اظہارِ رائے کی آزادی اور اسلامی تعلیمات


اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْـهُـمْ بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ ۚ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِـهٖ ۖ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ (125) 

اپنے رب کے راستے کی طرف دانشمندی اور عمدہ نصیحت سے بلا، اور ان سے پسندیدہ طریقہ سے بحث کر، بے شک تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا ہے، اور ہدایت یافتہ کو بھی خوب جانتا ہے

سورہ النحل


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ اسلام ہمیں آزادی اظہارِ رائے میں کتنی وسعت اور فراخی دیتا ھے اور زبان وبیان میں کس قدر پابندی عائد کرتا ھے؟ آزادی اظہارِ رائے کے لئے اسلامی تعلیمات  کیا ہیں ؟ اور یہ  ہماری کیا رہنمائی کرتی ہیں؟ اس کا جاننا بہت ضروری ھے ۔ 

 آظہارِ رائے کے لئے اسلامی تعلیمات افراط و تفریط کی بجائے میانہ روی پر مشتمل ھیں کہ خلق خدا کو آظہار سے متعلق نہ تو کھلی چھٹی دی گئی ہے اور نہ ھی اس کے منہ پر تالے لگائے گئے ہیں۔ اسلام میں حقوق کے خصائص اورامتیازات بہت وسیع ہیں , سیاسی حقوق، اقتصادی حقوق، معاشرتی حقوق، ثقافتی حقوق ۔ ان حقوق کی تکمیل میں رنگ ، نسل اورزبان کی تقسیم کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتی ۔اسلام نے انسانی حقوق کے دائرہ کو بہت وسعت دی ہے لیکن چونکہ یہاں ہمارا موضوع آزادی اظہارِ رائے ہے لہذا اسی پر بات ھو گی 

 آزادئ اظہارِ رائے سے مراد انسان کو مکمل آزادی کے ساتھ اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کا حق حاصل ھونا ہے۔انسانی فطرت یہ تقاضاکرتی ہے کہ ہرانسان کو یہ مکمل آزادی ھو کہ وہ اپنے من کی بات بغیر کسی رکاوٹ کے کرسکے۔  اگر انسان سے یہ حق صلب کرلیا جائے توانسانی زندگی سے لطف اورمسرت ختم ہوجائے گی ۔ اس لئے انسانی خوشی اورمسرت کو دوبالا کرنے  کے لیے یہاں انسان کو بھرپور آزادی دی گئی ہے۔آزادی اظہارِرائے کامقصد خیرخواہی کو پروان چڑھانا ، باہمی گفتگو اورمشاورت کے ذریعے معاشرے کے مفادات کاتحفظ کرنا اور انسانی قدروں کو پامال ہونے سے بچانا ھے ۔ آزادی اظہارِ رائے کا مقصد  انفرادی اوراجتماعی اعتبار سے انسانی عظمت کو فروغ دینا اور ان تمام امور کو کالعدم قرار دینا ھے جن کی وجہ سے انسانی قدریں پامال ہوتی ہیں۔ معاشرے میں نیکی کو پروان چڑھانا اورمنکرات ،فحش اوردروغ گوئی اوربرائی کے سامنے دیوار کھڑی کرنا ہے ۔

اسلام میں آزادی اظہارِ رائے کے لیے کچھ حدود و قیود قائم کی گئی ہیں تاکہ خالق اورمخلوق کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے لئے اسلامی نظریہ آزادی اظہارِرائے کو پوری گہرائی سے سمجھنا بہت ضروری ہے ۔

اسلام آزادی اظہارِ رائے کے لیے ایسااسلوب اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے جس میں حکیمانہ فکر ،عام فہم الفاظِ نصیحت پر مبنی دعوت اورایسا مباحثہ مقصود ہے جو برابری اوراحترام کی بنیاد پر ہو ۔ جس میں نفرت ، رنجش ، حسد و بغض کا شائبہ تک نہ ہو۔ اسلام ایسا مباحثہ اختیار کرنے کی دعوت دیتا ھے جس میں کسی کی  رائے نہیں بلکہ ٹھوس دلیل غالب ھو ۔  جہاں انفرادی رائے پر مشاورت بھاری ہو۔ جہاں  دلائل کے ٹکرانے پر جھگڑا نہیں بلکہ تطبیق پیدا کی جائے یعنی درمیانی راہ کا انتخاب کیا جائے ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ نحل آیتِ بالا  میں اس کی وضاحت فرمائی ہے :’’تو اپنے  رب کی طرف دعوت دے اچھائی اوربھلائی کے ساتھ اورمباحثہ کے لیے احسن انداز اختیار کرجو بہت ہی اچھا ہو، تیرا رب خوب جانتاہے اس کو جو اس کی راہ بھٹکاہوا ہے‘‘اللہ تعالیٰ حکم فرما رھے ھیں کہ مباحثہ کے دوران بھی بحث کا انداز احسن ہونا چاہیے ۔احسن ایسے اندازِ بیان کوکہتے ہیں کہ مباحثہ کرنے والوں کے دل میں رنجش نہ ہو، زبان میں تلخی نہ ہو ، لہجے میں کڑواہٹ کا شائبہ نہ ہو ۔ احسن کہتے ہیں بیان وزبان شہدکی طرح میٹھا ہو یعنی اعلی سے اعلی انداز گفتگو ایسی گفتگو کے مدمقابل تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے ۔اللہ تعالی نے حضرت موسی  علیہ السلام کو  فرمایا ’’

فَقُوْلَا لَـهٝ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّـعَلَّـهٝ يَتَذَكَّـرُ اَوْ يَخْشٰى (44) 

سو اس سے نرمی سے بات کرو شاید وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے۔

سورہ طہ

ایک مقام پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا

وَلَا تَسْتَوِى الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ اِدْفَـعْ بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّـذِىْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٝ عَدَاوَةٌ كَاَنَّـهٝ وَلِـىٌّ حَـمِـيْـمٌ (34) 

اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، (برائی کا) دفعیہ اس بات سے کیجیے جو اچھی ہو پھر ناگہاں وہ شخص جو تیرے اور اس کے درمیان دشمنی تھی ایسا ہوگا گویا کہ وہ مخلص دوست ہے۔

سورہ فصلت


یعنی اگر اسلوب اچھا اورعمدہ ہوگا تواس کا ثمر نفرت کے خاتمہ اورمحبت کے پروان چڑھنے کی صورت میں ملے گا ۔  اسی لئے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ ایمان کی تکمیل عمدہ اخلاق سے ہے‘‘اسی لئے خاموشی کو صدقہ قرار دیا گیا ہے اورزبان کے عیوب سے پناہ طلب کی گئی ہے۔

اب آئیے اسی حوالے سے تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ کرتے ھیں وہ یہ کہ اسلامی معاشرے میں حضرت انسان کی حفاظت کے لیے اظہارِ رائے پر پابندی بھی عائد کی گئی ہے تاکہ زبان کے  شر اور زیادتی  سے حضرت انسان کو محفوظ رکھاجاسکے ۔حقیقت یہ ھے کہ  زبان وبیان کے ذریعے بدتمیزی اور ھتکِ عزت زیادہ گھمبیر مسائل پیدا کرتی ہے۔اہل عقل کا کہنا ہے کہ تلوار کے گھاؤ بھرجاتے ھیں  لیکن زبان سے لگائے گئے گھاؤ سالوں تک اپنا اثر دکھاتے رھتے ھیں ۔ اسی لئے سورۃ النساء میں فرمانِ ربِ کریم ہے:

{لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ بِالسُّوْٓئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلاَّ مَنْ ظُلِمَ ط } [نساء}

'' برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتے مگر مظلوم کو اجازت ہے۔۔

ایک دوسری جگہ حکمِ ربانی ھے 

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الۡفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۙ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۹﴾

جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بےحیائی یعنی تہمت بدکاری کی خبر پھیلے انکو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہو گا اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

 سورہ النور

اسی طرح سورہ حجرات میں اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کسی کا تمسخر نہیں کرسکتا، کسی کی غیبت نہیں کرسکتا، کسی پر بہتان، الزام تراشی، یاکسی کی ذاتی زندگی کے عیب نہیں ٹٹول سکتا، حتی کہ کسی کو برے نام اور القاب سے نہیں پکار سکتا۔اسلام اعتدال پسند ہے، فساد کے خلاف ہے۔ چنانچہ اسلام نے رائے کی آزادی کے ساتھ یہ حکم بھی دیا کہ انسان رائے دینے میں بے مہار نہیں، بلکہ اس کی اظہار رائے کی آزادی کچھ حدود کی پابند ہے بلکہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ(18

وہ زبان سے کوئی بات نہیں نکالتامگر یہ کہ ایک محافظ فرشتہ اس کے پاس تیار بیٹھاہوتا ہے۔

سورہ ق

۔اسلام نے اچھی بات کو پروان چڑھانے کی ترغیب دلائی ھے  اور بری بات کرنے اور اسے پھیلانے سے منع کیا ھے ۔ گفتگو میں توازن قائم کرنے کرنے کے لیے دلیل کے رجحان کو پروان چڑھایا تاکہ کوئی معاشرے میں اچھے طریقے اورسلیقے سے فضولیات کو پروان نہ چڑھاسکے ۔اچھے اخلاق کی آڑ میں منفی خیالات کی ترویج نہ کرسکے ایسی لادینیت اورفضولیات کوروکنے کے لیے دلیل کو لازم قرار دیا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ 

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُـوٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًا بِجَهَالَـةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْـتُـمْ نَادِمِيْنَ (6) 

اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو۔

سورہ الحجرات

 ’’ اگرتمہارے پاس کوئی فاسق خبرلے کرآئے توپہلے تصدیق کرلو‘‘یعنی انفرادی اوراجتماعی طورپر منبر یا عوامی سٹیج پر ،پارلیمنٹ یا اجتماع میں سوشل میڈیا یا ٹی وی پر کسی کو  جھوٹی خبر دینے کی آجازت نہیں ھے ۔   بلکہ کوئی سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے آگے شئیر کرنا بھی منع ھے ۔ مگربدقسمتی  سے وطنِ عزیز کے اندر سوشل میڈیا ہفوات وخبائث کا پلیٹ فارم ہے۔اس کے مثبت اثرات کم منفی زیادہ ہیں ۔جھوٹی خبریں ،جھوٹے بیانات چوبیس گھنٹے گردش کرتے رہتے ہیں ۔اپوزیشن اورحکومت کے ارکان ایک دوسرے پر لعن طعن کرتے رہتے ہیں افسوس ناک امر یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے عظیم فورم پرجہاں لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے وہاں ارکان پارلیمنٹ الزامات کی بوچھاڑکررہے ہوتے ہیں۔  وہاں شیم شیم ،لعنت لعنت کی صدائیں بلندہورہی ہوتی ہیں ۔ وطن عزیزکے سب سے بڑے مشاورتی فورم پر اس طرح کی گفتگو ہماری اجتماعی بے حسی کی نشاندہی کرتی ہے۔

آزادئ آظہار رائے کا حق انسان کے بنیادی حقوق میں سے ایک ہے جسے آئین پاکستان میں بھی تحفظ فراھم کیا گیا ھے۔ اظہارِ رائے کی آزادی کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ آئینِ پاکستان ذرائع ابلالغ کو بھی اظہار رائے کی آزادی فراہم کرتا ہے تاھم آزادی رائے کے اظہار کا حق اس بات کی اجازت بھی نہیں دیتا کہ آپ کسی کی تضحیک کریں ، اسے مذاق کا نشانہ بنائیں ، خاص طور پر معاشرے کے کمزور طبقوں کے تناظر میں اس امر کی حقیقت بڑھ جاتی ہے کیونکہ ایسی کسی بھی صورت میں ملک خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے اور باہمی تعصبات تشدد کی راہ اختیار کر سکتے ہیں۔ اسی لئے ایسی رائے جس سے تشدد پیدا ہونے کا خطرہ ہو اور ریاست نان اسٹیٹ ایکٹرز کے نشانے پر آجائے کو آزادئ آظہار رائے کے آرٹیکل کی حد میں نہیں رکھا جا سکتا ۔آزادی رائے کا اظہار انسانیت کی تذلیل کی اجازت نہیں دے سکتا ۔باالفا ظ دیگر یہ بہت ضروری ہے کہ ریاست آزادی اظہارِ رائے کے قانون کو صحیح معنوں میں نافذالعمل کرے۔

ایک سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ آزادی اظہار رائے کے نام پر اگر کوئی شخص آپ کو بدترین گالیاں دیتا ہے یا بدتہذیبی کرتا ہے،  تو پھر آپ کیا کریں گے ؟ یقیناََ ھر کوئی ایسے شخص کی تواضع لاتوں اور گھونسوں سے ہی کرے گا، لیکن اگر وہ شیطان معصوم شکل بنا کر کہے کہ میں تو آزادی اظہار رائے کا علمبردار ہوں اور آپ کا میری بدزبانی اور گالم گلوچ پر مجھے مارنا آزادی اظہار رائے کے خلاف اور اس پر پابندی لگانے کے مترادف ہے، یہ گالم گلوچ اور بدزبانی تو آزادی اظہار رائے کے تحت میرا "بنیادی حق" بنتا ہے، تو کیا اس کے اس "بنیادی حق" کو تسلیم  کیا جا سکتا ھے ، یقیناََ نہیں  کیونکہ ہر معاشرے میں کچھ بنیادی اخلاقیات ہوتی ہیں جن سے تجاوز کو کسی بھی معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا،

اب آئیے  ممالکِ کفریہ  کی نام نہاد آزادی اظہار رائے کی طرف  ۔ آزادی اظہار رائے  یورپ کا وہ دل فریب نعرہ ہے جس کے تحت تمام تر اخلاقی حدود و قیود کو پامال کرتے ہوئے اسلام اور رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے متعلق کھل کر گستاخیاں کی جاتی ہیں،  استہزاء اڑایا جاتا ہے، قابلِ اعتراض کارٹون شائع کیے جاتے ھیں ۔ قرآن پاک جیسی مقدس کتاب کو سرعام آگ لگا کر جلایا جاتا ھے ۔ مہذب قوم ہونے کے دعویداروں کی جانب سے انتہائی گھٹیا، بازاری، رکیک اور خسیس زبان کا استعمال کیا جاتا ہے اور اس غیر اخلاقی فعل کو نہ صرف جائز قرار دیا جاتا ہے بلکہ اسے اپنا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے اور یہ صرف آج کی بات نہیں صدیوں سے یورپی مصنفین کی کتب اسلام کے استہزاء اور رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے خلاف دشنام طرازی سے بھری پڑی ہیں جبکہ دوسری طرف دیکھا جائے تو اس آزادئ اظہار رائے کی حثیت یہ ہے کہ یورپ میں ہولوکاسٹ نامی مبالغہ آرائی پر تنقید تو درکنار اس کے متعلق بات تک کرنا سختی سے منع ہے، نہ صرف منع ہے بلکہ اس کی خلاف ورزی پر باقاعدہ قانون سازی کی گئی ہے جس کے تحت اس کو تحریر یا تقریر میں لانا  قانوناََ قابل سزا جرم ہے اور یہ قانون فریڈم آف سپیچ کے سب سے بڑے علمبردار امریکہ و برطانیہ میں بھی موجود ہے، (ہولوکاسٹ ایک منظم، سرکاری سرپرستی میں ہونے والا ظلم اور قتلِ عام تھا جس میں نازی جرمن حکومت اور اس کے اتحادیوں اور حلیفوں کی جانب سے چھ ملین یورپی یہودیوں کو ہلاک کیا گیا تھا)اس قانون سے نام نہاد آزادی اظہار رائے کو کوئی گزند نہیں پہنچتا، البتہ اگر رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی توہین اور گستاخی سے روکا جائے تو ان کا نام نہاد آزادی اظہار رائے سخت خطرے میں پڑ جاتا ہے، 

سامراجی ملکوں کی نام نہاد آزادی اظہار رائے کی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے ہر ایک فورم پر محض اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ اور رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے خلاف گستاخانہ اور توہین آمیز گفتگو کا دوسرا نام فریڈم آف سپیچ  ہے، 

اور ہر عاقل شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ اس دل فریب نعرے کی آڑ میں اربوں مسلمانوں کے دلی جذبات کو ٹھیس پہنچانا اور انہیں مشتعل کرنا آزادی اظہار رائے نہیں ھو سکتا  بلکہ یہ بدترین تعصب کے زمرے میں آتا ہے جسے کسی بھی مہذب معاشرے میں تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا،  فریڈم آف سپیچ کی آڑ میں ہیٹ سپیچ بدترین دہشتگردی ہے، جس کا عالمی سطح پر سدباب انتہائی ضروری ہے۔"

Share: