وطنِ عزیز میں الیکشن کا وقت بالکل قریب آ چکا ھے ۔ اُمیدوار دن رات انتخابی مہم میں مصروف ھیں ۔ عوام کو طرح طرح کے سہانے خواب دکھائے جارھے ھیں۔ عوام کی ھمدردیاں سمیٹنے کی بھرپور کوشش کی جارھی ھے لیکن بدقسمتی سے یہ بھی ایک تلخ حقیقت ھے کہ 8 فروری کے بعد عوام کے یہ ھمدرد نمائندے اپنی مصروفیات کی وجہ سے اگلے الیکشن تک عوام کے لئے دستیاب نہیں ھوں گے ۔
جہاں تک دینِ اسلام کا اس بارے میں تعلق ھے ۔ باہمی مشاورت سے حکومت کا قیام اور امورِ مملکت کو انجام دینا اسلام کا طرّہ امتیاز رہا ہے۔ اس اعتبار سے رائے دہندگان کے لیے ضروری ہے کہ باصلاحیت، قوم و ملت کے ہمدرد، دین ، اخلاق و کردار کے حوالے سے اچھی شہرت کے حامل اور فرض شناس کے حق میں ووٹ دیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّواْ الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں. - النساء
جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ مشورہ دینے کے بارے میں امین ہے اور امانت کا تقاضہ یہ ہے کہ صحیح اور درست مشورہ دیا جائے۔ کسی ذاتی لالچ یا خود غرضی کے بدلے ظالم و جابر کو اختیار سونپنے کا مشورہ (ووٹ) دینا دنیا و آخرت میں خسارے کا سودا ہے
ووٹ کی ایک حیثیت شہادت کی ہے۔ ووٹ شہادت خیال کرتے ہوئے ووٹر جس امیدوار کے حق میں ووٹ ڈال رہا ہے اس کے حق میں گویا یہ گواہی دے رہا ہے کہ یہ امیدوار میرے علم کے مطابق اقتدار و اختیار کا دیگر امیدواروں کی نسبت زیادہ مستحق ہے۔
قرآن کریم نے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے اسی طرح سچی شہادت کو واجب اور لازم فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللّهُ أَوْلَى بِهِمَا.
اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔- النساء
ایک آیتِ مبارکہ میں سچی شہادت کا چھپانا حرام اور گناہ قرار دیا گیا ہے، ارشاد ہے:
وَلاَ تَكْتُمُواْ الشَّهَادَةَ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ.
اور تم گواہی کو چُھپایا نہ کرو، اور جو شخص گواہی چُھپاتا ہے تو یقینا اس کا دل گنہگار ہے،۔ البقره
شہادت و گواہی کے معاملے میں اسلام کا پسندیدہ عمل یہ ہے کہ کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی انسان یہ فریضہ ادا کرے اور اس میں کسی کی دعوت یا ترغیب کا انتظار بھی نہ کرے۔حضرت زید بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الا اخبرکم بخیر الشهداء الذی یأتی بشهادته قبل أن یسألها.
کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کہ بہترین گواہ کون ہے؟ بہترین گواہوہ شخص ہے، جو اپنی گواہی کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی ادا کر دے۔
ووٹ کو شہادت کی حیثیت دینے سے اس پر قرآن و سنت کے وہ تمام احکام جاری ہو جاتے ہیں جو شہادت کے حوالے سے دیے گئے ہیں۔ اس لیے دین داری کا تقاضا یہی ہے کہ ووٹ کا صحیح استعمال یقینی بنایا جائے۔
حاصلِ کلام یہی ہے کہ ووٹ ایک مذھبی ، ملی و قومی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کو مفاد پرستی، سڑکوں، گلی کوچوں، کھمبوں، ٹرانسفارمروں اور آلو پیاز کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔
وطنِ عزیز میں کئی دہائیوں سے یہ روش بن گئی ہے کہ انتخابات کا موسم آتے ہی مفاد پرست اور طاقت و اقتدار کا بھوکا ٹولہ‘ مہنگائی، غربت، بےروزگاری اور افلاس کے مارے عوام کے ووٹوں کی خرید و فروخت شروع کر دیتا ہے۔ چند ٹکوں، مستقبل کے جھوٹے وعدوں کے لالچ میں ضمیر فروشی ہوتی ہے۔ نظامِ سیاست میں موجود خرابیوں کی دیگر وجوہات کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیانتدار اور ذمہ دار شہری عموماً ووٹ دینے ہی سے گریز کرتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے ضمیر فروشوں کے ووٹوں سے بدکردار اور خائن قوم پر مسلط ہو جاتے ہیں۔
اس لیے ضروری ھے اگر حلقے میں کوئی نسبتاً دیندار ، بہتر اور قابل امیدوار ہے تو اسے ووٹ دینے سے گریز کرنا شرعاً ممنوع اور قوم و ملت پر ظلم کے مترادف ہے۔ بالفرض اگر حلقے میں کوئی بھی امیدوار صحیح معنوں میں قیادت کے لائق اور دیانتدار نہیں ہے تو موجود امیدواروں میں سے کسی امیدوار کی ایک صلاحیت، کسی ایک خوبی کو مدِنظر رکھ کر تقلیل شر (کم برائی) کے خیال سے ووٹ دینا بھی جائز کے زمرے میں آتا ہے۔ اس معاملہ میں یہ اصول ذہن نشین کر لیں کہ شخصی معاملات میں کسی فرد کی غلطی کا اثر صرف اسی فرد تک محدود رہتا ہے، اس کی سزا و جزا کا حقدار بھی وہی ہے۔ البتہ قومی و ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے۔ آپ کا غلط انتخاب پوری قوم کو متاثر کر سکتا ہے اس لیے ووٹ مکمل ذمہ داری کے ساتھ استعمال کریں ۔ اُمیدوار اور اس کی پارٹی کو دینی نقطۂ نظر سے ضرور پرکھیں اور دیندار اور اھل علم اُمیدوار کو اپنا ووٹ دے کر اپنی قومی اور دینی ذمہ داری پوری کریں۔ تاکہ روزِ قیامت اس کا آجرِ عظیم کے مستحق بن سکیں اور اللہ تعالی کے دربار میں سرخرو ھو سکیں
یہ بات یاد رکھیں کہ آپ نے اگر کسی قسم کے کسی لالچ میں آ کر یا کسی تعلق کی بنا پر یا ذات برادری کی وجہ سے یا بغیر سوچے سمجھے ووٹ کسی نا اھل کو دے دیا تو قیامت والے دن یقیناً آپ کی باز پرس ھو گی اور آپ کو اس کا جواب دینا ھو گا
اللہ پاک ھم سب کو ووٹ کا صحیح استعمال کرنے کی توفیق عنایت فرمائے
آمین یا رب العالمین