عورت کی عبادات کی لذت شوھر کے حقوق سے مشروط ھے


اسلام سے پہلے عورت  کی کوئی اھمیت نہیں تھی بلکہ دوسری چیزوں کی طرح یہ بھی ایک طرح  کی ملکیت ھی سمجھی جاتی تھی اور معاشرے میں اس کے کوئی حقوق نہیں تھے ۔ اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان فرائض و حقوق کے اعتبار سے توازن قائم کیا اس طرح عورت کو جہاں اتنے زیادہ حقوق ملے جو اس سے پہلے کھبی نہیں ملے تھے اور نہ ھی  آج تک  کوئی مذھب  دے سکا  وھاں اس کو شوھر کے حقوق کی آدائیگی  کا بھی سختی سے پابند کیا گیا یہاں تک کہ اس کی عبادات میں ایمانی حلاوت کو شوھر کے حقوق کی آدائیگی کے ساتھ مشروط کر دیا گیا اور اُس کی نفلی عبادات میں شوھر کی آجازت اور رضامندی کو لازمی قرار دیا گیا چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ھے کہ ایک خاتون نے شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ شیخ محترم!  شادی سے قبل میں نماز اور روزے کی بہت پابند تھی۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے میں لذت محسوس کرتی تھی لیکن اب مجھے ان چیزوں میں ایمان کی وہ حلاوت نہیں مل پاتی۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے پوچھا میری مسلمان بہن ! مجھے یہ بتاؤ اپنے خاوند کے حقوق ادا کرنے اور اس کی بات ماننے کا آپ کس قدر اہتمام کرتی ہیں؟ وہ سائلہ حیرت سے کہنے لگی شیخ محترم ! میں آپ سے قرآن پاک  کی تلاوت٬ نماز ، اذکار ، تسبیحات اور روزے کی پابندی اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی حلاوت کے متعلق پوچھ رہی ہوں اور آپ مجھ سے میرے شوھر کے حقوق کے متلعق استفسار کر رہے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرمانے لگے میری بہن ! بعض خواتین اس لئے ایمان کی حلاوت  اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی لذت اور عبادت کا پرلطف اثر محسوس نہیں کر پاتیں کیونکہ وہ اپنے شوھر کے حقوق اور اُس کے آداب کا خیال نہیں رکھتیں کیونکہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا فرمان ھے 

*ولا تَجدُ المرأة حلاوة الإيمان حتَّى تؤدِّي حقَّ زوجها*  

کوئی بھی عورت اس وقت تک ایمان کی حلاوت نہیں پا سکتی جب تک وہ اپنے خاوند کے حقوق کما حقہ ادا نہ کر دے 

ایک حدیث مبارکہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا’’ اگر میں کسی کو کسی مخلوق کے لئے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے‘‘ (ترمذی)۔ 

کسی مخلوق پر کسی دوسری مخلوق کا زیادہ سے زیادہ حق بیان کرنے کے لئے اس سے زیادہ بلیغ اور مؤثر کوئی دوسرا عنوان نہیں ہوسکتا جو رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اس حدیث مبارکہ میں بیوی پر شوہر کا حق بیان فرماکر اختیار فرمایا ھے ۔ اس حدیث مبارکہ کا  مدعا یہی ھے کہ شادی کی بعد عورت پر اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہوجاتا ہے۔ اس لئے اسے چاہئے کہ اس کی فرمانبرداری اور رضا جوئی میں کوئی کمی نہ کرے ،اور ہمہ وقت اس کی خدمت کو عبادت سمجھے۔

حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ’’یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ! خاوند کاعورت پر کیا حق ہے ‘‘ارشاد فرمایا ’’وہ بلائے تو انکار نہ کر۔ اگرچہ تجھے کتنی ہی مصروفیت کیوں نہ ہو،اور رمضان کے سوا کوئی بھی روزہ اس کی اجازت کے بغیر نہ رکھ ،اور اس کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلنا۔ خود بخود نکلی تو رحمت کے فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک کہ لوٹ کر نہ آئے‘‘حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت کعبؓ کا یہ قول سنا ہے کہ قیامت کے دن عورت سے پہلے اس کی فرض نماز کے متعلق سوال ہوگا پھر خاوند کے حقوق کے متعلق سوال ہوگا۔

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے ایک فرمان کا مفہوم ھے کہ وہ قوم کھبی فلاح نہیں پا سکتی جس نے اپنے معاملات عورت کے سپرد کر دئیےلیکن  بد قسمتی سے موجودہ پر فتن دور میں گو سب عورتیں تو نہیں لیکن عورتوں کی ایک محدود  تعداد ایسی موجود ھے جن  پر ھر وقت اپنے شوھر پر چودھراھٹ قائم کرنے کا بھوت سوار رھتا ھے ۔ انہیں گھر میں مرد کی حاکمیت قبول نہیں ، گویا گھر میں یہ خود حاکم  اور شوھر کو محکوم بنا کر رکھنا چاھتی ھیں ، یہی وجہ ھے کہ ایسی عورتیں اپنے شوہر کے ساتھ بعض اوقات سخت ترین بد تمیزی کی مرتکب تک ہوجاتی ہیں اور بعض اوقات شوھر کو نیچا دکھانے کے لئے  شوھر کے ناپسندیدہ لوگوں کو اپنے گھر کی راز کی باتیں بتاتی ھیں اور انہیں شوھر پر فوقیت دینا شروع کر دیتی ھیں ۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ بات چیت میں تو ان کے اخلاق گویا آسمان کی بلندیوں  کو چھو رھے ھوتے ھیں لیکن بیچارے شوھر کے لئے یہ ھمیشہ مائی مصیبتے بنی رھتی ھیں ۔ موبائل فون پر دوسروں کے ساتھ تو گھنٹوں گفتگو کر لیتی ہیں لیکن شوھر کے لئے ان کے پاس چند منٹ کا بھی وقت نہیں ھوتا یا پھر اسے یہ  اپنی شان کے خلاف سمجھتی ھیں۔  ان کے نزدیک شوھر کی کوئی اھمیت ھی نہیں ھوتی  ۔ مزے داری کی بات یہ ھے کہ ان تمام باتوں کے باوجود ایسی عورتیں ھمیشہ اپنے آپ کو مظلوم اور شوھر کو ظالم بنا کر پیش کرتی رھتی ھیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ھوتی ھے  ۔ آج کل اکثرگھروں میں جو مسائل پیدا ھو رھے ھیں،  اولادیں خراب ھو رھی ھیں وہ ایسی ھی عورتوں کی اس ھٹ دھرمی کا نتیجہ ھیں ۔ 

ایسی عورتوں کی بھی آج کل کوئی کمی نہیں ھے کہ جو عبادت و ریاضت میں تو دن رات لگی رھتی ھیں لیکن شوھر کی فرمانبرداری اور اُس کے حقوق  کی ادائیگی ان کے نزدیک بہت ھی غیر اھم بلکہ فضول سا کام ھے ۔ رھی شوھر کی خدمت وہ  تو ان کے نزدیک شاید پرانے زمانے کی دقیانوسی باتیں ھیں ۔اس کے باوجود ایسی عورتیں اگر اپنے آپ کو نیک اور پرھیزگار بھی سمجھتی ھیں تو پھر اُن کی عقل پر ماتم ھی کیا جا سکتا ھے ۔ 

یاد رکھیں عورت وہی جنتی ہے جو اپنے شوہر کی عزت  اور اُس کے حقوق کی پاسداری کرتی ہے ۔ بیوی کا شوھر کو سجدہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ تابعداری میں انتہا کردے اور شوھر کی خدمت کو عبادت کا درجہ دے ۔ عورت سے  گھر ضرور  بنتے ہیں لیکن  مردوں سے گھر سنورتے ہیں اگر مرد نہ ہو تو عورت کی گھر میں کوئی وقعت نہیں۔ یقین نہ آئے تو ایسی عورتوں کو پوچھ لیں جن کے خاوند ان کی یہ مصیبتیں جھیل جھیل کر اس دنیا سے کوچ کر چکے ھیں ۔اس لیے مسلمان عورتوں  کو اپنے شوہروں کے ساتھ حسن سلوک اورحسن خلق والا رویہ رکھنا چاہیے تاکہ مرد انہیں دیکھ کر خوش ہوں۔

 اللہ پاک  تمام مسلمان عورتوں کو مردوں سے وفاداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور میاں بیوی دونوں کو اپنے فرائض اور حقوق اچھے طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،

( آمین یا رب العالمین)


Share: