رمضان المبارک میں تقوی کے حصول میں معاون آعمال

رمضان المبارک میں صرف روزہ رکھنے اور تراویح پڑھنے کی حد تک بات ختم نہیں ہوتی بلکہ اس ماہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ غفلت کے پردوں کو دل سے دور کیا جائے، اصل مقصدِ تخلیق کی طرف رجوع کیاجائے، گزشتہ گیارہ مہینوں میں جو گناہ ہوئے ان کو معاف کراکر آئندہ گیارہ مہینوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کے استحضار اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے ساتھ گناہ نہ کرنے کا داعیہ اور جذبہ دل میں پیدا کیا جائے، جس کو ”تقویٰ“ کہا جاتا ہے۔ اس طرح رمضان المبارک کی صحیح روح اوراس کے انوار وبرکات حاصل ہوں گے، ورنہ یہ ہوگا کہ رمضان المبارک آئے گا اور چلا جائے گا اور اس سے صحیح طور پر ہم فائدہ نہیں اٹھا پائیں گے، بلکہ جس طرح ہم پہلے خالی تھے ویسے ہی خالی رہ جائیں گے، چند ایسے أعمال هيں رمضان المبارك مين جن كوأختيار كركے روزے کا مقصد (تقویٰ) اور رمضان المبارک کے انوار وبرکات حاصل ہونے كي قوي أميد هے ، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 عبادت کی مقدار میں اضافہ
رمضان المبارک کی برکتوں کو حاصل کرنے کے لیے اپنی عبادت کی مقدار میں اضافہ کرنا ہے، دوسرے ایام میں جن نوافل کو پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی ان کو اس مبارک ماہ میں پڑھنے کی کوشش کریں، مثلاً: مغرب کے بعد سنتوں سے الگ یا کم از کم سنتوں کے ساتھ چھ (6) رکعت اوّابین پڑھیں۔ (جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ اوّابین افطار کی نذر ہوجاتی ہیں) عشاء کی نماز سے چند منٹ پہلے آکر چار رکعت یا دو رکعت نفل پڑھیں۔ سحری کھانے کے لیے اٹھنا ہی ہے تو چند منٹ پہلے اٹھ کر کم از کم چار رکعت تہجد پڑھ لیں۔ اسی طرح اشراق کی نماز اور اگراشراق کے وقت نیند کا غلبہ ہوتو چاشت کی چند رکعتیں تو پڑھ ہی لیں۔ ظہر کے بعد دو سنتوں کے ساتھ دو رکعت نفل اور عصر سے پہلے چار رکعت نفل پڑھ لیں۔ کیوں کہ نماز کا خاصہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کا رشتہ جوڑتی ہے اوراس کے ساتھ تعلق قائم کراتی ہے، جس کے نتیجے میں انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے مروی حدیث شریف میں ہے:
اَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَّبِّہ وَہُوَ سَاجِدٌ (مسلم شریف
یعنی بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتاہے، تو گویا نماز کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم تحفہ عطا کیاہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے، آمین!

 تلاوتِ قرآنِ کریم کی کثرت
دوسرا کام یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت کا خاص اہتمام کرنا ہے، کیوں کہ رمضان المبارک کے مہینے کو قرآن کریم کے ساتھ خاص مناسبت اور تعلق ہے، اسی مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا، ارشادِ مبارک ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ، (سورئہ بقرہ ) خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رمضان المبارک میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری) تمام بزرگانِ دین کی زندگیوں میں یوں تو قرآنِ کریم میں اشتغال بہت زیادہ نظر آتا ہے، لیکن رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی تلاوت کے معمول میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا ، چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس مبارک مہینے میں ایک قرآنِ کریم دن میں، ایک رات میں اور ایک تراویح میں، اس طرح اکسٹھ (61) قرآن کریم ختم فرماتے تھے۔ ماضی کے ہمارے تمام اکابر (حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمه الله ، مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله ،مولانا رشید احمد گنگوہی رحمه الله، مولانا شاہ عبدالرحیم رائپوریرحمه الله ، شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی رحمه الله، مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمه الله ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمه الله ، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمه الله ، مولانا یحییٰ کاندھلوی رحمه الله ، مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمه الله ، شاہ عبدالقادر رائپوری رحمه الله، شیخ الحدیث مولانا زکریا مہاجر مدنی رحمه الله، فقیہ الامت مولانا مفتی محمودحسن گنگوہی رحمه الله، مولانا قاری سید صدیق احمد باندوی رحمه الله، مولانا شاہ ابرارالحق ہردوئی رحمه الله، فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی رحمه الله وغیرہم) کا رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کریم کا معمول دیدنی ہوتا تھا۔ لہٰذا ہم کو بھی اس مبارک ماہ میں عام دنوں کے مقابلے میں تلاوت کی مقدار زیادہ کرنی ہے، عام آدمی کو بھی روزانہ کم از کم تین پارے پڑھنے چاہئیں، تاکہ پورے مہینے میں کم از کم تین قرآنِ کریم ختم ہوجائیں۔

 تراویح میں قرآنِ کریم صحیح پڑھنے اور سننے کا اہتمام
اس مبارک مہینے میں ہرموٴمن کو اس بات کی بھی فکر کرنی ضروری ہے کہ تراویح میں قرآنِ مجید صحیح اور صاف صاف پڑھا جائے، جلدی جلدی اور حروف کو کاٹ کاٹ کر پڑھنے سے پرہیز کیا جائے، کیوں کہ اس طرح قرآنِ کریم پڑھنا اللہ کے کلام کی عظمت کے خلاف ہے، نیز پڑھنے والے کو خود قرآنِ کریم بددعا دیتا ہے۔ (احیاء العلوم ) اس طرح قرآن کریم پڑھنے والا اور سننے والے سب گنہگار ہوتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ حافظ صاحب نہایت تیزگامی کے ساتھ حروف کو کاٹ کاٹ کر پڑھتے چلے جارہے ہیں، ایک سانس میں سورئہ فاتحہ کو ختم کردیا جاتا ہے ، صحیح طریقے سے رکوع، سجدہ اور تشہد ادا نہیں ہورہا ہے، چالیس پینتالیس منٹ میں پوری نماز ختم، اب گھنٹوں مجلسوں میں بیٹھ کر گپ شپ ہورہا ہے اورحافظ صاحب وسامعین میں سے کسی کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم نے قرآنِ کریم کی توہین میں کتنا حصہ لیا اور رمضان المبارك کی مبارک ساعتوں میں کتنی بے برکتی اور قرآن کریم کی کتنی بددعا لی؟ خدا را اس صورتِ حال سے بچئے اور اس مبارک مہینے میں برکتوں اور رحمتوں کے دروازے کو اپنے اوپر بند نہ کیجیے اور صاف صحیح قرآن کریم پڑھنے اور سننے کا اہتمام کرکے دارین کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔

 استغفار کی کثرت
چوتھا کام یہ کرنا ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنی ہے، حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی مشہور حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے منبر کی پہلی، دوسری اور تیسری سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے ”آمین“ فرمایا، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جبرئیل امین علیہ الصلاة والسلام میرے سامنے آئے تھے اورجب میں نے منبر کے پہلے زینے پر قدم رکھا تو انھوں نے کہا: ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا آمین، الیٰ آخر الحدیث (مستدرک حاکم )
ظاہر ہے کہ اس شخص کی ہلاکت میں کیا شبہ ہے جس کے لیے حضرت جبرئیل علیہ السلام بددعا کریں اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم آمین کہیں، اس لیے اس مبارک مہینے میں نہایت کثرت کے ساتھ گڑگڑا کر اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرے۔

 دعا کا اہتمام
رمضان المبارک کی برکات کو حاصل کرنے کے لیے دعاؤں کا اہتمام بھی لازم ہے، بہت سی روایات میں روزے دار کی دعا کے قبول ہونے کی بشارت دی گئی ہے، حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا كه تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی (ضرور قبول ہوتی ہے) ایک روزے دار کی افظار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی، تیسرے مظلوم کی بددعاء، اس کو اللہ تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھالیتے ہیں اورآسمان کے دروازے اس کے لیے کھول دیے جاتے ہیں اورارشاد ہوتا ہے کہ میں تیری ضرور مدد کروں گا گو(کسی مصلحت سے) کچھ دیر ہوجائے۔
بہرحال یہ مانگنے کا مہینہ ہے، اس لیے جتنا ہوسکے دعا کا اہتمام کیا جائے، اپنے لیے، اپنے اعزہ واحباب اور رشتے داروں کے لیے، اپنے متعلقین کے لیے، ملک وملت کے لیے اور عالم اسلام کے لیے خوب دعائیں مانگنی چاہئیں، اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 صدقات کی کثرت
رمضان المبارک میں نفلی صدقات بھی زیادہ سے زیادہ دینے کی کوشش کرنی چاہیے، حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی سخاوت کا دریا پورے سال ہی موجزن رہتا تھا، لیکن ماہِ رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی سخاوت ایسی ہوتی تھی جیسے جھونکے مارتی ہوئی ہوائیں چلتی ہیں (بخاری شریف) جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا اس کو ضرور نوازتے۔ لہٰذا ہم کو بھی اس بابرکت مہینے میں اس سنت پر عمل کرتے ہوئے صدقات کی کثرت کرنی چاہیے۔

 کھانے کی مقدار میں کمی
ساتویں چیز جس کا لحاظ رمضان المبارک کے مقصد کو حاصل کرنے میں معاون ہے ”کھانے کی مقدار میں کمی کرنا“ ہے، کیوں کہ روزے کا مقصد قوتِ شہوانیہ وبہیمیہ کا کم کرنا اور قوتِ ملکیہ ونورانیہ کا بڑھانا ہے، جب کہ زیادہ کھانے سے یہ غرض فوت ہوجاتی ہے، بقول شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب رحمه الله ہم لوگوں کا حال یہ ہے کہ افظار کے وقت تلافیٴ مافات میں (کہ پورے دن بھوکا رہا)اور سحر کے وقت حفظ ماتقدم میں (کہ پورے دن بھوکا رہنا ہے) اتنی زیادہ مقدار میں کھا لیتے ہیں کہ بغیر رمضان کے بھی اتنی مقدار کھانے کی نوبت نہیں آتی جس کی وجہ سے کھٹی ڈکاریں آنے لگتی ہیں، حقیقتاً ہم لوگ صرف کھانے کے اوقات بدلتے ہیں یعنی افظار میں، تراویح کے بعد اور پھر سحری میں، اس کے علاوہ کچھ بھی کمی نہیں کرتے، بلکہ مختلف قسم کی زیادتی ہی ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے قوتِ شہوانیہ و بہیمیہ کم ہونے کے بجائے اور بڑھ جاتی ہے اورمقصد کے خلاف ہوجاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا
مَا مَلَأ اٰدَمِیٌّ وِعَاءً شَرَّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ اٰدَمَ اُکُلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَہ فَاِنْ کَانَ لاَ مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہ 
وَثُلُثٌ لِشَرَابِہ وَثُلُثٌ لِنَفسِہ۔ (ترمذی شریف
یعنی اللہ تعالیٰ کو کسی برتن کا بھرنا اتنا ناپسند نہیں جتنا پیٹ کا بھرنا ناپسند ہے،ابن آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں جن سے کمرسیدھی رہے، اگر زیادہ ہی کھانا ہے تو ایک تہائی پیٹ کھانے کے لیے رکھے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے رکھے۔ البتہ اتنا کم نہ کھائے کہ عبادات کے انجام دینے میں اور دوسرے دینی کاموں میں خلل واقع ہو۔

 گناہوں سے پرہیز
رمضان المبارک میں خاص طور پر گناہوں سے پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے، ہر موٴمن کو یہ طے کرلینا چاہیے کہ اس برکت ورحمت اورمغفرت کے مہینے میں آنکھ، کان اور زبان غلط استعمال نہیں ہوگی، جھوٹ، غیبت، چغل خوری اور فضول باتوں سے مکمل پرہیز کرے، یہ کیا روزہ ہوا کہ روزہ رکھ کر ٹیلی ویژن کھول کر بیٹھ گئے اور فحش وگندی فلموں سے وقت گزاری ہورہی ہے، کھانا، پینا اورجماع جو حلال تھیں ان سے تو اجتناب کرلیا لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر کسی کی غیبت ہورہی ہے، چغل خوری ہورہی ہے، جھوٹے لطیفے بیان ہورہے ہیں، اس طرح روزے کی برکات جاتی رہتی ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَةٌ فِیْ اَن یَّدَعَ طَعَامَہ وَشَرَابَہ
ترجمہ: جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کام اور باطل کلام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ (صحیح بخاری )۔
یعنی روزے کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات ومنکرات سے بھی زبان ودہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے، اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ کی باتیں اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی پرواه نہیں۔ (معارف الحدیث)
ایک اور حدیث شریف میں حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَہ مِنْ صِیَامِہ اِلَّا الْجُوْعُ وَرُبَّ قَائِمٍ لَیْسَ لَہ مِنْ قِیَامِہ اِلَّا السَّہْرُ۔
(سنن ابن ماجہ ۔ سنن نسائی )
ترجمہ: بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزے کے ثمرات میں سے بھوکا رہنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی اگر گناہوں (غیبت وریا وغیرہ) سے نہ بچے تو روزہ، تراویح اور تہجد وغیرہ سب بیکار ہے۔
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مَالَمْ یَخْرِقْہَا۔ (نسائی شریف ، مسند احمد 
ترجمہ: روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔ یعنی روزہ آدمی کے لیے شیطان سے، جہنم سے اور اللہ کے عذاب سے حفاظت کا ذریعہ ہے، جب تک گناہوں (جھوٹ وغیبت وغیرہ) کا ارتکاب کرکے روزے کو خراب نہ کرے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله تعالى عنه سے مروی ایک حدیث شریف میں ہے کہ اگر روزے دار سے کوئی شخص بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ کرنے کی کوشش کرے تو روزے دار کہہ دے کہ میرا روزہ ہے۔ یعنی میں ایسی لغویات میں پڑکر روزے کی برکات سے محروم ہونا نہیں چاہتا۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
ان تمام احادیث شریفہ کا مدعا یہ ہے کہ روزے کے مقصد (تقویٰ) اور رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں کے حصول کے لیے معصیات ومنکرات سے پرہیز نہایت ضروری ہے، اس کے بغیر تقوے کی سعادت سے متمتع نہیں ہوا جا سکتا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، رمضان المبارک کی قدردانی کی توفیق بخشے اور اس بابرکت مہینے کے اوقات کو صحیح طور پر خرچ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے،
آمین ثم آمین یا رب العالمین!

Share: