرح اہل علم کا بلند و بالا مقام و مرتبہ ہے، اسی طرح ان کی ذمہ داریاں بھی بہت نازک ہیں، جس طرح ان کے چھوٹے چھوٹے کاموں پر بے شمار بشارتیں ہیں۔ اسی طرح  ذمہ داریوں  سے کنارہ کشی کی صورت میں، ان کے لئے سخت ترین وعیدیں بھی آحادیثِ مبارکہ میں وارد ھوئی  ہیں، ایسی صورت میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ علماء کرام اس دنیا کے اندر قابل رشک بن کر رہتے، لیکن آفسوس کہ آج اہل علم کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنے مقام و مرتبہ کو فراموش کرکے، اپنی فضیلتوں و عظمتوں کو نظر انداز کرکے، نیز کوتاہیوں کی صورت میں وارد شدہ وعیدوں اور دھمکیوں سے تغافل برت کر، ان کاموں میں لگا ہوا ہے جن سے پورے طبقہٴ علماء کی جگ ہنسائی ہورہی ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دنیا میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ بے مصرف اور بے فیض چیز سمجھی جارہی ہے تو یہ اہل علم کی جماعت ہے، حالانکہ اس جماعت کو رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے دنیا میں لاجواب زندگی گزارنے کا ایسا بہترین نسخہ بتایا تھا، جس پر یہ حضرات عمل کرتے تو ساری کائنات ان کے قدموں میں جھک جاتی۔  ھمارے آقا رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے اس جماعت کو اہل دنیا کے سامنے کاسہ گدائی لیکر پھرنے والا راستہ نہیں بتایا تھا، بلکہ ان کو سرداروں اور سربراہوں کی طرح جینے کا سلیقہ عطاء فرمایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے حضور آکرم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے فرمان کے مطابق زندگی گزاری، دنیا والوں نے ان کو اپنے سروں پر بٹھایا، اور آج کے اس گئے گزرے دور میں بھی جولوگ استقامت کے ساتھ رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہیں دنیا ان کے سامنے ذلیل ہوکر آرہی ہے۔ اور یہ دنیا کو اپنی ٹھوکروں سے مار رہے ہیں۔ زیل میں میں آقا رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کے چند ارشادات  کو جمع کیاگیا ہے، مقصد یہ ہے کہ جو شخص بھی علم کی کسی طور پر بھی خدمت کررہا ہے اس کو اپنے مقام و مرتبہ اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو اور وہ آقا کے فرمان کے مطابق اپنی زندگی ڈھال کر اپنا کھویا مقام حاصل کرسکے اور دنیا و آخرت کی تمام کامیابیوں کو اپنا مقدّر بنالے۔


 طالبِ علم  کے لیے ساری مخلوقات  کا دعاگو ھونا 

کائنات کی سب سے عزیز ترین اور محبوب ترین ، دین کے طالب کی ہستی ہے، یہی وجہ ہے کہ دین کے طالب کیلئے کائنات کی ہر ہر شے مصروف دعا رہتی ہے؛ حتی کہ فرشتے اس کے اعزاز میں پر بچھائے رہتے ہیں۔ رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا:

 مَنْ سَلَکَ طَرِیقًا یَطْلبُ مِنْہُ عِلْمًا سَلَکَ اللّٰہُ بِہِ طَرِیْقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ وانَّ المَلاَئِکَةَ لتَضَعُ اَجْنِحَتہَا رِضًی لِطَالِب العِلْمِ وانّ العالِمَ یستغفرلَہُ مَنْ فی السمٰواتِ وَمَن فِیْ الاَرْضِ والْحِیْتَان فی جَوْفِ المَاءِ“۔

اس حدیث سے جہاں ایک طرف یہ بات معلوم ہوئی کہ علم دین کیلئے سفر کرنا نہایت مستحسن ومتبرک فعل ہے وہیں یہ بات معلوم ہوئی کہ علم کیلئے سفر کرنا درحقیقت جنت کی راہ پر گامزن ہونا ہے، دین کا طالب اتنا معزز ہے کہ فرشتے اس کیلئے پر بچھاتے ہیں، پر بچھانے کا مطلب یہ ہے کہ فرشتے طالب علم کی نہایت عزت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ نہایت تواضع سے پیش آتے ہیں، یا پھر یہ مطلب ہے کہ وہ حقیقتاً پر بچھاتے ہیں لیکن ہم اپنی اِن کوتاہ آنکھوں سے اس کا نظارہ نہیں کرپاتے ہیں اور عالم کیلئے آسمان و زمین کی تمام مخلوق حتی کہ پانی میں مچھلیاں مغفرت کی دعا کرتی رہتی ہیں، لیکن یہ تمام عظمتیں و رفعتیں، اور ساری کی ساری سعادتیں و برکتیں اس وقت ہیں، جب علم کا طالب اپنے علم کی حق تلفی نہ کرے، حصول علم کے دوران اور اس کے بعد کی جو ذمہ داریاں ہیں ان سے پہلو تہی نہ کرے۔


علمِ دین ایک قابل رشک نعمت 

علم دین بہت بڑی نعمت ہے، لہٰذا اس کے حاصل ہونے پر جتنا بھی رشک کیا جائے کم ہے ایک موقعہ پر سرورکائنات  رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا: ”دوطرح کے لوگ ہی رشک کے قابل ہیں ایک شخص تو وہ ہے جو مال پاکر اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور دوسرے شخص کے بارے میں آپ نے فرمایا: ”وَرَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ الحِکْمَةَ فَہُوَ یَقْضِیَ بِہَا“۔  دوسرا شخص وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے دین کا علم عطا فرمایا اور وہ اس علم کے مطابق فیصلہ کرتا ہو اوراس علم کو لوگوں کو سکھاتا بھی ہو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم دین عطا فرمایا اوراس نے دین کے سکھانے اوراس کے مطابق فیصلہ کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا تو یہ قابل رشک آدمی ہے لوگوں کو اس کے نصیب کی بلندی اور اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کے مقام و مرتبہ کی رفعت پر جتنا رشک ہو کم ہے۔


علماءِ حق بقائے علم کا ذریعہ ھیں 

یہ علماء ہی کا مقام و مرتبہ ہے کہ ان کے دم سے علم کا وجود ہے جب اللہ تعالیٰ اس دنیا سے علماء کو اٹھالیں گے تو علم بھی اٹھ جائے گا اور علم کے اٹھ جانے کے سبب ہر جانب تاریکی پھیل جائے گی اور کوئی صحیح راہ دکھانے والا نہ ہوگا ۔ ہر شخص گمراہی کے عمیق غار میں سرتاپیر غرق ہوگا، جہلاء علماء کی جگہ بیٹھ کر ایسی ایسی باتیں بتائیں گے؛ جن پر عمل کرکے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ اس لئے علماء کے وجود کو باعث خیر و برکت سمجھ کر ان سے حتی المقدور استفادہ کی ہر ایک کوشش کرنا چاہئے اور ان سے محبت رکھنے کو اپنے لئے سعادت خیال کرنا چاہئے۔ اللہ کے نبی رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا ارشاد مبارک ہے:

 ”اِنَّ اللّٰہَ لا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انتزاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ العِبَادِ وَلٰکِنْ یَقْبِضُ الْعَلَمَاءَ“۔ 

اللہ تعالیٰ دین کا علم اس طرح نہیں اٹھائیں گے کہ لوگوں کے اندر سے کھینچ لے؛ بلکہ علماء کو اٹھالینے کی صورت میں دین کا علم اٹھ جائے گا، 

یعنی علماء زندہ رہیں اور ان کے سینوں سے علم نکال لیاجائے یہ نہیں ہوگا؛ بلکہ اللہ تعالیٰ حاملین علم کو اٹھالیں گے اور ان کی جگہ دوسرے علماء پیدا نہیں ہوں گے۔ اس طرح علم خود بخود ختم ہوجائے گا۔ لہٰذا بقائے علم کے لئے ہر عالم کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے بعد کچھ علماء چھوڑے۔


عالم  کی عابد پر فضیلت

ایسا عالم دین جو لوگوں کو نفع پہنچاتا ہو، وہ عابد سے بہت زیادہ بلند مقام رکھتا ہے ۔ اس کے مقام و مرتبہ کے آگے راتوں کو جاگ کر اللہ اللہ کی ضربیں لگانے والے شب بیدار عابد کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ عالم دین نہ صرف اپنے آپ کو جہنم سے بچاتا ہے، بلکہ دوسرے بہت سے لوگوں کو بھی جہنم سے بچاکر جنت والے راستہ پر ڈال دیتا ہے، رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا:

 ”اِنَّ فَضْلَ العَالِم عَلَی العابدِ کَفَضْلِ القَمَرِ لَیْلَةَ البدرِ عَلیٰ سَائِرِ الکَوَاکِبِ“۔

عالم کو عابد پر ایسی فضیلت ہے جیسے کہ چودھویں رات کے چاند کو تمام تاروں پر بڑائی اور برتری حاصل ہوتی ہے، 

دوسری جگہ عالم کو عابد پر ترجیح دیتے ہوئے فرمایا: 

فضل العالِمِ عَلَی العَابِدِ کَفَضْلِیْ عَلَی اَدْنَاکمْ“۔ 

عالم کو عابد پر ایسی ہی فضلیت ہے جیسے کہ مجھ کو تم میں سے ادنیٰ شخص پر حاصل ہے، 

اس ارشاد سے یہ بات سمجھ میں آئی، کہ جب عالم کوعابد پر اتنی فضیلت ہے تو عام لوگوں پر عالم کو جو فضیلت ہوگی اس کا اندازہ کرنا بہت دشوار بات ہے، لہٰذا عالم کے ساتھ بدکلامی کرنا اس کے بارے میں فاسد خیال رکھنا درحقیقت رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے فرمان کی توہین اور ان کے ارشاد کی پامالی ہے، عالم کو عابد پر اس قدر ترجیح دینے کی وجہ وہی ہے جس کا ذکر کیاگیا کہ عالم کا فائدہ متعدّی ہوتا ہے جبکہ عابد کا فائدہ اُس کی ذات تک محدود  ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عالم شیطان کے ہتھکنڈوں سے واقف ہونے کی بناء پر اس کے دام میں آنے سے خود بھی محفوظ رہتا ہے اورامت کی بھی حفاظت کرتا ہے؛ جبکہ عابد شیطان کے دام میں الجھے رہنے کے باوجود اپنے آپ کو عبادت و ریاضت میں مشغول خیال کرتا ہے، اسی بنیاد پر رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا

: ”فقیہ واحِدٌ اَشدُّ عَلَی الشَیْطَانِ مِن الفِ عابدٍ“.  

ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے، 

لہٰذا عام لوگوں کو نیک عالم کا قرب اختیار کرنا چاہیے، تاکہ وہ عالم کی صحبت کی برکت سے شیطان کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رہیں۔


علماءِ حق  انبیاء کرام کے وارث  ھیں 

اگرکوئی عالم دین کی قدر و منزلت کا اندازہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اس بات سے کرے، کہ علماء کرام انبیاء عظام کے وارث ہوتے ہیں انبیاء کے بعد علماء ہی کامرتبہ ہے  رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا

: ”اِنَّ الْعُلَمَاءَ ورثَةُ الانبیاءِ وانَّ الانبیاءَ لَمْ یورِّثو دِیْنَارًا ولاَ دِرْہَمًا وانَّمَا وَرَّثُوالْعِلْمَ فَمَنْ اخَذَہُ اَخْذَ بحظٍ وَافِرٍ“۔ 

علماء دین انبیاء کرام کے وارث ہوتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء دینار و درہم کے وارث نہیں بناتے ہیں وہ تو علم کا وارث بناتے ہیں جس نے دین کا علم حاصل کرلیا اس نے پورا حصہ پالیا۔

ایک مرتبہ حضرت ابو ھریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بازار سے گزر رہے تھے لوگوں کو دیکھا کہ وہ تجارت میں مشغول ہیں آپ نے فرمایا تم لوگ یہاں کاروبار میں مشغول ہو اور مسجد میں رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی میراث تقسیم ہورہی ہے لوگ فوراً مسجد کی طرف دوڑے گئے، وہاں جاکر دیکھا کہ کچھ لوگ تلاوت میں مشغول ہیں، کچھ حدیث پڑھ رہے ہیں، کچھ دوسرے لوگ علمی مذاکرہ میں مصروف ہیں کچھ لوگ ذکر و اذکار اور تسبیح و مناجات میں لگے ہوئے ہیں۔ آنے والوں نے یہ دیکھ کر ابو ھریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  سے کہا آپ نے تو فرمایا تھا کہ مسجد میں رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی میراث تقسیم ہورہی ہے، اور یہاں تو کچھ ایسا نہیں ہے۔ حضرت ابو ھریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا جن چیزوں میں یہ لوگ مشغول ہیں، یہی چیزیں رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی میراث ہیں۔ یاد رکھو! حضوررسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی میراث دنیا نہیں ہے۔“ رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی فدک زمین اسی طرح دیگر انبیاء کرام کی چھوڑی ہوئی دنیوی چیزوں کا مالک ان کی اولاد میں سے کوئی نہیں بنا، اور اُن چیزوں میں وراثت نہیں چلی؛ بلکہ وہ سب چیزیں تمام مسلمانوں کیلئے وقف ہوگئی تھیں۔  علماء اور انبیاء کا اتنا قریبی تعلق ہے کہ رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: جس شخص کو موت ایسی حالت میں آئی، کہ وہ دین کا علم اسلام کو زندہ کرنے کی غرض سے حاصل کررہا تھا، تو وہ جنت میں جائے گا۔ اس کے اور انبیاء کے درمیان صرف ایک درجہ کا فرق ہوگا۔


 طالبِ علم کے لئے بشارتیں 

طالب علم ہو، عالم دین ہو، یا ان کے علاوہ دینی مشغلہ رکھنے والا کوئی بھی شخص ہو، اگر وہ علم دین کے حصول اور اس کی اشاعت میں لگا ہوا ہے تواس کے لئے رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بے شمار بشارتیں ہیں، ایک موقعہ پر رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:

 ”لَنْ یَشْبَعُ الْمُوٴمِنُ مِن خَیْرٍ سَمِعَہُ حَتّٰی یکونَ مُنْتَہَاہُ الجنَّةَ“

 مومن کا پیٹ خیر کی بات سننے سے کبھی نہیں بھرتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے، رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے اپنی ساری زندگی طلب علم میں لگادی، اس کو جنت کی بشارت ہے۔ اس حدیث کے پیش نظر بہت سے اولیاء کرام ساری زندگی طالب علم ہی بنے رہے، حدیث میں طلب علم کی کوئی خاص شکل متعین نہیں ہے؛ لہٰذا جو شخص بھی مرتے وقت تک کسی طرح کے بھی علمی کام میں مشغول ہے، وہ اس بشارت کا مستحق ہے۔

ایک موقعہ پر رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے طلب علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”جو شخص طلب علم کیلئے نکلا تو وہ جب تک واپس نہ آجائے اللہ کی راہ میں لڑنے والے مجاہد کی طرح ہے؛ کیونکہ جس طرح مجاہد، اللہ کے دین کو زندہ کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے، اسی طرح طالب علم بھی احیاء دین کے مقصد سے اپنا سب کچھ قربان کرتا ہے؛ لہٰذا فرمان نبوی  صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے مطابق طالب علم گھر واپس آنے تک مجاہد کے مانند ہے، یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ طلب علم کے بعد گھر لوٹنے سے طالب علم کے مرتبہ میں کمی نہیں آتی؛ بلکہ اس کے مقام و مرتبہ میں اضافہ ہوتا ہے؛ کیونکہ حصول علم کے بعد اب وہ عالم دین ہوگیا، اور عالم دین ہونے کی وجہ سے وہ انبیاء کا وارث بن گیا۔ طلب علم کا اس قدر فائدہ ہے کہ رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا

: ”مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ کَانَ کفَّارَةً لِمَا قَضٰی“ ۔ 

یعنی طلب علم کی وجہ سے ماضی میں کئے ہوئے گناہ معاف ہوجاتے ہیں گناہوں سے یا تو صغیرہ گناہ مراد ہیں، یا پھر یہ مطلب ہے کہ طلب علم کے ذریعہ سے توبہ کی توفیق ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں سارے گناہ زائل ہوجاتے ہیں معلوم ہوا کہ طلب علم کے نتیجہ میں جنت کی بشارت بھی ہے، مجاہدوں جیسا ثواب بھی ہے اور ماضی میں کئے ہوئے گناہوں کی بخشش کا پروانہ بھی ہے۔


دین میں حصولِ بصیرت خوش نصیبی کی علامت ھے 

اللہ کے نبی رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ جن کی سچائی اور راست گوئی کی دوست و دشمن ہر شخص نے تصدیق کی اور جن کی ہر بات کے واقع کے مطابق ہونے کا یقین ہر مسلمان کے عقیدہ کا جز ہے، انھوں نے فرمایا:

 ”مَنْ یُرِدِ اللّٰہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِیْ الدِّیْن“. 

اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں، اس کو دین کی بصیرت عطا فرماتے ہیں،

 اس حدیث سے نہ صرف تفقہ فی الدین کی عظمت معلوم ہوئی؛ بلکہ یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہ ایسا کمال ہے جو اللہ تعالیٰ ہر کس و ناکس کو نہیں عطا فرماتے، لہٰذا جس کو دین کی بصیرت حاصل ہوجائے اس کو اپنے آپ کو نہایت خوش نصیب سمجھنا چاہیے اور اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے رہنا چاہیے۔  رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی اس بشارت کی بناء پر پورے اطمینان سے یہ بات کہی جاسکتی ہے، ایسے تو کوئی انسان یہ نہیں بتاسکتا کہ خدا وند قدوس کااس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا، لیکن باعمل فقیہ اس حدیث کے پیش نظر یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا میرے ساتھ خیر کا ارادہ ہے کیونکہ ”تفقہ فی الدین“ عطاء ہونا یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ نے میرے لئے خیر کا ارادہ فرمارکھا ہے؛ لیکن اس بشارت کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی صراحت کے مطابق ”فقیہ“ وہ ہے جو دنیا سے کنارہ کش ہوکر فکر آخرت میں لگا رہتا ہو، ہمیشہ دینی معاملات اس کے مدّنظر رہتے ہوں اور اپنے رب کی اطاعت میں مشغول رہتا ہو۔  جب کوئی اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کرلے اس کے بعد ہی اس کو اپنے آپ کو اس بشارت کا مستحق سمجھنے کا حق ہے۔


علمِ دین خوبیوں میں نکھار پیدا ھونے کا ذریعہ ھے 

کون ایسا انسان ہوگا جس میں کوئی نہ کوئی خوبی اور اچھائی نہ ہو۔ ہر انسان کے اندر کچھ نہ کچھ اچھائیاں ضرور ہوتی ہیں۔ اگرکوئی شخص اپنی خوبیوں میں نکھار پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کو علم دین حاصل کرنا چاہئے۔ علم دین سے خوبیوں میں جلا پیدا ہوتا ہے ایک موقعہ پر رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:

 ”خِیارُہُمْ فِیْ الجاہِلِیّةِ خِیَارُہُمْ فی الاِسْلاَمِ اذَا فَقِہُوْا۔  

یعنی جولوگ حالت کفر میں معزز سمجھے جاتے تھے، اگر وہ چاہتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ میں بھی ان کو عزت و توقیر ملے تو ان کیلئے سب سے مفید نسخہ یہ ہے کہ وہ ”احکام شرعیہ“ کے عالم ہوجائیں، احکام شرعیہ کے علم سے زمانہ جاہلیت کی خوبیوں میں نکھار آجائے گا اوروہ کام کی بن جائیں گی۔ اِس حدیث میں ہر مسلمان کے لئے یہ درس ہے کہ ایک مسلمان کی عزت و عظمت اوراس کی سربلندی کا راز نہ مال و دولت میں ہے نہ حسب و نسب میں؛ بلکہ اس کی خیریت و عافیت اور اس کی ترقی کا انحصار احکام شرعیہ کے علم اوراس کے مطابق عمل کرنے میں ہے۔


حصولِ علم میں اخلاص کی اھمیت 

علم دین حاصل کرنے میں، لوگوں کو اس کے سکھانے میں،اس کے مطابق فیصلہ کرنے میں، غرضیکہ ہر وقت اور ہر قدم پر اخلاص لازمی  ہے، علم دین اخلاص کے بغیر بجائے نفع کے نقصان کا سبب ہے،اگر کوئی طالب علم دکھاوے کیلئے علم کا طالب  بنتا ہے، یا کسی عالم نے دنیا داری کے لئے تعلیم و تعلّم کا پیشہ اختیار کررکھا ہے تو ایسے ریاکار لوگوں کے انجام کے بارے میں رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے بہت پہلے فرمایا ہے ”رجُلٌ تعلَّمَ القرآن وعلَّمَہُ و قرالقُرآنَ فاُتِیَ بہ فعرّفَہُ نِعَمَہُ، فعرفَہَا، قَالَ فَمَا عَلِمْتَ فِیْہَا․ قَالَ تعلَّمتُ العِلْمَ، وعَلَّمْتُہُ وقراتُ القرآن فیک قَالَ کذبْتَ ولٰکِنَّکَ تعلّمتَ العلْمَ لیُقَالَ اِنَّکَ عَالِمٌ وقراتَ القرآنَ لِیُقَالَ اِنک قَارِیٌ، فَقَدْ قِیلَ ثُمَّ اُمِرَ بِہ فسُحّبَ عَلیٰ وَجْہِہ حَتّٰی اُلْقِیَ فِی النَّارِ“۔ 

اللہ تعالی کے دربار میں ایک ایسا شخص لایا جائے گا جس نے دین کا علم حاصل کیاتھا، دوسروں کو اس کی تعلیم بھی دی تھی، قرآن پاک بھی پڑھا تھا، پہلے اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں اپنی عطا کردہ نعمتوں کو یاد دلائے گا، وہ شخص ان نعمتوں کا اعتراف بھی کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائیں گے تم نے ان نعمتوں کے شکرانہ میں میری رضا کے خاطر کون سے کام انجام دئیے، وہ شخص کہے گا میں نے دین کا علم حاصل کیا، دوسروں کو اس کی تعلیم دی اور تیری خوشنودگی کے لئے قرآن پاک پڑھا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تونے جھوٹ کہا، دراصل علم تونے اس غرض سے حاصل کیا تھا، کہ مخلوق کے درمیان تو عالم مشہور ہوجائے اور قرآن پڑھنے کی غرض یہ تھی، کہ لوگ تیرے بارے میں کہیں کہ قاری تو فلاں شخص ہی ہے، تو جو تونے چاہا وہ تجھ کو دنیا میں مل گیا، چہار دانگ عالم میں تمہاری شہرت کے خوب ڈنکے بجے، اب یہاں تم کو کچھ بھی نہیں ملے گا پھر اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں حکم دیں گے، کہ اس کو منھ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں لیجاؤ اوراس کو منھ کے بل جہنم میں ڈال دو، 

یاد رکھنا چاہئے کہ اخلاص سے عاری، ریاکار عالم، قاری، اور عابد وغیرہ کے لئے ایسی ہولناک سزائیں ہیں جن کا اگر دل میں یقین جاگزیں ہوجائے، تو اِن میں سے کوئی ریا کے قریب سے بھی نہ گزرے، ایک موقعہ پر رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا کہ ”جبُّ الحزن“ سے یعنی رنج و غم کے کنویں سے اللہ کی پناہ مانگو، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   ”جب الحزن“ کیا ہے رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا جہنم میں ایک کھائی ہے جس سے خود دوزخ ہر روز چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ  صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اس میں کون ڈالا جائے گا، آپ نے فرمایا: 

القرّاءُ المرأونَ باَعْمَالِہِم“۔ 

وہ قرآن پڑھنے والے جو اپنے عمل میں ریا کاری کرتے ہیں، 

شراح حدیث نے ذکر کیا ہے، اس حکم میں ریاکار عابد، عالم، قاری، سب داخل ہیں۔ یہیں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اخلاص کے فقدان کی وجہ سے قیامت کے دن نیک اعمال بھی وبال بن جائیں گے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں عظیم سے عظیم ترین کام اور بڑی سے بڑی قربانی بغیر اخلاص کے ایسی ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم اور خوشبو کے بغیر پھول ۔ علامہ نووی فرماتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں مجاہدین، علماء اور راہ خدا میں خرچ کرنے والوں کی جو تعریف وارد ہوئی ہے اور ان کے لئے جن بلند درجات کا وعدہ فرمایاگیا ہے، وہ سب اس وقت ہیں جب یہ لوگ اپنی ذمہ داریاں انتہائی اخلاص کے ساتھ انجام دیتے ہوں۔


اخلاصِ نیت کا حاصل اللہ کی رضا ھے 

علماء اور طلباء کے لئے علم کی راہ میں اخلاص کو ضروری قرار دیاگیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ وہ علم کی راہ میں جو بھی کوشش اور محنت کریں وہ صرف اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کریں، حصول علم اور اشاعت علم کا مقصد حصولِ دنیا نہ ہو۔ اگر کوئی حصول دنیا کی غرض سے علم کی راہ میں لگا ہوا ہے، تو اس کے لئے رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی سخت وعیدیں ہیں۔ ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا

: ”مَنْ تعلَّمَ عِلْمًا مِمَّا یُتْبغیٰ بِہ وَجہُ اللّٰہِ لا یتعَلّمہُ اِلاّ لِیُصِیبَ بِہ عرضًا مِنَ الدُّنْیَا لَمْ یجِدْ عَرَفَ الجَنَّةِ یَوْمَ القِیَامَةِ یعْنِی رِیحَہَا“۔ 

 جس شخص نے اللہ کی رضا حاصل کرنے والا علم دنیاوی سازوسامان حاصل کرنے کی غرض سے سیکھا اس کو قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی، 

علم کی غرض کسب دنیا نہ ہونا چاہئے، البتہ اگر اس کے ذریعہ سے بلا طلب دنیا مل رہی ہے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی طرح کسب معاش کیلئے دنیوی علوم سیکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے؛ لیکن جن علوم کے سیکھنے کی شریعت نے اجازت نہیں دی ہے مثلاً کہانت وغیرہ، ان کو کسب معاش کیلئے بھی سیکھنا درست نہیں ہے۔ خلاصہ یہ نکلا کہ علم دین محض اللہ کی رضا کیلئے سیکھنا چاہئے اس میں کسی طرح کی ریاکاری، کوئی دنیوی غرض، اور کسی بھی طرح کا فخر وغرور شامل نہ ہونے دینا چاہئے۔ اوراگر کوئی علم کو اپنی بڑائی اور فوقیت قائم کرنے کیلئے سیکھتا ہے تو یہ بھی سخت جرم ہے۔ رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا

: ”مَنْ طَلَبَ العلْمَ لِیُجاری بِہ العُلَمَاءَ اَوْ لیُمَارِی بِہ السُّفَہَاءَ اَوْ یَصْرِفَ بہ وجُوہَ النَّاسِ اِلَیْہِ ادخَلَہُ اللّٰہُ النّارَ“۔  

جس شخص نے علم اس وجہ سے حاصل کیا کہ اس کے ذریعہ سے علماء دین کا مقابلہ کرے یا بے وقوفوں سے بحث و مباحثہ کرے یا لوگوں کو اپنی شخصیت کی طرف متوجہ کرے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جہنم میں ڈال دیں گے۔


عالم کا عوام الناس سے میل ملاپ 

عالم دین کو اپنا علمی وقار ہر حال میں محفوظ رکھنا چاہئے، کوئی ایسی حرکت جس سے اس کے علم پر داغ آئے یا اس کے علمی وقار کے خلاف ہو، اس کیلئے مناسب نہیں۔ عالم کے لئے  عوام الناس سے بے مقصد روابط رکھنا ٹھیک نہیں ہے اور عالم کے پیش نظر ہمیشہ  رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا یہ فرمان رہنا چاہئے

 ”نِعْمَ الرجُلُ الفَقِیْہُ فِی الدِّین اِنْ احتیجَ الیہ نَفَعَ وان استُغْنِیَ عَنْہُ اَغْنٰی نَفْسَہُ“ ۔ 

کیا ہی بہتر ہے دین میں بصیرت رکھنے والا وہ شخص کہ جس کے پاس اگر کوئی ضرورت لائی جائے تواس کو پورا کرتا ہے اوراگراس سے بے پرواہی برتی جائے تو وہ بے نیاز ہوجاتا ہے۔

اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ اولاً تو عالم کا عوام الناس سے بے سود میل ملاپ رکھنا ٹھیک نہیں ہے اور ان کے ساتھ ہمہ وقت لگے رہنا فضول ہے البتہ اگر کوئی اپنی کسی دینی ضرورت سے اس کے پاس آئے تو اس کے پورا کرنے میں دریغ نہ کرنا چاہئے اور حتی المقدور اس کی رہنمائی کرنی چاہئے، اسی کے ساتھ اس کی بھی تاکید کرو کہ اگر دنیا والے عالم سے کنارہ کشی اختیار کریں تو محض ان کے مال و جاہ سے متأثر ہوکر ان کے پاس حاضری نہ دے، بلکہ ان سے کنارہ کش ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادت و ریاضت نیز درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں اپنا بیشتر وقت گزارے۔


دعوتِ دین عالم  کا فرضِ منصبی ھے 

عالم دین کا فرض منصبی ہے کہ وہ لوگوں کو دین کی دعوت دے، کیونکہ علماء انبیاء کے وارث ہیں اورانبیاء کرام کا اصل مشن بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھی راہ دکھانا تھا۔ لہٰذا علماء کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے غافل لوگوں کے دلوں میں اس کی یاد پیدا کرنے کی کوشش کریں، اسلام کی اشاعت اور دین کی تبلیغ کیلئے بھرپور جدوجہد کریں، اگر کوئی عالم اپنے اس فریضہ کو فراموش کربیٹھا ہے، یا اس سے غفلت برت رہا ہے تو اس کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنے طرف سے دین کو ڈھارہا ہے۔ حضرت زیاد ابن جدیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کو ڈھانے والی کیا چیز ہے؟ میں نے کہا نہیں، تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ”یَہْدمُہُ زلة العَالِمِ“۔  عالم کا پھسلنا اسلام کو ڈھادیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عالم اگر اپنے فرائض سے غافل ہوکر، خواہش نفس پر عمل کرنے لگے تو اس کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی احکامِ اسلام پر عمل ترک کردیں گے، نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام کی بنیادیں ہل جائیں گی اور اسلام منہدم ہوجائے گا جس کی زمہ داری اس عالم پر عائد ھو گی


 تعلیم و تعلم، عالمِ دین کی ذمہ داری 

جو شخص دین کا عالم ہے اس کو چاہئے کہ وہ دوسروں کو سکھائے، اگر لوگ اس سے فیض نہیں حاصل کرپارہے ہیں، تو صاحب علم کو سمجھنا چاہئے کہ اس کا علم نفع بخش نہیں ہے، اگر کسی عالم سے کوئی دینی بات پوچھی گئی اور اس نے جاننے کے باوجود لوگوں کو مطلع نہیں کیا تو ایسے شخص کے بارے میں  رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا فرمان ہے کہ 

مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَہُ، ثُمَّ کَتَمَہُ اُلْجِمَ یَوْمَ القِیَامَةِ بِلِجَامٍ مِن النَّارِ“۔ 

جس شخص سے علم دین کی کوئی بات پوچھی گئی اور اس نے جاننے کے باوجود چھپایا تو ایسے شخص کو قیامت کے دن آگ کی لگام ڈالی جائے گی، 

قیامت کے دن اس کو اتنی سخت سزا اس وجہ سے دی جائے گی کہ اس نے علم کے مقصد نشرواشاعت کو زائل کردیا، اس نے معلوم شدہ بات میں سکوت اختیار کرکے دنیا میں اپنے منھ میں لگام ڈالی لہٰذا آخرت میں آگ کی لگام اس کے منھ میں ڈالی جائے گی، اسی وجہ سے ہر عام کو خوب متنبہ رہنا چاہئے، جو شخص بھی اس سے دین کی کوئی ضروری بات پوچھے تو اگر صحیح طور پر جانتا ہے تو اس کو بتانے سے ہرگز ہرگز دریغ نہ کرے؛ تاکہ اس وعید کا مستحق نہ بنے۔


ناقدروں کو علم سکھانے میں احتیاط ضروری ھے

عالم دین کو خود علم کی وقعت اور عزت کرنا چاہئے علم کو سونے، چاندی اور ہیرے جواہرات سے بھی بہتر سمجھنا چاہئے جس طرح ایک دنیا دار آدمی کبھی کتے اور خنزیر کی گردن میں ہیرے جواہرات کے زیور نہیں ڈالتا ہے؛ اسی طرح علماء دین کو بھی چاہئے کہ ناقدروں کو علم نہ سکھائیں، مسئلہ بتادینا یہ دوسری بات ہے؛ لیکن علم سکھانا اور علمی نکات بتانا یہ دوسری چیز ہے، مسئلہ تو جوبھی دریافت کرنے آئے اس کو اس کے فہم کے اعتبار سے بتادینا بہتر ہے؛ لیکن جہاں تک علم دین سکھانے کا تعلق ہے؛ تو وہ صرف قدردانوں تک ہی محدود رکھنا چاہئے۔ اسی طرح کسی شخص کی صلاحیت سے بڑھ کر، اس کو علم سکھانا بھی علم پر ظلم کرنا ہے؛ جو شخص معمولی باتیں نہ سمجھتا ہو اس کے سامنے تصوف کی باریکیاں بیان کرنا؛ یہ علم کے ساتھ مذاق کرنا ہے۔  رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا: ”واضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غیر اَہْلِہ کمُقَلِّدِ الحَنَازِیْرِ الجوہَر والّلوْلُو والذہَب“

 نااہلوں کو علم سکھانے سے اس لئے منع فرمایا کہ وہ علمی باریکیوں کو سمجھ نہیں سکیں گے، اور بغیر سمجھے عمل شروع کرنے کے نتیجے میں شیطان کے دام میں پھنس کر گمراہ ہوجائیں گے۔ لہٰذا علماء دین کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ علم دین سکھاتے وقت طلباء و عوام کی صلاحیتوں کا خاص خیال رکھ کر ان کو مستفید کریں۔


علماء کرام کا  اشاعتِ حدیث پر توجہ دینا ضروری ھے 

 رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے فرامین کو یاد کرنا اور ان کو لوگوں تک پہنچانا بہت بڑی سعادت کی بات ہے اس امت کے سینکڑوں  ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں نے اس سعادت کا اپنے آپ کو مستحق بنایا ہے اور ساری زندگی اللہ کے نبی رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے فرامین کی خدمت میں گزار دی یہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: 

نَضَّر اللّٰہُ اِمْراءً سَمِعَ مِنَّا شَیْئًا فبَلَّغَہُ کَمَا سَمِعَہُ“۔ 

اللہ تعالیٰ اس شخص کو ترو تازہ رکھے جس نے مجھ سے کچھ سنا پھر جس طرح سے اس نے سنا تھا اسی طرح دوسرے تک پہنچادیا۔ 

اللہ کے نبی رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنے فرامین کی اشاعت کرنے والے کیلئے یہ دعا  کی ہے ۔ بعض محققین فرماتے ہیں کہ  رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی یہ دعا فوراً قبول ہوگئی، یہی وجہ ہے کہ حدیث کی خدمت کرنے والوں کے چہروں پر نورانیت رہتی ہے۔ ایک موقعہ پر رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا: 

مَنْ حَفِظَ عَلیٰ اُمَّتِی اَرْبَعِیْنَ حَدِیْثًا فِیْ اَمْرِ دِیْنِہَا بَعَثَہُ اللّٰہُ فَقِیْہًا وکنْتُ لَہُ یَوْمَ القِیَامَةِ شَافعًا وشہیدًا“ 

جس شخص نے میری امت کے نفع کے لئے دینی امور سے متعلق چالیس حدیثیں یاد کرلیں تو اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کو فقیہ بناکر اٹھائیں گے اور میں اس کی شفاعت کرنے والا اور اس کی نیکیوں پر گواہی دینے والا ہوں گا۔ 

حفظ حدیث اور نشر حدیث کرنے والے کیلئے  رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے خود شفارش کی ذمہ داری لی ہے اور اس بات کی بشارت دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو فقیہ بناکر اٹھائیں گے ان تمام بشارتوں کے باوجود اہل علم کا ایک بہت بڑا طبقہ علم حدیث سے تغافل برت رہا ہے۔ اس طبقہ نے صرف حدیث کا پڑھ لینا ہی کافی سمجھ لیا ہے۔ حدیث کے یاد کرنے اوراس کے پھیلانے کی طرف کوئی قابل ذکر توجہ نہیں ہے۔ اگرکسی شخص کی یہ خواہش ہے کہ قیامت کے روز اس کا شمار فقیہوں میں ہو تو اس کو اولین فرصت میں کم از کم چالیس اَحادیث یاد کرکے لوگوں تک پہنچانے کی تگ و دو کرنا چاہئے، لیکن اس کے ساتھ حدیث کے انتخاب اور اس کے یاد کرکے روایت کرنے میں پوری احتیاط برتنا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ موضوع روایات یا منسوخ و متروک روایات یاد کرکے اس کو نشر کردے اور بجائے فائدہ کے نقصان اٹھانا پڑجائے اس سلسلہ میں حد درجہ احتیاط لازم ہے اسی وجہ سے رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا: 

اتَّقو الحَدِیْثَ اِلاَّ مَا علِمْتُمْ فَمن کذبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّار“ 

رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا مجھ سے حدیث روایت کرنے سے بچو۔ صرف وہی حدیث نقل کرو جس کے بارے میں تم کو یقین ہو کہ یہ میری حدیث ہے جس شخص نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا تو اس کو اپنا ٹھکانا دوزخ میں ڈھونڈھنا چاہئے۔“ لہٰذا احادیث یاد کرنے اور ان کو نقل کرنے میں یا تو کسی حدیث کی معتبر کتاب کا انتخاب کرنا چاہئے یا پھر کسی ماہر عالم کی طرف رجوع کریں۔ اور عام علماء کو اگر کسی چیز میں تشویش ہو تو وہ راسخ فی الدین اور جید الاستعداد عالم سے اپنا مسئلہ دریافت کریں اپنی طرف سے کوئی بات نہ کہہ دینا چاہئے۔  رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:

 ”فَمَا عَلِمْتُمْ مِنہ فقُوْلوا وَمَا جعَلْتُم فکلوہُ اِلیٰ عالِمِہ “۔

 تم لوگ وہی بات کہو جو علماء کے ذریعہ سے تمہارے علم میں ہے اور جس بات سے تم ناواقف ہو اس کو علم رکھنے والوں کے سپرد کردو 

اپنی طرف سے دین میں دخل اندازی اور اپنے نفس سے حدیث کے بارے میں موشگافی نہ کرنا چاہئے۔



علماء کا مالداروں سے دنیاوی اغراض کے لئے ملنا جُلنا 

عالم کو رزقِ حلال کے لئے کسب معاش تو ضرور کرنا چاہئے لیکن جس طرح ایک دنیادار اپنے اوپر دنیا کو ھی طاری کرلیتا ہے اور ہمہ وقت دنیا داری میں مصروف رہتا ہے اور ہر کام میں اس کے پیش نظر یہ بات رہتی ہے کہ جس میں چار پیسہ کا نفع ہو وہ کام کرو۔ اگر عالم بھی اسی دنیا کے پیچھے بھاگے تو یہ چیز اس کے منصب جلیل سے میل نہیں کھاتی ہے، اپنی دنیا بنانے اور دنیوی اشیاء کے حصول کیلئے مالداروں کی طرف رخ کرنا یہ اپنی مٹی خود پلید کرنا ہے اور آج جو علماء کی ذلت و رسوائی کی بنیادی وجوہات ہیں ان میں ایک بہت بڑی وجہ علماء کا مالداروں سے دنیاوی اغراض کی بناء پر رابطہ رکھنا بھی ہے، اللہ کے نبی رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بہت پہلے فرمایا تھا علماء اگر علم کی حفاظت کرتے اور جو شخص اس کا اہل ہوتا اس کو علم سکھاتے تو وہ علم کی وجہ سے اپنے زمانہ کے سردار بنے رہتے، لیکن انھوں نے جب علم کو اہل دنیاء پر صرف کیا اور مقصد یہ بنایا کہ انکی دنیا میں سے کچھ حاصل کرلیں تو وہ دنیا والوں کی نظر میں بے وقعت ہوگئے آگے آپ نے فرمایا:

 ”مَنْ جَعَلَ الہُمُوْمَ ہَمًّا واحِدًا ہَمَّ آخِرَتِہ کفاہُ اللّٰہُ ہَمَّ دُنیَاہُ وَمَنْ تَشَبَّعَتْ بہ الہُمومُ اَحْوَالَ الدنْیَا لم یُبَالِ اللّٰہُ فیْ اَیْ اَودِیتِہَا“

جس شخص نے تمام فکروں کو چھوڑ کر آخرت کی فکر کی تو اللہ تعالیٰ اس کی دنیاوی تمام فکروں کیلئے کافی ہوجاتا ہے اور جو شخص دنیاوی حالات کی فکر میں گھرا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ وہ دنیا کے کسی بھی جنگل میں ہلاک ہوجائے۔ 

معلوم ہوا کہ جو عالم رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق زندگی گزارے گا وہ سرداروں کی طرح دنیا میں رہے گا اگر  رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے بتائے ہوئے طریقہ سے انحراف کرکے زندگی گزارے گا تو وہ ذلیل ہوجائے گا۔ ایسے عالم کی نہ تو اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی قدر ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو ذرّہ برابر اس کی فکر ہے۔ آج بھی اگر صاحبان علم دنیاداروں کے چکر لگانا بند کرکے صرف اللہ سے لو لگالیں اور فقط فکر آخرت ان کے پیش نظر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ آج بھی ان کی ساری پریشانیوں کیلئے کافی ہوجائیں گے اور یہ حضرات سراٹھاکر جینے والے بن جائیں گے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو علماء میں شمار ہوتے ہیں، لیکن وہ دنیاداروں کے ساتھ کثرت سے اختلاط رکھتے ہیں جسکے نتیجہ میں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ دنیا ان پر حاوی ہوجاتی ہے اور ان کا علم غیرمحسوس طریقہ سے رخصت ہوجاتا ہے اور وہ یہی سمجھا کرتے ہیں کہ دنیا والوں کے پاس ہمارے آنے جانے سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔  رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ایسے لوگوں کے وجود کی پیشین گوئی فرمائی تھی۔  رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا میری امت میں سے کتنے ہی لوگ دین میں سمجھ حاصل کریں گے وہ قرآن پڑھنے کے ساتھ دنیا داروں کے پاس آمد و رفت بھی رکھیں گے، اور لوگوں سے یہ کہیں گے ان حکمرانوں اور مالداروں کے پاس جانے کی وجہ سے ہمارے علم میں کوئی کمی نہیں آتی ہے اور نہ ہمارے دین پر کوئی آنچ آتی ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہوسکے گا۔ دنیا داروں کا اثر ان پر ضرور پڑیگا۔ پھر  رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا

: ”کَمَا لاَ یُجْتنٰی مَنِ القَتَاد الاَّ الشّوکُ کذالِک لا یُجتنٰی مِنْ قُربِہِمْ“ ۔ 

جیسا کہ خاردار درخت سے کانٹے کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا، اسی طرح دنیاداروں کے قرب سے بھی سوائے گناہوں کے کچھ نہیں حاصل ہوگا۔ 

رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے گناہوں کی صراحت نہیں فرمائی ہے، لیکن محدثین نے اس کی تعیین فرمائی ہے لہٰذا عالم کو اپنے مرتبہ کے بقاء اور اپنے دین کی حفاظت کی خاطر مالداروں کے دنیاوی غرض کے لئے چکر نہیں کاٹنا چاہئے۔


عالمِ دین کا اخلاقِ حسنہ سے متصف ھونا لازمی ھے 

عالم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اچھے اخلاق کا حامل ہو درشت اور کھردری طبیعت کا عالم بے فیض ہوکر رہ جاتا ہے، بے نیازی الگ چیز ہے، حسن اخلاق و نرم خوئی دوسری چیز ہے، دونوں خصلتوں کا کسی شخص میں ہونا بھی ممکنات میں سے ہے اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو مخاطب کرکے فرمایا

: ”فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہم ولو کُنْتَ فضًّا غَلِیْظَ القَلْبِ لانْفَضّوا مِنْ حَوْلِک“۔  

اس آیت مبارکہ سے ضمناً یہ بات معلوم ہوئی کہ عالم دین اگر اخلاقِ حسنہ سے متصف نہیں ہے تو لوگ اسکی سخت مزاجی اور خشونت سے تنگ آکر اس کے پاس آمد و رفت بند کردیں گے اور اس سے لوگوں کا فائدہ پہنچنے کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔ رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ایک موقعہ پر فرمایا

 ”خصْلَتَانِ لا تَجْتمِعَانِ فِی مُنَافِقٍ حُسْنُ سَمْتٍ ولا فِقْہٌ فِی الدِّینِ“ ۔

 منافق میں دو خصلتیں جمع نہیں ہوتیں: (۱) اچھے اخلاق، (۲) دین میں سمجھ۔ منافق میں یہ دونوں خوبیاں جمع نہیں ہوتیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کیلئے عموماً ان دونوں خصلتوں کا اپنے اندر جمع کرنا ضروری ہے اور عالم دین جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک صفت تفقہ فی الدین عطا فرمادی ہے اس کیلئے تو خاص طور پر ضروری ہے کہ وہ دوسری صفت، یعنی اخلاق حسنہ کو بھی اپنے اندر جمع کرے تاکہ وہ سچا پکا مسلمان بن جائے اور عملی منافق ہونے کے امکان سے نکل جائے۔


عالم  کا تقویٰ والی  زندگی  گزارنا لازمی  ہے

عالم دین کی ذرا ذرا سی عبادت کی اللہ تعالیٰ کے یہاں بہت قدر ہے؛ لہٰذا عالم کو عبادت سے غفلت نہ برتنا چاہئے؛ بلکہ جو بھی فرائض وواجبات ہیں ان کی ادائیگی میں رتّی برابر کوتاہی اپنے لئے حرام سمجھنا چاہئے۔ ہر وقت یہ خیال رہے کہ اس کا عمل خلاف تقوی نہ ہونے پائے رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا :

 فَضْلٌ فِی علْمٍ خیر مِنْ فَضْلٍ فِی عبادةٍ وملاک الدِّین الورع“ 

 علم میں زیادتی عبادت میں زیادتی سے بہتر ہے اور دین کی جڑ پرہیز گاری اختیار کرنا ہے ۔ 

مطلب یہ ہے کہ عالم کو علوم دینیہ کی تحصیل اوراس کے نشرواشاعت میں زیادہ وقت صرف کرنا چاہئے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے ”تقویٰ اختیار کرنا دین کی جڑ ہے“ اگر جڑ میں کسی قسم کی خرابی آئی تو درخت سوکھ جاتا ہے اسی طرح عالم اگر تقویٰ کے مطابق زندگی نہیں گزارتا ہے تواس کے تمام اعمال بے جان نظر آتے ہیں جو عالم اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا ہے اس کیلئے بہت سخت وعیدیں آئی ہیں۔ ایک موقعہ پر  رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:

 ”ان من شر الناسِ عند اللّٰہِ منزلَہً یَوْمَ القیامة عالِمٌ لا یَنتفعُ بعلْمہ “۔  

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین شخص وہ عالم ہے جس نے اپنے علم سے فائدہ حاصل نہیں کیا۔ 

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے علم حاصل کیا لیکن اس کے مطابق عمل نہیں کیا تو ایسا عالم اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت برا ہے اور یہ عالم جاہل سے بھی بدتر ہے اس کو جاہل سے زیادہ سخت عذاب کا سامنا ہوگا۔ رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ارشاد ہے : جاہل کے لئے ایک مرتبہ ”ویل ہے“ اور عالم کیلئے ۷ مرتبہ ”ویل ہے“۔  ایک موقعہ پر رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: 

ان شرَّ الشرِّ شرار العلماء وان خیر الخیر خیار العلماء“۔  

بُروں میں سب سے بُرے علماء ہیں اور بھلوں میں سب سے بھلے علماء ہیں۔ 

جس طرح اچھے علماء کی وجہ سے دوسرے بہت سے لوگ سدھرتے ہیں اسی طرح برے علماء کی وجہ سے بہت سے بگڑتے ہیں ۔ لہٰذا جو علماء لوگوں کے خراب ہونے کا سبب بنیں گے وہ مبغوض ترین لوگ ہوں گے۔ اسی وجہ سے ہر صاحب علم کو اپنے علم پر عمل کرنے میں ذرّہ برابر غفلت نہ برتنا چاہئے۔ اور ہر کام تقوی کے مطابق کرنا چاہئے۔


حکمت کے ساتھ وعظ و نصیحت کرنا علماء کی ذمہ داری ھے 

علماء کرام کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ مناسب اوقات میں لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے رہا کریں لوگوں کو دینی باتیں بتائیں برائیوں سے اجتناب کرنے کا داعیہ پیدا کریں اور وعظ و نصیحت کرنے میں سامعین کی رعایت رکھیں، طویل ترین اور بے مصرف کی موشگافیوں سے اجتناب کریں، وعظ و نصیحت کا مقصد امت کو مستفید کرنا ہو اپنی لچھے دار تقریر کے ذریعہ لوگوں پر اپنے فضل و کمال کی دھاگ بٹھاکر دادِ تحسین حاصل کرنا مقصود نہ ہو، رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ایک بہت بڑے فقیہ صحابی ”عبداللہ ابن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ “ ہر ہفتہ وعظ و نصیحت فرماتے تھے، ایک شخص نے ان سے درخواست کی کہ آپ ہر روز ہم کو نصیحت فرمایا کریں تو صحابی رسول  صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ”عبداللہ ابن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ “ نے جواب دیا ”امَّا اَنَّہُ یمنَعْنِیْ مِن ذلک انی اکرہُ ان اُمِلَّکُمْ وانی اَتَخوَّلَکم بالموعِظَةِ کما کانَ رسولُ اللّہِ صلی اللّہ علیہ وسلَّمَ یَتخولنا بِہَا مُخافةَ السآمةَ عَلَیْنَا“۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس سلسلہ میں جو چیزیں میرے لئے مانع ہیں وہ یہ ہیں کہ ہر روز کے بیان سے تم لوگوں کو تنگی اور اکتاہٹ میں ڈالنا مجھے پسند نہیں ہے، میں نصیحت کے ذریعہ تمہاری اس طرح حفاظت کرتا ہوں جس طرح رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ تنگی و اکتاہٹ کے خدشہ کا خیال رکھتے ہوئے ہماری حفاظت فرماتے تھے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ”عبداللہ ابن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ“ سے روزانہ تقریر کیلئے کہاگیا لیکن انھوں نے منع فرمادیا اور یہ بتادیا کہ حضرات صحابہ میں حضور آکرم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بات سننے کا بہت شوق و جذبہ تھا، لیکن اس کے باوجود  رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے تعلیم و تذکیر، وعظ و نصیحت میں حضرات صحابہ کے نشاط و فراغت کا پورا خیال رکھا، حضرت عبداللہ ابن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے معمول اور ان کی نصیحت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ علماء کیلئے وعظ و نصیحت کرنا اوراس کو ایک دائرہ میں رکھنا لازمی و لابدی شے ہے۔ وعظ کرنے والوں کو حضرت عبداللہ ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی ان نصیحتوں کو بھی ذہن میں تازہ رکھنا چاہئے جو انھوں نے ایک موقعہ پر واعظین کو کی ہیں: ایک نصیحت تو یہ ہے کہ ہفتہ میں ایک یا دو اور زیادہ سے زیادہ تین بار تقریر کرنا چاہئے اس سے زیادہ مرتبہ تقریر کرنا سامعین کو اکتانے والا فعل ثابت ہوگا، دوسری نصیحت یہ ہے کہ جب لوگ اپنی بات ختم کرچکیں، تو تقریر شروع کرنا چاہئے لوگوں کے گفتگو کے دوران تقریر کرنا اپنی بات کو بے اثر بنانا اور سامعین کو اذیت پہنچانا ہے۔ تیسری نصیحت یہ ہے کہ دعاء میں قافیہ بند الفاظ کا بہ تکلف استعمال کرنا ٹھیک نہیں ہے اس سے گریز کرنا چاہئے


علمی واصلاحی مجالس کا انعقاد کرنا

علماء کا ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ وقتاً فوقتاً  علمی اور اصلاحی مجالس کا اھتمام کریں اس میں لوگ اپنے پیش آمدہ مسائل پر علماء سے تبادلہٴ خیال کریں، ایسی مجلسیں بہت خیر کی ہوتی ہیں اوران مجلسوں میں شرکت بہت سعادت کی چیز ہے۔ ایک دن آقا صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں دو مجلسوں پر گزرے، تو فرمایا کہ یہ دونوں مجلسیں بھلائی پر ہیں، لیکن ان میں سے ایک مجلس نیکی و سعادت میں دوسری مجلس سے افضل ہے، ان میں سے ایک مجلس کے لوگ دعا و عبادت میں لگے ہوئے تھے اور دوسری مجلس کے لوگ علمی باتوں میں مشغول تھے، ایک دوسرے سے دینی باتیں دریافت کرکے سیکھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دوسری مجلس کو افضل قرار دیا، اور اس مجلس کے لوگوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: 

امَّا ہٰوٴلاءِ فیتعَلَّمونَ الفقہَ اوالعلْمَ ویعلِّمونَ الجاہِلَ فہُمْ اَفْضَلُ وانَّمَا بعِثْتُ معلِّمًا ثُمَّ جَلَسَ فیہِمْ“۔  

اس مجلس کے لوگ فقہ سیکھ رہے ہیں یا یہ فرمایا کہ علم سیکھ رہے ہیں اورجاہلوں کو تعلیم دے رہے ہیں پس یہ لوگ ان لوگوں سے افضل ہیں اور یہ سچائی ہے کہ میں معلّم ہی بناکر بھیجا گیاہوں اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انھیں لوگوں کی مجلس میں بیٹھ گئے، 

تعلیمی مجلس کی فضیلت کیلئے اس سے بڑی اور کون سی بات ہوگی کہ اس مجلس میں خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس شریک ہوئے ہیں؛ لہٰذا علماء کرام کو اس ترک شدہ سنت کو زندہ کرنے کی فکر کرنا چاہئے اور ایسی مجلسوں کے قیام کے لئے فضا سازگار بنانا چاہئے۔


فتویٰ دینے میں میں احتیاط برتنا 

فتویٰ دینا بھی ایسے علماء جو مفتی بھی ھوں  کی ذمہ داری ہے؛ لیکن فتویٰ دینے میں عجلت سے کام نہ لینا چاہئے، جلدبازی میں فتویٰ دینے کی وجہ سے فتویٰ میں غلطی کا قوی امکان ہے، اگر کسی سے فتویٰ میں غلطی واقع ہوئی، تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہوگا۔ رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ارشاد ہے: 

مَنْ أُفْتِیَ بغیر علْمٍ کانَ اثمہُ عَلیٰ مَنْ اَفْتَاہُ ۔ 

جس شخص کو غلط فتویٰ دیاگیا ہوگا تو اس کا گناہ غلط فتویٰ دینے والے کو ملے گا،  

رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے اس فرمان کا حاصل یہ ہے کہ علماء کرام کو فتویٰ دیتے وقت اپنی پوری محنت صرف کرکے پوچھے گئے مسئلہ کا شرعی حل بتانا چاہئے، اگر اپنی مقدور بھر کوشش کرنے کے بعد بھی اُس سے کوئی غلطی ہوئی ھو تو پھر اس پر مواخذہ نہیں ہوگا۔


مصادر و مراجع کے معتبر ہونے کی تحقیق کرنا 

علماء و طلباء کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ جن کتابوں اور مصادر و مراجع سے علم حاصل کررہے ہیں ان کے معتبر ہونے کی تحقیق ضرور کرلیں، اس طرح جن اساتذہ سے علم حاصل کرنا ہے حصول علم سے پہلے مثبت انداز میں ان اساتذہ کے اخلاق و کردار سے متعلق معلومات حاصل کرلینا بہت بہترہے، اگر کسی کی سرکشی اور دین بے زاری معروف و مشہور ہے، تواس سے قطعی علم حاصل نہ کرنا چاہئے، حضرت ابن سیرین رحمہ اللہ کا قول ہے: ”انّ ہذا العلم دِینٌ فانظُرْوا عمّنْ تاخذونَ دینکُمْ“(۴۱) یقینا یہ علم دین ہے، لہٰذا جس سے حاصل کررہے ہو اس کو خوب دیکھ بھال لو۔


عدمِ علم کا اظہار کرنے میں  شرم نہ کرنا چاھیے

کسی عالم سے کوئی بات دریافت کی گئی اوراس کو وہ بات معلوم نہیں ہے یا اُس وقت دناغ میں نہیں آ رھی تو غلط سلط جواب دینے کے بجائے ”اللہ اعلم“ اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جاننے والا ہے، کہنا چاہئے۔ رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ارشاد ہے:

 ”مَنْ عَلِمَ شَیئًا فَلْیَقُلْ بِہ ومن لَمْ یعلم فَلْیقُلْ“، ”اللہ اَعْلَمُ“ فَاِن الْعِلمَ ان تَقُولَ لِما لاَ تَعْلَمُ اللّٰہُ اعْلَمُ“۔ 

جو شخص کسی چیز کے بارے میں جانتا ہے تو اس کو بیان کرنا چاہئے اور جس چیز کا اس کو علم نہیں ہے تو اس کے متعلق کہنا چاہئے کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتے ہیں کیونکہ جس کے بارے میں علم نہ ہو اس کے متعلق یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ زیادہ جاننے والا ہے یہ بھی علم کی ایک قسم ہے، 

کیونکہ جب انسان اللہ اعلم کہیں گے تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی ہے کہ اس کے اندر معلوم اور غیر معلوم کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت ہے اور یہ صلاحیت بھی علم کی ایک قسم ہے۔


علم کی آفتِ نسیان سے حفاظت کرنا

حصول علم کے ساتھ اس کی حفاظت بھی عالم ہی کی ذمہ داری ہے عالم کیلئے ضروری ہے کہ علم کی نگہداشت رکھے تاکہ نسیان کی مصیبت سے محفوظ رہے۔ رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا :

 ”آفَةُ العلم النسیانُ“

علم کی آفت نسیان ہے 

یعنی حصول علم کے بعد اس کا بھولنا آفت ہے۔ حصول علم سے پہلے تو بے شمار آفات علم کی راہ میں حائل رہتی ہیں اسی وجہ سے  رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا :

 لِکل شیٴ آفة وللعلم آفات“

 ہر چیز کیلئے ایک آفت ھوتی  ہے اور علم کے لئے بہت سی آفتیں ہیں،

 لیکن یہ سب آفتیں حصول علم سے پہلے کی ہیں حصول علم کے بعد صرف ایک آفت نسیان ہے اس سے عالم کو بہت محتاط رہنا چاہئے۔ ”ابن حجر“ اس حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ انسان کو نسیان کے اسباب سے اجتناب کرنا چاہئے اور یہی وہ بات ہے جس کو امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اپنے اشعار  میں بیان کیا ہے۔ کہ میں  نے اپنے استاذ وکیع رحمہ اللہ سے اپنے حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی تو انھوں نے مجھے ترک معاصی کی نصیحت کی ”فرمایا“ علم درحقیقت اللہ کا نور ہے اور یہ نور کسی گناہ گار کو عطا نہیں ہوتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ  سے جب مرض نسیان کا علاج دریافت کیاگیا تو آپ نے دریافت فرمایا جب کتب بینی زیادہ ہوگی مطالعہ کا کثرت سے اہتمام ہوگا تو نسیان کا مرض طاری نہیں ہوگا اور قوت حافظہ میں نمایاں اضافہ ہوگا۔


علم میں استقامت اختیار کرنا

حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان صحابہ کو جو اسلام کے آغاز میں مشرف باسلام ہوگئے تھے، نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: استقیموا فَقَدْ سبقتم سَبْقًا بعیدًا وان اخذتم یمینا و شمَالاً لقد ضَلَلْتم ضلالاً بعیدًا“ تم لوگ استقامت اختیار کرو درحقیقت تم نے سبقت حاصل کرلی بہت دور کی سبقت اگر تم دائیں بائیں لڑوگے تو بہت دور کی گمراہی میں جاپڑوگے۔ حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ وصیت ان صحابہ کو کی تھی جن کے پاس شروع دور میں ایمان لانے کا اعزاز تھا، لیکن یہ نصیحت انھیں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص کیلئے ہے جس کو کوئی بھی دینی اعزاز میسر آگیا ہو اس دور میں سب سے بڑا اعزاز اللہ تعالیٰ کی جانب سے دین کی فہم عطا ہونا ہے۔ لہٰذا ہر دین کے طالب علم اور دین سے وابستہ انسان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کو ایک بہت بڑا اعزاز مل گیا ہے اس کی حفاظت کی صورت یہی ہے کہ پوری توجہ ، کوشش و محنت کے ساتھ اس پر استقامت اختیار کی جائے۔

علیٰ کلِّ شئی اس تمام بحث  کا خلاصہ یہ ھے کہ رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے جو چند ارشادات یہاں پیش کئے گئے ہیں ان سے یہ بات معلوم ہوتی ھے  کہ علم بہت اہم اور نہایت عالی چیز ہے اور جو لوگ علم دین میں لگتے ہیں اس کو حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرتے ہیں اس کی نشرواشاعت میں محنت و مشقت برداشت کرتے ہیں ان کیلئے دنیا میں سربلندی و سرداری ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی بہت معزز اور اعلیٰ مقام ہے لیکن ان کی عزت و تکریم اور ان کا مقام و مرتبہ جب ہی ہے جب وہ علم کے ساتھ علم کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے کی پوری کوشش کریں بصورت دیگر 

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم 

نہ ادھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے 

والی بات ھو جائے گی ۔ 

یہ بات بھی ذھن میں رھے کہ ان تمام فضائل جن کا ذکر اوہر ھوا  ان سے مراد صرف علماءِ حق ھیں ۔ علماءِ سوء اس میں سرے سے شامل ھی نہیں ھیں بلکہ یہ تو علماء کی فہرست سے ھی خارج ایک گمراہ طبقہ ھے جو ھمارے معاشرے کے لئے ایک بدنما سیاہ دھبہ ھے ۔ ان کا مطمع نظر صرف دنیا کے فوائد سمیٹنا اور اپنی مشہوری کرنا  ھے ۔ اُن کا علم اُن کے لئے محض حجتِ تام ھے ۔ علمِ نافع اور دین سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ۔ ھاں اگر اللہ پاک کسی کوھدایت عطا فرما دیں اور وہ پکی سچی توبہ کرکے تقوی والی زندگی آختیار کر لے تو یہ اور بات ھے ۔

اللہ پاک ھر مسلمان کو عمل کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین


Share: