روزے کے درجات

حجّةُ الاسلام  حضرت امام غزالی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ: روزے کے تین درجے ہیں۔

    أول :    عام لوگوں کا روزہ 

دوئم :    خاص لوگوں کا روزہ

سوئم :  خاص الخاص لوگوں کا روزہ 


عام  لوگوں کا روزہ 

عام لوگوں کا روزہ تو یہی ہے کہ کھانے پینے اور شرم گاہ کے تقاضوں سے مکمل پرہیز کرے، جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے۔


 خاص لوگوں کا روزہ 

خاص لوگوں کا روزہ یہ ہے کہ کان، آنکھ، زبان، ہاتھ، پاوٴں اور دیگر اعضاء کو گناہوں سے بچائے، یہ صالحین کا روزہ ہے، اور اس میں چھ باتوں کا اہتمام لازم ہے:

اوّل:

 آنکھ کی حفاظت، کہ آنکھ کو ہر مذموم و مکروہ اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کرنے والی چیز سے بچائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ: “نظر، شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر میں بجھا ہوا تیر ہے، پس جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے نظرِبد کو ترک کردیا، اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ایمان نصیب فرمائیں گے کہ اس کی حلاوت (شیرینی) اپنے دِل میں محسوس کرے گا۔”

(الحاکم ، مجمع الزوائد )

دوم:  

زبان کی حفاظت، کہ بیہودہ گوئی، جھوٹ، غیبت، چغلی، جھوٹی قسم اور لڑائی جھگڑے سے اسے محفوظ رکھے، اسے خاموشی کا پابند بنائے اور ذکر و تلاوت میں مشغول رکھے، یہ زبان کا روزہ ہے۔ حضرت سفیان ثوری رحمةُ الله عليه کا قول ہے کہ: غیبت سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مجاہد کہتے ہیں کہ: غیبت اور جھوٹ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ: “روزہ ڈھال ہے، پس جب تم میں کسی کا روزہ ہو تو نہ کوئی بیہودہ بات کرے، نہ جہالت کا کوئی کام کرے، اور اگر اس سے کوئی شخص لڑے جھگڑے یا اسے گالی دے تو کہہ دے کہ میرا روزہ ہے۔” (صحاح)

سوم

کان کی حفاظت، کہ حرام اور مکروہ چیزوں کے سننے سے پرہیز رکھے، کیونکہ جو بات زبان سے کہنا حرام ہے، اس کا سننا بھی حرام ہے۔

چہارم

بقیہ اعضاء کی حفاظت، کہ ہاتھ پاوٴں اور دیگر اعضاء کو حرام اور مکروہ کاموں سے محفوظ رکھے، اور اِفطار کے وقت پیٹ میں کوئی مشتبہ چیز نہ ڈالے، کیونکہ اس کے کوئی معنی نہیں کہ دن بھر تو حلال سے روزہ رکھا اور شام کو حرام چیز سے روزہ کھولا۔

پنجم

اِفطار کے وقت حلال کھانا بھی اس قدر نہ کھائے کہ ناک تک آجائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ: “پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہیں، جس کو آدمی بھرے۔” ( احمد والترمذی وابن ماجہ والحاکم )

يعني جب شام کو دن بھر کی ساری کسر پوری کرلی تو روزہ سے شیطان کو مغلوب کرنے اور نفس کی شہوانی قوّت توڑنے کا مقصد کیونکر حاصل ہوگا؟

ششم

اِفطار کے وقت اس کی حالت خوف و رجا کے درمیان مضطرب رہے کہ نہ معلوم اس کا روزہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوا یا مردُود؟ پہلی صورت میں یہ شخص مقرّبِ بارگاہ بن گیا، اور دُوسری صورت میں مطرود و مردُود ہوا، یہی کیفیت ہر عبادت کے بعد ہونی چاہئے۔


 خاص الخاص لوگوں کا روزہ 

اور خاص الخاص لوگوں کا روزہ یہ ہے کہ دُنیوی افکار سے قلب کا روزہ ہو، اور ماسوا اللہ سے اس کو بالکل ہی روک دیا جائے، البتہ جو دُنیا کہ دین کے لئے مقصود ہو وہ تو دُنیا ہی نہیں، بلکہ توشہٴ آخرت ہے۔ بہرحال ذکرِ الٰہی اور فکرِ آخرت کو چھوڑ کر دیگر اُمور میں قلب کے مشغول ہونے سے یہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اربابِ قلوب کا قول ہے کہ دن کے وقت کاروبار کی اس واسطے فکر کرنا کہ شام کو اِفطاری مہیا ہوجائے، یہ بھی ایک درجے کی خطا ہے، گویا اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رزقِ موعود پر اس شخص کو وثوق اور اعتماد نہیں، یہ انبیاء، صدیقین اور مقربین کا روزہ ہے۔ (احیاء العلوم

Share: