بیان
محبوب العلماء و الصلحاء حضرت مولانا پیر حافظ ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی حفظہ اللہ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفٰی وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ!
کامیاب انسان
اللہ جل شانہ نے انسان کو اس دنیا میں اپنی بندگی کے لئے بھیجا ہے ۔ یہ انسان یہاں چند روز کا مہمان ہے ، اپنی مہلت اور مدت مکمل ہونے کے بعد اگلے سفر پر روانہ ہو گا ۔ خوش نصیب ہے وہ انسان جو یاد الٰہی میں اپنا وقت گزارے ، جو اللہ رب العزت کی رضا جوئی کے لئے ہر لمحہ بے قرار رہے ، جس کا ہر عمل سنت نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے مطابق ہو، جس کا ہر کام شریعت مطہرہ کے مطابق ہو، ایسا انسان دنیا میں بھی کامیاب اور آخرت میں بھی کامیاب فَقَدْ فَازَفَوْزًا عَظِیْمًا اس پر صادق آتا ہے ۔
ھماری خوش نصیبی
ہماری یہ خوش نصیبی ہے کہ رمضان کا با برکت مہینہ ایک دفعہ پھر ہماری زندگیوں میں آیا ہے۔ایسا مہینہ کہ جس کے ایک ایک پل میں اللہ تعالیٰ کی رحمت موسلا دھار بارش کی طرح برستی ہے۔جو انسان بھی اس ماہ مبارک کا دل میں ادب رکھتا ہے۔ اس کے روزے رکھتا ہے،گناہوں سے بچتا ہے اور عبادات کا اہتمام کرتا ہے۔ اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور جنت کے اعلیٰ درجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔
بزرگی کا معیار
سلف صالحین کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ جب وہ کسی کی بزرگی کا تذکرہ کرتے تو یوں کہتے کہ فلاں آدمی تو بہت بزرگ آدمی ہے اور دلیل یہ دیتے تھے کہ اس نے تو اپنی زندگی کے اتنے رمضان گزارے ہیں۔ ان کے نزدیک بزرگی کا یہ پیمانہ تھا۔ بزرگی اور ترقی درجات کا اندازہ لگانے کا یہ معیار تھا کہ فلاں انسان زندگی کے اتنے رمضان المبارک گزار چکا اب اس کے درجے کو تو ہم نہیں پہنچ سکتے ۔ اللہ اکبر۔
*
حضور نبی اکرمﷺ کی ترغیب
ایک مرتبہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رمضان المبارک کی آمد پر صحابہ کرام ؓ سے ارشاد فرمایا،تمہارے اوپر ایک برکتوں والا مہینہ آیا ہے ، اس میں اللہ رب العزت تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور تم پر رحمتیں نازل فرماتے ہیں ، تمہاری خطاؤں کو معاف کرتے ہیں ، دعائوں کو قبول فرماتے ہیں۔اور فرمایا کہ
یَنْظُرُ اللّٰہُ تَعَالیٰ الیٰ تَنَافُسِکُمْ فِیْہِ (رواہ الطبرانی)
(اللہ تعالیٰ اس میں تمہارے تنافس کو دیکھتے ہیں)
تنافس کہتے ہیں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کو ،کسی بات میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کو۔ تو اس بات کی ترغیب دی گئی کہ رمضان المبارک کے مہینے میں نیک اعمال اور عبادات میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو ۔ اس لئے اس مہینے میں ہر بندہ یہ کوشش کرے کہ میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے والا بن جائو ں ۔ جیسے کلاس میں امتحان ہو تاہے تو ہر بچے کی کوشش ہو تی ہے کہ میں فرسٹ آجائوںاسی طرح رمضان المبارک میں ہماری کوشش یہ ہو کہ ہم زیادہ عبادت کرنے والے بن جائیں ۔
رمضان المبارک میں معمولات نبویﷺ
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے تھے کہ جب بھی رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو ہم رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اعمال میں تین باتوں کا اضافہ محسوس کرتے ۔
پہلی بات…آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ عبادت میں بہت زیادہ کوشش اور جستجو فرمایا کرتے تھے، حالانکہ آپ کے عام دنوں کی عبادت بھی ایسی تھی کہ ’’حَتّٰی یَتَوَرَّمَتْ قَدَمَاہُ‘‘ یعنی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے قدم مبارک متورم ہو جایا کرتے تھے۔ تاہم رمضان المبارک میں آپ کی یہ عبادت پہلے سے بھی زیادہ ہو جایا کرتی تھی ۔
دوسری بات…آپ اللہ رب العزت کے راستے میں خوب خرچ فرماتے تھے۔ اپنے ہاتھوں کو بہت کھول دیتے تھے ۔ یعنی بہت کھلے دل کے ساتھ صدقہ وخیرات فرمایا کرتے تھے ۔
تیسری بات…آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ مناجات میں بہت ہی زیادہ گریہ وزاری فرمایا کرتے تھے۔
ان تین باتوں میں رمضان المبارک کے اندر تبدیلی معلوم ہوا کرتی تھی۔ عبادت کے اندر جستجو زیادہ کرنا، اللہ رب العزت کے راستے میں زیادہ خرچ کرنا اور دعاؤں کے اندر گریہ وزاری زیادہ کرنا۔
ہم رمضان المبارک کیسے گزاریں ؟
اب ہم اگر نیکیوں کے اس سیزن سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں …روٹھے ہوئے رب کو منانا چاہتے ہیں… اپنی بگڑیاں بنانا چاہتے ہیں توہمیں چاہیے کہ ہم رمضان المبارک میں چند چیزوں کا خاص طور پر اہتمام کریں ۔ ان کی وجہ سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے فیوضات و برکات سے مالامال کر دیں گے۔
*(۱) روزے کی حفاظت:*
ہمیں چاہیے کہ ہم روزہ رکھیں تو پورے آداب و شرائط کے ساتھ رکھیں ۔ روزے میں کھانے پینے اور جماع کی پابندی توہے ہی ۔ اس بات کی بھی پابندی ہو کہ جسم کے کسی عضو سے کوئی گناہ نہ ہو۔ روزے دار آدمی کی آنکھ بھی روزہ دار ہو، زبان بھی روز دار ہو ،کان بھی روزے دار ہوں ، شرمگاہ بھی روزہ دار ہو، دل ودماغ بھی روزہ دار ہوں ۔اس طرح ہم سر کے بالوں سے لے کر پائوں کے ناخنوں تک روزہ دار بن جائیں ۔اسی لیے حدیث شریف میں آیا:
اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ مَا لَمْ یَخْرِقْھَا
[روزہ آدمی کیلئے ڈھال ہے جب تک وہ اسے پھاڑ نہ دے]
ڈھال سے مراد یہ ہے روزہ انسان کیلیے شیطان سے حفاظت کا کام کرتا ہے۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ روزہ کس چیز سے پھٹ جاتا ہے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا جھوٹ سے اور غیبت سے۔
اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:
رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ صَیَامِہٖ اِلَّا الْجُوْعِ وَ الْعَطْشِ
[کتنے لوگ ہیں جن کو روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ نہیں ملتا]
کیوں ؟ …روزہ بھی رکھا اور انڈیا کے گانے بھی سنے ۔ روزہ بھی رکھا اور بازار میں جاتے ہوئے غیر محرم کا نظارہ بھی کیا، روزہ بھی رکھا اور لوگوں پہ بہتان لگائے، جھوٹ بولا ، دھوکا دیا، تو ایسا روزہ اللہ کے ہاں اجر نہیں پاتا۔یہ ظاہر داری کر رہا ہے۔ روزے کی حقیقت حاصل نہیںہے۔اسی لیے حدیث پاک میں آیا ہے کہ
لَیْسَ الصِّیَامُ مِنَ الْاَکْلِ وَالشُّرْبِ اِنَّمَا الصِّیَامُ مِنَ اللَّغْوِ وَ الرَّفْسِ
[ کہ روزہ کھانے اور پینے سے بچنے کا ہی نام نہیں بلکہ روزہ تو لغو اور فحش کاموں سے بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ]
اسی طرح ایک اور جگہ پر روزہ داروں کے متعلق فرمایا:
مَنْ لَمْ یَزَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلُ بِہٖ فَلَیْسَ لَہٗ حَاجَتٌ فِی اَنْ یَّضَعَ طَعَامِہٗ وَشَرَابَہٗ ۔
[جو بندہ جھوٹ اور اپنے عمل کے کھوٹ کو نہیں چھوڑتا، اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی پرواہ نہیں ]
کہ ویسے تو روزہ دار ہیں اور کم تول رہے ہیں ، ملاوٹ کر رہے ہیں ، رشوت لے رہے ہیں ، بہتان لگا رہے ہیں، غیبت کر رہے ہیں ، ایسے بندے کے بھوکا پیاسا رہنے کی اللہ کو کیا ضرورت۔
*زیادہ روزہ لگنے کی وجوہات:*
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جو آدمی پرہیز گاری کے ساتھ روزہ رکھتا ہے اسے بھوک پیاس بہت کم محسوس ہوتی ہے اور زیادہ بھوک پیاس اسی کو لگتی ہے جو بدپرہیزیاں کرتا ہے ۔
حضورِ آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے دور کی بات ہے،دو عورتوں نے روزہ رکھا اور روزہ ان کو اتنا لگا کہ وہ مرنے کے قریب ہو گئیں۔ یہ بات حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت میں عرض کی گئی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا کہ انہیں کہیں کہ کلی کریں ۔ دونوں کو کہا گیا کہ کلی کریں۔ چنانچہ ان کے منہ سے گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نکلے۔ وہ حیران کہ ہم نے کچھ نہیں کھایا پیا۔ یہ کیا ہوا؟ حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بتلایا کہ یہ دراصل روزہ رکھ کر دوسروں کی غیبت کرتی رہیں اور غیبت کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی مردار کا گوشت کھانا۔ یہ واقعات اسلئے پیش آئے کہ ہم جیسوں کیلئے آئندہ مثال بن سکیں ، اللہ تعالیٰ نے عبرت بنا دیا تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے روزے کی حفاظت کریں اورہر چھوٹے بڑے گناہ سے بچنے کی کوشش کریں۔تب ہمیں روزے پر اجر بھی ملے گا اور روزہ کی برکات بھی نصیب ہوں گی۔
*(۲)عبادت کی کثرت*
ہم رمضان المبارک میں فرض نمازوں کو تکبیر اولیٰ کے ساتھ پابندی سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ دیگر مسنون اعمال ، نفلی عبادات، ذکر اذکار کی کثرت کریں۔ عبادت کے ذریعے اپنے جسم کو تھکائیں۔ ہمارے جسم دنیا کے کام کاج کے لئے روز تھکتے ہیں زندگی میں کوئی ایسا وقت بھی آئے کہ یہ اللہ کی عبادت کے لئے تھک جایا کریں، کوئی ایسا وقت آئے کہ ہماری آنکھیں نیند کو ترس جائیں۔
*عبادت میں رکاوٹ :*
رمضان المبارک کے مہینہ میں بڑے بڑے شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے ۔ پھر بھی انسان عبادت نہ کرے تو رکاوٹ کونسی چیز بنی؟ انسان کا اپنا نفس بنا۔ شیطان ہمارے نفس کو اتنا بگاڑ دیتا ہے کہ گو خود گرفتار ہو جاتا ہے ۔ اب وہ چھوٹے چھوٹے شطونگڑے رہ جاتے ہیں ۔تو یہ چھوٹے چھوٹے شطونگڑے ہی ہمارے نفس کو سیدھا نہیں ہونے دیتے۔
ہماری تن آسانی کا یہ حال ہے ہمارے لئے ایک قرآن پاک تراویح میں سننا مشکل ہوتا ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں جی فلاں مسجد میں جانا ہے کیوں ؟ جی وہاں ۳۰منٹ میں تراویح ہو جاتی ہیں ، فلاں جگہ ۲۵منٹ میں ہو جاتی ہیں ،ہم مسجدیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ کہاں ہم پانچ منٹ پہلے فارغ ہو سکتے ہیں ۔
موت کے بعد ہے بیدار دلوں کو آرام
اپنے نفس کو سمجھائیں بہت عرصہ غفلت میں گزار بیٹھے ، اس مہینے کو کمانے کی ضرورت ہے ۔ اہل دل حضرات اس مہینہ میں آرام کو خیرباد کہہ دیا کرتے تھے۔ ہم بھی رمضان المبارک میں آرام کو خیر باد کہہ دیں۔ ہم سوچیں کہ سال کے گیارہ مہینے اگر ہم اپنی مرضی سے سوتے جاگتے ہیں تو ایک مہینہ ایسا بھی ہو جس میں ہم بہت کم سوئیں۔ اچھی بات ہے اگر آنکھیں نیند کو ترستی رہیں، اچھی بات ہے اگر جسم کو تھکا دیں ،ہاں ، اگر تم آج اللہ کی رضا کے لئے جاگو گے تو قیامت کے دن اللہ رب العزت کا دیدار نصیب ہوگا۔ یہ آنکھیں آج جاگیں گی تو کل قبر کے اندر میٹھی نیند سوئیں گی۔
موت کے بعد ہے بیدار دلوں کو آرام
نیند بھر کر وہی سویا جو کہ جاگا ہوگا
تو یہ جاگنے کا مہینہ ہے ۔ ہم اپنے آرام میں کمی کر لیں ۔ یوں سمجھیں کہ یہ مشقت اٹھانے کا مہینہ ہے ۔
*(۳) دعاؤں کی کثرت:*
رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کچھ دینا چاہتے ہیں۔ اس لیے اس میں دعائوںکی کثرت کرنی ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ
وَ اِنَّ لِکُلِّ مُسْلِمٍ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَّ لَیْلَۃٍ دَعْوَۃً مُسْتَجَابَۃٍ
رمضان المبارک میں ہر مسلمان کی ہرشب و روزمیں ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔اس لیے اللہ کے آگے رو رو کر دعائیں کرنی چاہئیں نہ معلوم کونسی گھڑی میں دعا قبول ہو جائے۔تہجد کا وقت قبولیت دعا کا خاص وقت ہے ۔ لہٰذا سحری سے پہلے تہجد کے نوافل پڑھ کر اللہ کے آگے گریہ و زاری کی جائے اوراپنی تمام حاجات اللہ کے سامنے پیش کی جائیں۔ اللہ کو منایا جائے۔
احا دیث میں افطار کے وقت روزہ دارکی دعائیں قبول ہوتی ہیں فرمایا،
’’تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی ایک روزہ دار کی افطار کے وقت ، دوسرے عادل بادشاہ کی دعا تیسرے مظلوم کی دعا۔‘‘
اس لیے افطاری کے وقت دعاؤں کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے ۔ایک بات پر غور کیجئے کہ بالفرض اللہ تعالیٰ کا کوئی بہت ہی نیک اور برگزیدہ بندہ ہو اور وہ آدمی آپ کو کسی وقت بتا دے کہ ابھی مجھے خواب کے ذریعے بشارت ملی ہے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے ، تم جو کچھ مانگ سکتے ہو ، اللہ رب العزت سے مانگ لو ۔ اگر وہ آپ کو بتائے تو آپ کیسے دعا مانگیں گے؟ بڑی عاجزی وانکساری کے ساتھ رو رو کر اللہ رب العزت سے سب کچھ مانگیں گے کیونکہ دل میں یہ استحضار ہو گا کہ اللہ کے ایک ولی نے ہمیں بتادیا ہے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے ۔ جب ایک ولی بتائے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے تو ہم اتنے شوق کے ساتھ دعا مانگیں گے اب ذرا سوچئے کہ ولیوں اور نبیوں کے سردار، اللہ تعالیٰ کے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا کہ روزہ دار آدمی کی افطار کے وقت اللہ تعالیٰ دعائیں قبول فرماتے ہیں تو ہمیں افطاری کے وقت کتنے شوق اور لجاجت سے اور پر امید ہو کر اللہ رب العزت سے دعائیں مانگنی چاہئیں ۔
مگر ہوتا کیاہے ۔ عصر کا وقت شروع ہوا… بس اس کے بعد سے افطاری شروع ہو گئی… افطاری بنائی جا رہی ہے … مشورے دئیے جا رہے ہیں ۔ اس میں کباب بھی ہونے چاہیں ، سموسے بھی ہونے چاہیں ، پھل بھی ہونے چاہیں، فلاں بھی ہونا چاہیے ۔ دس پندرہ منٹ پہلے دستر خوان پہ لگا کے بس اس کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں ۔ اتنی بھی توفیق نہیں کہ دعا ہی مانگ لیں ۔ یہ لانا وہ لانا … یہ رہ گیا وہ رہ گیا… اور اسی میں افطاری کا قیمتی وقت گزر جاتا ہے ۔ ہونا یہ چاہیے کہ وہ جو افطاری کاآخری آدھا گھنٹہ ہے اس آدھے گھنٹے میں خوب توجہ الی اللہ کے ساتھ بیٹھیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی حاجات بیان کریں اور اپنی دنیا و آخرت کی اور جان و ایمان کی سلامتی کی دعائیں کریں۔
ویسے بھی دستور یہ ہے کہ اگر آپ کسی آدمی کو مزدوری کرنے گھر لائیں اور وہ سارا دن پسینہ بہائے اور شام کے وقت گھر جاتے ہوئے آپ سے مزدوری مانگے تو آپ اس کی مزدوری کبھی نہیں روکیں گے ، حالانکہ ہمارے اندر کتنی خامیاں ہیں ۔ بغض ہے، کینہ ہے، حسد ہے ، بخل ہے ، لیکن جو ہمارے اندر تھوڑی سی شرافت نفس ہے وہ اس بات کو گورا نہیں کرتی کہ جس بندے نے سارا دن محنت کی ہے ہم اس کو شام کے وقت مزدوری دیئے بغیر خالی بھیج دیں ۔ اگر ہمارا دل یہ نہیں چاہتا تو جس بندے نے اللہ کے لئے بھوک اور پیاس برداشت کی اور افطاری کے وقت اس کا مزدوری لینے کا وقت آئے تو کیا اللہ تعالیٰ بغیر مزدوری دیئے اس کو ٹرخا دیں گے۔ ہرگز نہیں ۔ اس لیے صدق یقین کے ساتھ افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں گے۔
حدیث شریف میں اس بات کی ترغیب آئی ہے کہ رمضان شریف میں استغفار کی کثرت کریں ،جنت کی طلب کریں اور جہنم سے پناہ مانگیں۔ لہٰذ اپنی دعائوں میں ان تینوں چیزوں کو بار بار مانگیں۔ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ بامراد فرمائیں گے۔
*(۴) تلاوت قرآن مجید کی کثرت*
رمضان المبارک کو قرآن پاک سے خاص نسبت ہے کیونکہ قرآن مجید اسی مہینے میں نازل کیا گیا۔
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنَ (البقرۃ : ۱۸۵)
(رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیاگیا)
اس سے پہلے بھی جتنی آسمانی کتابیں اورصحیفے آئے وہ بھی اسی مہینے میں نازل ہوئے۔ معلوم ہوا کہ اس مہینے کو کلامِ الٰہی سے خاص نسبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک اس مہینے میں کثرت سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اس مہینے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ پورے قرآن پاک کا دور کیا کرتے تھے۔ اصحاب رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے لے کر آج تک یہ روایت چلی آرہی ہے کہ اس ماہ قرآن پاک کی تلاوت کثرت سے کی جاتی ہے۔ ہمارے بہت سے اکابر اس ماہ میں ایک دن میں ایک قرآن پاک اور بعض دو قرآن پاک بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔ لہٰذا ہمیں بھی اپنے اکابر کی اتباع میں کثرت تلاوت کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ وقت قرآن پاک کی تلاوت کرنی چاہیے۔
سلف صالحین کے واقعات
سلف صالحین اس مہینہ کی برکات سے کیسے فائدہ اٹھاتے تھے اس کی چند مثالیں عرض کی جاتی ہیں ۔ تاکہ ہمیں بھی اندازہ ہو جائے کہ ہمارے اسلاف یہ مہینہ کیسے گزارتے تھے ۔
*امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا معمول :*
امام اعظم ابو حنیفہؒ کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ آپ رمضان المبارک میں 63 مرتبہ قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے تھے ۔ ایک قرآن پاک دن میں پڑھتے تھے ۔ ایک قرآن پاک رات میں پڑھتے تھے اور تین قرآن پاک تراویح میں سنا کرتے تھے …رمضان المبارک میں 63 قرآن پاک …60قرآن پاک دن اور رات میں اور 3 قرآن تراویح کی نماز میں… اللہ اکبر !
*حضرت رائے پوریؒ کا معمول:*
حضرت رائے پوریؒ کے معمولات میں لکھا ہے ۔ جب ۲۹ شعبان کا دن ہوتا تھا تو اپنے مریدین ومتوسلین کو جمع فرما لیتے اور سب کو مل لیتے اور فرماتے کہ بھئی! اگر زندگی رہی تو اب رمضان المبارک کے بعد ملاقات ہوگی اور اپنے ایک خادم کو بلاتے اور اسے ایک بوری دے دیتے اور فرماتے کہ رمضان المبارک میں جتنے خطوط آئیں وہ سب اس بوری میں ڈال دینا، زندگی رہی تو رمضان المبارک کے بعد ان کو کھول کر پڑھیں گے۔ رمضان المبارک میں ڈاک نہیں دیکھا کرتے تھے، فرماتے تھے کہ یہ مہینہ بس میں نے اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے ۔ اگر زندگی رہی تو اس کے بعد پھر دوستوں سے ملاقات ہو گی۔ آپ کے ہاں پورا رمضان المبارک اعتکاف کی حالت میں گزارنے کا معمول تھا، ۲۹ شعبان کے دن جو شخص آپ کی مسجد میں بستر لے جاتا اس کو مسجد میں بستر لگانے کی جگہ نہیں ملاکرتی تھی۔ دور دراز سے لوگ رمضان المبارک کا مہینہ وہاں گزارنے کے لئے آتے تھے اور پورا رمضان المبارک عبادت اور یاد الٰہی میں گزار دیا کرتے تھے ۔
*حضرت مولانا محمد زکریاؒ کا معمول:
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمۃ اللہ علیہ اپنے بارے میں فرماتے تھے ’’میں اکابرین ہی کے نقش قدم پر رمضان المبارک یکسوئی کے ساتھ عبادت میں گزار ا کرتا تھا ۔ میرا معمول تھا کہ میں سارا دن قرآن پاک کی تلاوت میں لگا رہتا ۔ کچھ وقت نوافل وغیرہ میں گزرتا ۔ میرا ایک دوست جو کسی دوسرے محلے میں رہتا تھا وہ رمضان المبارک میں ملنے آیا ۔ اسے میرے معمولات کا اندازہ نہیں تھا۔ اس نے سلام کیا ۔ میں نے سلام کا جواب دیا پھر اپنے کمرے میں آکر تلاوت شروع کر دی۔ وہ بھی میرے پیچھے پیچھے کمرے میں آگیا، وہ انتظار میں بیٹھا رہا۔ میں تلاوت کرتا رہا حتیٰ کہ عصر کا وقت ہو گیا ۔ عصر کی اذان ہوئی تو میں پھر نماز کے لئے کھڑا ہوا ۔ ہم دونوں نے آکر نماز پڑھی، نماز کے بعد فارغ ہوتے ہی میں سیدھا اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا اور تلاوت شروع کر دی ۔ وہ پھر کمرے میں آیا (وہ دوست تھا بچپن کا ، بڑا بے تکلف دوست تھا )اس نے کمرے میں آکر دیکھا تو میں پھر تلاوت شروع کر بیٹھا تھا وہ تھوڑی دیر انتظار کرتا رہا پھر کہنے لگا ’’بھئی !رمضان المبارک تو ہمارے پاس بھی آوے مگر یوں بخار کی طرح نہیں آوے۔ ‘‘
یعنی اس کا اندازہ تھا کہ ان پر تو رمضان یوں آتا ہے جیسے کسی کو بخار چڑھ جاتا ہے اور فرماتے تھے کہ واقعی مجھے پورا مہینہ جذبہ رہتا تھا ۔ اللہ اکبر ۔
*حضرت شیخ الہند ؒ کا معمول :*
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ کی نماز تراویح اس وقت ختم ہوتی جب سحری کا وقت ہو جاتا تھا ، چنانچہ تراویح ختم کرتے ہی سحری کھاتے اور ساتھ ہی فجر کی نماز کے لئے تیار ہو جاتے تھے، ساری رات عبادت میں گزار دیتے۔ ایک مرتبہ کئی دن مسلسل مجاہدے میں گزرگئے تو گھر کی مستورات نے محسوس کیا کہ حضرتؒ کی طبیعت میں نقاہت اور کمزوری ہے ایسا نہ ہو کہ طبیعت زیادہ خراب ہو جائے۔ تو انہوں نے منت سماجت کی کہ حضرت! آپ درمیان میں ایک رات وقفہ کر لیں طبیعت کو کچھ آرام مل جائیگا پھر دس پندرہ دن گزر جائیں گے۔ لیکن حضرت فرمانے لگے کہ معلوم نہیں کہ آئندہ رمضان کون دیکھے گا اور کون نہیں دیکھے گا۔ گھر کی مستورات نے کسی بچے کے ذریعے قاری کو پیغام بھجوایا کہ ’’قاری صاحب! آپ کسی رات بہانہ کردیں کہ میں تھکا ہوا ہوں ، آرام کرنے کو جی چاہتا ہے ‘‘ (حضرت ؒ کی عادت شریفہ تھی کہ دوسروں کے عذر بڑی جلدی قبول کر لیا کرتے تھے ) قاری صاحب نے کہا، بہت اچھا ۔ وہ میرے شیخ ومرشد ہیں ،ان پر اس وقت کمزوری اور ضعف غالب ہے تو چلو آج کی رات ذرا آرام میں گزر ے گی۔ قاری صاحب تراویح پڑھانے کے لئے آئے تو کہنے لگے کہ حضرت! آج میری طبیعت بہت تھکی ہوئی ہے اسلئے آج میں زیادہ تلاوت نہیں کر سکوں گا ۔ حضرتؒ نے فرمایا ہاں بہت اچھا ، آپ بالکل تھوڑی سی تلاوت کریں۔ قاری صاحب نے ایک دوپارے سنا کر اپنی تراویح مکمل کر دی تو حضرتؒ نے فرمایا : قاری صاحب! آپ تھکے ہوئے ہیں اب آپ گھر نہ جائیے بلکہ یہیں میرے بستر پر سو جائیں ۔ قاری صاحب کو مجبوراً تعمیل کرنا پڑی ۔ حضرت کے بستر پر لیٹ گئے حضرت نے فرمایا قاری صاحب! آپ بالکل آرام کریں اور سو جائیں ۔ پھر لائٹ بجھا دی اور کواڑ بند کر دئیے، قاری صاحب فرماتے ہیں کہ جب تھوڑی دیر کے بعد میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ کوئی بندہ میرے پائوں دبا رہا ہے مٹھی چاپی کر رہا ہے۔ میں حیران ہو کر اٹھ بیٹھا جب قریب ہو کر دیکھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میرے پیرو مرشد حضرت شیخ الہندؒ اندھیرے میں بیٹھے میرے پائوں دبارہے ہیں۔ میں نے کہا ، حضرت! آپ نے یہ کیا کیا ؟ فرمانے لگے کہ قاری صاحب! آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ میں تھکاہوا ہوں تو میں نے سوچا کہ چلو میں آپکے پائوں دبا دیتا ہوں آپ کو کچھ آرام مل جائیگا ۔ قاری صاحب کہنے لگے حضرت! اگر آپ نے رات جاگ کر ہی گزارنی ہے تو چلیں میں قرآن سناتا ہوں آپ قرآن ہی سنتے رہیں رات یوں بسر ہو جائیگی۔ چنانچہ قاری صاحب پھر مصلے پر آگئے انہوں نے قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔ حضرت نے قرآن سننا شروع کر دیا … اللہ اکبر !
مستورات کا قرآن سے لگاؤ
حضورشیخ الہند ؒ کے ہاں مستورات بھی تراویح میں قرآن پاک سنا کرتی تھیں،آپ کے صاحبزادے قرآن پاک سناتے تھے اور پردے کے پیچھے گھر کی مستورات اور بعض دوسری عورتیں جماعت میں شریک ہو جایا کرتی تھیں ۔ ایک دن حضرت کے صاحبزادے بیمار ہوگئے تو حضرت نے کسی اور قاری صاحب کو بھیج دیا۔ قاری صاحب نے تراویح میں چار پارے پڑھے ۔ جب سحری کے وقت حضرت گھر تشریف لے گئے تو گھر کی عورتیں بڑی ناراض ہوئیں ۔ کہنے لگیں ۔ حضرت ! آج آپ نے کس قاری صاحب کو بھیج دیا ۔ اس نے تو بس ہماری تراویح خراب کر دی ۔ پوچھا کیوں کیا ہوا؟ کہنے لگیں پتہ نہیں اس کو کیا جلدی تھی بس اس نے چار پارے پڑھے اور بھاگ گئے، پھر پتہ چلا کہ یہ عورتیں رمضان المبارک میں تروایح کی نماز میں سات قرآن پاک سنا کرتی تھیں۔ جی ہاں ، کئی خانقاہوں پر تین قرآن پاک تراویح میں پڑھنے کا معمول رہا ہے ،کئی خانقاہوں پر پورا رمضان المبار ک اعتکاف کرنے کا معمول رہا ہے، ہمارے سلف صالحین یوں مجاہدہ کیا کرتے تھے یہ رمضان المبارک کمانے کا مہینہ ہے اپنے جسم کو تھکانے کا مہینہ ہے ۔
اللہ کو راضی کرنے کا طریقہ:
سلف صالحین اللہ جل شانہ کو راضی کرنے کے لئے یوں عبادت کیا کرتے تھے۔ جیسے کوئی کسی روٹھے ہوئے کو مناتا ہے ۔ سبحان اللہ ! روٹھے ہوئے رب کو مناتے تھے۔ اگر کوئی غلام بھاگ جائے اور پھر پکڑا جائے تو وہ اپنے مالک کے سامنے آتا ہے تو کیا کرتا ہے ؟ وہ اپنے مالک کے سامنے آکر ہاتھ جوڑ دیتا ہے اپنے مالک کے پاؤں پکڑ لیتا ہے اور کہتا ہے میرے مالک آپ در گزر کر دیں آئندہ میں احتیاط کروں گا۔ میرے دوستو! رمضان المبارک میں ہم اللہ رب ا لعزت کے سامنے اسی طرح اپنے ہاتھ جوڑ دیں، سر بسجود ہو جائیں اور عرض کریں کہ اے اللہ ہم نادم ہیں ، شرمندہ ہیں ، جو کوتاہیاں اب تک کر بیٹھے ہیں ان کو تو معاف کر دے ۔ آئندہ زندگی ہم تقویٰ اور پرہیز گاری کے ساتھ گزارنے کی کوشش کریں گے ۔
آمین یا رب العالمین