بائیس رجب کے کونڈوں کی بدعت اور اس کی حقیقت

 حُرِّمَت عَلَيكُمُ المَيتَةُ وَالدَّمُ وَلَحمُ الخِنزيرِ وَما أُهِلَّ لِغَيرِ اللَّهِ بِهِ وَالمُنخَنِقَةُ وَالمَوقوذَةُ وَالمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطيحَةُ وَما أَكَلَ السَّبُعُ إِلّا ما ذَكَّيتُم وَما ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَستَقسِموا بِالأَزلامِ ۚ ذٰلِكُم فِسقٌ ۗ اليَومَ يَئِسَ الَّذينَ كَفَروا مِن دينِكُم فَلا تَخشَوهُم وَاخشَونِ ۚ اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتي وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلامَ دينًا ۚ فَمَنِ اضطُرَّ في مَخمَصَةٍ غَيرَ مُتَجانِفٍ لِإِثمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌO  

تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سواء دوسرے کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹ جانے سے مرا ہو اور جو کسی ضرب سے مرگیا ہو اور جو اُونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو، لیکن اُسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں سے ذریعے فال گیری کرو، یہ سب بدترین گناہ ہیں۔ آج کفار تمہارے دِین سے نا اُمید ہو گئے، خبردار تم اُن سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا اِنعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اُس کا میلان نہ تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بہت بڑا مہربان ہے O

(المائدہ)


ھر بدعت گمراہی ہے

‏‏‏‏وعن جابر قال: قال رسول الله صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ : «اما بعد فإن خير الحديث كتاب الله وخير الهدي هدي محمد وشر الامور محدثاتها وكل بدعة ضلالة» . رواه مسلم

سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ( حمد و ثنا اور صلوۃ و سلام )کے بعد، سب سے بہترین کلام، اللہ کی کتاب ہے، اور بہترین طریقہ محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا طریقہ ہے، بدترین امور وہ ہیں جو نئے جاری کیے جائیں، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ “ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔

دین میں بدعت ایک ایسا کام ہے ۔ جو دین کا حلیہ بگاڑ دیتا ہے اور وہ دین جو رسول اکرم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے لوگوں کے سامنے پیش کیا اس میں اضافہ کر دیتا ہے حالانکہ رسول کریم  صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی حیات مبارکہ میں دین اسلام مکمل ہو گیا اور اسمیں کسی قسم کی کمی نہیں رہ گئی حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو تکمیل دین کی خوش خبری سنائی چنانچہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ۔

اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتي وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلامَ دينًا ۚ   ( المائدہ )

” آج میں نے دین اسلام کو تمہارے لیے مکمل کر دیا اور اپنی نعمت (قرآن پاک )کی بھی تکمیل کر دی اور اسلام کو بطور دین تمہارے لیے پسند فرمایا ۔ “

جب شریعت کے محل کی تکمیل ہو گئی اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ بھی باقی نہیں رہی تو پھر جو شخص اس میں اپنی طرف سے ایک اینٹ بھی لگانے کی کوشش کرے گا ۔ تو وہ از روئے شریعت بہت بڑا مجرم ہو گا ۔ گویا کہ اس کے نزدیک وہ دین جو اللہ نے نبی اکرم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو سکھلایا اور حکم دیا کہ اپنی امت کو اس کی تبلیغ کرے نامکمل ہے اور معاذ اللہ یہ بدبخت اس کی تکمیل کرنا چاہتا ہے اس طریقے سے وہ ایسا کام کرنا چاہتا ہے جو رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے نہیں کیا  گویا کہ یہ بدبخت انسان اس صورت میں حضور اکرم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر یہ الزام  عائد کرتا ہے کہ آپ نے نعوذ باللہ شریعت کو نامکمل چھوڑ دیا یا پھر شریعت کے بعض احکام جن کا آپ کو علم تھا قصداً لوگوں تک نہیں پہنچائے ( نعوذ باللہ من ذلک ) حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں  اور یہ بات کسی شک و شبہے سے بالا تر ھے کہ اللہ تعالیٰ نے مکمل شریعت نازل کی اور نبی اکرم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے مکمل شریعت لوگوں تک پہنچا دی ۔

حجۃ الوداع کے موقعہ پر لوگوں سے مخاطب ہو کر رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا ۔ لوگو ! کیا میں نے تم کو اللہ کے احکام پہنچا دئیے سب نے کہا ہاں ۔ نبی اکرم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ہر خطبہ میں یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے : ” شرا الامور محدثاتھا “ سب سے برا کام دین میں نئے امور جاری کرنا ہے ایک موقعہ پر رسول کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا ، ایاکم ومحدثات الامور دین میں نئے کام ایجاد کرنے سے بچو.... تو گویا کہ بدعت بہت برا کام ہے جو اللہ تعالی اور اس کے رسول صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی ناراضگی کا موجب بنتا ہے اور بدعتی کے تمام  نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہمارے ملک میں جس قدر بدعات اور رسومات کو فروغ حاصل ہے اتنا شاید ہی کسی دوسرے اسلامی ملک میں ہو ۔ نبی اکرم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہیں ۔ آپ صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہر سال صرف دو تہوار عیدالفطر اور عیدالاضحی منائے ہیں لیکن آج  پیٹ کے پجاریوں نے اللہ جانے کتنے تہوار ایجاد کر  رکھے ہیں ۔ گیارہویں شریف  تو خیر ہر ماہ کی گیارہ تاریخ کو کھیر پکا کر ضرور کرتے ہیں ۔ ھر مہینہ اس رسم کو منانے کی منطق  شکم پرستی کے علاوہ اور کچھ نہیں  اس کے علاوہ عید میلادالنبی صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  وغیرہ اسلام میں نئی عید ایجاد کر کے اللہ تعالی  اور اس کے رسول صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی ناراضگی مول لیتے ہیں۔  عوام الناس بیچارے لا علم ہوتے ھیں وہ تو علماء سوء اور پیٹ پرست مولویوں کے جھانسے میں آ کر یہ سب کچھ کرتے رھتے ہیں ۔

اسی طرح ہمارے ملک میں ایک بدعت حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ سے منسوب کونڈوں کی بھی جاری ہے جو 22 رجب کو کی جاتی ہے گیارہویں کی طرح یہ بھی علماء سوء  کے لیے شکم پروری کا بہانہ ہے ۔ اس موقعہ پر خوب حلوہ پوڑی کھاتے ہیں ۔ کونڈے بھرنے والوں کو جب سمجھایا جاتا ہے کہ یہ کام بدعت اور ناجائز ہے تو وہ ایک بے بنیاد اور من گھڑت داستان جو لوگوں سے سنی سنائی ہوتی ہے بیان کرتے ہیں جس کا  نہ کوئی ثبوت ہے نہ سند ۔

یہ من گھرٹ داستان منشی جمیل احمد کے منظوم کلام سے توڑ مروڑ کر اخذ کی گئی  ہے اس میں ایک لکڑ ہارے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جو مدینہ منورہ میں تنگدستی کی زندگی بسر کرتا تھا اور اُس کے بیوی بچے اکثر فاقے کرتے تھے وہ بارہ سال تک در در دھکے کھاتا رہا لیکن فقر و فاقہ اور تنگدستی کی زندگی ہی گزارتا رہا.... یہ لکڑ ہارا ایک دن وزیر کے محل کے پاس سے گزرا اس کی بیوی مدینہ منورہ میں وزیر کی نوکری کرتی تھی وہ ایک دن جھاڑو دے رہی تھی کہ حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ اپنے ساتھیوں سمیت وہاں سے گزرے وہ وزیر کے محل کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے ساتھیوں سے پوچھتے ہیں ؟ آج کونسی تاریخ ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آج رجب کی بائیس 22 تاریخ ہے امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے فرمایا اگر کسی حاجت مند کی حاجت پوری نہ ہوتی ہو یا کسی مشکل میں پھنسا ہو اور مشکل کشائی کی کوئی سبیل نظر نہ آتی ہو تو اس کو چاہئیے کہ بازار سے نئے کونڈے لائے اور ان میں حلوہ اور پوڑیاں بھر کر میرے نام کی فاتحہ پڑھے پھر میرے وسیلے سے دعا مانگے اگر اس کی حاجت روائی اور مشکل کشائی نہیں ہوتی تو وہ قیامت کے روز میرا دامن پکڑ سکتا ہے ۔

یہ ایک بالکل من گھڑت قصہ ہے ۔ جو شکم کے پجاریوں اور علماء سوء نے  اپنے کھانے کا بہانہ بنا رکھا ہے اس کی کوئی سند اور ثبوت نہیں اور کسی مستند کتاب میں بھی اس کا ذکر نہیں اس کے جھوٹے اور غلط ہونے پر کئی دلائل  موجود ہیں ۔ سب سے بڑی دلیل تو یہی ھے کہ مدینہ طیبہ میں کبھی بھی  نہ کوئی بادشاہ ہوا ہے نہ ھی وزیر ۔

یہ رسمِ بد 1906ء میں رام پور - انڈیا سے شروع ہوئی،اس کی ابتداٗ کرنے والا  ایک بدبخت اور متعصب شیعہ  ’’امیر مینائی‘‘تبرّائی تھا جس نے حضرت امیر معاویہ رضي الله تعالى عنه کے بغض و حسد میں اس رسمِ بد کا اجراء کیا۔ 

یہ رسم 22 رجب کو منائی جاتی ہے اور اور إس كے متعلق بظاهر تو يه کہا جاتا ہے کہ يه حضرت جعفر صادق رحمة الله عليه کی نیاز ہے۔۔۔حالانکہ 22 رجب نہ تو سیدنا جعفر صادق رحمة الله عليه کا یوم ولادت ہے اور نہ ہی یوم وفات۔ بلکہ حقيقت يه هے كه 22 رجب امام المتقین،سیدنا امیر معاویہ بن ابو سفیان رضي الله تعالى عنه کا یوم وفات ہے،اس لئے متعصب رافضی امیر مینائی نے سیدنا امیر معاویہ رضي الله تعالى عنه کے بغض و حسد میں اس رسم بد کے ذریعے سے آپ رضي الله تعالى عنه کی وفات پر خوشی منائی۔

جہاں تک سيدنا إمام جعفر صادق رحمة الله عليه کا تعلق ھے تو سیدنا جعفر صادق رحمة الله عليه کی ولادت باسعادت 8 رمضان مبارک کو ہوئی اور آپ رحمة الله عليه كي وفات 15 شوال المکرم میں ہوئی۔ لہذا سیدنا جعفر رحمة الله عليه کی ولادت یا وفات سے اس غلط رسم کا كسي طرح بهي کوئی تعلق نہیں ہے بلكه محض حضرت معاویہ رضي الله تعالى عنه كے بغض ميں إس رسم بد كو شروع كيا گيا اور سنی عوام کو دھوکہ دینے کے لئے سیدنا امام جعفر رحمہ اللہ کا نام استعمال کیا گیا ۔ بدقسمتي سے یہ قبیح بدعت آج تك جاري ہے اور اس سے زیادہ بدقسمتي یہ کہ معلومات نه هونے كي وجه سے إهلسنت والجماعت سے تعلق ركهنے والے مسلمان بهي إس ميں شريك هو جاتے هيں  حالانکہ نہ صرف بریلوی علماء بلکہ شیعہ علماء کے فتوے بھی اس رسمِ بد کے خلاف موجود ھیں 


کونڈوں کے بارے میں بریلوی اور شیعہ علماء کے فتوے 


پیر سیالوي کا فتوی : -

رجب کی بائیس تاریخ کو حضرت امیر معاویہ رضي الله تعالى عنه کا انتقال ہوا أنكي وفات كي خوشی میں رافضی شیعہ راتوں رات ہی کونڈے حضرت جعفر صادق رحمة الله عليه کے نام سے موسوم کرکے پکاتے ہیں اور سنی مسلمانوں کوحضرت جعفر صادق رحمة الله عليه کے نام كا دهوكه ديكر إس رسم بد ميں شامل کرلیا گيا ہے ،حالانکہ سیدنا جعفر صادق رحمة الله عليه کی ولادت باسعادت 8 رمضان مبارک کو ہوئی اور آپ رحمة الله عليه كا انتقال 15 شوال کو ہوا ۔ بہر حال کونڈوں والی رسم اہلسنت کی نہیں هے ۔


مفتی غلام مصطفی رضوی کا فتوی :-

 بائیس رجب کے کونڈوں کا جو رواج ہے اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں اور نہ ہی اہلسنت والجماعت کے لیے جائز ہے کہ وہ کونڈوں کے نام پر کی جانے والی فضول رسموں میں حصہ لیں۔


شیعہ عالم محمد حسین لکھنوی کا فتوی:- 

بائیس رجب کے کونڈوں کی نیاز سند اور اس کا حوالہ کسی معتبر کتاب سے ثابت نہیں اور یہ ایک خود ساختہ مسئلہ ہے۔ یہ( رسم بد) نہ کسی امام سے منقول ہے اور نہ تاریخ اس کی تصدیق کرتی ہے۔

بهرحال يه جاننا بہت ضروری ھے کہ یہ رسم بد صرف اور صرف حضرت آمير معاويه رضي الله تعالى عنه كے إنتقال كي تاريخ ميں خوشي منانے كيلئے كي جاتي هےاور نام إس کو  حضرت جعفر صادق رحمة الله عليه كا ديديا جاتا هے لہذا تمام اھل سنت والجماعت کے لوگوں کو چاھیے کہ وہ کونڈوں كي إس بد ترين بدعت کا مکمل بائیکاٹ کر کے اپنے سني هونے اور حب صحابیت کا ثبوت دیں۔ 

الله تعالى تمام مسلمانوں كو إس رسم بد سے محفوظ ركهے -  آمين یا رب العالمین 

Share: