میرا ماضی - تیسری قسط

 

آٹھویں کلاس 

ساتویں کلاس سے پاس ھو کر ھم لوگ آٹھویں کلاس میں آ گئے۔  پہلی اور دوسری پوزیشنوں  پر بدستور میں اور یوسف ھی تھے اور اس سال بھی ھمیں کئی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں ۔ ایک تبدیلی تو یہ دیکھنے میں آئی کہ آٹھویں کلاس میں بچے اپنے فیوچر کے پروگرام کے متعلق  ایک دوسرے سے بہت زیادہ ڈسکس کیا کرتے تھے کوئی کہتا کہ میں ڈاکٹر/انجنئر بنوں گا ۔ کوئی کہتا کہ میں فوج/ پولیس  میں جاؤں  گا ۔ کوئی ٹیچنگ کے شعبہ کو پسند کر رھا ھوتا تھا اس طرح کوئی دوسرے شعبوں میں جانے کو پسند کرتا تھا ۔ ھر بچہ اپنی اپنی پسند کے حق میں زبردست دلائل رکھتا تھا۔ بعض اوقات تو مقابلے کی سی کیفیت پیدا ھو جاتی تھی بلکہ بعض اوقات ھلکی پھلکی لڑائی بھی ھو جاتی تھی ۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے شاید یہاں سے ھی یہ لڑکے سیدھے ڈاکٹر / انجنئیر وغیرہ بننے جا رھے ھیں جبکہ حقیقت میں بات  “ھنوز دِلّی دُور است”  والی تھی 


آٹھویں جماعت میں طلباء کی تعداد

جب مڈل  سکول میں ھماری چھٹی کلاس شروع ھوئی تھی تو ھماری کلاس کے طلباء کی تعداد اکیاسی تھی اور جب ھم آٹھویں کلاس شروع کر رھے تھے تو طلباء کی تعداد اکیس تھی دو سال کے عرصے میں میں اتنے لڑکے کیوں کم ھوئے؟ ۔ یہ لڑکے کہاں گئے؟ تو جواب صاف ظاھر ھے کہ بیشتر لڑکے مختلف وجوہ کی بنا پر سکول چھوڑ گئے تھے اور ساتویں جماعت میں کافی بچے فیل ھونے کی وجہ سے اس سال آٹھویں جماعت میں نہیں پہنچ سکے تھے 


فیس میں آضافہ

آٹھویں کلاس میں فیس میں ایک روپے کا آضافہ ھو جاتا تھا  اور فیس تین روپے چودہ آنے ھو جاتی تھی جو والدین پر کافی شاق گزرتی تھی لیکن مڈل تک صرف فیس کی وجہ سے کسی بچے کو سکول کو خیرباد کہتے نہیں دیکھا بلکہ والدین کسی نہ کسی طرح فیس کا انتظام کرتے ھی تھے لیکن چونکہ ھائی سکول میں فیس آٹھ یا نو روپے ھو جاتی تھی اور دیگر آخراجات بھی بڑھ جاتے تھے اس لئے کئی والدیں نویں جماعت میں بچوں کو نہیں بیجھ پاتے تھے۔  یہ بھی عام روٹین تھی کہ اکثر والدیں بچے کے فیل ھونے کی صورت میں بچے کو سکول سے ھٹا لیتے تھے ۔ کچھ لڑکے فیل ھونے کی وجہ سے دلبرداشتہ ھو کر خود ھی اگے پڑھنے سے انکار کر دیتے تھے آٹھویں جماعت کا امتحان  بورڈ کا ھوتا تھا اور اس میں کافی بچے فیل ھوتے تھے 


آٹھویں کلاس اور ماسٹر مولوی غلام رسول صاحب

آٹھویں کلاس میں ماسٹر مولوی غلام رسول صاحب ھمارے کلاس انچارج  تھے بہت ھی سادہ اور نفیس قسم کے انسان تھے بہت ھی محنتی اُستاد تھے ۔ ایک ایک بچے پر پوری توجہ سے محنت کرتے تھے ۔ وہ پڑھائی  کے دوران صرف پڑھائی ھی کرواتے تھے ۔ ادھر اُدھر کی باتوں میں وقت ضائع کرنے کو بہت بُرا سمجھتے  تھے۔   اُن کی اہنے پیشہ سے لگن کا یہ حال تھا کہ بورڈ کے امتحان سے دو ڈھائی ماہ پہلے آٹھویں جماعت کے بچوں کو مع ان کے بسترے سکول میں ھی بلا لیتے تھے اور خود بھی اپنا بسترا لے کر سکول میں ھی قیام کرتے تھے۔  کھانے پینے کا انتظام سکول میں ھی ھوتا تھا جس کے لئے سامان پہلے ھی جمع کر لیا جاتا تھا۔ بچوں کو خوب محنت کرواتے تھے اور پانچ وقت کی نمازیں پابندی سے پڑھواتے  تھے اور یہ سب کچھ بلا معاوضہ کرتے تھے ۔ اُن کے سبجیکٹس میں کوئی شازونازر بچہ ھی فیل ھوتا تھا ۔ بچوں کو مار پیٹ کے سخت خلاف تھے۔؟ بچے بھی اُن کا انتہائی احترام کرتے  تھے ۔ اسقدر محنتی اور مخلص اُستاد میں نے اپنی زندگی میں کوئی اور نہیں دیکھا ۔ 


فیس معافی کی درخواستیں اور مجھے آدھی فیس میں رعایت

آٹھویں کلاس میں فیس میں ایک روپے کا آضافہ ھو جاتا تھا  اور فیس تین روپے چودہ آنے ھو جاتی تھی ۔ جن بچوں کی پوری فیس معاف ھو جاتی تھی انہیں چودہ آنے ھی ادا کرنے ہڑتے  تھے اور جن بچوں کو فیس میں آدھی رعایت ملتی تھی انہیں دو روپے چھ آنے ادا کرنے ھوتے تھے 

حسبِ ترتیب فیس معافی کی درخواستوں کا پراسیس شروع ھو چکا تھا اور اتفاق سے اُس وقت بھی میری دو ماہ کی فیس واجب الاداء تھی جو چند دنوں کے بعد تین ماہ کی ھونے والی تھی لیکن میں نے یہ سوچ کر کہ فیس معاف ھوتی تو ھے نہیں خوامخواہ میں پریشانی ھوتی ھے ، فیس معافی کی درخواست جمع نہیں کروائی تھی 

ماسٹر مولوی غلام رسول صاحب بہت ھی ھمدرد قسم کے اُستاد تھے اُنہوں نے جب درخواستیں دیکھیں تو میری درخواست موجود نہیں تھی ۔ اُنہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ آپ کی دو ماہ کی فیس نہیں آئی اور اب مہینہ بھی ختم ھونے والا ھے پھر یہ تین ماہ کی ھو جائے گی تو آپ کو اور زیادہ مشکل ھو جائے گی ۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے کچھ وقت اور دیدیں میں ان شاء اللہ ادا کر دوں گا ۔ پھر خود ھی فرمانے لگے کہ آپ نے فیس معافی کی درخواست کیوں جمع نہیں کروائی تو میں نے عرض کیا کہ میں پہلے دو مرتبہ یہ تجربہ کر چکا ھوں لیکن کچھ حاصل نہیں ھوا۔  تو اُنہوں نے فرمایا کہ آپ درخواست جمع کروائیں میں ان شاءاللہ پوری کوشش کروں گا کہ آپ کی فیس معاف ھو جائے۔ میں نے اُن کے کہنے پر درخواست جمع کروا دی ۔ اُنہوں نے بہت مضبوط ریمارکس کے ساتھ میری پوری  فیس معاف کرنے کی سفارش کر دی 

مولوی غلام رسول صاحب جب فیس معافی کی درخواستیں لے کر جب ھیڈ ماسٹر صاحب کے پاس گئے تو اُنہیں بتایا گیا کہ کسی نئے بچے کی فیس معافی کی درخواست قبول نہیں کی جائے گی بلکہ اُنہیں بچوں کی فیس معافی  پر غور ھو گا جن کی  پیچھلی جماعتوں  میں فیس معاف کی گئی تھی۔  اب یوسف  کی چونکہ چھٹی جماعت  سے پوری فیس معاف تھی اس لئے اُس کی اب بھی پوری فیس معاف ھو گئی ۔ بہرحال مولوی صاحب کو کہا گیا کہ جن نئے بچوں نے فیس معافی کی درخواستیں دی ھیں وہ لسٹ میں شامل نہ کریں 

مولوی صاحب نے مجھے بلایا اور پوچھا کی گذشتہ کلاسوں میں آپ کی فیس معاف کیوں نہیں کی گئی تھی ۔ میں نے وجہ  اُنہیں بتا دی تو اُنہوں نے صورت حال سے مجھے اگاہ کیا لیکن ساتھ ھی یہ بھی فرمایا میں ابھی بھی آپ کے لئے ایک بھرپور  کوشش کروں گا 

انہوں نے ھیڈ ماسٹر صاحب سے جا کر میرے لئے بات کی کہ یہ پوزیشن ھولڈر بچہ ھے ۔ فیس کی مجبوری  اس کو ھے ۔ اس کا حق بھی زیادہ بنتا ھے ۔ ھیڈ ماسٹر صاحب ھمیں انگلش پڑھاتے تھے ، میری کارکردگی سے واقف تھے ، اس لئے اُنہوں نے مولوی غلام رسول صاحب کی سفارش پر میری آدھی فیس معاف کرنے ہر آمادگی  ظاھر کر دی ۔ 

مولوی صاحب نے مجھے بلا کر بتایا کہ اگر آپ آدھی فیس معافی ہر راضی ھیں،  تو اس وقت ھیڈ ماسٹر صاحب اس پر تیار ھیں اور اگر آپ کا مطالبہ پوری فیس کی معافی کا ھی ھے تو میں اپنی کوشش جاری رکھتا ھوں،  لیکن یہ بھی خدشہ  ھے ، کہ کہیں ھم آدھی سے بھی نہ جاتے رھیں ۔ میں نے سوچا کہ پہلی جماعتوں میں تو مجھے آدھی کی بھی سہولت نہیں ملی تھی اور اگر اب یہ مل رھی ھے تو اسے غنیمت سمجھنا چاھیے ۔ میں نے اُستاد صاحب کو بھی کہہ دیا کہ چلو ٹھیک ھے آپ آدھی ھی معاف کروا دیں اور اُن کی سفارش پر میری آدھی فیس معاف ھوگئی تھی 

نیا مہینہ شروع ھو چکا تھا اور اتفاق سے والد صاحب بھی آئے ھوئے تھے اور میری تین ماہ کی فیسیں جمع ھونی تھیں  اور میں روزانہ گھر والوں  سے فیس کا مطالبہ کر رھا تھا  ۔ فیس معافی کی درخواست کا اس لئے میں نے گھر پر بتایا نہیں تھا کہ اگر کچھ ھو گیا تو پھر بتا دوں گا۔ جس دن فیس معافی کا مجھے بتایا گیا تھا  اُس دن صبح بھی  سکول آنے سے پہلے میں فیس کے لئے بہت روتا رھا تھا ۔ والد صاحب میری پریشانی  کو دیکھ رھے تھے،  لیکن بیچارے بے بس ھونے کی وجہ سے خاموش تھے ۔ جب میں سکول سے واپس گھر گیا تو والد صاحب نے مجھے بہت  پیار سے اپنے پاس بٹھا لیا اور فرمانے لگے کہ دیکھو بیٹا ! صبح تمہیں روتے ھوئے  دیکھ کر میرا دل بہت ھی رنجیدہ ھوا ھے ۔ آپ کی تین ماہ کی فیس ساڑھے گیارہ روپے بنتی ھے ۔ جرمانے ڈال کر بارہ روپے سے بھی اُوپر ھو جائے گی لیکن بدقسمتی سے اتنے پیسوں کا انتظام فی الحال ممکن نہیں ھو سکتا ، البتہ یہ ھو سکتا ھے کہ آپ فی الحال دو ماہ کی فیس جو جرمانے کے علاوہ سات روپے بارہ آنے بنتی ھے ، کل جمع کروا دیں اور تیسرے ماہ کی فیس اگلے مہینے کی فیس کے ساتھ جمع کروا دینا ۔ میں نے والد صاحب سے عرض کیا کہ ابا جی ! الحمدُ للہ میری آدھی فیس معاف ھو گئی ھے اور اب تین ماہ کی فیس جرمانے کے علاوہ سات روپے دو آنے بنے گی اور میں کوشش کروں  گا کہ جرمانہ بھی معاف ھو جائے ۔ یہ سن کر والد صاحب بے حد خوش ھوئے اور مجھے تین ماہ کی فیس کے پیسے دے دئے اور اس طرح اگلے دن فیس جمع ھو گئی اور میری تحریری درخواست پر میرے جرمانے بھی میرے اُستاد کی سفارش پر معاف کر دئے گئے


والدہ صاحبہ کی بیماری اور میئوھسپتال میں داخلہ 

گرمیوں کی چھٹیاں ھوئی ھی تھیں کہ والدہ صاحبہ کو سانس کی شدید تکلیف شروع ھو گئی ۔ پہلے گوجرانوالہ سے علاج کروایا مگر کوئی  فائدہ نہ ھوا ۔ پھر بھائی جان اُنہیں لاھور لے گئے اور وھاں میئو ھسپتال میں داخل کروا دیا گیا ۔ سلیم ساتھ ھی چلا گیا تھا ۔ گھر ہر میں اکیلا ھی رہ گیا تھا 
ھمارے ھمسائی جنہیں ھم مامی پاڈو کہتے تھے بہت آچھی  عورت تھی ۔ وہ میرے کھانے کا انتظام کرتی تھی۔  رات کو میرے کزن ایوب مرحوم میرے پاس آکر سو جاتے  تھے
لیکن میں پھر بھی کافی اُداس رھتا تھا
والدہ صاحبہ کی طرف سے بھی ٹینشن رھتی تھی  
گاؤں سے کوئی نہ کوئی والدہ صاحبہ کا پتہ کرنے لوگ جاتے رھتے تھے ۔ میں بھی گھر کو تالا لگا کر ایک جانے والے کے ساتھ لاھور چلا گیا ۔ وھاں روزانہ والدہ صاحبہ کی ملاقات کے لئے ھم لوگ ھسپتال جایا کرتے تھے ۔ اُن دنوں والد صاحب کوپڑ  روڈ پر  ایک کوٹھی میں رھتے تھے یہ تقریباً دو ایکڑ پر محیط کوٹھی تھی۔  اُس کے بیک سائیڈ ہر سرونٹ کورٹرز بنے ھوئے تھے ان  ھی میں ایک کوارٹر والد صاحب نے کسی واسطے سے کرائے پر لیا ھوا تھا ۔ گرمیوں میں کوٹھی کے مالک بچوں سمیت مری چلے جاتے تھے اور تمام گرمیاں وھیں گزارتے تھے تمام کوٹھی خالی ھوتی تھی۔  بس ایک دو ملازم وھاں ھوتا تھا اس لئے ھمارے پاس چاھے کتنے ھی مہمان آجاتے، ھمیں انہیں ٹھرانے میں کوئی مشکل  نہیں ھوتی تھی
کوٹھی میں آناروں کے کافی درخت لگے ھوئے تھے ۔ ھمیں استعمال کرنے کی پوری اجازت تھی،  اس لئے ھم ان سے خوب لطف اندوز ھوتے تھے اور مہمانوں  کو بھی خوب کھلاتے تھے 
کوٹھی میں روزانہ آخبار بھی  آتا تھا ۔ وہ بھی ھمیں مل جاتا تھا ۔ وہ بھی اس زمانے کے اعتبار سے بڑی سہولت تھی ۔  ھم  پڑھ کر واپس کر دیتے تھے  

بھائی جان ابھی تک جاب پر نہیں آئے تھے اس لئے والد صاحب کو مالی طور ہر بہت پریشانی تھی 
ڈھائی تین ماہ کے بعد والدہ صاحبہ کو ھسپتال  سے ڈسچارج کر دیا گیا ۔ ڈسچارج کے چند دن کے بعد والدہ صاحبہ کو پھر تکلیف ھو گئی تو کسی کے بتانے پر ھمدرد دوا خانہ سے حکیم سعید کا علاج شروع کیا گیا جس سے الحمڈ للہ آفاقہ ھوا ۔ میری چھٹیاں ختم ھو گئی تھیں اس لئے مجھے گاؤں جانا پڑا۔ والدہ صاحبہ کو میری طرف سے فکر رھتی تھی۔  اس لئے کچھ دنوں کے بعد والدہ صاحبہ بھی ایک ماہ کی دوائی لے کر گاؤں واپس آگئی تھیں 
اور پھر کئی ماہ تک ھمدرد دواخانہ کا علاج چلتا رھا اور الحمد للہ صحتیاب ھو گئیں 
 

ھیڈ ماسٹر صاحب کا تبادلہ اور نئے ھیڈ ماسٹر کی آمد

سر عبدالعزیز صاحب ھمارے ھیڈ ماسٹر صاحب تھے اور وہ صرف آٹھویں کلاس کو انگلش پڑھایا کرتے تھے۔ لیکن پڑھانے کے معاملے میں اتنے آچھے نہیں تھے  کلاس میں پابندی سے نہیں آتے تھے ۔ سال کے آٹھ نو ماہ گذر چکے تھے لیکن اُنہوں نے ھمیں کتاب کے علاوہ شاید ایک دو مضمون اور ایک دو درخواستیں ھی کروائی ھوئی تھیں ۔ بچوں کی خوش قسمتی کہ اُن کا تبادلہ ھو گیا اور ان کی جگہ نئے ھیڈ ماسٹر سر انور صاحب آ گئے ۔یہ بہت ھی لائق اور محنتی اُستاد تھے  ایک دو دن کے بعد وہ ھماری کلاس میں آئے اور تعارف کے بعد یہ سوال کیا کہ تم میں انگلش میں سب سے  زیادہ ھوشیار کونسا لڑکا ھے ؟ تمام بچوں نے بیک وقت میری طرف اشارہ کیا۔ میں گھبرا گیا کہ یہ اب تمام سوال مجھ ھی سے کریں گے اُنہوں نے مجھے کھڑا کیا اور پوچھا کہ سابقہ ھیڈ ماسٹر صاحب نے اب تک آپ لوگوں کو کیا کیا پڑھا دیا ھے ؟ میں نے جو پڑھایا گیا تھا وہ سب بتا دیا۔  پھر  اُنہوں نے کلاس کے دیگر لڑکوں کو بھی پوچھا انہوں نے بھی میری بات کی تصدیق کر دی تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ امتحان سر پر ھے اور سلیبس کے مطابق آپ لوگوں کو جو کچھ پڑھایا گیا ھے وہ چار ہانچ  ماہ کا سلیبس بھی نہیں بنتا ۔ پھر کہنے لگے کہ میں جہاں  سے آرھا ھوں وھاں میں نے تمام سلیبس مکمل کروا کر اب دھرائی شروع کروائی ھوئی ھے ۔ لیکن آپ لوگوں کا تو حال بہت ھی پتلا ھے ۔ یہ سلیبس کیونکر مکمل ھو سکے گا۔ کافی دیر بیٹھے سوچتے رھے پھر کہنے لگے کہ شاید میں یہ کلاس نہیں لے سکوں گا کیونکہ اب وقت اتنا زیادہ نہیں رہ گیا کہ امتحان کی آچھی طرح تیاری ھو سکے اور پھر وہ کلاس سے چلے گئے 

دو تین دن کے بعد وہ پھر کلاس میں تشریف لائے اور کہنے لگے کہ کوئی بھی انگلش کا اُستاد اس کلاس کی ذمہ داری  لینے کو تیار نہیں ھے ۔ سو یہ کلاس مجھے ھی لینی ہڑے گی لیکن دیکھو!  کام بہت زیادہ ھے اور وقت تھوڑا ھے لیکن ھم ان شاءاللہ اسے مکمل کرنے کی پوری کوشش کریں گے بشرطیکہ تم میرے سے یہ وعدہ کرو کہ تم میرے ساتھ تعاون کرو گے اور روزانہ کا کام پوری ذمہ داری سے مکمل کیا کرو گے ۔ لڑکوں نے وعدہ کر لیا ۔ پھر انہوں نے واقعی بہت زیادہ محنت کروائی اور بچوں کو تمام سلیبس آچھے طریقہ سے مکمل کروا دیا ۔ گرائمر اور خصوصاً ٹینسز وغیرہ بہت ھی محنت سے کروائے جو ھمیں بعد میں بھی ھمیشہ ھی  یاد رھے ۔ فروری میں امتحان ھونے تھے اور اُنہوں نے جنوری میں سلیبس مکمل کروا دیا تھا اور پھر دھرائی شروع کروا دی تھی ۔ ملک میں ھنگامے ھو رھے تھے اس لئے امتحان فروری کی بجائے اپریل تک ملتوی ھو گئے تھے  اس طرح بچوں کو اور بھی تیاری کا موقعہ مل گیا تھا ۔ اپریل میں امتحان ھوا اور امتحان میں انگلش کا رزلٹ بھی بہت آچھا رھا 


مڈل کا فائنل امتحان اور رزلٹ 

آٹھویں کلاس میں ھم اکیس بچے تھے جن میں سے چار بچوں کا سکول والوں نے داخلہ ھی نہیں بیجھا تھا ۔ سترہ بچے امتحان میں شریک ھوئے تھے ۔  بورڈ کا یہ امتحان  عموماً  فروری میں ھوا کرتا تھا لیکن اُس سال یہ امتحان چار اہریل سے شروع ھوا تھا اور غالباً بائیس اپریل  کو ختم ھوا تھا ۔   امتحانی سنٹر گوجرانوالہ شہر میں ھی ھوتا تھا اور سکول کے انتظام کے مطابق بچوں  کو امتحان کے دنوں میں گوجرانوالہ ھی میں کرائے پر روم لے کر ایک اُستاد کی نگرانی میں رکھا جاتا تھا 

ماسٹر غلام رسول صاحب چونکہ کلاس انچارج تھے اس لئے روم کرائے پر لینے کی ذمہ داری بھی انہی کی تھی۔ وہ نہایت کفایت شعار اُستاد تھے۔ اُن کی یہی کوشش ھوتی تھی کہ بچوں کے والدین پر کم سے کم مالی بوجھ پڑے ۔  انہوں نے تھوڑے سے پیسے دے کر ایک  مسجد کا روم  حاصل کر لیا تھا ۔ جو روم لیا تھا وہ درآصل ایک  مسجد کے ساتھ منسلک کمرہ تھا اور نسبتاً چھوٹا سا حجرہ تھا  لیکن چونکہ وہ مسجد اُن دنوں آباد نہیں تھی تاھم پانی وغیرہ کا انتظام موجود تھا۔  اس لئے پوری مسجد ھمارے استعمال  میں ھی رھتی تھی ۔ بچے مسجد میں ھی رھتے تھے ۔ رات کو بھی بچے مسجد میں ھی سوتے تھے اور روم صرف سامان رکھنے کے لئے استعمال ھوتا تھا ۔ مولوی غلام رسول صاحب کی امامت میں ہانچوں وقت باقاعدگی سے آذان اور جماعت ھوتی تھی اور بچوں کو باوضو اور اعتکاف کی نیت کے ساتھ رھنے کی تاکید بھی کی جاتی تھی تاکہ مسجد کا احترام برقرار رھے ۔ مسجد کے سامنے ھی ایک قبرستان تھا۔  کچھ بچے وھاں الگ تھلگ بیٹھ کر پُرسکون ماحول میں پیپرز کی تیاری کیا کرتے تھے 

ماسٹر مولوی غلام رسول صاحب ھمارے ساتھ امتحان کے تمام دن  موجود رھتے تھے اس کے علاوہ جس اُستاد کا پیپر ھوتا تھا وہ بھی اگر مناسب سمجھتا تو آ کر کچھ تیاری کرواتا تھا البتہ ھیڈ ماسٹر صاحب بہت ذمہ داری سے روزانہ آ کر پیپر کے بارے میں معلومات لیا کرتے تھے ۔اس  طرح یہ امتحان پہت خوش آسلوبی سے تکمیل تک پہنچ گیا تھا 

 ھمارے گاؤں میں یہ بھی ایک روایت چلی  آ رھی تھی کہ مڈل کے امتحان کے خاتمہ پر جب بچے واپس گاؤں آتے تھے تو دوسری کلاسوں  کے بچے ان کا استقبال کیا کرتے تھے ۔ اُن کا سامان اُٹھا کر انہیں گھر تک پہنچا  کر آتے تھے۔ ھم تقریباً تین ھفتے گوجرانوالہ رہ کر واپس گاؤں آگئے تھے اور اب رزلٹ کا انتظار شروع ھو گیا تھا

  اُس سال امتحان لیٹ ھونے کی وجہ سے اور ملکی حالات کی خرابی کی وجہ سے رزلٹ بھی بہت ھی لیٹ آیا تھا۔ رزلٹ  ستمبر یا شاید اکتوبر کے مہینے  میں آیا تھا ۔ دوسرے بچوں کی طرح میں بھی رزلٹ کا انتظار کر رھا تھا کہ ایک دن لشکری پور سے میرا دوست یوسف میرے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے پتہ چلا  ھے کہ رزلٹ آگیا ھے ۔ چلو سکول جا کر معلوم کر لیتے ھیں۔  میں اور یوسف دھڑکتے دل کے ساتھ گوندلانوالہ سکول گئے تو وھاں اور بھی لڑکے رزلٹ کا پتہ کرنے آئے ھوئے تھے۔  رزلٹ کا پتہ کیا تو معلوم  ھوا کہ کلاس میں سے دس بچے فیل ھو گئے ھیں اور پاس ھونے والوں  میں یوسف پہلے نمبر پر اور میں دوسرے نمبر پر تھا ۔ میں تو اپنے گاؤں سے اکیلا ھی پاس ھوا تھا  تاھم  لشکری پور سے یوسف کے علاوہ  ایک اور لڑکا تھرڈ ڈویژن میں پاس  ھوا تھا ۔ 

اس زمانہ میں میٹرک کی طرح مڈل  کے امتحان کے نتیجہ کی بھی بہت زیادہ دھوم مچتی تھی ۔ گاؤں میں جہاں بھی چار بندے بیٹھے ھوتے تھے وھاں یہی بات چل رھی ھوتی تھی کہ فلاں  پاس ھو گیا ھے اور فلاں فیل ۔ پاس ھونے والے کی تعریفیں ھو رھی ھوتی تھیں اور ناکام ھونے والوں  کو نالائق کہا جا رھا ھوتا تھا ۔ پاس ھونے والے لڑکے کے گھر مبارکباد دینے والوں کا بھی تانتا بندھا رھتا تھا۔  بہرحال پاس ھونے والے بچوں کے لئے اگلا مرحلہ نویں کلاس میں داخلے کا ھوتا تھا ۔ ھائی سکول صرف گوجرانوالہ میں تھا اس لئے نویں کلاس کے لئے بچوں کو وھاں ھی جانا پڑتا تھا 


جاری ھے




 

Share: