گیارہ شوال تین ھجری یومِ غزوۂ اُحد ۔۔ اسلام کا دوسرا معرکہ حق و باطل

 


غزوۂ اُحد کا پسِ منظر


کعب بن اشرف کا قتل 

بدر میں مسلمانوں کی شاندار فتح کی خبر سے مدینہ کے یہود کو سخت صدمہ پہنچا ایک تو وہ تصور ہی نہیں کر سکتے تھے کہ مسلمان قریش جیسی عظیم قوت کو شکست دے سکتے ہیں ، دوسرے انہیں مسلمانوں کی عسکری قوت کا بھی اندازہ ہو گیا تھا چنانچہ وہ پہلے سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے لگے ان باغیانہ سرگرمیوں کا سرغنہ یہود کا ایک سردار کعب بن اشرف تھا ۔وہ مسلمان عورتوں کے فرضی عشقیہ قصے بیان کرتا اور اپنے شعروں میں حضور پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کی ہجو یعنی برائی بیان کرتا ۔قریش کی شکست کی خبر سن کر اس سے رہا نہ گیا وہ بدر کے مقتولین کے افسوس کے لئے مکہ مکرمہ گیا ان کے مرثیے کہے پھر مختلف قبائل کا دورہ کرکے مسلمانوں سے بدلہ لینے پر اکسایا ۔چنانچہ حضور آکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے اس سازشی کی نیت کو بھانپتے ہوئے اس کا خاتمہ ضروری سمجھا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے ایک صحابی محمد بن مسلم رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں ایک چھوٹی سی چھاپا مار جماعت کو اس کے خلاف بھیجا ۔انہوں نے کعب بن اشرف کو قتل کر دیا اس سے یہود میں خوف پھیل گیا اور انہوں نے تحریری طور پر عہد کیا کہ آئندہ ایسی حرکتوں اور باغیانہ سرگرمیوں سے باز رہیں گے ۔


قریشِ مکہ کی تیاریاں

قریش مکہ کو شکست ہوئی تو بدلہ لینے کے لیے فیصلہ کن اور منظم جنگ کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہو گئے، افرادی اور معاشی قوت کو جمع کرنے کے لیے مسلسل محنت شروع کر دی۔بدر میں مسلمان جس قافلے کے لیے نکلے تھے وہ ابوسفیان کی معیت میں بچ نکلا اور مکہ پہنچ گیا یہ قافلہ جو مال تجارت لے کر آیا تھا قریش مکہ کو اس میں بہت نفع ہوا انہوں نے اس بات پر مشورہ کیا کہ جتنا نفع ہوگا وہ سب اس جنگ میں لگائیں گے۔مشورہ کی مخصوص جگہ ”دارالندوہ“ میں اجلاس ہوا اور یہ طے ہوا کہ ارد گرد کے قبائل کو ساتھ ملایا جائے تاکہ فیصلہ کن جنگ ہو،خوب تیاری کی گئی۔ 3000 افراد پر مشتمل لشکر تیار ہوا جن میں سات سو زرہ پوش (جنگی لباس جو لوہے کا بنا ہوا ہوتا ہے) 3000 اونٹ، 200 گھوڑے شامل تھے۔ قریش اپنے ساتھ 15 خواتین بھی لائے تھے اور ان کو لانے کا مقصد یہ تھا کہ یہ عورتیں جنگی اشعار پڑھ کر اپنے نوجوانوں کو جنگ کے لیے بھڑکائیں گی۔کچھ اونٹ کھانے کے لیے کچھ باربرداری کے لیے جبکہ کچھ اونٹ اس نیت سے لائے تھے کہ واپسی پر مسلمانوں کے ا موال چھین کر ان پر لاد کر لے جائیں گے۔ 5 شوال المکرم کو قریشی لوگ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے۔


حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا قاصد

حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ مکہ میں موجود تھے، انہوں نے ایک تیز رفتار قاصد کو خط دے کر بھیجا کہ وہ جلدی پہنچ کر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کو کفار کے عزائم سے آگاہ کرے،وہ قاصد خفیہ راستوں سے ہوتا ہوا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے پاس مدینہ منورہ پہنچا۔

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے لشکر قریش کے حالات معلوم کرنے کے لیے دو انصاری صحابی حضرت انس اور حضرت مونس رضی اللہ عنہما کو بھیجا اور ان کے ساتھ حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کو لشکر کے افراد کی تعداد معلوم کرنے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے واپس آ کر اطلاع دی کہ ان کی تعداد 3ہزار کے لگ بھگ ہے۔


رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا خواب مبارک

دوسرے دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنا ایک خواب سنایا کہ ایک مضبوط قلعہ ہے، اس میں ایک گائے ہے، میرے ہاتھ میں تلوار ہے، میں نے اپنی تلوار کو ہلایا تو اس کا آگے کا حصہ ٹوٹ گیا،پھر میں نے دوبارہ ہلایا تو وہ صحت مند اور اچھی بھلی ہو گئی۔


رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے خواب کی تعبیر

پھر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے اپنے اس خواب کی تعبیر یہ بیان فرمائی کہ قلعہ سے مراد مدینہ ہے، گائے سے مراد مسلمانوں کا لشکر ہے اس کے ایک حصہ گرنے سے مراد مسلمانوں کی شہادت ہے۔تلوار کا ہلنا جنگ سے کنایہ ہے۔ اگلے حصے کا گرنا اس سے مراد جنگ کے حالات خراب ہونا/نقصان ہونا ہے،پھر گائے کا ٹھیک ہونا اس سے مراد ہے جنگ کے حالات کا دوبارہ ٹھیک ہوناہے


قریش کی تجارتی ناکہ بندی توڑنے کی کوشش

چونکہ قریش کی معیشت کا انحصار شام وعراق کی تجارت پر تھا بدر کی فتح کے بعد مسلمانوں نے شام اور مکہ کی قدیم تجارتی شاہراہ قریش بند کر دی تو انہیں مجبور عراق کی طرف رخ کرلیا۔ان کا ایک قافلہ بھاری مال و تجارت لے کر عراق کی طرف روانہ ہوا۔  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو اپنے جاسوسوں کے ذریعے بر وقت اس قافلے کی اطلاع مل گئی ۔قریش کو معاشی محاذ پر زک پہنچانے کا یہ بہت اچھا موقعہ تھا جس سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور حضرت زید بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں ایک دستہ نے کفار کے لاکھوں روپے کے سامان پر قبضہ کرلیا اس کاروان تجارت کے لٹ جانے کے بعد قریش پر شام و عراق کی دونوں شاہراہیں بند ہوگئیں چنانچہ معاشی بدحالی سے بچنے کے لئے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاریاں تیز کردیں ۔

عرب کی بیرونی اور اندرونی تجارت پر قریش مکہ کی اجارہ داری تھی جو ان کی خوشحالی کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھی مسلمانوں نے ان کی تجارتی شاہراہوں کی ناکہ بندی کرکے ان کی تجارتی اجارہ داری ختم کر دی اور دوسرے ان کی جگہ خود لے لی ۔اس کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ قریش کی جنگ کی تیاریوں کے لئے مال کی ضرورت تھی اور اس طرح ان کے وسائل محدود ہوگئے ۔



غزوۂ اُحد کے اسباب و وجوہات


1- جنگ بدر کے لیے محض عمر بن حضرمی کے قتل کو بہانہ بنایا گیا تھا لیکن میدان میں بڑے بڑے سردار مثلا ابوجہل ولید،عتبہ ،شیبہ وغیرہ مارے گئے تھے اب مکے کے نئے سردار ابوسفیان نے ان کا بدلہ لینے کے لیے جنگ کی تیاری شروع کر دی مکہ کے نئےسردار ابوسفیان نے بدر کے مقتولین کا بدلہ لینے کی قسم کھائی تھی شام سے آنے والے قافلے کا تمام سرمایہ جنگی تیاریوں کے لیے وقف کر دیا ۔شاعروں نے جذبات بھڑکانے والی نظمیں کہیں اور عورتوں نے طعنے دیے اس طرح ایک سال میں تین ہزار آدمیوں کی فوج لڑائی کے لیے تیار ہوگئی ۔


2-شام کی تجارتی شاہراہ جس پر مکے کی معیشت کا انحصار تھا اسے محفوظ کرنے کے لیے مدینہ کی حکومت کا خاتمہ ضروری سمجھا۔


3-مذہبی اور سیاسی اعتبار سے قریش کو تمام قبائل عرب پر خاص امتیاز حاصل تھا بدر کی شکست نے قریش کی شہرت کو بہت نقصان پہنچایا ۔اور قبائل عرب میں ان کی اہمیت کم ہو گی اس بات کا تقاضا تھا کہ اس کا بدلہ لے کر اپنے گرتے ہوئے وقار کو سنبھالا جائے ۔



میدانِ جنگ کے بارے مشاورت

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ فرمایا کہ مدینہ سے باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے یا مدینہ کے اندر رہ کر؟بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رائے یہ تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر ہی مقابلہ کیا جائے جبکہ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم(اکثر وہ حضرات تھے جو غزوہ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے)کی رائے یہ تھی کہ باہر نکل کر جنگ لڑی جائے۔ مدینہ کے اندر رہ کر لڑنے سے کفار قریش ہمیں کمزور سمجھیں گے۔اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہی خواہش تھی، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے قسم اٹھائی:اس اللہ کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی، میں اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک مدینہ سے باہر نکل کر ان کو مار نہ ڈالوں۔


منافقین کی رائے

اس موقع پر رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبَیّ ابن سلول بھی اپنے ساتھ 300 افراد لے کر اپنے غلط مقاصد حاصل کرنے کی غرض سے شریک ہوا۔ اس کی رائے یہ تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر جنگ کی جائے کیونکہ یہ مدینہ کی تاریخ ہے کہ مدینہ کے رہنے والوں نے جب بھی اندر رہ کر جنگ لڑی ہے ان کو فتح ملی ہے۔



غزوہ اُحد کے واقعات اور تفصیل


جمعہ کے دن شوال 3ھ کو کفارِ مکہ کا لشکر مدینہ کے قریب وادی قناۃ پہنچ گیا۔ کچھ مسلمانوں کا خیال تھا کہ مدینہ کے اندر رہ کر کفار کا مقابلہ کیا جائے لیکن حضرت حمزہؓ جیسے صحابہ اس بات پر مُصر تھے کہ مدینہ سے باہر کھلے میدان میں کفار سے لڑائی کی جائے



اُحد کی طرف روانگی

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے جمعہ کے دن عصر کے بعد فیصلہ فرمایا کہ مدینہ سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  گھر تشریف لے گئے اور جنگ کی تیاری فرمائی چنانچہ1000 کا لشکر نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی قیادت میں مدینہ سے اُحُد کی طرف نکلا۔ جس میں صرف2گھوڑے تھے، ایک نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے پاس جبکہ دوسرا حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے حضرت عبداللہ بن اُمّ مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ کا قائم مقام حاکم بنایا۔لشکر ِاسلام مغرب سے پہلے مدینہ منورہ  سے نکلا اور شیخین کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔


رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کی غداری

اس موقع پر عبداللہ بن اُبَیّ منافق اپنے ساتھ 300 افراد لے کر یہ کہتے ہوئے واپس چلا گیا کہ جنگ ہمارے مشورے کے مطابق نہیں ہے، اس لیے ہم اس میں اپنا نقصان نہیں کرنا چاہتے۔


صف بندی اور دو بدو لڑائی

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے صف بندی فرمائی۔سامنے مدینہ منورہ پشت کی جانب اُحُد پہاڑ تھا، محفوظ طریقہ پر صفیں بنائی گئیں۔ مشرکین کی طرف سے سب سے پہلے مبارزت(میدان میں مقابلے کے لیے اپنے فریق کو للکار کرلڑنے کی دعوت دینا)کرتے ہوئے میدان میں طلحہ بن ابی طلحہ اترا،مقابلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ میدان میں اترے اور اس کو قتل کیا، اس کے بعد عثمان بن ابی طلحہ میدان میں آیا تو اس کے مقابلے میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ میدان میں اترے اور اسے قتل کیا پھر ابو سعد بن ابی طلحہ آیا تو اس کے مقابلے میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ میدان میں اترے اور اسے قتل کر دیاپھر اس کے بعد عمومی جنگ شروع ہوئی اور افراتفری مچ گئی۔


جبلِ رماۃ پر مقرر دستہ

اُحدپہاڑ کی ایک طرف دَرَّہ ہے جو جبلِ رماۃ کے نام سے معروف ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ پچاس تیر اندازوں کو مقرر فرمایا اور تاکید کی کہ جب تک میرا حکم نہ ہو آپ لوگوں نے یہاں سے ہٹنا نہیں، چاہے فتح ہو یا شکست۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انتہائی جانثاری اور جوانمردی کے ساتھ کفار سے لڑتے رہے اور مشرکین بھاگنے پر مجبور ہوگئے کچھ مسلمان ان کو بھگا رہے تھے اور کچھ مال غنیمت اکٹھا کر رہے تھے۔دَرَّہ پر مقرر تیر انداز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اکثر نیچے اتر کر اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مل کر غنیمت اکٹھی کرنے لگے۔ دوسری طرف خالد بن ولید جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے درہ خالی دیکھا اور اچانک حملہ کردیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی درّے سے نیچے اُترنے کی وجوھات 

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا حکم تھا کہ جب تک میں نہ کہوں آپ نے یہاں سے نہیں ہلنا چاہے، فتح ہو یا شکست۔اس کے باوجود وہ نیچے کیوں اترے؟ پہلی بات یہ ہے کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجتہاد تھا اور اس میں خطا سرزد ہوگئی۔ اللہ رب العزت نے ان کی اس اجتہادی خطا کو معاف فرما دیا ہے۔ لہٰذا ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ان پر اعتراض کریں۔قرآن کریم میں ہے 

اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَلَّوۡا مِنۡکُمۡ یَوۡمَ الۡتَقَی الۡجَمۡعٰنِ ۙ اِنَّمَا اسۡتَزَلَّہُمُ الشَّیۡطٰنُ بِبَعۡضِ مَا کَسَبُوۡا ۚ وَ لَقَدۡ عَفَا اللّٰہُ عَنۡہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿۱۵۵}

جو لوگ تم میں سے احد کے دن جبکہ مومنوں اور کافروں کی دو جماعتیں ایک دوسرے سے گتھ گئیں جنگ سے بھاگ گئے تو ان کے بعض افعال کے سبب شیطان نے ان کو پھسلا دیا تھا۔ مگر اللہ نے ان کا قصور معاف کر دیا۔ بیشک اللہ بخشنے والا ہے بردبار ہے

( (سورۃ آل عمران)) 

ہمارا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین محفوظ ہیں۔ محفوظ ہونے کا معنی یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک سے بشری تقاضوں کے مطابق کبھی کوئی گناہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان کے ذمے میں وہ گناہ باقی نہیں رہنے دیتے یعنی دنیا میں اس گناہ سے معافی اور اس گناہ کی وجہ سے ملنے والے اُخروی عذاب سے ان کو محفوظ فرما لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے معاف فرما دینے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر الزام درست نہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنگ کی ابتداء سے مورچے پرمامور تھے، انہیں میدان میں اتر کر لڑائی کا موقع ہی نہ ملا، اگرچہ مورچہ سنبھالنے کا اور پہرے کا ثواب ملا ہے لیکن انہوں نے یہ سمجھا کہ ہمیں میدان میں اتر کر بہادری کے ساتھ لڑنے اور کفار کو بھگانے والی شجاعت کا ثواب نہیں مل رہا۔ اب جب انہیں دشمن کے بھاگ جانے کا اور لشکر اسلام کے فتح یاب ہونے کا یقین ہوا تو وہ نیچے اتر آئے تاکہ دونوں اجر حاصل کر سکیں۔ مورچہ پر پہرے دینے والا بھی اور میدان میں جہاد و قتال کرنے والا بھی۔ جب کفار میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس مبارک جذبے کے تحت درے سے نیچے اترے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ مال غنیمت جمع کرنا شروع کر دیا، اس بابرکت کام میں ان کی مدد کرنے لگے۔اس وجہ سے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید درست نہیں۔


صحابہ کرام رضوان  اللہ علیہم  سے اللہ تعالی کی بے پناہ محبت

صحابہ کرام  قُربِ خدا اور قُربِ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کےاس مقام پر فائز تھے کہ جہاں ان کی صورتاً لغزش پر بھی محبوبانہ عتاب نازل ہوا۔ لیکن جہاں یہ محبوبانہ عتاب نازل ہوا اسی کے متصل بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کا اعلان بھی کر دیا اور محبت کی شدت اور انتہاء کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ تسلی پر اکتفا نہ فرمایا بلکہ فوراً ساتھ دوسری مرتبہ بھی ازراہ شفقت مزید فرمایا کہ بخش دیا ہے۔ اور یہ وہاں ہوتا ہے جہاں محبت بہت زیادہ ہو تاکہ کمال محبت کا اظہار ہو جائے۔یہ واقعہ تکوینی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کرایا گیا تاکہ خدا تعالیٰ کی ان سے محبت سب کے سامنے آشکار ہو سکے،ان سے محبت خداوندی کا اظہار ان کے لیے اعزاز ہے، ان پر الزام نہیں۔



جنگ میں افراتفری کی کیفیت 

خالد بن ولید جو کہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے شدید حملہ کر دیا جس کے بعد مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا۔ صرف دس افراد درہ پر باقی بچے تھے اور گیارہویں حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ تھے سب شہید ہو گئے۔ اب جیتی ہوئی جنگ بظاہر ہاتھ سے نکل گئی۔اس افراتفری کی شدید کیفیت میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی حفاظت کے لیے چند مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے۔


حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب بھی اس جنگ میں شریک تھے،آپ کو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اَسَدُ اللہِ وَاَسَدُ رَسُوْلِہ(یعنی اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا شیر)قرار دیا تھا۔

غزوہ بدر میں جبیر بن مطعم کے چچا طُعَیْمہ بن عدی کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا جبیر کو اس کا بہت صدمہ تھا۔ انتقام کے طور پر جبیر نے اپنے غلام وحشی بن حرب سے کہا کہ اگر تو میرے چچا کے قاتل حمزہ (رضی اللہ عنہ)کو قتل کرے تو تو آزاد ہے چنانچہ جب کفارقریش غزوہ احد کے لیے مکہ سے روانہ ہوئے تو وحشی بھی ان کے ہمراہ چل پڑے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جنگ اُحد میں بڑی جوانمردی سے لڑ رہے تھے، جب جنگ اُحد شروع ہوئی تو کفار کی طرف سے سباع بن عبدالعزیٰ میدان میں للکارتا ہوا آیا تو اس کے مقابلہ کے لیے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے اترے۔ اے سباع!اے عورتوں کے ختنے کرنے والی عورت کے بیٹے! تو اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے مقابلہ کرے گا پھر اس پر تلوار سے وار کیا اور ایک ہی وار سے اسے واصل جہنم کردیا۔ وحشی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی تاک میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا ہوا تھا جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس کے قریب سے گزرے تو اس نے پیچھے کی طرف سے حملہ کردیا اور نیزہ مارا جو کہ ناف کی طرف سے پار ہو گیا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس حملے کی شدت کی وجہ سے تھوڑی ہی دیر بعد شہید ہوگئے۔

جنگ بدر میں ابو سفیان کی بیوی ہندہ کا باپ عتبہ اور چچا شیبہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور اس کے بھائی ولید کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے قتل کیا تھا اس لیے وہ انتقام کی آگ میں جل رہی تھی اس نے حبشی غلام وحشی کو انعام کا لالچ دے کر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کرنے پر آمادہ کر لیا ۔وہ نیزہ پھینکنے میں بہت ماہر تھا اس نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کردیا ۔ہندہ نے جوشِ انتقام میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا پیٹ چاک کرکے کلیجہ نکال کر دانتوں تلے چبا ڈالا ۔ 


رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے دندان مبارک شہید

عُتبہ بن ابی وقاص جو کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے۔ انہوں نے اس افرا تفری کی حالت میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  پر حملہ کردیا اور پتھر پھینکا جس سے آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے دندان مبارک شہید اور نچلا ہونٹ مبارک زخمی ہو گیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جتنا حریص اپنے بھائی کے قتل کا ہوں اتنا کسی کے قتل کا نہیں۔


رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے رخسار مبارک اور سر مبارک زخمی

عبداللہ بن قَمِءَہ نے بھی رحمتِ دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  پر حملہ کیا یہ قریش کا مشہور پہلوان تھا اس نے اتنی شدت سے حملہ کیا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے رُخسار مبارک زخمی ہوگئے اور خَود(لوہے کی بنی ہوئی جنگی ٹوپی) کے دو حلقے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کے مبارک چہرے میں گھس گئے۔عبد اللہ بن شہاب (جو بعد میں مسلمان ہو گئے) نے پتھر مارا جس سے پیشانی مبارک زخمی ہوئی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے زخموں سے خون بہنے لگا جس کو حضرت مالک بن سنان رضی اللہ عنہ(جو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے والد ہیں) نے چوس کر نگل لیا۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا:جس کے خون میں میرا خون بھی شامل ہو جائے اس پر جہنم کی آگ اثر نہیں کرے گی۔


تیر چلاؤ!میرے ماں باپ آپ پر قربان

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بڑے ماہر تیر انداز تھے۔ اُحُد کے دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اپنے ترکش سے تیر نکال کر ان کو دیے اور فرمایا: تیر چلاؤ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔اس دن حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار تیر چلائے۔


ابی بن خلف کا قتل

دشمنِ اسلام ابی بن خلف جس نے ایک گھوڑا اس نیت سے پالا تھا کہ اس پر سوار ہو کر حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کو قتل کروں گا (نعوذ باللہ) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو اس بات کی خبر پہنچی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا اس کو میں ہی قتل کروں گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ احد والے دن جنگ کے دوران آمناسامنا ہوا تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اپنے پاس کھڑے ایک صحابی سے نیزہ لیا اور اس کی گردن پر دے مارا جس سے وہ چیختا چلاتا وہاں سے دوڑا اور وہ دوڑتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ اللہ کی قسم محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے مجھے قتل کر ڈالا ہے۔ اس کے ساتھیوں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اتنا معمولی سا زخم ہے اس پر اتنا چیخ رہا ہے، یہ کوئی اتنا بڑا اور گہرا زخم بھی نہیں۔ تو وہ کہنے لگا کہ کیا تم جانتے نہیں کہ محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے مکہ میں کہا تھا کہ میں تجھے قتل کروں گا اور اللہ کی قسم اگر یہ تکلیف تمام عرب میں تقسیم کر دی جائے تو سب لوگ مر جائیں گے مقام سَرِف میں اسی تکلیف سے مر گیا۔ دنیا کے دو انسان سب سے زیادہ بد بخت اور بد نصیب ہیں ایک وہ جوکسی نبی کو شہید کرے،دوسرا وہ جسے نبی اپنے ہاتھوں سے قتل کرے۔

اس غزوہ میں ابتداً مسلمان فاتح ہوگئے اور پھر درمیان میں کچھ نقصان ہوا، اس کے بعد اللہ تعالی نے فضل فرمایا اور مسلمان سنبھل گئے مزید نقصان نہ ہوا۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے عقیدت، محبت اور ان کی اطاعت نصیب فرمائے۔( آمین )اگرچہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی ان کے پاس ہتھیار بھی کافی نہ تھے لیکن جوشِ ایمانی سے انہوں نے ایسے جنگ کی کہ کفار کے قدم اکھڑ گئے اور وہ میدان سے بھاگ نکلے ۔اس پر مسلمانوں نے ان کا پیچھا کرنے کی بجائے غنیمت کا مال جمع کرنا شروع کر دیا۔ درے پرجن پچاس صہابہ کرام  کو آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے مقررکیا تھا وہ بھی مال غنیمت جمع کرنے میں شریک ہوگئے ان کے سردار نے کافی سمجھایا کہ حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے حکم کے بغیر کسی حال میں تم اس جگہ سے نہیں ہٹ سکتے لیکن انہوں نے ایک نہ سنی ۔خالد بن ولید جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے درے کو خالی دیکھا تو اپنے سو سواروں کو ساتھ لے کر پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کردیا اب سامنے سے بھی دشمن پلٹ آیا اور مسلمانوں کو اچانک آگے پیچھے دونوں طرف سے دشمن کا مقابلہ کرنا پڑا ۔اس بدحواسی میں مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی آپ کفار کا سارا زور حضور پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی جانب تھا کہ کس طرح سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو شہید کرتے ہیں ۔اس پر صحابہ کرام کی ایک بہادر جماعت نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو گھیرے میں لے لیا اسی اثناء میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہوگئے چونکہ ان کی صورت حضور پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   سے کافی ملتی تھی ۔اس لیے کفار نے شور مچادیا کہ نعوذباللہ حضور  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  شہید ہو گئے اس پر مسلمانوں نے شدت سے جنگ شروع کر دی کہ حضور پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعد زندہ رہ کر کیا کریں گے ۔اسی دوران ایک صحابی کی نظر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  پر پڑی اس نے دوسروں کو آگاہ کیا کہ حضور پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ہم میں موجود ہیں اس پر کچھ اور لوگ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے گرد جمع ہوئے ۔کفار ہر طرف سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  پر حملہ کر رہے تھے لیکن جانثار صحابہ ہر وار کو اپنے اوپر برداشت کرتے۔ اسی اثناء میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا چہرہ مبارک زخمی ہوا دو دندان مبارک شہید ہو گئے اور خود کی کڑیاں چہرے میں چبھ گئیں لیکن اس حالت میں بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کی زبان مبارک پر جو الفاظ تھے وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی وسعت قلبی کی واضح دلیل ہیں :


" اے خدا میری قوم  کو معاف فرما وہ نادان ہے اور نہیں جانتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں "


چند جانثار صحابہ کرام آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو لے کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے کفار نے پیچھا کرنا چاہا لیکن پتھر برسا کر ان کا حملہ پسپا کر دیا گیا اس پر ابو سفیان ایک پہاڑی پر چڑھ کر دیوتا کے نعرے لگانے لگا جواب میں مسلمانوں نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے 



غزوۂ اُحد میں صحابیات کا کردار 

جنگ احد میں مسلمان خواتین نے جن میں امِ سلیط، امِ سلیم، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھما شامل تھیں۔  زخمیوں کو پانی پلانے کی خدمات سرانجام دیں ۔کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  زخمی ہوگئے تھے اس لئے آپ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا میدان میں پہنچ گئی اور آپ رضی اللہ تعالی عنھا نے زخموں کو دھو کر ان پر چٹائی کا ٹکڑا جلا کر رکھا اس پر پٹی باندھی جس سے خون بہنا بند ہو گیا اسی طرح ایک انصاری خاتون کو یکے بعد دیگرے ان کے باپ، بھائی اور شوہر کی شہادت کی خبر ملی لیکن وہ حضور پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بارے میں پوچھتی تھیں جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو سلامت دیکھا تو کہا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  خیریت سے ہیں تو پھر سب کی تکلیفیں ہیچ ہیں ۔

اس جنگ میں 70  صہابہ کرام  شہید ہوئے جن میں حضور پاک  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے جبکہ کفار کے ۳۷ آدمی مارے گئے ۔


شہداءِ  غزوہ اُحد

ابو ایمن

ابو حبہ انصاری

ابو سفیان بن حارث بن قیس

ابو ہبیرہ بن حارث

اصيرم

انس بن نضر

انیس بن قتادہ

اوس بن ارقم

اوس بن ثابت

ایاس بن اوس

ایاس بن عدی

ثابت بن عمرو انصاری

ثابت بن وقش

ثعلبہ بن ساعدہ

ثعلبہ بن سعد

ثقب بن فروہ

حارث بن انس بن مالک

حارث بن اوس بن معاذ

حارث بن ثابت

حارث بن عدی

حارث بن عقبہ

حباب بن قیظی

حبیب بن زید

حسیل بن جابر

حمزہ بن عبد المطلب

حنظلہ بن ابی عامر

خارجہ بن زید بن ابی زہیر

خداش بن قتادہ

خلاد بن عمرو بن الجموح

خنیس بن حذافہ

خیثمہ بن الحارث

ذکوان بن عبد قیس

رافع بن مالک

رفاعہ بن عمرو

رفاعہ بن وقش

سبیع بن حاطب

سعد بن ربیع

سعید بن سوید

سلمہ بن ثابت

سلیم بن عمرو

سہل بن قیس

شماس بن عثمان

صیفی بن قیظی

ضمرہ بن عمرو

عامر بن مخلد

عباد بن سہل

عبادہ بن خشخاش

عباس بن عبادہ

عبد اللہ بن جبیر

عبد اللہ بن جحش

عبد اللہ بن سلمہ

عبد اللہ بن عمرو بن حرام

عبد اللہ بن عمرو بن وہب

عبید بن تیہان

عبید بن معلی

عتبہ بن ربیع

عمارہ بن زیاد

عمرو بن جموح

عمرو بن قیس

عمرو بن مطرف

عمرو بن معاذ

عمروبن ایاس انصاری

عنترہ مولی سلیم بن عمرو

قیس بن عمرو

قیس بن مخلد

مالک بن ایاس

مالک بن سنان

مالک بن نمیلہ

مجذر بن زیاد

مصعب بن عمیر

نعمان بن عبد عمرو

نعمان بن مالک

نوفل بن ثعلبہ

وہب بن قابوس

کیسان انصاری

یزید بن حاطب

قیس بن زید

مالک بن امہ 

رضی اللہ تعالی عنھمُ


شھداءِ اُحد کی نمازِ جنازہ اور تدفین 

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن شہداء رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے پاس لائے گئے، تو آپ دس دس آدمیوں پر نماز جنازہ پڑھنے لگے، اور حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش اسی طرح رکھی رہی اور باقی لاشیں نماز جنازہ کے بعد لوگ اٹھا کر لے جاتے رہے، لیکن حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش جیسی تھی ویسی ہی رکھی رہی۔ [سنن ابن ماجه]

چند اہل مدینہ اپنے شہداء کو میدانِ جنگ سے مدینہ شہر لے آئے مگر حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے حکم دیا کہ شہداء  کو ان کے مقامِ شہادت پر ہی دفن کیا جائے۔ لہٰذا حضرت حمزہؓ کی قبر کے احاطے میں حضرت مصعب بن عمیرؓ (مسلمانوں کے پہلے سفیر)، حضرت عبداللہ بن جحشؓ اور حضرت شماس بن عثمانؓ کو دفن کیا گیا۔ مہاجرین میں سے یہ چار صحابہ شہادت کے رتبے سے ہمکنار ہوئے باقی 66 شہداء کا تعلق انصار سے تھا جن کی قبریں  الگ ہیں۔روایت ہے کہ حضرت حمزہؓ کی قبر کی زیارت کے لیے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کبھی کبھی تشریف لے جایا کرتے اور وہاں سب شہداء کے لیے دعائے مغفرت کیا کرتے تھے۔ 



Share: